Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 279

سورة البقرة

فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَکُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِکُمۡ ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَ لَا تُظۡلَمُوۡنَ ﴿۲۷۹﴾

And if you do not, then be informed of a war [against you] from Allah and His Messenger. But if you repent, you may have your principal - [thus] you do no wrong, nor are you wronged.

اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالٰی سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ ہاں اگر توبہ کر لو تو تمہارا اصل مال تمہارا ہی ہے ، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ ... O you who believe! Be afraid of Allah and give up what remains (due to you) from Riba (from now onward), if you are (really) believers. And if you do not do it, then take a notice of war from Allah and His Messenger. They said, "We repent to Allah and abandon whatever is left of our Riba", and they all abandoned it. This Ayah serves as a stern threat to those who continue to deal in Riba after Allah revealed this warning. Riba Constitutes War Against Allah and His Messenger Ibn Jurayj said that Ibn Abbas said that, فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ (then take a notice of war) means, "Be sure of a war from Allah and His Messenger." He also said, "On the Day of Resurrection, those who eat Riba will be told, `take up arms for war."' He then recited, فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ (And if you do not do it, then take a notice of war from Allah and His Messenger). Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas said about, فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ (And if you do not do it, then take a notice of war from Allah and His Messenger), "Whoever kept dealing with Riba and did not refrain from it, then the Muslim Leader should require him to repent. If he still did not refrain from Riba, the Muslim Leader should cut off his head." Allah then said, ... وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُوُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ ... But if you repent, you shall have your capital sums. Deal not unjustly, by taking the Riba, ... وَلاَ تُظْلَمُونَ And you shall not be dealt with unjustly. meaning, your original capital will not diminish. Rather, you will receive only what you lent without increase or decrease. Ibn Abi Hatim recorded that Amr bin Al-Ahwas said, "The Messenger of Allah gave a speech during the Farewell Hajj saying; أَلاَ إِنَّ كُلَّ رِبًا كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ عَنْكُمْ كُلُّهُ لَكُمْ رُوُوسُ أَمْوَالِكُم لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَتُظْلَمُونَ وَأَوَّلُ رِبًا مَوْضُوعٍ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ مَوْضُوعٌ كُلُّه Verily, every case of Riba from the Jahiliyyah is completely annulled. You will only take back your capital, without increase or decrease. The first Riba that I annul is the Riba of Al-Abbas bin Abdul-Muttalib, all of it is annulled. Being Kind to Debtors Who Face Financial Difficulties Allah said, وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

279۔ 1 یہ ایسی سخت سزا ہے جو اور کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ اس لئے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے کہا کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے (ابن کثیر) 279۔ 2 تم اگر اصل زر سے زیادہ وصول کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩٨] یہاں ہم سود سے متعلق چند احادیث بیان کرتے ہیں : (١) حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود لینے والے، دینے والے، تحریر لکھنے والے اور گواہوں، سب پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب (گناہ میں) برابر ہیں (مسلم، کتاب البیوع۔ باب لعن آکل الربوا و موکلہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ بنکوں کا عملہ بھی اس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ (٢) آپ نے فرمایا (&: سود کے گناہ کے) اگر ستر حصے کئے جائیں تو اس کا کمزور حصہ بھی اپنی ماں سے زنا کے برابر ہے & (ابن ماجہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الربا۔ فصل ثالث) (٣) آپ نے فرمایا : & سود کا ایک درہم جو آدمی کھاتا ہے اور وہ اس کے سودی ہونے کو جانتا ہے تو وہ گناہ میں چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے & (مسند احمد۔ دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب البیوع۔ باب الربا فصل ثالث) یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے کئی گناہ ایسے ہیں جو سود سے بھی بہت بڑے ہیں۔ مثلاً شرک، قتل ناحق اور زنا وغیرہ۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی وعید اللہ تعالیٰ نے صرف سود کے متعلق سنائی ہے اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایسے سخت الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کسی اور گناہ کے متعلق استعمال نہیں فرمائے تو آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ سود اسلامی تعلیمات کا نقیض اور اس سے براہ راست متصادم ہے اور اس کا حملہ بالخصوص اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام پر ہوتا ہے۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کا بھائی بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ آپس میں مروت، ہمدردی، ایک دوسرے پر رحم اور ایثار کا سبق سکھلاتا ہے۔ آپ نے ساری زندگی صحابہ کرام (رض) کو اخوت و ہمدردی کا سبق دیا اور ایک دوسرے کے جانی دشمن معاشرے کی، وحی الٰہی کے تحت اس طرح تربیت فرمائی کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے بھائی بھائی اور مونس و غمخوار بن گئے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ایک احسان عظیم شمار کرتے ہوئے قرآن میں دو مقامات پر اس کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ( سورة آل عمران کی آیت ١٠٣ میں اور سورة انفال کی آیت ٦٣ میں) اور یہ چیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ماحصل تھا۔ جبکہ سود انسان میں ان سے بالکل متضاد رذیلہ صفات مثلاً بخل، حرص، زر پرستی اور شقاوت پیدا کرتا ہے۔ اور بھائی بھائی میں منافرت پیدا کرتا ہے جو اسلامی تعلیم کی عین ضد ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلام کے معاشی نظام کا تمام تر ماحصل یہ ہے کہ دولت گردش میں رہے اور اس گردش کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ اسلام کے نظام زکوٰۃ و صدقات کو اسی لئے فرض کیا گیا ہے اور قانون میراث اور حقوق باہمی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ جبکہ سودی معاشرہ میں دولت کا بہاؤ ہمیشہ غریب سے امیر کی طرف ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی سود اسلام کے پورے معاشی نظام کی عین ضد ہے۔ (٤) آپ نے فرمایا کہ &: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہوگا اگر سود نہ کھائے تو بھی اس کا بخار (اور ایک دوسری روایت کے مطابق) اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کے رہے گا & (نسائی۔ کتاب البیوع۔ باب اجتناب الشبہات فی الکسب) اور آج کا دور بالکل ایسا ہی دور ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں اور اسی طرح مسلمانوں کے رگ و ریشہ میں بھی سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے، جس سے ہر شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر متاثر ہو رہا ہے، آج اگر ایک مسلمان پوری نیک نیتی سے سود سے کلیتہ بچنا چاہے بھی تو اسے کئی مقامات پر الجھنیں پیش آتی ہیں۔ مثلاً آج کل اگر کوئی شخص گاڑی، سکوٹر، کار، ویگن، بس یا ٹرک خریدے گا تو اسے لازماً اس کا بیمہ کرانا پڑے گا۔ اگرچہ اس قسم کے بیمہ کی رقم قلیل ہوتی ہے اور یہ وہ بیمہ نہیں ہوتا جس میں حادثات کی شکل میں بیمہ کمپنی نقصان ادا کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں قانون یہ ہے کہ جب تک نئی گاڑی کا بیمہ نہ کرایا جائے وہ استعمال میں نہیں لائی جاسکتی اور اس قلیل رقم کی قسم کا بیمہ ہر سال کرانا پڑتا ہے۔ اور بیمہ کا کاروبار شرعاً کئی پہلوؤں سے ناجائز ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ اسی طرح تاجر پیشہ حضرات بنک سے تعلق رکھے بغیر نہ مال برآمد کرسکتے ہیں اور نہ درآمد۔ ان کے لئے آسان راہ یہی ہوتی ہے کہ وہ بنک سے ایل سی (Letter of Credit) یا اعتماد نامہ حاصل کریں۔ اس طرح تمام درآمد اور برآمد کردہ مال سودی کاروبار سے متاثر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تجارتی سود یا کمرشل انٹرسٹ Intrest) (Commercial کو جائز سمجھنے والے اور حمایت کرنے والے حضرات یہ حجت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ جب تمہارے گھر کی بیشتر اشیاء سودی کاروبار کے راستہ سے ہو کر تم تک پہنچی ہیں تو تم ان سے بچ کیسے سکتے ہو ؟ تو اس قسم کے اعتراضات کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے سود کو ختم کرنا یا اس کی متبادل راہ تلاش کرنا حکومت کا کام ہے اور اگر حکومت یہ کام نہیں کرتی تو ہر مسلمان انفرادی طور پر جہاں تک سود سے بچ سکتا ہے بچے اور جہاں وہ مجبور ہے وہاں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا کیونکہ شریعت کا اصول ہے کہ مواخذہ اس حد تک ہے جہاں تک انسان کا اختیار ہے اور جہاں اضطرار ہے وہاں مواخذہ نہیں۔ اسی طرح آج کے دور میں ایک اہم مسئلہ اپنی بچت یا زائد رقم کو کہیں محفوظ رکھنے کا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس غرض کے لئے گھروں سے بنک محفوظ تر جگہ ہے۔ اور بنکوں میں تین طرح کے کھاتے چلتے ہیں (i) چالو کھاتے Account Current جن میں بنک لوگوں کی رقوم جمع کرتے ہیں، لیکن جمع کرنے والوں کو سود نہیں دیتے، (ii) بچت کھاتے Saving Account جن پر بنک سود دیتا ہے لیکن تھوڑی شرح سے، (iii) میعادی کھاتے Account Fixed Deposit یعنی ایسی رقوم کے کھاتے جو طویل اور مقررہ مدت کے لئے جمع کرائی جاتی ہیں۔ ان پر بنک سود دیتا ہے۔ اب ایک سود سے پرہیز کرنے والا شخص زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتا ہے کہ وہ اپنی رقوم چالو کھاتہ میں جمع کرائے اور سود نہ لے۔ لیکن اس میں ایک اور الجھن پیش آتی ہے کہ بنک اس چالو کھاتہ کی رقوم کو بھی سود پر دیتا ہے اور سودی کاروبار کرتا ہے۔ لہذا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنک کے پاس سود کی رقم کیوں چھوڑی جائے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝) 5 ۔ المآئدہ :2) & یعنی گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو & لہذا بنک سے یہ رقم ضرور وصول کر لینی چاہئے مگر اسے اپنے استعمال میں نہ لایا جائے۔ بلکہ اسے محتاجوں اور غریبوں کو دے دیا جائے یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردیا جائے۔ اور اس سے ثواب کی نیت بھی نہ رکھی جائے۔ کیونکہ حرام مال کا صدقہ قابل قبول ہی نہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ تبدیل ید سے احکام شریعت بدل جاتے ہیں۔ مثلاً زید کے پاس جو سود کی رقم ہے وہ اگر بکرکو صدقہ کر دے یا ویسے بلانیت ثواب دے تو وہ اس کے لئے حرام مال نہیں ہوگا۔ لہذا روپیہ چالو کھاتے کے بجائے سودی کھاتے میں رکھنا چاہئے اور بنک سے سود بھی ضرور وصول کرنا چاہئے جو محتاجوں یا رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کردینا چاہئے یا (ii) کبھی بنک سے قرضہ لینے کی ضرورت پڑے تو اس سود کی جگہ یہ رقم ادا کردی جائے یا (iii) گورنمنٹ جو ناجائز ٹیکس عائد کرتی ہے ایسی مدات میں یہ سود کی رقم صرف کردی جائے۔ مگر جب ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ساری مصلحتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ لہذا اس گندگی سے ہر صورت پرہیز لازمی ہے اور ایسے نظریہ کی تہ میں یہی بات نظر آتی ہے کہ انسان چونکہ فطرتاً حریص واقع ہوا ہے لہذا مال کسی راہ سے بھی آتا نظر آئے اسے چھوڑنے کو اس کا جی نہیں چاہتا۔ مندرجہ بالا تین صورتوں میں سے پہلی صورت بظاہر مستحسن نظر آتی ہے مگر ہم ایسی مصلحت کے قائل نہیں جس کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ جو شخص سود لینا شروع کر دے گا اس گندگی سے کلیتہ کبھی پاک صاف نہ رہ سکے گا۔ بلکہ کچھ وقت گزرنے پر اس کے نظریہ میں لچک آنا شروع ہوجائے گی اور وہ خود ومن وقع فی الشبہات فقد وقع فی الحرام بن جائے گا۔ پس اس کا یہی رویہ اس کی اولاد میں منتقل ہوگا اور دوسری یہ کہ ہم اپنی ذات کی حد تک سود سے بچنے کی فکر کریں تو بھی بڑی بات ہے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم بنک میں رقم اس لئے جمع کرائیں کہ بنک اس سے سود کمائے بلکہ ہمارا مقصد صرف رقم کی حفاظت ہے اور وہ پورا ہوجاتا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ سرکاری، نیم سرکاری اور بعض تجارتی اداروں کے ملازمین کے پراویڈنٹ فنڈ کا ہے، اس فنڈ میں کچھ رقم تو ملازموں کی اپنی تنخواہ سے ماہوار وضع ہوتی اور جمع ہوتی رہتی ہے، ساتھ ہی سود در سود کے حساب سے جمع ہوتا رہتا ہے اور ملازمت سے سبکدوشی کے وقت اسے یہ ساری رقم یکمشت مل جاتی ہے اس مسئلہ کو عموماً اضطراری سمجھا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت یا اداروں کا یکطرفہ فیصلہ ہوتا ہے اور اسی بنا پر بعض علماء نے اسے ملازمت کی شرط اور اسے ملازم کے حق المحنت میں شامل کرکے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات محض لاعلمی کی بنا پر کہی جاتی ہے اگر کوئی سود نہ لینا چاہے تو اسے کوئی مجبور نہیں کرتا۔ پراویڈنٹ فنڈ کے معاہدہ فارم کی پشت پر جو شرائط لکھی ہوتی ہیں ان میں سے شق نمبر ١٦ میں یہ بات وضاحت سے درج ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے اسے کوئی مجبوری نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ضیاء الحق مرحوم نے اس کے متبادل حل کو قانونی شکل دے دی ہے۔ جو یہ ہے کہ جو شخص سود نہ لینا چاہے نہ لے اور اس کے عوض اسے کسی وقت بھی اپنی جمع شدہ رقم کا ٨٠ فیصد بطور قرض حسنہ مل سکتا ہے۔ جسے وہ بعد میں بالاقساط اپنی تنخواہ سے کٹوا دیا کرے گا۔ تیسرا اہم مسئلہ بنک کے شراکتی کھاتوں کا ہے جو صدر ضیاء الحق کی سود کو ختم کرنے کی کوشش کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا۔ بنک کی اصطلاحی زبان میں انہیں پی۔ ایل۔ ایس S۔ L۔ P یعنی Shares Loss and Profit) کہتے ہیں۔ جس سے دیندار طبقہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ایسے لوگوں نے پی۔ ایل۔ ایس کھاتوں میں حساب منتقل کروالیا۔ مگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بھی بیع عینہ ہی کی ذرا وسیع پیمانے پر صورت اختیار کی گئی ہے۔ بیع عینہ میں حیلہ سازی کے ذریعہ سود کو بیع کی شکل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی کو نقد رقم کی ضرورت ہے اور وہ سود میں بھی ملوث نہیں ہونا چاہتا تو وہ & ب & سے کوئی چیز مثلاً گھوڑا پانچ ہزار روپے میں ایک سال کے وعدہ پر خریدتا ہے پھر ایک دو دن بعد & الف & وہی گھوڑا & ب & کے پاس ساڑھے چار ہزار روپے نقد میں فروخت کردیتا ہے اور سال بعد & الف & کو پانچ ہزار روپے ادا کردیتا ہے۔ اس طرح & الف & کو فوراً ساڑھے چار ہزار روپے میسر آگئے اور & ب & کو ایک سال بعد ساڑھے چار ہزار روپے پر پانچ سو منافع مل گیا۔ جو دراصل اس رقم کا ایک سال کا سود ہے اور گھوڑے کی بیع کو درمیان میں لاکر اس سود کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بیع عینہ کہلاتی ہے۔ (موطا امام مالک۔ کتاب البیوع، باب العینہ) یہ خالص سود ہے اور & الف & اور & ب & دونوں گنہگار ہیں۔ شراکتی کھاتوں میں بھی ایسی ہی کاروائی کی جاتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شراکتی کھاتوں میں سود اور ڈسکاؤنٹ (Discount) کے بجائے مارک اپ اور مارک ڈاؤن کی اصطلاحیں رائج کی گئی ہیں۔ شرح سود تو فیصد سالانہ ہوتی ہے جبکہ مارک اپ فی ہزار فی یومیہ ہوتی ہے۔ جو مضارب اور بنک کے درمیان سمجھوتے سے طے پاتے ہے اور یہ شرح تقریباً وہی بن جاتی ہے جو بنکوں میں فیصد سالانہ رائج ہوتی ہے مثلاً زید مشینری کی خرید کے لئے بنک سے پچاس ہزار روپے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اب بنک یہ کرے گا کہ اس رقم کے عوض کاغذوں میں مشینری خود زید سے خرید لے گا اور اس پر متوقع منافع کا اندازہ کرکے & مارک اپ & لگا کر زید سے یہ مارک اپ بطور کرایہ اور ماہوار قسط ہر ماہ وصول کرتا رہے گا اور اگر زید مقررہ مدت کے اندر اصل زر بمعہ مارک اپ بالاقساط ادا نہیں کرسکتا تو بنک کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مشینری کو فروخت کرکے اپنا سب کچھ کھرا کرلے۔ باقی جو بچے گا وہ زید کا ہوگا۔ بنک کو مشینری کے حصول، اخراجات حصول، حصول کے دوران تلفی کا خطرہ، اس کی نگہداشت، اور وقت سے پہلے ناکارہ ہونے کی چنداں فکر نہیں ہوتی اور وہ ایسے تمام خطرات کی ذمہ داری زید پر ڈال دیتا ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیجئے کہ مضاربت کی اس شکل کو اسلامی نظریہ بیع سے کس قدر تعلق ہے ؟ معاملہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے بنک اپنے بنیادی ڈھانچہ کے لحاظ سے مالیاتی توسط کے ادارے ہیں۔ تجارتی ادارے نہیں ہیں۔ وہ اپنا حق المحنت سود یا یقینی منافع کی شکل میں وصول کرتے ہیں لیکن کاروباری خطرات کی ذمہ داری کسی قیمت پر لینا گوارا نہیں کرتے اور یہی بات سود اور تجارت کا بنیادی فرق ہے۔ لہذا جب تک ذہنی طور پر اس بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی گوارا نہیں کریں گے سود اپنی نئی نئی شکلوں میں جلوہ گری کرتا رہے گا۔ چوتھا اہم مسئلہ بیمہ کا ہے، سود کی طرح بیمہ نے بھی ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پاکستان میں ١٩٧٣ ء سے پہلے بیمہ کا کاروبار پرائیوٹ کمپنیاں کرتی تھیں تاہم انہیں حکومت کی سرپرستی حاصل تھی۔ ١٩٧٣ ء میں حکومت نے ان کو اپنی تحویل میں لے لیا اور سب کمپنیوں کو مدغم کرکے سٹیٹ لائف انشورنس کے نام سے اس کاروبار کو مزید فروغ بخشا۔ آج ہر سرکاری و نیم سرکاری ملازم نیز ہر صنعتی اور تجارتی ادارے کے ملازم کا بیمہ زندگی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی موت یا حادثے کی صورت میں مقررہ رقم اس کے ان ورثاء کو ملتی ہے جو وہ خود تجویز کرتا ہے اور وہ رقم حکومت یا متعلقہ ادارہ ادا کرتا ہے۔ بیمہ پہلے تو صرف جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا ہوتا تھا۔ پھر زندگی کا بیمہ ہونے لگا۔ پھر انسان کے ایک ایک عضو کا الگ الگ بیمہ ہونے لگا اور آج کل تو بعض ذمہ داریوں مثلاً بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ کا بھی بیمہ کیا جاتا ہے۔ بیمہ پالیسی کی وضاحت کا یہ موقع نہیں۔ مختصراً یہ بتلا دینا ضروری ہے کہ اس میں سود کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، جوئے کا بھی اور بیع غرر کا بھی کیونکہ بیمہ کی شرائط طے کرتے وقت نہ بیمہ دار کو یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ ادا کرسکے گا اور نہ بیمہ کمپنی کو یہ پتا ہوتا ہے کہ اسے کیا کچھ لینا پڑے گا۔ گویا عوضین میں سے کسی ایک عوض کی بھی تعین نہیں ہوسکتی اور ایسی بیع ناجائز ہے۔ علاوہ ازیں یہ اسلام کے قانون میراث میں گڑبڑ پیدا کردیتی ہے۔ بیمہ کمپنیوں کی طرف سے اکثر باہمی ہمدردی اور تکافل، تعاون کا خوبصورت اور بھرپور پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک خالص کاروباری ادارہ ہے جو سودی کاروبار سے بھی کئی گنا زیادہ منافع بخش ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ١٩٧٨ ء میں امریکہ کی بیمہ کمپنیوں کو اپنے بیمہ داروں سے ٩٨ ارب ڈالر کی رقم وصول ہوئی اور اس رقم میں سے صرف ٤ ارب ڈالر اپنے بیمہ داروں کو ادا کئے۔ اس طرح ایک سال کے اندر ٩٤ ارب ڈالر کی رقم اپنے پاس جمع کرلی (روزنامہ & جنگ & مورخہ ١٠ مئی ١٩٧٩ ئ) اسکا حل یہی ہے کہ ہر شخص کو ہر طرح کے بیمہ سے بچنا لازم ہے، اور جہاں انسان مجبور ہو، وہاں ممکن ہے اللہ اسے معاف فرما دے۔ پانچواں اہم مسئلہ انعامی بانڈز (Bonds Prise) کا ہے۔ اس کاروبار کا بھی اور اس میں ملنے والے انعامات کا بھی آج کل عوام میں خوب چرچا ہے۔ یہ دراصل سود اور قمار کی مرکب شکل ہے اور یہ کاروبار حکومتی سطح پر کیا جاتا ہے۔ حکومت کو جب سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ اس ذریعہ سے سود کا نام لئے بغیر عوام سے روپیہ حاصل کرتی ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ مثلاً آج کل حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ٥٠ روپے، ١٠٠ روپے، ٥٠٠ روپے اور ١٠٠٠ روپے کے بانڈ (سرکاری تمسکات) چھاپ رکھے ہیں جو کسی وقت بھی کسی بھی بنک سے کیش کرائے جاسکتے ہیں۔ اور عوام میں بھی ان کا لین دین ایسے ہی چلتا ہے جیسے کرنسی نوٹوں کا۔ ان پر نمبر بھی کرنسی نوٹوں کی طرح ہی طبع کئے جاتے ہیں۔ اب مثلاً جنوری ١٩٩٥ ء میں ٥٠ روپے والے بانڈ فروخت ہوتے رہتے ہیں تو فروری میں ١٠٠ روپے والے فروخت ہوں گے، علی ہذا القیاس پھر ہر دو ماہ بعد ان کی قرعہ اندازی ہوتی ہے۔ ٥٠ روپے والوں کی مارچ میں اور ١٠٠ روپے والوں کی اپریل میں ہوگی۔ اب جو نمبر قرعہ اندازی میں آئیں گے وہ جس شخص کے پاس ہونگے وہ دکھا کر سٹیٹ بنک آف پاکستان یا قومی بچت کے کسی مرکز سے اعلان شدہ انعام حاصل کرے گا۔ یہ کاروبار چونکہ حکومت خود چلا رہی ہے۔ لہذا اسے خاصا فروغ حاصل ہوا ہے اور جن لوگوں کو حرام حلال کی کچھ تمیز نہیں وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہر دو ماہ بعد جو انعامات تقسیم ہوتے ہیں وہ دراصل اس جمع شدہ رقم کا دو ماہ کا سود ہوتا ہے۔ جو سب حقداروں میں تقسیم کرنے کے بجائے بذریعہ قرعہ اندازی چند افراد کو دے دیا جاتا ہے اور عوام کو دھوکا دینے کی خاطر اس کاروبار میں سود کا نام انعام رکھ دیا گیا ہے اور بذریعہ قرعہ اندازی یہ انعام کسی کو عطا کرنا ہی میسر (جوا یا قمار) ہے۔ اور یہی کچھ لاٹری میں ہوتا ہے۔ یہ سودی کاروبار انہیں مشاغل میں منحصر نہیں۔ اگر بنک سودی کاروبار کرتے ہیں تو ڈاک خانہ والے بھی کرتے ہیں اور قومی بچت کے مراکز بھی پھر اور بھی بہت سے سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارے ہیں جو سود پر رقم لے کر اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ اور لوگوں سے مختلف شکلوں میں سود وصول کرتے ہیں۔ آج کل اقساط پر اشیاء کی فروخت کا کاروبار بھی بہت رواج پا چکا ہے۔ اور یہ بات مال بیچنے والا اور لینے والا سب جانتے ہیں کہ ان اقساط میں سود کی رقم شامل ہوتی ہے اور اگر سرکاری واجبات یا بلوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو سرکاری اور نیم سرکاری ادارے جبراً اس پر سود وصول کرتے ہیں الغرض ہر طرف ہی فضا سود کے اثرات سے مسموم ہوچکی ہے۔ بایں ہمہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج بھی کوئی شخص سود سے بچنے کا پختہ عزم کرلے تو وہ سود سے بچ سکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی ناقابل علاج چیز ہے تو وہ انسان کی ہوس ہے۔ اگر ایک تاجر دوسروں کی دیکھا دیکھی ایک لاکھ کے سرمایہ سے بنک کی ملی بھگت سے چار لاکھ کا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے اضطرار کا نام کیوں دیتا ہے۔ اور اگر کوئی چیز درآمد کرتا ہے تو وہ پوری رقم پیشگی جمع کرا کر سود کے دھندے سے بچ بھی سکتا ہے۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ اضطرار کہیں بھی نہیں ہوتا بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ حلال طریقے سے کمائی کم ہوتی ہے۔ صرف زیادہ کمائی کی خاطر سود میں ملوث ہونا، پھر اسے اضطرار کا نام دینا ڈھٹائی نہیں تو اور کیا ہے اور ایسے حیلوں بہانوں سے کمائی ہوئی ساری کی ساری دولت حرام ہوجاتی ہے۔ اور اگر حقیقتاً انسان کسی وقت مجبور ہوجائے تو وہ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ وہ معاف فرمادے گا اور ایسا اضطرار صرف سود دینے میں ہی ہوسکتا ہے۔ لینے میں کبھی نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر سودی دھندا کرنے والے ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں تو بعض ادارے ایسے بھی موجود ہیں جو مضاربت اور شراکت کی بنیادوں پر لوگوں سے سرمایہ اکٹھا کرتے ہیں۔ مثلاً جائنٹ سٹاک کمپنیاں اور کو آپریٹو سوسائٹیاں خالص تجارتی بنیادوں پر کاروبار کرتی ہیں۔ ان کے حصص کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ اور کھلے بازار یہ حصص فروخت ہوتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج بھی کئی ایسے دیانت دار اور دیندار تاجر موجود ہیں جو مضاربت کی شرائط پر رقم قبول کرتے ہیں اور وقت مقررہ پر طے شدہ شرائط کے مطابق منافع بھی ادا کرتے ہیں اور بوقت ضرورت اصل رقم بھی واپس کردیتے ہیں۔ البتہ ایسے لوگوں کو تلاش ضرور کرنا پڑتا ہے۔ مگر ناپید نہیں ہیں۔ لہذا ہر شخص کو لازم ہے کہ وہ بہرصورت اس جرم عظیم سے اجتناب کرے۔ [٣٩٩] اللہ تعالیٰ نے معاشرہ کو سودی نظام سے نجات حاصل کرنے کی بہترین ترکیب خود ہی بتادی جو یہ تھی کہ اس حکم کے نزول کے بعد کوئی سود پر قرض دینے والا صرف اپنا اصل زر ہی وصول کرنے کا حقدار ہوگا اور سود کا مطالبہ کرکے مقروض پر ظلم نہیں کرے گا۔ اسی طرح مقروض کو اصل زر ضرور قرض خواہ کو ادا کرنا ہوگا۔ وہ اصل زر بھی یا اس کا کچھ حصہ دبا کر قرض خواہ پر ظلم نہیں کرے گا۔ یہ ہیں وہ آیات جنہیں آیات ربا کہا جاتا جن کے مطابق سود کو کلیتہ حرام قرار دیا گیا اور یہ سورة بقرہ میں سب سے آخر میں بلکہ آپ کی وفات سے صرف چار ماہ پیشتر نازل ہوئی تھیں۔ چناچہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ & جب سورة بقرہ کی سب سے بعد نازل ہونے والی آیات سود کے بارے میں نازل ہوئیں تو نبی اکرم نے مسجد میں جاکر ان آیتوں کو سنایا۔ پھر شراب کی سوداگری بھی حرام کردی & (بخاری۔ کتاب التفسیر زیر آیات مذکورہ) اور حضرت عمر (رض) نے فرمایا : & آیات ربا قرآن کی ان آیات سے ہیں، جو آخر زمانہ میں نازل ہوئیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ پیشتر اس کے کہ تمام احکام ہم پر واضح فرماتے۔ لہذا تم سود کو بھی چھوڑ دو اور ہر اس چیز کو بھی جس میں سود کا شائبہ ہو & (ابن ماجہ، دارمی، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب البیوع، باب الربا۔ فصل ثالث) ان آیات کے نزول کے چند ہی دن بعد آپ نے حجۃ الوداع ادا کیا اور اس حکم کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں یوں اعلان فرمایا کہ &: جاہلیت کے تمام سود باطل قرار دیئے جاتے ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا سود یعنی عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں & (مسلم۔ کتاب الحج۔ باب حجۃ النبی) شراب کی طرح سود بھی دراصل عرب معاشرہ کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا اور اس کا استیصال بھی بتدریج ہوا۔ سود کی مذمت میں سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت سورة روم کی آیت نمبر ٣٩ ہے جس میں یہ بتلایا گیا کہ & جو رقم تم سود پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال بڑھ جائیں تو ایسا مال، اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا & دوسری آیت سورة آل عمران کی آیت نمبر ١٣٠ ہے جس میں کہا گیا کہ : اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ & (یعنی سود مرکب) پھر اس کے بعد سورة بقرہ کی مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں۔ جن کے بعد سود ایک فوجداری جرم بن گیا اور عرب کے سود خور قبیلوں کو آپ نے عمال کے ذریعے آگاہ فرمایا کہ اگر وہ سودی لین دین سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۚ : ” بِحَرْبٍ “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ” بڑی جنگ “ ترجمہ کیا ہے۔ ” أَذِنَ یَأْذَنُ (س) “ کا صلہ اگر لام ہو، مثلاً ” أَذِنَ لَہُ “ تو اس کا معنی ” اِسْتَمَعَ “ ہوتا ہے یعنی کان لگانا، سننا اور اگر ” أَذِنَ بِہِ “ ہو تو اس کا معنی ” عَلِمَ بِہِ “ ہوتا ہے یعنی جاننا، آگاہ ہونا۔ خبر دار ہونا۔ (قاموس) یعنی اگر تم نے سود نہ چھوڑا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سے آگاہ اور خبردار ہوجاؤ۔ اور یہ وہ وعید ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دوسرے کسی جرم کے بارے میں اتنے واضح الفاظ میں نہیں دی گئی۔ ابن عباس (رض) ، ابن سیرین، حسن بصری اور بعض دیگر ائمہ (رض) کے نزدیک سود خور کو توبہ پر مجبور کیا جائے گا، اگر پھر بھی روش نہ بدلے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ (ابن کثیر) لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ : یعنی اصل مال سے زائد وصول کرو تو یہ تمہارا لوگوں پر ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل مال بھی نہ ملے تو یہ لوگوں کا تم پر ظلم ہوگا اور یہ دونوں چیزیں ہی انصاف کے خلاف ہیں۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

After that, in the fifth verse (279), severe warning has been given to those who act contrary to this injunction. They are told if they do not abandon ربا riba, they must face a declaration of war from Allah Almighty and His Messenger. So severe is this warning that any other warning of such severity does not appear anywhere in the Qur&an in relation to any other sin, no matter how great, except kufr (disbelief), of course. The verse then closes with the words: وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤسُ أَمْوَالِكُمْ that is, &if you repent and resolve to leave off the remaining amount of ربا riba in future, you will get your principal. Neither will you be able to do injustice to anyone by extracting more than your principal, nor will anyone be able to do injustice to you by decreasing or delaying the return of your principal.& Here the receipt of the principal has been conditioned by saying that you repent, and resolve that you will abandon ربا riba in future, and only then, you shall get your principal. Evidently this indicates if repentance ( توبہ Taubah) was not done by resolving to give up ربا riba, receiving the principal will no more be in order. Here are the related details. Take the case of a person who just does not believe that ربا riba could be حرام haram and therefore, he does not repent and resolve that he will have nothing to do with ربا riba anymore - then this person goes out of the fold of Islam and becomes an apostate (: مرتد murtadd). The injunction governing an apostate is that his belongings go out of his possession. As a consequence, that which he has earned during the period he was a Muslim, goes to his Muslim inheritors, and that which he earns after involvement with کفر kufr is deposited in the Baytul-Mal (بیت المال : the Exchequer of an Islamic State). Therefore, should his non-repentance be because he considers ربا riba to be حلال halal , he will not be entitled to receive even his principal. And if he does not go to the limit of considering ربا riba as حلال halal but, nevertheless, in actual practice, does not stop getting involved with it and, on top of that, gangs up with his kind and stands in confrontation with the Islamic government, he then is a rebel. His belongings too, are confiscated and placed as trust in the Baytul-Mal بیت المال ، so that it could be given back to him when he repents. Perhaps, it is to point out to such details that it was said in the form of a condition وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُ‌ءُوسُ أَمْوَالِكُمْ which implies that, if you do not repent, even your principal will be held back.

اس کے بعد پانچویں آیت میں اس حکم کی مخالفت کرنے والوں کو سخت وعید سنائی گئی جس کا مضمون یہ ہے کہ اگر تم نے سود کو نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو یہ وعید شدید ایسی ہے کہ کفر کے سوا اور کسی بڑے سے بڑے گناہ پر قرآن میں ایسی وعید نہیں آئی پھر اس آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے : وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ یعنی اگر تم توبہ کرلو اور آئندہ کے لئے سود کی بقایا رقم چھوڑنے کا عزم کرلو تو تمہیں تمہارے اصل رأس المال مل جائیں گے نہ تم اصل رأس المال سے زائد حاصل کرکے کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ کوئی اصل راس المال میں کمی یا دیر کرکے تم پر ظلم کرنے پائے گا اس میں اصل رأس المال دینے کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے کہ تم توبہ کرلو اور آئندہ کو سود چھوڑنے کا عزم کرلو تب اصل رأس المال ملے گا۔ اس سے بظاہر اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اگر سود چھوڑنے کا عزم کرکے توبہ نہ کی تو اصل رأس المال بھی نہ ملے گا سو اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مسلمان ہوجانے کے باوجود سود کو حرام ہی نہ سمجھے اس لئے سود چھوڑنے کے لئے توبہ نہیں کرتا تب تو یہ شخص اسلام سے خارج اور مرتد ہوگیا جس کا حکم یہ ہے کہ مرتد کا مال اس کی ملک سے نکل جاتا ہے پھر جو زمانہ اسلام کی کمائی ہے وہ اس کے مسلمان وارثوں کو مل جاتی ہے اور جو کفر کے بعد کی کمائی ہے تو وہ بیت المال میں جمع کردی جاتی ہے اس لئے سود سے توبہ نہ کرنا اگر حلال سمجھنے کی بناء پر ہو تو اس کو اصل راس المال بھی نہ ملے گا اور اگر حلال تو نہیں سمجھتا مگر عملاً باز نہیں آتا اور اس کے ساتھ جتہ بنا کر حکومت اسلامیہ کا مقابلہ کرتا ہے تو وہ باغی ہے اس کا بھی سب مال ضبط کرکے بیت المال میں امانت رکھا جاتا ہے کہ جب یہ توبہ کرلے تب اس کا مال اس کو واپس دے دیا جائے شاید اس قسم کی جزئیات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بصورت شرط فرمایا گیا۔ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ یعنی اگر تم توبہ نہ کرو گے تو تمہارے رأس المال بھی ضبط ہوجائیں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۝ ٠ ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ۝ ٢٧٩ مصدر۔ بالشیئ۔ جاننا۔ خبردار ہونا۔ ترجمہ : تو خبردار ہوجاؤ خدا اور اس کے رسول سے جنگ کے لئے فایقنوا۔ یقین کرلو۔ حرب الحَرْبُ معروف، والحَرَب : السّلب في الحرب ثم قد سمّي كل سلب حربا، قال : والحرب فيه الحرائب، وقال : والحرب مشتقة المعنی من الحرب وقد حُرِبَ فهو حَرِيب، أي : سلیب، والتّحریب : إثارة الحرب، ورجل مِحْرَب، كأنه آلة في الحرب، والحَرْبَة : آلة للحرب معروفة، وأصله الفعلة من الحرب أو من الحراب، ( ح ر ب ) الحرب جنگ کا راز ۔ اور فتحۃ را کے ساتھ لڑائی میں کسی کا مال چھیننے کے ہیں پھر ہر قسم کے سب کے حرب کہاجاتا ہے اور حرب معنوی لحاظ سے حرب سے مشتق ہے کہا جاتا ہے ۔ حرب الرجل ان کا سامان چھین لیا گیا فھو حریب یعنی لٹا ہوا ۔ التحریب لڑائی کا بھڑکا نا ۔ رجل محرب جنگجو گویا وہ لڑائی بھڑکانے کا آلہ ہے ۔ الحربۃ بر چھا ۔ اصل میں یہ حرب یا حراب سے فعلۃ کے وزن پر ہے اور توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧٩) اور اگر سود سے توبہ کرتے ہو تو بنی مخزوم کی طرح تمہارا جو اصل مال سود کے علاوہ ہے وہ مل جائے گا اور جب کوئی شخص سودے زیادتی کا مطالبہ نہ کرے تو اس پر کوئی ظلم نہیں اور جس وقت تم اصل مال دے دو گے تو تم پر بھی کوئی شخص ظلم نہیں کرے گا اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ نہ تم کسی کے قرض میں کمی کرو اور نہ تمہارے قرضوں میں کمی کی جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧٩ (فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ج) سود خوری سے با زنہ آنے پر یہ الٹی میٹم ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی اور گناہ پر یہ بات نہیں آئی ہے۔ یہ واحد گناہ ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ (وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ج) ۔ تمہارے جو اصل رأس المال ہیں وہ تمہیں لوٹا دیے جائیں گے۔ چناچہ سود چھوڑ دو اور اپنے رأس المال واپس لے لو۔ ( لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ ) ۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو کہ اس سے سود وصول کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے کہ تمہارا رأس المال بھی دبا دیا جائے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

323. This verse was revealed after the conquest of Makka and has been placed here because of its contextual relevance. Although interest was considered objectionable earlier, it had not been legally prohibited. After the revelation of this verse interest-bearing transactions became a punishable offence within the realm of Islam. The Prophet (peace he on him) warned the Arab tribes through his officials that war would be declared against them if they did not give up interest-bearing transactions. It was specified, for instance, in the agreement under which the Christians of Najran were granted internal autonomy under the suzerainty of the Islamic state, that if they continued to use interest, the agreement with them would be considered void and their action an act of belligerency. On the basis of the last words of the verse, Ibn 'Abbas, Hasan al-Baari, Ibn Sirin and Rabi' ibn Anas are of the view that anyone who takes interest within the boundaries of the Islamic State (Dar al-Islam) should be pressed to repudiate the transaction and recant and, if he persists, should be put to death. Others consider it sufficient to imprison such people and keep them in prison until they pledge to give up taking interest. (See Jassas's commentary, on verse 2: 278; see especially vol. 1, pp. 471 f. - Ed.)

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :323 یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی اور مضمون کی مناسبت سے اس سلسلہ کلام میں داخل کر دی گئی ۔ اس سے پہلے اگرچہ سود ایک ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا تھا مگر قانوناً اسے بند نہیں کیا گیا تھا ۔ اس آیت کے نزول کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میں سودی کاروبار ایک فوجداری جرم بن گیا ۔ عرب کے جو قبیلے سود کھاتے تھے ، ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمال کے ذریعے سے آگاہ فرمادیا کہ اگر اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے ، تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی ۔ نجران کے عیسائیوں کو جب اسلامی حکومت کے تحت اندرونی خود مختاری دی گئی ، تو معاہدے میں یہ تصریح کر دی گئی کہ اگر تم سودی کاروبار کرو گے ، تو معاہدہ فسخ ہو جائے گا اور ہمارے اور تمہارے درمیان حالت جنگ قائم ہو جائے گی ۔ آیت کے آخری الفاظ کی بنا پر ابن عباس ، حسن بصری ، ابن سیرین اور ربیع بن انس کی رائے یہ ہے کہ جو شخص دارالاسلام میں سود کھائے اسے توبہ پر مجبور کیا جائے اور اگر باز نہ آئے ، تو اسے قتل کر دیا جائے ۔ دوسرے فقہا کی رائے میں ایسے شخص کو قید کر دینا کافی ہے ۔ جب تک وہ سود خواری چھوڑ دینے کا عہد نہ کرے ، اسے نہ چھوڑا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:279) فان لم تفعلوا جملہ شرطیہ فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ جواب شرط۔ فاذنوا۔ ف جواب شرط کے لئے ہے ائذنوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اذن و اذن (باب سمع) مصدر۔ بالشیئ۔ جاننا۔ خبردار ہونا۔ ترجمہ : تو خبردار ہوجاؤ خدا اور اس کے رسول سے جنگ کے لئے فایقنوا۔ یقین کرلو۔ وان تبتم۔ جملہ شرطیہ۔ اور اگر تم توبہ کر لوگے یعنی قابل اعتراض باتوں سے باز ہو گے ملکم رؤس اموالکم جواب شرط۔ تو اصل زر کے تم حق دار ہو۔ تو تم کو تمہاری اصل زر ہی مل سکتی ہے لا غیر۔ اس سے زیادہ نہیں۔ لا تظلمون ولا تظلمون (اصل سے زیادہ لے کر) تم کسی (قرض دار) پر ظلم کرو گے۔ اور نہ (اصل کی ادائیگی میں کمی کرکے یا ٹال مٹول سے کام لے کر) تم پر ظلم کیا جائیگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور وہ وعید ہے جو دوسرے کسی جرم کے بارے میں اللہ و رسول کی طرف سے نہیں دی گئی۔ حضرت ابن عباس (رض) ابن سرین حسن بصری اور بعض دیگر ائمہ کے نزدیک سود خوار کو توبہ پر مجبور کیا جائے کا گر پھر بھی روش نہ بدلے گا تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ (ابن کثیر)7 اصل زر سے نائد وصول کرو یہ تمارا لوگوں پر ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ ملے تو یہ لوگوں کا تم پر ظلم ہوگا اور یہ دونوں چیزیں ہی انصاف کے خلاف ہیں (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس آیت میں جو یہ فرمایا ہے کہ اگر تم توبہ کرو تو تمہارا راس المال تمہیں ملے گا اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ توبہ نہ کرنے کی صورت میں راس المال بھی نہ ملے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اسلام نے ان لوگوں کے حق میں وہ سودی منافع چھوڑ دیا جو وہ کھاچکے تھے ۔ یہ فیصلہ نہ کیا کہ کھایا ہوا سود بھی ان سے لوٹایا جائے ۔ نہ اسلام نے ان کی تمام یا کچھ جائیداد کو ضبط کرنے کا حکم دیا ۔ اس سبب سے کہ ان کے کاروبار میں سود شامل تھا ۔ اس لئے کہ اسلام میں کوئی بات حرام نہیں قرار پاتی جب تک اسے اللہ تعالیٰ حرام قرارنہ دیں ۔ بغیر قانون سازی کے کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا ۔ اور قانون کا مزاج یہ ہے کہ وہ اپنے آثار اپنے نفاذ کے بعد ظاہر کرتا ہے ۔ جو گزرچکا سو گزرچکا ۔ گزرے ہوئے معاملات اللہ کے سپرد ہیں ۔ ان پر قانونی احکام کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ اس طرح اسلام نے سوسائٹی کو ایک بڑے دھماکہ خیز اقتصادی اور اجتماعی بحران سے بچالیا ۔ اگر اس قانون کا موثر بماضی قرار دیا جاتا تو ایک بہت بڑا بحران پیدا ہوجاتا ۔ یہ وہ اصول ہے جسے جدید قانونی نظام نے حال ہی میں اپنایا ہے ۔ اس لئے کہ اسلام میں قانون سازی اس لئے کی جاتی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کی واقعی اور زندگی کی اصلاح ہو۔ وہ اسے صحیح راستے پر ڈالے ، اسے گندگیوں سے پاک کرے ، اسے ناجائز بندھنوں سے آزاد کرے تاکہ وہ ترقی کرے اور اس کا معیار بلندہو ، اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے اہل ایمان کے ایمان کو اس بات پر موقوف کردیا کہ وہ تب ہی مومن ہوں گے جب وہ اس قانون سازی کو قبول کریں ۔ وہ نازل ہوتے ہی اور علم میں آتے ہی اسے اپنی زندگیوں میں نافذ کردیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام ان کے دلوں میں خوف اللہ اور تقویٰ بھی پیدا کرتا ہے ۔ تقویٰ کا شعور ہی وہ گارنٹی ہے جس کے ذریعہ اسلام اپنے قوانین نافذ کراتا ہے ۔ یہ وہ گارنٹی ہوتی ہے جو خود اہل ایمان کے نفس کے اندر پیدا ہوتی ہے ۔ یہ اندر کا چوکیدار ہوتا ہے اور اسلام میں اس کا درجہ ان گارنٹیوں اور چوکیداروں سے اونچا ہے جو کسی قانون کو روایتی طور پر حاصل ہوتا ہے ۔ اس لئے اسلامی قوانین کو نفاذ کے لئے وہ گارنٹی اور نگرانی حاصل ہوتی ہے جو جدید دور کے وضعی قوانین کو حاصل نہیں ہوتی ، اس لئے کہ یہ قوانین صرف خارجی دباؤ کی وجہ سے نافذ ہوتے ہیں ۔ اور یہ بات پوشیدہ نہیں کہ خارجی نگران کو کس خوبی سے جل دی جاسکتی ہے ۔ ایسے حالات میں جب انسان کے ضمیر کے اندر کوئی چوکیدار نہ بیٹھا ہو یعنی اللہ خوفی اور رضائے الٰہی کا نگران ۔ یہ تو تھی ترغیب اس بات کی کہ ربا کو ترک کردو ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دھمکی اور ترہیب بھی آتی ہے ۔ اور یہ دھمکی اس قدر شدید ہے کہ اس سے دل دہل جاتے ہیں ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ........ ........ ” اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ “ اللہ کی پناہ ! اور اس کے رسول کی جانب سے اعلان جنگ ! یہ ایسی جنگ ہے ، جو نفس انسانی کو درپیش ہے ۔ خوفناک جنگ ہے ۔ جس کا انجام بالکل سامنے ہے ۔ جس میں بشر کو شکست سے دوچار ہونا ہی ہے ۔ انسان فانی اور ضعیف ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کی قوت جابرہ کا کیا مقابلہ کرے گا جو آن واحد میں سب کچھ بھسم کرکے رکھ دے گی ۔ اور اس کا نام ونشان مٹادے گی ۔ ان آیات کے نزول کے بعد ، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاکم مکہ کو حکم دیا کہ وہ مکہ کے آل مغیرہ کے ساتھ جنگ کریں ، اس لئے کہ وہ ان آیات کے نزول کے بعد بھی سودی کاروبار سے باز نہ آئے تھے ۔ فتح مکہ کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خطبے میں جاہلیت کے دور کے تمام سودی قرضوں کو ختم کردیا تھا ۔ اور آپ نے فرمایا سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس (رض) کے قرضے کو معاف کرتا ہوں ۔ اور یہ بوجھ قرضداروں پر اسلام کے آنے کے بعد ایک عرصہ تک رہا ۔ لیکن جب اسلامی معاشرہ پختہ ہوگیا ۔ اور اس کی بنیادیں مضبوط ہوگئیں اور وقت آگیا کہ علاقے کے اقتصادی نظام کو اصول ربا سے ہٹا کر صحیح اسلامی اصولوں سے استوار کیا جائے تو اسلام نے یہ قدم اٹھایا ۔ اس موقع پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ” جاہلیت کے دور کا تمام سود میرے ان دونوں پاؤں کے نیچے ہے اور سب سے پہلا سودی قرضہ جسے میں موقوف کرتا ہوں وہ عباس کا سود ہے ۔ “ اس کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کو یہ تلقین بھی فرماتے کہ دورجاہلیت میں انہوں نے جو سود وصول کیا اسے واپس کردیں ........ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرے جو سودی اقتصادیات کو جاری رکھنے پر مصر ہیں ۔ اور جو اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں ۔ اگرچہ ایسے لوگ یہ اعلان کریں کہ وہ مسلمان ہیں ۔ حضرت ابوبکر (رض) نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف جنگ اسی اصول کے تحت کی تھی حالانکہ وہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی کلمہ پڑھتے تھے ۔ نماز ادا کرتے تھے ۔ اس لئے جو شخص شریعت کی اطاعت کا انکار کردے اور اسے اپنی زندگی میں نافذ نہ کرے وہ مسلم نہیں رہتا ۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ اللہ اور رسول اللہ کی جانب سے سود خوروں کے خلاف اعلان جنگ توپ وتفنگ کی جنگ سے عام ہے ۔ جو ایک امام وقت کسی قوت کے خلاف کرتا ہے۔ یہ اعلان جنگ ، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر اس معاشرے کے خلاف ہے جو اپنے اقتصادی نظام کی اساس سود پر رکھتاہو ، یہ جنگ ہمہ گیر اور خوفناک جنگ ہے ۔ یہ اعصاب کی جنگ ہے ۔ یہ دلوں کی جنگ ہے ۔ یہ خیر و برکت اور خوشحالی کے خلاف ربا کی جنگ ہے ۔ یہ سودی نظام کی جانب سے انسانیت کی سعادت اور خوشحالی اور اطمینان کے خلاف جنگ ہے ۔ یہ انسان کی کشاکش اور ایک دوسرے کے تعاقب کی جنگ ہے ۔ آخرکار یہ جنگ اقوام اور امم کے درمیان افواج اور اسلحہ کی جنگ ہے ۔ یہ ایک ہمہ گیر اور تباہ کن جنگ ہے اس کرہ ارض پر اس لئے برپا ہوتی ہے کہ یہاں کا نظام اصول ربا پر مبنی ہوجاتا ہے ۔ اور جس کی وجہ سے اس زمین سے خیر و برکت ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور خوشحالی ناپید ہوجاتی ہے ۔ یہ تمام جنگیں اور کشمکشیں ان سرمایہ داروں کی جانب سے برپا کی جاتی ہیں جو پوری دنیا کے سرمایہ پر قابض ہوتے ہیں ۔ اور ان جنگوں کے شعلے بھڑکاتے ہیں ۔ کبھی وہ یہ کام براہ راست کرتے ہیں اور کبھی بالواسطہ کرتے ہیں۔ وہ اپنے دام تزویر میں کارخانوں اور کمپنیوں کو پھانس لیتے ہیں ۔ اس کے بعد اقوام اور حکومتیں ان کے دام میں شکار ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد یہ حکومتیں ، اپنے شکار پر جھپٹتی ہیں اور یوں ان کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ کبھی یہ حکومتیں اپنے مفادات اور سرمائے کو بچانے کے لئے دوڑتی ہیں اور اپنی فوجی قوت میدان میں لاتی ہیں اور یوں میدان جنگ کے شعلے بھڑک ہیں ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ عوام الناس ٹیکس اور حکومتی واجبات ادا کرنے سے قاصر ہوجاتے ہیں ۔ عوام میں غربت عام ہوجاتی ہے ۔ محنت کار اور جفاکش لوگ تنگ آکر ایسی تحریکات سے وابستہ ہوجاتے ہیں جن کا مشن تخریب کاری اور تباہی پھیلانا ہوتا ہے ۔ اور یوں کسی بھی علاقے میں عوامی جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔ اور اس سودی نظام کے تحت جو کشمکش برپا ہوتی ہے۔ اس کے عام بسہولت برآمدہونے والے نتائج یہ ہوتے ہیں کہ لوگوں کے نفوس خراب ہوجاتے ہیں ۔ اخلاقی تباہی پھیل جاتی ہے ۔ لوگوں میں عیاشی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور انسانیت کا ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور انسان کی روحانی دنیا ایسی تباہی کا شکار ہوتی ہے کہ اس جیسی تباہی انسان کے جسم کو کسی ایٹمی جنگ سے بھی نہیں پہنچ سکتی ۔ یہ جنگ جس کا اعلان سودی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کیا گیا ہے ۔ ہر وقت اس کے شعلے بلندہوتے ہیں ۔ آج بھی یہ ہر طرف برپا ہے ۔ گم کردہ راہ انسانیت کا رطب دیا بس اس کی نظر ہورہا ہے ۔ لیکن یہ انسانیت اس کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ انسانیت یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ دولت کمارہی ہے ۔ وہ ترقی کررہی ہے ۔ وہ بڑی کثرت سے مادی نتائج پیدا کررہی ہے ۔ متنوع مصنوعات تیار ہورہی ہیں ۔ لیکن یہ پیداوارہی اس کے لئے تباہی ہے ۔ یہی پیداوار اگر کسی پاک اور غیر سودی نظام سے ہوتی تو یہ انسانیت کیلئے نیک بختی اور خوشحالی کا سبب ہوتی ۔ لیکن یہ پیداوار سود کے ناپاک اور آلودہ نظام کے نتیجے میں سامنے آتی ہے ۔ اس لئے یہ انسانیت کے لئے ایک ایسا بوجھ ہے جس کے نتیجے میں انسانیت کا دم گھٹ رہا ہے ۔ جبکہ سود خوروں کا علمی گروہ عیش و آرام سے زندگی بسر کررہا ہے ۔ اور اسے اس پوری انسانیت کی مصیبتوں اور رنج والم کا کوئی احساس ہی نہیں ہورہا ہے ۔ اسلام نے پہلی اسلامی جماعت کو اس بات کی دعوت دی اور آج پوری انسانیت کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ وہ پاک و صاف ذریعہ آمدن اختیار کریں اور وبائی سودی نظام سے تائب ہوکر راہ راست اختیار کریں وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ................ ” اب بھی توبہ کرلو تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو ۔ نہ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے ۔ “ یہ ایک معصیت سے توبہ ہے ، ایام جاہلیت میں رائج خطاکاری سے رجوع ہے ۔ اور جاہلیت کا تعلق کسی خاص زمانے سے نہیں ہوتا یا کسی خاص نظام ہی پر جاہلیت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جاہلیت کی حقیقت یہ ہے انسان الٰہی نظام زندگی سے منحرف ہوجائے جب بھی یہ انحراف ہو اور جہاں بھی ہو ، وہ جاہلیت ہوگی ۔ ربا ایک ایسی خطاکاری ہے جس کے اثرات انسان کے تصور حیات ، انسان کے اخلاق اور انسان کے شعور پر چھاجاتے ہیں ۔ پھر اس کے اثرات سوسائٹی پر اور سوسائٹی کے اجتماعی تعلقات پر پڑتے ہیں ۔ پوری انسانی زندگی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اقتصادی نشوونما اور ترقی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اگرچہ وہ لوگ جو سودی کاروبار کرنے والوں کے جھانسے میں آچکے ہیں ، یہ سمجھتے ہیں کہ سودی نظام اقتصادیات وہ واحد نظام ہے جو نشوونما اور اقتصادی ترقی کا اہل اور سبب ہے۔ صرف اصل زر کی واپسی کا حق دینا ایک ایسا قاعدہ ہے جس کی رو سے نہ قرض دہندہ کو نقصان ہے اور نہ ہی قرض گیرندہ پر ظلم ہے ۔ رہی یہ بات کہ دولت میں اضافہ کیسے کیا جائے گا تو اس کے وسائل وذرائع علیحدہ ہیں ۔ جو ربا سے پاک وصاف ہیں ۔ اس کا پہلا ذریعہ ایک فرد کی ذاتی جدوجہد ہے ۔ دوسرا ذریعہ بطریقہ مضاربت باہم شراکت اموال ہے ۔ یعنی ایک شخص سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس کے ساتھ کاروبار کرے اور دونوں فائدے اور نقصان میں شریک ہوں ۔ نیز اقتصادی ترقی ان کمپنیوں کے ذریعہ بھی ممکن ہوگی جو اپنے حصص براہ راست بازار حصص میں فروخت کرتی ہیں ۔ (ماسوائے تاسیسی سندات کے جن کے ذریعہ زیادہ نفع سمیٹ لیا جاتا ہے۔ ) اور حلال اور جائز کاروبار سے منافع حاصل کرتی ہیں ۔ پھر ایسی رقومات سے بھی اقتصادی ترقی ممکن ہوگی جو بغیر منافع کے محض امانت کے طور پر بینکوں میں جمع ہوں گی ۔ اس طرح کہ ایسی رقومات کو بینک ، کمپنیوں ، صنعتوں ، تجارتی اور کاروباری مدات میں براہ راست استعمال کریں یا بالواسطہ ان میں شرکت کریں اور شرط یہ ہو کہ وہ اپنے لئے متعین منافع طے نہ کریں اور بینک اپنا منافع یا خسارہ ایک مقررہ نظام کے تحت ان لوگوں پر تقسیم کریں جو ان کے پاس اپنی امانتیں رکھتے ہیں ۔ اور بینک کو یہ اجازت ہو کہ وہ اپنی کاروباری مصروفیات کے عوض ایک مقرر اور معین منافع اپنے لئے رکھ لے ۔ غرض ان ذرائع اور وسائل کے علاوہ بھی اقتصادی ترقیات کے لئے مزید اور وسائل اور ذرائع بھی پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔ جن کی تفصیلات کا یہ موقع نہیں ہے ۔ اگر کسی قوم کا ایمان مضبوط ہو تو ایسے بیشمار وسائل پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔ نیز نیت صاف ہوجائے اور پختہ ارادہ کرلیا جائے کہ ہم نے پاک اور صاف ذرائع سے وسائل رزق و ترقی حاصل کرنے ہیں اور گندہ اور ناپاک ذرائع پر لات مارنی ہے ۔ آخر میں قرآن کریم قرضوں کے بارے میں احکام کی ایک خاص شکل کو بیان کرتا ہے کہ اگر مدیون کے لئے قرضے کی ادائیگی ممکن نہ ہو ، اس کے لئے مشکلات ہوں تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ اس پر بذریعہ ربا قرضے کا اضافہ کردیا جائے ، بلکہ حل یہ ہے کہ اسے اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک اس کے حالات اچھے نہیں ہوجاتے ۔ اور جو شخص زیادہ بھلائی سمیٹنا چاہے اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ سرے سے قرضہ ہی معاف کردے ۔ اسلام کی نظر میں یہی بلند مرتبہ ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

سود خوروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ اس آیت کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے علماء تفسیر نے نقل کیا ہے کہ قبیلہ بنی ثقیف کے چار آدمی جو آپس میں بھائی بھائی تھے بنی مغیرہ سے سود کا معاملہ کرتے تھے یعنی بنی مغیرہ کو سود پر قرض دیتے تھے۔ جب طائف پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلبہ ہوگیا (اور طائف اسلامی علاقہ میں داخل ہوگیا) تو یہ چاروں بھائی بھی مسلمان ہوگئے، انہوں نے بنی مغیرہ سے اپنا سود طلب کیا تو بنی مغیرہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اسلام قبول کرنے کے بعد سود نہیں دیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ختم فرما دیا ہے، یہ قضیہ حضرت عتاب بن اسید (رض) کی خدمت میں پیش ہو جو مکہ معظمہ پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے عامل یعنی حاکم تھے۔ انہوں نے پورا واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لکھ کر بھیج دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ شانہ نے آیت نازل فرمائی، سودی مال بہت زیادہ تھا۔ آیت شریفہ سن کر ان لوگوں نے اپنا سود چھوڑ دیا۔ آیت شریفہ میں باقی سود چھوڑنے کا حکم فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ تم اصلی مال لے سکتے ہو، نیز یہ بھی فرمایا کہ اگر تم سود چھوڑنے کو تیار نہیں ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو، یہ بات سن کر لوگوں نے کہا کہ ہمیں اللہ سے مقابلہ کی کہاں طاقت ہے ؟ کس کے بس کی بات ہے جو اللہ سے جنگ کرے ؟ ہم اپنا سود چھوڑتے ہیں۔ آیت کا سبب نزول ہم نے اس لیے ذکر کیا کہ کوئی ایسا شخص جو مسلمان ہے اور اس نے سود پر قرضے دے رکھے ہیں اور بہت سے سود وصول بھی کر رکھے ہیں وہ آیت کا مطلب یہ نہ نکال لے کہ جو سود میں نے اب تک لیا ہے وہ میرے لیے حلال ہے باقی سود چھوڑ دیتا ہوں اور اصل مال لے لیتا ہوں، آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن لوگوں نے زمانہ کفر میں سود پر قرضے دئیے تھے اور بہت سا سود قرض داروں سے وصول کرچکے تھے، وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی باقی سود وصول کرنا چاہتے تھے ان کو حکم فرمایا کہ جو سود باقی ہے اس کو چھوڑ دو ۔ جو کوئی مسلمان سود پر قرضے دے کر سود وصول کرچکا ہو اس کا حکم اس آیت میں مذکور نہیں ہے، اگر کسی مسلمان نے سود لیا ہے اگرچہ سود دینے والے نے خوشی سے دیا ہے تو اس کا واپس کردینا واجب ہے، اگر یاد نہ رہا ہو کہ کس کس سے لیا ہے تو جتنا مال سود کا وصول کیا تھا اس کا صدقہ کردینا واجب ہے، جن لوگوں نے سودی قرضے دے رکھے ہیں وہ تو بہ کریں کہ سود وصول نہ کریں گے اگر توبہ نہیں کرتے تو اپنا انجام سوچ لیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنا ہے اور اس کی گرفت و عذاب سے نڈر ہوجانا ہے جو اموال سود کے طور پر لے چکے ہیں ان کو واپس کریں جن سے سود لیا ہے البتہ اپنا حاصل مال وصول کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ سود لے کر ظلم نہ کریں، اور جن لوگوں پر قرضے ہیں وہ اصل مال روک کر قرض دینے والوں پر ظلم نہ کریں۔ بنکوں میں جو رقمیں رکھتے ہیں اور ان پر سود لیتے ہیں یہ سخت حرام ہے اگرچہ ان کا نام نفع رکھ لیں۔ توبہ کریں اور وہاں سے اپنا اصلی مال لے لیں، نام رکھنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی اور سود کا نام نفع رکھنے سے نفع نہیں ہوجاتا، جو لوگ سود کا نام نفع رکھ لیتے ہیں اور پھر سود لیتے رہتے ہیں ان کا قول انہی لوگوں کے قول کے مطابق ہوجاتا ہے جنہوں نے (اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبوٰ ) کہ تھا۔ اللہ پاک نے ان کی تردید فرمائی اور (وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا) فرمایا، جب کسی چیز کا رواج ہوجاتا ہے وہ خواہ کیسی ہی بری چیز ہو اس کی قباحت اور شناعت دلوں سے اٹھ جاتی ہے۔ جب سے بینکوں کا سلسلہ چلا ہے لوگ بینکوں سے سود لینے کے خوگر ہوگئے ہیں اور اس کی قباحت دلوں سے جاتی رہی ہے اور سود کو حلال کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ صاحب بینک والے ہمارے پیسوں سے تجارت کرتے ہیں نفع کماتے ہیں ہمیں بھی انہوں نے اگر نفع میں شریک کرلیا تو کیا ہوا ؟ یہ ان کی جہالت و گمراہی کی بات ہے۔ وہ بینک تجارت تو کرتا ہے، اور تمہارے پیسوں سے کرتا ہے لیکن تم نے بینک کو مال مضاربت کے اصول پر نہیں دیا، تمہیں فی صد ایک متعین رقم مل جاتی ہے۔ شرعی اصول سے یہ سود ہے، باتوں کی ہیرا پھیری سے سود حلال نہ ہوگا۔ فائدہ : جو شخص سود نہ چھوڑے اس کے لیے اللہ پاک نے اپنی طرف سے اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلان جنگ فرمایا، اس طرح کا مضمون ان لوگوں کے بارے میں بھی آیا ہے جو اللہ کے دوستوں سے دشمنی کریں، صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اِنَّ اللّٰہ تَعَالیٰ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اَذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ ) (کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص میرے کسی دوست سے دشمنی کرے تو اس سے میں جنگ کا علان کرتا ہوں) ۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہے۔ من عادٰی للّٰہ ولیا فقد بارز اللّٰہ بالمحاربۃ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٥٥ ازابن ماجہ والبیہقی فی شعب الایمان) یعنی جس نے اللہ کے کسی ولی سے دشمنی کی وہ اللہ سے جنگ کرنے کے لیے میدان میں آگیا، شراح حدیث نے لکھا ہے کہ یہی دو گناہ ایسے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ان کا ارتکاب کرنے والوں سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور یہ دونوں گناہ ایسے ہیں جو آج کل بہت زیادہ رواج پا گئے ہیں۔ سود کا لین دین بھی بہت ہو رہا ہے۔ اور جو اولیاء اللہ ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ عبادت و تلاوت میں لگے رہتے ہیں قرآن و حدیث کے علوم پڑھتے ہیں۔ دینی علوم و اعمال کی طرف بلاتے ہیں دین کے لیے محنتیں کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے دشمنی کی جاتی ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے امید وار بھی ہیں جس سے لڑائی ہے اس سے امید رحمت کیسی ناسمجھی کی بات ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

544 سود خوروں کیلئے یہ وعید شدید اور زبردست زجر ہے۔ یعنی اے سود خورو ! اگر تم سود لینے سے باز نہیں آتے تو تمہیں خدا اور خدا کے رسول کی طرف سے اعلان جنت ہے اب ان سے جنگ کیلئے تیار ہوجاؤ۔ چونکہ اسلامی حکومت کا سربراہ اسلام نافذ کرنے میں خدا اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نائب ہوتا ہے اس لیے سود خوروں سے جنگ کو عملی جامہ پہنانا اس کا فرض ہے اگر سود خور سود کو حلال سمجھتے ہیں تو وہ مرتد ہیں کیونکہ انہوں نے خدا کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال سمجھ لیا اس لیے بوجوہ ارتداد ان سے جنگ کی جائے اور اگر انہوں نے سود کو حلال تو نہیں سمجھا لیکن سود لینا ترک نہیں کیا تو وہ اسلامی حکومت کے آئین کے باغی ہیں اس لیے بوجہ بغاوت ان سے جنگ لازم ہے۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا۔ ای ما امرتم بہ من التقاء وترک البقایا اما مع انکار حرمتہ واما مع الاعتراف فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ وھو کحرب المرتدین علی الاول وکحرب البغاة علی الثانی (روح ص 53 ج 3، قرطبی ص 364 ج 3، خازن ص 654 ج 1) 545 اگر تم نے آئندہ کیلئے سود لینے سے توبہ کرلی ہے تو تم اپنا راس المال لے سکتے ہو مگر اس سے زائد لینے کی اجازت نہیں تاکہ نہ مقروض پر ظلم ہو اور نہ تم پر۔ آجکل بعض لوگ جن کے دماغوں پر بینک کا سود حلال کرنیکا جنون سوار ہے وہ کہتے ہیں کہ سود صرف وہی حرام ہے جس میں کسی فریق پر ظلم ہو اور بینک کے سود میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ معاملہ فریقین کی رضام خدا جانے ان لوگوں کے ذہنوں میں ظلم کا کونسا تصور جاگزیں ہے۔ قرآن مجید نے تو اصل رقم سے زائد رقم وصول کرنے ہی کو ایک فریق کے حق میں ظلم قرار دیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرضخواہ کو حکم دیا کہ تم اپنا اصل مال لے سکتے ہو مگر اس سے زائد لینے کی اجازت نہیں اور نہ ہی اصل رقم چھوڑنے کا مطالبہ ہے تاکہ تم دونوں فریق ظلم سے بچ جاؤ کیونکہ مقروض سے مقدار قرض سے زائد رقم وصول کرنا اس کے حق میں ظلم ہے اور قرضخواہ کے راس المال میں کمی کرنا اس کے حق میں ظلم ہے لاتظلمون غرماء کم باخذ الزیادۃ ولا تظلمون انتم من قبلھم بالنقص من راس المال (روح ص 53 ج 3) یہاں کان تامہ اور ذوعسرۃ اسکا فاعل ہے۔ فنظرۃ میں فاء جزائیہ ہے اور نظرۃ مصدر ہے اور اس کے معنی مہلت دینے کے ہیں اور یہ مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے یعنی فعلیکم نظرۃ (روح ص 54 ج 3) مطلب یہ ہے کہ اگر مقروض تنگدست ہو اور فوری طور پر تمہارا راس المال واپس نہ کرسکتا ہو تو اسے مہلت دیدو اور جب وہ قرض ادا کرنے کے قابل ہوجائے اس وقت اس سے اپنا حق وصول کرلو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 4۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا یعنی پچھلے چڑھے ہوئے سودکا مطلبہ ترک نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جانب سے ایک سخت جنگ کا یقین کرو اور اللہ و رسول کی جانب سے جنگ کا اعلان سن لو اور ہوشیار و خبردار ہو جائو یعنی دنیا میں تمہارے خلاف جہاد ہوگا اور آخرت میں تم کو آ گ کا عذاب دیا جائے گا اور اگر تم توبہ کرلو تو تم کو تمہارے اصل مال پہنچتے ہیں اور تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے نہ تم سود کا مطالبہ کر کے کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر زیادتی اور ظلم کیا جائے کہ تمہاری اصل رقم واپس نہ کی جائے یا اس رقم میں سے دیا ہوا سود وضع کرلیا جائے ۔ ( تیسیر) فاذنوا ۔ ذال کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے ہم نے تیسیر میں دونوں قراءتوں کی رعایت سے ترجمہ کردیا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے جنگ کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ رسول کی طرف سے جہاد اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت میں عذاب۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سود خور سے کہا جائے گا لڑائی کے لئے اپنے ہتھیارسنبھال لے۔ عمرو بن العاص کی روایت میں ہے جب کسی قوم میں سود خواری علم ہوگی تو اس پر قحط واقع ہوجائے گا اور جب کسی قوم میں رشوت خواری بڑھے گی تو اس پر ہیبت اور رعب چھا جائے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم لوگ سود کھانے سے باز نہ آئو گے اور بقایا کا مطالبہ کرو گے تو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سے جہاد کرے گا جیسا کہ آج بھی اگر کوئی شخص سود کھائے تو امام کو حق ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کرے اور اس کو قید کرے اور اگر وہ توبہ نہ کرے یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی طرف رجوع کرے اور اگر وہ صاحب قوت ہو اور اس کے حمایتی مزاحمت کریں اور اس کو قید ہونے سے روکیں تو ان لوگوں کے خلاف جہادکرے یہی حکم ہے ان لوگوں کے لئے جو نماز کے تارک ہوں یا زکوٰۃ کے تارک ہوں یا کسی اور فرض کے تارک ہوں یا کبائر میں سے کسی کبیرہ کے مرتکب ہوں اور کبیرہ کے ارتکاب پر اصرار کریں اور امام کے جبر کرنے پر مزاحمت کریں اور گردہ بنا کر مقابلہ کریں تو ان لوگوں کا حکم باغیوں کا ہوگا اور انکے خلاف جہاد کرنا واجب ہوگا بلکہ اگر کسی سنت متوارثہ کے ترک پر اصرار کریں اور گردہ بندہ کر کے مقابلہ پر آمادہ ہوجائیں تو ان کے خلاف بھی امام کو جہاد کرنا ہوگا ۔ وان تبتم کا مطلب یہ ہے کہ اگر توبہ کرلیں اور پچھلے سود کا مطالبہ ترک کردیں تو وہ اپنی اصل رقم لے سکتے ہیں اگرچہ توبہ نہ کرنے کی شکل کا یہاں صراحتہً ذکر نہیں ہے لیکن ظاہر ہے کہ اگر سود کو حرام سمجھتے ہوئے توبہ نہیں کرتے تو باغی ہیں ان پر باغیوں کے احکام جاری ہوں گے اور اگر معاذ اللہ حلال سمجھ کر توبہ نہیں کرتے تو مرتد ہوں گے اور ان پر مرتدین کے احکام جاری ہوں گے۔ یہ تمام احکام کتب فقہ میں مذکور ہیں نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر کوئی ظلم کرے۔ اس کا مطلب صاف ہے جیسا کہ تیسیر میں عرض کیا جاچکا ہے ۔ تم پر ظلم نہ کہ تمہاری اصل رقم نہ دلوائی جائے۔ یا لیا ہوا سود واپس دلوایا جائے اور دوسروں پر ظلم یہ کہ اصل رقم یعنی مول سے زیادہ حاصل کرو۔ اس آیت کو مسلمانان بنی مغیرہ اور بنی عمرو نے سن کر کہا ، ہم اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرتے ہیں ہم کو اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کی طاقت اور ہمت نہیں ہے چناچہ صرف راس المال یعنی اصل رقم اور مول لینے پر راضی ہوگئے اور سود کے بقایا کا مطالبہ ترک کردیا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اگلا سود لیا ہوا تمہارے اصل مال میں حساب کرے تو تم پر ظلم اور منع کے بعد اگلا چڑھا سود تم مانگو تو تمہارا ظلم ہے۔ ( موضح القرآن) لا تظلمون ولا تظلمون کی اس تشریح کے بعد کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ صاحب تفسیر مظہری نے ایک اور بات بھی کہی ہے وہ یہ کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے۔ مطل الخنی ظلم یعنی ہوتے سا تھے قرض خواہ کو ٹالنا اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا ظلم ہے یہ جو فرمایا کہ نہ تم پر کوئی ظلم کرے ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری اصل رقم کے لوٹانے میں ہوتے سا تھے کوئی تاخیر نہ کرے اور تمہارے مطالبے پر فوراً رقم ادا کردی جائے۔ سبحان اللہ ! کیا معتدل قانون ہے ایک طرف مقروض سے سود لینے کو منع فرمایا تو دوسری طر مقروض کو تاکید فرمائی کہ اگر ہوتے سا تھے نہ دو گے یا قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرو گے اور قرض خواہ کو ٹال مٹول بتائو گے تو ظالم قرار دیئے جائو گے۔ ( تسہیل)