Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 266

سورة البقرة

اَیَوَدُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ تَکُوۡنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنۡ نَّخِیۡلٍ وَّ اَعۡنَابٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ لَہٗ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ وَ اَصَابَہُ الۡکِبَرُ وَ لَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآءُ ۪ۖ فَاَصَابَہَاۤ اِعۡصَارٌ فِیۡہِ نَارٌ فَاحۡتَرَقَتۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۶۶﴾٪  4

Would one of you like to have a garden of palm trees and grapevines underneath which rivers flow in which he has from every fruit? But he is afflicted with old age and has weak offspring, and it is hit by a whirlwind containing fire and is burned. Thus does Allah make clear to you [His] verses that you might give thought.

کیا تم میں سے کوئی بھی یہ چاہتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو ، جس میں نہریں بہہ رہی ہوں اور ہر قسم کے پھل موجود ہوں ، اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو ، اس کے ننھے ننھے سے بچّے بھی ہوں اور اچانک باغ کو بگولا لگ جائے جس میں آگ بھی ہو ، پس وہ باغ جل جائے اسی طرح اللہ تعالٰی تمہارے لئے آیتیں بیان کرتا ہے تاکہ تم غور وفکر کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Example of Evil Deeds Nullifying Good Deeds Allah says; أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ... Would any of you wish to have a garden with date palms and vines, with rive... rs flowing underneath, and all kinds of fruits for him therein, while he is stricken with old age, and his children are weak (not able to look after themselves), then it is struck with a fiery whirlwind, so that it is burnt! Al-Bukhari recorded that Ibn Abbas and Ubayd bin Umayr said that; Umar bin Al-Khattab asked the Companions of the Messenger of Allah, "According to your opinion, about whom was this Ayah revealed, أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ (Would any of you wish to have a garden with date palms and vines...)." They said, "Allah knows best." Umar became angry and said, "Say we know or we do not know." Ibn Abbas said, "O Leader of the Faithful! I have an opinion about it." Umar said, "O my nephew! Say your opinion and do not belittle yourself." Ibn Abbas said, "This is an example set for a deed." Umar said, "What type of deed?" Ibn Abbas said, "For a wealthy man who works in Allah's pleasure and then Allah sends Shaytan to him, and he works in disobedience, until he annuls his good works." This Hadith suffices as an explanation for the Ayah, for it explains the example it sets by a person who does good first and then follows it with evil, may Allah save us from this end. So, this man annulled his previous good works with his latter evil works. When he desperately needed the deeds of the former type, there were none. This is why Allah said, وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ (while he is stricken with old age, and his children are weak (not able to look after themselves), then it is struck with a whirlwind) with heavy wind, فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ (that is fiery, so that it is burnt) meaning, its fruits were burnt and its trees were destroyed. Therefore, what will his condition be like! Ibn Abi Hatim recorded that Al-Awfi said that Ibn Abbas said, "Allah has set a good parable, and all His parables are good. He said, أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَن تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ Would any of you wish to have a garden with date palms and vines, with rivers flowing underneath, and all kinds of fruits for him therein. But he lost all this in his old age, وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ (while he is stricken with old age) while his offspring and children are weak just before the end of his life. Then a lightning storm came and destroyed his garden. Then he did not have the strength to grow another garden, nor did his offspring offer enough help. This is the condition of the disbeliever on the Day of Resurrection when he returns to Allah, for he will not have any good deeds to provide an excuse - or refuge - for him, just as the man in the parable had no strength to replant the garden. The disbeliever will not find anything to resort to for help, just as the offspring of the man in the parable did not provide him with help. So he will be deprived of his reward when he most needs it, just as the man in the parable was deprived of Allah's garden when he most needed it, when he became old and his offspring weak." In his Mustadrak, Al-Hakim recorded that the Messenger of Allah used to say in his supplication, اللَّهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَيَ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّي وَانْقِضَاءِ عُمُرِي O Allah! Make Your biggest provision for me when I am old in age and at the time my life ends. This is why Allah said, ... كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الايَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ Thus Allah makes clear to you His Laws in order that you may give thought. meaning, comprehend and understand the parables and their intended implications. Similarly, Allah said, وَتِلْكَ الاٌّمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَأ إِلاَّ الْعَـلِمُونَ And these similitudes We put forward for mankind; but none will understand them except those who have knowledge (of Allah and His signs). (29:43)   Show more

کفر اور بڑھاپا صحیح بخاری شریف میں ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب نے ایک دن صحابہ سے پوچھا جانتے ہو کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی؟ انہوں نے کہا اللہ زیادہ جاننے والا ، آپ نے ناراض ہو کر فرمایا تم جانتے ہو یا نہیں؟ اس کا صاف جواب دو ، حضرت ابن عباس نے فرمایا امیرالمومنین میرے دِل میں ای... ک بات ہے آپ نے فرمایا بھتیجے کہو اور اپنے نفس کو اتنا حقیر نہ کرو ، فرمایا ایک عمل کی مثال دی گئی ہے ، پوچھا کون سا عمل؟ کہا ایک مالدار شخص جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام کرتا ہے پھر شیطان اسے بہکاتا ہے اور وہ گناہوں میں مشغول ہو جاتا ہے اور اپنے نیک اعمال کو کھو دیتا ہے ، پس یہ روایت اس آیت کی پوری تفسیر ہے اس میں بیان ہو رہا ہے کہ ایک شخص نے ابتداء اچھے عمل کئے پھر اس کے بعد اس کی حالت بدل گئی اور برائیوں میں پھنس گیا اور پہلے کی نیکیوں کا ذخیرہ برباد کردیا ، اور آخری وقت جبکہ نیکیوں کی بہت زیادہ ضرورت تھی یہ خیال ہاتھ رہ گیا ، جس طرح ایک شخص ہے جس نے باغ لگایا پھل اتارتا ہو ، لیکن جب بڑھاپے کے زمانہ کو پہنچا چھوٹے بچے بھی ہیں آپ کسی کام کاج کے قابل بھی نہیں رہا ، اب مدارِ زندگی صرف وہ ایک باغ ہے اتفاقاً آندھی چلی پھر برائیوں پر اتر آیا اور خاتمہ اچھا نہ ہوا تو جب ان نیکیوں کے بدلے کا وقت آیا تو خالی ہاتھ رہ گیا ، کافر شخص بھی جب اللہ کے ہاں جاتا ہے تو وہاں تو کچھ کرنے کی طاقت نہیں جس طرح اس بڈھے کو ، اور جو کیا ہے وہ کفر کی آگ والی آندھی نے برباد کردیا ، اب پیچھے سے بھی کوئی اسے فائدہ نہیں پہنچا سکتا جس طرح اس بڈھے کی کم سن اولاد اسے کوئی کام نہیں دے سکتی ، مستدرک حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا یہ بھی تھی ( اللھم اجعل اوسع رزقک علی عند کبر سنی و انقضاء عمری ) اے اللہ اپنی روزی کو سب سے زیادہ مجھے اس وقت عنایت فرما جب میری عمر بڑی ہو جائے اور ختم ہونے کو آئے ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے سامنے یہ مثالیں بیان فرما دیں ، تم بھی غور و فکر تدبر و تفکر کرو ، سوچو سمجھو اور عبرت و نصیحت حاصل کرو جیسے فرمایا ( آیت وتلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العالمون ) ان مثالوں کو ہم نے لوگوں کیلئے بیان فرما دیا ۔ انہیں علماء ہی خوب سمجھ سکتے ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

266۔ 1 اسی ریاکاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لیے مزید مثال دی جا رہی ہے جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی بھرپور آمدنی کی امید ہو) وہ شخص بوڑھا ہوجائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ضعیفی کی وجہ سے محنت اور مشقت سے عاجز ہوچکا ہو اور اولاد بھی اسکے بڑھاپے کا بوجھ...  اٹھانے کی بجائے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہ ہو اس حالت میں تیز اور تند ہوائیں چلیں اور سارا باغ جل جائے اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا اور نہ اس کی اولاد یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہوگا کہ نفاق و ریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے۔ جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت و فرصت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو ؟ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عمر (رض) نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہوجاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، فتح القدیر للشوکانی تفسیر ابن جریر طبری) ۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨٢] ایک دفعہ حضرت عمر (رض) نے صحابہ (رض) سے اس آیت کا مطلب پوچھا : صحابہ (رض) نے کہا && واللہ اعلم && حضرت عمر (رض) نے غصہ سے کہا (یہ کیا بات ہوئی) صاف کہو کہ ہمیں معلوم ہے یا نہیں معلوم۔ && اس وقت ابن عباس (رض) کہنے لگے : امیر المومنین ! میرے دل میں ایک بات آئی ہے &&a... mp; آپ نے کہا : بھتیجے بیان کرو اور اپنے آپ کو چھوٹا نہ سمجھو۔ && ابن عباس (رض) کہنے لگے : && اللہ نے یہ عمل کی مثال بیان کی ہے۔ && حضرت عمر (رض) نے پوچھا : && کون سے عمل کی ؟ && ابن عباس (رض) اس کا کچھ جواب نہ دے سکے تو حضرت عمر (رض) نے کہا : && یہ ایک مال دار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کردیتا ہے وہ گناہوں میں مصروف ہوجاتا ہے اور اس کے نیک اعمال سب کے سب فنا ہوجاتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یعنی ایسے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے بڑھاپے میں باغ کی پیداوار کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے اور از سر نو باغ لگانے کا موقع بھی نہیں ہوتا اور اس کے بچے اس کی مدد بھی نہیں کرسکتے وہ تو خود اس سے بھی زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ لہذا کوئی نیک عمل مثلاً خیرات کرنے کے بعد اس کی پوری پوری محافظت کرنا بھی ضروری ہے۔ یعنی احسان جتانے، بیگار لینے یا شرک کر بیٹھنے سے اپنے باغ کو جلا نہ ڈالے کہ آخرت میں اسے اپنے اعمال میں سے کوئی چیز بھی ہاتھ نہ آئے جبکہ اس کو اعمال کی شدید ضرورت ہوگی اور اس حدیث میں شیطان کے غالب کرنے سے مراد یہ ہے کہ انسان حصول مال میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ اللہ کی اطاعت سے لاپروا ہوجاتا ہے۔ یا ایسی نافرمانیاں اور کفر و شرک کے کام کرتا ہے جس سے اس کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَهٗ جَنَّةٌ۔۔ : یعنی بڑھاپے میں باغ جلنے پر نہ خود اس میں اتنی طاقت ہے کہ باغ دوبارہ لگا سکے اور نہ اس کی اولاد اس قابل ہے کہ اس کی مدد کرسکے، اسی طرح منافق صدقہ و خیرات کرتا ہے مگر ریا کاری سے کام لیتا ہے تو قیامت کے دن، جو نہایت احتیاج کا وقت ہوگا، اس کا ثواب ضا... ئع ہوجائے گا اور اس وقت ثواب حاصل کرنے کے لیے دوبارہ نیکی کا وقت بھی نہیں ہوگا۔ صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے اس کی ایک دوسری تفسیر آئی ہے، جس کی تائید عمر (رض) نے کی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ مثال اس شخص کی ہے جو عمر بھر نیک عمل کرتا رہتا ہے، لیکن آخر عمر میں اس کی سیرت بدل جاتی ہے اور نیک عمل کے بجائے برے عمل کرنے لگتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی پہلی نیکیاں بھی برباد کرلیتا ہے اور قیامت کے دن، جو بہت تنگی کا وقت ہوگا، وہ نیکی اس کے کچھ کام نہ آئے گی اور اس نازک وقت میں اس کا عمل اس سے خیانت کرے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” بندہ لوگوں کی نگاہ میں جنتیوں کے سے عمل کرتا ہے، حالانکہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور بعض دفعہ بندہ لوگوں کی نگاہ میں دوزخیوں کے سے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور اعمال کا دارومدار تو آخری وقت کے اعمال پر ہے۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب الأعمال بالخواتیم ۔۔ : ٦٤٩٣، عن سہل بن سعد (رض) ] مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ : میں ” مِنْ “ تبعیضیہ اور ” كُلِّ الثَّمَرٰتِ ۙ“ کی وجہ سے ” ہر قسم کے کچھ نہ کچھ پھل “ ترجمہ کیا گیا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 266, the sixth under discussion, the statement, that صدقہ sadaqah can be rendered void and rejected if one acts against conditions set forth for the acceptance of charitable spendings, has been illustrated with yet another example. It was asked: Does anyone among you like that he owns a fruit farm, growing dates and grapes with streams flowing underneath, and trees laden with all sorts of...  fruits -- then comes old age for the owner and he has children and a family that can-not stand on their own. Under these conditions comes a whirlwind through the farm with fire in it and which burns the farm out. This is how Allah Almighty brings forth illustrative parallels so that you may think. It means that spending in charity against given conditions is like hoping to be investing profusely in the Hereafter, but with Allah Almighty this investment comes to naught. It may be noted that there are a series of qualifications added to this similitude-for instance, &came his old age, he has children too and the children are young and weak.& These have a purpose. Isn&t it that a person, if young, can look forward to having a new farm when his old farm burns out? Then, a person who has no children, and no hope to reactivate his burnt farm, he will not be so worried about his livelihood since a single man can get by even in adversity, one way or the other. Then there is the situation of one who has children, who are good and young with the hope that they would help the father out. In such a situation, a person is not that shocked even if his farm is burnt or plundered since he is free of the needs of his adult children who can themselves carry him through. In short, these three riding restrictions were introduced to describe the intensity of need when it was said that a person who spent his capital and labour and set up a fruit farm; the farm became ready and started yielding fruit as well. In this condition, came his old age and the days of weakness. Now this person has children and family. The children are very young and weak. Under these circumstances, should the farm he groomed burn out, his shock would be severe and the pain caused would be limitless. Similarly one who has given his charity with hypocrisy is as if he set up a farm. Then came death after which his condition became equal to that of the old man who cannot earn his living and cannot set up the farm all over again. This is because human deeds cease to be after death. Similarly, an old man with children and family needs that his previous earnings be safe so that they can be used during old age. If, in this condition, his farm and his belongings burn out, there will be no limit to his pain and distress. Very much like this, the صدقہ sadaqah and khayrat خیرات ، the spendings in charity, which were made hypocritically or for self-promotion, will not come to help him exactly when he would need them most. Summarising this whole verse, it could be said that ikhlas اخلاص or sincerity is one big condition governing the acceptance of صدقہ sadaqah and khayrat خیرات with Allah. This sincerity means that one should spend exclusively for the good pleasure of Allah Almighty without any admixture of self-promoting ends. Now let us look at all the verses in this whole section once again. We shall discover that there are six conditions governing the acceptance, in the sight of Allah, of spendings in His way (صدقہ sadaqah صدقہ and khayrat خیرات ). These are: 1. Spend from halal حلال belongings. 2. Spend according to the prescribed practice (Sunnah). 3. Spend in proper place. 4. Do not remind of favour after having done it. 5. Do nothing to insult the receiver. 6. Spend with sincerity of intention, exclusively for the good pleasure of Allah Almighty, never doing it for the sake of name and fame. The second condition, that is, spending according to Sunnah, means that one should be careful while spending in the way of Allah that rights due to someone may not be usurped. This is no act of thawab ثواب (reward) that one indulges in sadaqah صدقہ and khayrat خیرات (charity) by stopping or limiting the necessary expenses on his family without their assent. Depriving the needy inheritors and bequeathing the whole inheritance or giving out everything in sadaqah صدقہ and khayrat خیرات is against the teachings of Sunnah. Then there are a thousand forms of spending in the way of Allah. The sunnah method requires that the place to spend must be selected carefully giving thought to involved factors of importance, need, urgency etc. Usually people who spend do not bring these into consideration. The essence of the third condition is that spending at a place or in a cause with even good intention is not good enough. This will not suffice to make it an act of thawab ثواب . It is also necessary that the place or cause of spending should be permissible and commendable in the sight of the Shari&ah. If a person was to bequeath his property for impermissible games and amusements he would be deserving of ` adhab عذاب (punishment) rather than thawab ثواب (reward). This holds good for all other possible avenues of investment which are not desirable in the view of the Shari&ah.  Show more

چھٹی آیت میں صدقہ و خیرات میں شرائط مذکورہ کی خلاف ورزی کرنے پر صدقہ کے باطل و مردود ہونے کا بیان بھی ایک مثال میں اس طرح واضح فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجور اور انگوروں کا اس کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور اس شخص کے باغ میں ہر قسم کے میوے ہوں اور اس شخص کا بڑھا... پا آگیا ہو اور اس کے اہل و عیال بھی ہوں جن میں قوت نہیں ان حالات میں اس باغ پر ایک بگولہ آوے میں جس میں آگ ہو پھر وہ باغ جل جاوے اللہ تعالیٰ اسی طرح نظائر بیان فرماتے ہیں تمہارے لئے تاکہ تم سوچا کرو۔ مطلب یہ ہے کہ خلاف شرائط صدقہ کرنے کی مثال ایسی ہی ہے کہ بظاہر وہ صدقہ کرکے آخرت کے لئے بہت سا ذخیرہ جمع کر رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ذخیرہ کچھ بھی کام نہیں آتا۔ اور اس کی مثال میں جو چند قیدیں بڑھائی گئیں کہ اس کا بڑھاپا آگیا اس کے اولاد بھی ہے اور اولاد بھی چھوٹے بچے جو ضعیف کمزور ہیں ان قیدوں کا مقصد یہ ہے کہ جوانی کی حالت میں کسی کا باغ یا کھیتی جل جائے تو اسے یہ امید ہوسکتی ہے کہ پھر باغ لگالوں گا، اور جس شخص کے اولاد نہ ہو اور اس کو دوبارہ باغ لگانے کی امید بھی نہ ہو تو باغ جل جانے کے بعد بھی اس کو کوئی خاص فکر معاش کی نہیں ہوتی، اکیلا آدمی جس طرح چاہے تنگی ترشی سے گذارا کرسکتا ہے اور اگر اولاد بھی ہو مگر جوان صالح ہوں جن سے یہ توقع کی جائے کہ وہ باپ کا ہاتھ بٹائیں گے اور مدد کریں گے ایسی صورت میں بھی انسان کو باغ کے جل جانے یا لٹ جانے پر بھی کچھ زیادہ صدمہ نہیں ہوتا کیونکہ اولاد کی فکر سے فارغ ہے بلکہ اولاد اس کا بھی بوجھ اٹھا سکتی ہے، غرض یہ تینوں قیدیں شدت احتیاج کو بیان کرنے کے لئے لائی گئیں، کی ایسا شخص جس نے اپنا مال اور محنت خرچ کرکے ایک باغ لگایا اور وہ باغ تیار ہو کر پھل بھی دینے لگا اور اسی حالت میں اس کا بڑھاپا اور کمزوری کا زمانہ بھی آگیا اور یہ شخص صاحب عیال بھی ہے اور عیال بھی چھوٹے اور کمزور بچے ہیں تو ان حالات میں اگر لگایا ہوا باغ جل جائے تو صدمہ شدید ہوگا اور تکلیف بےحد ہوگی۔ اسی طرح جس شخص نے ریاء کاری سے صدقہ و خیرات کیا یہ گویا اس نے باغ لگایا پھر موت کے بعد اس کی حالت اس بوڑھے جیسی ہوگئی جو کمانے اور دوبارہ باغ لگانے کی قدرت نہیں رکھتا، کیونکہ موت کے بعد انسان کا کوئی عمل ہی نہیں رہا اور جس طرح عیال دار بوڑھا اس کا بہت محتاج ہوتا ہے کہ پچھلی کمائی محفوظ ہو تاکہ ضعیفی میں کام آئے اور اگر اس اس حالت میں اس کا باغ اور مال و متاع جل جائے تو اس کے دکھ اور درد کی انتہا نہ رہے گی اسی طرح یہ صدقہ و خیرات جو ریاء ونمود کے لئے کیا گیا تھا عین ایسے وقت ہاتھ سے جاتا رہے گا جب کہ وہ اس کا بہت حاجتمند ہوگا۔ اس پوری آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ صدقہ و خیرات کے اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کی ایک بڑی شرط اخلاص ہے کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے خرچ کیا جائے کسی نام ونمود کا اس میں دخل نہ ہو۔ اب اس پورے رکوع کی تمام آیات پر مکرر نظر ڈالئے تو ان سے انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ و خیرات کے اللہ کے نزدیک مقبول ہونے کی چھ شرائط معلوم ہوں گی۔ اول اس مال کا حلال ہونا جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، دوسرے طریق سنت کے مطابق خرچ کرنا، تیسرے صحیح مصرف میں خرچ کرنا، چوتھے خیرات دے کر احسان نہ جتلانا، پانچویں ایسا کوئی معاملہ نہ کرنا جس سے ان لوگوں کی تحقیر ہو جن کو یہ مال دیا گیا ہے، چھٹے جو کچھ خرچ کیا جائے اخلاص نیت کے ساتھ خالص اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لئے ہو نام ونمود کے لئے نہ ہو۔ دوسری شرط یعنی طریق سنت کے مطابق خرچ کرنا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت اس کا لحاظ رہے کہ کسی حقدار کی حق تلفی نہ ہو اپنے عیال کے ضروری اخراجات بغیر ان کی رضامندی کے بند یا کم کرکے صدقہ و خیرات کرنا کوئی امر ثواب نہیں، حاجتمند وارثوں کو محروم کرکے سارے مال کو صدقہ و خیرات یا وقف کردینا تعلیم سنت کے خلاف ہے پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ہزاروں صورتیں ہیں۔ طریق سنت یہ ہے کہ مصرف کی اہمیت اور ضرورت کی شدت کا لحاظ کرکے مصرف کا انتخاب کیا جائے عام طور پر خرچ کرنے والے اس کی رعایت نہیں کرتے۔ تیسری شرط کا حاصل یہ ہے کہ ثواب ہونے کے لئے صرف اتنی بات کافی نہیں کہ اپنے خیال میں کسی کام کو نیک سمجھ کر نیک نیتی سے اس میں صرف کردے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مصرف شریعت کی رو سے جائز اور مستحسن بھی ہو کوئی شخص ناجائز کھیل تماشوں کے لئے اپنی جائیداد وقف کردے تو وہ بجائے ثواب کے عذاب کا مستحق ہوگا یہی حال تمام ان کاموں کا ہے جو شریعت کی رو سے مستحسن نہیں ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝ ٠ ۙ لَہٗ فِيْہَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝ ٠ ۙ وَاَصَابَہُ الْكِبَرُ وَلَہٗ ذُرِّيَّۃٌ ضُعَفَاۗءُ ۝ ٠ ۠ۖ فَاَصَابَہَآ اِعْصَارٌ فِيْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَك... ُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ۝ ٢٦٦ ۧ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ نخل النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ. ( ن خ ل ) النخل ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛ عنب العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی: وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] ، ( عن ن ب ) العنب ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل/ 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء/ 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد/ 4] اور انگوروں کے باغ ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] وقال تعالی: جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] ، وقال : وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] ، وقال تعالی: فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] ، وقال : إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] ، أي : السفینة التي تجري في البحر، وجمعها : جَوَارٍ ، قال عزّ وجلّ : وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] ، وقال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] ، ويقال للحوصلة : جِرِّيَّة إمّا لانتهاء الطعام إليها في جريه، أو لأنها مجری الطعام . والإِجْرِيَّا : العادة التي يجري عليها الإنسان، والجَرِيُّ : الوکيل والرسول الجاري في الأمر، وهو أخصّ من لفظ الرسول والوکيل، وقد جَرَيْتُ جَرْياً. وقوله عليه السلام : «لا يستجرینّكم الشّيطان» يصح أن يدّعى فيه معنی الأصل . أي : لا يحملنّكم أن تجروا في ائتماره وطاعته، ويصح أن تجعله من الجري، أي : الرسول والوکيل ومعناه : لا تتولوا وکالة الشیطان ورسالته، وذلک إشارة إلى نحو قوله عزّ وجل : فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] ، وقال عزّ وجل : إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] . ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهارُ [ الكهف/ 31] باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ [ الروم/ 46] اور تاکہ کشتیاں چلیں فِيها عَيْنٌ جارِيَةٌ [ الغاشية/ 12] اس میں چشمے بہ رہے ہوں گے اور آیت کریمہ ؛ إِنَّا لَمَّا طَغَى الْماءُ حَمَلْناكُمْ فِي الْجارِيَةِ [ الحاقة/ 11] جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لو گوں کو کشتی میں سوار کرلیا ۔ میں جاریۃ سے مراد کشتی ہے اس کی جمع جوار آتی ہے جیسے فرمایا ؛۔ وَلَهُ الْجَوارِ الْمُنْشَآتُ [ الرحمن/ 24] اور جہاز جو اونچے کھڑے ہوتے ہیں ۔ وَمِنْ آياتِهِ الْجَوارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلامِ [ الشوری/ 32] اور اسی کی نشانیوں میں سے سمندر کے جہاز ہیں ( جو ) گویا یا پہاڑ ہیں ۔ اور پرند کے سنکدانہ کو جریۃ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ کھانا چل کر وہاں پہنچتا ہے اور یا اس لئے کہ وہ طعام کا مجریٰ بنتا ہے ۔ الاجریات عاوت جس پر انسان چلتا ہے ۔ الجری وکیل ۔ یہ لفظ رسول اور وکیل سے اخص ہی ۔ اور جرمت جریا کے معنی وکیل بنا کر بھینے کے ہیں اور حدیث میں ہے :۔ یہاں یہ لفظ اپنے اصل معنی پر بھی محمول ہوسکتا ہے یعنی شیطان اپنے حکم کی بجا آوری اور اطاعت میں بہ جانے پر تمہیں بر انگیختہ نہ کرے اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ جری بمعنی رسول یا وکیل سے مشتق ہو اور معنی یہ ہونگے کہ شیطان کی وکالت اور رسالت کے سرپر ست مت بنو گویا یہ آیت کریمہ ؛ فَقاتِلُوا أَوْلِياءَ الشَّيْطانِ [ النساء/ 76] شیطان کے مددگاروں سے لڑو ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے اور فرمایا :إِنَّما ذلِكُمُ الشَّيْطانُ يُخَوِّفُ أَوْلِياءَهُ [ آل عمران/ 175] یہ ( خوف دلانے والا ) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈرتا ہے ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ ذر الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] ( ذ ر ر) الذریۃ ۔ نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة/ 124] اور میری اولاد میں سے بھی ضعف والضَّعْفُ قد يكون في النّفس، وفي البدن، وفي الحال، وقیل : الضَّعْفُ والضُّعْفُ لغتان . قال تعالی: وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] ( ض ع ف ) الضعف اور الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی اور اس میں ضعف اور ضعف ( ولغت ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفاً [ الأنفال/ 66] اور معلوم کرلیا کہ ابھی تم میں کس قدر کمزور ی ہے ۔ عصر العَصْرُ : مصدرُ عَصَرْتُ ، والمَعْصُورُ : الشیءُ العَصِيرُ ، والعُصَارَةُ : نفاية ما يُعْصَرُ. قال تعالی:إِنِّي أَرانِي أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف/ 36] ، وقال : وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] ، أي : يستنبطون منه الخیر، وقرئ : (يُعْصَرُونَ ) أي : يمطرون، واعْتَصَرْتُ من کذا : أخذت ما يجري مجری العُصَارَةِ ، قال الشاعر : وإنّما العیش بربّانه ... وأنت من أفنانه مُعْتَصِرٌ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم/ 14] ، أي : السحائب التي تَعْتَصِرُ بالمطر . أي : تصبّ ، وقیل : التي تأتي بالإِعْصَارِ ، والإِعْصَارُ : ريحٌ تثیر الغبار . قال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة/ 266] . والاعْتِصَارُ : أن يغصّ فَيُعْتَصَرَ بالماء، ومنه : العَصْرُ ، والعَصَرُ : الملجأُ ، والعَصْرُ والعِصْرُ : الدّهرُ ، والجمیع العُصُورُ. قال : وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر/ 1- 2] ، والعَصْرُ : العشيُّ ، ومنه : صلاة العَصْرِ وإذا قيل : العَصْرَانِ ، فقیل : الغداة والعشيّ وقیل : اللّيل والنهار، وذلک کالقمرین للشمس والقمر والمعْصِرُ : المرأةُ التي حاضت، ودخلت في عَصْرِ شبابِهَا ( ع ص ر ) العصر ( ع ص ر ) العصر یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑ نا المعصور : أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف/ 36] انی اعصر خمرا ( دیکھتا کیو ہوں ) کہ شراب ( کے لئے انگور ) نچوڑ رہا ہوں ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ایک قرات میں یعصرون ہے یعنی اسی سال خوب بارش ہوگی اعتصرت من کزا کے معنی کسی چیز سے خیرو برکت حاصل کرنا کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 312 ) وانما العیش بربانہ وانت من افنانہ معتصر زندگی کا لطف تو اٹھتی جوانی کے ساتھ ہے جب کی تم اس کی شاخوں سے رس نچوڑتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ عم/ 14] اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ بر سایا ۔ میں معصرات سے مراد بادلوں ہیں جو پانی نچوڑتے یعنی گراتے ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ معصرات ان بادلوں کو کہا جاتا ہے جو اعصار کے ساتھ آتے ہیں اور اعصار کے معنی ہیں گردو غبار والی تند ہوا قرآن میں ہے : ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر ۔۔۔۔۔۔۔ بگولہ چلے ۔ الاعتصار کے معنی کیس چیز کو دبا کر اس سے دس نچوڑنے کے ہیں اسی سے عصروعصر ہے جس کے معنی جائے پناہ کے ہیں العصر والعصروقت اور زمانہ اس کی جمع عصور ہے قرآن میں : ۔ وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ [ العصر/ 1- 2] زمانہ کی قسم کہ انسان نقصان میں ہے ۔ العصر کے معنی العشی بھی آتے ہیں یعنی زوال آفتاب سے غروب شمس تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر ( نماز عصر ) ہے العصران صبح شام رات دن اور یہ القمران کی طرح ہے جس کے معنی ہیں چاند اور سورج المعصر وہ عورت جسے حیض آجائے اور جوانی کی عمر کو پہنچ گئی ہو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ حرق يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ، و ( لنحرقنّه) قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق ۔ ( ح ر ق ) احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ فكر الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف/ 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد/ 3] ( ف ک ر ) الفکرۃ اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم/ 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦٦) بھلا تم میں سے کسی شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اس کے پاس انگوروں کا باغ ہو اور درختوں اور مکانات کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں اور اس باغ میں مختلف قسموں کے پھل ہوں پھر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کسی کام کا نہ رہے اور اچانک یہ باغ ایک گرم یا ٹھنڈے بگولے کی لپیٹ میں آجائے، جس سے وہ بالکل ختم ہوجائے (تم ... میں سے کوئی بھی شخص یہ چیز گوارا نہیں کرسکتا) اللہ تعالیٰ اوامرو نواہی کی یہ نشانیاں بیان فرماتے ہیں تاکہ قرآنی مثالوں پر غور کرو، آخرت میں کافروں کی یہی مثال ہوگی کہ وہاں بغیر کسی تدبیر کے باقی رہ جائے گا اور نہ دنیا ہی میں پھر لوٹ کر آنے کا موقع ملے گا جیسا کہ بوڑھا بغیر تدبیر کے رہ جاتا ہے کہ اب جوانی کی قوت و طاقت بھی واپس نہیں لاسکتا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦٦ (اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ لا) اہل عرب کے نزدیک یہ ایک آئیڈیل باغ کا نقشہ ہے ‘ جس میں کھجور کے درخت بھی ہوں اور انگور کی بیلیں بھی ہوں ‘ پھر اس میں آب پاشی کا قدرتی انتظام ہو۔ (لَہٗ فِیْہَا مِنْ کُلِّ ال... ثَّمَرٰتِ لا) (وَاَصَابَہُ الْکِبَرُ وَلَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآءُص) (فَاَصَابَہَآ اِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ط) یعنی ایک انسان ساری عمر یہ سمجھتا رہا کہ میں نے تو نیکیوں کے انبار لگائے ہیں ‘ میں نے خیراتی ادارے قائم کیے ‘ میں نے فاؤنڈیشن بنائی ‘ میں نے مدرسہ قائم کیا ‘ میں نے یتیم خانہ بنادیا ‘ لیکن جب اس کا نامہ اعمال پیش ہوگا تو اچانک اسے معلوم ہوگا کہ یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ ع جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا ! بس باد سموم کا ایک بگولا آیا اور سب کچھ جلا گیا۔ اس لیے کہ اس میں اخلاص تھا ہی نہیں ‘ نیت میں کھوٹ تھا ‘ اس میں ریاکاری تھی ‘ لوگوں کو دکھانا مقصود تھا۔ پھر اس کا حال وہی ہوگا جس طرح کہ وہ بوڑھا اب کف افسوس مل رہا ہے جس کا باغ جل کر خاک ہوگیا اور اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہیں۔ وہ خود بوڑھا ہوچکا ہے اور اب دوبارہ باغ نہیں لگا سکتا۔ اس شخص کی مہلت عمر بھی ختم ہوچکی ہوگی اور سوائے کف افسوس ملنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

307. It is obvious that a man does not like to see the earnings of his lifetime destroyed in his old age, when he needs them badly and when he can no longer earn. How is it, then, that he can contemplate stepping into the realm of the Hereafter and finding suddenly that he is empty-handed; that he has sown nothing from which he can reap the fruit? In the Next World there will he no opportunity to ... begin earning anew. Whatever one can do towards ensuring one's well-being in the Hereafter must he done in this world. If one devotes oneself totally to the pursuit of the riches of this world rather than to the Hereafter, one's situation will be as pitiable as that of the age-stricken man whose orchard (his source of income in his old age) is reduced to ashes too late for him to produce a new one.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :307 یعنی اگر تم یہ پسند کرتے کہ تمہاری عمر بھر کی کمائی ایک ایسے نازک موقع پر تباہ ہوجائے ، جبکہ تم اس سے فائدہ اٹھانے کے سب سے زیادہ محتاج ہو اور ازسر نو کمائی کرنے کا موقع بھی باقی نہ رہا ہو ، تو یہ بات تم کیسے پسند کر رہے ہو کہ دنیا میں مدت العمر کام کرنے کے بعد آخر... ت کی زندگی میں تم اس طرح قدم رکھو کہ وہاں پہنچ کر یکایک تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا پورا کارنامہ حیات یہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا ، جو کچھ تم نے دنیا کے لیے کمایا تھا ، وہ دنیا ہی میں رہ گیا ، آخرت کے لیے کچھ کما کر لائے ہی نہیں کہ یہاں اس کے پھل کھا سکو ۔ وہاں تمہیں اس کا کوئی موقع نہ ملے گا کہ ازسرنو اب آخرت کے لیے کمائی کرو ۔ آخرت کے لیے کام کرنے کا جو کچھ بھی موقع ہے ، اسی دنیا میں ہے ۔ یہاں اگر تم آخرت کی فکر کیے بغیر ساری عمر دنیا ہی کی دھن میں لگے رہے اور اپنی تمام قوتیں اور کوششیں دنیوی فائدے تلاش کرنے ہی میں کھپاتے رہے ، تو آفتاب زندگی کے غروب ہونے پر تمہاری حالت بعینہ اس بڈھے کی طرح حسرت ناک ہوگی ، جس کی عمر بھر کی کمائی اور جس کی زندگی کا سہارا ایک باغ تھا اور وہ باغ عین عالم پیری میں اس وقت جل گیا ، جبکہ نہ وہ خود نئے سرے سے باغ لگا سکتا ہے اور نہ اس کی اولاد ہی اس قابل ہے کہ اس کی مدد کر سکے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

181: صدقات کو برباد کرنے کی یہ دوسری مثال ہے۔ جس طرح ایک آگ سے بھرا بگولا ہرے بھرے باغ کو یکایک تباہ کر ڈالتا ہے، اسی طرح ریاکاری یا صدقہ دے کر احسان جتلانا یا کسی اور طرح غریب آدمی کو ستانا صدقے کے عظیم ثواب کو برباد کرڈالتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:266) ایود۔ ا ہمزہ استفہام انکاری ہے۔ یود مضارع واحد مذکر غائب مودۃ (باب سمع) سے مصدر وہ پسند کرتا ہے وہ پسند کرے گا۔ وہ خواہش کرتا ہے۔ آرزو کرتا ہے۔ ان یکون لہ۔ میں ان مصدریہ ہے۔ کہ ہو اس کے لئے ایک باغ۔ من نخیل واعناب۔ کھجوروں اور انگوروں کا۔ صفت ہے جنۃ کی۔ تجری من تحتھا الانھر۔ دوسری صفت جن... ۃ کی اور لہ فیہا من کل الثمرات۔ تیسری صفت ہے جنۃ کی۔ نخیل کھوریں۔ کھجور کے درخت۔ اعناب۔ عنب کی جمع بمعنی انگور۔ تجری۔ مضارع واحد مؤنث غائب۔ جری وجریان (باب ضرب) مصدر وہ بہتی ہے وہ چلتی ہے۔ وہ جاری ہے من تحتہا۔ اس کے نیچے سے۔ تحت ضد ہے فوق کی۔ اسم ظرف ہے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جس کا مرجع جنۃ ہے۔ تجری من تحتھا الانھر۔ اس (باغ) کے نیچے یا اس باغ میں نہریں چلتی ہوں۔ چونکہ باغ میں چلنے والی نہریں باغ کے درختوں وغیرہ کے نیچے زمین پر ہوتی ہیں اس لئے درختوں کی مناسبت سے لفظ تحت استعمال ہوا ہے اس مقصد کے لئے لفظ خلل بمعنی وسط۔ درمیان ، بیچ بھی استعمال ہوا ہے۔ مثلاً وفجرنا خللہما نھرا (18:33) اور دونوں کے بیچ میں ہم نے ایک نہر جاری کر رکھی ہے۔ یا او تکون لک جنۃ من نخیل وعنب فتفجر الانھر خللہا تفجیرا 17:91) یا تمہارا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو۔ لہ فیہا۔ میں ل بمعنی ملک (مالک ہونے کے) ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع احدکم ہے۔ واصابۃ الکبر۔ حال ہے احد سے اور ولہ ذریۃ ضعفاء حال ہے اصابہ کی ضمیر سے۔ الکبر۔ مصدر و اسم مصدر (باب کرم) سے۔ برا ہونا۔ بوڑھا ہونا، بڑھاپا۔ ذریۃ ضعفائ۔ موصوف صفت۔ ننھے ننھے۔ ضعیف و ناتواں بچے۔ فاصابھا۔ میں ف عاطفہ ہے اصاب ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ اصابۃ (باب افعال) مصدر۔ اس نے آلیا۔ اس نے پالیا۔ وہ آپہنچا۔ وہ آپڑا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب جس کا مرجع جنۃ ہے ۔ اور اس (باغ) کو آلیا۔ اعصار۔ تیز اور طوفانی ہوا۔ جو زمین سے بشکل عمودی اوپر کو جاتی۔ بگولہ۔ اس کی جمع اعاصر واعاصیر ہے۔ عصر مادہ ہے اس سے العصر (مصدر) کا معنی نچوڑنا ہے۔ اور المعصور۔ وہ چیز جسے نچوڑا گیا ہو۔ اور العصارۃ شیر ہ جو نچوڑ کر نکال لیا جاتا ہے۔ نچوڑنے کے معنی میں قرآن مجید میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً وفیہ یعصرون (12:49) اور لوگ اس میں رس نچوڑیں گے۔ اور انی ارنی اعصر خمرا (12: 36) میں اپنے آپ کو (خواب) میں دیکھتا ہوں کہ شراب (کے لئے) انگور نچوڑ رہا ہوں۔ اسی مادہ سے العصر بمعنی زمانہ اور بمعنی العشی بھی ہے یعنی زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک کا زمانہ اسی سے صلاۃ العصر (نماز عصر) ہے۔ فیہ۔ ای فی اعصار۔ بگولہ میں۔ فاحترقت۔ ف عاطفہ سببیہ ہے۔ احترقت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ احتراق افتعال سے مصدر ۔ جس کے معنی جلنے کے ہیں۔ فعل لازم ہے۔ پس وہ جل گئی۔ ضمیر فاعل مؤنث جنۃ کے لئے ہے۔ یعنی اس آگ بگولے کے سبب باغ جل گیا۔ فائدہ : تفسیر حقانی میں اس تمثیل کی شرح یوں بیان کی گئی ہے :۔ یہ ایک اور مثال اس شخص کے لئے بیان کی گئی ہے جو خیرات و صدقہ خلوص نیت سے نہیں دیتا یا دے کر احسان جتلاتا اور سائل کو طعن اور عار کی باتوں سے ایذاء دیتا ہے۔ وہ یہ کہ کسی کے پاس ایک ایسا عمدہ باغ ہو کہ جس میں اکثر کھجور اور انگور ہوں اور اس میں نہریں بھی ہوں یعنی آب رواں اور علاوہ اس کے اس میں ہر قسم کا میوہ ہو اور مالک باغ کا بڈھا ہوا اور اس باغ کی آمدنی کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معاش نہ رکھتا ہو۔ نہ دوسرے فنون معاش پر قادر ہو اور اس پر طرہ یہ ہو کہ اس بیکسی کی حالت میں اس کے ضعیف ننھے ننھے بثے بھی ہوں کہ جن کا خرچ اور پرورش سب اسی کے ذمہ ہو۔ پھر اس حالت میں اس باغ پر کوئی آفت آسمانی ایسی پڑجائے جو اس کو جلا کر نیست و نابود کر دے۔ پھر دیکھئے کہ اس شخص پر کس قدر صدمہ اور کیا بیکسی اور حیرت و حسرت طاری ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کا صدقہ و خیرات عالم غیب میں نہایت عمدہ باغ کی صورت میں کہ جس کے صفات مذکور ہوئے ظہور کرتا ہے اور عالم آخرت میں انسان بڈھے کی طرح حسنات اور اعمال صالحہ کے کرنے سے مجبور و معذور ہوتا ہے اور اس کو اپنی اس کمائی اور انہیں اعمال صالحہ کی طرف توقع کی نظر ہوتی ہے۔ اور اس کا احسان جتلانا اور ایذاء دینا اور خلوص نیت نہ ہونا بگولے کے ہے کہ جس میں لو اور آگ ہو کہ جو اس کے اس تروتازہ باغ کو خاک سیاہ کردیتی ہے۔ فرماتا ہے کہ آیا کوئی تم میں سے ایسا چاہتا ہے کہ ایسا باغ ایسی حالت میں تباہ ہوجائے۔ یعنی کوئی نہیں چاہتا۔ پھر تم کیوں اپنے اس تروتازہ باغ کو تباہ کرتے ہو “۔ کذلک۔ ک تشبیہ کا ہے۔ ذلک اسم اشارہ واحد مذکر۔ تمثیل بالا مشار الیہ ہے۔ یبین۔ مضارع واحد مذکر غائب تبیین (تفعیل) مصدر ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی نہ خود اس میں اتنی طاقت کہ باغ دوبارہ لگا سکے اور نہ اس کی اولاد اس قابل ہے کہ اس کی مدد کرسکے اسی طرح منافق صدقہ و خیرات کرتا ہے مگر ریاکاری سے کام لیتا ہے تو قیامت کے دن جو نہایت احتیاج کا وقت ہوگا اس کا ثواب ضائع ہوجائے گا۔ اور اس وقت ثواب حاصل کرنے کے لیے دوبارہ نیکی کا وقت بھی نہیں ہوگ... ا صحیح بخاری میں حضرت ان عباس (رض) سے اس کی ایک دوسری تفسیر منقول ہے جسے حضرت عمر (رض) بھی پسند فرمایا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ مثال اس شخص کی ہے جو عمر بھر نیک عمل کر تارہتا ہے لیکن آخر عمر میں اس کی سیرت بد جاتی ہے اور نیک عمل کی بجائے برے عمل کرنے لگتا ہے اس طرح وہ اپنی پہلی نیکیاں بھی بر باد کرلیتا ہے اور قیامت کے دن جو کہ بہت تنگی کا وقت ہوگا وہ نیکی اس کے کچھ کام نہ آئے گی اور اس نازک وقت میں اس کا عمل اس سے خیانت کرے گا۔ (ابن کثیر) چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے شخص کی حالت سے پناہ مانگا کرتے تھے ایک دعا میں ہے اللھم اجعل اوسع رزقک علی عندکبر سنی انقضاء عمری۔ کہ یا اللہ بڑھاپے کی عمر میں مجھ پر اپنا رزق وسیع فرمادے۔ (مستدرک)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 266 ایود (کیا پسند ہے (ا، یود) ۔ احدکم (تم میں سے کسی کو بھی) ۔ نخیل (کھجور) ۔ اعناب (انگور (عنب کی جمع) تجری۔ ۔۔ چلتی ہو ، بہتی ہو) ۔ الکبر (بڑھاپا) ۔ ذریۃ ضعفاء (چھوٹے ناتواں بچے ہوں) ۔ اعصار (بگولا) ۔ احترقت (اس نے جلا ڈالا) ۔ تشریح : آیت نمبر 266 اس مثال میں اللہ تعالیٰ...  نے یہ سوال کیا ہے کہ جب ایک شخص اس بات کو گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی زندگی بھر کی پونچی یوں اس کی نظروں کے سامنے برباد ہوجائے فرمایا کہ سوچ لو قیامت کا دن بھی ایسا ہی ہوگا جب کچھ بھی کمانے کا موقع نہیں ہوگا، کوئی تمہاری امداد نہیں کرسکتا اس روز تمہیں اپنی زندگی بھر کے نیک اعمال کی کتنی شدید ضرورت ہوگی۔ اگر بداعمالیوں کے بگولوں سے تم نے اپنے ایمان و اعمال کو جلا کر خاک کرلیا تو وہ بےسروسامانی کے دن تمہیں کس قدر حسرت اور افسوس سے واسطہ پڑے گا۔ اگر تم ان حالات سے دوچار ہونا نہیں چاہتے تو اپنے اعمال کو دکھاوے اور ناجائز طریقوں سے بچاؤ۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ ظاہر یہ بات ہے کہ کسی کو اپنے لیے یہ بات پسند نہیں آسکتی پس جب تم اس مثال کے واقعہ کو پسند نہیں کرتے تو ابطال طاعات کو کیسے گوارا کرتے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں صدقہ کو اپنی حقیقت اور اپنے آثار کے اعتبار سے ایک محسوس شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ ................ ” یہ صدقہ گویا ایک باغ ہے جو نہروں سے سیراب ہے ۔ کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لد... ا ہوا۔ “ اس کی چھاؤں گھنی ہے ، خوشگوار اور تروتازہ ہے ۔ اس میں ہر قسم کے پھل کثرت سے ہیں جس طرح یہ باغ مفید ہے اس طرح صدقہ بھی مفید اور فائدہ بخش اور فرحت بخش تھا ۔ یہ صدقہ دینے والے کے لئے بھی مفید تھا ۔ لینے والے کے لئے بھی مفید تھا اور پورے معاشرے کے لئے بھی مفید تھا ۔ جس کے روحانی فائدے بیشمار تھے اور اس میں خیر و برکت تھی جس کے ذریعہ معاشرے کو مفید غذامل رہی تھی اور جو معاشرے میں اجتماعی نشوونما اور ترقی کا باعث تھا۔ کوئی ایسا بدبخت ہے جو اس قسم کے باغ کا مالک ہو اور جو اس قسم کے اعلیٰ بھائی چارے اور نیکی کا مالک ہو اور پھر وہ ایسے باغ کو احسان جتلانے یا احسان کے بعد اذیت دینے کی افادیت وبلیات کے ذریعے جلا کر خاکستر کردے ، جس طرح ایک آتشی بگولا کسی سرسبز و شاداب باغ کو جھلسا کر خاکستر کردیتا ہے۔ اور پھر یہ عمل کیسے حالات میں ہو ؟ ایسے حالات میں کہ اس باغ کا مالک صاب احتیاج ہو ۔ جسمانی لحاظ سے ضعیف ہوگیا ہو ، عیالدار ہو اور اسے اس باغ کی چھاؤں اور نعمتوں کی اشد ضروت بھی ہو وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ................ ” وہ خود بوڑھا ہوجائے اور اس کے بچے بھی کسی لائق نہ ہوں اور ایسے میں ایک تیز بگولے کی زد میں آجائے جس میں آگ ہو ۔ “ کون ہے جو ایسی صورتحال کو پسند کرے گا ؟ کون ہے جو اگر ایسے انجام کو سمجھ سکتا ہو اور اس سے بچنے کی سعی نہ کرے ؟ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ................ ” اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے ، شاید تم غوروفکر کرو۔ “ یوں یہ زندہ وتابندہ منظر اسٹیج ہوتا ہے ۔ اس کی ابتدا نہایت خوشی ، خوشگواری اور آرام سے ہوتی ہے ۔ منظر کا آغاز تروتازگی ، فراخ و سرور اور حسن و جمال سے ہوتا ہے ۔ اس کے بعد تباہی کا منظر آتا ہے اور یہ ایک خوفناک منظر ہوتا ہے ۔ ایک بگولا آتا ہے جو اس کی تروتازگی کو پژمردہ کردیتا ہے ۔ جب یہ سب مناظر اسٹیج پر پر آتے ہیں تو انسان کو ایک لاشعوری احساس دلاتے ہیں اور یہ شعور اس قدر پرتاثیر ہوتا ہے کہ ایک باشعور آدمی کو ایک صحیح راہ اختیار کرنے میں کوئی تردد نہیں رہتا ۔ اس سے پہلے کہ انسان کے ہاتھ سے موقعہ جاتا رہے اور اس سے پہلے کہ گھنی چھاؤں والے باغات اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت پژمردہ ہوجائیں اور جھلس جائیں ۔ ایک باشعور انسان رد و قبول کا فیصلہ کر ہی لیتا ہے۔ میں یہاں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ حسین و جمیل انداز کلام اور مربوط اور ہم آہنگ مناظر جن سے اس سبق کا ہر انفرادی منظر تشکیل پاتا ہے اور پھر جس خوش اسلوبی سے ہر ایک انفرادی منظر کو پیش کیا جاتا ہے ۔ یہ ربط وہم آہنگی صرف ان انفرادی مناظر تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ ہم آہنگی مجموعی طور پر ان تمام مناظر میں بھی پائی جاتی ہے ۔ یہ تمام مناظر بھی باہم مربوط اور متناسب ہیں ۔ دیکھئے ! ایک زرعی ماحول ہے ۔ ایک دانہ ہے جس سے سات بالیاں اگتی ہیں ۔ ایک چٹان ہے جس پر مٹی کی ایک خفیف تہہ جمی ہوئی ہے ۔ اور اس پر اچانک موسلا دھار بارش ہوجاتی ہے ۔ پھر ایک اونچی جگہ پر ایک باغ ہے جو ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ہے ۔ اور دوچند پھل لگا ہوا ہے ۔ یہ باغ کھجوروں اور انگوروں پر مشتمل ہے ۔ کہیں زوردار بارش اور کہیں پھوار ہے ۔ اور پھر ایک بگولا ہے جو اکثر زرعی کھیتوں میں تباہی مچاتا ہے ۔ غرض ایک زرعی ماحول کے تمام قدرتی اجزاء یہاں موجود ہیں اور کوئی ایسا جز غائب نہیں ہے جو موثر ہوسکتا ہو۔ قرآن کریم کے بلیغانہ انداز گفتگو کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے کہ وہ انسانی ادراک اور اس زمین کے قدرتی ماحول کے درمیان فاصلے کم کردیتا ہے کیونکہ انسان کا وجود اسی کائنات کے عناصر ترکیبی سے مرکب ہے ۔ انسان اور کائنات میں نباتات کی نشوونما کے درمیان ایک مکمل آہنگی ہے ۔ جس طرح ایک بگولا اس کائنات کی تروتازگی کو جھلس دیتا ہے ، اسی طرح گمراہی انسان کی روحانی دنیا کو نیست ونابود کردیتی ہے ۔ یہ ہے قرآن کریم ۔ ایک خوبصورت انداز گفتگو جو یقیناً حلیم وخبیر کی جانب سے ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

عبادات اور طاعات کو باطل کردینے والوں کی مثال اس آیت شریفہ میں ان لوگوں کے بارے میں ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ جو اعمال صالحہ انجام دیتے ہیں لیکن ان کو ریا کاری یا مَنّ و اذیٰ کی وجہ سے یا کسی ایسے عمل کے کرنے سے جو حبط اعمال کا سبب ہو برباد کردیتے ہیں، ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کا باغ ہو جس میں کھجورو... ں اور انگوروں کے درخت ہوں اور ان کے علاوہ بھی ہر قسم کے پھل ہوں اس کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں وہ خود بوڑھا ہوگیا ہو اور اس کے اہل و اولاد ضعیف ہوں۔ خود بھی کچھ نہیں کرسکتا اور اولاد بھی کسی قابل نہیں، گزارہ کا راستہ صرف یہی باغ ہے اپنا خرچ بھی اسی سے ہے اور بال بچوں کا سہارا بھی یہی باغ ہے۔ ایسی حالت میں ایک تیز آندھی آئی اس آندھی میں آگ تھی اس آگ نے سارے باغ کو جلا کر خاکستر کردیا، عین حاجت کے وقت جبکہ اس باغ کی بہت زیادہ ضرورت تھی کچھ بھی نہ بچا سارا ہی جل کر راکھ ہوگیا، اس مثال کو سامنے رکھ کر سمجھ لیں کہ جو اعمال صالحہ انجام دئیے جاتے ہیں ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آخرت میں ان کا ثواب ملے۔ وہاں حاجتیں پوری ہوں اور عذاب سے حفاظت ہو لیکن اخلاص نہ ہونے کے باعث جب بہت بڑی اور سب سے بڑی حاجت کا وقت آیا تو جو اعمال کیے تھے انہوں نے کچھ بھی کام نہ دیا کیونکہ اللہ کی رضا کے لیے نہیں بلکہ بندوں کو دکھانے کے لیے اعمال کیے تھے جو بظاہر نیک تھے لیکن ریا کاری نے ان کی نیکی ختم کردی تھی نماز پڑھی دکھاوے کے لیے، حج کیا نام و نمود کے لیے، صدقہ دیا شہرت کے لیے جہاد کیا بہادری ظاہر کرنے کے لیے، صدقہ دیا شہرت کے لیے اور شہرت کے خیال سے نہ تھا تو جن کو دیا تھا ان پر احسان دھر کر اور تکلیف پہنچا کر اکارت کردیا آخرت میں پیشی ہے اعمال صالحہ کی ضرورت ہے اور اعمال کا ثواب مل نہیں رہا ایسے وقت میں جو بد حالی ہوگی اس کا کچھ اندازہ مذکورہ بالا باغ والے آدمی کی حیرت اور پریشانی سے کرلیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فکر مند بنانے کے لیے طرح طرح کی مثالیں بیان فرماتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

525 یہ ریاکاروں کے اعمال کے ضائع اور بےنتیجہ ہونے کی دوسری تمثیل ہے۔ یعنی ایک آدمی جو بوڑا ہوچکا ہو اور روزی کمانے کے لائق نہ رہا ہو اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہو جو ابھی کمانے کے قابل نہ ہوں۔ اس کا ایک کھجوروں اور انگوروں کا سرسبز و شاداب باغ ہو اور اس کو بگولا جلا دے یعنی عین اس وقت وہ باغ جل ک... ر تباہ ہوجائے۔ جب کہ مالک اس کے پھل کا سخت محتاج ہو۔ یہی ریاکاروں کے اعمال کا حشر ہوگا۔ کہ میدان حشر میں جب ان کی سخت ضرورت ہوگی وہ کام نہیں آسکیں گے۔ کیونکہ وہ تو دنیا ہی میں ریاکاری کے بگولوں سے جل کر راکھ ہوچکے ہوں گے۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ ۔ اللہ تعالیٰ اس طرح تمثیلات کے ذریعے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور وفکر کرو اور انجام سوچ کر کوئی قدم اٹھاؤ  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 بھلا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے اور اس امر کو دوست رکھتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا اس باغ کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں اور اس باغ میں علاوہ کھجوروں اور انگوروں کے اور بھی مختلف قسم کے بکثرت پھل موجود ہوں اور اس باغ کے مالک کی یہ حالت ہو کہ اس کو بڑھاپا پہنچ چکا ہو...  اور اس کا بڑھاپا آگیا ہو اور اس کی اولاد کمزور اور ناتواں ہو کام سنبھالنے کے قابل نہ ہو اور باغ کی دیکھ بھال کی صلاحیت نہ رکھتی ہو ایسی حالت میں جبکہ وہ خود بوڑھا ہو اور بچے ناتواں ہوں اس باغ پر ایک ایسا گرم بگولہ آجائے جس میں تیز آگ ہو اور وہ باغ آگ بھرے بگولے سے جل جائے اور خاکستر ہوجائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔ اسی طرح وہ تمہاری رہنمائی اور تمہارے سمجھانے کو اپنے واضح اور صاف دلائل بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو اور غور و فکر سے کام لو۔ (تیسیر) اعصار اس سخت ہوا کو کہتے ہیں جو چکر کاٹتی ہوئی اوپر کو ستون کی طرح اٹھتی ہے اور عام طریقہ سے گرمی کے موسم میں یہ ہوائیں چلا کرتی ہیں اردو میں اس کو بگولا کہتے ہیں۔ عربی میں اس کو زوابعۃ بھی کہتے ہیں عوام کا خیال یہ ہے کہ ان میں جن ہوتے ہیں عرب کے لوگ بھی اس کو بہت بڑا جن سمجھتے تھے اور ام زوبعہ اور ابو زوبعہ ان بگولوں کو کہا کرتے تھے اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ان بگولوں میں شیطان مارد ہوتا ہے جب ہوا چکر کاٹتی ہوئی اڑتی ہے تو کوڑا کرکٹ بلکہ بعض دفعہ بڑی بڑی چیزوں کو اڑا لے جاتی ہے خاص کر ریگستانی علاقہ میں تو ان بگولوں کی وجہ سے سفر بند ہوجاتا ہے ان میں اس قدر حرارت اور سمیت ہوتی ہے کہ ہر جاندار کو یہ ہوا ہلاک کردیتی ہے اور نباتات کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ ود کے معنی میں محبت اور تمنا دونوں شامل ہوتے ہیں۔ اس لئے کہیں محبت اور کہیں تمنا معنی کئے جاتے ہیں باوجود اور پھلوں کے کھجور اور انگور کا اس لئے ذکر کیا کہ ان دونوں کے درخت بکثرت ہوں۔ من کل الثمرات کا مطلب یہ ہے کہ اور بھی مختلف قسم کے پھل ہوں۔ حقیقی استغراق مراد نہیں ہے۔ بخاری میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ایک دفعہ اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت فرمایا تھا کہ یہ آیت کس کے بارے میں ہے۔ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اس پر حضرت عمر نے فرمایا ایک بات کہو تم جانتے ہو یا نہیں ؟ حضرت ابن عباس نے عرض کیا اے امیر المومنین اس آیت کے متعلق میرے جی میں ایک بات آئی ہے حضرت عمر (رض) نے فرمایا اے میرے بھتیجے جو تیرے جی میں ہے اسے کہہ ڈال اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھ اس پر حضرت ابن عباس (رض) نے کہا یہ عمل کی مثال ہے انہوں نے فرمایا کون سے عمل کی مثال ہے تب حضرت ابن عباس (رض) نے عرض کیا اے امیر المومنین ایک شخص نے اللہ کی طاعت کی پھر اللہ تعالیٰ نے ایک شیطان بھیجا اور وہ شخص جو طاعت الٰہی میں مشغول تھا گناہ کرنے لگا یہاں تک کہ اس کے سارے عمل غرق ہوگئے۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اسی روایت کو مبنی قرار دیا ہے اگرچہ یہ آیت صدقات کی بحث میں مذکور ہے لیکن اپنی عمومیت کے باعث تمام اعمال حسنہ کو شامل ہے یعنی عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اس کے اعمال کا ثواب کام آئے۔ جہنم سے بچے اور جنت میں داخل ہو دنیا میں بھی اس کے اعمال پر اثرات مرتب ہوں نیک کاموں کی توفیق میسر ہو ایک عمل کی مقبولیت سے دوسرے عمل کی توفیق ملے پھر تیسرے کی پھر چوتھے کی اسی طرح اعمال حسنہ میں ترقی ہوتی رہے حتیٰ کہ اعمال صالحہ میں لذت اور حلاوت پیدا ہوجائے اور طاعات الٰہی میں ایک خاص قسم کی کیفیت اور سرور پیدا ہوجائے اور یہ بات جب ہی ہوتی ہے جب عمل کرنے والا تمام شروط وقیود کی رعایت کر کے وہ عمل بجا لائے اور اگر شروط قیود کی پابندی نہ کرے مثلاً کسی بدنصیب میں ایمان نہ ہو تب تو کوئی عمل صحیح ہی نہ ہوگا اور اگر ایمان تو تھا لیکن ریا اور دکھاوے کا خیال آگیا۔ یا سائل پر احسان رکھا یا سائل کو تکلیف پہنچا دی یا حرام مال سے خیرات کردی یا ہوتے سا تھے کوئی گھٹیا اور خراب چیز دے دی وغیرہ تو اگرچہ ایمان کی وجہ سے عمل صحیح ہوگی لیکن ثواب مرتب نہ ہو آیا ثواب مرتب ہوا تو کم ہوا یا عمل کی برکت اور نور سلب ہوگیا اور دوسرے نیک عمل کی توفیق نصیب نہ ہوئی بلکہ عمل کے غیر مقبول ہوجانے کی وجہ سے کسی گناہ میں مبتلا ہوگیا جیسا کہ اہل ذوق ان امور کو سمجھتے ہیں کہ شرائط وقیود کی کوتاہی کا صرف یہی نقصان نہیں ہوتا کہ اعمال خیر کم ہوجائیں یا ثواب میں کمی ہوجائے بلکہ بعض دفعہ شرائط قیود کی بےاعتنائی کسی نگاہ میں مبتلا کردینے کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر محرومی اور مایوسی کی ایسی حالت ہوجاتی ہے جیسے ایک بوڑھے آدمی کا ہرا بھرا باغ جل کر خاک ہوجائے اور اس کے بچے چھوٹے چھوٹے ہوں بوڑھے اور بچوں کا ذکر احتیاج کی انتہائی تصویر ہے اور ضرورت کا مکمل نقشہ ہے یعنی آدمی خود بوڑھا ہو اور بچے چھوٹے چھوٹے ہوں ایسے وقت میں آمدنی کا ذریعہ برباد ہوجائے تو اس مصیبت کو بچنے والے ہی سمجھتے ہیں اس لئے آخر میں فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے دلائل اور نظائر کو اس طرح بیان فرماتا ہے تاکہ تم لوگ غور و فکر کرو اور کسی صحیح نتیجے پر پہنچ جائو اور وہ یہ کہ دنیا کو زائل ہونے والا اور آخرت کو پیش آنے والا سمجھو۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا ہے جو نیک کام کردیا مثلاً صدقہ دو اور خیرات کرو تو جو اس کے ثواب اور ثواب کو بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو شرطیں بیان فرمائی ہیں ان کی رعایت کو ملحوظ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی کوتاہی اور شرائط سے بےاعتنائی کی وجہ سے قیامت میں اس بڈھے باغ والے کی طرح حسرت و افسوس سے ہاتھ ملو یا دنیا میں نیک اعمال کی توفیق سے محروم ہو جائو یا کسی خطرناک گناہ میں مبتلا ہو جائو یا اعمال حسنہ کے انوار و برکات کو کھو بیٹھو اور جب اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو تو تہی دامن اور خائب و خاسر ہو کر پیش ہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے کیا خوب فرمایا کہ شیطان کے آنے سے وہ بندہ بجائے نیک اعمال کے گناہ کرنے لگا شیطان کا آنا یہی ہے کہ اعمال خراب ہوجائیں نیک اعمال کی شرائط وقیود میں کوتاہی کرا دے ابھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن ہم نے تطویل کے خوف سے اپنی تفسیر کو مختصر کردیا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس طرح ایک کافر اور منافق کے اعمال ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار قرار دیئے جاتے ہیں اسی طرح اخلاص کے فقدان سے ایک مومن کے اعمال اور ان کا ثواب بھی برباد ہوجاتا ہے اور مومن کے اعمال کو بھی حبط سے تعبیر کردیا جاتا ہے۔ اسی لئے ہم نے تسہیل میں دونوں رعایتیں رکھی ہیں تاکہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ مذکورئہ تمثیل کا تعلق مومن اور کافر دونوں سے ہوسکتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاکم نے بڑھاپے کے لئے ایک دعا نقل کی ہے جو حسب ذیل ہے۔ اللھم او سع رزقک علے عند کبر سنی وانقضاء عمری۔ یعنی یا اللہ ! میرے بڑھاپے اور میری عمر کے پورا ہونے کے وقت اپنی روزی کو مجھ پر وسیع کر دیجیو۔ مطلب یہ ہے کہ بڑھاپا اور عر کا آخری دور بڑا نازک دور ہوتا ہے اور وہ بڑی احتیاج کا زمانہ ہوتا ہے ہاتھ پائوں تھک جاتے ہیں اور ضروریات بڑھ جاتی ہیں اس وقت کے لئے یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ الٰہی اس نازک ور میں وسعت رزق سے میری مدد فرمائیو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں اب مثال فرمائی احسان رکھنے والے کی جو اپنی خیرات اچھی کو ضائع کرے۔ جیسے جوانی کے وقت باغ حاصل کیا توقع سے کہ بڑی عمر میں کام آوے عین کام کے وقت جل گیا۔ (موضح القرآن) اعمال صالحہ اور صدقات کے سلسلہ میں تین قسم کی صورتیں اب تک زیر بحث آچکی ہیں۔ (1) عمل میں صحت کی شرط بھی موجود ہو اور ثواب کی زیادتی اور بقا کے قیود بھی موجود ہوں۔ (2) عمل میں سرے سے صحت کی شرط ہی نہ پائی جائے۔ مثلاً ایمان و اخلاص ہی مفقود ہو۔ (3) صحت کی شرط یعنی ایمان تو موجود لیکن ثواب کی بقا ثواب کی زیادتی اور عمل کے مقبول ہونے کی شرائط نہ ہوں چناچہ اب سب امور کو حضرت حق تعالیٰ نے مختلف نظائر اور تمثیلات کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اگرچہ الفاظ کے عموم کی وجہ سے مفسرین کے اقوال مختلف ہوگئے ہیں۔ بہرحال اب آگے پھر بعض شرائط وقیود کا ذکر فرماتے ہیں یہ قیودات بھی صدقہ کی مقبولیت ثواب کی زیادتی اور بقائے اجر کے سلسلے میں ہیں کچھ تو اوپر بیان ہوچکے ہیں۔ مثلاً ترک من و اذی اور ریا کاری سے اجتناب وغیرہ اور کچھ آگے آیت میں مذکور ہوتے ہیں۔ (تسہیل)  Show more