Verb

تَسُرُّ

pleasing

خوش کرتی ہو / بھلی لگے وہ

Verb Form 1
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
سَرَّ
يَسُرُّ
اُسْرُرْ/سُرَّ
سَارٍّ
مَسْرُوْر
سُرُوْر
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْاِسْرَارُ: کسی بات کو چھپانا یہ اعلان کی ضد ہے چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً ) (۲:۲۷۴) اور پوشیدہ اور ظاہر اور فرمایا: (یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ) (۲:۷۷) کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں خدا کو سب معلوم ہے۔ (وَ اَسِرُّوۡا قَوۡلَکُمۡ اَوِ اجۡہَرُوۡا بِہٖ) (۶۷:۱۳) اور تم لوگ بات پوشیدہ کہو یا ظاہر۔ اور اس کا استعمال اعیان و معانی دونوں میں ہوتا ہے۔ اَلسِّرُ: اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (یَعۡلَمُ السِّرَّ وَ اَخۡفٰی) (۲۰:۷) وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے۔ نیز فرمایا: (اَنَّ اللّٰہَ یَعۡلَمُ سِرَّہُمۡ وَ نَجۡوٰىہُمۡ ) (۹:۷۸) کہ خدا ا نکے بھیدوں اور مشوروں تک سے واقف ہے۔ سَارَّہٗ: (مفاعلہ) کے معنیٰ ہیں کسی بات کو چھپانے کی وصیت کرنا اور تَسَارَّ الْقَومُ کے معنیٰ لوگوں کا باہم ایک دوسرے کو بات چھپانے کی وصیت کرنے یا باہم سرگوشی کرنے کے ہیں اور آیت: (وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ ) (۱۰:۵۴) (پچھتائیں گے) اور ندامت کو چھپائیں گے۔ تو یہاں اَسَرُّوا کے معنیٰ چھپانے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنیٰ ظاہر کرنا بھی کئے ہیں کیونک ہدوسری آیت میں ہے: (فَقَالُوۡا یٰلَیۡتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا) (۶:۲۷) اور کہیں گے کہ اے کاش ہم پھر دنیا میں لوٹا دئیے جائیں تاکہ اپنے پروردگار کی آیتوں کی تکذیب نہ کریں۔ لیکن یہ معنیٰ صحیح نہیں ہیں کیونکہ آیت مذکورہ میں جس ندامت کے چھپانے کا ذکر ہے اس سے وہ ندامت مراد نہیں ہے جس کے اظہار کی طرف آیت یَالَیْتَنَا میں اشارہ پایا جاتا ہے۔ اَسْرَرْتُ اِلٰی فُلَانٍ حَدِیْثًا: کسی سے پوشیدہ طور پر راز کی بات کہنا۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (وَ اِذۡ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعۡضِ اَزۡوَاجِہٖ حَدِیۡثًا) (۶۶:۳) اور (یاد کرو) جب پیغمبر علیہ السلام نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی۔ اور آیت: (تُسِرُّوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ ) (۶۰:۱) تم ان کی طرف پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ کے معنیٰ یہ ہیں کہ تم انہیں اپنی پوشیدہ دوستی سے آگاہ کرتے ہو۔ اس بنا پر بعض نے یہاں تُسِرُّوْنَ کے معنیٰ تُظْھِرُوْنَ کئے ہیں اور یہی معنیٰ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ اِسْرَارٌ اِلَی الْغَیْرِ: کسی سے بھید کی بات کہنا۔ جس طرح دوسروں سے اخفا کو مقتضی ہے اسی طرح اس شخص کے سامنے اظہار کو مستلزم ہے جس سے وہ بھید کہا جاتا ہے لہٰذا اَسْرَرْتُ اِلٰی فُلَانٍ یعنی دوسرے راز کی بات کہنا۔ میں من وجہ اخفا اور من وجہ اظھار کے معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ اور آیت: (وَ اَسۡرَرۡتُ لَہُمۡ اِسۡرَارًا) (۷۱:۹) (ظاہر) اور پوشیدہ ہر طرح سمجھاتا رہا۔ بھی اسی معنیٰ پر محمول ہے۔ اور کنایہ کے طور پر اَلسِّرُّ کے معنیٰ نکاح (جماع) کے بھی آتے ہیں کیونکہ وہ بھی چھپ کر کیا جاتا ہے اور سِرٌّ خالص چیز کو کہتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے ھُوَ مِنْ سِرِّ قَومِہٖ وہ اپنی قوم میں سب سے بہتر ہے اور اسی سے سِرُّ الْوَادِیْ وَسَرَارَتُہٗ ہے۔ جس کے معنیٰ وادی کے بہتر حصہ کے ہیں۔ سُرَّۃُ الْبَطْنِ: ناف کا وہ حصہ جو قطع کرنے کے بعد باقی رہ جاتا ہے اور یہ چونکہ عکن بطن میں مخفی رہتا ہے اس لئے اسے سُرَّۃ الْبَطْنِ کہتے ہیں۔ اور وہ چیز جو ناف سے قطع کی جاتی ہے اسے سُرٌّ وَسُرُرٌ کہا جاتا ہے۔ ہتھیلی کی لکیروں کو اَسِرَّۃُ الرَّحَۃِ کہتے ہیں اسی طرح پیشانی کے خطوط کو اَسَارِیْرُ الْجَبْھَۃِ کہا جاتا ہے اسی طرح مہینہ کی آخری تاریخ میں جس میں چاند نظر نہیں آتا اسے سَرَارٌ کہا جاتا ہے۔ اَلسُّرُوْرُ: قلبی راحت کو کہتے ہیں۔ چنانچہ قرآن پاک میں ہے: (وَ لَقّٰہُمۡ نَضۡرَۃً وَّ سُرُوۡرًا) (۷۶:۱۱) (تو خدا) ان کی تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا۔ (تَسُرُّ النّٰظِرِیۡنَ) (۲:۶۹) (کہ) دیکھنے والے کے دل کو خوش کردیتا ہو۔ اسی طرح اہل جنت کے متعلق فرمایا: (وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ) (۸۴:۹) اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش خوش آئے۔ اور اہل نار کے متعلق فرمایا: (اِنَّہٗ کَانَ فِیۡۤ اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا) (۸۴:۱۳) یہ اپنے اہل و عیال میں مست رہتا تھا۔ تو اس میں تنبیہ ہے کہ آخرت کی خوشی دنیا کی خوشی کے برعکس ہوگی۔ اَلسَّرِیْرُ: (تخت) وہ جس پر کہ (ٹھاٹھ سے) بیٹھا جاتا ہے یہ سُرُوْرٌ سے مشتق ہے کیونکہ خوشحال لوگ ہی اس پر بیٹھتے ہیں اس کی جمع اَسِرَّۃٌ اور سُرُرٌ آتی ہے۔ قرآن پاک نے اہل جنت کے متعلق فرمایا: (مُتَّکِئِیۡنَ عَلٰی سُرُرٍ مَّصۡفُوۡفَۃٍ) (۵۲:۲۰) تختون پر جو برابر بچھے ہوئے ہیں۔ تکیہ لگائے ہوئے۔ (فِیۡہَا سُرُرٌ مَّرۡفُوۡعَۃٌ ) (۸۸:۱۳) وہاں تخت ہوں کے اونچے بچھے ہوئے۔ (وَ لِبُیُوۡتِہِمۡ اَبۡوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیۡہَا یَتَّکِـُٔوۡنَ ) (۴۳:۳۴) اور ان کے گھروں کے دروازے بھی (چاندی کے بنادئیے) اور تخت بھی جن پر تکبہ لگاتے۔ اور میت کے جنازہ کو اگر سَرِیرُ الْمَیِّتِ کہا جاتا ہے تو یہ سَرِیر (تخت) کے ساتھ صوری مشابہت کی وجہ سے ہے۔ یا نیک شگون کے طور پر کہ مرنے والا دنیا کے قیدخانہ سے رہائی پاکر جوارالٰہی میں خوش و خرم ہے جس ی طرف کہ آنحضرت علیہ السلام نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا(1) : (۱۷۵) اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ کہ مومن کو دنیا قیدخانہ معلوم ہوتی ہے۔

Lemma/Derivative

1 Results
تَسُرُّ
Surah:2
Verse:69
خوش کرتی ہو / بھلی لگے وہ
pleasing