Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 270

سورة البقرة

وَ مَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ نَّفَقَۃٍ اَوۡ نَذَرۡتُمۡ مِّنۡ نَّذۡرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ﴿۲۷۰﴾

And whatever you spend of expenditures or make of vows - indeed, Allah knows of it. And for the wrongdoers there are no helpers.

تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ تعالٰی بخوبی جانتا ہے ، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّن نَّذْرٍ فَإِنَّ اللّهَ يَعْلَمُهُ ... And whatever you spend for spendings (e.g., in Sadaqah) or whatever vow you make, be sure Allah knows it all. Allah states that He has perfect knowledge of the good deeds performed by all of His creation, such as charity and various vows, and He rewards tremendously for these deeds, provided they are performed seeking His Face and His promise. Allah also warns those who do not work in his obedience, but instead disobey His command, reject His revelation and worship others besides Him: ... وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ And for the wrongdoers there are no helpers. meaning, who will save them from Allah's anger and torment on the Day of Resurrection. The Virtue of Disclosing or Concealing Charity Allah said,

نیک اور بد لوگ ظاہر اور درپردہ حقیقت اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ہر ایک خرچ اور نذر کو اور ہر بھلے عمل کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے وہ اپنے نیک بندوں کو جو اس کا حکم بجا لاتے ہیں اس سے ثواب کی امید رکھتے ہیں ، اس کے وعدوں کو سچا جانتے ہیں ، اس کے فرمان پر ایمان رکھتے ہیں ، بہترین بدلہ عطا فرمائے گا اور ان کے خلاف جو لوگ اس کی حکم برداری سے جی چراتے ہیں گناہ کا کام کرتے ہیں ، اس کی خبروں کو جھٹلاتے ہیں اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں ، یہ ظالم ہیں قیامت کے دن قسم قسم کے سخت بدترین اور المناک عذاب انہیں ہوں گے اور کوئی نہ ہوگا جو انہیں چھڑائے یا ان کی مدد میں اُٹھے ۔ پھر فرمایا کہ ظاہر کرکے صدقہ دینا بھی اچھا ہے اور چھپا کر فقراء مساکین کو دینا بہت ہی بہتر ہے ، اس لئے کہ یہ ریاکاری سے کوسوں دور ہے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ ظاہر کرنے میں کوئی دینی مصلحت یا دینی فائدہ ہو مثلاً اس لئے کہ اور لوگ بھی دیں وغیرہ ۔ حدیث شریف میں ہے کہ صدقہ کا ظاہر کرنے والا مثل بلند آواز سے قرآن پڑھنے والے کے ہے اور اسے چھپانے والا آہستہ پڑھنے والے کی طرح ہے ، پس اس آیت سے صدقہ جو پوشیدہ دیا جائے اس کی افضلیت ثابت ہوتی ہے ، بخاری مسلم میں بروایت حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات شخصوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا ، عادل بادشاہ ، وہ نوجوان جو اپنی جوانی اللہ کی عبادت اور شریعت کی فرمانبرداری میں گزارے ۔ وہ دو شخص جو اللہ تعالیٰ کیلئے آپس میں محبت رکھیں ، اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدا ہوں ، وہ شخص جس کا دِل مسجد میں لگا رہے نکلنے کے وقت سے جانے کے وقت تک وہ شخص جو خلوت میں اللہ کا ذِکر کرکے رو دے ، وہ شخص جسے کوئی منصب و جمال والی عورت بدکاری کی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جو اپنا صدقہ اس قدر چھپا کر دے کہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر تک نہ ہو ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہلنے لگی ، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا کرکے انہیں گاڑ دیا جس سے زمین کا ہلنا موقوف ہو گیا ، فرشتوں کو پہاڑوں کی ایسی سنگین پیدائش پر تعجب ہوا انہوں نے دریافت کیا کہ باری تعالیٰ کیا تیری مخلوق میں پہاڑ سے زیادہ سخت چیز بھی کوئی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں لوہا ، پوچھا اس سے بھی سخت کوئی چیز ہے؟ فرمایا ہاں آگ ، پوچھا اس سے زیادہ سخت چیز کوئی اور بھی ہے؟ فرمایا ہاں پانی ، پوچھا کیا اس سے بھی زیادہ سختی والی کوئی چیز ہے؟ فرمایا ہاں ہوا ، دریافت کیا اس سے بھی زیادہ سخت؟ فرمایا ابن آدم جو صدقہ کرتا ہے کہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے خرچ کی خبر نہ ہوتی ، آیت الکرسی کی تفسیر میں وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں ہے کہ افضل صدقہ وہ ہے جو پوشیدگی سے کسی حاجت مند کو دے دیا جائے ۔ باوجود مال کی قلت کے ، پھر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے ، پھر اسی آیت کی تلاوت کی ( ابن ابی حاتم ) ایک اور حدیث میں ہے پوشیدگی کا صدقہ اللہ کے غضب کو بجھا دیتا ہے ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے بارے میں اتری ۔ حضرت عمر اپنا آدھا مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور حضرت صدیق اکبر جو کچھ تھا لا کر رکھ دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اپنے گھر والوں کیلئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ فاروق نے جواب دیا اتنا ہی ، صدیق گو ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے اور چپکے سے سب کے سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرچکے تھے ، لیکن جب ان سے پوچھا گیا تو کہنا پڑا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کافی ہے ۔ حضرت عمر فاروق یہ سن کر رو دئیے اور فرمانے لگے اللہ کی قسم جس کسی نیکی کے کام کی طرف ہم لپکے ہیں اس میں اے صدیق آپ کو آگے ہی آگے پاتے ہیں ۔ آیت کے الفاظ عام ہیں صدقہ خواہ فرض ہو یا خواہ نفل زکوٰۃ ہو یا خیرات اس کی پوشیدگی اظہار سے افضل ہے ، لیکن حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نفلی صدقہ تو پوشیدہ دینا ستر گنی فضیلت ہے لیکن فرضی زکوٰۃ کو علانیہ ادا کرنا پچیس گنی فضیلت رکھتا ہے ۔ پھر فرمایا صدقے کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں اور برائیوں کو دور کر دے گا بالخصوص اس وقت جبکہ وہ چھپا کر دیا جائے ، تمہیں بہت سی بھلائی ملے گی ، درجات بڑھیں گے ، گناہوں کا کفارہ ہوگا یکفر کو یکفر بھی پڑھا گیا ہے اس میں صورتاً یہ جواب شرط کے محل پر عطف ہوگا جو فنعماھی ہے ، جیسے ( آیت فاصدق واکون ) میں واکن اللہ تعالیٰ پر تمہاری کوئی نیکی بدی سخاوت بخیلی پوشیدگی اور اظہار نیک نیتی اور دنیا طلبی پوشیدہ نہیں وہ پورا پورا بدلہ دے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

270۔ 1 نَذَرِ کا مطلب ہے میرا فلاں کام ہوگیا یا فلاں مشکل سے نجات مل گئی تو میں اللہ کی راہ میں اتنا صدقہ کرونگا۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہے اگر کسی نافرمانی یا ناجائز کام کی نذر مانی ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں نذر بھی نماز روزہ کی طرح عبادت ہے اس لئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی نذر ماننا اس کی عبادت کرنا شرک ہے۔ جیسا کہ آج کل مشہور قبروں پر نذر ونیاز کا یہ سلسلہ عام ہے اللہ تعالیٰ اس شرک سے بچائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨٦] نذر یہ ہے کہ && آدمی اپنی کسی مراد کے بر آنے پر کوئی ایسا نیک کام یا صدقہ کرنے کا اللہ سے عہد کرے جو اس کے ذمے فرض نہ ہو۔ && اگر یہ مراد کسی حلال اور جائز کام کے لیے ہو اور اللہ سے ہی مانگی گئی ہو اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہو تو ایسی نذر کا پورا کرنا درست اور باعث اجر وثواب ہے اگر یہ نذر کسی ناجائز کام یا غیر اللہ کے لیے ہو تو ایسی نذر کا ماننا بھی کار معصیت اور اس کا پورا کرنا بھی موجب عذاب ہے۔ ایسی نذر اگر کوئی مان چکا ہو تو اس کے عوض استغفار کرنا چاہیے اور وہ کام نہ کرنا چاہیے، علاوہ ازیں نذر ماننا شرعی نکتہ نگاہ سے کوئی اچھا کام نہیں۔ چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ نذر اللہ کی تقدیر کو کچھ بدل نہیں سکتی۔ البتہ اس طرح بخیل سے کچھ مال نکال لیا جاتا ہے۔ && (بخاری، کتاب الایمان والنذور۔ باب الوفاء بالنذر و قولہ یوفون بالنذر)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ ۔۔ : نذر کا معنی ہے، اپنے آپ پر وہ چیز فرض کرلینا جو فرض نہیں تھی، مثلاً کوئی نفل نماز یا نفل روزہ یا صدقہ یا نفل حج وغیرہ۔ اس کی دو قسمیں ہیں : ایک نذر مطلق اور دوسری نذر معلق۔ نذر مطلق یہ ہے کہ کوئی شرط لگائے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے اپنے آپ پر کوئی نیکی لازم کرلے، مثلاً یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے ہمیشہ یا اتنے دن تہجد پڑھوں گا، یا عمرہ کروں گا۔ یہ نذر اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اور اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ نذر معلق یہ ہے کہ کسی شرط کے ساتھ نذر مانے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں فلاں نیکی کروں گا، مثلاً صدقہ یا نوافل وغیرہ۔ یہ نذر اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ آدمی کی شرط سے مستغنی ہے، وہ اس کی وجہ سے اس کی مراد بر نہیں لائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” نذر نہ مانا کرو، اس لیے کہ نذر تقدیر میں طے شدہ کاموں میں کچھ فائدہ نہیں دیتی، صرف اتنا ہوتا ہے کہ بخیل سے مال نکل آتا ہے۔ “ [ مسلم، النذر، باب النھی عن النذر۔۔ : ١٦٤٠، عن أبی ہریرۃ (رض) ] البتہ اگر وہ کام ہوجائے تو نذر پوری کرنا پڑے گی۔ گناہ کے کام کی نذر پوری کرنا جائز نہیں۔ اگر نذر پوری نہ کرسکے تو اس کا کفارہ دینا پڑے گا جو وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ (دیکھیے سورة مائدہ ( ٨٩) ۔ فَاِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُهٗ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ ہر حال میں تمہاری نیت اور عمل سے واقف ہے۔ اس میں ایک طرف مخلصین کے لیے وعدہ ہے اور دوسری طرف ریا کار اور غیر اللہ کی نذریں ماننے والوں کے لیے وعید بھی ہے کہ ایسے لوگ ظالم ہیں اور انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کسی صورت رہائی نہیں ہو سکے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(4) Verse 270: وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَةٍ (الی قولہ) وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ‌: |"And whatever spending you do ... and for the unjust, there are no supporters.|" Here, |"and whatever spending you do|" covers all spendings - those in which all related conditions are observed and those too, in which all or some conditions are not observed. For instance, it may not be in the way of Allah but be in the ways of sin; or the act of giving may be mixed up with hypocrisy; or may be followed by making a show of the favour before the receiver; or it may not be حلال halal (lawful) and good. Similarly, all votive offerings (نذور : nudhur) come under the general purview of (nadhr نذر : singular: votive offering), for instance, it includes the nadhr نذر of monetary ` ibadah in accordance with which nadhr نذر has been introduced alongwith infaq (spending) and may also include nadhr نذر of physical ` ibadah. It may be absolute, or dependent on something else; or it may or may not have been fulfilled. The purpose of saying all this is that Allah Almighty knows all these things and He shall recompense for them duly. This was made known so that people are persuaded to observe limits and conditions and be warned of their non-observance. The word (al-zalimin الظَّالِمِينَ ) in the text refers to the unjust, the transgressors, who do not observe the necessary conditions. To them was given clear warning.

وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ (الیٰ قولہٖ ) وَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ کسی قسم کے خرچ کرنے میں سب خرچ آگئے وہ بھی جس میں سب شرائط مذکورہ کی رعایت ہو اور وہ بھی بھی جس میں کل کی یا بعض کی رعایت نہ ہو مثلاً فی سبیل اللہ نہ ہو بلکہ معصیت میں ہو یا انفاق میں ریاء شامل ہو یا انفاق کرکے اس پر احسان جتلاناہو، یا حلال یا عمدہ مال نہ ہو، اسی طرح نذر کے عموم میں سب نذریں آگئیں مثلا عبادت مالیہ کی نذر، اور اسی مناسبت سے انفاق کے ساتھ نذر کو لائے ہیں یا عبادت بدنیہ کی نذر ہو پھر وہ مطلق ہو یا کسی امر پر معلق ہو پھر یہ کہ اس کا ایفاء کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو اور مقصود اس کہنے سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان سب چیزوں کا علم ہے وہ اس کی جزاء دیں گے یہ اس لئے سنایا تاکہ حدود و شرائط کی رعایت کی ترغیب اور عدم رعایت سے ترہیب ہو، اور بےجا کام کرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو ضروری شرائط کی رعایت نہیں کرتے ان کو صریحا وعید سنا دی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللہَ يَعْلَمُہٗ۝ ٠ وَمَا لِلظّٰلِـمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۝ ٢٧٠ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ نذر ( منت) النّذر : أن تُوجِب علی نفسک ما ليس بواجب لحدوثِ أمر، يقال : نَذَرْتُ لله أمراً ، قال تعالی:إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] ، وقال : وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة/ 270] ( ن ذ ر ) النذر : کے معنی کسیحادثہ کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ نذرت للہ نذر ا : میں نے اللہ کے لئے نذر مانی قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمنِ صَوْماً [ مریم/ 26] میں نے خدا کے لئے روزے کی نذر مانی ہے ۔ وَما أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ [ البقرة/ 270] اور تم خدا کی راہ میں جس میں طرح کا خرچ کردیا کر دیا کوئی نذر مانو ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧٠) اور جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اور اطاعت خداوندی کے دائرہ میں منت مان کر اس کو پورا کرتے ہو جب کہ نیت خالص ہو تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہیں اور اس پر ثواب دیتے ہیں اور مشرکین سے عذاب خداوندی کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

310. Whether or not a man spends in the way of God, and whether or not he vows to spend in the way of God, God is fully aware both of his intentions and deeds. All those who either spend for the sake of God or vow to spend for the sake of God will be adequately rewarded. As for those who have either spent or have vowed to spend for others than God, no one will save them from God's chastisement. 'Vow' means either a man's pledge to spend something or to perform some act of goodness which is not obligatory on him providing a particular wish of his is fulfilled. Provided that this vow is related to some wish which is in itself permissible and good and that the person concerned makes it to none but God and for the sake of God, then such a vow will be reckoned as an act of obedience to God and its fulfilment will be worthy of reward. Otherwise such a vow will be seen as an act of disobedience and sin and its fulfilment will invite punishment from God.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :310 خرچ خواہ راہ خدا میں کیا ہو یا راہ شیطان میں ، اور نذر خواہ اللہ کے لیے مانی ہو یا غیر اللہ کے لیے ، دونوں صورتوں میں آدمی کی نیت اور اس کے فعل سے اللہ خوب واقف ہے ۔ جنہوں نے اس کے لیے خرچ کیا ہوگا اور اس کی خاطر نذر مانی ہوگی ، وہ اس کا اجر پائیں گے اور جن ظالموں نے شیطانی راہوں میں خرچ کیا ہو گا اور اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے لیے نذر مانی ہوں گی ان کو خدا کی سزا سے بچانے کے لیے کوئی مددگار نہ ملے گا ۔ نذر یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی مراد کے بر آنے پر کسی ایسے خرچ یا کسی ایسی خدمت کو اپنے اوپر لازم کر لے ، جو اس کے ذمے فرض نہ ہو ۔ اگر یہ مراد کسی حلال و جائز امر کی ہو ، اور اللہ سے مانگی گئی ہو ، اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے ، وہ اللہ ہی کے لیے ہو ، تو ایسی نذر اللہ کی اطاعت میں ہے اور اس کا پورا کرنا اجر و ثواب کا موجب ہے ۔ اگر یہ صورت نہ ہو ، تو ایسی نذر کا ماننا معصیت اور اس کا پورا کرنا موجب عذاب ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:270) وما انفقتم ۔۔ من نذر جملہ شرطیہ ہے فان اللہ یعلم جواب شرط۔ ما انفقتم میں ما موصولہ ہے انفقتم۔ ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ انفاق (افعال) مصدر۔ جو کچھ تم نے خرچ کیا۔ نفقۃ اسم مجرور۔ خرچ۔ یعنی صدقہ، خیرات، زکوۃ۔ نذرتم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ نذر (باب ضرب) تم نے منت مانی۔ النذر کے معنی کسی حادثہ کی وجہ سے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں (راغب) ۔ نذر کسی ایسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینے کو کہتے ہیں کہ اگر وہ عبادت یہ خود اپنے اوپر واجب نہ کرے تو وہ عبادت اس پر لازم نہیں ہوتی۔ (قرطبی) مطلب یہ کہ تم خدا کی راہ میں جس طرح کا خرچ کرو یا نذر مانو۔ اللہ تعالیٰ یقینا اسے جانتا ہے۔ انذار و نذر و نذر۔ بمعنی چوکنا کرنا۔ خبردار کرنا ۔ ڈرانا۔ نذر جمع نذر ڈرانے والا۔ خبردار کرنے والا۔ قرآن مجید میں ہر جگہ نذر (ڈرانے والا) سے مراد نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے والا ہے۔ انصار جمع ناصر و نصیر کی۔ مددگار۔ قرآن مجید میں جہاں مہاجرین و انصار کا ذکر آیا ہے وہاں انصار سے مراد انصار مدینہ ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کے بدولت اس لقب سے سرفراز کئے گئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی اللہ تعالیٰ ہرحال میں تمہاری نیت اور عمل سے واقف ہے۔ اس میں ایک طرف مخلصین کے لیے وعدہ ہے اور دوسری طرف ریاکار اور غیر اللہ کی نذریں ماننے والوں کے لیے وعید بھی ہے کہ ایسے لوگ ظالم ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کسی صورت رہائی نہیں ہوسکے گی۔ نذر یہ ہے کہ انسان اپنی مراد کے پوراہو جانے کی صورت میں اپنے اوپر کسی ایسے نفقہ یا کام کو لازم قرار دے لے جو اس پر لازم نہ ہو۔ (کبیر) پھر اگر یہ مراد جائز کام کی ہو اور اللہ تعالیٰ سے مانگی گئی ہو اور جس کام یا خرچ کی نذر مانی گئی ہے وہ بھی جائز ہو تو ایسی نذر کا پوراکر نا بھی واجب ہے ورنہ اس کا ماننا ارپورا کرنا لازم نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ بےجاکام کرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو ضروری شرائط کا لحاظ نہیں کرتے بلکہ احکام کی مخالفت کرتے ہیں ان کو تصریحا وعید سنادی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ مضمون سے پیوستہ۔ ایسا کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی آدمی نے خود اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہو اسے منّت یا نذر سے تعبیر کیا گیا ہے اس کا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ غیر اللہ کے نام کی نذر ماننا شرک ہے جس کی ہرگز اجازت نہیں۔ نذر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہونی چاہیے یہ جسمانی عبادت بھی ہوسکتی ہے اور صدقہ بھی۔ اگر کسی نے غلطی یا بےعلمی سے کوئی غیر شرعی کام کرنے کی نذر مانی ہو تو اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر نذر مانتے وقت قسم اٹھائی ہو تو غلط کام پر اٹھائی ہوئی قسم کا کفارہ دینا چاہیے جس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سورة المائدۃ آیت ٨٩ کی تلاوت کیجیے۔ نذر ماننے کا یہ طریقہ ناپسندیدہ ہے کہ کوئی شخص یہ ارادہ کرے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرا فلاں کام کردیا تو میں اتنا صدقہ، نفل یا حج کروں گا۔ اگر یہ کام نہ ہوا تو پھر میں نذر پوری نہیں کروں گا۔ ایسی نذر کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان : ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ نذر کسی چیز کو ٹالتی نہیں۔ نذر کے ذریعے صرف بخیل کا مال نکالا جاتا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب القدر ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کو صدقہ کرتے ہی رہنا چاہیے۔ رب ذوالجلال کے ساتھ شرط لگاناآدمی کو زیب نہیں دیتا کیونکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے پھر اس کے ساتھ شرط لگانے کا کیا معنٰی ؟ اگر کوئی شخص نذر مان کر اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے کیونکہ وہ بیک وقت چار گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ اپنے خالق اور رازق سے شرط لگانا، اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے سے انکار کرنا، عہد شکنی اور نعمت کی ناقدری کرنا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کی مدد نہیں کرتا۔ ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نافرمانی کے کام میں نذر کو پورا نہ کیا جائے اور جو چیز انسان کے قبضہ میں نہیں اس کی نذر نہ مانی جائے۔ ایک اور روایت میں ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نذر نہیں ہے۔ “ [ رواہ مسلم : باب لا وفاء لنذر فی معصیۃ ] مسائل ١۔ نیکی کے کام پر مانی ہوئی نذر کو پورا کرنا لازم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کی حمایت نہیں کرتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انسان اپنی دولت میں سے جو کچھ خرچ کرتا ہے ، اس پر صدقہ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ زکوٰۃ خیرات وصدقات اور جہاد فی سبیل اللہ کے لئے دیاجانے والا مال سب صدقات کے ضمن میں آتے ہیں ۔ نذر بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے ۔ صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ انفاق کرنے والا ایک معلوم چیز کو اپنے اوپر لازم کردیتا ہے ۔ اللہ کے سوا کسی کے لئے ، کسی کی راہ میں ، کسی کی وجہ سے ، کسی قسم کی نذر ونیاز دینا منع ہے ۔ اللہ کے سوا ، اس کے بندوں میں کسی کی نذر ماننا ایک گونا شرک ہے ۔ جس طرح مشرکین اپنے الٰہوں اور بتوں کے استہانوں پر مختلف جانور ذبح کرتے تھے اور یہ کام جاہلیت کے مختلف ادوار میں ہوتا رہتا ہے۔ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ................ ” تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو ، اللہ کو اس کا علم ہے ۔ “ مومن کا یہ عقیدہ کہ ذات باری کو اس کی نیت کا پورا علم ہے ، وہ اس کی ضمیر کی پوشیدہ خواہشات سے بھی خبردار ہے اور اس کی تمام خفیہ حرکات بھی اس کی نظر میں ہیں ، اس کے شعور میں مختلف قسم کے زندہ احساسات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ وہ اس بات سے پرہیز کرتا ہے کہ اس کی سوچ اور اس کے عمل میں کسی قسم کی ریاکاری یا دکھاوا پایا جائے ۔ وہ بخیلی اور کنجوسی سے نفرت کرنے لگتا ہے ۔ اس کے دل میں کمی وسائل اور فقر مسکنت کا خوف پیدا نہیں ہوتا ۔ اس کا یہ شعور پختہ ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں پوری پوری جزا پالے گا ۔ وہ راضی برضا ہوکر اطمینان اور راحت کی زندگی بسر کرنے لگتا ہے ۔ وہ اللہ کے دربار میں اس کے انعامات کا شکر ادا کرتے ہوئے حاضر ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جو شخص حق نعمت ادا نہیں کرتا ، وہ اللہ اور اپنے بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتا ۔ وہ اللہ کے دئیے سے خیرات وصدقات نہیں ادا کرتا ، تو وہ شخص ظلم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ وہ اپنے عہد کے ساتھ ظلم کرتا ہے ، عوام الناس پر ظلم کرتا ہے ، خود اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ................ ” اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو کچھ خرچ کرو گے یا نذر مانو گے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت اور ریا اور من و اذیٰ سے بچنے کی تاکید اور مال طیب خرچ کرنے کا حکم فرمانے اور شیطان کے وسوسوں پر عمل نہ کرنے اور خدائی وعدوں کے مطابق اعمال کے ثواب کی امید رکھنے کا حکم دینے کے بعد اب اجمالی طور پر یہ فرمایا ہے کہ تم جو بھی کوئی خرچہ کم یا زیادہ دکھا کر یا پوشیدہ طور پر خرچ کرو گے یا کوئی نذر مانو گے تو اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے وہ نیت اور عمل سب کو جانتا ہے اسی کے مطابق وہ جزا دے گا۔ یہ ایک اعتبار سے گزشتہ مضامین کی تاکید ہے، نفقہ کے ساتھ نذر کا ذکر بھی فرمایا ہے کوئی شخص اگر نذر مان لے بشرطیکہ گناہ کی نذر نہ ہو تو وہ لازم ہوجاتی ہے نذر مطلق بھی ہوتی ہے اور معلق بھی، مطلق یہ کہ یوں زبان سے کہے کہ اللہ کے لیے ایک روزہ رکھوں گا یا دو (٢) رکعت نماز پڑھوں گا یا نفلی صدقہ کروں گا اور نذر معلق یہ ہے کہ یوں کہے کہ میرا بیٹا اچھا ہوجائے تو اتنے نفل پڑھوں گا یا اتنے مسکینوں کو کھانا کھلاؤں گا یا سو (١٠٠) روپے صدقہ کرونگا۔ دونوں طرح کی نذر کرنے سے نذر کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ سورۂ حج میں ارشاد ہے : (وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ ) (کہ اپنی نذروں کو پورا کریں) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عام طور سے لوگ چونکہ مرض یا خوف یا کسی مصیبت کے دور کرنے کے لیے نذر مانتے ہیں اور عموماً مال خرچ کرنے کی نذر ہوتی ہے اس لیے یہاں نفقہ کے ساتھ اس کا بھی ذکر فرما دیا ہے، نذر کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نذر ماننے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ وہ کسی چیز کو دفع نہیں کرسکتی اور ہوتا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ بخیل سے کوئی چیز نکال لی جاتی ہے۔ (رواہ البخاری ص ٩٩٠ ج ٢) نذر ماننا مناسب تو نہیں جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوا لیکن اگر کوئی شخص نذر مان لے تو اسے پورا کرے۔ البتہ اگر گناہ کی نذر مانی ہو تو اس کو پورا نہ کرے لیکن اس کا کفارہ ادا کرے جو قسم کا کفارہ ہے وہ ہی نذر کی خلاف ورزی کا بھی کفارہ ہے قسم کا کفارہ سورة مائدہ میں ساتویں پارہ کے شروع میں مذکورہ ہے وہاں اس کی تفصیل دیکھ لی جائے۔ مسئلہ : کسی بھی گناہ کی نذر ماننا حرام ہے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کی اطاعت کی نذر مانے وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جو شخص معصیت کی نذر مان لے وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے (رواہ البخاری ص ٩٩١ ج ٢) یعنی گناہ کی نذر ماننے کی وجہ سے یہ نہ سمجھے کہ مجھے گناہ کرنا ہی ہے بلکہ اپنی نذر کی خلاف ورزی کرے اور کفارہ دیدے۔ (کما فی روایۃ ابی داود والترمذی و النسائی مشکوٰۃ المصابیح ص ٢٩٨) وجوب نذر سے متعلق فقہاء نے چند مسائل لکھے ہیں ان کے لیے کتب فقہ کی مراجعت کی جائے۔ پھر فرمایا : (وَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ ) (کہ ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں۔ ) ہر معصیت ظلم ہے۔ چھوٹے بڑے جتنے بھی گناہ ہیں اپنے اپنے درجہ کے اعتبار سے ظلم ہیں بہت سے گناہ ایسے ہیں جو دوسروں پر ظلم کرنے کا سبب بنتے ہیں لیکن ہر گناہ، گناہ کرنے والے کی جان پر تو بہر حال ظلم ہے ہی اور سب سے بڑا ظلم کفر و شرک ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

531 تم جو صدقہ کرتے ہو خواہ فرضی ہو خواہ نفلی۔ اللہ کی راہ میں یا شیطان کی راہ میں تھوڑا ہو یا زیادہ۔ اسی طرح تم جو نذریں مانتے ہو۔ خواہ وہ اللہ کی تعظیم ورضا کے لیے ہوں خواہ غیر اللہ کی تعظیم اور خوشنودی کیلئے۔ اللہ ان سے بیخبر نہیں سب کو جانتا ہے اور ہر ایک پر اس کے مطابق جزا دے گا۔ وما انفقتم من نفقة فی سبیل اللہ او فی سبیل الشیطان او نذرتم من نذر فی طاعة اللہ او فی معصیة فان اللہ یعلمہ لا یخفی علیہ وھو مجازیکم علیہ (مدارک ص 106 ج 1) حضرت شیخ (رح) فرماتے ہیں کہ نذر کے دو معنی آتے ہیں ایک معنی مشہور جس کا صلہ علی آتا ہے۔ دوسرا معنی عہد وپیمار کرنا جس کا صلہ الی ہوتا ہے یہاں معنی ثانی مراد ہے تاکہ حدیث کی مخالفت لازم نہ آئے کہ نذر سے بخیل کا مال خرچ کرانا ہوتا ہے لہذا معنی یوں ہونگے کہ تم جو عہدوپیمان کرتے ہو کہ تم خدا کے واسطے دوگے لہذا عہد پورا کرو اور مال دو ۔ 532 خدا کے احکام کو ٹھکرا کر اپنے حق میں ناانصافی اور ظلم کرنیوالوں کا کوئی مددگار نہیں جو انہیں اس ظلم کے بد انجام یعنی عذاب الٰہی سے بچا سکے نہ بذریعہ طاقت نہ بذریعہ سفارش ای اعوان ینصرونہ من باس اللہ تعالیٰ لاشفاعۃ ولا مدافعۃ (روح ص 43 ج 3) ظالمین کا لفظ عام ہے تمام ریاکار، خیرات کر کے احسان جتلانے والے، اللہ کی راہ میں گھٹیا چیزیں دینے والے، ناجائز مصارف میں دولت خرچ کرنیوالے، خلاف شریعت نذریں منتیں ماننے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنیوالے وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔ فیشمل المنفقین بالریاء والمن والاذی والمتحرین للخبیث فی الانفاق والمنفقین فی باطل والنذرین فی معصیۃ والممتتنعین عن اداء ما نذروا فی حق والباخلین بالصدقة مما اتاھم اللہ تعالیٰ من فضلہ (روح ص 43 ج 3)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور تم لوگ جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو اور جس قدر خرچ کرتے ہو اور جس طرح بھی خرچ کرتے ہو اور جہاں کہیں خرچ کرتے ہو یا تم کسی قسم کی نذر اور منت مانتے ہو سو اللہ تعالیٰ اس سب کو جانتا ہے اور بےجا کام کرنے والوں کا کوئی مددگار اور ساتھی اور حمایتی نہ ہوگا۔ (تیسیر) نذر کہتے ہیں دل سے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم کرلینا خواہ وہ اچھی ہو یا بری ہو اور شرعاً نذر کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسینی کی کو جس کی شریعت اسلامیہ میں نظیر موجود ہو اپنے اوپر لازم کرلینا خواہ وہ عبادت مالیہ ہو یا مدنی خواہ مشروط ہو یا غیر مشروط بہرحال صدقات اور خیرات کے ساتھ نذر کو بھی شامل کردیا کیونکہ نذر کرنے اور منت ماننے کے بعد اس منت کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اگر مشروط اور معلق ہو تو شرط پوری ہونے کے بعد اور اگر مشروط نہ ہو تو جس طرح منت مانی ہو اس کا پورا کرنا ضروری ہوتا ہے آیت اپنے عموم کی وجہ سے ہر قسم کے خرچ پر اور ہر قسم کی نذر پر صادق آتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے تیسیر میں اشارہ کردیا ہے۔ حضرت حق کے علم اور اطلاع کا منشا یہ ہے کہ خرچ زیادہ ہو یا کم ہو طاعت میں خرچ کردیا معصیت میں طاعت میں خرچ کر کے احسان جتائو یا سائل کو اذیت پہنچائو دکھاوے کو خرچ کردیا اللہ کے لئے خرچ کرو۔ ردی اور گھٹیا مال دو یا عمدہ اسی طرح منت اچھی مانو یا بری اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانو یا غیر اللہ کے نام کی منت مانو، نذر کو پورا کردیا نہ پورا کرو۔ غرض ہم کو تمام باتوں کا علم ہوتا ہے طاعت کو صحیح طور پر بجا لائو گے اور منت کو صحیح طور پر ادا کرو گے تو اجر وثواب عطا فرمائیں گے اور اگر کوتاہی کرو گے اور شرائط وقیود کے پور کرنے میں کمی کرو گے یا غیر اللہ کے نام کی منتیں مانو گے یا معصیت کی نذر کرو گے یا اللہ کے نام کی نذر کرو گے تو ہم سزا دیں گے اور تمہارے اجر وثواب کو کم کردیں گے یا بالکل غارت کردیں گے۔ آخر میں فرمایا جو لوگ شرائط کے پورا کرنے کی رعایت نہیں کرتے اور احکام الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں یا فسق و فجور میں خرچ کرتے ہیں وہ ظالم ہیں اور ایسے ظالموں کا قیامت میں کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی قبول کی تو واجب ہوگئی اب ادا نہ کرے گا تو گناہگار ہے نذر اللہ کے سوا کسی کی نہ چاہئے مگر یہ کہے کہ اللہ کے واسطے فلانے شخص کو دوں گا تو مختار ہے۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب کا مطلب یہ ہے کہ منت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے نام کی ہونی چاہئے غیر اللہ کے نام کی منت حرام ہے۔ ہاں ! یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرا کام کردیا تو میں فلاح غریب کو کھانا کھلائوں گا یا کوئی مسجد تعمی کروں گا یا فلاں بزرگ کی روح کو ثواب پہنچائوں گا ایک کنواں کھدوا کر کسی بزرگ کے لئے وقف کر دوں گا یہ طریقہ نذر میں جائز ہے مگر نذر اور منت فقط خدا کے نام پر کی جائے۔ اب آگے صدقات کی کیفیت بیان فرماتے ہیں کہ صدقہ کا ظاہر کرنا بہتر ہے یا پوشیدہ طور پر دینا اچھا ہے ۔ چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ (تسہیل)