Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 261

سورة البقرة

مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾

The example of those who spend their wealth in the way of Allah is like a seed [of grain] which grows seven spikes; in each spike is a hundred grains. And Allah multiplies [His reward] for whom He wills. And Allah is all-Encompassing and Knowing.

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالٰی جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالٰی کشادگی والا اور علم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Rewards of Spending in Allah's Cause Allah says; مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّيَةُ حَبَّةٍ ... The parable of those who spend their wealth in the way of Allah, is that of a grain (of corn); it grows seven ears, and each ear has a hundred grains. This is a parable that Allah made of the multiplication of rewards for those who spend in His cause, seeking His pleasure. Allah multiplies the good deed ten to seven hundred times. Allah said, مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ (The parable of those who spend their wealth in the way of Allah...), Sa`id bin Jubayr commented, "Meaning spending in Allah's obedience." Makhul said that the Ayah means, "Spending on Jihad, on horse stalls, weapons and so forth." The parable in the Ayah is more impressive on the heart than merely mentioning the number seven hundred. This Ayah indicates that Allah `grows' the good deeds for its doers, just as He grows the plant for whoever sows it in fertile land. The Sunnah also mentions that the deeds are multiplied up to seven hundred folds. For instance, Imam Ahmad recorded that Abu Mas`ud said that a man once gave away a camel, with its bridle on, in the cause of Allah and the Messenger of Allah said, لَتَأْتِيَنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِسَبْعِمِايَةِ نَاقَةٍ مَخْطُومَة On the Day of Resurrection, you will have seven hundred camels with their bridles. Muslim and An-Nasa'i also recorded this Hadith, and Muslim's narration reads, "A man brought a camel with its bridle on and said, `O Messenger of Allah! This is in the sake of Allah.' The Messenger said, لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعُمِايَةِ نَاقَة You will earn seven hundred camels as reward for it on the Day of Resurrection. Another Hadith: Ahmad recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, كُلُّ عَمَلِ ابْنِ ادَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشَرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِمِايَةِ ضِعْفٍ إِلى مَا شَاءَ اللهُ Every good deed that the son of Adam performs will be multiplied ten folds, to seven hundred folds, to many other folds, to as much as Allah wills. يَقُولُ اللهُ إِلاَّ الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ يَدَعُ طَعَامَهُ وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي Allah said, "Except the fast, for it is for Me and I will reward for it. One abandons his food and desire in My sake." وَلِلصَّايِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ The fasting person has two times of happiness: when he breaks his fast and when he meets his Lord. وَلَخَلُوفُ فَمِ الصَّايِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ Verily, the odor that comes from the mouth of whoever fasts is more pure to Allah than the scent of musk. الصَّوْمُ جُنَّةٌ الصَّومُ جُنَّة Fasting is a shield (against sinning), fasting is a shield. Muslim recorded this Hadith. Allah's statement, ... وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاء ... Allah gives manifold increase to whom He wills, is according to the person's sincerity in his deeds. ... وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ And Allah is All-Sufficient for His creatures' needs, All-Knower. meaning, His Favor is so wide that it encompasses much more than His creation, and He has full knowledge in whoever deserves it, or does not deserve it. All the praise and thanks are due to Allah.

سو گنا زیادہ ثواب اس آیت میں بیان ہو رہا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں اپنے مال کو خرچ کرے ، اسے بڑی برکتیں اور بہت بڑے ثواب ملتے ہیں اور نیکیاں سات سو گنا کرکے دی جاتی ہیں ، تو فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کی فرمانبرداری میں جہاد کے گھوڑوں کو پالنے میں ، ہتھیار خریدنے میں ، حج کرنے کرانے میں خرچ کرتے ہیں ۔ اللہ کے نام دئیے ہوئے کی مثال کس پاکیزگی سے بیان ہو رہی ہے جو آنکھوں میں کھپ جائے اور دِل میں گھر کر جائے ، ایک دم یوں فرما دیتا ہے کہ ایک کے بدلے سات سو ملیں گے اس سے بہت زیادہ لطافت اس کلام اور اس کی مثال میں ہے اور پھر اس میں اشارہ ہے کہ اعمال صالحہ اللہ کے پاس بڑھتے رہتے ہیں جس طرح تمہارے بوئے ہوئے بیج کھیت میں بڑھتے رہتے ہیں مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اپنی بچی ہوئی چیز فی سبیل اللہ دیتا ہے اسے سات سو کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص جان پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اسے دس گنا ملتا ہے اور بیمار کی عیادت کا ثواب بھی دس گنا ملتا ہے ۔ روزہ ڈھال ہے ، جب تک کہ اسے خراب نہ کرے ، جس شخص پر کوئی جسمانی بلا مصیبت دکھ درد بیماری آئے وہ اس کے گناہوں کو جھاڑ دیتی ہے ۔ یہ حدیث حضرت ابو عبیدہ نے اس وقت بیان فرمائی تھی جب کہ آپ سخت بیمار تھے اور لوگ عیادت کیلئے گئے تھے ، آپ کی بیوی صاحبہ سرہانے بیٹھی تھیں ، ان سے پوچھا کہ رات کیسی گزری؟ انہوں نے کہا نہایت سختی سے ، آپ کا منہ اس وقت دیوار کی جانب تھا ، یہ سنتے ہی لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا میری یہ رات سختی کی نہیں گزری ، اس لئے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے نکیل والی اونٹنی خیرات کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ قیامت کے دن سات سو نکیل والی اونٹنیاں پائے گا ، مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کی ایک نیکی کو دس نیکیوں کے برابر کر دیا ہے اور وہ بڑھتی رہتی ہیں ، سات سو تک ، مگر روزہ ، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ خاص میرے لئے ہے اور میں آپ کو اس کا اجر و ثواب دوں گا ، روزے دار کو دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت ، دوسری قیامت کے دن روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے ، دوسری حدیث میں اتنی زیادتی اور ہے کہ روزے دار اپنے کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے چھوڑتا ہے ، آخر میں ہے روزہ ڈھال ہے روزہ ڈھال ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے نماز روزہ اللہ کا ذِکر اللہ کی راہ کے خرچ پر سات سو گنا بڑھ جاتے ہیں ، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص جہاد میں کچھ مالی مدد دے ، گو خود نہ جائے تاہم اسے ایک کے بدلے سات سو کے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور خود بھی شریک ہوا تو ایک درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کے خرچ کا ثواب ملتا ہے ، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ( ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ) 2 ۔ البقرۃ:261 ) یہ حدیث غریب ہے اور حضرت ابو ہریرہ والی حدیث ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2 ۔ البقرۃ:245 ) کی تفسیر میں پہلے گزر چکی ہے جس میں ہے کہ ایک کے بدلے میں دو کروڑ کا ثواب ملتا ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی علیہ صلواۃ اللہ نے دعا کی کہ اے اللہ میری امت کو کچھ اور زیادتی عطا فرما تو ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا كَثِيْرَةً ) 2 ۔ البقرۃ:245 ) والی آیت اتری اور آپ نے پھر بھی یہی دعا کی تو آیت ( اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) 39 ۔ الزمر:10 ) اتری ، پس ثابت ہوا کہ جب قدر اخلاص عمل میں ہو اسی قدر ثواب میں زیادتی ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ بڑے وسیع فضل و کرم والا ہے ، وہ جانتا بھی ہے کہ کون کس قدر مستحق ہے اور کسے استحقاق نہیں فسبحان اللہ والحمداللہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

261۔ 1 یہ نفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیوں کی۔ اور ایک نیکی کا اجر دس گنا کی ذیل میں آئے گا۔ (فتح القدیر) گویا نفقات و صدقات کا عام اجر وثواب دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت و فضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کیے جاسکتے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧٦] اسی سورة کی آیت نمبر ٢٥٤ میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی تھی کہ قیامت کے دن یہی چیز کام آنے والی ہے۔ درمیان میں اللہ کی معرفت اور تصرف فی الامور کے چند واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب اسی مضمون کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے اور بتلایا جا رہا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کس طرح ان صدقات کو سینکڑوں گنا بڑھا کر اس کا اجر عطا فرمائے گا اسی اضافے کو اللہ تعالیٰ یہاں ایک ایسی مثال سے واضح فرما رہے ہیں جسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یعنی اگر اللہ چاہے تو سات سے زیادہ بالیاں بھی اگ سکتی ہیں اور ایک بالی میں سو سے زیادہ دانے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح صدقہ کا اجر وثواب سات سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے اجر کے حصول کے لیے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً :۔ ١۔ بیج یا دانہ جس قدر تندرست اور قوی ہوگا اتنی ہی فصل اچھی ہوگی۔ انفاق فی سبیل اللہ میں بیج یا دانہ انسان کی نیت ہے وہ جس قدر خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوگی۔ اسی قدر آپ کا صدقہ زیادہ پھل لائے گا۔ نیز یہ صدقہ حلال مال سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قبول ہی نہیں ہوتا۔ ٢۔ بیج کی کاشت کے بعد پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس کی آبیاری اور کیڑوں مکوڑوں سے حفاظت بھی ضروری ہے۔ ورنہ فصل یا تو برباد ہوجائے گی یا بہت کم فصل پیدا ہوگی۔ اسی طرح صدقہ کے بعد اس کی حفاظت بھی کی جانی چاہیے اور اسے احسان جتلا کر یا بےگار لے کر ضائع نہ کردینا چاہیے جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ ٣۔ بعض دفعہ فصل تیار ہوجاتی ہے تو اس پر کوئی ایسی ارضی و سماوی آفت آپڑتی ہے جو فصل کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان کے اعمال میں یہ آفات شرک کی مختلف اقسام ہیں۔ اگر آپ نے بالکل درست نیت سے صدقہ کیا۔ پھر آبیاری اور حفاظت بھی کرتے رہے۔ لیکن کسی وقت کوئی شرک کا کام کرلیا تو آپ کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ اسی طرح اگر وہ کام سنت کے خلاف (یعنی بدعت) ہوگا تو بھی وہ اجر کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔ ہاں جو شخص ان امور کا خیال رکھے تو اسے فی الواقعہ اتنا ہی اجر ملے گا جو اس آیت میں مذکور ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صرف پاک مال قبول کرتا ہے تو جس نے اپنے پاک مال میں سے ایک کھجور برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس کی یوں نشوونما کرتا ہے جیسے تم اپنے بچھڑے کی نشوونما کرتے ہو حتیٰ کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔ & (بخاری، کتاب الزکاۃ، باب لا یقبل اللہ صدقہ من غلول۔ اور باب الصدقہ من کسب طیب لقولہ تعالیٰ یمحق اللہ الربوا ویر بی الصدقات الایہ، مسلم، کتاب الزکوۃ، باب الحث علی الصدقہ ولو بشق تمرۃ او کلمہ طیبہ۔۔ الخ) [٣٧٧] یعنی جتنا زیادہ اجر وثواب دینا چاہے دے سکتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنے خلوص نیت سے تم نے یہ کام کیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : قرآن مجید میں ” ْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ کا لفظ عام یعنی اسلام کے معنی میں بھی آیا ہے، جیسے فرمایا : (اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَال النَّاس بالْبَاطِلِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) [ التوبۃ : ٣٤ ] ” بیشک بہت سے عالم اور درویش یقیناً لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ “ اس صورت میں اسلام کے ہر کام میں خرچ کرنا فی سبیل اللہ خرچ کرنا ہے اور خاص معنوں میں بھی آیا ہے، جیسا کہ سورة توبہ (٦٠) میں صدقات خرچ کرنے کی جگہوں میں ایک ” فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ ہے۔ وہاں ” فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ “ سے خاص جہاد مراد ہے، نیز صحیح بخاری میں حج کو بھی اس میں شمار کیا ہے۔ یہاں اگرچہ عام معنی بھی مراد لیا جاسکتا ہے مگر جیسا کہ شاہ عبد القادر (رض) نے فرمایا : ” جہاد مراد لینا گزشتہ اور آئندہ آیات کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This is the thirty-sixth section of Surah Al-Baqarah which begins from verse 262. Left now are five sections of Surah Al-Baqarah out of which the last section carries some basic principles. The earlier four sections, from 262 to 283, have a total of 21 verses which present special instructions and points of guidance concerning financial transactions. If these were to be followed in toto, the problem of an ideal eco¬nomic order which the whole world is worrying about will be automatically solved. Right now we see capitalism, socialism and communism (despite its fall in U.S.S.R) polarizing or readjusting against each other. The confrontation between these systems has reduced the world to a hotbed of internecine aggression. Stated in these verses is an important aspect of the economic order of Islam. It has two parts: 1. It teaches how to spend that which is extra to your needs to help the poor and the needy. This is known as Sadaqah صدقہ and Khayrat خیرات (roughly translated as charity and alms). 2. It declares that taking and giving of riba ربا (interest, usury) is حرام haram (unlawful) and gives directions on how to stay on guard against it. Out of these sections, the first two consist of the merits of sadaqah صدقہ and khayrat خیرات ، inducement towards these, and related injunctions and points of guidance. The last two sections deal with the unlawfulness and forbiddance of ربا riba-based dealings, and with permissible ways of giving and taking loans. The verses given above make a three-unit statement as follows: 1. The merit of spending in the way of Allah. 2. Conditions which make sadaqah صدقہ and khayrat خیرات acceptable and merit-worthy with Allah. 3. Attitudes that destroy sadaqah صدقہ and khayrat خیرات when good goes and sin stays. After that there are two similitudes: 1. The first relates to the charities (nafaqat and sadaqat) which are acceptable with Allah. 2. The second relates to the charities (nafaqat and sadaqat) which are unacceptable and invalid. Thus, these are five subjects that appear in this section. Before we discuss these subjects, it is necessary to know that the Holy Qur&an has pointed out to spending in the way of Allah at several places with the word, DWI (infaq: انفاق spending) |"and at several others, with the words, اطعام (it` am: feeding) or صدقہ (sadaqah: charity) or ; إِيتَاءَ الزَّكَاةِ (ad& az-zakat: paying the obligatory zakah الزَّكَاة properly). A careful look at these Qur&anic words and the way they have been used shows that the words – infaq انفاق ، it` am اطعام and sadaqah صدقہ -- are general and as such incorporate all sorts of charitable spendings that aim to seek the good pleasure of Allah. These spendings may be fard فرض and wajib (obligatory) or nafl نفل and mustahabb مستحبّ (commendable, or desirable, or preferred). It may be noted that the Qur&an has used a distinct word إِيتَاءَ الزَّكَاةِ for the obligatory زکاۃ Zakah which indicates that there are special requirements in receiving and giving of this particular صدقہ sadaqah. In this section, the word used more often is infaq انفاق while the word, sadaqah صدقہ has been used less often, which indicates that the statement here covers general charities and deeds of generosity, and the injunctions given here include and incorporate all sorts of charities and spendings in the way of Allah. A similitude of spending in the way of Allah In the first verse it is said that people who spend in the way of Allah, that is, in Hajj حج or in Jihad جھاد ، or on the poor, on widows and orphans, or on relatives and friends to help them out, can be likened to one who sows a good grain of wheat in the field from which grows a plant on which sprout seven ears and each ear yields hundred grains. As a result, one grain was worth a total yield of seven hundred grains. The outcome is that one who spends in the way of Allah receives in return (reward in the Hereafter) on the scale of one to seven hundred, that is, spending one cent could bring the merit of seven hundred cents. It appears in authentic and reliable ahadith that the thawab ثواب or merit or reward for one good deed is returned ten-fold, and could reach seven hundred-fold. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has said: The reward of spending one dirham in Jihad and Hajj is equal to seven hundred dirhams. Ibn Kathir (رح) has reported this with reference to the Musnad of Ahmad. To sum up, this verse tells us that spending one unit of money brings forth the reward of seven hundred units. Conditions that make charity a “ worship” But, the Qur&an has not, in its wisdom, put this subject in a few clear words. It has rather used the form of a similitude featuring a grain of wheat which has a subtle hint towards the labour of a farmer who can hope to get an yield of seven hundred grains out of one grain sown only when the grain is good, and the farmer sowing it should be fully conversant with the art of farming, and the soil where the grain goes should be good too, because, should even one of these factors remain missing, either this grain will be wasted leaving no grain to come out, or it would just not yield enough to reach the production ratio of one grain to seven hundred grains. Similar to this, there are the same three conditions for the acceptance and increased return of good deeds generally, and of spending in the way of Allah particularly. These conditions are: 1. That which is spent in the way of Allah should be clean, pure and halal حلال (lawful) for it appears in Hadith that Allah Almighty accepts nothing except what is clean, pure and halal حلال . 2. One who spends should be good in intentions and righteous in deeds. An ill-intentioned and showy spender is like that ignorant farmer who throws away the grain on a spot where it is wasted. 3. The one to whom sadaqah صدقہ (charity) is given should also be deserving of it. It should not be wasted by spending on the non-deserving. Thus, the similitude unfolds for us the great merit spending in the way of Allah has, along with the three conditions as well, which stipulate that one should spend from halal حلال earnings, and the method of spending should also conform to Sunnah, and that one should literally search for the deserving in order to spend on them. Just getting rid of what your coffers hold does not entitle you to receive this merit. The correct and masnun مسنون (according to Sunnah) method of giving sadaqah صدقہ has been pointed out in the second verse. It is said that people who spend in the way of Allah and do do not publicise their favour after having spent, nor cause any pain to those on whom they have spent, their reward is secure with their Lord. For them there is no danger in the future, and no sorrow of the past.

خلاصہ تفسیر : جو لوگ اللہ کی راہ میں (یعنی امور خیر میں) اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کئے ہوئے مالوں کی حالت (عنداللہ) ایسی ہے جیسے ایک دانہ کی حالت جس سے (فرض کرو) سات بالیں جن میں (اور) ہر بالی کے اندر سو دانے ہوں (اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کا ثواب سات سو حصہ تک بڑھاتا ہے) اور یہ افزونی اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے (بقدر اس کے اخلاص اور مشقت کے) عطا فرماتا ہے اور خدا تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں (ان کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں وہ سب کو یہ افزونی دے سکتے ہیں مگر ساتھ ہی) جاننے والے (بھی) ہیں (اس لئے اخلاص نیت وغیرہ کو دیکھ کر عطا فرماتے ہیں) جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ تو (جس کو دیا ہے اس پر زبان سے) احسان جتلاتے ہیں اور نہ (برتاؤ سے اس کو) آزار پہنچاتے ہیں ان لوگوں کو ان (کے عمل) کا ثواب ملے گا ان کے پروردگار کے پاس (جاکر) اور نہ (قیامت کے دن) ان پر کوئی خطرہ ہوگا اور نہ یہ مغموم ہوں گے (ناداری کے وقت جواب میں معقول و) مناسب بات کہہ دینا اور (اگر سائل بدتمیزی سے غصہ دلاوے یا اصرار سے تنگ کرے تو اس سے) درگذر کرنا (ہزار درجہ) بہتر ہے ایسی خیرات (دینے) سے جس کے بعد آزار پہنچایا جائے اور اللہ تعالیٰ (خود) غنی ہیں (کسی کے مال کی ان کو حاجت نہیں جو کوئی خرچ کرتا ہے اپنے واسطے پھر آزار کس بناء پر پہنچایا جائے اور آزار دینے پر جو فوراً سزا نہیں دیتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ) حلیم (بھی) ہیں۔ اے ایمان والو تم احسان جتلا کر یا ایذاء پہنچا کر اپنی خیرات (کے ثواب بڑہنے) کو برباد مت کرو جس طرح وہ شخص (خودخیرات کے اصل ثواب ہی کو برباد کردیتا ہے) جو اپنا مال خرچ کرتا ہے (محض) لوگوں کو دکھلانے کی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور یوم قیامت پر (مراد اس سے بقرینہ نفی ایمان کے منافق ہے) سو اس شخص کی حالت ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر (فرض کرو اس پر) جب کچھ مٹی (آگئی) ہو ( اور اس مٹی میں کچھ گھاس پھونس جم آیا ہو) پھر اس پر زور کی بارش پڑجائے سو اس کو (جیسا تھا ویسا ہی) بالکل صاف کردے (اسی طرح اس منافق کے ہاتھ سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ ہوگیا جو ظاہر میں ایک نیک عمل جس میں امید ثواب ہو معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے نفاق نے اس شخص کو ویسا ہی کو را ثواب سے خالی چھوڑ دیا۔ چناچہ قیامت میں) ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی (کیونکہ کمائی نیک عمل ہے اور اس کا ہاتھ لگنا ثواب کا ملنا ہے اور ثواب ملنے کی شرط ایمان اور اخلاص ہے اور ان لوگوں میں یہ مفقود ہے کیونکہ ریاکار بھی ہیں اور کافر بھی ہیں) اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو (قیامت کے روز ثواب کے گھر یعنی جنت کا) راستہ نہ بتلائیں گے (کیونکہ کفر کی وجہ سے ان کا کوئی عمل مقبول نہیں ہوا جس کا ثواب آخرت میں ذخیرہ ہوتا اور وہاں حاضر ہو کر اس کے صلہ میں جنت میں پہنچائے جاتے) اور ان لوگوں کے خرچ کئے ہوئے مال کی حالت جو اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کی غرض سے (جو کہ خاص اس عمل سے ہوگی) اور اس غرض سے کہ اپنے نفسوں (کو اس عمل شاق کا خوگر بنا کر ان) میں پختگی پیدا کریں (تاکہ دوسرے اعمال صالحہ سہولت سے پیدا ہوا کریں پس ان لوگوں کے نفقات و صدقات کی حالت) مثل حالت ایک باغ کے ہے جو کسی ٹیلے پر ہو کہ (اس جگہ کی ہوا لطیف اور بارآور ہوتی ہے اور) اس پر زور کی بارش پڑی ہو پھر وہ (باغ لطافت ہوا اور بارش کے سبب اور باغوں سے یا اور دفعوں سے) دونا (چوگنا) پھل لایا ہو اور اگر ایسے زور کا مینھ نہ پڑے تو ہلکی پھوار (یعنی خفیف بارش) بھی اس کو کافی ہے (کیونکہ زمین اور موقع اس کا اچھا ہے) اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو خوب دیکھتے ہیں (اس لئے جب وہ اخلاص دیکھتے ہیں ثواب بڑھا دیتے ہیں) بھلا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجوروں کا اور انگوروں کا (یعنی زیادہ درخت اس میں ان کے ہوں اور) اس (باغ) کے (درختوں کے) نیچے نہریں چلتی ہوں (جس سے وہ خوب سرسبز و شاداب ہوں) اور اس شخص کے یہاں اس باغ میں (علاوہ کھجوروں اور انگوروں کے) اور بھی ہر قسم کے (مناسب) میوے ہوں اور اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو (جو کہ زمانہ زیادہ احتیاج کا ہوتا ہے) اور اس کے اہل و عیال بھی ہوں جن میں (کمانے کی) قوت نہیں (اس صورت میں اہل و عیال سے بھی اس کی توقع خبر گیری کی نہیں ہوگی بس وجہ معاش صرف وہی باغ ہوا) سو (ایسی حالت میں یہ قصہ ہو کہ) اس باغ پر ایک بگولہ آئے جس میں آگ (کا مادہ) ہو پھر (اس سے) وہ جل جائے (ظاہر بات ہے کسی کو اپنے لئے یہ بات پسند نہیں آسکتی پھر اسی کے مشابہ تو یہ بات بھی ہے کہ اول صدقہ دیا یا کوئی اور نیک کام کیا جس کے قیامت میں کارآمد ہونے کی امید ہو جو کہ وقت ہوگا غایت احتیاج کا اور زیادہ مدار قبول ہوگا انہیں طاعات پر پھر ایسے وقت میں معلوم ہوگا کہ ہمارے احسان جتلانے یا غریب کو ایذاء دینے سے ہماری طاعات باطل یا بےبرکت ہوگئیں اس وقت کیسی سخت حسرت ہوگی کہ کیسی کیسی آرزوؤں کا خون ہوگیا پس جب تم مثال کے واقعہ کو پسند نہیں کرتے تو ابطال طاعات کو کیسے گوارا کرتے ہو) اللہ تعالیٰ اسی طرح نظائر بیان فرماتے ہیں تمہارے (سمجھانے کے) لئے تاکہ تم سوچا کرو (اور سوچ کر اس کے موافق عمل کیا کرو) معارف و مسائل : یہ سورة بقرہ کا چھتیسواں رکوع ہے جو آیت نمبر ٢٦١ سے شروع ہوتا ہے اب سورة بقرہ کے پانچ رکوع باقی ہیں جن میں آخری رکوع میں تو کلیات اور اہم اصولی چیزوں کا بیان ہے اس سے پہلے چار رکوع میں آیت نمبر ٢٦١ سے ٢٨٣ تک کل ٢٣ آیات ہیں جن میں مالیات سے متعلق خاص ہدایات اور ایسے ارشادات ہیں کہ اگر دنیا آج ان پر پوری طرح عامل ہوجائے تو معاشی نظام کا وہ مسئلہ خود بخود حل ہوجائے جس میں آج کی دنیا چار سو بھٹک رہی ہے کہیں سرمایہ داری کا نظام ہے تو کہیں اس کا ردعمل اشتراکیت اور اشمالیت کا نظام ہے اور ان نظاموں کے باہمی ٹکراؤ نے دنیا کو قتل و قتال اور جنگ وجدال کا ایک جہنم بنا رکھا ہے، ان آیات میں اسلام کے معاشی نظام کے ایک اہم پہلو کا بیان ہے جس کے دو حصے ہیں۔ (١) اپنی ضرورت سے زائد مال کو اللہ کی رضا کے لئے حاجت مند مفلس لوگوں پر خرچ کرنے کی تعلیم جس کو صدقہ و خیرات کہا جاتا ہے۔ (٢) دوسرے سود کے لین دین کو حرام قرار دے کر اس سے بچنے کی ہدایات، ان میں سے پہلے دو رکوع صدقہ و خیرات کے فضائل اور اس کی ترغیب اور اس کے متعلقہ احکام و ہدایات پر مشتمل ہیں اور آخری دو رکوع سودی کاروبار کی حرمت و ممانعت اور قرض ادھار کے جائز طریقوں کے بیان میں ہیں۔ جو آیات اوپر لکھی گئی ہیں ان میں اول اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل کا بیان فرمایا گیا ہے اس کے بعد ایسی شرائط کا بیان ہے جن کے ذریعے صدقہ خیرات اللہ کے نزدیک قابل قبول اور موجب ثواب بن جائے پھر ایسی چیزوں کا بیان ہے جو انسان کے صدقہ و خیرات کو برباد کرکے نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق بنا دیتی ہیں۔ اس کے بعد دو مثالیں بیان کی گئی ہیں ایک ان نفقات و صدقات کی جو اللہ کے نزدیک مقبول ہوئی دوسرے ان نفقات و صدقات کی جو غیرمقبول اور فاسد ہوں، یہ پانچ مضمون ہیں جو اس رکوع میں بیان ہوئے ہیں۔ یہاں ان مضامین میں پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کو کہیں بہ لفظ انفاق بیان فرمایا ہے کہیں بہ لفظ اطعام کہیں بہ لفظ صدقہ اور کہیں بہ لفظ ایتاء الزکوٰۃ ان الفاظ قرآنی اور ان کے جگہ جگہ استعمال پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ انفاق، اطعام، صدقہ عام ہیں جو ہر قسم کے صدقہ خیرات اور رضائے الہی حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کے خرچ پر حاوی ہے خواہ فرض وواجب ہوں یا نفلی اور مستحب، اور زکوٰۃ فرض کے لئے قرآن نے ایک ممتاز لفظ ایتاء الزکوۃ استعمال فرمایا ہے جس میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس خاص صدقہ کے لئے حاصل کرنے اور خرچ کرنے دونوں میں کچھ خصوصیات ہیں۔ اس رکوع میں اکثر لفظ انفاق سے اور کہیں لفظ صدقہ سے تعبیر کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہاں عام صدقات ومبرات کا بیان ہے اور جو احکام یہاں ذکر کئے گئے ہیں وہ ہر قسم کے صدقات اور اللہ کے لئے خرچ کرنے کی سب صورتوں کو شامل اور حاوی ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک مثال : پہلی آیت میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یعنی حج میں یا جہاد میں یا فقراء و مساکین اور بیواؤں اور یتیموں پر یا بہ نیت امداد اپنے عزیزوں دوستوں پر اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص ایک دانہ گیہوں کا عمدہ زمین میں بوئے اس دانہ سے گیہوں کا ایک پودا نکلے جس میں سات خوشے گیہوں کے پیدا ہوں اور ہر خوشے میں سو دانے ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دانہ سے سات سو دانے حاصل ہوگئے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کا اجروثواب ایک سے لے کر سات سو تک پہنچتا ہے ایک پیسہ خرچ کرے تو سات سو پیسوں کا ثواب حاصل ہوسکتا ہے۔ صحیح ومتعبر احادیث میں ہے کہ ایک نیکی کا ثواب اس کا دس گنا ملتا ہے اور سات سو گنے تک پہنچ سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جہاد اور حج میں ایک درہم خرچ کرنے کا ثواب سات سو درہم کے برابر ہے، یہ روایت ابن کثیر نے بحوالہ مسنداحمد بیان کی ہے۔ الغرض اس آیت نے بتلایا کہ اللہ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کرنے والے کا ثواب سات سو روپے کے خرچ کے برابر ملتا ہے۔ قبولیت صدقات کی مثبت شرائط : لیکن قرآن حکیم نے اس مضمون کو بجائے مختصر اور صاف لفظوں میں بیان کرنے کے دانہ گندم کی مثال کی صورت میں بیان فرمایا جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح کاشتکار ایک دانہ گندم سے سات سو دانے اسی وقت حاصل کرسکتا ہے جب کہ یہ دانہ عمدہ ہو خراب نہ ہو اور دانہ ڈالنے والا کاشتکار بھی کاشتکاری کے فن سے پورا واقف ہو اور جس زمین میں ڈالے وہ بھی عمدہ زمین ہو کیونکہ ان میں سے اگر ایک چیز بھی کم ہوگئی تو یا یہ دانہ ضائع ہوجائے گا ایک دانہ بھی نہ نکلے گا اور یا پھر ایسا بارآور نہ ہوگا کہ ایک دانہ سے سات سو دانے بن جائیں۔ اسی طرح عام صالحہ اور خصوصاً انفاق فی سبیل اللہ کی مقبولیت اور زیادتی اجر کے لئے بھی یہی تین شرطیں ہیں کہ جو مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے وہ پاک اور حلال ہو کیونکہ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک اور حلال مال کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتے، دوسرے خرچ کرنے والا بھی نیک نیت اور صالح ہو بدنیتی یا نام ونمود کے لئے خرچ کرنے والا، اس ناواقف کاشتکار کی طرح ہے جو دانہ کو کسی ایسی جگہ ڈال دے کہ وہ ضائع ہوجائے۔ تیسرے جس پر خرچ کرے وہ بھی صدقہ کا مستحق ہو کسی نااہل پر خرچ کرکے ضائع نہ کرے اس طرح اس مثال سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بہت بڑی فضیلت بھی معلوم ہوگئی اور ساتھ ہی اس کی تین شرطیں بھی کہ مال حلال سے خرچ کرے اور خرچ کرنے کا طریقہ بھی سنت کے مطابق ہو اور مستحقین کو تلاش کرکے ان پر خرچ کرے محض جیب سے نکال ڈالنے سے یہ فضیلت حاصل نہیں ہوتی ،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ كَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ۝ ٠ ۭ وَاللہُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝ ٢٦١ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ حب ( دانه) الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔ نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ سُّنْبُلَةُ والسُّنْبُلَةُ جمعها سَنَابِلُ ، وهي ما علی الزّرع، قال : سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة/ 261] ، وقال : سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف/ 46] ، وأَسْبَلَ الزّرعُ : صار ذا سنبلة، نحو : أحصد وأجنی، والْمُسْبِلُ اسم القدح الخامس السنبلۃ : بال ۔ اس کی جمع سنابل آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ [ البقرة/ 261] سات بالیں ہر بال میں ۔ سَبْعَ سُنْبُلاتٍ خُضْرٍ [يوسف/ 46] سات سبز بالیں ۔ اسبل الزرع کھیتی میں بالیں پڑگئیں ( ماخذہ کے ساتھ متصف ہونا کے معنی پائے جاتے ہیں ) جیسے احصد الزرع واجنی النخل کا محاورہ ہے : ۔ المسبل جوئے کے تیروں میں سے پانچواں تیر ۔ مئة المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال : أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ. م ی ء ) المائۃ ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق ہے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦١) اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو بیان کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے مالوں کی مثال جو اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ایک دانہ کی مثال ہے کہ اس سے سات بالیاں اگتی ہیں اور ہر بالی میں ایک سو دانے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے اموال کو سات سو گنا تک بڑھاتا ہے اور جو اس کا اہل ہو یا جس کا صدقہ قبول کیا جائے اسے اس سے زیادہ ثواب عطا کرتا ہے۔ اور ثواب دینے میں اللہ تعالیٰ بڑی وسعت اور فراخی والے ہیں اور مسلمانوں کے خرچ کرنے اور ان کی نیتوں کو جاننے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب جو دو رکوع آ رہے ہیں ‘ ان کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ ہے ‘ اور اس موضوع پر یہ قرآن مجید کا ذروۃ السنام (climax) ہے۔ ان کے مطالعہ سے پہلے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کے لیے دین میں کئی اصطلاحات ہیں۔ سب سے پہلی اطعام الطّعام (کھانا کھلانا) ہے : (وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا ) (الدھر) دوسری اصطلاح ایتائے مال ہے : (وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ ۔۔ الخ) (البقرۃ : ١٧٧) پھر اس سے آگے صدقہ ‘ زکوٰۃ ‘ انفاق اور قرض حسنہ جیسی اصطلاحات آتی ہیں۔ یہ پانچ چھ اصطلاحات (terms) ہیں ‘ لیکن ان کے اندر ایک تقسیم ذہن میں رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو بڑی بڑی مدیں ہیں۔ ایک مد ابنائے نوع پر خرچ کرنے کی ہے۔ یعنی قرابت دار ‘ غرباء ‘ یتامیٰ ‘ مساکین محتاج اور بیواؤں پر خرچ کرنا۔ یہ آپ کے معاشرے کے اجزاء ہیں ‘ آپ کے بھائی بند ہیں ‘ آپ کے عزیز و اقرباء ہیں۔ ان کے لیے خرچ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کا اجر ملے گا۔ یہ بھی گویا آپ نے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خرچ کیا۔ جبکہ دوسری مد ہے عین اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا۔ قرآن حکیم میں انفاق اور قرض حسنہ کی اصطلاحیں اس دوسری مد کے لیے آتی ہیں اور پہلی مد کے لیے اطعام الطعام ‘ ایتائے مال ‘ صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کی اصطلاحات ہیں۔ چناچہ انفاق مال یا انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ‘ اللہ کے دین کی دعوت کو عام کرنے اور اللہ کی کتاب کے پیغام کو عام کرنے کے لیے خرچ کرنا۔ اللہ کے دین کی دعوت کو اس طرح ابھارنا کہ باطل کے ساتھ زور آزمائی کرنے والی ایک طاقت پیدا ہوجائے ‘ ایک جماعت وجود میں آئے۔ اس جماعت کے لیے ساز و سامان فراہم کرنا تاکہ غلبۂ دین کے ہر مرحلے کے جو تقاضے اور ضرورتیں ہیں وہ پوری ہو سکیں ‘ اس کام میں جو مال صرف ہوگا وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کے ذمہّ قرض حسنہ۔ تو یہاں اصل میں اس انفاق کی بات ہو رہی ہے۔ عام طور پر فی سبیل اللہ کا مفہوم بہت عام سمجھ لیا جاتا ہے اور پانی کی کوئی سبیل بنا کر اسے بھی فی سبیل اللہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے ‘ وہ بھی سبیل تو ہے ‘ نیکی کا وہ بھی راستہ ہے ‘ سبیل اللہ ہے ‘ لیکن انفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم بالکل اور ہے۔ فقراء و مساکین اور اہل حاجت کے لیے صدقات و خیرات ہیں۔ زکوٰۃ بھی اصلاً غریبوں کا حق ہے ‘ لیکن اس میں بھی ایک مد فی سبیل اللہ کی رکھی گئی ہے۔ اگر آپ کے عزیز و اقارب اور قرب و جوار میں اہل حاجت ہیں ‘ غرباء ہیں تو صدقہ و زکوٰۃ میں ان کا حق فائق ہے ‘ پہلے ان کو دیجیے۔ اس کے بعد اس میں سے جو بھی ہے وہ دین کے کام کے لیے لگایئے۔ جب دین یتیمی کی حالت کو آگیا ہو تو سب سے بڑایتیم دین ہے۔ اور آج واقعتا دین کی یہی حالت ہے۔ اب ہم ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں : آیت ٢٦١ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ ط) اس طرح ایک دانے سے سات سو دانے وجود میں آگئے۔ یہ اس اضافے کی مثال ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال کے اجر وثواب میں ہوگا۔ جو کوئی بھی اللہ کے دین کے لیے اپنا مال خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے مال میں اضافہ کرے گا ‘ اس کو جزا دے گا اور اپنے یہاں اس اجر وثواب کو بڑھاتا رہے گا۔ (وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط) ۔ یہ سات سو گنا اضافہ تو تمہیں تمثیلاً بتایا ہے ‘ اللہ اس سے بھی زیادہ اضافہ کرے گا جس کے لیے چاہے گا۔ صرف سات سو گنا نہیں ‘ اور بھی جتنا چاہے گا بڑھاتا چلا جائے گا۔ (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) ۔ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اور اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

298. Here the discourse turns to the subject touched upon in verses 244 ff. above. Believers were urged to sacrifice life and property for the sake of the great cause in which they believed. It is difficult, however, to persuade those whose standard of judgement in respect of economic matters has not completely changed, to rise above either personal or narrow group interests and dispense their wealth wholeheartedly for the sake of a righteous cause. People who have a materialistic outlook and whose life constitutes an uninterrupted pursuit of money, who adore every single penny they have, and who can never stop thinking about their balance sheets can never have the capacity to do anything really effective for the sake of higher ideals. When such people apparently do spend money for the sake of higher moral ideals, it is merely an outward act which is performed after carefully calculating the material benefits which are likely to accrue either to them, to their group or to their nation. With this outlook a person cannot go one step forward along the path of that religion which requires man to become indifferent to cosiderations of worldly profit and loss, and constantly to spend time, energy and money to make the Word of God reign supreme. To follow such a course requires a moral outlook of an altogether different kind; it requires breadth of vision and magnanimity and, above all, an exclusive devotion to God. At the same time it requires that man's collective life should be so re-moulded as to become conducive to the growth of the moral qualities mentioned above rather than to the growth of a materialistic outlook and behaviour. Hence the three succeeding sections (i.e. verses 261-81 - Ed.) are devoted to enunciating instructions designed to foster such an outlook. 299. A great many expenditures fall under the category of spending 'in the way of Allah', as long as this is done according to the laws of God and with the intention of seeking His good pleasure. This includes spending one's wealth to fulfil one's legitimate needs, to provide for one's family, to look after the needs of relatives, to help the needy and to contribute to the general welfare and to spread the true religion and so on. 300. The greater the sincerity and the more intense the feeling with which one spends for the sake of God, the greater will be God's reward. It is not difficult at all for God, Who blesses a grain so that out of it seven hundred grains grow, to allow one's charity to grow in like manner so that the unit of money one spends will return seven hundred fold. This statement is followed by a mention of two of God's attributes. First is His munificence. His Hand is not clenched so as to restrain Him from recompensing man for his deeds to the fullest extent that he deserves. Second, God is All-Knowing. He is not unaware of what one spends and the spirit in which one spends. So there is no reason to fear that one will not receive one's due reward.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :298 ”اب پھر سلسلہ کلام اسی مضمون کی طرف عود کرتا ہے ، جو رکوع ۳۲ میں چھیڑا گیا تھا ۔ اس تقریر کی ابتدا میں اہل ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصد عظیم پر تم ایمان لائے ہو ، اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو ۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اس کا معاشی نقطہ نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہو جائے ، اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بے دریغ صرف کرنے لگے ۔ مادہ پرست لوگ ، جو پیسہ کمانے کے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو ، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں ۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں ، تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں ۔ اس ذہنیت کے ساتھ اس دین کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دنیوی فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت ، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو ۔ ایسے مسلک کی پیروی کے لیے تو دوسری ہی قسم کے اخلاقیات درکار ہیں ۔ اس کے لیے نظر کی وسعت ، حوصلے کی فراخی ، دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے ، اور اجتماعی زندگی کے نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد کے اندر مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بجائے یہ اخلاقی اوصاف نشونما پائیں ۔ چنانچہ یہاں سے مسلسل تین رکوعوں تک اسی ذہنیت کی تخلیق کے لیے ہدایات دی گئی ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :299 مال کا خرچ خواہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہو ، یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں ، یا اپنے اعزہ و اقربا کی خبر گیری میں ، یا محتاجوں کی اعانت میں ، یا رفاہ عام کے کاموں میں ، یا اشاعت دین اور جہاد کے مقاصد میں ، بہرحال اگر وہ قانون الہٰی کے مطابق ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے ہو تو اس کا شمار اللہ ہی کی راہ میں ہو گا ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :300 یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا ، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہوگا ۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اگ سکتے ہیں ، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشونما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گونہ ہو کر تمہاری طرف پلٹے ۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے ، اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو ، وہ نہ دے سکے ۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے ، بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو ، اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

178: اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ’’اللہ کے راستے میں خرچ‘‘ کا قرآنِ کریم نے بار بار ذکر کیا ہے، اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔ اس میں زکوٰۃ، صدقات، خیرات سب داخل ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب اور اس خرچ کے اجر کے بڑھنے کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جائے بارہ گاہ الہی میں اس کی شرطیں ہیں بڑی شرط تو یہ ہے کہ جس مال میں اللہ کے نام پر کچھ خیرات کی جاوے وہ مال نیک کمائی کا ہو وے۔ چناچہ صحیح بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ نسائی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک ذات ہے بغیر نیک کمائی ناجائز کمائی کے مال کی خیرات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول نہی ہوتی ١۔ اب نیک کمائی کے مال میں سے خیرات ہونے کی صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ خیرات کر کے کسی پر اس کا احسان نہ جتلانے اور دنیا کے دکھلاوے کا دخل خیرات میں ہرگز نہ آنے دے۔ کیونکہ اس طرح کی خیرات بھی اکارت جاتی ہے۔ چناچہ اس کا ذکر تفصیل سے آگے کی آیتوں میں آتا ہے ان شرطوں کے پورا ہوجانے کی صورت میں مثلاً ایک روپیہ خرچ کیا تو اس کا اجر ایک سے لے کر سات سو روپے تک خرچ کرنے کا ملے گا یہ اپنی اپنی نیت کا پھل ہے جس کی نیت بالکل خیر ہوگی وہ پورے سات سو کا اجر پائے ورنہ کچھ کمی ہوجائے گی۔ اس آیت میں تو عبادت مالی کا ذکر ہے۔ لیکن یہی حال عبادت بدنی کے اجر کا ہے چناچہ صحیح بخاری صحیح مسلم وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ نیک عمل کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو تک ہے۔ لیکن روزوں کا اجر اس حساب سے باہر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا روزہ ایسی ایک بڑی بھاری عبادت کھانا پینا چھوڑنے کی انسان کے حق میں ہے جس کا اجر میں خود اپنی ذات سے مناسب طور پر دوں گا ٢۔ معتبر سند سے ترمذی نسائی ‘ صحیح ابن حبان ‘ مستدرک حاکم وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ غیر آدمی غریب کو جو کچھ دیا جائے تو اکہری خیرات ہے اور جو کچھ قرابت دار محتاج کو بطور خیرات کے دیا جائے وہ دوہری خیرات ہے ٣۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر آدمی غریب کو دینے سے مثلاً جہاد ایک روپیہ کا سات سو کا اجر مل سکتا ہے اگر وہی ایک روپیہ قرابت دار غریب کو دیا گیا ہے تو بجائے سات سو کے چودہ سو کا اجر ملے گا { وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ} کا یہ مطلب ہے کہ اجر کے دینے میں اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں بڑی گنجائش ہے مگر وہ ہر ایک کی نیت کا حال خوب جانتا ہے جیسی جس کی نیت ہوگی ویسا ہی اس کو اجر ملے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:261) مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل فی کل سنبلۃ مائۃ حبۃ۔ مثل الذین ینفقون اموالہم فی سبیل اللہ۔ یہ جملہ مبتدا ہے۔ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل۔ خبر۔ انبتت سبع سنابل صفت ہے حبۃ کی۔ مائۃ حبۃ …… مبتدائ صفت ہے سنابل کی۔ فی کل سنبلۃ … خبر اس عبارت میں مضاف محذوف ہے خواہ مبتداء کی طرف حذف مانا جائے یا خبر کی جانب۔ پہلی صورت میں عبارت ہوگی مثل (انفاق) الذین ۔۔ کمثل حبۃ۔ ترجمہ ہوگا : جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بونے والا جس دانے سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ دوسری صورت میں عبارت ہوگی مثل الذین ینفقون ۔۔ کمثل باذر حبۃ انبتت۔ اور ترجمہ ہوگا : راہ خدا میں اپنا مال خرچ کرنے والوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بونے والا جس دانے سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ فی سبیل اللہ۔ سے مراد خدا کی راہ میں کسی مد میں خرچ کرنا ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد جہاد ہے۔ ینفقون۔ مضارع مذکر غائب انفاق (افعال) مصدر۔ سنابل۔ جمع سنبلۃ واحد۔ بال۔ خوشہ۔ حبۃ۔ حب واحد۔ حبوب۔ دانے اناج کے۔ غلہ۔ اناج۔ گندم ۔ جو وغیرہ۔ دوائی وغیرہ کی گولی کو بھی حبۃ یا حب کہتے ہیں یضعف مضارع واحد مذکر غائب۔ مضاعفۃ (مفاعلۃ) وہ بڑھاتا ہے۔ وہ بڑھائے گا۔ واسع۔ وسیع فضل والا۔ کشادہ بخشش والا۔ سعۃ (باب سمع) مصدر۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 261 266 اسرارو معارف مثل الذین ینفقون اموالھم……………واللہ غنی حلیم اللہ کی راہ میں خرچ کرنا مومن کے لئے ایسے ہے جیسے کاشتکار کہ وہ کھیتی بوتا ہے تو بظاہر کھیتی تیار کرنے کی مشقت اٹھاتا ہے پھر اپنی محنت سے کمائے ہوئے غلے کو اس میں بکھیردیتا ہے جو بظاہر محنت اور اثاثہ دونوں کا ضیاع نظر آتا ہے لیکن صرف اس شخص کو جو اس سارے کام کے انجام سے بیخبر ہے جو انجام کی اطلاع رکھتا ہے وہ پھر اس کی رکھوالی کرتا ہے حتیٰ کہ ایک وقت آتا ہے جب ایک ایک دانے سے سات سات خوشے نکلتے ہیں یعنی خوب اعلیٰ پودا اگتا ہے جس پر اس قدر خوشے لگتے ایسے صحتمند کہ ہر خوشے میں سو سو دانا ہوتا ہے وہ تھوڑا سا غلہ جو اس نے بیجا تھا بہت زیادہ غلہ جمع کرنے کا سبب بن جاتا ہے مگر یہ سب اس وقت ظہور پذیر ہوتا ہے جب کھیتی اعلیٰ قسم کی ہوا اور پھر اس پر محنت کی جائے غلہ اچھا اور اعلیٰ ہو وقت پر بیجا جائے اور پھر اس کی پوری دیکھ بھال کی جائے۔ ایسے ہی پہلے تو ایمان شرط ہے کہ دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھے ، پھر بیج خالص ہو یعنی جائز اور حلال ذرائع سے دولت پیدا کرے کہ اللہ حلال کے سوا کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور پھر مستحقین پر خرچ کرے۔ محض دولت لٹانے مقصد نہیں ہے بلکہ صدقات کو ان کے صحیح مصرف پہ خرچ کرے اور صحیح طریقے سے خرچ کرے یعنی اتباع سنت کا اہتمام ہو تو اللہ قادر ہے کہ جتنا چاہے کسی کے اجر کو بڑھا دے وہ بہت وسیع بخشش کا مالک ہے جس قدر اہتمام ہوسکے کر ، کہ وہ علیم بھی ہے وہ تمہاری کوششوں یا تمہارے خلوص ، تمہارے ارادوں اور تمنائوں کو جانتا ہے ۔ تم جتنی محنت کرتے جائو گے اللہ اس اجر کو اسی قدر اپنی بخشش اور کرم سے بڑھاتے چلے جائیں گے۔ ہاں اس کی رکھوالی بھی کرو کہ خرچ کرنے کے بعد جس پر خرچ کیا ہے کوئی احسان نہ رکھو۔ نہ اس کے لئے کسی دکھ کا سبب بنو کہ تم اسے ذلیل سمجھنے لگ جائو۔ لوگوں میں اظہار کرکے اسے رسوا نہ کرو۔ ایسا کرنے والے یقینا اپنے اجر اپنے رب کے پاس موجود پائیں گے تب انہیں نہ گزشتہ کا یعنی اپنے خرچ کرنے کا افسوس ہوگا اور نہ آئندہ کا کوئی خوف۔ لیکن اگر تم خرچ کرنے کے لئے دولت نہیں رکھتے یا کسی کو دینا نہیں چاہتے تو اس سے اچھی طرح بات ہی کرلو ، یہ بھی صدقہ ہے اور ایسے صدقہ سے بدرجہا بہتر ہے کہ تم کسی کو پیسے دے کر اس پر احسان جتائو یا اسے ایذا دو ۔ کم از کم مناسب طریقے سے معذرت کرو اگر مانگنے والے کی بات ناگوار گزری ہے تو درگزر کرو کہ اللہ غنی ہے اللہ کو کسی کے صدقات دینے یا نہ دینے کی کوئی احتیاج نہیں اور بڑا تحمل والا ہے کہ بیسیوں خطائیں تم سے سرزد ہوتی ہیں اور فوراً گرفت نہیں کرتا۔ اب اس کے نام پر تم سے کوئی سوال کرتا ہے تو اسے مت جھڑکو بلکہ نرمی اور لطف سے پیش آئو۔ یایھا الذین امنوا………………لایھدی القوم الکفرین۔ فرمایا ، اے لوگو ! جو اللہ پر ، آخرت پر ، ضروریات دین پر یقین رکھتے ہو ، اللہ کی راہ میں خرچ کرکے پھر اس کے پیچھے احسان نہ جتائو اور نہ اس آدمی کے لئے جس پر خرچ کیا ہے کوئی تکلیف پیدا کرو ، ورنہ اس طرح تو تمہارا صدقہ باطل ہوجائے گا یعنی یہ کھیتی اجر جائے گی پھل لانے کے قابل نہ رہے گی اور ساری محنت کے ضیاع کے ساتھ انجام حسرت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ تو ایسے ہوا جیسے کوئی دکھلادے کے لئے خرچ کرے نہ اس کا اللہ پر ایمان ہو اور نہ آخرت پر یقین۔ یعنی ریاء ، ایمان اور یقین کو نقصان پہنچاتی ہے اور مومن کے شایان نہیں۔ وہ خرچ اللہ کی رضا کے لئے کرتا ہے۔ اللہ دیکھ رہا ہے جانتا ہے پھر لوگوں میں نمائش بنا کر واہ واہ کروانے کی کیا ضرورت ، اور اگر کوئی لوگوں کو دکھانے اور ان سے اپنی تعریف کروانے کے لئے خرچ کرتا ہے تو اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی سخت چٹان پر معمولی مٹی پڑی ہو اور کوئی اس میں کاشت کرے۔ حتیٰ کہ جب بارش پڑی تو وہ مٹی ہی بہہ کر چلی گئی اور خالی چٹان رہ گئی کچھ ہاتھ نہ لگا۔ یعنی کافر اگر نیکی بھی کرتا ہے تو آخرت پر تو اس کا ایمان نہیں ہوتا۔ محض دکھاوے یا دنیاوی منافع کے لئے کرتا ہے۔ اللہ ایسے ناشکرے لوگوں کو ہدایت کی توفیق بھی عطا نہیں فرماتا کہ اس کی رضا کے مقابلے میں وہ لوگوں سے واہ واہ کے خواہشمند ہوں۔ ومثل الذین ینفقون……………واللہ بما تعلمون بصیر۔ اور جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے اور اپنے دلوں کو ثابت کرکے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی باغ کی بلند زمین پر ہو۔ ربوہ کے معنی صاحب تفسیر مظہری نے یوں فرمائے ہیں کہ ایسی زمین جو نہر کے کنارے نہ اتنی اونچی ہو کہ پانی نہ پہنچ پائے نہ ایسی نیچی کہ پانی جمع رہے بلکہ کناروں کے برابر ہو۔ یہ بہت اعلیٰ زمین کی نشانی ہے اور پھر اس پر ابررحمت بھی خوب کھل کر برسے۔ خوب مزے دار بارش پڑے تو وہ امید سے بھی دوگنا پھل لائے اور اگر زیادہ بارش نہ بھی ہو تو اسے پھلدار بنانے کے لئے تو پھوار بھی کافی ہے یعنی ارادہ خالص ہو کہ نیت زمین ہے بیج اچھا ہو یعنی حلال کا پیسہ ہو سنت کے مطابق خرچ کرے اور لوگوں پر احسان جتانے یا ریاکاری سے اس کی حفاظت کا اہتمام بھی کرے تو پھر دیکھو اس پر کس طرح رحمت باری متوجہ ہوتی ہے اور کتنا زیادہ اجر ملتا ہے۔ اور اللہ تو تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ ایوداحدکم……………لعلکم یتفکرون۔ کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں جاری ہوں اور طرح طرح کے پھلوں سے لدرہا ہو ، زندگی بھر محنت کرکے اسے تیار کرے پھر جب بوڑھا ہو اور اس بڑھاپے میں احتیاج بڑھانے کے لئے چھوٹی چھوٹی اولاد بھی ہو ، عورتیں ہوں۔ یعنی کام کے قابل نہ رہے اور کوئی کام میں ہاتھ بٹانے والا نہ ہو۔ پھر سخت احتیاج بھی ہو کہ عورتوں اور بچوں کا کیا کرے۔ اندریں حالات اس کے باغ میں کوئی بگولا داخل ہو جس میں آگ ہو اور سارے باغ کو جلا کر راکھ کردے تو ذرا غور کرو ، اس کا کیا حال ہوگا۔ ایسے ہی خرچ کرنے کے بعد یعنی حلال کمائے صحیح مصرف پہ خرچ کرے درست طریقے سے خرچ کرے پھر بھی اگر اس میں نمود ونمائش کا پہلو آگیا تو جب موت آئے گی۔ آخرت کو سدھارے گا تو ایسی سخت احتیاج کی حالت میں دیکھے گا ، کہ فساد نیت کی آگ نے کھلا ہوا باغ بھسم کردیا تو یہ کتنا حسرت کا مقام ہوگا۔ اب نہ تو کوئی معاون و مددگار ثابت ہوگا ، نہ تلافی مافات کی فرصت۔ یہ دلائل اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں دعوت فکر ہے۔ خود بھی سوچو اور غور کرو کہ عبادات ضائع نہ ہونے پائیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 261 تا 265 ینفقون (خرچ کرتے ہیں) ۔ حبۃ (دانہ) ۔ انبتت (اگتا ہے۔ (پیدا ہوتی ہے) ۔ سبع (سات) سنابل (بالیں ۔ (سنبلۃ) بال جس میں دانے ہوتے ہیں) ۔ یضعف (دوگنا کرتا ہے) ۔ لا یتبعون (وہ پیچھے نہیں لگتے) ۔ منا (احسان (احسان جتانا) ۔ اذی (تکلیف) ۔ قول معروف (قاعدے کی بات (اچھی بات) ۔ مغفرۃ (معاف کرنا، درگذر کرنا) ۔ غنی (بےپرواہ، بےنیاز) ۔ لا تبطلوا (ضائع نہ کرو۔ (باطل نہ کرو) ۔ رئاء الناس (لوگوں کو دکھانا) ۔ صفوان (صاف پتھر) ۔ تراب (مٹی، (ریت) ۔ وابل (بارش) صلد (صاف (پتھر) ۔ لا یقدرون (وہ قدرت و طاقت نہیں رکھتے) ۔ ابتغاء (تلاش کرنا) ۔ مرضات اللہ (اللہ کی مرضی و خوشنودی) ۔ تثبیتا (ثابت کرنا، ثابت کردیا) ۔ جنۃ (باغ) ۔ ربوۃ (بلندی، اونچائی) ۔ اصاب (پہنچا (پہنچی) ۔ فاتت (پھر وہ لے آیا) ۔ اکل (پھل) لم یصب (نہ پہنچی) ۔ تشریح : آیت نمبر 261 تا 265 اس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ موت وحیات اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے، فرمایا گیا تھا کہ کون ہے وہ شخص جو اللہ کو قرض حسنہ دے گا جس کے بدلے میں اس کا ثواب کئی گنا بڑھا کردیا جائے گا فرمایا گیا کہ اے مومنو ! تم اگر آخرت کی کامیابی چاہتے ہو تو جب بھی ملت کو ضرورت ہو اپنا سب کچھ قربان کر دو اور جب تمہارے غریب اور ضرورت مند بھائی بہنوں کو تمہاری امداد کی ضرورت ہو تو اس میں اس بات کا خاص خیال رکھو کہ کسی کے ساتھ بھلائی کرنے میں کوئی ایسا پہلو نہ آجائے جس سے اس غریب ضرورت مند کی دل شکنی ہو۔ فرمایا کہ انسان کسی سے دو میٹھے بول بول لے وہ اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے دینے کے بعد کسی کو طعنہ دے کر اس کا دل دکھایا جائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ نیک کام میں خرچ کرنا باعتبار نیت کے تین قسم کا ہے ایک نمائش کے ساتھ اس کا کچھ ثواب نہیں دوسرے ادنی درجہ کے اخلاص کے ساتھ اس کا ثواب دس حصہ ملتا ہے تیسرے زیادہ اخلاص یعنی اس کے اوسط یا اعلی درجہ کے ساتھ اس کے لیے اس آیت میں وعدہ ہے دس سے زیادہ سات سو تک علی حسب تفاوت المراتب اور من ذالذی الخ میں سات سو کے وعدہ کے بعد اور زیادہ کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہاں سے صدقات کے بارے میں خطاب شروع ہوتا ہے۔ سابقہ آیات میں صدقہ کرنے کا حکم تھا اور صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف قرار دیا گیا۔ اب صدقہ کی فضیلت ‘ اس کی قبولیت کے اصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیے گئے صدقات کے دنیا اور آخرت میں ثمرات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی ابتداء میں ایمان کے مرکزی اور بنیادی اصولوں میں تیسرا اصول یہ بیان ہوا ہے کہ صاحب ایمان لوگوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اب اسی بنیادی رکن کی مختلف زاویوں سے وضاحت شروع ہوتی ہے جس میں فضیلت، فرضیت اور احتیاطی ہدایات مسلسل 23 آیات میں بیان کی گئی ہیں جو چار رکوع پر مشتمل ہیں۔ صدقات کی ترغیب سے پہلے موت کے بعد اٹھنے کے تین دلائل دیے گئے ہیں۔ ان کی حکمت یہ ہے کہ مرنے کے بعد جس طرح دوسرے اعمال کی جزا اور سزا ملے گی اسی طرح اللہ کے راستے میں کیے گئے صدقات کا نیت اور صدقے کے مطابق پورا پورا اجر ملے گا۔ لہٰذا ترغیب دی جارہی ہے کہ مرنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ اپنے لیے آگے بھیجو۔ تاکہ مشکل وقت میں تمہارے کام آسکے۔ صدقے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ صدقہ ہر حال میں اللہ کی رضا اور اس کی منشا کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایسے صدقے کی مثال اس بیج کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی سو دانہ اٹھائے ہوئے ہو۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب کاشتکار نے صحیح بیج ‘ مناسب وقت اور زرخیز زمین پر کاشتکاری کر کے اس کی اچھی طرح آبیاری اور نگرانی کی ہو۔ ایسی برکت اللہ تعالیٰ ہر اس صدقے میں پیدا فرمائے گا جو اخلاص، للہیت، رزق حلال اور مستحق جگہ اور سنت کے مطابق خرچ کیا جائے۔ ایسے صدقہ کے بارے میں سات سو گنا بڑھانے کی حد بندی نہیں بلکہ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے اخلاص اور جذبات کے مطابق اسے اس سے زیادہ برکت سے نوازیں گے کیونکہ اللہ وسعت و کشادگی دینے اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ قائم نہیں ہوا اور نہ ہی ہوسکتا ہے جو اس قدر اپنے شیئر ہولڈر کو منافع دینے کے لیے تیار ہو۔ جس قدر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے اور کرے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ بَیْنَا رَجُلٌ بِفَلَاۃٍ مِّنَ الْأَرْضِ فَسَمِعَ صَوْتًا فِيْ سَحَابَۃٍ إِسْقِ حَدِیْقَۃَ فُلَانٍ فَتَنَحّٰی ذٰلِکَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَاءَ ہٗ فِيْ حَرَّۃٍ فَإِذَا شَرْجَۃٌ مِنْ تِلْکَ الشَّرَاجِ قَدِاسْتَوْعَبَتْ ذٰلِکَ الْمَاءَ کُلَّہٗ فَتَتَبَّعَ فَإِذَا رَجُلٌ قَاءِمٌ فِيْ حَدِیْقَتِہٖ یُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِہٖ فَقَالَ لَہٗ یَاعَبْدَ اللّٰہِ مَااسْمُکَ قَالَ فُلَانٌ لِلْإِسْمِ الَّذِيْ سَمِعَ فِي السَّحَابَۃِ فَقَالَ لَہٗ یَاعَبْدَ اللّٰہِ لِمَ تَسْأَلُنِيْ عَنِ اسْمِيْ فَقَالَ إِنِّيْ سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِيْ ھٰذَا مَاءُ ہٗ یَقُوْلُ اسْقِ حَدِیْقَۃَ فُلَانٍ لِإِسْمِکَ فَمَا تَصْنَعُ فِیْھَا قَالَ أَمَّا إِذْ قُلْتَ ھٰذَا فَإِنِّيْ أَنْظُرُ إِلٰی مَایَخْرُجُ مِنْھَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِہٖ وَآکُلُ أَنَا وَعِیَالِيْ ثُلُثًا وَأَرُدُّ فِیْھَا ثُلُثَہٗ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب الصدقۃ فی المساکین ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : صحرا میں ایک آدمی نے بادلوں میں آواز سنی کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ تو وہ بادل دوسرے بادلوں سے علیحدہ ہوگیا اور اپنا پانی ایک پتھریلی زمین پر برسایا وہاں ایک نالا پانی سے بھر گیا وہ آدمی اس کے پیچھے پیچھے چلا ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنی کسّی کے ساتھ پانی لگارہا تھا۔ اس آدمی نے پوچھا اللہ کے بندے تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : فلاں، وہی نام جو مسافر نے بادلوں میں سنا تھا۔ نام بتانے والے نے وجہ پوچھی تو سائل نے جواب دیا کہ میں نے اس بارش برسانے والے بادل میں یہ سنا کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ۔ آپ ایسا کونسا عمل کرتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ آپ نے پوچھ لیا ہے تو سنیں کہ میں اس باغ کی کل آمدنی سے ایک تہائی صدقہ کرتا ہوں ‘ ایک تہائی سے گھر کے اخراجات چلاتا ہوں اور ایک تہائی اس پر لگاتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو سات سو گنا سے زیادہ اجر ملے گا۔ تفسیر بالقرآن صدقہ میں برکت : ١۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٢۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٦١) ٤۔ اللہ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ١٩ ایک نظر میں اس پارے میں سابقہ تینوں سبق مجموعی طور پر بعض اساسی ایمانی تصورات کے بارے میں تھے ۔ اور ان میں اس تصور حیات کے بارے میں بعض وضاحتیں کی گئی تھیں ۔ اور مختلف پہلوؤں سے اس کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ یہ اس طویل سورت کی اس لائن کا ایک مرحلہ تھا ، جس پر یہ پوری سورت جارہی ہے یعنی انسانیت کی قیادت کے نصب العین کی راہ میں امت مسلمہ پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے امت کو تیار کرنا جیسا کہ اس سے قبل ہم بات کی تشریح کرچکے ہیں۔ یہاں سے لے کر تقریباً اس سورت کے اختتام تک اب بیان کا رخ ان اساسی معاشی اصولوں کے بیان کی طرف ہے جن پر امت مسلمہ کے اجتماعی نظام کی نیو اٹھائی جانی مقصود ہے ۔ اور جن کے مطابق جماعت مسلمہ کی تنظیم بھی مقصود تھی ۔ اور یہ اجتماعی نظام دراصل باہم تعاون اور تکافل پر مبنی ہے اور جس کی تشکیل عشر وزکوٰۃ اور خیرات وصدقات پر مبنی ہے ۔ اور یہ معاشی نظام اس سودی نظام سے بالکل مختلف ہے ۔ جو اس دور جاہلیت میں رائج تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صدقہ کی فضیلت اور آداب کا بیان کیا جاتا ہے اور ربا کی مذمت کی جاتی ہے ۔ اور اگلے اسباق میں آپ پڑھیں گے کہ قرضہ اور تجارت کے اساسی اصول بیان کئے گئے ہیں اور مجموعی طور پر یہ سب چیزیں اسلام کے اقتصادی نظام کا حصہ ہیں اور اسلام کی اجتماعی زندگی ان پر قائم ہے ۔ آگے آنے والے تینوں اسباق باہم مربوط ہیں ۔ یہ سب دراصل ایک موضوع (اقتصادیات) کے مختلف پہلو ہیں یعنی اسلام کا اقتصادی نظام۔ اس سبق میں انفاق فی سبیل اللہ اور دولت کے خرچ کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ اور اسلام کے ایک اقتصادی پہلو یعنی صدقہ اور اجتماعی کفالتی نظام کے بارے میں زور دیا گیا ہے ۔ یہ بتایا گیا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ دراصل جہاد کی ایک قسم ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ امت مسلمہ پر فرض کیا گیا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کی جانب سے امت مسلمہ پر یہ ڈیوٹی عائد کی گئی ہے کہ وہ پوری دنیا میں اس دعوت کو پھیلائے ۔ پوری دنیا تک اس پیغام کو پہنچائے ۔ پوری دنیا میں اہل ایمان کی حمایت کرے اور پوری دنیا سے شر و فساد اور ظلم و زیادتی کو ختم کردے اور ان تمام قوتوں کو پاش پاش کردے جو اہل اسلام کے مقابلے میں غالب ہیں اور جو زمین پر فساد پھیلاتی ہیں اور اہل دنیا کو اللہ کی سیدھی راہ اپنانے میں رکاوٹ بن رہی ہیں ۔ اور باالفاظ دیگر دنیا کو اس خیر عظیم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔ جس کا حامل اسلامی نظام حیات ہے۔ دنیا کو اس خیر سے محروم کرنا اس قدر بڑا جرم ہے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اور انسانی روح اور انسانی جسم اور مال کے خلاف اس سے بڑی دست درازی اور کوئی فرق نہیں ہے ۔ اس سورت میں بار بار انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے اصول وآداب کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے ۔ یہاں دستور انفاق کی تصویر کشی بڑے ہی پیارے اور مانوس پرتو سے کی جاتی ہے۔ اس کے اجتماعی اصول اور آداب و اثرات اور نفسیاتی مضمرات سے تفصیلاً بحث کی جاتی ہے ۔ ایسے آداب جن کی وجہ سے خود انفاق کرنے والے کی نفسیاتی اصلاح ہوجاتی ہے ۔ اور دوسری جانب صدقہ وصول کرنے والے کے لئے وہ مفید بن جاتا ہے ۔ اور اس کے نتیجہ میں معاشرتی انقلاب یوں برپا ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ اجتماعی طور پر باہم متعاون اور متکافل (Socally Sacure) معاشرہ بن جاتا ہے ۔ اور اس کے افراد میں باہم محبت اور ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس کی وجہ سے انسانیت ایک بلند مقام تک جاپہنچتی ہے ۔ اور جس میں دہندہ اور گیرندہ بالکل ایک ہی سطح کے لوگ بن جاتے ہیں۔ اس حققیت کے باوجود کہ اس سبق میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ عمومی ہیں اور کسی زمان ومکان کی قید کے ساتھ مقید نہیں ہیں ۔ اور ایک دائمی دستور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ لیکن یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس وقت جماعت مسلمہ کے اندر ایسے حالات موجود تھے جن کی اصلاح کے لئے یہ ہدایات اتاری گئیں۔ اور یہ بات بھی عین ممکن ہے کہ آنے والے ادوار میں بھی یہ بات ممکن تھی کہ مستقبل کا اسلامی معاشرہ بھی ایسی ہدایات کا محتاج ہو۔ اس وقت اسلامی معاشرہ میں ایسے اشخاص موجود تھے جن کی نظروں میں مال ہی سب کچھ تھا اور جن کی اصلاح کے لئے ایسی ضربات کی ضرورت تھی اور جن کے لئے اس طرح کی موثر اثر اندازی کی ضرورت تھی ۔ انہیں ضرورت تھی کہ ضرب الامثال کے ذریعہ حقائق کو ان کے مشاہدے میں لایا جائے اور یہ بات ان کی دلی گہرائیوں تک اتر جائے ۔ اس وقت کے معاشرے میں اگر ایک طرف ایسے لوگ تھے جو سود خوری کے بغیر کسی کو مال دینا تصور نہ کرسکتے تھے تو دوسری طرف اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی تھے جو بادل ناخواستہ خرچ کرنے والے تھے یا محض دکھاوے کے لئے خرچ کرتے تھے ۔ بعض ایسے بھی تھے جو خرچ کرکے مسلسل احسان جتاتے تھے اور یوں دوسروں کے لئے باعث اذیت ہوتے تھے ۔ بعض ایسے تھے جو ردی اور بیکار مملوکات اللہ کے نام پر دیتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بہرحال مخلصانہ طور پر اللہ کی راہ میں بھی انفاق کرنے والے موجود تھے جو اپنے بہترین اموال خرچ کیا کرتے تھے جو اگر موقعہ ومحل کا تقاضا خفیہ طور پر خرچ کرنے کا ہو تو خفیہ خرچ کرتے تھے اور اگر موقعہ ومحل علی الاعلان خرچ کرنے کا ہو تو اعلانیہ خرچ کرتے تھے ۔ یہ خرچ خالص اللہ کے لئے ، بالکل پاک اور ستھرا ہوتا تھا۔ اور مذکورہ بالا دونوں قسم کے افراد جماعت مسلمہ میں اس موجود تھے ۔ ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے اور اگر اسے پالیں تو یہ ہمارے لئے نہایت مفید ہوگی۔ اس حقیقت سے پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اس کتاب کی حقیقت کو صحیح طرح پاسکیں گے ۔ اور اس کے مقاصد ہم پر واضح ہوں گے ۔ ہمیں یوں نظر آئے گا کہ قرآن کریم ایک زندہ اور متحرک حقیقت ہے ۔ ان واقعات کی روشنی میں وہ ہمیں مسلسل سرگرم اور متحرک نظر آتا ہے اور قرآن کریم کی یہ تحریک جماعت مسلمہ کے اندر نظر آتی ہے ۔ اس کا مقابلہ واقعی حالات سے ہے ۔ وہ بعض اوقات اور حقائق کو برقرار رکھتا ہے اور بعض حالات کو تبدیل کررہا ہے ۔ یوں یہ جماعت قدم بقدم آگے بڑھ رہی ہے۔ اور قرآن ان حالات کا مقابلہ کررہا ہے ۔ وہ مسلسل فعال اور متحرک ہے ۔ اس کی حرکت میں تسلسل اور دوام ہے ۔ وہ زندگی کے عملی میدان میں برسرپیکار ہے ۔ قرآن کریم ہی اس معاشرہ میں واحد ترقی پسند ، محرک اور عملی میدان میں آگے بڑھنے والا عنصر ہے۔ آج ہمیں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اس نہج پر قرآن کریم کا احساس کریں اور دیکھیں کہ قرآن کریم ایک زندہ حقیقت ، متحرک اور آگے بڑھنے کے لئے اقدام کرنے والا ایک فیکٹر ہے ۔ اس لئے آج تحریک اسلامی ، اسلامی نظام زندگی ، اور اسلامی معاشرہ کے ناپید ہوئے ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے ۔ قرآن کریم ، جس طرح ہم نے اسے محسوس کیا ہے اور سمجھا ہے وہ انسانی تاریخ کے زندہ دھارے سے الگ تھلگ ایک کتاب ہے ۔ آج قرآن کریم کو جس طرح ہم نے سمجھا ہے وہ اس نظام زندگی کا کوئی نقشہ پیش نہیں کرتا جو کبھی یہی قرآن عملاً اس کرہ ارض پر وجود میں لایا تھا اور جو جماعت مسلمہ کی تاریخ میں کبھی زندہ حقیقت تھی ۔ اور اب ہمیں یہ سبق یاد نہیں رہا ہے کہ اس وقت کے مسلم مجاہد اول کے لئے قرآن حکم الیوم (Order of the day) تھا۔ یعنی ان کے لئے قرآن کریم ایسی ہدایات تھا جن پر عمل ضروری تھا ۔ ان پر فرض تھا کہ وہ ہر روز کی ہدایات کو عملاً نافذ کردیں ۔ ہمارے فہم وادراک میں وہ عملی قرآن گویا مر گیا ہے یا وہ سو گیا ہے ۔ اور ہم قرآن کریم کو اس طرح سمجھنے اور محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس طرح اسے دور اول کے مسلمانوں نے سمجھا اور محسوس کیا ۔ ہمارا طرز عمل یہ بن گیا ہے کہ ہم قرآن کریم کو نہایت ہی خوش الحانی اور گلوکاری کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جھومتے ہیں یا ہمارا وجدان اس سے کچھ چالو ، مجمل اور ناقابل فہم وناقابل تاویل تاثرات لیتا ہے یا ہم اس کی تلاوت اوراد کرتے ہیں ، جس سے مومنین صادقین کے دل میں وجد ، خوشی اور قلبی اطمینان کی ایک مبہم اور مجمل سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تلاوت قرآن میں یہ سب فائدے بھی موجود ہیں لیکن ان تمام فوائد کے ساتھ ساتھ اصل مطلوب یہ ہے کہ قرآن قلب مومن میں فہم و فراست اور عمل و حرکت پیدا کردے ۔ اسے زندہ کردے ۔ اعلیٰ ترین مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے دل و دماغ میں ایسی کیفیت پیدا ہوجائے کہ وہ قرآن کریم کی ہدایات کے ساتھ ساتھ ایک زندہ اور عملی زندگی لے کر چلتا رہے ، ایسی زندگی جسے قرآن یہاں رائج کرنا چاہتا ہے اور جس کے لئے اس کا نزول ہوا ہے ۔ ایسی زندگی جسے مومن اس عرصہ کاروزار میں اور اس میدان کشمکش میں پائے ، جس کے لئے ایک مومن اپنے آپ کو ہمیشہ تیار رکھتا ہے ۔ کیونکہ امت مسلمہ کی زندگی میں یہ کشمکش ایک لابدی امر ہے ۔ مطلوب یہ ہے کہ ایک مسلمان قرآن کریم کی طرف اس نیت سے متوجہ ہوکر وہ اس سے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اخذ کرنا چاہتا ہے ۔ بعینہ اس طرح جس طرح ” مسلم اول “ کرتا تھا ، وہ آج کی زندگی ، آج کے واقعات ، آج کے مسائل جو اس کے ارد گرد رواں دواں ہیں ، ان کے بارے میں قرآنی ہدایات واشارات کا طلبگار ہو ۔ اسے چاہئے کہ وہ امت مسلمہ کی تاریخ کی تشریح بھی قرآنی ہدایات کی روشنی میں کرے ۔ قرآنی کلمات واشارات کو اسلامی تاریخ کی تشریح قرار دے ۔ اور یوں محسوس کرے کہ اسلامی تاریخ قرآن کریم سے کوئی علیحدہ تاریخ نہیں ہے ۔ اسلامی تاریخ قرآن کی تاریخ ہے ۔ اور آج امت مسلمہ جس صورت حالات سے دوچار ہے ، وہ بھی قرآنی تاریخ ایک حصہ ہے ۔ آج کے حالات ان حالات کا منطقی نتیجہ ہیں جو اس امت کے اسلاف کو پیش آئے ۔ اس وقت بھی قرآن ان حالات و حوادث میں ایک معین تبدیلی کا خواہاں تھا اور آج بھی یہ قرآن ویسی ہی تبدیلیاں چاہتا ہے ۔ اس لئے ایک مومن یہ محسوس کرتا ہے کہ جس طرح یہ قرآن اس امت کے لئے کتاب عمل تھی ، آج میرے لئے بھی کتاب عمل ہے۔ آج بھی وہ چاہتا ہے کہ اپنے شب وروز کے معاملات میں ، پیش آمد حادثات میں قرآن کی طرف رجوع کرے گا۔ وہ اس کے تصورات اور اس کی فکر کا اصول اساسی ہے ۔ وہ آج بھی اس کی تگ و دو اور اس کی جہد وعمل کا حقیقی محرک ہے ۔ وہ کل بھی اس کے لئے محرک ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی کا محور ہے۔ اس حقیقت کے سمجھ لینے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے ہمیں انسانی فطرت اور انسانی مزاج کی حقیقت اور ماہیت کا واضح ادراک ہوجاتا ہے ۔ دعوت اسلامی اور اس کے عائد کردہ فرائض اور واجبات کو ہمیشہ اس انسانی فطرت سے واسطہ پڑا ہے۔ ان آیات میں پہلی اسلامی جماعت کے حوالے سے ، انسانی فطرت کا جو واضح نقشہ کھینچا گیا ہے اس سے انسانی فطرت اپنی اصلی شکل اور ماہیت میں واضح ہوتی ہے ۔ اس پہلی جماعت پر قرآن نازل ہورہا تھا۔ اس جماعت کے نگران ومربی خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے ۔ اس جماعت کی صفوں میں بعض کمزور پہلو تھے ۔ جن کی اصلاح کی ضرورت تھی ، جن کی طرف مستقلاً توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔ اور جن کی نشاندہی اور جن کی رعایت کی ضرورت تھی ۔ یاد رہے کہ صحابہ کرام (رض) کی اصلاح کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ وہ امت کے تمام طبقات سے برگزیدہ تھے ۔ اس حقیقت کا ادراک ہمارے لئے بہت ہی مفید ہے ۔ یوں ہم ایک انسانی جماعت اور تنظیم کی حقیقت وماہیت بغیر افراط وتفریط کے سمجھ سکیں گے ۔ بغیر اس کے کہ اس مصنوعی خول چڑھائے ہوئے ہوں۔ بغیر اس کے کہ اس کے بارے میں کسی قسم کے گمراہ کن تصورات قائم کئے جائیں ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے دل و دماغ سے مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔ کیونکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام انسانیت کے لئے جو مقام بلند تجویز کرتا ہے ہم اس سے بہت دور ہیں ۔ لہٰذا ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم اس راہ پر چلتے رہیں ۔ اس مقام بلند تک پہنچنے کی جدوجہد جاری رکھیں ۔ اس سے ہمیں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اس حقیقت کو پالیتے ہیں کہ لوگوں کو مقام بلند اور کمال کے اعلیٰ درجوں تک پہنچانے کے لئے مسلسل دعوت کی ضرورت ہے ۔ اس میں کسی وقت بھی کمی ، سستی ، مایوسی اور وقفہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اگرچہ بعض نفوس میں نقص اور عیب پایا جاتا ہو کیونکہ انسان تو ہوتا ہی ایسا ہے ۔ انسان مسلسل دعوت اور اصلاحی جدوجہد کے نتیجے میں اصلاح پذیری کی راہ پر آہستہ آہستہ چلتا ہے ۔ اسے قرآن کے مقام بلند تک پہنچانے کے لئے مسلسل دعوت کی ضرورت ہے ۔ اسے ہمیشہ بھلائی کی یاد دہانی کی ضرورت ہے ۔ ہمیشہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے سامنے بھلائی کو اچھی صورت میں اور شر کو قبیح صورت میں مسلسل پیش کیا جاتا رہے ۔ اور کردار کی کمزوری ، اور نقائص سے اس کے دل میں مسلسل نفرت بٹھانا چاہئے ۔ اور جب بھی وہ بےراہ روی اختیار کرے ، اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صحیح راہ پر ڈال دیا جانا چاہئے ۔ کیونکہ زندگی کا یہ سفر بہت ہی طویل اور کٹھن ہے۔ اس سے ہمیں تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس سادہ حقیقت کو اچھی طرح پالیتے ہیں جس سے بارہا ہم غافل ہوجاتے ہیں ۔ یہ کہ انسان بہرحال انسان ہے ۔ دعوت اسلامی بہرحال اسلام کی طرف بلاوا ہے ۔ اور یہ معرکہ بہرحال انسانوں کا معرکہ اور انسانی جدوجہد ہے ۔ یہ معرکہ سب سے پہلے اپنی ذات کی کمزوریوں ، اپنے ذاتی نقائص اور نفس انسانی میں پوشیدہ جذبات حرص اور بخل کے خلاف ہے ۔ اس کے بعد انسان کے اردگرد پھیلی ہوئی زندگی میں باطل ، شر ، ظلم اور گمراہی کے خلاف معرکہ ہے ۔ یہ ایک قسم کی دوطرفہ جنگ ہے جو ایک داعی کو کرنی ہے ۔ اور اس کرہ ارض پر جماعت مسلمہ کی لیڈر شپ کو یہ دو طرفہ جنگ لازماً لڑنا پڑے گی ۔ جس طرح قرآن کریم کو پہلی مرتبہ یہ جنگ لڑنا پڑی تھی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے پہلے یہ جنگ لڑنا پڑی تھی اور اس مسلسل معرکہ کے دوران یہ امر لازمی ہے کہ کچھ غلطیاں بھی ہوں ، لغزشیں بھی ہوں اور اس کٹھن راہ کے مختلف مراحل میں بعض نقائص اور بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہو۔ اور نئے واقعات اور نئے تجربوں کے دوران ان نقائص اور لغزشوں کی اصلاح بھی ہوتی رہتی رہے ۔ اور اصلاح وہدایت کے معاملے میں قرآن کریم نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے ، اس کے مطابق لوگوں کے دل و دماغ کی اصلاح بھی ہوتی رہے۔ یہاں میں پھر یہ بات کہوں گا جو پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہم تمام حالات ، اور اپنی زندگی کی تمام تگ ودو میں قرآن مجید کو اپنا مشیر اور ہادی بنادیں ۔ یوں نظر آئے کہ ہمارے خیالات سوشعور میں ہماری عملی زندگی میں اور ہمارے تمام معاملات میں قرآن کریم یوں جاری وساری ہے جس طرح پہلی جماعت مسلمہ کی زندگی میں وہ پوری طرح جاری وساری تھا۔ اسلامی نظام زندگی کا آغاز فرائض واجبات سے نہیں ہوتا ۔ اسلام اپنے کام کا آغاز ، محبت ، تالیف قلب اور نیکی کی تحریک سے کرتا ہے ۔ وہ انسانی شعور کو جگاتا ہے اور انسانی زندگی میں زندہ جاوید جذبات پیدا کرتا ہے ۔ وہ انسان کے مطالعہ اور مشاہدہ کے لئے زندگی کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو پھوٹتی ہے ، بڑھتی ہے اور آخر کار ایک مفید پھل دیتی ہے ۔ انسان اس سے ثمرہ حاصل کرتا ہے۔ وہ انسان کے سامنے فصل کی مثال پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور زمین کا ایک عام عطیہ ہے ۔ کھیتی ایک دانہ لیتی ہے لیکن سینکڑوں دانے واپس دیتی ہے تخم اور بیج کی نسبت سے وہ کئی گناحاصلات دیتی ہے ۔ قرآن کریم میں یہ زندہ منظر ان لوگوں کے سامنے رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی کمائی خرچ کرتے ہیں ۔ مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ” جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ “ تعبیر کا یہ تصوراتی انداز حساب و کتاب کے عمل پر جاپہنچتا ہے ۔ ایک دانہ بڑھ کر سات سو دانے بن جاتا ہے لیکن اس مفہوم کو قرآن مجید ، جس زندہ وتابندہ انداز میں پیش کرتا ہے وہ نہایت ہی حسین و جمیل ہے ۔ اس سے انسانی شعور میں ایک قسم کا جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ۔ انسانی ضمیر جاگ اٹھتا ہے ۔ ایک زندہ اور بڑھنے والی فصل کا منظر سامنے آتا ہے ۔ ایک زندہ طبیعت ظاہر ہوتی ہے ۔ پیداوار دینے والا ایک ہر ابھرا کھیت نظروں کے سامنے آتا ہے ۔ عام نباتات کا ایک عام اور عجیب بیش پا افتادہ تجربہ سامنے آتا ہے۔ ایک نال پر سات بالیں ہیں اور ہر بال میں سودانے ہیں ۔ اس زندہ اور نامی منظر کے سامنے انسانی ضمیر بھی بذل وعطا کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن دراصل وہ دیتا نہیں کچھ لیتا ہی ہے ۔ یو یہ عطا اور دادوہش ایک ایسے راستے پر جاتی ہے جس میں وہ کئی گنا نشو ونماپاتی ہے ۔ یوں انسان کا جذبہ دادوہش کئی گنا زیادہ ہوجاتا ہے ۔ اور وہ فصل کی طرح کئی گنا زیادہ حاصلات لاتا ہے ۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے ، اس سے زیادہ حاصلات دیتا ہے ۔ بغیر حساب دیتا ہے اور بیشمار دیتا ہے ۔ وہ اپنی مخلوق کے لئے اس کے رزق میں اس قدر فراوانی کرتا ہے جو بےحد و حساب ہوتی ہے ۔ اس کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ جس کی انتہاؤں کا پتہ نہیں۔ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ................ ” وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ۔ “ وہ اس قدر فراخ دست ہے کہ جس کی عطا میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ وہ نہ ختم ہونے والی ہے اور نہ اس کے جوش میں کمی آنے والی ہے وہ علیم ہے ۔ وہ نیتوں کا مالک ہے۔ نیت اور نیکی پر بھی اجر دیتا ہے ۔ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سا انفاق فی سبیل اللہ ہے جو بڑھتا ہے اور نفع بخش ہے اور وہ کون سی جود وکرم ہے ، جسے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں دوچند کردیتا ہے ؟ جس کے لئے چاہے ۔ یہ انفاق وہ ہے جو انسانی جذبات کو بلند کردے اور انہیں پاک وصاف کردے ۔ وہ انفاق فی سبیل اللہ وہ ہے جو کسی انسان کی شرافت وعزت نفس نہ کچلے ۔ وہ انفاق جسے دلی طہارت اور صفائی کے نتیجے میں روبعمل لایاجائے ۔ وہ محض جذبہ رضائے الٰہی کے تحت کیا جائے ۔ اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد پیش نظر نہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فی سبیل اللہ خرچ کرنے والوں کا اجر وثواب آیت شریفہ میں فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی فضیلت بیان فرمائی۔ اللہ کی رضا کے لیے جو بھی مال خرچ کیا جائے وہ سب فی سبیل اللہ ہے۔ اور عام طور سے یہ لفظ جہاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بہر صورت جہاد میں خرچ کرے یا غیر جہاد میں خرچ کرے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی فضیلت بہت ہے اور یہ تو عام قانون ہے کہ (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا) (جو کوئی شخص ایک نیکی کرے اس کے لیے اس کا دس گنا ہے) ایک نیکی کی دس نیکی یہ تو کم سے کم ہے اور اس کے علاوہ اللہ جل شانہٗ اس سے زیادہ جتنا جس کو بڑھا چڑھا کر عنایت فرمائے وہ مزید انعام و اکرام ہے۔ اس آیت شریفہ میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنیوالوں کے بارے میں ایک مثال بیان فرمائی ہے اور وہ یہ کہ جیسے کوئی دانہ زمین میں گرجائے پھر اس سے ایک درخت نکل آئے اس درخت میں سات بالیں ہوں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اس طرح سے ایک دانہ کے سات سو دانے بن گئے، اللہ تعالیٰ شانہٗ ایک درہم یا ایک دینار یا ایک روپیہ یا ایک پیسہ خرچ کرنے پر اس کے عوض ثواب میں سات سو گنا عطا فرماتے ہیں اور سات سو پر بھی کوئی منحصر نہیں ہے اس سے زیادہ بھی عطا فرمادیتے ہیں جس کو (وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ) میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑی وسعت والا ہے وہ جس کو جتنا چاہے دے سکتا ہے اور وہ علم والا بھی ہے کسی کی کوئی نیکی اس کے علم سے باہر نہیں اس کی رضا کے لیے جو بھی کوئی بدنی یا مالی عبادت انجام دے گا اس کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، آخرت میں اس کا ثواب چند درچند پالے گا۔ سنن ابن ماجہ ص ١٩٨ میں متعدد صحابہ (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ جس نے اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد میں) خرچ کرنے کے لیے مال بھیج دیا اور خود گھر ہی میں رہا تو اسے ہر درہم کے عوض سات سو درہم (کا ثواب) ملے گا اور جس شخص نے اپنی جان سے شریک ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور اللہ کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کیا تو اس کے لیے ہر درہم کے عوض سات لاکھ درہم ہوں گے، یہ فرما کر آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ) کی تلاوت فرمائی۔ تفسیر درمنثور ص ٣٢٦ ؍ ج ١ میں بحوالہ طبرانی حضرت معاذ بن جبل (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ اس کے لیے بہت بڑی خوبی ہے جو فی سبیل اللہ جہاد میں مشغول ہوتے ہوئے اللہ کے ذکر کی کثرت کرے کیونکہ اسے ہر کلمہ کے عوض ستر ہزار نیکیاں ملیں گی جن میں سے ہر نیکی دس گنی کرکے ملے گی اس کے علاوہ جو اس کے لیے اللہ کے نزدیک ہے وہ مزید ہے۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا کیا ثواب ہے آپ نے فرمایا وہ بھی اس قدر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل کے شاگرد نے عرض کیا کہ میں نے یہ سنا ہے کہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا ثواب سات سو گنا ہے انہوں نے فرمایا کہ تو کم سمجھ آدمی ہے۔ یہ سات سو گنا اس وقت ہے جب اپنے گھروں میں رہتے ہوئے جہاد میں خرچ کرنے کے لیے بھیج دیں اور خود جہاد میں شریک نہ ہوں اور جب خود جہاد میں شریک ہوں اور اس وقت خرچ کریں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خزانوں میں ان کے لیے جو کچھ پوشیدہ رکھا ہے وہاں تک بندوں کے علم کی رسائی نہیں ہے اور بندے اس کی کیفیت کے جاننے سے عاجز ہیں۔ یہ لوگ حزب اللہ (اللہ کی جماعت) ہیں اور اللہ کی جماعت غالب ہونے والی ہے۔ حضرت بریدہ اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ حج و جہاد کا خرچ یکساں ہے ایک درہم خرچ کرنا سات ہر درہم خرچ کرنے کے برابر ہے (درمنثور ص ٣٣٧ ج ١) اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں فضل ہی فضل ہے، عطا ہی عطا۔ تھوڑے پر بہت ملتا ہے۔ نیت اللہ کی رضا کی کرنی لازم ہے، آیت بالا میں بھی لفظ فی سبیل اللہ فرما کر اخلاص کی طرف متوجہ فرمایا ہے اور آئندہ آنے والی آیات میں خرچ کرنے کے آداب بتاتے ہوئے ریا کاری کے طور پر خرچ کرنے کی مذمت فرمائی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

519 یہ اخلاص نیت کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ جسے ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے یعنی جو لوگ اخلاص کے ساتھ محض اللہ کی رضا کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے۔ جیسے ایک آدمی زمین میں ایک دانہ بو دیتا ہے۔ اس ایک دانہ سے سات شاخوں والا پودا پھوٹ نکلتا ہے۔ اور ہر شاخ پر ایک ایک خوشہ ہوتا ہے اور ہر خوشہ میں ایک سودانہ ہوتا ہے۔ اس طرح ایک دانہ سے سات سو دانہ حاصل ہوا۔ تو جس طرح ایک دانہ زمین میں کاشت کرنے سے ساتھ سو گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح خدا کی راہ میں خرچ کی ہوئی دولت کی ایک اکائی (پیسہ، آنہ، روپیہ وغیرہ) خدا کے یہاں سات سو گنا بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً ایک روپیہ خرچ کرنے سات سو روپیہ خرچ کرنیگا ثواب ملیگا۔ وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ۔ جہاد میں اخلاص نیت کے ساتھ خرچ کرنے والوں کو سات سو گنا ثواب تو ہر حال میں ملے گا۔ لیکن اگر خرچ کرنے والے کا تقویٰ ، اخلاص نیت اور مال کی طہارت اور پاکیزگی عام سطح سے بلند ہوگی تو اسے سات سو گنا سے بھی زیادہ ثواب ملیگا۔ ای بحسب اخلاصہ فی عملہ (ابن کثیر ص 317 ج 1) المتصدق اذا کان صالحا والمال طیبا ویضعہ موضعہ فیصیر الشواب اکثر (قرطبی ص 303 ج 3) وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۔ وہ بڑی وسعت والا ہے اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں وہ جتنا چاہے دے سکتا ہے اور وہ خرچ کرنے والوں کی نیتوں سے بھی آگاہ ہے اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کتنے ثواب کا مستحق ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان لوگوں کے خرچ کی مثال اور ان کے خیرات کیے ہوئے مالوں کی حالت ایسی ہے جیسے ایک دن کی حالت جس نے سال بالیں اگائیں ۔ یعنی اس سے سال بالیں نکلیں ہر بال میں سو سو دانے ہوئے اور اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے اس سات سو کی تعداد سے بھی اور بڑھا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا صاحب وسعت ، بڑا فیاض اور بڑا صاحب علم ہے۔ (تیسیر) اوپر جو قرض حسنہ کا ذکر کیا تھا اسی کی تفصیل ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضلیت کا بیان ہے۔ فی سبیل اللہ سے مراد یا تو جہاد ہے یا ہر کار خیر میں خرچ کرنے کی فضلیت مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خلوص کے ساتھ خیرات کرتے ہیں اور ان کا مقصد ریا اور دکھاوا نہیں ہوتا ۔ ان کے خرچ کئے ہوئے مالوں کے بڑھنے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانے سے سات سو دانے پیدا ہوتے ہیں اسی طرح ان کا ثواب بھی سات سو تک پہنچتا ہے۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ عام طور سے ایک نیکی کی دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ یعنی دس گنا ثواب ہوتا ہے لیکن کبھی خیرات کرنے والے کے خلوص اور اس کی مشقت کی رعایت سے ثواب سات سو گنا ہوجاتا ہے اور کبھی اس سے بھی زیادہ اور کبھی بیشمار و بےحساب ثواب عطا ہوتا ہے۔ یہی حالت زمین کی پیداوار کی ہے ۔ جیسا کہ باجرے اور جوار وغیرہ میں عام طور سے دیکھا جاتا ہے اور کبھی کبھی گیہوں میں بھی پیداوار کی یہی حالت ہوتی ہے ۔ زمین اچھی ہوا اور وقت پر پانی مل جائے تو ایک دانے سے سات سو دانے اور سات سو سے بھی زائد دانے پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی طرح خیرات کرنے والوں کی خیرات کا حال ہے جس قدر خلوص زیادہ ہوگا اسی قدر ثواب زیادہ ہوگا ۔ ایک مفلس اپنے افلاس کے باوجود جو خیرات کرے گا اس کا اجر وثواب ایک سرماہ دار کی خیرات سے زائد ہوگا ، کیونکہ غریب آدمی کو ایک پیسہ مالک روٹی خیرات کرنی جس قدر مشکل ہے اس کے مقابلہ میں ایک دولت مند کو سو روپے دیدیئے کچھ مشکل نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اجر کی زیادتی اور بڑھوتری خلوص اور مشقت پر موقوف ہے، چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی بناء پر صحابہ کرام کے تھوڑے سے جو کی خیرات کو دوسروں کے پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرنے سے زیادہ فرمایا ہے اور یہ زیادتی محض صحابہ کی خلوص اور غربت کی وجہ سے فرمائی ہے۔ واللہ یضعف لمن یشاء کا ایک مطلب تو یہ ہے جو ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں اختیار کیا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے سات سو سے بھی ثواب بڑھا دیتا ہے اور ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ سات سو کی زیادتی اس کے لئے ہوتی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے بعض حضرات نے دوسرے معنی اختیار کئے ہیں ۔ (واللہ اعلم) ابن مسعود (رض) کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ایک اونٹنی معہ نکیل کے اللہ کی راہ میں دی تھی ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تجھ کو قیامت میں سات سو اونٹنیاں دی جائیں گی ۔ ہر ایک اونٹنی کے نکیل پڑی ہوئی ہوگی ۔ عمران بن حصین کی روایت میں ہے جس نے اللہ کی راہ میں کچھ دیا اور وہ خود جہاد میں شریک نہ ہوسکا ، تو اللہ تعالیٰ ہر درہم کے عوض اس کو سات سو درہم عطا فرمائے گا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ۔ واللہ یضاعف لمن یشاء سبیل اللہ کی صورتیں مختلف ہیں اور ان کے اجر وثواب کی حالتیں بھی مختلف ہیں اس لئے اس کو مختلف عنوان سے مسلسل بیان فرماتے ہیں۔ (تسہیل)