Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 38

سورة البقرة

قُلۡنَا اہۡبِطُوۡا مِنۡہَا جَمِیۡعًا ۚ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۳۸﴾

We said, "Go down from it, all of you. And when guidance comes to you from Me, whoever follows My guidance - there will be no fear concerning them, nor will they grieve.

ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells; قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى ... We said: "Get down all of you from this place (the Paradise), then whenever there comes to you Hudan (guidance) from Me, Allah stated that when He sent Adam, Hawwa, and Shaytan to earth from Paradise, He warned them that He will reveal Books and send Prophets and Messengers to them, i.e., to their offspring. Abu Al-Aliyah said, "Al-Huda, refers to the Prophets, Messengers, the clear signs and plain explanation." ... فَمَن تَبِعَ هُدَايَ ... And whoever follows My guidance, meaning, whoever accepts what is contained in My Books and what I send the Messengers with. ... فَلَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ... There shall be no fear on them, regarding the Hereafter, ... وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ nor shall they grieve. regarding the life of this world. Similarly, in Surah Ta Ha, Allah said, قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَاىَ فَلَ يَضِلُّ وَلاَ يَشْقَى He (Allah) said: "Get you down (from the Paradise to the earth), both of you, together, some of you are an enemy to some others. Then if there comes to you guidance from Me, then whoever follows My guidance, he shall neither go astray, nor shall he be distressed. (20:123) Ibn Abbas commented, "He will not be misguided in this life or miserable in the Hereafter." The Ayah, وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى (But whosoever turns away from My Reminder (i.e. neither believes in this Qur'an nor acts on its teachings) verily, for him is a life of hardship, and We shall raise him up blind on the Day of Resurrection), (20:124) is similar to what Allah stated here, وَالَّذِينَ كَفَرواْ وَكَذَّبُواْ بِأيَاتِنَا أُولَـيِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

جنت کے حصول کی شرائط جنت سے نکالتے ہوئے جو ہدایت حضرت آدم حضرت حوا اور ابلیس کو دی گئی اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں انبیاء اور رسول بھیجے جائیں گے ، معجزات ظاہر کئے جائیں گے ، دلائل بیان فرمائے جائیں گے ، راہ حقوق واضح کر دی جائے گی ، آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں گے ، آپ پر قرآن کریم بھی نازل فرمایا جائے گا ، جو بھی اپنے زمانے کی کتاب اور نبی کی تابعداری کرے گا اسے آخرت کے میدان میں کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ ہی دنیا کے کھو جانے پر کوئی غم ہو گا ۔ سورۃ طہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ میری ہدایت کی پیروی کرنے والے نہ گمراہ ہوں گے ، نہ بدبخت و بےنصیب ۔ مگر میری یاد سے منہ موڑنے والے دنیا کی تنگی اور آخرت کے اندھا پن کے عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔ یہاں بھی فرمایا کہ انکار اور تکذب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں تو جہنم میں نہ موت آئے گی ، نہ ہی خوشگوار زندگی ملے گی ، ہاں جن موحد ، متبع ، سنت لوگوں کو ان کی بعض خطاؤں پر جہنم میں ڈالا جائے گا یہ جل کر کوئلے ہو ہو کر مر جائیں گے اور پھر شفاعت کی وجہ سے نکال لئے جائیں گے ۔ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے کہ بعض تو کہتے ہیں دوسری دفعہ جنت سے نکل جانے کے حکم کو ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ یہاں دوسرے احکام بیان کرنا تھے اور بعض کہتے ہیں پہلی مرتبہ جنت سے آسمان اول اتار دیا گیا تھا دوبارہ آسمان اول سے زمین کی طرف اتارا گیا لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٧] کیا نیکی اور بدی کے نتائج لازمی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ گناہ معاف کردیا۔ مگر جنت سے اخراج کا حکم بحال رہنے دیا، بلکہ اسے مکرر بیان فرمایا کیونکہ آدم (علیہ السلام) کو جنت میں رہنے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں خلافت کے لیے پیدا کیا گیا تھا اور یہی کچھ اقتضائے مشیئت الہی تھا۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نیکی اور بدی کے نتائج لازمی نہیں جو بہرحال انسان کو بھگتنا پڑیں یہ ایک گمراہ کن نظریہ ہے۔ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا دینا کلیتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، بھلائی پر انعام بھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ چاہے تو دے چاہے تو نہ دے اور چاہے تو کئی گنا زیادہ دے دے۔ اسی طرح وہ چاہے تو کسی کا گناہ معاف کر دے، اور چاہے تو سزا دے دے۔ وہ حکیم بھی ہے اور عادل بھی۔ لہذا ان صفات کے مطابق وہ سب کچھ کرنے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ کفارہ مسیح کا عقیدہ :۔ اللہ تعالیٰ کا سیدنا آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول کرنے سے نصاریٰ کے اس غلط عقیدہ کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے اس گناہ کے داغ کو بنی نوع انسان کے دامن سے دور کرنے کے لیے خدا کو اپنا اکلوتا بیٹا بھیج کر کفارہ ادا کرنے کے لیے سولی پر چڑھانا پڑا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(قُلْنَا مِنْهَا جَمِيْعًا ۚ ) توبہ کی قبولیت کے بعد پھر پہلا حکم دہرایا، مقصد یہ کہ گناہ کی معافی کے باوجود اب تمہیں اور تمہاری اولاد سب کو زمین ہی پر رہنا ہوگا، جس کی خلافت کے لیے تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ جنت میں واپسی کے لیے تمہیں اس ہدایت اور راستے پر چلنا ہوگا جو میری طرف سے تمہارے پاس آئے گی۔ ( فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى) مخاطب آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی ہیں، مگر مراد ان کی اولاد ہے، یعنی تمہارے پاس میری طرف سے انبیاء و رسل بذریعہ وحی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ ہدایت کا یہ سلسلہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں، قرآن مجید اور حدیث نبوی آخری وحی الٰہی ہے، اس دوران میں کتنے نبی اور رسول آئے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ دیکھیے سورة نساء، حاشیہ آیت ١٦٤۔ آج ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ دو ہی چیزیں ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ” میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں، جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت۔ “ [ المؤطا، القدر، باب النہی عن القول بالقدر : ٣۔ مستدرک حاکم : ١؍١٧١، ح : ٣١٨۔ الصحیحۃ : ١٧٦ ] (فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ ) پہلے ” فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى“ میں اپنی طرف سے ہدایت آنے کی بات کی پھر (فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ ) میں ” ھُدَاىَ “ کو یائے متکلم کی طرف مضاف کیا، یعنی ” پھر جو میری ہدایت کی پیروی کرے۔ “ معلوم ہوا ہدایت صرف وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے۔ لوگوں کی رائے کبھی ہدایت قرار نہیں پاسکتی خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم ہوں۔ ( فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ) خوف آنے والی کسی چیز سے ڈر کو اور حزن ہاتھ سے نکل جانے والی کسی چیز پر غم کو کہتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کی پیروی کریں گے وہ آخرت میں نہ دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے، جیسا کہ کفار کو افسوس ہوگا۔ [ الأنعام : ٢٧] اور نہ قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ سے انھیں کوئی غم ہوگا۔ ( دیکھیے الأنبیاء : ١٠٣ ) فرمایا : ( وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ ) [ النمل : ٨٩ ] ” اور وہ اس دن بڑی گھبراہٹ سے امن میں ہوں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Descension of Adam was not a punishment That is why the command for Adam (علیہ السلام) to go down to the earth was not withdrawn even when he had been pardoned: only the mode was now altered. Earlier the command had been given in the mode of authority, and the sending down to the earth intended as a punishment: hence the reference to the enmity among men. Now, it was in the mode of wisdom, and the sending down to the earth, an honour - the honour of vice regency. Hence the reference to things Viceregency involves. In commanding Adam and Hawwa (علیہما السلام) and their progeny to live on the earth, Allah told them that He would be sending down to men His guidance - that is, the injunctions of the Shari&ah - through revelation, and that those who follow it faithfully shall be free from sorrow and anxiety - in other words, they shall not have to grieve about any loss in the past, nor to worry about some misfortune in the future. The obedient are freed of worries (4) Verse 38 promises two great rewards to those who follow divine guidance - they will fear, and they will not grieve. Fear is the anxiety one feels in apprehending some trouble or pain in the future. Grief is the sorrow arising from the loss of something valuable or from one&s failure in attaining a desired object. One can see that these two rewards comprehend all the possible forms of comfort and peace. Then, the text of the Holy Qur&an makes a subtle distinction between the two. In saying that those who follow divine guidance will have no fear, it speaks in general terms and uses a noun - the Arabic Phrase: لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ is to be translated literally as &no fear upon them&. But in the next phrase وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ , the Holy Qur&an employs a verb, placing before it a pronoun as the subject. The literal translation of the phrase is: &they shall not grieve&. The implication here is that being totally free from all sense of loss is possible only to Men of Allah or the saints18 who follow divine guidance in all its details; as for the others, no man whether an emperor or a billionaire, can help being grieved at the loss of a valued object or the frustration of a desire, all of which is but a necessary part of the scheme of things. The &friends of Allah& do not have to grieve, because they annihilated their own desires and their very will in submitting themselves totally to the will of Allah. The Holy Qur&an also tells us that those who go to Paradise will thank Allah for having removed from them all regret and sorrow: الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ |"All praise belongs to Allah who has put away all sorrow from us|" (35:34). It means that some degree of sorrow is inevitable for every human being except those who have perfected and made fast their relationship with Allah. Let us make it clear that the verse does negate all grief and sorrow in the case of the &friends of Allah&, but the negation applies only to the loss of worldly things and the frustration of worldly desires. As for the anxiety about the other world and the fear of Allah and the deep sense of awe before His Glory, the &friends of Allah& are far ahead of other men in these. It has been reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) often appeared to be worried and in deep thought - this was not for fear of any trouble or loss in the worldly sense, but on account of his anxiety for his Ummah, and of his awe before Divine Glory. Nor does this verse imply that prophets and saints should not feel the instinctive and all too human fear when confronted by things which are generally known to inspire dread. The Holy Qur&an itself relates how the prophet Musa (Moses) (علیہ السلام) was struck with fear when his stick turned into a dragon: أَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَیٰ : |"Musa felt a fear in himself.|" (20:67) 18. The word |"Saints|" is very weak and only an approximate translation of the Arabic phrase |"Awliya-Allah|", &the friends of Allah& - a concept which has only a faint resemblance with the Christian idea of a &saint&. Consequently, the term &men of Allah& has been used most frequently throughout this commentary. But it was only an instinctive and physical fear, and the incident anyhow belongs to the early days of his prophethood, for when Allah said: لَا تَخَفْ : &Do not be afraid&, the fear disappeared altogether. We may explain the incident in another way also. His fear did not arise as it does in the case of ordinary men, from the apprehension of some harm or hurt from the dragon, but from the likelihood that the extraordinary event might lead the Israelites into misguidance. So, this fear was not worldly, but other-worldly.

آدم کا زمین پر اترنا سزا کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقصد کی تکمیل کے لئے تھا۔ قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا جنت سے زمین پر اترنے کا حکم اس سے پہلی آیت میں آچکا ہے اس جگہ پھر اس کو مکرر لانے میں غالبا حکمت یہ ہے کہ پہلی آیت میں زمین پر اتارنے کا ذکر بطور عتاب اور سزا کے آیا تھا اسی لئے اس کے ساتھ انسانوں کی باہمی عداوت کا بھی ذکر کیا گیا اور یہاں زمین پر اتارنے کا ذکر ایک خاص مقصد خلافت الہیہ کی تکمیل کے لئے اعزاز کے ساتھ ہے اسی لئے اس کے ساتھ ہدایت بھیجنے کا ذکر ہے جو خلافت الہیہ کے فرائض منصبی میں سے ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگرچہ زمین پر اترنے کا ابتدائی حکم بطور عتاب اور سزا کے تھا مگر بعد میں جب خطا معاف کردی گئی تو دوسری مصالح اور حکمتوں کے پیش نظر زمین پر بھیجنے کے حکم کی حیثیت سے ہوا اور یہ وہی حکمت ہے جس کا ذکر تخلیق آدم کے وقت ہی فرشتوں سے کیا جاچکا تھا کہ زمین کے لئے ان کو خلیفہ بنانا ہے، رنج وغم سے نجات صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ فرمانبردار ہیں : فَمَنْ تَبِعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ اس آیت میں آسمانی ہدایات کی پیروی کرنے والوں کے لئے دو انعام مذکور ہیں ایک یہ کہ ان پر کوئی خوف نہ ہوگا، دوسرے وہ غمگین نہ ہوں گے، خَوْفٌ آئندہ پیش آنے والی کسی تکلیف و مصیبت کے اندیشہ کا نام ہے اور حزن کسی مقصد و مراد کے فوت ہوجانے سے پیدا ہونے والے غم کو کہا جاتا ہے غور کیا جائے تو عیش و راحت کی تمام انواع و اقسام کا ان دو لفظوں میں ایسا احاطہ کردیا گیا ہے کہ آرام و آسائش کا کوئی فرد اور کوئی قسم اس سے باہر نہیں پھر ان دونوں لفظوں کی تعبیر میں ایک خاص فرق کیا گیا ہے کہ خوف کی نفی تو عام انداز میں کردی گئی مگر حزن کے متعلق یہ نہیں فرمایا کہ لاحزن علیہم بلکہ بصیغہ فعل لایا گیا اور اس کی ضمیر فاعل کو مقدم کرکے وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ فرمایا گیا اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ کسی چیز یا مراد کے فوت ہونے کے غم سے آزاد ہونا صرف انہی اولیاء اللہ کا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایات کی مکمل پیروی کرنے والے ہیں ان کے سوا کوئی انسان اس غم سے نہیں بچ سکتا خواہ وہ ہفت اقلیم کا بادشاہ ہو یا دنیا کا بڑے سے بڑا مالدار، کیونکہ ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا جس کو اپنی طبیعت اور خواہش کے خلاف کوئی بات پیش نہ آئے اور اس کا غم نہ ہو جیسا کہ کہا گیا ہے، دریں دنیا کسے بےغم نباشد وگر باشد بنی آدم نباشد بخلاف اولیاء اللہ کے کہ وہ اپنی مرضی اور ارادے کو اللہ رب العزت کی مرضی اور ارادے میں فنا کردیتے ہیں اس لئے ان کو کسی چیز کے فوت ہونے کا غم نہیں ہوتا قرآن مجید میں دوسری جگہ بھی اس کو ظاہر کیا گیا ہے کہ خاص اہل جنت ہی کا یہ حال ہوگا کہ وہ جنت میں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا اس پر شکر کریں گے کہ ان سے غم دور کردیا گیا، الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (٣٤: ٣٥) اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کچھ نہ کچھ غم ہونا ہر انسان کے لئے ناگزیز ہے بجز اس شخص کے جس نے اپنا تعلق حق تعالیٰ کے ساتھ مکمل اور مضبوط کرلیا ہو خواجہ عزیز الحسن مجذوب نے خوب فرمایا، جو بچنا ہو غموں سے آپ کا دیوانہ ہوجائے، اس آیت میں اللہ والوں سے خوف وغم کی نفی کرنے سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی کسی تکلیف یا کسی خواہش و مراد پر ان کو خوف وغم نہ ہوگا آخرت کی فکر وغم اور اللہ جل شانہ کی ہیبت و جلال تو ان پر اور سب سے زیادہ ہوتی ہے اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں یہ آیا ہے کہ آپ اکثر غمگین اور متفکر رہتے تھے وجہ یہ ہے کہ آپ کا یہ فکر وغم کسی دنیوی نعمت کے فوت ہونے یا کسی مصیبت کے خطرہ سے نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کی ہیبت و جلال سے اور امت کے حالات کی وجہ سے تھا، نیز اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ دنیا میں جو چیزیں خوفناک سمجھی جاتی ہیں ان سے انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کو بشری طور پر طبعی خوف نہ ہو کیونکہ حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) کے سامنے جب لاٹھی کا سانپ بن گیا تو انکا ڈر جانا قرآن مجید میں مذکور ہے فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى (٦٧: ٢٠) کیونکہ یہ فطری اور طبعی خوف ابتداء حال میں تھا جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا لاتخف تو یہ ڈر بالکل نکل گیا، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ خوف عام انسانوں کی طرح اس بنیاد پر نہ تھا کہ یہ سانپ ان کو تکلیف پہنچائے گا بلکہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل اس سے کہیں گمراہی میں نہ پڑجائیں تو یہ خوف ایک قسم کا اخروی خوف تھا،

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا جَمِيْعًا۝ ٠ ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّـنِّىْ ھُدًى فَمَنْ تَبِــعَ ھُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ۝ ٣٨ هبط الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال : هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة/ 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف/ 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة/ 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط : الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد . ( ھ ب ط ) الھبوط ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة/ 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف/ 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة/ 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] اور ان ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) پھر ہم نے حضرت آدم (علیہ السلام) حوا علیہا السلام، ابلیس اور سانپ سے کہا کہ آسمان سے اترو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ جب وقت اور جب بھی تمہارے پاس میری طرف سے کتاب اور رسول آئے تو جو شخص کتاب رسول کی اتباع کرے گا تو اسے پیش آنے والے عذاب کا خوف اور جو انھوں نے کام کیے ہیں ان پر غم نہیں ہوگا اور یہ بھی تفسیر ہے کہ انھیں ہمیشہ خوف اور غم نہیں ہوگا، یہ بھی کہا گیا جس وقت موت کو ذبح کیا جائے گا اس وقت انہیں خوف اور جب دوزخ کو بھرا جائے گا تب انھیں غم نہ ہوگا اور جن لوگوں نے کتاب اور رسول کو جھٹلایا وہ دوزخ والے ہیں۔ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کو وہاں موت آئے گی اور نہ ہی وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٨ (قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا ج) اب یہاں لفظ ” اِھْبِطُوْا “ آیا ہے جو اس سے پہلے بھی آیا ہے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ تخلیق آدم ( علیہ السلام) آسمانوں پر ہوئی ہے اور وہ جنت بھی آسمانوں پر ہی تھی جہاں حضرت آدم ( علیہ السلام) آزمائش یا تربیت کے لیے رکھے گئے تھے وہ ” اِھْبِطُوْا “ کا ترجمہ کریں گے کہ انہیں آسمان سے زمین پر اترنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو زمین پر ہی کسی بلند مقام پر رکھا گیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ” اِھْبِطُوْا “ سے مراد بلند جگہ سے نیچے اترنا ہے نہ کہ آسمان سے زمین پر اترنا۔ وہ آزمائشی جنت کسی اونچی سطح مرتفع پر تھی۔ وہاں پر حکم دیا گیا کہ نیچے اترو اور جاؤ ‘ اب تمہیں زمین میں ہل چلانا پڑے گا اور روٹی حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑے گی۔ یہ نعمتوں کے دستر خوان جو یہاں بچھے ہوئے تھے اب تمہارے لیے نہیں ہیں۔ اس معنی میں اس لفظ کا استعمال اسی سورة البقرۃ کے ساتویں رکوع میں ہوا ہے : (اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ ) (آیت ٦١) (فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ) “ یہ ہے علم انسانی کا دوسرا گوشہ ‘ یعنی علم بالوحی (Revealed Knowledge) ۔ اس چوتھے رکوع کا حسن ملاحظہ کیجیے کہ اس کے شروع میں علم بالحواس یا اکتسابی علم (Acquired Knowledge) کا ذکر ہے جو بالقوّ ۃ (potentially) حضرت آدم ( علیہ السلام) میں رکھ دیا گیا اور جسے انسان نے پھر اپنی محنت سے ‘ اپنے حواس اور عقل کے ذریعے سے آگے بڑھایا۔ یہ علم مسلسل ترقی پذیر ہے اور آج مغربی اقوام اس میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ کبھی ایک زمانے میں مسلمان بہت آگے نکل گئے تھے ‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس دنیا میں عروج تو انہی کو ہوگا جنہیں سب سے زیادہ اس کی آگہی حاصل ہوگی۔ البتہ وہ علم جو آسمان سے نازل ہوتا ہے وہ عطائی (given) ہے ‘ جو وحی پر مبنی ہے۔ اور انسان کے مقام خلافت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام اس کے پاس آئیں ‘ وہ جو ہدایات بھی بھیجے ان کی پورے پورے طور پر پیروی کرے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53. The reiteration of this statement is significant. Wc have been told above that Adam repented and that his repentance was accepted by God. This means that the stain of sin was washed away and therefore no stain remained On the contrary, God not only accepted Adam's repentance but also honoured him by endowing him with prophethood so that he might he able to direct his children correctly. The repetition of the order to leave Paradise and go down to earth is aimed at driving home the point that earth was not created as a place of punishment for man. On the contrary, man was put on earth to serve as God's vicegerent there. It was only to test man and thereafter to equip him for the performance of God's vicegerency that man was placed temporarily in Paradise. (See also n. 48 above.)

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :53 اس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے ۔ اُوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کر لی ۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے ۔ گناہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا ۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا ، نہ ان کی نسل کے دامن پر اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کہ معاذ اللہ ! خدا کو اپنا اکلوتا بھیج کر نوعِ انسانی کا کفّارہ ادا کرنے کے لیے سُولی پر چڑھوانا پڑتا ۔ برعکس اس کے اللہ نے آدم علیہ السّلام کی توبہ ہی قبول کرنے پر اکتفا نہ فرمایا ، بلکہ اس کے بعد انہیں نبوّت سے بھی سرفراز کیا تاکہ وہ اپنی نسل کو سیدھا راستہ بتا کر جائِں ۔ اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دُہرایا گیا ، تو اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ قبولِ توبہ کا یہ مقتضی نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اُتارا جاتا ۔ زمین ان کے لیے دارُالعذاب نہ تھی ، وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اُتارے گئے ، بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا ۔ جنت ان کی اصلی جائے قیام نہ تھی ۔ وہاں سے نکلنے کا حکم ان کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا ۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اُتارنے کی تھی ۔ البتہ اس سے پہلے ان کو اس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا ، جس کا ذکر اُوپر حاشیہ نمبر ٤۸ میں کیا جا چکا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(38 ۔ 39): جو علماء حضرت آدم کے قصہ میں سانپ کی شراکت کو صحیح کہتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ جو فرشتے جنت کے دروازے پر تعینات ہیں وہ شیطان کو جنت میں نہیں جانے دیتے تھے۔ اس لئے شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور حضرت آدم و حوا کو بہکایا۔ ان کا یہ قول ہے کہ حضرت آدم ‘ حوا ‘ ابلیس ‘ سانپ ان چاروں کو { اِھْبِطُوْا مِنْہَا } فرمایا ہے اور جو علماء سانپ کی شراکت نہیں دیتے وہ آیت میں سانپ کے ذکر کو شامل نہیں رکھتے۔ اس باب کی روایات کا پورا ذکر سورة اعراف میں ہو وے گا کیوں کہ وہاں شیطان کا پورا قصہ ہے۔ اخیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو جو قیامت تک پیدا ہوگی یہ جتلا دیا کہ ان کو نیک راستہ پر لگانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام لے کر اللہ کے رسول آویں گے۔ جس کسی نے اللہ کے رسول کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے موافق عمل کیا اگرچہ قیامت کے دن میدان محشر کی گرمی۔ پیاس حساب۔ پل صراط پر گذرنا۔ نامہ اعمال کا تولا جانا یہ بڑے بڑے پورا قصہ ہے۔ اخیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو جو قیامت تک پیدا ہوگی یہ جتلا دیا کہ ان کو نیک راستہ پر لگانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکام لے کر اللہ کے رسول آویں گے۔ جس کسی نے اللہ کے رسول کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے موافق عمل کیا اگرچہ قیامت کے دن میدان محشر کی گرمی۔ پیاس حساب۔ پل صراط پر گذرنا۔ نامہ اعمال کا تولا جانا یہ بڑے بڑے خوف ناک مقام ہیں مگر دل سے رسول کی اطاعت کرنے والے لوگوں کو یہ سب مقام اللہ تعالیٰ آسان کر دیوے گا۔ اور آخرت میں ان کو کچھ خوف و غم نہ ہوگا۔ بلکہ جنت میں وہ اپنی عقبیٰ کے زندگی بڑے عیش سے بسر کریں گے۔ ہاں جو لوگ دنیا میں اللہ کے رسول کی اطاعت سے منحرف اور اللہ کے احکام کے منکر رہویں گے عقبیٰ میں ہمیشہ کے لئے ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کا حالت مختصر طور پر ذکر فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ اور منفرد اور حدیث کی کتابوں کی صحیح روایتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات میں جو فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ پل صراط پر سے گذر کر قیامت کے دن لوگ جنت میں جاویں گے اور اپنے اپنے عمل کے موافق کچھ لوگ پلک جھپکانے میں اور کچھ بجلی کی طرح اور کچھ لوگ ہوا اور پرند جانوروں یا تیز گھوڑوں کی طرح پل صراط پر سے گذرجاویں گے ١۔ اس آیت میں اس قسم کے اہل جنت کا ذکر ہے۔ لیکن ان حدیثوں کے موافق اس دن بعض گناہ گار اہل کلمہ ایسے بھی ہوں گے جو اپنے گناہوں کی شامت سے پل صراط سے دوزخ میں جا پڑیں گے اور جو لوگ شرک کی حالت میں نہیں مرے وہ شفاعت کے سبب سے آخر کو دوزخ سے نکل کر جنت میں جا ویں گے۔ پل صراط کی آیتوں میں پل صراط کا اور شفاعت کی آیتوں میں ان لوگوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ آئے گا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:38) قلنا اھبطوا منھا جمیعا۔ قلنا ہم نے کہا (ماضی جمع متکلم) قول ہے۔ اور اھبطوا منھا جمیعا۔ اس کا مقولہ۔ اگلی عبارت تا اختتام آیت 39 ۔ قلنا کا مقولہ ہے۔ اھبطوا۔ آیۃ (2:36) میں بھی آیا ہے اس آیت میں اس کا اعادہ پھر کیا گیا ہے تاکہ فاما یاتینکم منی ۔۔ الخ کا پورا پورا ارتباط اس کے ساتھ ہوجائے جمیعا۔ لفظاً اھبطوا سے حال ہے اور معنی تاکید ہے یعنی سب اترو مجتمع ہوکر یا الگ الگ۔ ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ فاما۔ فاء عطف اور ترتیب کے لئے آیا ہے ان شرطیہ اور ما زائدہ للتاکید سے مرکب ہے۔ پھر اگر : یاتینکم ۔ یاتیں مضارع تاکید یا نون ثقیلہ واحد مذکر غائب۔ اتیان مصدر (باب ضرب) کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر، کم ضمیر جمع کی، آدم و حوا اور بشمول ابلیس لائی گئی ہے یا آدم و حوا اور ان کی اولاد کے لئے کہ وہ احکام ہدایت منجانب اللہ کی مکلف ہے۔ فمن۔ ف ربط کے لئے ہے اور من شرطیہ ہے۔ ھدای، مضاف مضاف الیہ دونوں مل کر تبع کا مفعول ۔ فمن تبع ھدای۔ جملہ شرطیہ اس سے اگلا جملہ فلا خوف علیہم ولاھم یحزنون جواب شرط (جملہ جزائیہ) یہ جملہ شرط وجزاء دونوں مل کر شرط اول ۔ فاما یاتینکم منی ھدی کی جزا۔ فلا خوف علیہم معطوف علیہ اور ولاھم یحزنون ۔ معطوف ہے ھم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع من ہے۔ ولاھم یحزنون واؤ عطف کا ہے لا مشابہ بلیس منفی ہے ھم مبتدا یحزنون فعل بافاعل مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب۔ حزن باب سمع مصدر غمگین ہونا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ۔ تو نہ کی قبولیت کے بعد اس جملہ کا اعاد اس غرض سے ہے کہ اب تم زمین پر ہی رہو اب تمہیں نبوت سے سرفراز کیا جاتا ہے اصل میں اس کا تعلق پہلے اھبطوا کے ساتھ ہے دوبارہ ھبطوا کا جملہ لاکر اس ربط کی طرف اشارہ کردیا ہے۔9 ۔ مخاطب تو آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ ہیں مگر مراد انکی ذریت سے یعنی تمہارے پاس میری طرف سے انبیاء ورسل وحی کی ہدایت لے کر آتے رہیں گے۔ (ابن کثیر) ہدایت کا یہ سلسلہ آدم (علیہ السلام) سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوگیا۔ انحضرت اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور قرآن مجید آخری کتاب ہدایت ہے۔ تاریخ بخاری اور مستدرک حاکم میں ہے کہ انبیاء کی کل تعداد ایک لا کگ چو بیس ہزار ہے جن میں سے تین سو پندرہ نبی مرسل ہیں۔ (قرطبی) آج ہمارے پاس ہدایت الہی کے دو نوشتے ہیں یعنی کتاب وسنت۔ ان کے ساتھ منسلک سے ہی ہم ضلا لت سے بچ سکتے ہیں۔10 ۔ حزن وہ افسوس جو مافات اور خوف آئندہ متوقع خطرے سے مقصدیہ ہے کہ متعین ہدایت آخرت میں تو دنیا کی زندگی پر افسوس کریں گے جیسا کہ کہ کفار کو افسوس ہوگا ( الانعام :27) اور قیامت کے احوال وشدا انہیں کو اندیشہ نہ ہوگا (النل :79 الا نبی اء :3)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : خلافت کے قیام کے لیے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اترنے کا حکم اور خلافت کی ذمہ داریاں پوری کرنے پر بےخوف اور تابناک مستقبل کی ضمانت۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری توبہ قبول ہوئی لیکن آسمان سے اترنا تمہارا یقینی ہے لہٰذا جنت سے نکل جاؤ اور تم زمین پر جا کر شیطان کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی کوشش کرو۔ یاد رکھنا تمہارا زمین پر جانے کا یہ معنٰی نہیں کہ تم شتر بےمہار کی طرح جدھر چاہو نکل کھڑے ہو بلکہ تمہیں مسلسل ہدایات اور ایک دستور حیات دیا جائے گا جس کے مطابق تم نے انفرادی، اجتماعی، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی زندگی کا ہر گوشہ اور زاویہ اس کے مطابق ڈھالنا ہوگا یہی خلافت کا تقاضا اور تمہاری زندگی کا مقصد ہے۔ جس نے اس ہدایت نامے کی پابندی کی اسے دنیا کی زندگانی میں امن و سکون ملے گا اور آخرت میں کوئی خوف اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والا خوف و غم سے محفوظ رہے گا۔ ٢۔ انسان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دستور حیات کا پابند ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت ہی کامل اور حقیقی ہدایت ہے۔ تفسیر بالقرآن بے خوف کون ؟ ١۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بےخوف ہوگا۔ (البقرۃ : ٣٨) ٢۔ اولیاء اللہ کو کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (یونس : ٦٢) ٣۔ اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ : ٦٩) ٤۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) ٥۔ رب کے سامنے اپنے آپ کو مطیع کردینے والا بےخوف ہوگا۔ (البقرۃ : ١١٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہاں آکر یہ معرکہ اپنے اصلی میدان ‘ زمین کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور اس وقت سے شروع ہے ۔ لمحہ بھر کے لئے بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا ۔ اور یوں انسان ‘ آغاز انسانیت سے یہ راز پالیتا ہے کہ اگر وہ اس دنیا میں سرخروئی اور کامرانی چاہتا ہے تو اس کے حصول کا طریقہ کیا ہے ؟ اور اگر وہ ذلت و خواری چاہتا ہے تو اس کی راہ کون سی ہے ؟ ٭ ........ ٭ ........ ٭ لمحہ بھر کے لئے ذرا پیچھے کی طرف لوٹئے اور ابتدائی انسانیت کی اس کی دلچسپ کہانی کے بعض پہلوؤں کا جائزہ لیجئے ! اللہ تعالیٰ خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔” میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ معلوم ہوا کہ آدم پہلے ہی اس زمین کے لئے پیدا کئے گئے تھے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کیوں اسے جنت دکھائی گئی ہے ؟ کیوں ایک درخت کو حرام قرار دیا گیا ؟ اسے ابتلا ‘ میں ڈالا گیا ‘ یوں اسے زمین کی طرف اتارا گیا حالانکہ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق پیداہی اس لئے کیا گیا تھا کہ زمین پر فریضہ خلافت سر انجام دے ؟ میں سمجھتا ہوں کہ کشمکش آدم وابلیس کا یہ پہلا تجربہ کرایا ہی اس لئے گیا تھا کہ اس کے ذریعے سے آدم (علیہ السلام) کو کاربار خلافت کے چلانے کے لئے تیار کیا جائے ۔ اس طرح آدم (علیہ السلام) کی پوشیدہ قوتوں کو جگادیا گیا ۔ اسے لغزش کا تجربہ کرایا گیا اور اس کے نتائج سے دوچار کیا گیا۔ اس کے بعد ندامت و شرمندگی ‘ توبہ ‘ دشمن کی پہچان اور اللہ کی مامون پناہ گاہ میں آنے کا طریقہ سکھایا گیا۔ شجر ممنوعہ کی کہانی ‘ اس کے چکھنے کے لئے شیطان کی وسوسہ اندازی ‘ انسان اول کا نسیان عہد ‘ نسیان کے بعد ہوش میں آنا ‘ پشیمانی اور استغفار ۔ یہ سب کیفیات دو اروات ایسی ہیں جن کا تجربہ ہر انسان کو ہر لحظہ ہوتا رہتا ہے۔ اس انسان پر اللہ کی رحمت اور شفقت کا یہ تقاضا تھا کہ وہ اپنے دارالخلافہ میں تمام ایسے تجربات سے آراستہ ہو کر اترے جس کا پیش آنا اس کی زندگی کا ایک اہم حصہ تھا ۔ تاکہ وہ اس وہ اس طویل اور نہ ختم ہونے والی کشمکش (کشمکش آدم وابلیس) کے لئے تیار ہو اور یہ تجربہ اس کے لئے نصیحت آموز اور سامان عبرت ہو۔ آپ دوبارہ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ پھر یہ تجربہ کہاں ہوا ؟ وہ جنت کون سی ہے جس میں آدم وحوا کچھ عرصے کے لئے قیام پذیر ہوئے ؟ فرشتے کیا ہیں ؟ ابلیس کی حقیقت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں کیونکر خطاب کیا ؟ اور انہوں نے کیونکرجواب دیا ؟ بھائی ! یہ اور ایسی تمام دوسری باتیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں دراصل اللہ کے ان بھیدوں اور اسرار میں ہیں ۔ جن کی حقیقت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ‘ اللہ تعالیٰ جو علیم و حکیم ہے ‘ وہ جانتا ہے تھا کہ ان چیزوں کی حقیقی معرفت اور ان کی ماہیت معلوم کرنے سے انسان کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ “ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان چیزوں کی حقیقت معلوم کرنے اور ان کی اصلیت کا ادراک کرنے کی صلاحیت ہی نہیں دی ۔ وہ ان کی ماہیت کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مدرکات دیئے ہیں وہ صرف اس لئے دیئے ہیں کہ ان کے ذریعے انسان اس زمین میں کاروبار خلافت سرانجام دے ۔ یہ مدرکات حقیقت مغیبات کا علم حاصل کرنے کے لئے استعمال ہی نہیں ہوسکتے ۔ نیز فریضہ ٔ خلافت کے یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ ہم ان مغیبات کی حقیقت کو بھی جانتے ہوں ۔ اللہ کے قوانین قدرت کو کس قدر انسان نے مسخر کیا ہے ۔ انسان کو کائنات کے و رموز کا کتنا علم دیا گیا ہے ؟ کتنے اسرار غیبیہ ہیں ‘ جو اس کی نظروں سے اوجھل ہیں ؟ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے علم وادراک کی حضرت انسان کو قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کی حالت یہ ہے کہ اس کائنات کے بیشمار اسرار کان پردہ فاش کرنے کے باوجود ‘ وہ اب بھی ان تمام واقعات و حوادث سے مطلقاً بیخبر ہے جو اگلے لمحہ نمودار ہونے والے ہیں ۔ تمام مہیا او میسرہ آلات ........ اور ذرائع کے علم کے باوجودجو اسے میسر ہیں ‘ وہ کچھ نہیں جانتا کہ اگلے لمحہ میں کیا ہونے والا ہے ۔ اسے معلوم نہیں کہ وہ جو سانس لے رہا ہے وہ آخری سانس لے رہا ہے یا اس کے بعد وہ دوسرا سانس بھی لے سکے گا ۔ پردہ غیب میں جو حقائق پوشیدہ ہیں یہ ان میں سے ایک ادنیٰ مثال ہے۔ غرض فریضہ خلافت کی ادائیگی کے لئے اسے ان مغیبات میں سے کسی چیزکا جاننا بھی ضروری نہیں ہے ‘ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اگر انسان پر بعض اسرار کھول دیئے جائیں تو وہ اس کی کارکردگی پر الٹا اثر ڈالیں گے ۔ چناچہ ایسے پوشیدہ اسرار و رموز کی کئی قسمیں جو پردہ غیب میں مستور ہیں اور اللہ کے سوا ان کا علم کسی کو بھی نہیں ہے ۔ اس لئے عقل انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس میدان میں سعی لاحاصل کرے ۔ کیونکہ اس کے پاس وہ ذرائع اور آلات ہی نہیں جو اس میدان میں کام آتے ہیں ۔ جو شخص بھی اس میدان میں جدوجہد کرے گا ‘ اور اپنی قوتیں کھپائے گا ‘ اس کی جدوجہد اکارت جائے گی ۔ بالکل ضائع اور لاحاصل۔ جب عقل انسانی وہ ذرائع ہی حاصل نہیں جن کے ذریعے وہ عالم مغیبات کے بارے میں کسی چیز کا ادراک کرسکے تو پھر اسے کوئی حق نہیں کہ وہ محض ہٹ دھرمی کرکے غیبی حقائق کا انکار کرے ۔ کیونکہ کسی چیز کا انکار کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کے وجود کا علم حاصل ہو۔ اور مغیبات کا علم وادراک عقل کا کام ہی نہیں ہے ۔ نہ اس کے حیطہ قدرت اور دائرہ کار میں یہ چیزیں آتی ہیں ۔ اس کے پاس ان کے ادراک کے نہ وسائل ہیں اور نہ ہی عقل کو ان کے ادراک کی ضرورت ہے ۔ اور نہ ہی عقل انسانی کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ ان کا ادراک کرے۔ ہمیں یہ تسلیم ہے کہ وہمیات و خرافات کو تسلیم کرنا نہایت ہی خطرناک اور مضربات ہے ‘ لیکن یہ بات اس سے بھی بدرجہا زیادہ مضر اور خطرناک ہے کہ انسان ایک ایسی چیز کا انکار کرے جو اس کے علم کے دائرہ رسائی ہی سے باہر ہے ۔ یا کسی حقیقت کو محض اس لئے مستعبد سمجھاجائے کہ وہ انسان کے حدادراک اور حدود قدرت سے باہر ہے ۔ اگر ہم علم ویقین کا یہ معیار مقرر کرلیں تو یہ ایک حیوانی معیار ہوگا۔ گویا انسانیت پیچھے لوٹ کر دوبارہ حیوانیت کے مقام تک پہنچے گی ۔ جہاں عالم محسوسات سے آگے کوئی چیز نہیں ہوتی اور جس کے لئے محسوسات کی چار دیواری سے نکل کر وجود مطلق تک پہنچنے کا امکان ہی نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اس عالم غیب کو اس ذات ہی کے حوالے کردیں جو اس دنیا کا مالک ہے ‘ اور ہمارے لئے وہی کافی ہے جس کی اطلاع وہ ہمیں دے دے ۔ صرف اسی قدر کی ہمیں اس دنیا میں ضرورت ہے جس سے ہماری روحانی اور مادی اصلاح ہوجائے اور بس ! اب ہم اس قصے کے ان پہلوؤں کو لیتے ہیں جو بعض انسانی اور تکوینی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ عالم موجودات کا تصور ‘ اس کا باہم ربط ‘ انسانی مزاج اور اس کا معیار حسن قبیح وغیرہ۔ کیونکہ انہی پہلوؤں میں بشریت کی ہدایت اور منفعت کا سامان ہے ۔ یہاں ظلال القرآن کی مناسبت سے ‘ اختصار کے ساتھ ہم ان اشارات ‘ تصورات اور حقائق پر ایک اچٹتی نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ١۔ اس قصے سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ مقام اور حیثیت ہے جو اسلامی تصور حیات ‘ خود انسان کو عطا کرتا ہے یعنی اس کائنات میں اس کی اہمیت ‘ ان اقدار کی اہمیت جن سے اسے پرکھا جاتا ہے اور زمین پر اس کے کردار کی اہمیت وغیرہ ۔ پھر یہ کہ اسلامی تصور حیات انسان اور عہد ربانی کے درمیان تعلق کی کیفیت کیا ہے ؟ اور اس عہد کی حقیقت کیا ہے جس کی بنیاد پر انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہے ۔ چناچہ ملاء اعلیٰ میں تکریم انسانیت کی جو تقریب منعقد ہوتی ہے اور اس کے بعد جو عظیم الشان اعلان ہوتا ہے اس سے صاف صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی تصور حیات کے مطابق حضرت انسان کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ یعنی وہ ایک ایسی مخلوق ہے جسے زمین میں خلیفۃ اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ اس کا نہایت ہی واضح اظہار اس منظر سے ہوتا ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کا حکم ہوتے ہی سب کروبی اس بندہ خاکی کے آگے سربسجود ہوجاتے ہیں ۔ اس تقریب میں ابلیس استکبار کرتا ہے اور راندہ درگاہ ہوجاتا ہے ۔ اور یہ سب آغاز سے انجام تک خاص ذات کبریائی کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ انسان کے بارے میں جب یہ نقطہ نظر اختیار کیا جاتا ہے تو نظریاتی دنیا اور عملی دنیا میں انسان کے اس تصور کے عظیم الشان اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلا تصور یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس زمین کا مالک ہے ۔ یہ اسی کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ اس کائنات کی تمام چیزیں بھی اس انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ اس لئے وہ ہر مادی چیز سے زیادہ معزز زیادہ قیمتی اور زیادہ عزیز ہے ۔ وہ دنیا کی تمام مادی اقدار سے بلند تر ہے ۔ لہٰذا یہاں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ کسی بڑے سے بڑے مادی مفاد ‘ یا عظیم سے عظیم مادی ترقیات کے لئے انسان کو ذلیل و خوار ہونے دیاجائے۔ لہٰذا کسی قسم کی مادی تحقیقات وفتوحات ‘ کسی قسم کی مادی پیداوار یا مادی عناصر میں سے کسی عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ تمام مادیات اور تمام مصنوعات ‘ صرف انسان کی خاطر پیدا کی گئی ہیں ۔ اس لئے کہ اس کی انسانیت پروان چڑھے اور بحیثیت انسان یہاں اس کی زندگی قائم رہ سکے ۔ لہٰذا اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ محض انسانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے اس کی اعلیٰ اقدار اور اس کی کرامت اور شرافت کے عناصر ترکیبی ہی کو خیرباد کہہ دیں اور انہیں ضائع کردیں۔ ٢۔ اس کہانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس زمین پر انسان ہی اول درجے کی موثر طاقت ہے۔ وہی ہے جو اس زمین کے رنگ ڈھنگ بدلتا ہے اور انسان کی معاشرتی زندگی میں وہی باہمی ربط وتعلق کی نوعیت متعین کرتا ہے ۔ وہی ہے جو قافلہ حیات کا قائد وسالار ہے اور سمت سفر کا تعین کرتا ہے ذرائع پیداوار یا پیداوار کی تقسیم کے کسی نظام کو اس انسان کی قیادت کا مقام حاصل نہیں ہے ۔ یوں کہ انسان کی نکیل ان کے ہاتھ میں ہو اور وہ ذلیل و خوار ایک حیوان کی طرح ان کے پیچھے پیچھے عالم بےبسی میں چلتا ہو جیسا کہ آج کل کے بعض مادی فلسفے اس کی ایسی ہی تصویر کھینچتے ہیں ۔ اور جن کا نظریہ انسانیت یہ ہے کہ اس کی زندگی میں ........ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ان نظاموں میں جوں جوں مشین کی قدروقیمت میں اضافہ ہوتا ہے ‘ انسان کی انسانیت پامال ہوتی جاتی ہے ۔ یہ بات شک وشبہ سے بالا ہے کہ انسان کے لئے جو نظام زندگی تجویز کرتا ہے یا تو وہ اس اسلامی نظریہ کے مطابق تجویز ہوتا ہے یا پھر اس مادی نقطہ نظر کے مطابق تشکیل پاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں بلند انسانی اقدار کو یا تو عروج نصیب ہوتا ہے یا تو وہ پامال ہوتی ہیں ۔ انسان اشرف المخلوقات بن جاتا ہے یا ایک حقیر مشین اور آلہ ۔ آج کی اس مادی دنیا میں محض مادی ترقی اور کثرت پیداوار کی خاطر ہر قسم کی انسانی آزادیوں ‘ انسانی شرافتوں اور انسان کی انسانیت کو جو پامال اور برباد کیا جارہا ہے ‘ وہ صرف اسی نقطہ نظر کا فطری نتیجہ ہے جو مادی نظامہائے حیات اس انسان کی حقیقیت اور دنیا میں اس کی اہمیت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ لیکن اس مادی دنیا کے برعکس انسان کی حقیقت اور اس کے مقصد تخلیق کے بارے میں اسلام جو تصور دیتا ہے ‘ اس کے ترازو اور معیار میں آداب انسانیت کی قدریں بلند ہوجاتی ہیں ‘ اخلاقی فضائل و محاسن اہمیت اختیار کرلیتے ہیں ‘ انسان کی زندگی میں ایمان ‘ نیکی اور اخلاص جیسی صفات اہمیت اختیار کرلیتی ہیں کیونکہ اسلامی تصور حیات کے مطابق یہی وہ اعلیٰ اقدار ہیں جن پر خلافت فی الارض کی ذمہ داری موقوف ہے۔ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ” پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ‘ ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ “ غرض یہ اقدار تمام مادی اقدار سے زیادہ قیمتی اور برتر ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی ہمارے ذہن میں رہنی چاہئے کہ ان مادی اقدار کا حصول بھی مقاصد خلافت فی الارض میں داخل ہے ۔ اس حد تک یہ مادی اقدار اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار کے تابع ہوں اور بذات خود اصل مقاصد نہ بننے پائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام انسانی ضمیر کو پاک وصاف اور ایک اعلیٰ زندگی بسر کرنے پر آمادہ کرتا ہے ‘ جبکہ تمام دوسرے مادی نظریات تمام روحانی اقدار کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ اور مادیت کے لئے آداب انسانیت تک کو قربان کردیتے ہیں ۔ اور یہ سب قربانی کس لئے دی جاتی ہے ؟ محض ضروریات زندگی سامان تعیش کی فراوانی اور حیوانوں کی طرح شکم پروری کی خاطر) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سید محمد قطب کی کتاب انسان اسلام اور مادیت) اسلام کا تصور انسان کس قدر بلند ہے ؟ ذرا اس کے اس پہلو پر غور کیجئے کہ اس کی رو سے انسان ایک بااختیار اور صاحب عزم واراہ مخلوق ہے ۔ کیونکہ اگر ہو بااختیار اور ذی عزم نہیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے معاہدے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ کیونکہ اختیار ہی کی اساس پر انسان مکلف ہے اور جزاء وسزا کا مستحق ہے ۔ اگر وہ اپنے ارادے کا پکا اور خواہشات نفسانیہ پر قابوپالیتا ہے تو اس طرح وہ فرشتوں سے بھی ارفع مقام حاصل کرسکتا ہے ۔ اور ہر اس کجروی سے بچ سکتا ہے جس سے اسے سابقہ درپیش ہو ۔ لیکن اگر اس عزم پر خواہشات نفسانیہ غلبہ پالیں ‘ اس کی زندگی میں ہدایت پر ظلمت غالب آجائے اور وہ اپنے اس عہد الست کو بھول جائے جو اس نے اپنے خالق سے باندھا تھا تو وہ اس بلند مقام سے گر بھی سکتا ہے اور اپنے لئے شقاوت ونکبت کے تمام سامان بھی فراہم کرسکتا ہے ۔ اسلامی نظام زندگی نے ‘ اس کائنات میں انسان کو برتری اور شرافت کے جو اصول دیئے ہیں اس قصے میں ان کی صرف ایک جھلک دکھائی گئی ہے ۔ انسان کو یاددلایا گیا ہے کہ سعادت وشقاوت ‘ بلندی و پستی ‘ ایک بااختیار بلند مرتبت انسان اور مقید ومجبور حیوان جو قعر مذلت میں گرپڑا ہو ‘ ان دونوں کی راہیں کہاں سے جدا ہوتی ہیں ۔ اس قصے میں بیان کردہ ‘ واقعات کی تصویر کشی کے دوران یہ یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ معرکہ آدم وابلیس کی نوعیت کیا ہے ؟ ایک طرف بندے اور خدا کا پیمان ہے اور دوسری طرف شیطان کی فتنہ انگیزی ہے۔ ایک طرف ایمان ہے اور دوسری جاب کفر ہے ‘ ایک محاذ پر حق ہے اور دوسرے پر باطل ہے ۔ “ ایک صفت اہل ہدایت کی ہے اور دوسری اہل ضلال کی ۔ لیکن میدان جنگ کہاں ہے ؟ انسان اور اس کی زندگی ۔ فاتح بھی انسان اور مفتوح بھی انسان ۔ سود و زیاں کا یہ بازار خود اس کے ضمیر میں ہے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اسے متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ہر وقت چوکنا رہے کیونکہ وہ ہر وقت میدان کارزار میں ہے ۔ صورتیں دو ہی ہیں یا تو وہ لٹ جائے اور یا مال غنیمت لے کر ظفریاب ہوگا۔ اس قصے میں اسلام کے تصور خطا اور توبہ کی وضاحت بھی کردی جاتی ہے ۔ گناہ چونکہ ایک فرد سے سرزد ہوتا ہے ۔ لہٰذا توبہ بھی ایک انفرادی عمل ہے ۔ یہ ایک ایسا واضح اور صاف نظریہ ہے جس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ اہل کنیسا کی طرح یہاں کسی ایسے تصور کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان پیدا ہونے سے پہلے خطاکا مرتکب بن جاتا ہو۔ اسلام میں کسی لاہوتی کفارہ معاصی کا کوئی تصور نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انسان کو آدم (علیہ السلام) کے گناہ سے پاک کرنے کے لئے مصلوب ہوئے ۔ یہ ایک غلط تصور ہے ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی ایک لغزش ایک انفرادی عمل تھا۔ اور اس سے چھٹکارا پانے کا طریقہ بھی انفرادی عمل ندامت اور توبہ تھا جو بالکل واضح اور صاف اور قابل فہم ہے ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہر ایک خود اپنے کئے کا ذمہ دار ہے ۔ اور سب کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہے ۔ صاف اور سادہ اور آسان صدبار اگر توبہ شکستی بازآ ذرا غو رکیجئے کہ کس قدر واضح اور دل لگتا تصور ہے یہ ۔ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنا بوجھ اٹھائے ۔ یہ تصور ہر انسان کو بھلائی کے حصول کی جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے اور وہ یاس وقنوط کا شکار نہیں ہوتاکیون کہ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُوہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “ اشارات قصہ آدم کا یہ صرف ایک پہلو ہے فی ظلال القرآن کے اس مقام پر ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ صرف اس ایک پہلو ہی میں بےبہا حقائق اور صحت مند تصورات کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے ۔ اس قصے میں قیمتی اشارات وہدایات کا ایک وافر ذخیرہ ہے ۔ اس میں اسلام کے تصور اجتماع اور طرز معاشرت کی بنیادیں متعین کردی گئیں ہیں ۔ اور جنہیں بھلائی ‘ اخلاق اور دوسرے فضائل کے ذریعے استحکام بخشا گیا ہے ۔ جب ہم اس پہلو پر غور وفکر کرتے ہیں تو ہمیں قرآنی قصوں کی اہمیت اور مقصدیت کا احساس ہوتا ہے کہ یہ قصے کس طرح اسلامی تصور حیات کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں ۔ اور ان اعلیٰ اقدار کی وضاحت کرتے ہیں جو ان بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں جس کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور جو اللہ ہی کی طرف متوجہ ہے ‘ اور جسے آخر کار اللہ ہی کی طرف جانا ہے ‘ وہ اس بات کی مستحق ہے کہ اس میں وہی اقدار بلند ہوں جو اللہ کے ہاں بلند ہیں ۔ معاہدہ خلافت انسانی دراصل ربانی ہدایت پہ قائم ہے ۔ اس کی اہم شرط یہ ہے کہ انسان اسلامی نظام حیات کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔ اس معاہدے کے بعد پوزیشن یہ ہوجاتی ہے کہ انسان ایک ذی ارادہ مخلوق کی حیثیت سے ایک دورا ہے پر کھڑا ہے ۔ ایک طرف اسے خدا پکاررہا ہے ‘ اور وہ سن رہا ہے ۔ اگر وہ فیصلہ کرتا ہے تو صراط مستقیم پر چل پڑتا ہے ۔ دوسری جانب اسے شیطان پکار رہا ہے ۔ وہ ضلالت ........ یا حق ہے اور یا باطل ........ اور یا فلاح ہے اور یا خسران ........ یہ ہے حقیقت اور اسے قرآن کریم ہمیشہ بطور حقیقت اولیہ پیش کرتا ہے ۔ عالم انسان کے سارے نظریات و تصورات اور طرز ہائے زندگی بس صرف اس ایک حقیقت پر قائم ہیں ۔ درس ٤ ایک نظر میں یہاں آکر گفتگو کا رخ بنی اسرائیل کی طرف مڑجاتا ہے ۔ مدینہ طیبہ میں صرف انہوں نے دعوت اسلامی کا سختی سے مقابلہ کیا تھا۔ انہوں نے ظاہری اور خفیہ دونوں قسم کی تدبیروں کے ذریعے دعوت اسلامی کو ختم کرنے کوشش کی اور اس کا مقابلہ کیا ۔ وہ تحریک اسلامی کے خلاف پے درپے سازشیں کرتے رہے اور ظہور اسلام سے لے کر دعوت کے اس مرحلے تک ایک لمحہ بھر ان کی ریشہ دوانیوں میں کوئی کمی نہ آئی ۔ انہیں اس بات کا یقین ہوچلا تھا کہ اقتدار کی کنجیاں ایک ایک کرکے مسلمانوں کے ہاتھوں میں منتقل ہورہی ہیں ۔ جب سے اوس و خزرج کی لڑائیاں بند ہوئیں اور وہ راستے بند ہوئے جن کے ذریعے یہود مشرکین مدینہ کے اندر اثر ورسوخ پیدا کرتے اور ان پر اثر انداز ہوتے تھے ‘ پھر جب مسلمانوں کے لئے ‘ اس نئی کتاب کی بنیاد پر ایک نئے نظام زندگی کی تشکیل شروع ہوئی تو یہودیوں کو یہ احساس شدت سے ہورہا تھا کہ اس نئی تحریک نے انہیں ادب و ثقافت اور معیشت واقتصاد دونوں کے اہم شعبوں سے باہر نکال پھینکا ہے ۔ غرض یہ ہے وہ معرکہ جو یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اول روز سے شروع کیا اور آج تک وہ جوں کا توں قائم ہے ۔ آج بھی وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہی اوچھے ہتھیار استعمال کررہے ہیں جو اس وقت کررہے تھے ۔ ہتھیاروں کی شکل اگرچہ مختلف ہے ‘ رنگ ڈھنگ نیا ہے ۔ لیکن ان کی حقیقت اور مزاج بالکل وہی ہے ........ یاد رہے کہ یہودی اسلام و مسلمانوں کے خلاف اس حقیقت کے باوجود یہ معاندانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں کہ انسانی تاریخ میں پوری دنیا اس قوم کو ہمیشہ دھتکارتی رہی ۔ کبھی ادھر سے ادھر اور کبھی ادھر سے ادھر بھگایا جاتارہا ۔ اور یہ لوگ خاک چھانتے پھرے ۔ صدیاں یونہی گزرگئیں لیکن بالآخر انہیں آرام اور چین کی زندگی عالم اسلام ہی میں نصیب ہوئی ‘ جو سب کے لئے کھلا ہے اور جس میں عقیدہ و مذہب کی اساس پر کسی کے خلاف کوئی نفرت نہیں ہوا کرتی ہے ۔ جہاں فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات کو ہمیشہ بری نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور جہاں ہر اس شخص کو آنے کی کھلی اجازت رہی ہے جو اسلام کو اذیت نہ دے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہ کرتا ہو اور مسالم ہوکر رہے۔ توقع تو یہ تھی کہ یہود مدینہ ‘ اس نئے رسول اور اس نئی دعوت کو سب سے پہلے قبول کرتے اور ایمان لاتے ۔ جبکہ قرآن کریم اپنی عمومی حیثیت میں ان تمام تعلیمات کی تصدیق کررہا تھا جو تورات میں بیان کی گئی تھیں ۔ پھر ان کو ایک نئے رسول کی آمد کا انتظار بھی تھا ۔ ان کو اس کے اوصاف بھی معلوم تھے اور ان کے پاس کتب سماوی میں اس کے بارے میں بشارتیں موجود تھیں ۔ اور وہ ہمیشہ اللہ سے دست بدعا ہوا کرتے تھے کہ وہ نبی منتظر کے طفیل انہیں مشرکین عرب پر ظفریاب کرے۔ یہ سبق ‘ بنی اسرائیل کے ساتھ قرآن کی وسیع گفتگو کا پہلا حصہ ہے ۔ بنی اسرائیل کے ساتھ یہ گفتگو درحقیقت ان کے موقف کی تردید اور ان کی سازشوں کو طشت ازبام کرنے کے لئے ان پر ایک گہری تنقیدی حملہ ہے اور یہ بطور مجبوری اور ضرورت اس وقت شروع کیا گیا ہے ۔ جب دعوت اسلامی نے ‘ مدینہ میں آکر ‘ انہیں اسلام کی طرف بلانے میں اپنی پوری قوت صرف کردی ‘ ان پر حجت تمام کردی اور انہیں اس جدید تحریک کی طرف راغب کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کرلئے گئے۔ اس سبق کا آغاز باری تعالیٰ کی اس جلیل القدر پکار سے ہوتا ہے جس میں باری تعالیٰ انہیں اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے ‘ انہیں پکارا جاتا ہے کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس عہد کو پورا کرے ‘ جو اس نے ان کے ساتھ کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں بطور تمہید ‘ پہلے خوف خدا اور تقویٰ و طہارت کی طرف بلاتا ہے اور اس کے بعد انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس کتاب اور ہدایت کو قبول کرلیں جو ان تمام کتابوں اور ہدایات کی تصدیق کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود ان کی طرف اتاریں ۔ انہوں نے قرآن کریم کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا اللہ تعالیٰ اس کی مذمت کرتا ہے ‘ اور انہیں اس بات کی نصیحت کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو سب سے پہلے اس کتاب کے منکر بنے ۔ اس کی اس روش کی بھی مذمت کی جاتی ہے کہ وہ حق کو چھپاتے ہیں اور حق و باطل کو باہم مشتبہ بناتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہ راست سے بھٹکائیں ۔ بالخصوص مسلمانوں کو ۔ اور اسلامی جماعت کی صفوں میں فتنہ کھڑاکریں اور انتشار پھیلائیں ۔ نیز جو لوگ نئے نئے حلقہ بگوش اسلام ہورہے تھے ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پھیلائیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں مشورہ دیتا ہے کہ وہ ان فتنہ انگیزیوں کو چھوڑ کر اسلامی جماعت میں شریک ہوجائیں ۔ مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھیں ‘ زکوٰۃ ادا کریں اور نظام جماعت قائم کریں اور اپنے آپ کو اس نئے دین میں ضم کردینے کے مشکل کام میں صبر اور نماز سے مددلیں ۔ اللہ ان کی اس روش پر سخت تنقید کرتا ہے کہ وہ مشرکین کو تو یہ کہتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئیں لیکن خود ایمان نہیں لاتے اور نہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ اس کے بعدبنی اسرائیل کو وہ نعمتیں یاددلائی جاتی ہیں جن سے انہیں ‘ ان کی پوری تاریخ میں نوازا جاتا رہا تھا۔ دوران گفتگو حاضرین بنی اسرائیل کو یوں مخاطب کیا جاتا ہے کہ گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں خود یہ لوگ وہاں موجود تھے ۔ جو آج مدینہ میں موجود ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل ایک ہی امت ہیں اور صدیوں سے وہ ایک ہی قومیت اور اسی جبلت پر جمے ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے بعد بھی وہ ہر دور میں ویسے ہی رہے اور انہیں خصوصیات کے حامل رہے ۔ اس کے بعد انہیں اس دن یعنی یوم قیامت سے ڈرایا جاتا ہے جہاں کوئی نفس کسی دوسرے کا بدلہ نہ دے سکے گا ۔ کسی کی کوئی سفارش نہ چلے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ اور معاوضہ قبول ہوگا اور اس دن تمام لوگ بےیارو مددگار ہوں گے ‘ اور انہیں قیامت کے عذاب سے بچانے والانہ ہوگا۔ اب ان کے سامنے وہ منظر پیش کیا جاتا ہے کہ جب اللہ نے انہیں فرعون سے نجات دی ۔ یہ منظر کشی ایسی ہی کہ گویا نظارہ آنکھوں کے سامنے ہے ۔ پھر ان انعامات کا ذکر ہوتا ہے جو پے درپے ان پر ہوتے رہے ۔ ان کے سروں پر بادلوں کے سائے کئے جاتے ہیں ۔ من وسلویٰ سے ان کی تواضح کی جاتی ہے اور پتھروں کا دل چیر کر ان کے لئے پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد انہیں شرم دلائی جاتی ہے کہ ان انعامات کے بدلے میں وہ پے درپے کیا کیا سرکشیاں اور کیا کیا خرمستیاں کرتے رہے ۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی ایک غلطی معاف کرتے تو وہ دوسری میں جاپڑتے ‘ ایک مصیبت سے نجات دیتے تو وہ اپنے لئے دوسری کا سامان کردیتے ۔ لیکن بنی اسرائیل بھی تو بنی اسرائیل تھے ۔ وہی فساد اور کینہ پروری ‘ وہی کجروی اور گمراہی اور اس پر اصرار ۔ ہمیشہ انہوں نے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ۔ امانت میں خیانت کی ۔ عہد کو پختہ باندھنے کے بعد توڑا ۔ اللہ تعالیٰ اور پیغمبروں کے ساتھ کئے ہوئے ہر میثاق کو انہوں نے بالائے طاق رکھا ۔ وہ یہاں تک آگے بڑھے کہ بغیر کسی جواز کے پیغمبروں کو قتل کرنے لگے ۔ رب کی آیات کو جھٹلانے لگے ۔ بچھڑے کو پوجنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی گستاخی اس حد تک پہنچ گئی کہ انہوں نے اس وقت تک ایمان لانے سے انکار کردیا جب تک وہ اپنی آنکھوں سے اللہ کو نہ دیکھ لیں ۔ ذرا غور کیجئے ! اس کے بعد یہ لوگ اللہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں اور گاؤں میں داخل ہوتے وقت وہ الفاظ نہیں ادا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں بتائے تھے ‘ اور جس کے ادا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ احکام سبت کی خلاف ورزی کرتے رہے ۔ عہد طور کو تو صاف بھول گئے ۔ جس گائے کا ذبح کرنے کا اللہ نے حکم دیا تھا ‘ اس میں ٹال مٹول کرنے لگے اور مجادلہ اور مباحثہ شروع کردیا۔ غرض یہ سب کام یہ لوگ اس ادعاء کے ساتھ کرتے رہے کہ بس ہدایت یافتہ امت اگر کوئی ہے تو بس وہ صرف یہودی اور بنی اسرائیل ہی ہیں ۔ قیامت میں اللہ میاں تو صرف بنی اسرائیل سے راضی ہوں گے ۔ تمام دین باطل ہیں ۔ تمام دوسری امتیں گمراہ ہیں ۔ چناچہ قرآن کریم اس پہلی تنقیدی گفتگو ہی میں اس کی تردید کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ دوسری امتوں میں سے جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ یوم آخرت پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو ان کے رب کے نزدیک ان کے لئے اجر ہے ۔ ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ انہیں کسی چیز کا حزن وملال ہوگا۔ بنی اسرائیل پر یہ بھرپور وار یا بعد میں سورت کے مباحثے کے ضمن میں آنے والی تنقیدیں ‘ وقت کی اہم ضرورت تھی ۔ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ بنی اسرائیل کے تمام کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھول دی جائے اور ان کی تمام سازشوں سے پردہ اٹھایا جائے اور مسلمانوں کو ان تمام سازشوں اور مکاریوں سے آگاہ کردیا جائے ‘ جو ان کی جدید سوسائٹی کے خلاف کی جارہی تھیں۔ ان کے دل و دماغ میں وہ اصول بٹھادئیے گئے جن کی بناپر بنی اسرائیل یہ سازشیں کرتے پھرتے ۔ نیز مسلمانوں کو اس خلفشار اور فتنہ انگیزی کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہوجانے کی ترغیب دی گئی۔ تاریخ بنی اسرائیل پر یہ تنقید اس لئے بھی ضروری تھی کہ خود مسلمان متنبہ ہوجائیں ۔ انہیں معلوم ہوجائے کہ خلافت ِ ارضی کے اس نئے منصب میں ان کے سامنے کیا کیا دشواریاں ہیں ؟ کہاں کہاں پھسلنے کا خطرہ ہے ؟ اس سلسلے میں سابقہ مقتدرامتوں سے کیا کیا لغزشیں ہوئیں اور جس کی وجہ سے وہ منصب خلافت سے محروم ہوئیں اور اس زمین میں اللہ کی امانت کے قیام ونگہبانی کا جو شرف انہیں حاصل تھا وہ کس طرح انہوں نے گنوایا ۔ اور انسانی قیادت کا نظام کس طرح اور کن اسباب کی بناء پر ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔ غرض اس پوری تنقیدی بحث میں کہیں تو کھل کر اور کہیں اشاروں اشاروں میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اس راہ اور اس منصب میں ان کے سامنے کیسے کیسے مشکل مقامات آئیں گے ؟ جہاں لغزشوں اور پھسلنے کا سخت اندیشہ ہوگا۔ جیسا کہ اس بحث کے دوسرے حصے میں بھی ایسی ہی تنبی ہیں ہوں گی۔ مدینہ طیبہ میں امت مسلمہ کو ان تنیہات اور ہدایات کی اشد ضرورت تھی ‘ جیسا کہ ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر زمانے میں امت مسلمہ کو ان ہدایات کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ آنکھیں کھول کر گہرے اور بصیرت افروز احساس کے ساتھ قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور بزرگ و برتر قیادت کی ان ہدایات اور تعلیمات کو اپنائیں ۔ جو اس نے اپنے پرانے دشمنوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مسلمانوں کو دیں ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اچھی طرح یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انہوں نے ان جدی دشمنوں کی ان سازشوں اور مکاریوں کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے ‘ جو یہ دشمن نہایت ہی خفیہ ذرائع اور گہرے فریب کارانہ طریقوں سے اسلامی معاشرہ کے خلاف کرتے ہیں ۔ جس شخص کا دل نور ایمان سے منور نہ ہو اور جو ظاہر و باطن اور خفیہ و اعلانیہ غرض اپنی پوری زندگی میں اس بزرگ و برتر قیادت خداوندی سے ہدایات نہیں لیتا ‘ وہ کبھی بھی ان خفیہ راستوں اور ناپاک راستوں اور زیر زمین ذرائع کا پتہ نہیں لگاسکتا جن کے ذریعے یہ خطرناک اور ناپاک سازشیں اسلامی معاشرے میں گھس آتی ہیں۔ اس بحث میں قرآن کریم کی طرز ادا کی فنی اور نفسیاتی ہم آہنگی کا ایک خاص پہلو قابل لحاظ ہے ۔ تاریخ بنی اسرائیل کی یہ بحث قصہ خلافت آدم کے اختتام کے متصلاً شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ بحث اس ذہنی پس منظر میں شروع ہوتی ہے جس کی طرف ہم نے قصہ آدم وابلیس میں اشارے کئے ہیں ۔ چناچہ قرآن مجید کے اسلوب ادا میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ پیش کئے جانے والے قصے اور اس ماحول کے درمیان مکمل مطابقت اور ہم آہنگی ہو جس میں قصہ پیش ہورہا ہوتا ہے۔ ذرا پیچھے لوٹئے ‘ دوران بحث کہا گیا تھا کہ ” اللہ تعالیٰ نے اس زمین کی تمام مخلوقات کو تم انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے۔ “ اس کے بعد زمین میں خلافت آدم کا قصہ شروع ہوتا ہے اور آدم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک اعلانیہ معاہدہ ہوتا ہے ۔ آدم کو فرشتوں پر فضیلت دی جاتی ہے اس کے بعد ‘ آدم کو وصیت کرنا ‘ بھول چوک ‘ توبہ وندامت ‘ ہدایت الٰہی اور مغفرت الٰہی کے مضامین آتے ہیں اور آدم (علیہ السلام) کو جنت ہی میں شر کی قوتوں اور خیر کی قوتوں کی اس طویل اور نہ ختم ہونے والی کشمکش کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے ‘ جو اس دنیا میں تا قیامت جاری رہنی تھی ۔ خیر ‘ اصلاح اور تعمیر کی قوتیں ایک ایسے انسان کی شکل میں پیش ہوتی ہیں جو مومن ہے اور اللہ کی رسی کو تھامے ہوئے ہے اور شر ‘ فساد اور تخریب کی قوتیں ابلیس کی صورت میں مجسم کھڑی ہیں۔ یہ تمام باتیں کرنے کے بعد ‘ اب بنی اسرائیل پر تنقید شروع ہوجاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کس طرح اللہ سے پختہ عہد باندھا اور پھر اسے توڑا ۔ ان پر کن کن نعمتوں کی بارشیں ہوئیں اور انہوں نے ان کی ناشکری کی ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں منصب خلافت سے محروم کردیا اور ذلت ومسکنت کو ان پر مسلط کردیا۔ مومنین کو ان کی مکاریوں سے آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ اپنی تاریخ میں ان سے کیا کیا لغزشیں سرزد ہوئیں ؟ یہاں آکر زمین میں خلیفہ بنانے اور اس کے بعد بنی اسرائیل کو خلیفہ بنانے کے درمیان ایک واضح معنوی ربط پیدا ہوجاتا ہے اور سیاق کلام واضح طور پر باہم مربوط ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم کے پیش نظر یہاں یہ مقصد نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کی قومی تاریخ پیش کرے بلکہ وہ اس تاریخ کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور مناسب اختصار یا مناسب بسط سے۔ اس طویل تاریخ کے بعض مناظر پیش کرتا ہے ۔ سورة بقرہ سے پہلے قرآن مجید کی تمام مکی سورتوں میں بھی یہ قصہ باربار آتا ہے۔ لیکن وہاں اس قصے کے بیان سے مطلوب یہ تھا کہ مکی زندگی کے پر آشوب دور میں مسلمانوں کی قلیل جماعت کی ڈھارس بندھائی جائے ۔ اس وقت مطلوب یہ تھا کہ آغاز کائنات سے آج تک قافلہ اہل ایمان کے دعوتی تجربات ‘ مسلمانوں کی اس قلیل جماعت کے سامنے پیش کئے جائیں اور مکہ مکرمہ میں سے جو مرحلہ درپیش تھا ‘ اس کے تقاضوں کے مطابق اسے ہدایات دی جائیں لیکن یہاں (مدینہ میں ) مقصد یہ تھا کہ یہودیوں کی ریشہ دوانیوں اور برے ارادوں سے مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے اور اسلامی جماعت کو متنبہ کیا جائے کہ یہودیوں کے ارادے کیا ہیں ؟ اور انہیں بروئے کار لانے کے لئے ان کے پاس وسائل کیا ہیں ؟ نیز امت مسلمہ کو متوجہ کیا جارہا ہے کہ خود وہ بھی انہی کوتاہیوں اور کمزوریوں میں مبتلا نہ ہوجائیں جن میں اس سے قبل یہودی مبتلا ہوچکے تھے ۔ چونکہ مکہ مکرمہ میں اور مدینہ طیبہ میں مقاصد بالکل مختلف تھے ‘ اس لئے قرآن کریم نے یہاں قصہ بنی اسرائیل کو مختلف اسلوب میں اور مختلف پہلوؤں سے پیش کیا ۔ اگرچہ جو حقائق پیش کئے گئے وہ یہاں اور وہاں بالکل ایک ہی تھے ۔ یعنی بنی اسرائیل کی گمراہی اور جادہ مستقیم سے انحراف (جب مکی سورتوں پر بحث ہوگی جو ترتیب نزول کے اعتبار سے بقرہ سے پہلے نازل ہوئیں تو وہاں ہم اس نکتے کی مزید وضاحت کریں گے۔ ) بنی اسرائیل کا قصہ قرآن کریم میں جہاں بھی آیا ہے ‘ اس کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس سیاق وسباق میں اسے پیش کیا گیا ہے وہ اس سے ہم آہنگ ہے ۔ اور اس مقام کے مقاصد ومطالب اور فکری ہدایات وتوجہات کا تکملہ ہے ۔ یہاں بھی یہ قصہ سیاق وسباق سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ یہاں پہلے انسان کے شرف اور اس کی کرامت کا مضمون بیان ہوا ۔ اس کے بعد انسان اور اللہ کے درمیان عہد اور انسان کی جانب سے بھول چوک کے مضامین آئے ‘ جن میں بطور اشارہ یہ بتایا گیا ہے کہ انسانیت ایک اکائی ہے ۔ اس کی جانب آنے والے رسول اور ان کا پیش کردہ دین بھی ایک ہی سرچشمے سے نکلے ہیں ۔ دوران کلام نفس انسانی اور اس کے عناصر ترکیبی کی طرف بھی جابجا اشارہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان عناصرترکیبی کو نظر انداز کرنے اور ان سے انحراف کرنے کے عواقب ونتائج کیا ہوں گے ؟ جن پر انسان کے خلیفہ اللہ فی الارض ہونے کا دارومدار ہے اور جن کی اہمیت یہ ہے کہ جو شخص ان کا انکار کرے گا ‘ وہ اپنی انسانیت کا منکر بن جائے گا ‘ وہ ان اسباب کو گم کردے گا جن کی بناپر اسے خلافت فی الارض کا منصب ملا ‘ نتیجتاً انسان دوبارہ حیوانیت کے ارذل مقام میں جاگرے گا۔ قرآن کریم میں بنی اسرائیل کا قصہ سب سے زیادہ آیا ہے۔ اس قصے کے مختلف مقامات اور نصیحت آموز پہلو بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان سے اللہ تعالیٰ کا وہ حکیمانہ اسلوب تربیت معلوم ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو خلافت کبریٰ کے منصب کے لئے تیار کرنے اور اس کی تعلیم وتربیت کے مقصد کے لئے اختیار فرمایا۔ اس اجمالی بحث کے بعد ابب ہم چاہتے ہیں کہ قرآنی آیات پر تفصیلی نظر ڈالیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ہدایت قبول کرنے والوں کے لیے انعام اور کافروں کے لیے دوزخ کا داخلہ اس سے پہلے حکم اِھْبِطُوْا (اُتر جاؤ) پہلی آیت میں مذکور ہے۔ اس کو دوبارہ لانا یا تو تاکید کے لیے ہے یا پہلا حکم یہ بتانے کے لیے تھا کہ تم یہاں سے جاؤ جہاں جا رہے ہو، مصیبت کی جگہ ہوگی آپس میں دشمنی ہوگی اور وہاں تھوڑی مدت رہنا ہوگا، ہمیشگی نہ ہوگی اور دوسرا حکم یہ بتانے کے لیے ہے کہ جہاں تم کو بھیجا جا رہا ہے وہ دارالتکلیف ہے۔ وہاں قیام کرنے کے بارے میں یہ بات ذہن میں رکھو اور یہیں سے سمجھتے جاؤ کہ تمہارے خالق اور مالک کی طرف سے وہاں ہدایات آئیں گی اللہ تعالیٰ کے پیغمبر آئیں گے، اس کی کتابیں نازل ہوں گی۔ ان پیغمبروں اور کتابوں پر ایمان لانا ہوگا اور ان کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی جو ہدایت کا اتباع کریں گے۔ ان کے لیے یہاں واپس آکر خیر ہی خیر ہے نہ انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی رنج لاحق ہوگا۔ سورة طٰہٰ میں یوں فرمایا : (فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلاَ یَضِلُّ وَ لاَ یَشْقیٰ ) (کہ جو شخص میری ہدایت کا اتباع کرے گا، سو نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ شقی ہوگا) ۔ اور جو لوگ کفر اختیار کریں گے اور میرے آیات کو جھٹلائیں گے یہ نار (آگ) والے ہوں گے یعنی دوزخ میں جائیں گے جس طرح اہل ایمان ہمیشہ جنت میں رہیں گے، اسی طرح یہ اہل کفر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ فوائد ضروریہ متعلقہ واقعہ حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام) اور ان کے دشمن ابلیس ملعون کے مذکورہ واقعہ سے بڑے بڑے اہم نتائج اور فوائد معلوم ہوئے۔ انسان کو خلافت ارضی کے لیے پیدا فرمایا : (١) اللہ جل شانہٗ نے انسان کو خلافت ارضی کے لیے پیدا فرمایا۔ اس پر لازم ہے کہ اپنے خالق ومالک کا خلیفہ بن کر رہے۔ اس کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور اپنے زور و طاقت سے احکام الٰہیہ کو نافذ کرے۔ اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص کو صاحب اقتدار بنانا واجب ہے جو احکام الٰہیہ پر عمل کرا سکتا ہو۔ جو لوگ قرآن کو نہیں مانتے وہ تو اس واجب پر کیا عمل کریں گے جنہیں قرآن کے ماننے کا دعویٰ ہے وہ بھی احکام الٰہیہ کی تنفیذ کے حق میں نہیں ہیں۔ دنیا کے ایک بڑے حصے پر مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہے لیکن قوانین شریعت نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں، اس سے جان چراتے ہیں۔ دشمنان اسلام کے ترتیب دیئے ہوئے ظالمانہ قوانین کو کو رٹ اور کچہری میں استعمال کرتے ہیں کیونکہ شرعی قوانین سے بہت سے دنیاوی منافع اور نفس کی لذتوں پر زد پڑتی ہے، اس لیے اللہ کی خلافت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ اور خلیفۃ اللہ نہ ہونے کی وجہ سے ساری دنیا فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ جو ممالک مسلمانوں کے زیر اقتدار ہیں فسادات وہیں زیادہ ہیں۔ قتل و خون کے واقعات بھی انہیں ممالک میں بہت زیادہ پیش آتے رہتے ہیں، مسلمان ہی مسلمان کو قتل کرتا ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسا خلیفہ بنائیں جو احکام الٰہیہ کو نافذ کرے اور اس بارے میں اس کی مدد کریں۔ اور خلافت کے کام انجام دیں، اور فاسق بن کر (یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ ) کا مصداق نہ بنیں۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی خلافت کے لیے پیدا کیا گیا اس کے اکثر افراد تو کافر ہی ہیں اور جو اسلام کے مدعی ہیں ان میں سے بھی اکثر نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ انسان کی حماقت اور شقاوت ہے۔ اپنے بلند مرتبہ کو چھوڑ کر دنیا کی ذلت اور آخرت کے عذاب کے لیے اپنی جان کو تیار کر رکھا ہے یہی انسان جس کے سب سے پہلے فرد کو فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا وہی انسان اپنے کفر کی وجہ سے دوزخ میں جانے کو تیار ہے۔ یہ تو اہل کفر ہیں اور مسلمان ہونے کے مدعی ہیں وہ بھی صالحین کے پیچھے نہیں لگتے۔ فاسقوں، فاجروں، بدعقیدہ ملحدوں کو اپنا لیڈر اور قائد بنا لیتے ہیں اور انہیں کو اقتدار سونپتے ہیں اور یہ لوگ خود اور صاحب اقتدار سب مل کر فساد برپا کرتے ہیں۔ قتل و خون اور لوٹ مار کی خبریں برابر آتی رہتی ہیں، رشوت کی گرم بازاری ہے۔ سودی کاروبار ہیں، سودی لین دین ہے۔ شرابیں پی جا رہی ہیں۔ زکوٰتیں نہیں دی جاتیں (بہت کم لوگ زکوٰۃ شرعی قاعدہ کے مطابق دیتے ہیں) لوگوں کے حق مارے جا رہے ہیں۔ نمازیں برباد ہیں، رمضان میں کھلے عام سب کے سامنے کھایا پیا جاتا ہے۔ جانتے بوجھتے گناہ کرتے ہیں اور گناہوں پر اصرار ہے۔ اپنا مقام بھول گئے، اور معصیتوں میں لگ گئے۔ شاید کسی کے دل میں یہ وسوسہ آئے کہ پھر تو فرشتوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ جو نئی مخلوق پیدا ہو رہی ہے وہ فسادی ہوگی، اور خون خرابہ کرنے والی ہوگی۔ اس وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں نے تو تمام افراد انسانی کو ہی فساد اور خون خرابہ سے متصف کردیا تھا انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور علماء، صلحاء و شہداء، عابدین، ذاکرین، قانتین، مجاہدین، حجاج، حفاظ قرآن، مفسرین قرآن، محدثین، مصنّفین، مصلحین و مرشدین بھی ہوں گے، اگر بنی نوع انسان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور خاص کر امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیہ کی تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انسانوں میں کیسے کیسے اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اصلاح حال کے لیے جانیں وقف کرنے والے اور خلافت الٰہیہ کے فریضہ کو انجام دینے والے گزرے ہیں۔ فرشتوں کے سامنے اہل صلاح و فلاح کے اعمال خیر کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اندر یکے بعد دیگرے رات کو فرشتے اور دن کے فرشتے آتے رہتے ہیں اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ جب وہ فرشتے واپس ہو کر اوپر جاتے ہیں جنہوں نے تمہارے ساتھ رات گزاری تو اللہ تعالیٰ شانہٗ ان سے دریافت فرماتے ہیں حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والے ہیں کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ عرض کرتے ہیں : ترکناھم و ھم یصلون و ایتنا ھم و ھم یصلون۔ یعنی ہم نے ان کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ (رواہ البخاری ج ١ ص ٤٥٧) اور یوم عرفہ کو جب حجاج عرفات میں جمع ہوتے ہیں تو اللہ جل شانہ ان کو فرشتوں کے سامنے پیش فرما کر فخر فرماتے ہیں ( فی حدیث جابر مرفوعا اذا کان یوم عرفۃ ان اللّٰہ ینزل الی السماء الدنیا فیباھی بھم الملئکۃ فیقول انظرو ! الی عبادی اتونی شعثاً غبرا ضاجین من کل فج عمیق۔ الحدیث کما فی المشکوٰۃ ص ٢٢٩ عن شرح السنۃ) یوم عید میں بھی اسی طرح فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کو پیش فرما کر اللہ تعالیٰ فخر فرماتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٨٢) علم بہت بڑی دولت ہے : (٢) علم اللہ جل شانہٗ کی بہت بڑی نعمت ہے اور بہت بڑی فضیلت کی چیز ہے۔ اسی کے ذریعہ اللہ جل شانہٗ نے فرشتوں پر حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیلت ظاہر فرمائی۔ علم ہر حال میں جہالت سے بہتر ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ علم کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں اور خلافت الٰہیہ کے کاموں میں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں خرچ کرنے سے صاحب علم کی فضیلت باقی رہتی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو جن چیزوں کا علم دیا گیا تھا، یہ خلاف الٰہیہ کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے دیا گیا تھا انسان کو جب بھی علم ملے اس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لیے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بننے کے لیے استعمال کیا جائے۔ جو علم مجادلہ پر ابھارے، راہ حق سے ہٹائے، وہ علم جہل ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا کہ ان من العلم جھلا۔ (یعنی بعضے علم جہالت ہوتے ہیں) ۔ (اخرجہ ابوداؤد فی کتاب الادب) کتاب و سنت کے علوم تو باعث قرب الٰہی ہیں ہی دوسرے علوم بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ قال تعالیٰ (وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ ) وقال تعالیٰ (سَنُرِیْھِمْ اٰیٰاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِھُمْ ) ۔ لیکن حال یہ ہو رہا ہے کہ آفاق اور أنفس اور اشجار و جبال و بحار سے متعلق جو علوم منکشف ہو رہے ہیں، انسان ان سے اپنے دنیاوی امور میں منتفع اور متمتع ہوتا ہے لیکن جس نے یہ علوم دیئے ہیں اور یہ منافع پیدا فرمائے اور ان کی طرف لوگوں کا ذہن منتقل کیا ہے اس کی طرف متوجہ نہیں، یہ لوگ عام طور پر ملحد، کافر اور فاسق فاجر ہی ہیں۔ جو علم میں بڑھ کر ہو اس کی برتری تسلیم کرنی چاہیے : (٣) جب کسی کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ یہ شخص مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اس کے عالم ہونے کا اقرار کرے۔ اور بغیر کسی پس و پیش کے اپنا عجز ظاہر کر دے اور اس میں اپنی خفت محسوس نہ کرے۔ جیسا کہ فرشتوں نے حضرت آدم علی نبینا و (علیہ السلام) کا علم ظاہر ہوتے ہی اپنے عجز کا اقرار کرلیا، جاہل ہوتے ہوئے علم کا دعویٰ کرنا اور اہل علم سے بحث کرنا بہت بڑی حماقت ہے اور حق منکشف ہونے کے بعد باطل پر جما رہنا یہ بہت بڑی شقاوت ہے۔ توبہ کی اہمیت اور ضرورت : (٤) بندے کا کام یہ ہے کہ جب کوئی گناہ ہوجائے فوراً توبہ کرے اور اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع ہو، اپنے گناہ کا اقرار کرے۔ اور مغفرت طلب کرے۔ گناہ پر اصرار نہ کرے اور گناہ کو اپنے لیے وبال سمجھے اور گناہ کو اپنی جان پر ظلم جانے۔ حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام) سے گناہ ہوگیا تھا یعنی وہ درخت کھالیا تھا جس کے کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ اور حضرت آدم ممانعت کو اس وقت بھولے ہوئے بھی تھے۔ (کما فی سورة طٰہٰ (وَ لَقَدْ عَھِدْنَآ اِلآی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا) جب ان کا مؤاخذہ ہوا تو انہوں نے کوئی حجت نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں اپنے گناہ کا اقرار کیا اور توبہ کی۔ گو بھول پر مؤاخذہ نہیں ہوتا مگر بھول کے اسباب اختیار کرنے پر مؤاخذہ ہوجاتا ہے اور بڑوں کی بڑی بات ہے ان کی وہ باتیں بھی گرفت میں آجاتی ہیں جو دوسروں سے در گز ر کردی جاتی ہیں۔ حضرت آدم اور ان کی بیوی نے کوئی کٹ حجتی نہیں کی، نہ بھول کا بہانا بنایا۔ اللہ جل شانہٗ نے ان پر رحم فرمایا اور خود ہی ایسے کلمات ان کو القاء فرمائے جو قبولیت توبہ کا ذریعہ بن گئے۔ قال البیضاوی مجیباً عما یرد علی العصمۃ انہ فعلہ ناسیاً لقولہ تعالیٰ فنسی وَ لم نجدلہ عزماً و لکنہ عوتب بترک التحفظ عن اسباب النسیان و لعلہ (ای النسیان) و ان حطّ عن الامۃ لم یحط عن الانبیاء لعظم قدرھم۔ برخلاف ابلیس شیطان کے اس نے دانستہ طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی اور نہ صرف خلاف ورزی کی بلکہ حکم ہی کو غلط بتایا اور ذات خداوندی پر اعتراض کر بیٹھا اور اپنی خطا تسلیم نہیں کی۔ دونوں باتوں سے معلوم ہوا کہ گناہ کا اقرار کرنا اور توبہ کرنا معافی کے لیے رونا دھونا بےچین ہونا، أبو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) کا طریقہ ہے اور تمام صالحین کا جو اپنے باپ آدم کی راہ پر تھے یہی طریقہ ریا ہے اور گناہ کر کے کٹ حجتی کرنا اور اس کو گناہ نہ سمجھنا، گناہ کا اقرار نہ کرنا، ابلیس کا طریقہ ہے جو تمام شیطانوں کا سرغنہ ہے۔ مومن بندے جن کو تعلق مع اللہ حاصل ہے اور انابت الی اللہ کی نعمت سے نوازے گئے ہیں وہ تو نہ صرف یہ کہ گناہ ہوجانے پر توبہ کرتے ہیں بلکہ نیکی کر کے بھی استغفار کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خالق کا حق ادا نہ ہوا۔ گناہ تو بندوں سے ہو ہی جاتا ہے لیکن مغفرت کی طلب میں جلدی کرتے ہیں اور معافی مانگتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کل بنی آدم خطاؤن و خیر الخطائین التوابون۔ “ یعنی تمام بنی آدمی خطار کار ہیں اور خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو خوب توبہ کرنے والے ہیں۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ والدار میں مشکوٰۃ ص ٢٠٤) پس بنی آدم پر لازم ہے کہ اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کے طریقہ پر چلیں اور ابلیس دشمن کی راہ اختیار نہ کریں۔ تکبر بری بلا ہے : (٥) تکبر بہت بری بلا ہے۔ یہ صفت انسان کو لے ڈوبتی ہے۔ ابلیس علیہ اللعنۃ نے تکبر کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو نہ مانا اور اس کو خلاف حکمت قرار دیا۔ تنبیہہ کرنے پر بھی اپنے انکار پر اڑا رہا۔ ملعون اور مطرود اور مدحور ہونا گوارا کرلیا لیکن حکم خداوندی کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس نے یہ تو کیا کہ میری زندگی دراز کردی جائے اور مجھے مہلت دی جائے ( اور اس میں شر کا پہلو تھا کیونکہ درازئ عمر سے کوئی خیر مقصود نہ تھی بلکہ بنی آدم کو بہکانا ورغلانا کفر و شرک پر ڈالنا مقصود تھا) اور توبہ کی طرف متوجہ نہ ہوا، جسے اپنی بڑائی کا خیال ہو، اس سے بڑے بڑے گناہ صادر ہوتے ہیں وہ حق کو ٹھکراتا ہے لوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہوا اور جوتا اچھا ہو ( کیا یہ تکبر ہے) ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے جمال کو پسند کرتا ہے (لہٰذا اچھا کپڑا اور اچھا جوتا پہننا تکبر نہیں ہے) پھر فرمایا : الکبر بطر الحق و غمط الناس۔ یعنی تکبر یہ ہے کہ حق کو ٹھکرائے اور اس کے ماننے سے انکار کرے اور لوگوں کو ذلیل اور حقیر جانے۔ (رواہ مسلم ج ا ص ٦٥) اس آفت میں امیر غریب عالم جاہل سب مبتلا ہوتے ہیں۔ اور مصلحین، واعظین، مرشدین کو بھی یہ مرض گھن کی طرح سے لگ جاتا ہے۔ اپنے عمال کی ریا کاری دوسروں کی غیبت اور تحقیر اپنے عمل و فضل کا ظاہر کرنا حق سامنے ہوتے ہوئے نہ ماننا گناہ کرنا اور نصیحت و خیر خواہی کرنے والوں سے کٹ حجتی کرنا۔ مسئلہ غلط بتا کر یا شائع کر کے رجوع نہ کرنا۔ اور غلطی پر اصرار کرتے رہنا، اور اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو پیش آتی رہتی ہیں۔ یہ سب تکبر ہیں۔ اللہ جل شانہٗ کو تواضع پسند ہے۔ ایمان کا کمال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت عطا فرمائی اس کی قدر دانی اور شکر گزاری کرتے ہوئے اس کی مخلوق کے ساتھ عاجزی اور فروتنی کے ساتھ پیش آئے۔ حضرت عمر (رض) نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے لوگو ! تواضع اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے اللہ کے لیے تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو بلند فرمادیں گے جو اپنے نفس میں تو چھوٹا ہوگا اور لوگوں کی نظروں میں بڑا ہوگا۔ اور جو شخص تکبر اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو گرادیں گے۔ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور خنزیر سے بھی زیادہ ذلیل ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٤ از بیہقی فی شعب الایمان) گناہوں کی وجہ سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں : (٦) گناہ نعمتیں چھن جانے کا سبب ہیں۔ آخرت کے مؤاخذہ کے علاوہ دنیا میں بھی گناہ کی وجہ سے نعمتیں سلب ہوجاتی ہیں۔ حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام) شجر ممنوعہ کے کھانے کے سبب جنت سے نکال دیئے گئے۔ اور دنیاوی مصیبتوں میں ان کو اور ان کی ذریت کو مبتلا ہونا پڑا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ : ان الرجل لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ یعنی بلاشبہ انسان گناہ کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔ (مستدرک حاکم ج ١ ص ٤٩٣) بہت سے لوگ گناہوں میں مبتلا ہیں بلکہ پوری پوری قومیں اور قبیلے گناہوں میں لت پت ہیں وہ چاہتے ہیں کہ مصیبتیں دور ہوں اور تنگدستی سے خلاصی ہو لیکن گناہ چھوڑنے کو تیار نہیں بلکہ سمجھانے والے کو آڑے ہاتھوں لے لیتے ہیں۔ اور الٹے سیدھے سوال و جواب کرتے ہیں۔ سورة اعراف میں ارشاد ہے : (وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرآی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) ” اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیز کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔ “ متعدد احادیث میں بعض اعمال پر دنیا میں مل جانے والی سزاؤں کا خصوصی تذکرہ بھی وارد ہوا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص (رض) نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میں نے سنا کہ جس قوم میں زنا کا رواج ہوجائے گا وہ قحط کے ذریعہ پکڑی جائے گی اور جن لوگوں میں رشوت عام ہوجائے گی وہ لوگ رعب کے ذریعہ پکڑے جائیں گے۔ (یعنی ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا جائے گا دشمن سے ڈریں گے دور سے کانپیں گے۔ ) (رواہ احمد کمافی مشکوٰۃ المصابیح ص ٣١٣) اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو قائم کرنا، اللہ کے شہروں میں چالیس رات بارش برسنے سے بہتر ہے۔ ( رواہ ابن ماجہ ص ١٨٢) یعنی ایک حد قائم کرنے کا اتنا بڑا نفع ہے جو چالیس دن بارش ہونے کے نفع سے بھی بڑھ کر ہے۔ اب وہ لوگ غور کرلیں جو اللہ کی حدود نافذ نہیں کرتے اور نافذ ہونے نہیں دیتے۔ وہ اللہ کی عام مخلوق پر رحم کھا رہے ہیں یا ظلم کر رہے ہیں۔ نیز حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس قوم میں کوئی شخص قطع رحمی کرنے والا ہو ان پر رحمت نازل نہیں ہوتی۔ (بیہقی فی شعب الایمان کما فی مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٢٠) نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمام گناہوں میں سے اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے مگر ماں باپ کے تکلیف دینے کو معاف نہیں فرماتا جو شخص ایسا کرے اس کے لیے اسی دنیا میں موت سے پہلے سزا دے دیتا ہے۔ (رواہ البیہقی کما فی مشکوٰۃ المصابیح ص ا ٤٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جس قوم میں خیانت ظاہر ہوگی ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ رعب ڈال دے گا۔ اور جس قوم میں زنا کاری کا رواج ہوجائے گا ان لوگوں میں موت کی کثرت ہوجائے گی اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کا رزق منقطع ہوجائے گا اور جو لوگ ظالمانہ فیصلے کریں گے، ان میں قتل و خون خوب زیادہ ہوگا اور جو لوگ عہد کی خلاف ورزی کریں گے ان پر دشمن مسلط کردیا جائے گا۔ ( رواہ مالک فی الموطا و ہوفی حکم المرفوع) شرم اور حیا انسان کا فطری وصف ہے : (٧) شرم اور حیا انسان کی فطری صفت ہے اور اس کی خلقت اور جبلت میں داخل ہے۔ حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام) نے جنت میں شجر ممنوعہ کھالیا تو ان کے جسموں سے جنت کے کپڑے گرپڑے اور دونوں کی شرم کی جگہ ظاہر ہوگئی لہٰذا جنت سے پتے لے لے کر اپنے جسم پر لگانے لگے تاکہ شرم کی جگہ ڈھک جائے۔ دونوں میاں بیوی تھے پھر بھی آپس میں شرما گئے اور پردہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ انسان دنیا میں آیا تو شرم و حیا کو ساتھ لے کر آیا اور حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) نے برابر حیا کی تعلیم دی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چار چیزیں پیغمبروں کی عادتوں اور خصلتوں میں سے ہیں۔ (١) حیا (٢) خوشبو استعمال کرنا (٣) مسواک کرنا (٤) نکاح کرنا۔ (رواہ الترمذی فی ابواب النکاح) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے : ان الحیاء والایمان قرناء جمیعا و اذا رفع احدھما رفع الاخر۔ اس میں شک نہیں کہ حیا اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ جب ان میں سے ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان کما فی مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٣٢) ہدایت قبول کرنے پر انعام : (٨) حضرت آدم (علیہ السلام) کے قصے کے آخر میں یہ جو فرمایا (فَِامَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی) (الایۃ) اس سے معلوم ہوا کہ انسان اس دنیا میں صرف جینے اور کمانے کھانے اور ماں باپ بننے اور اولاد پالنے کے لیے نہیں آیا۔ اس کو یہاں دارالتکلیف میں بھیجا گیا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کے حکموں کا پابند کیا گیا ہے اور یہ احکام اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعے پہنچتے رہے ہیں۔ ان احکام پر عمل کرنا اسے واپس جنت میں لے جائے گا۔ اور وہی مقام بلند اور برتر مل جائے گا جہاں سے اس کے ماں باپ آدم و حوا اس دنیا میں آئے تھے۔ جنت اپنے ماں باپ کی جگہ ہے جہاں وہ گئے وہیں ان کی وفادار اولاد پہنچ جائے گی اور ہمیشہ وہاں رہے گی، اور جو لوگ ان کے دین سے علیحدہ ہوئے انہیں وہ جگہ دوبارہ نصیب نہ ہوگی بلکہ وہ دارالعذاب یعنی دوزخ میں جائیں گے۔ اختلاف دین کی وجہ سے میراث منقطع ہوجاتی ہے جو کافر ہوں گے وہ اپنے ماں باپ کے دین پر نہیں اس لیے وہ مستحق میراث بھی نہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سب سے پہلے نبی تھے ان کا دین اسلام تھا۔ ان کی ذریت کے لیے اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو پسند فرمایا اور انبیاء کرام (علیہ السلام) آتے رہے سب ہی دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ جو ان کے دین پر تھا وہ مسلم ہوا اور جو ان کے دین کا منکر ہوا وہ کافر ہوا۔ بنیادی طور پر دین اسلام کے تین عقیدے ہیں۔ (اول) توحید : جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کو اس طرح ماننا داخل ہے جیسا کہ وہ اپنے نزدیک ہے اور جیسا کہ اس نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ اپنی پہچان کرائی ہے۔ (دوم) رسالت : یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں پر ایمان لانا اور اس کی کتابوں پر ایمان لانا۔ اس میں ہر اس بات کی تصدیق آجاتی ہے جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں نے بتائی۔ فرشتوں پر ایمان لانا، تقدیر کو ماننا، جنت، دوزخ کے احوال پر ایمان لانا بھی ایمان بالرسالت میں شامل ہے۔ اور ان سب احکام کا ماننا اور عمل پیرا ہونا بھی داخل ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچائے۔ (سوم) معاد : یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونے اور حساب کتاب ہونے اور ایمان و کفر اور اچھے برے اعمال کی جزا ملنے اور جنت یا دوزخ میں داخل کئے جانے کا عقیدہ رکھنا۔ ان تین عقائد کی ہر نبی نے تبلیغ کی ہے البتہ فروعی احکام میں حالات کے اعتبار سے فرق رہا ہے۔ اسی لیے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : انا اولی الناس بعیسی بن مریم فی الاولی و الاخرۃ الانبیاء اخوۃ من علات و امھاتھم شتی و دینھم واحد۔ ( رواہ البخاری ج ١ ص ٤٩٠) یعنی میں عیسیٰ بن مریم سے سب سے زیادہ قریب تر ہوں دنیا اور عقبیٰ میں تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) آپس میں علاتی بھائی ہیں یعنی دین واحد ہونے میں اس طرح ہیں جیسے باپ ایک ہو اور مائیں کئی ہوں، ان سب کا دین ایک ہے۔ لوگ اپنی جہالت سے سمجھتے ہیں کہ دین اسلام ڈیڑھ ہزار سال سے دنیا میں آیا ہے، ان کا خیال اور عقیدہ غلط ہے انسان جب سے دنیا میں آیا ہے، دین اسلام کے ساتھ آیا ہے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اسلام کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النّبیین ہیں۔ آخری رسول ہیں آپ وہی دعوت لے کر تشریف لائے جو حضرات انبیاء کرام آپ سے پہلے لے کر آئے تھے، آپ پر نبوت و رسالت ختم ہوگئی۔ لیکن آپ کی دعوت قیامت تک کے لیے ہے۔ اس دعوت کے پہنچانے اور باقی رکھنے کے لیے قرآن مجید باقی ہے اور باقی رہے گا ہر انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام قبول کرنے کا مامور ہے۔ کوئی یہودی ہو یا نصرانی، ہندو ہو، یا بد ہسٹ یا پارسی ہو کسی بھی دین کا ماننے والا ہو سب حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت دعوت میں شامل ہیں۔ جو آپ پر ایمان لائے گا آخرت میں نجات پائے گا جو منکر ہوگا دوزخی ہوگا۔ سورة آل عمران میں ارشاد ہے : (وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) ” یعنی جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو چاہے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، وہ آخرت میں تباہ کار لوگوں میں سے ہوگا۔ “ (آل عمران ع ٩) سورة سبا (ع ٣) میں ارشاد خدا وندی ہے : (وَ مَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ) ” اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ خوشخبری سنانے والا ڈرانے والا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “ صحیح مسلم (ج ١ ص ٨٦) میں ہے کہ حضرت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : والذی نفس محمد بیدہ لا یسمع بی احد من ھذہ الامۃ یھودی ولا نصرانی ثم یموت و لم یومن بالذی ارسلت بہ الاکان من اصحاب النار۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے میرے نبی ہونے کی خبر جس کسی انسان کو بھی پہنچے گی اور وہ اس دین پر ایمان لائے بغیر مرجائے گا جو دین دے کر میں بھیجا گیا ہوں تو وہ ضرور دوزخ والوں میں سے ہوگا۔ یہودی ہو یا نصرانی۔ “ بنی اسرائیل کا تعارف چونکہ آئندہ آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر آ رہا ہے اور کئی رکوع میں ان کی شرارتیں مذکور ہیں اور سورة بقرہ کے علاوہ بھی قرآن مجید میں جگہ جگہ ان کا تذکرہ ہے۔ اس لیے بنی اسرائیل کا تعارف مفصل کرایا جاتا ہے تاکہ ان سے متعلقہ مضامین کے سمجھنے میں آسانی ہو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن اور اولاد : حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا (علیہ السلام) کا اصل وطن بابل کا علاقہ تھا جہاں نمرود بادشاہ تھا، وہاں بت پرست رہتے تھے۔ حضرات ابراہیم (علیہ السلام) کے والد بھی بت پرست تھے آپ نے ان لوگوں کو حق کی تبلیغ کی اور توحید کی دعوت دی اور اس سلسلہ میں بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ ان کی پوری قوم دشمن ہوگئی۔ یہاں تک کہ ان کو آگ میں ڈالا گیا۔ ان کے واقعات جگہ جگہ قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ ان کی ایک بیوی کا نام سارہ تھا جو ان کے چچا کی لڑکی تھی اور ایک بیوی کا نام ہاجرہ تھا۔ حضرت سارہ سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور حضرت ہاجرہ سے اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ حضرت ہاجرہ وہی ہیں جنہیں مکہ معظمہ کے چٹیل میدان میں بحکم الٰہی چھوڑ دیا تھا۔ ان کے ساتھ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بھی تھے جو اس وقت گود میں تھے۔ مکہ معظمہ کے بالکل ابتداً آباد کرنے والے یہی دونوں ماں بیٹے تھے۔ حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے علاوہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لڑکے تھے جن کے نام البدایہ والنہایہ ج ١ ص ١٧٥ میں لکھے ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے فرزند حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے۔ جن کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے اور ان کے فرزند حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں نے کنوئیں میں ڈال دیا تھا۔ جس کا قصہ سورة یوسف میں مذکور ہے۔ بنی اسرائیل مصر میں : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ اقتدار میں مصر میں جا کر رہنے لگے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی تب بھی یہ لوگ مصر میں رہتے رہے پشتہا پشت وہاں رہنے سے ان کی نسل بھی بہت زیادہ ہوگئی اور بارہ بھائیوں کی اولاد جو بارہ قبیلوں میں منقسم تھی، مجموعی حیثیت سے ان کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی ان لوگوں کا اصل وطن کنعان تھا جو فلسطین کا علاقہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنا اصلی وطن (بابل) چھوڑ کر اور ہجرت فرما کر اس علاقہ میں آباد ہوگئے تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد مکہ معظمہ میں آباد رہی اور بڑھتی رہی اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل اولاً کنعان میں پھر مصر میں آباد ہوگئی، جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد پر مشتمل تھی۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات ہوگئی، تو ان لوگوں کا اقتدار میں کچھ حصہ بھی نہ رہا۔ چونکہ یہ لوگ مصر کے اصل باشندے نہیں تھے۔ اجنبی قوم کے افراد تھے اس لیے مصری قوم (قبط) کے افراد ان لوگوں سے بڑی بڑی بیگاریں لیتے تھے اور ان کو بری طرح غلام بنا رکھا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان کے لڑکوں کو ذبح کردیتے تھے اور یہ ان کے سامنے عاجز محض تھے ان کے سامنے کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ غلامی کی ایسی بد ترین مثال دنیا کی تاریخ میں کسی قوم کی نہیں ملتی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت اور دعوت : اللہ جل شانہٗ نے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا، جنہوں نے اس زمانہ کے ظالم اور جابر ترین بادشاہ فرعون کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اللہ تعالیٰ کا دین قبول کرنے کی دعوت دی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے یہ بھی کہا کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ نہ اس نے دعوت حق کو قبول کیا اور نہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیجنے پر راضی ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی) (میں تمہارا سب سے زیادہ بلند معبود ہوں) ۔ بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنا : بالآخرحضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے راتوں رات مصر سے نکل کھڑے ہوئے اور سمندر تک پہنچ گئے۔ جب صبح ہو کر ان کے نکلنے کا فرعون کو علم ہوا تو وہ اپنے لشکر لے کر ان کے پیچھے لگا اور سمندر پر پہنچ گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عصا مبارک سمندر پر ماری جس سے سمندر پھٹ گیا اور اس میں راستے بن گئے اور بنی اسرائیل کے قبیلے ان راستوں سے پار ہوگئے۔ ان کو دیکھ کر فرعون نے بھی اپنے لشکروں کو سمندر میں ڈال دیا، جب فرعون اور اس کا لشکر بیچ سمندر میں آگیا تو اللہ جل شانہٗ نے سمندر کو ملا دیا۔ فرعون کا لشکر تو ڈوب گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل کو لے کر سمندر پار ہوگئے۔ فرعون بھی اس عظیم حادثہ میں غرق ہوا اور مرگیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی لاش کو محفوظ رکھا جو اب بھی مصر کے عجائب گھر میں بتائی جاتی ہے۔ عبرت کے لیے اس کی لاش کو محفوظ فرمایا تاکہ لوگ خدائی کے جھوٹے دعویدار کا انجام دیکھ لیں۔ قال تعالیٰ (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ) (البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٢٧٠) میں لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل فرعون سے نجات پا کر سمندر پار ہوئے تو اس وقت ان کی تعداد چھ لاکھ کے لگ بھگ تھی یہ تعداد بچوں اور عورتوں کے علاوہ تھی اور یہ بھی لکھا ہے کہ مصر میں ان لوگوں کے رہنے کی مدت چار سو چھبیس سال شمسی تھی۔ مصر سے نکل کر چالیس سال میں وطن پہنچے : بنی اسرائیل سمندر پار تو ہوگئے لیکن اب سوال تھا کہ کہاں جا کر بسیں ؟ اپنے ہی علاقہ میں جانا تھا اور وہ علاقہ بہت دور بھی نہیں تھا آخر وہیں سے ان کے باپ دادا مصر میں آئے تھے اور چند دن میں اونٹوں پر پورا سفر قطع کرلیا تھا لیکن یہ چلے تو ان کو اپنے وطن پہنچنے میں چالیس سال لگ گئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ستاتے رہے، میدان تیہ میں چالیس سال سرگرداں پھرتے رہے (صبح کو جہاں سے چلتے تھے شام کو وہیں پہنچ جاتے تھے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت شریف ملی وہ طور پہاڑ پر توریت شریف لینے گئے تو پیچھے ان لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کرلی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تو تمہاری بات جب مانیں گے جب ہم اللہ تعالیٰ کو آمنے سامنے دیکھ لیں۔ ان کی غذا کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے من اور سلویٰ ملتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، ہم کو سبزی، پیاز، کھیرا وغیرہ چاہیے۔ جب توریت شریف لے کر موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے تو انہوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ لہٰذا پہاڑ طور اکھاڑ کر ان پر سائبان کی طرح کھڑا کردیا گیا۔ یہ واقعات اسی میدان میں پیش آئے۔ جس میں چالیس سال حیران اور سرگردان گزارے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وہیں وفات ہوگئی۔ ان کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان کا علاقہ فتح ہوا اور بیت المقدس میں داخلہ نصیب ہوا۔ ان کو حکم ہوا تھا کہ خطاؤں کی معافی مانگتے ہوئے عاجزی کے ساتھ داخل ہوں، انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی۔ بنی اسرائیل کے یہ واقعات مختلف مواقع میں قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ بنی اسرائیل کو یہودی بھی کہا جاتا ہے۔ یہودی مدینہ میں کب آئے ؟ یہودی مدینہ منورہ میں کب آئے ؟ اس کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ ان کے وطن بیت المقدس کو جب بخت نصر (مشہور کافر بادشاہ) نے منہدم کردیا اور وہاں کے رہنے والوں کو جلا وطن کردیا اور بنی اسرائیل ( یہود) میں سے بہت سے لوگوں کو قید کرلیا تو ان میں سے ایک جماعت نے حجاز کی طرف رخ کیا ان میں بعض وادی القریٰ میں اور بعض تیماء اور بعض مدینہ منورہ میں آکر مقیم ہوگئے۔ یہاں پہلے سے کچھ لوگ بنی جرہم کے اور کچھ بقایا عمالقہ کے آباد تھے۔ انہوں نے کھجوروں کے باغ لگا رکھے تھے اور کھیتیاں کرتے تھے۔ یہودی ان کے ساتھ ٹھہر گئے اور گھل مل کر رہنے لگے پھر یہ بڑھتے رہے اور بنی جرہم اور عمالقہ کم ہوتے رہے یہاں تک کہ ان کو یہودیوں نے مدینہ سے نکال دیا اور مدینہ منورہ پوری طرح ان کے تسلط میں آگیا اس کی عمارتیں اور کھیتیاں سب انہیں کی ہوگئیں اور ایک مدت تک جس کا علم اللہ ہی کو ہے اسی حال میں یہ لوگ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ ( فتوح البلدان للبلا ذری ص ٢٢٩) بعض مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہودی علماء توریت شریف میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات پڑھتے تھے ان میں یہ بھی تھا کہ آپ کی ہجرت ایسے شہر کی طرف ہوگی جس میں کھجوریں ہوں گی اور وہ دو پتھریلی زمینوں کے درمیان ہوگا لہٰذا وہ شام سے آئے۔ اور اس صفت کے شہر کی تلاش میں نکلے تاکہ اسی شہر میں جا کر رہیں اور مبعوث ہونے والے نبی پر ایمان لائیں اور ان کا اتباع کریں۔ جب مدینہ منورہ آئے وہاں کھجوریں دیکھیں، تو وہ سمجھ گئے کہ یہی وہ شہر ہے جس کی تلاش میں ہم نکلے ہیں اور پھر وہیں رہنے لگے۔ (عمدۃ الاخبار فی مدینہ المختار ص ٣٤ و معجم البلدان للحموی ج ٥ ص ٨٢) اوس و خزرج کا مدینہ میں آکر آباد ہونا : مدینہ منورہ کی آبادی بہت پرانی آبادی ہے اس کا پرانا نام یثرب ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہجرت فرمانے کے بعد اس کا نام مدینۃ الرسول اور طابہ اور طیبہ معروف ہوگیا۔ اور المدینۃ نیز المدینۃ المنورہ کے نام کی زیادہ شہرت ہوگئی۔ یہودیوں کے مدینہ منورہ میں آکر بسنے کے سالہا سال بعد یمن کے دو قبیلے اوس اور خزرج بھی مدینہ منورہ آکر آباد ہوگئے تھے۔ جب آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت فرما کر تشریف لائے تو مدینہ منورہ میں تین قبیلے یہودیوں کے یعنی (١) بنی نضیر (٢) بنی قریظہ (٣) بنی قینقاع اور دو قبیلے یمن سے آکر آباد ہونے والوں کے موجود تھے، یعنی اوس اور خزرج۔ یہی دونوں قبیلے ہیں جو بعد میں انصار بنے۔ یہود کے قبیلوں اور اوس و خزرج میں لڑائیاں : یہ دونوں قبیلے بت پرست تھے آپس میں بھی ان کی لڑائیاں ہوتی تھیں اور یہودیوں سے بھی جنگ ہوتی رہتی تھی۔ یہودی اہل کتاب تھے اور اہل علم سمجھے جاتے تھے۔ جب یمن کے ان دونوں قبیلوں سے ان کی لڑائی ہوتی تھی تو کہا کرتے تھے کہ ایک نبی مبعوث ہونے والے ہیں ان کا زمانہ آئے گا ہم ان کی اتباع کر کے اور ان کے ساتھی بن کر تمہارا ناس کھودیں گے۔ اوس و خزرج کا اسلام قبول کرنا : حج کے موقع پر پہلی ملاقات میں جب سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اوس اور خزرج کے چند افراد پر اپنی دعوت پیش کی تو یہ لوگ آپس میں کہنے لگے کہ یہ تو وہی نبی معلوم ہوتے ہیں جن کی تشریف آوری کی خبر یہودی دیا کرتے ہیں۔ اور ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں گے تو ہم ان کے ساتھ مل کر تمہیں قتل کردیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ آگے بڑھ جائیں لہٰذا ہمیں یہ دین قبول کرلینا چاہیے۔ چناچہ یہ حضرات مسلمان ہوگئے اور مدینہ منورہ آکر انہوں نے اسلام کی تبلیغ شروع کردی اور انصار کے دونوں قبیلوں میں اسلام پھیل گیا۔ پھر دونوں قبیلوں کے بارہ نمائندوں نے اگلے سال موسم حج میں سرور کونین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور آپ سے بیعت کی۔ اور عرض کیا آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئیں۔ ہجرت مدینہ : چنانچہ آپ حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ آپ کی آمد سے پہلے بہت سے صحابہ ہجرت کر کے آ چکے تھے۔ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں یہ سب باتیں لکھی ہیں۔ فتوح البلدان بلا ذری ص ٣٠ الروض الانف ج ٢ ص ١٦ سیرت ابن ہشام باب عرض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفسہ علی القبائل کا مطالعہ کیا جائے۔ یہودیوں کا عناد اور قبول حق سے انحراف : سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو یہودی یہ جاننے کے باوجود کہ آپ نبی ہیں ( اور علامات پوری اتر رہی ہیں۔ جو نبی آخر الزماں کے بارے میں انہیں معلوم تھیں) منکر ہوگئے اور آپ کو نبی رسول ماننے اور اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ ان کو اوس اور خزرج کے لوگوں نے توجہ دلائی اور کہا کہ اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کرو، تم ہی تو کہا کرتے تھے کہ ایک نبی آئیں گے اور ہم ان کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کریں گے اور تم ان کی صفات بیان کرتے تھے۔ اب کیوں منکر ہو رہے ہو۔ لیکن ان لوگوں نے ایک نہ سنی۔ ( سیرۃ ابن ہشام اوائل المجلد الثانی) ۔ اور بجز چند آدمیوں کے (جن میں حضرت عبداللہ بن سلام (رض) کا نام زیادہ مشہور ہے) یہودیوں نے اسلام قبول نہیں کیا اور طرح طرح کی باتیں بناتے رہے اور کٹ حجتی پر اتر آئے۔ حسد اور دشمنی پر کمر باندھ لی، اسلام اور داعئ اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ اور عہد توڑتے رہے آج تک ان کے سارے قبیلوں اور خاندانوں کا یہی حال ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

93 ۔ ھُدًی سے مراد انبیاء ورسل ہیں جو پیغام توحید لے کر ان کے پاس آئیں گے۔94 ۔ یعنی آخرت میں نہ انہیں کوئی ڈر خطرہ ہوگا اور نہ گذشتہ پر انہیں غم اور افسوس ہوگا۔ یہ ہدایت کے متبعین کے لیے بشارت ہے۔ آگے منکرین کے حشر کا بیان ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi