Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 48

سورة البقرة

وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۴۸﴾

And fear a Day when no soul will suffice for another soul at all, nor will intercession be accepted from it, nor will compensation be taken from it, nor will they be aided.

اُس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ ہی اسکی بابت کوئی سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ مدد کئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

After Allah reminded the Children of Israel of the favors that He has granted them, He warned them about the duration of the torment which He will punish them with on the Day of Resurrection. He said, وَاتَّقُواْ يَوْماً ... And fear a Day, meaning, the Day of Resurrection. ... لااَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْياً ... When a person shall not avail another, meaning, on...  that Day, no person shall be of any help to another. Similarly, Allah said, وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى And no bearer of burdens shall bear another's burden. (35:18) لِكُلِّ امْرِىءٍ مِّنْهُمْ يَوْمَيِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ Every man that Day will have enough to make him careless of others. (80:37) and, يأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمْ وَاخْشَوْاْ يَوْماً لاأَّ يَجْزِى وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلاأَ مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْياً O mankind! Have Taqwa of your Lord (by keeping your duty to Him and avoiding all evil), and fear a Day when no father can avail aught for his son, nor a son avail aught for his father. (31:33) This indeed should serve as a great warning that both the father and the son will not be of help to each other on that Day. Neither Intercession, Ransom, or Assistance will be accepted on behalf of the Disbelievers Allah said, ... وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ ... nor will intercession be accepted from him, meaning, from the disbelievers. Similarly, Allah said, فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَـعَةُ الشَّـفِعِينَ So no intercession of intercessors will be of any use to them. (74:48) and described the people of the Fire saying, فَمَا لَنَا مِن شَـفِعِينَ وَلاَ صَدِيقٍ حَمِيمٍ Now we have no intercessors. Nor a close friend (to help us). (26:100-101) Allah's statement here, (2:48), ... وَلاَ يُوْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ ... nor will compensation be taken from him, means, that Allah does not accept the disbelievers to ransom themselves. Similarly, Allah said, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ وَمَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الاٌّرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَى بِهِ Verily, those who disbelieved, and died while they were disbelievers, the (whole) earth full of gold will not be accepted from anyone of them even if they offered it as a ransom. (3:91) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَّا فِى الاٌّرْضِ جَمِيعاً وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُواْ بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَـمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ Verily, those who disbelieve, if they had all that is in the earth, and as much again therewith to ransom themselves from the torment on the Day of Resurrection, it would never be accepted of them, and theirs would be a painful torment. (5:36) وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لاَّ يُوْخَذْ مِنْهَأ And even if he offers every ransom, it will not be accepted from him. (6:70) and, فَالْيَوْمَ لاَ يُوْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَلاَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مَأْوَاكُمُ النَّارُ هِىَ مَوْلَـكُمْ So this Day no ransom shall be taken from you (hypocrites), nor of those who disbelieved. Your abode is the Fire. That is your Mawla (friend ـ proper place). (57:15) Allah stated that if the people do not believe in His Messenger and follow what He sent him with, then when they meet Him on the Day of Resurrection, after remaining on the path of disbelief, their family lineage and/or the intercession of their masters will not help them at all. It will not be accepted of them, even if they paid the earth's fill of gold as ransom. Similarly, Allah said, مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَـعَةٌ Before a Day comes when there will be no bargaining, nor friendship, nor intercession. (2:254) and, لااَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلااَ خِلَـلٌ On which there will be neither mutual bargaining nor befriending. (19:31) Allah's statement next, ... وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ nor will they be helped. means, "no person shall get angry - or anxious - on their behalf and offer them any help, or try to save them from Allah's punishment." As stated earlier on that Day, neither the relative, nor persons of authority will feel pity for the disbelievers, nor will any ransom be accepted for them. Consequently, they will receive no help from others and they will be helpless themselves. Allah said, وَهُوَ يُجْيِرُ وَلاَ يُجَارُ عَلَيْهِ While He (Allah) grants refuge (or protection), but none grants refuge from Him. (23:88) فَيَوْمَيِذٍ لاَّ يُعَذِّبُ عَذَابَهُ أَحَدٌ وَلاَ يُوثِقُ وَثَاقَهُ أَحَدٌ So on that Day none will punish as He will punish. And none will bind (the wicked, disbelievers and polytheists) as He will bind. (89:25-26) مَا لَكُمْ لاَا تَنَاصَرُونَ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ "What is the matter with you? Why do you not help one another (as you used to do in the world)!" Nay, but that Day they shall surrender! (37:25-26) and, فَلَوْلاَ نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُواْ مِن دُونِ اللَّهِ قُرْبَاناً ءَالِهَةَ بَلْ ضَلُّواْ عَنْهُمْ Then why did those whom they had taken for alihah (gods) besides Allah, as a way of approach (to Allah) not help them Nay, but they vanished completely from them) (46:28). Also, Ad-Dahhak said that Ibn Abbas said that Allah's statement, مَا لَكُمْ لاَا تَنَاصَرُونَ ("What is the matter with you? Why do you not help one another?"), (37:25) means, "This Day, you shall not have a refuge from Us. Not this Day." Ibn Jarir said that Allah's statement, وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ (nor will they be helped), meaning, on that Day, they shall neither be helped by any helper, nor shall anyone intercede on their behalf. No repeal or ransom will be accepted for them, all courtesy towards them will have ceased, along with any helpful intercession. No type of help or cooperation will be available for them on that Day. The judgment will, on that Day, be up to the Most Great, the Most Just, against whom no intercessor or helper can ever assist. He will then award the evil deed its kind and will multiply the good deeds. This is similar to Allah's statement, وَقِفُوهُمْ إِنَّهُم مَّسْيُولُونَ مَا لَكُمْ لاَا تَنَاصَرُونَ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ But stop them, verily, they are to be questioned. "What is the matter with you? Why do you not help one another?" Nay, but that Day they shall surrender. (37:24-26)   Show more

حشر کا منظر نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا جیسے فرمایا آیت ( وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ) 35 ۔ فاطر:18 ) یعنی کسی کا بوجھ کسی پر نہ پڑے گا اور فرمایا آیت ( لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ ... ) 80 ۔ عبس:37 ) یعنی اس دن ہر شخص نفسا نفسی میں پڑا ہوا ہو گا اور فرمایا ، اے لوگو اپنے رب کا خوف کھاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا ۔ ارشاد ہے آیت ( وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:48 ) یعنی کسی کافر کی نہ کوئی سفارش کرے نہ اس کی سفارش قبول ہو اور فرمایا ان کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت فائدہ نہ دے گی دوسری جگہ اہل جہنم کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے کہ افسوس آج ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے نہ دوست ۔ یہ بھی ارشاد ہے فدیہ بھی نہ لیا جائے گا اور جو لوگ کفر پر مر جاتے ہیں وہ اگر زمین بھر کر سونا دیں اور ہمارے عذابوں سے چھوٹنا چاہیں تو یہ بھی نہیں ہو سکتا اور جگہ ہے کافروں کے پاس اگر تمام زمین کی چیزیں٠ اور اس کے مثال اور بھی ہوں اور قیامت کے دن وہ اسے فدیہ دے کر عذابوں سے بچنا چاہیں تو بھی کچھ قبول نہ ہو گا اور دردناک عذابوں میں مبتلا رہیں گے اور جگہ ہے ۔ گو وہ زبردست فدیہ دیں پھر بھی قبول نہیں دوسری جگہ ہے آج تم سے نہ بدلہ لیا جائے نہ ہی کافروں سے تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اسی کی آگ تمہاری وارث ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بغیر سفارش اور شفاعت کا آسرا بیکار محض ہے قرآن میں ارشاد ہے اس دن سے پہلے نیکیاں کر لو جس دن نہ خریدو فروخت ہو گی نہ دوستی اور شفاعت مزید فرمایا آیت ( يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ ) 14 ۔ ابراہیم:31 ) اس دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی ۔ عدل کے معنی یہاں بدلے کے ہیں اور بدلہ اور فدیہ ایک ہے حضرت علی والی حدیث میں صرف کے معنی نفل اور دل کے معنی فریضہ مروی ہیں لیکن یہ قول یہاں غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عدل کے کیا معنی ہیں آپ نے فرمایا فدیہ ۔ ان کی مدد بھی نہ کی جائے گی یعنی کوئی حمایتی نہیں ہو گا ، قرابتیں کٹ جائیں گی جاہ و حشم جاتا رہے گا کسی کے دل میں ان کے لئے رحم نہ رہے گا نہ خود ان میں کوئی قدرت و قوت رہے گی اور جگہ ہے آیت ( وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ ) 23 ۔ المؤمنون:88 ) وہ پناہ دیتا ہے اور اس کی پکڑ سے نجات دینے والا کوئی نہیں ، ایک جگہ ہے آج کے دن نہ اللہ کا سا کوئی عذاب دے سکے نہ اس کی سی قید و بند ۔ ارشاد ہے آیت ( مالکم لا تناصرون بل ھم الیوم مستسلمون ) تم آج کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ وہ سب کے سب آج گردنیں جھکائے تابع فرمان بنے کھڑے ہیں اور آیت میں ہے آیت ( فَلَوْلَا نَــصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً ) 46 ۔ الاحقاف:48 ) اللہ کے نزدیکی کے لئے وہ اللہ کے سوا جن کی پوجا پاٹ کرتے تھے آج وہ معبود اپنے عابدوں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ بلکہ وہ تو غائب ہو گئے مطلب یہ ہے کہ محبتیں فنا ہو گئیں رشوتیں کٹ گئیں ، شفاعتیں مٹ گئیں ، آپس کی امداد و نصرت نابود ہو گئی معاملہ اس عادل حاکم جبار و قہار اللہ تعالیٰ مالک الملک سے پڑا ہے جس کے ہاں سفارشیوں اور مددگاروں کی مدد کچھ کام نہ آئے بلکہ اپنی تمام برائیوں کا بدلہ بھگتنا پڑے گا ، ہاں یہ اس کی کمال بندہ پروری اور رحم و کرم انعام و اکرام ہے کہ گناہ کا بدلہ برابر دے اور نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا بڑھا کر دے ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے کہ وقفہ لینے دو تاکہ ان سے ایک سوال کر لیا جائے گا کہ آج یہ ایک دوسرے کی مدد چھوڑ کر نفسا نفسی میں کیوں مشغول ہیں؟ بلکہ ہمارے سامنے سر جھکائے اور تابع فرمان ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] سفارش پر تکیہ کرنا نری بےوقوفی ہے :۔ ان کے اسی غلط عقیدہ کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے، کہ عذاب سے نجات کی جو چار صورتیں ممکن ہیں ان میں سے کوئی بھی تمہارے کام نہ آسکے گی۔ یعنی کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہ ہوگا، نہ کسی کی سفارش کام آئے گی، نہ وہ فدیہ دے کر چھوٹ سکے گا اور نہ ہی الل... ہ کے مقابلہ میں وہاں اس کا کوئی حامی و مددگار ہوگا۔ لہذا خوب سمجھ لو کہ محض انبیاء کی اولاد ہونے کی بنا پر تم کبھی اپنی کرتوتوں کی سزا سے بچ نہ سکو گے۔ یہ درست ہے کہ قیامت کے دن انبیاء اور صلحاء گنہگاروں کے لیے سفارش کریں گے لیکن اس سفارش کی شرائط ایسی ہیں کہ سفارش پر تکیہ کرنا مشکل ہے مثلاً یہ کہ سفارش وہی کرے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا، اور اتنی ہی کرسکے گا جتنی اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوگی، یا صرف اسی گناہ کے لیے سفارش کرسکے گا۔ جس کا اللہ کی طرف سے اذن ہوگا، اور صرف اسی شخص کے حق میں کرسکے گا جس کے حق میں سفارش کرنا منظور ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نعمت یاد دلانے کے بعد انھیں قیامت کے عذاب سے ڈرایا۔ بنی اسرائیل میں فساد کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے انبیاء اور علماء پر ناز کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کتنے ہی گناہ کرلیں ہمارے بزرگ اور آباء و اجداد ہمیں بخشوا لیں گے، ان کے اسی باطل گمان کی تردید کی گئی ہے۔ کسی گرفتار شخص کو چھڑانے کی تین...  صورتیں ہوسکتی ہیں، کسی کی سفارش کام آجائے، یا فدیہ دے کر چھڑا لیا جائے، یا زبردستی حملہ کر کے چھڑا لیا جائے، قیامت کے دن ان میں سے کوئی بھی ممکن نہیں۔ 3 اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن کوئی سفارش قبول نہیں ہوگی، مگر دوسرے مقامات پر وضاحت فرمائی ہے کہ جس شفاعت کی نفی کی گئی ہے وہ کفار کے لیے شفاعت ہے : (فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَ ) [ المدثر : ٤٨ ] ” پس انھیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔ “ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر بھی شفاعت ممکن نہیں ہوگی، فرمایا : ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ) [ البقرۃ : ٢٥٥ ] ” کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔ “ ہاں ! جس کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اس کے لیے سفارش ہوگی اور اسے نفع بھی دے گی۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (١٠٩) اور قیامت کے دن اہل ایمان کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کی احادیث متواتر ہیں۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَـيْــــًٔـا وَلَا يُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ۝ ٤٨ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإن... سان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] ، وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] ، ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] ، قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ وَوَقاهُمْ عَذابَ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 56] اور خدا ان کو دوزخ کے عذاب سے بچالے گا ۔ وَما لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ واقٍ [ الرعد/ 34] اور ان خدا کے عذاب سے کوئی بھی بچانے والا نہیں ۔ ما لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا واقٍ [ الرعد/ 37] تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مدد گار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ۔ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ ناراً [ التحریم/ 6] اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش جہنم سے بچاؤ ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( ن ف س ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، قبل ( تقبل) قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران/ 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ، لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] ، لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] ، وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] ، فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48] ، أي : لا يشفع لهم، وَلا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفاعَةَ [ الزخرف/ 86] ، مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] ، مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] ، وَمَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً سَيِّئَةً [ النساء/ 85] ، أي : من انضمّ إلى غيره وعاونه، وصار شَفْعاً له، أو شَفِيعاً في فعل الخیر والشّرّ ، فعاونه وقوّاه، وشارکه في نفعه وضرّه . وقیل : الشَّفَاعَةُ هاهنا : أن يشرع الإنسان للآخر طریق خير، أو طریق شرّ فيقتدي به، فصار كأنّه شفع له، وذلک کما قال عليه السلام : «من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» «1» أي : إثمها وإثم من عمل بها، وقوله : ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] ، أي : يدبّر الأمر وحده لا ثاني له في فصل الأمر إلّا أن يأذن للمدبّرات، والمقسّمات من الملائكة فيفعلون ما يفعلونه بعد إذنه . واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، وشَفَّعَهُ : أجاب شفاعته، ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» «2» والشُّفْعَةُ هو : طلب مبیع في شركته بما بيع به ليضمّه إلى ملكه، وهو من الشّفع، وقال عليه السلام : «إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ لا تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ [ طه/ 109] اس روز کسی کی شفارش فائدہ نہ دے گی ۔ مگر اس شخص کی جسے خدا اجازت دے ۔ لا تُغْنِي شَفاعَتُهُمْ شَيْئاً [ النجم/ 26] جن کی شفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی ۔ وَلا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى[ الأنبیاء/ 28] وہ اس کے پاس کسی کی سفارش نہیں کرسکتے مگر اس شخص کی جس سے خدا خوش ہو ۔ فَما تَنْفَعُهُمْ شَفاعَةُ الشَّافِعِينَ [ المدثر/ 48]( اس حال میں ) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی ۔ یعنی جن معبودوں کو یہ اللہ کے سو سفارش کیلئے پکارتے ہیں ۔ وہ ان کی سفارش نہیں کرسکیں گے ۔ مِنْ حَمِيمٍ وَلا شَفِيعٍ [ غافر/ 18] کوئی دوست نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات قبول کی جائے ۔ مَنْ يَشْفَعْ شَفاعَةً حَسَنَةً [ النساء/ 85] جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس ( کے ثواب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس ( کے عذاب ) میں سے حصہ ملے گا ۔ یعنی جو شخص اچھے یا برے کام میں کسی کی مدد اور سفارش کرے گا وہ بھی اس فعل کے نفع ونقصان میں اس کا شریک ہوگا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں شفاعت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے لئے کسی اچھے یا برے مسلک کی بنیاد رکھے اور وہ اس کی اقتداء کرے تو وہ ایک طرح سے اس کا شفیع بن جاتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا :«من سنّ سنّة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها، ومن سنّ سنّة سيّئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها» کہ جس شخص نے اچھی رسم جاری کی اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اسے اجر ملے گا اور جس نے بری رسم جاری کی اس پر اس کا گناہ ہوگا ۔ اور جو اس پر عمل کرے گا اس کے گناہ میں بھی وہ شریک ہوگا ۔ اور آیت کریمہ ؛ما مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ [يونس/ 3] کوئی ( اس کے پاس ) اس کا اذن لیے بغیر کسی کی سفارش نہیں کرسکتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اکیلا ہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے اور نظام کائنات کے چلانے میں کوئی اس کا ساجھی نہیں ہے ۔ ہاں جب وہ امور کی تدبیر و تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دیتا ہے تو وہ اس کی اجازت سے تدبیر امر کرتے ہیں ۔ واسْتَشْفَعْتُ بفلان علی فلان فَتَشَفَّعَ لي، میں نے فلاں سے مدد طلب کی تو اس نے میری مدد لی ۔ وشَفَّعَهُ : ۔ کے معنی کسی کی شفارش قبول کرنے کے ہیں ۔ اور اسی کا فرمان ہے (196) «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ الشُّفْعَةُ کے معنی ہیں کسی مشترکہ چیز کے فروخت ہونے پر اس کی قیمت ادا کر کے اسے اپنے ملک میں شامل کرلینا ۔ یہ شفع سے مشتق ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا :«إذا وقعت الحدود فلا شُفْعَةَ» جب حدود مقرر ہوجائیں تو حق شفعہ باقی نہیں رہتا ۔ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) اور اگر تم ایمان نہ لاؤ اور یہودیت سے توبہ کرو تو اس دن کے عذاب سے ڈرو جس دن کوئی کافر فرد کسی کافر فرد کی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی حفاظت نہیں کرسکے گا نہ اس دن کسی شفاعت کرنے والے کی شفاعت مانی جائے گی اور نہ کسی قسم کا فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان کو عذاب الہی سے بچایا جاسکے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٨ (وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا) قبل ازیں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ انسان کے عمل کے اعتبار سے سب سے مؤثرّ شے ایمان بالآخرۃ ہے۔ محاسبۂ آخرت اگر مستحضر رہے گا تو انسان سیدھا رہے گا ‘ اور اگر اس میں ضعف آجائے تو ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت بھی نمعلوم کیا کیا ... شکلیں اختیار کرلیں۔ اس آیت کے اندر چار اعتبارات سے محاسبۂاُخروی پر زور دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے فرمایا کہ ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی۔ (وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ) “ ( وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ) “ (وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ) ” “ ایمان بالآخرۃ کے ضمن میں لوگوں نے طرح طرح کے عقیدے گھڑ رکھے ہیں ‘ جن میں شفاعت باطلہ کا تصور بھی ہے۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے لات ‘ منات اور عزیٰ وغیرہ کے نام سے ان کے بت بنا رکھے تھے ‘ جنہیں وہ پوجتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کی یہ لاڈلی بیٹیاں ہمیں اپنے ” اباجان “ سے چھڑا لیں گی۔ (نعوذ باللّٰہ من ذٰلک ! ) ہمارے ہاں بھی شفاعت باطلہ کا تصور موجود ہے کہ اولیاء اللہ ہمیں چھڑالیں گے۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کے بارے میں غلط تصورات موجود ہیں۔ ایک شفاعت حقہ ہے ‘ جو برحق ہے ‘ اس کی وضاحت کا یہ موقع نہیں ہے۔ اسی سورة مبارکہ میں جب ہم آیت الکرسی کا مطالعہ کریں گے تو ان شاء اللہ اس کی وضاحت بھی ہوگی۔ یہ سارے تصورات اور خیالات جو ہم نے گھڑ رکھے ہیں ‘ ان کی نفی اس آیت کے اندر دوٹوک انداز میں کردی گئی ہے۔ ّ َ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر جو احسانات و انعامات ہوئے اور ان کی طرف سے جو ناشکریاں ہوئیں ان کا تذکرہ بڑی تیزی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ واقعات کئی سو برس پر محیط ہیں اور ان کی تفصیل مکی سورتوں میں آگئی ہے۔ ان واقعات کی سب سے زیادہ تفصیل سورة الاعراف میں موجود ہے۔ یہاں پر تو واقعات کا پے بہ پے تذکرہ کیا جا رہا ہے ‘ جیسے کسی ملزم پر فرد قرارداد جرم عائد کی جاتی ہے تو اس میں سب کچھ گنوایا جاتا ہے کہ تم نے یہ کیا ‘ یہ کیا اور یہ کیا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

63. A major reason for the degeneration of the Israelites was the corruption of their beliefs about the After that since they were related to those venerable saints and pious men who had dedicated themselves entirely to the service of God in the past, the, would be forgiven by the grace of those great men. They believed that once they had bound themselves firmly to those men of God, it would becom... e imposible for God to punish them. Such false reliance made them negligent of true religious piety and enmeshed them in a life of sin and wickedness. Hence, as well as reminding the Children of Israel of God's favour upon them, it was necessary to refute all the false ideas which they cherished.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :63 بنی اسرائیل کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ آخرت کے متعلق ان کے عقیدے میں خرابی آگئی تھی ۔ وہ اس قسم کے خیالاتِ خام میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ہم جلیل القدر انبیا کی اولاد ہیں ، بڑے بڑے اَولیا ، صُلحا اور زُہاد سے نسبت رکھتے ہیں ، ہماری بخشش تو اُنہیں بزرگوں کے ... صدقے میں ہو جائے گی ، ان کا دامن گرفتہ ہو کر بھلا کوئی سزا کیسے پاسکتا ہے ۔ اِنہیں جُھوٹے بھروسوں نے ان کو دین سے غافل اور گناہوں کے چکّر میں مبتلا کر دیا تھا ۔ اس لیے نعمت یاد دلانے کے ساتھ فوراً ہی ان کی ان غلط فہمیوں کو دُور کر دیا گیا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بنی اسرائیل تورات کی آیتیں بدلنے اور چھپانے میں اللہ تعالیٰ کے رسول کو نہ جاننے میں اللہ تعالیٰ کی طرح طرح کی نافرمانی کرتے تھے اور اس پر یہ کہتے تھے کہ ہم لوگ نبی زادے ہیں۔ دنیا میں اگر کوئی برا کام ہم سے ہو بھی جائے گا تو ہمارے بڑے قیامت کے دن اللہ کی جناب میں ہماری شفاعت کر کے ہم کو دوزخ سے بچا ل... یویں گے۔ بنی اسرائیل کی اس بےبنیاد توقع کو جڑ سے اکھیڑ دینے کی تنبیہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ اس دن بےمرضی اللہ تعالیٰ کے کوئی کسی کی کسی طرح کی مدد یا سفارش نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ ان کے بڑوں کے بڑے ابراہیم (علیہ السلام) خود اپنے باب کی شفاعت نہ کرسکیں گے۔ پھر ان کا تو کیا ذکر ہے۔ ترمذی وغیرہ میں معتبر سند سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لوگ سوائے شرک اور کبیرہ گناہ کر کے بغیر توبہ کے مرجاویں گے قیامت کے دن ان کی شفاعت ہوگی ٣۔ رہا شرک اس کو تو اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ { اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرِکْ بِہٖ } (٤۔ ١١٦/٤٨) جو لوگ قبر پرستی پیر پرستی ریا کاری کے سبب سے کسی طرح کے شرک جلی یا خفی میں گرفتار ہیں انکو اپنے عقیدے اور عمل کی اصلاح جلدی بلکہ بہت جلدی کرنی چاہیے۔ ورنہ قیامت کے دن پچھتاوے کے اور ان کو کچھ چارہ نہ ہوگا۔ اور اس دن پچھتانا کچھ کام نہ آوے گا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:48) لاتجری۔ فعل نہی واحد مؤنث حائب (جس کا مرجع نفس ہے) جزاء (باب ضرب) وہ کام آئے گی۔ وہ بدلہ ہوگی۔ شیئا۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔ (1) اگر شیئا سے مراد حق ہو تو اس وقت لفظ شیئا آیہ میں مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا اور آیہ کے معنی ہوں گے کہ کوئی کسی کے لئے حق کا بدلہ نہ دے گا۔ (2) اگر شیئا ... سے مراد جزاء ہو تو مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہوگا۔ اور آیت کے معنی ہوں گے ، کہ کوئی کسی کو بدلہ نہ دے گا۔ خواہ کسی قسم کا بدلہ دینا ہو۔ (3) بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ کوئی کسی کے کچھ کام نہ آویگا۔ (4) یہ بھی کہا ہے کہ کوئی قیامت کی سختیوں اور عذاب میں کسی کے لئے کفایت نہ کرے گا۔ لاتجری ۔۔ الخ یوما کی صفت ہے۔ شفاعۃ۔ شفاعت شفع بمعنی جفت ہے۔ یعنی طاق کی ضد۔ گویا شفاعت کرنے والا۔ اپنے آپ کو اس کے ساتھ ملا کر (کہ جس کی یہ سفارش کرتا ہے) اس اکیلے کو جوڑا کرتا ہے۔ لا یوخذ۔ مضارع منفی مجہول واحد مذکر غائب اخذ (باب نصر) مصدر وہ نہیں لیا جائے گا۔ منھا۔ ضمیر ھا کا مرجع نفس عاصیہ (گنہگار شخص بھی ہوسکتا ہے اور نفس شافعہ ) سفارش کرنے والا شخص بھی، راجع قول نفس عاصیہ ہے۔ عدل کے معنی برابری کے ہیں ۔ چونکہ معارضہ اور فدیہ دے کر دونوں برابر ہوجاتے ہیں اس لئے معارضہ اور فدیہ اور بدل کو بھی عدل کہنے لگے۔ اور اسی لئے انصاف کو بھی عدل کہتے ہیں۔ ولاہم ینصرون ۔ واؤ عاطفہ لا ینصرون۔ مضارع منفی مجہول جمع مذکر غائب اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ۔ تذکیر نعمت کے بعد ان کو قیامت کے عذاب سے ڈرا یا۔ ( ابن کثیر) بنی اسرائیل میں فساد کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے انبیاء اوعلماء پر نازاں تھے اور سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کتنے گناہ کرلیں ہمارے بزرگ اور آباء و اجداد ہمیں بخشو الیں گے ان کے اس زعم باطل کی یہاں تردید کی ہے یہ مسئلہ اپنی جگہ پر محقق ہے ... کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا اراذن کے بعد ہی شفا عت ہوگی کہ گنہگار موحدین کو شفاعت کے ذریعہ جہنم سے نکا لا جائے گا۔ (قرطبی )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یہ دن قیامت کا ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل سے دوسرا خطاب جاری ہے۔ دنیا کی عدالتوں میں مجرم جن طریقوں سے بچ نکلتے ہیں وہ چار ہیں۔ (١) ۔ حقیقی مجرم کی جگہ دوسرے کو پھنسا دینا۔ (٢) ۔ شخصی سفارش کے ذریعے مجرم کو بچا لینا۔ (٣) ۔ رشوت کے ذریعے بچ نکلنے میں کامیاب ہونا۔ (٤) ۔ سیاسی دباؤ کے ذریعے مجرم کا رہائی پانا... ۔ یہاں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے ہر فرد کو باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ ہتھکنڈے دنیا کی بےانصاف عدالتوں ‘ رشوت خورججوں، کمزور اور غلط عدالتی نظام میں تو چل سکتے ہیں۔ جس وجہ سے مظلوم سر چھپاتے اور ظالم دندناتے پھرتے ہیں۔ لیکن اللہ کی عدالت میں ان باتوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ محشر کے میدان میں کسی مجرم کو دم مارنے اور آنکھ اٹھا کر دیکھنے اور بلا اجازت بولنے کی بھی جرأت نہ ہوگی۔ اس دن کوئی نفس اور کوئی متاع کام نہ آئے گا۔ قرآن مجید نے ان اصولوں کو مختلف مقامات اور انداز میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ کسی مجرم کے دل میں چھوٹ جانے کا تصور بھی پیدا نہ ہوسکے۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِيْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِيْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِيْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِيْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِيْ لَآأُغْنِيْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو ! اپنے لیے کچھ کرلو میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا ‘ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِکُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِيٍّ دَعْوَتَہٗ وَإِنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِيْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَھِيَ نَآءِلَۃٌ إِنْ شَآء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِيْ لَایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لأمتہ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے ہر نبی نے اپنی دعا کرنے میں جلدی کی میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے وہ میری امت کے ہر اس شخص کو فائدہ دے گی جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن رشتہ دار، غلط سفارش اور مال مجرم کو کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ تفسیر بالقرآن سفارش کی گنجائش نہیں : ١۔ کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ (البقرۃ : ٢٥٥) ٢۔ دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٣۔ مجرموں کو سفارش کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٤۔ ظالموں کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارشی۔ (المؤمن : ١٨) ٥۔ کافروں کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (انعام : ٥١) ٦۔ بزرگ اور سردار بھی سفارش نہ کریں گے۔ (الروم : ١٣) نوٹ : فدیہ کے بارے میں البقرۃ :123 دیکھیے۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن نفسا نفسی ان دونوں آیتوں میں بھی بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا، اور مکرر اپنی نعمتوں کی یاد دہانی فرمائی۔ ان میں سے بہت سی نعمتوں کا تذکرہ آئندہ آیات میں آنے والا ہے۔ یہ جو فرمایا : (وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) (کہ میں نے تم کو فضیلت دی جہانوں پر) اس سے ان کے آباء و اجدا... د مراد ہیں۔ جن میں انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی تھے اور وہ علماء صلحا بھی تھے جنہوں نے اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھاما تھا اور جنہوں نے دین خداوندی میں کسی قسم کی تحریف اور تغییر نہیں کی تھی۔ ایمان اور اعمال صالحہ سے متصف تھے اور جن پر فضیلت دینے کا ذکر ہے، ان سے ان کے زمانے کے لوگ مراد ہیں۔ تمام عالم کے انسان اگلی پچھلی اقوام و افراد مراد نہیں ہیں۔ حضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء ومرسلین سے افضل ہیں اور آپ کی امت ساری امتوں سے افضل ہے جس کی تصریح (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) میں اور (وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا) میں فرمائی ہے۔ اپنے زمانہ میں بنی اسرائیل کو دوسری اقوام پر فضیلت اور برتری حاصل تھی۔ کیونکہ ان میں حضرت انبیاء کرام (علیہ السلام) ہوتے تھے اور ان کے ماننے والے بھی ہوتے تھے اور اعمال صالحہ والے بھی موجود تھے۔ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا خاتم النّبیین حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان جو فترت کا زمانہ ہے (اور یہ زمانہ چھ سو سال کے لگ بھگ تھا) اس میں علماء یہود نے توریت شریف میں تحریف کردی اور دین خداوندی کو بدل دیا پھر جب حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی اور علماء یہود نے پہچان بھی لیا کہ آپ وہی نبی ہیں جن کے آنے کا ہمیں انتظار تھا تو آپ کی نبوت اور رسالت کے منکر ہوگئے۔ تحریف و تغییر و انکار نبوت نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے اپنی ہر طرح کی فضیلت کھو بیٹھے، اور اب نہ صرف یہ کہ کفر اختیار کرنے والے بن گئے، بلکہ دین اسلام کے دشمن بن کر مستقل طریقہ پر مغضوب علیہم کی سند لے لی۔ حضرات انبیاء ( علیہ السلام) کی نسل سے ہیں مگر کفر کے ساتھ نسب کوئی کام نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ بڑا بےنیاز ہے۔ وہ ہر کافر کو دوزخ میں بھیج دے گا کسی کی بھی اولاد ہو۔ یہودیوں کی دنیا طلبی، حب مال، حب جاہ اور اس بات کا حسد کہ نبی ہم میں سے کیوں نہ آیا، عربوں میں سے کیوں آیا ان چیزوں نے ان کو برباد کردیا۔ قرآن مجید نے خطاب کر کے ان سے فرمایا کہ دنیا کو نہ دیکھو، آخرت پر نظر کرو۔ اموال و اولاد اور قوم اور قبیلہ قیامت کے دل بالکل کام نہیں آسکتا، وہاں نہ کوئی جان کسی کی طرف سے کوئی حق ادا کرسکے گی ( یہ نہ ہو سکے گا کہ کوئی شخص کسی کی طرف سے قرضہ دے دے یا کسی طرح کا کوئی اور حق چکا دے، اور یہ نہ ہو سکے گا کہ کوئی کسی کی طرف سے عذاب بھگت لے۔ ) جن کی شفاعت کی اجازت ہوگی وہی سفارش کرسکیں گے : کوئی سفارش قبول نہ کی جائے گی، بلکہ کوئی شخص کسی کے لیے سفارش کر ہی نہ سکے گا۔ سوائے ان لوگوں کے جن حضرات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سفارش کرنے کی اجازت ہوگی اور جن کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، انہی کے بارے میں قبول ہوگی۔ اور کافروں کے لیے کوئی سفارش کرنے والا نہ ہوگا اور نہ ان کے لیے سفارش کی اجازت ہوگی۔ (قال اللّٰہ تعالیٰ شانہ) فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ (و قال اللّٰہ تعالٰی) مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلاَ شَفِیعٍ یُّطَاعُ (و قال تعالٰی) یَوْمَءِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًا (و قال تعالٰی) مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ) وہاں عذاب سے جان چھڑانے کے لیے کوئی معاوضہ یا فدیہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس کچھ ہوگا ہی نہیں جو جان کا بدلہ دے کر عذاب سے جان چھڑائے اور بالفرض کوئی دینا بھی چاہے تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور جس کے لیے عذاب کا فیصلہ ہوگیا اسے عذاب ہی میں رہنا ہوگا۔ سورۂ آل عمران میں فرمایا : (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ ھُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِھِمْ مِّلْ ءُ الْاَرْضِ ذَھَبً وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ اُولٰٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ) ” جو لوگ کافر ہوئے اور مرگئے کافر ہی، تو ہرگز قبول نہ ہوگا کسی ایسے شخص سے زمین بھر کر سونا۔ اگرچہ فدیہ دے اس قدر سونے کا، ان کیلئے عذاب درد ناک ہے اور کوئی نہیں ہوگا، ان کا مدد گار۔ “ اور سورة مائدہ میں فرمایا : (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْھُمْ وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ) ” جو لوگ کافر ہیں اگر ان کے پاس جو کچھ زمین میں ہے وہ سب ہو اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہوتا کہ بدلہ میں دیں قیامت کے عذاب سے بچنے کے لیے تو ان سے قبول نہ ہوگا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “ آخر میں فرمایا (وَ لاَ ھُمْ یُنْصَرُوْنَ ) اور روز قیامت ان لوگوں کی مدد نہ کی جائے گی۔ اول اس بات کی نفی کی گئی کہ کوئی کسی کے کام آئے۔ پھر سفارش کی نفی کی گئی پھر جان کا بدلہ قبول کئے جانے کی نفی کی گئی پھر ہر طرح کی مدد کی نفی کردی گئی۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

106 ۔ اس میں امر اول کی نفی ہے۔ ای لایغنی احد عن احد (ابن کثیر ص 89 ج 1) لاتقضی یوم القیامۃ نفس عن نفس شیئا عما وجب علیہا ولا تتوب عنھا ولا تحتمل لما اصابہا (روح ص 251 ج 1) وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ۔ یہ امر ثانی کی نفی ہے۔ معتزلہ اور دیگر فرق باطلہ کی منکرہ شفاعت نے اس آیت کے عموم سے نفی شفا... عت پر استدلال کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مطلق شفاعت کی نفی نہیں بلکہ شفاعت قہری کی نفی ہے۔ جس طرح یہودیوں کا خیال تھا کہ ہمارے باپ دادا ہم کو ہماری بدعنوانیوں کے باوجود خدا کے عذاب سے چھڑا لیں گے اور اللہ کو ان کی سفارش ماننی پڑے گی۔ یا یہ نفی کفار اور مشرکین سے مخصوص ہے اور مطلب یہ ہے کہ کفار اور مشرکین کے حق میں کسی قسم کی شفاعت قبول نہیں ہوگی۔ والجواب انہا خاصۃ بالکفار للایات الواردۃ فی الشفاعۃ والاحادیث المرویۃ فیھا (ابو السعود ص 521 ج 1) وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ۔ یہاں تیسرے ذریعہ کے نافع ہونے کی نفی ہے۔ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ ۔ یہ چوتھے ذریعہ کے غیر نافع ہونے کا اعلان ہے۔ آگے انعامات کی تفصیل ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 ۔ اے یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ! میرے ان احسانات کو یاد کرو جو احسانات و انعامات میں نے تم پر کئے اور اس بات کو بھی یاد کرو کہ میں نے تم کو اقوام عالم پر خاص فوقیت اور فضیلت عطا کی تھی اور اس دن سے ڈرو جس دن نہ تو کوئی کسی کے کام آسکے اور نہ کسی کی طرف سے کوئی سفارش قبول کی جاسکے اور نہ کسی ک... ی طرف سے کوئی فدیہ اور معاوضہ حاصل کیا جاسکے اور نہ ان لوگوں کو کسی طرف دار کی طرف داری اور مددگار کی مدد پہنچ سکے۔ (تیسر) چونکہ یہاں سے احسانات کی تفصیل شروع کرنی مقصود تھی اس لئے پھر ان کو تاکید کی غرض سے توجہ دلائی گئی اور اقوام عالم سے مراد یا تو ان کے زمانے کی اقوام ہیں اور یا پھر بزرگ اور فضیلت سے بعض خصوصیات مراد ہونگی جو ان کو عطا کی گئی ہوں گی یہ مطلب نہیں کہ امت محمدیہ پر بھی ان کو فضیلت اور برتری حاصل تھی دوسری آیت میں قیامت کے عذاب سے ترہیب اور تخویف ہے اور نیز ان کے اس عقیدے کا بطلان ہے جو وہ کہا کرتے تھے کہ ہم بڑے لوگوں کی اولاد ہیں ہم کو اس عالم میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کسی مقدمہ میں مجرم کے لئے سزا سے بچنے کے عام طور سے چار ہی طریقے ہوسکتے ہیں یا تو کوئی مجرم کی طرف سے وہ مطالبہ ادا کرائے جو اس پر واجب ہے یا پھر کوئی زبردست سفارش پہنچ جائے جس سے حاکم متاثر ہوجائے اور یا پھر مجرم کو چھڑانے کی غرض سے کوئی فدیہ اور تا ان دے دیا جائے اور یا کوئی زبردست مددپہنچ جائے جو حکومت سے زبردستی چھڑا کرلے جائے قیامت میں ان چاروں صورتوں کا کافر کے لئے کوئی امکان نہیں۔ بنی اسرائیل کے سلسلے میں جن احسانات کا ذکر فرمایا ہے ظاہر ہے کہ یہ احسانات ان کے بڑوں پر اور گزشتہ لوگوں پر ہوئے تھے۔ جو بنی اسرائیل نبی آخر الزمان کے دور میں تھے ۔ ان پر یہ احسانات نہیں ہوئی تھے لیکن پہلے لوگوں کیساتھ اور باپ دادا کے ساتھ جو احسان کیا جائے اس کا نفع اور اس کا اثر اولاد کو بھی پہنچتا ہے۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے اور دور ک بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا۔ بعض لوگوں نے اس طرح بھی ترجمہ کیا ہے کہ اے بنی اسرائیل تم میرے وہ احسانات یاد کرو جو میں نے تم پر یعنی تمہارے بڑوں پر وقتاً فوقتاً کئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔ بنی اسرائیل کہتے تھے کہ ہم کیسے ہی گناہ کریں پکڑے نہ جائیں گے۔ ہمارے باپ دادا سے پیغمبر ہم کو چھڑا لیں گے۔ (موضع القرآن) (تسہیل)  Show more