Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 56

سورة البقرة

ثُمَّ بَعَثۡنٰکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَوۡتِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۵۶﴾

Then We revived you after your death that perhaps you would be grateful.

لیکن پھر اس لئے کہ تم شکر گزاری کرو ، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زندہ کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then We raised you up after your death, so that you might be grateful." Ar-Rabi bin Anas said, "Death was their punishment, and they were resurrected after they died so they could finish out their lives." Qatadah said similarly. Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam commented on this Ayah, "Musa returned from meeting with his Lord carrying the Tablets on which He wrote the <... b>Tawrah. He found that they had worshipped the calf in his absence. Consequently, he commanded them to kill themselves, and they complied, and Allah forgave them. He said to them, `These Tablets have Allah's Book, containing what He commanded you and what He forbade for you.' They said, `Should we believe this statement because you said it By Allah, we will not believe until we see Allah in the open, until He shows us Himself and says: This is My Book, therefore, adhere to it. Why does He not talk to us as He talked to you, O, Musa!"' Then he (Abdur-Rahman bin Zayd) recited Allah's statement, لَن نُّوْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً (We shall never believe in you until we see Allah plainly) and said, "So Allah's wrath fell upon them, a thunderbolt struck them, and they all died. Then Allah brought them back to life after He killed them." Then he (Abdur-Rahman) recited Allah's statement, ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (Then We raised you up after your death, so that you might be grateful), and said, "Musa said to them, `Take the Book of Allah.' They said, `No.' He said, `What is the matter with you?' They said, `The problem is that we died and came back to life.' He said, `Take the Book of Allah.' They said, `No.' So Allah sent some angels who made the mountain topple over them." This shows that the Children of Israel were required to fulfill the commandments after they were brought back to life. However, Al-Mawardy said that there are two opinions about this matter. The first opinion is that since the Children of Israel witnessed these miracles, they were compelled to believe, so they did not have to fulfill the commandments. The second opinion states that they were required to adhere to the commandments, so that no responsible adult is free of such responsibilities. Al-Qurtubi said that this is what is correct, because, he said, although the Children of Israel witnessed these tremendous calamities and incidents, that did not mean that they were not responsible for fulfilling the commandments any more. Rather they are responsible for that, and this is clear. Allah knows best.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] اب موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ اکیلے واپس جا کر قوم کو کیا کہیں گے۔ چناچہ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور فرمایا : اے اللہ ! اگر تیری یہ مشیت تھی تو آج سے پہلے انہیں اور مجھے بھی ہلاک کردیا ہوتا، کیا آج تو ان نادان لوگوں کی بات پر ہمیں ہلاک کرتا ہے ؟ && (٧ : ١٥٥) چناچہ...  اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی دعا قبول فرما کر انہیں ازسر نو زندہ کردیا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

This verse refers to death, which suggests that the thunderbolt had killed them. Since the Israelites had always been mistrusting Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، he feared that they would suspect him of having taken the men to a solitary place and got them slaughtered. So, he prayed to Allah to save him from such a vile accusation. Allah granted his prayer, and gave those a new life.

خلاصہ تفسیر : پھر ہم نے (موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے) تم کو زندہ کر اٹھایا تمہارے مرجانے کے بعد اس توقع پر کہ تم احسان مانو گے، فائدہ : موت کے لفظ سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس بجلی سے مرگئے تھے ان کے دوبارہ زندہ کئے جانے کا قصہ یہ ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ ب... نی اسرائیل یوں ہی بدگمان رہتے ہیں اب وہ یہ سمجھیں گے کہ میں نے ان کو کہیں لے جا کر کسی تدبیر سے ان کا کام تمام کرا دیا ہوگا مجھ کو اس تہمت سے محفوظ رکھئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کو پھر زندہ کردیا   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝ ٥٦ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسير... هم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقال عزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینْ مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦) پھر ہم نے تمہیں مارنے کے بعد زندہ کیا تاکہ اس زندہ کرنے پر تم اللہ کا شکر ادا کرو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ ) بعض لوگ اس کی ایک تاویل کرتے ہیں کہ یہ موت نہیں تھی ‘ بلکہ زبردست کڑک کی وجہ سے سب کے سب بےہوش ہو کر گرپڑے تھے ‘ لیکن میرے نزدیک یہاں تاویل کی ضرورت نہیں ہے ‘ بعث بعد الموت اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ ) کے الفاظ اپنے مف... ہوم کے اعتبار سے بالکل صریح ہیں ‘ انہیں خواہ مخواہ کوئی اور معنی پہنانا درست نہیں ہے۔ (لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ )   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

71. The incident referred to here is the following. When Moses went to the mountain he had been ordered to bring with him seventy elders of Israel. Later, when God bestowed upon Moses the Book and the Criterion, he presented them to the people. Some mischief-makers, according to the Qur'an, began to complain that they could not believe in something just because Moses claimed that God had spoken to...  him. This invited the wrath of God and they were punished. The Old Testament, however, has the following account: 'And they saw the God of Israel and there was under his feet as it were a pavement of sapphire stone, like the very heaven for clearness. And he did not lay his hand on the chief men of the people of Israel; they beheld God, and ate and drank' (Exodus 24: 10-11) , Interestingly, it is stated later in the same book that when Moses requested God to show him His glory, God rejected the request and said: 'You cannot see my face; for man shall not see me and live'. (See Exodus 33: 18-23)  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :71 یہ اشارہ جس واقعہ کی طرف ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر جب حضرت موسیٰ ؑ طُور پر تشریف لے گئے تھے ، تو آپ ؑ کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستّر نمائندے بھی لے کر آئیں ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو کتاب اور فُرقان عطا کی ، تو ... آپ نے اسے ان نمائندوں کے سامنے پیش کیا ۔ اس موقع پر قرآن کہتا ہے کہ ان میں سے بعض شریر کہنے لگے کہ ہم محض تمہارے بیان پر کیسے مان لیں کہ خدا تم سے ہم کلام ہوا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور اُنہیں سزا دی گئی ۔ لیکن بائیبل کہتی ہے کہ : ”انہوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا ۔ اس کے پاؤں کے نیچے نیلم کے پتھر کا چبُوترا تھا ، جو آسمان کی مانند شفاف تھا ۔ اور اس نے بنی اسرائیل کے شُرفا پر اپنا ہاتھ نہ بڑھایا ۔ سو انہوں نے خدا کو دیکھا اور کھایا اور پیا ۔ “ ( خرُوج ، باب ۲٤ ۔ آیت ۱۱-۱۰ ) لُطْف یہ ہے کہ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جلال دکھا دے ، تو اس نے فرمایا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ۔ ( دیکھو خرُوج ، باب ۳۳- آیت ۲۳-۱۸ )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

43 : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے تورات لے کر تشریف لائے تو بنی اسرائیل نے ان سے کہا کہ ہمیں کیسے یقین آئے کہ واقعی اللہ نے ہمیں اس کتاب پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے، شروع میں ان پر حجت تمام کرنے کے لئے انہیں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خطاب فرماکر تورات پر عمل کا حکم دیا مگر وہ کہنے لگے کہ جب ت... ک ہم اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے ہمیں یقین نہ آئے گا، ان کے اس گستاخانہ طرز عمل پر ایک بجلی کے کڑکے نے انہیں آگھیرا اور وہ بعض روایات کے مطابق مرگئے اور بعض روایات کے مطابق بے ہوش ہوگئے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی دی۔ اس واقعے کی تفصیل بھی ان شاء اللہ سورۃ اعراف میں آئے گی۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:56) بعثنکم ۔ بعثنا ماضی جمع متکلم ۔ بعث (باب فتح) مصدر، اٹھا کھڑا کرنا ، دوبارہ زندہ کرنا۔ چناچہ یوم البعث اس سے ہے یعنی دوبارہ اٹھنے کا دن۔ لعلکم شاید کہ تم ۔ (ملاحظہ ہو 2:21 ، 2:52)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

چناچہ اس کے بعد دوبارہ ان کو اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے ۔ انہیں دوبارہ زندگی کا موقع دیا جاتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور رب العزت کا شکر ادا کریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ انہیں اپنی وہ نعمت یاددلاتے ہیں ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ” مگر پھر ہم نے تم کو جلااٹھایا ... ، شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ۔ “  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

114 تاکہ تم دوبارہ جی اٹھنے کی نعمت کی قدر کرو اور میری بھیجی ہوئی تورات کو مانو اور عقیدہ توحید کے پابند رہو۔ معتزلہ اور روافض نے اس آیت سے امتناع رویت باری تعالیٰ پر استدلال کیا ہے۔ مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس سے امتناع فی الدنیا ثابت ہوتا ہے نہ مطلق امتناع۔ اور اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ روی... ت باری تعالیٰ فی نفسہ دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں ممکن ہے لیکن دنیا میں اس کا وقوع نہیں ہوگا۔ البتہ آخرت میں مومنین دیدار الٰہی سے مشرف ومحظوظ ہوں گے۔ واھل السنۃ والسلف علی جو ازھا فیہما وقوعھا فیا لاخرۃ (قرطبی ص 403 ج 1)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اور وہ موقعہ بھی یاد کرو جب تم نے حضرت مسویٰ سے کہا تھا کہ جب تک ہم خود اللہ تعالیٰ کو علانیہ اور کھلم کھلا نہ دیکھ لیں گے ہرگز تیری بات کی تصدیق نہیں کریں گے چناچہ اس گستاخی پر ایک کر کناک بجلی نے تمہاری آنکھوں دیکھتے تم کو آلیا پھر ہم نے تمہارے مرے پیچھے تم کو زندہ کر اٹھایا کہ شاید تم ہمارا ... احسان مانو اور شکر گزار بنو۔ (تیسر) واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ توریت لے کر طور سے واپس آئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم جب تک خود اللہ تعالیٰ سے اس کا کلام نہ سنیں تو یہ کیسے مان لیں کہ یہ توریت اسی کا کلام ہے اس پر حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کے 70 آدمیوں کو منتخب کیا اور ان کو لیکر طور پر پہنچے اور اللہ تعالیٰ کا کلام انہوں نے سنا کلام سن کر کہنے لگے ہم تو اس کو دیکھ کر یقین لائیں گے تب ایک ایسی بجلی جس میں کڑک بھی تھی ان پر گری اور وہ مر کر رہ گئے اس پر حضرت موسیٰ نے جناب باری سے دعا کی کہ بنی اسرائیل بہت جلد بدگمان ہوجاتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ کہہ دیں کہ موسیٰ نے ہمارے آد میں کو قتل کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی دعا سے ان لوگوں کو زندہ کردیا جن لوگوں کو حضرت موسیٰ نے منتخب کیا تھا یہ ان لوگوں میں سے تھے جو گئو سالہ پرستی میں شریک نہیں تھے صاعقہ ایسی بجلی کو کہتے ہیں جس میں ہولناک آواز بھی ہو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صرف کڑک ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی آگ آسمان سے نازل ہوئی ہو ۔ بہرحال دنیا کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو کھلم کھلا دیکھنا محال ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آخرت میں بھی ان کا دیدار نہیں ہوگا اس عالم میں ان کے دیدار سے یقینا اہل جنت مشرف ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ (تسہیل)  Show more