Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 8

سورة البقرة

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾

And of the people are some who say, "We believe in Allah and the Last Day," but they are not believers.

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ایمان والے نہیں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Hypocrites We mentioned that four Ayat in the beginning of Surah Al-Baqarah described the believers. The two last Ayat (2:6-7) describe the disbelievers. Afterwards, Allah begins to describe the hypocrites who show belief and hide disbelief. Since the matter of the hypocrites is vague and many people do not realize their true reality, Allah mentioned their descripti... on in detail. Each of the characteristics that Allah used to described them with is a type of hypocrisy itself. Allah revealed Surah Bara'h and Surah Al-Munafiqun about the hypocrites. He also mentioned the hypocrites in Surah An-Nur and other Surahs, so that their description would be known and their ways and errors could be avoided. Allah said, وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ امَنَّا بِاللّهِ وَبِالْيَوْمِ الاخِرِ وَمَا هُم بِمُوْمِنِينَ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَالَّذِينَ امَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُم وَمَا يَشْعُرُونَ   Show more

منافقت کی قسمیں ۔ دراصل نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو ۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی ۔ پہلی قسم کے منافق تو ابدی جہنمی ہیں اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں ۔ اس کا بیان تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ کسی مناسب جگہ ہو گا ۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں منافق کا قو... ل اس کے فعل کے خلاف ، اس کا باطن ظاہر کے خلاف اس کا آنا جانے کے خلاف اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے ۔ نفاق مکہ شریف میں تو تھا ہی نہیں بلکہ اس کے الٹ تھا یعنی بعض لوگ ایسے تھے جو زبردستی بہ ظاہر کافروں کا ساتھ دیتے تھے مگر دل میں مسلمان ہوتے تھے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے اور یہاں پر اوس اور خزرج کے قبائل نے انصار بن کر آپ کا ساتھ دیا اور جاہلیت کے زمانہ کی مشرکانہ بت پرستی ترک کر دی اور دونوں قبیلوں میں سے خوش نصیب لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے لیکن یہودی اب تک اللہ تعالیٰ کی اس نعمت سے محروم تھے ۔ ان میں سے صرف حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ نے اس سچے دین کو قبول کیا تب تک بھی منافقوں کا خبیث گروہ قائم نہ ہوا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں اور عرب کے بعض قبائل سے صلح کر لی تھی ۔ غرض اس جماعت کے قیام کی ابتدا یوں ہوئی کہ مدینہ شریف کے یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ ، بنو قینقاع تو خزرج کے حلیف اور بھائی بند بنے ہوئے تھے اور باقی دو قبیلوں کا بھائی چارہ اوس سے تھا ۔ جب جنگ بدر ہوئی اور اس میں پروردگار نے اپنے دین والوں کو غالب کیا ۔ شوکت و شان اسلام ظاہر ہوئی ، مسلمانوں کا سکہ جم گیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تب یہ ناپاک گروہ قائم ہوا چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا تو خزرج کے قبیلے سے لیکن اوس اور خزرج دونوں اسے اپنا بڑا مانتے تھے بلکہ اس کی باقاعدہ سرداری اور بادشاہت کے اعلان کا پختہ ارادہ کر چکے تھے کہ ان دونوں قبیلوں کا رخ اسلام کی طرف پھر گیا اور اس کی سرداری یونہی رہ گئی ۔ یہ خار تو اس کے دل میں تھا ہی ، اسلام کی روز افزوں ترقی میں لڑائی اور کامیابی نے اسے مخبوط الحواس بنا دیا ۔ اب اس نے دیکھا کہ یوں کام نہیں چلے گا اس نے بظاہر اسلام قبول کر لینے اور باطن میں کافر رہنے کی ٹھانی اور جس قدر جماعت اس کے زیر اثر تھی سب کو یہی ہدایت کی ، اس طرح منافقین کی ایک جمعیت مدینہ کے آس پاس قائم ہو گئی ۔ ان منافقین میں بحمدللہ مکی مہاجر ایک بھی نہ تھا بلکہ یہ بزرگ تو اپنے اہل و عیال ، مال و متاع کو نام حق پر قربان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کر آئے تھے ۔ ( فرضی اللہ عنھم اجمعین ) ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ منافق اوس اور خزرج کے قبیلوں میں سے تھے اور یہودی بھی جو ان کے طریقے پر تھے ۔ قبیلہ اوس اور خزرج کے نفاق کا ان آیتوں میں بیان ہے ۔ ابو العالیہ ، حضرت حسن ، قتادہ ، سدی نے یہی بیان کیا ہے ۔ پروردگار عالم نے منافقوں کی بہت سی بد خصلتوں کا یہاں بیان فرمایا ۔ تاکہ ان کے ظاہر حال سے مسلمان دھوکہ میں نہ آ جائیں اور انہیں مسلمان خیال کر کے اپنا نہ سمجھ بیٹھیں ۔ جس کی وجہ سے کوئی بڑا فساد پھیل جائے ۔ یہ یاد رہے کہ بدکاروں کو نیک سمجھنا بھی بجائے خود بہت برا اور نہایت خوفناک امر ہے جس طرح اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ زبانی اقرار تو ضرور کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایمان نہیں ہوتا ۔ اسی طرح سورۃ منافقون میں بھی کہا گیا ہے کہ آیت ( اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ ۘ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ ۭ وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون:1 ) یعنی منافق تیرے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہماری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن چونکہ حقیقت میں منافقوں کا قول ان کے عقیدے کے مطابق نہ تھا اس لئے ان لوگوں کے شاندار اور تاکیدی الفاظ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں جھٹلا دیا ۔ اور سورۃ منافقون میں فرمایا آیت ( وَاللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ ) 63 ۔ المنفقون:1 ) یعنی اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ بالیقین منافق جھوٹے ہیں اور یہاں بھی فرمایا آیت ( وما ھم بمومنین ) یعنی دراصل وہ ایماندار نہیں وہ اپنے ایمان کو ظاہر کر کے اور اپنے کفر کو چھپا کر اپنی جہالت سے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اسے نفع دینے والی اور اللہ کے ہاں چل جانے والی کاریگری خیال کرتے ہیں ۔ جیسے کہ بعض مومنوں پر ان کا یہ مکر چل جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت ( يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَيَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰي شَيْءٍ ۭ اَلَآ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ ) 58 ۔ المجادلہ:18 ) یعنی قیامت کے دن جبکہ اللہ تعالیٰ ان سب کو کھڑا کرے گا تو جس طرح وہ یہاں ایمان والوں کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قسمیں کھائیں٠ گے اور سمجھتے ہیں کہ وہ بھی کچھ ہیں ۔ خبردار یقیناً وہ جھوٹے ہیں ۔ یہاں بھی ان کے اس غلط عقیدے کی وضاحت میں فرمایا کہ دراصل وہ اپنے اس کام کی برائی کو جانتے ہی نہیں ۔ یہ دھوکہ خود اپنی جانوں کو دے رہے ہیں ۔ جیسے کہ اور جگہ ارشاد ہوا آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ) 4 ۔ النسآء:142 ) یعنی منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ انہیں کو دھوکہ میں رکھنے والا ہے ۔ بعض قاریوں نے یخدعون پڑھا ہے اور بعض یخادعون مگر دونوں قرأت وں کے معنی کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے ۔ ابن جریر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو منافق دھوکہ کیسے دیں گے؟ وہ جو اپنے دل کے خلاف اظہار کرتے ہیں وہ تو صرف بچاؤ کے لیے ہوتا ہے تو جواباً کہا جائے گا کہ اس طرح کی بات کرنے والے کو بھی جو کسی خطرہ سے بچنا چاہتا ہے عربی زبان میں مخادع کہا جاتا ہے چونکہ منافق بھی قتل ، قید اور دنیاوی عذابوں سے محفوظ رہنے کے لئے یہ چال چلتے تھے اور اپنے باطن کے خلاف اظہار کرتے تھے اس لئے انہیں دھوکہ باز کہا گیا ۔ ان کا یہ فعل چاہے کسی کو دنیا میں دھوکا دے بھی دے لیکن درحقیقت وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔ کیونکہ وہ اسی میں اپنی بھلائی اور کامیابی جانتے ہیں اور دراصل یہ سب ان کے لئے انتہائی برا عذاب اور غضب الٰہی ہو گا جس کے سہنے کی ان میں طاقت نہیں ہو گی پس یہ دھوکہ حقیقتاً ان پر خود وبال ہو گا ۔ وہ جس کام کے انجام کو اچھا جانتے ہیں وہ ان کے حق میں برا اور بہت برا ہو گا ۔ ان کے کفر ، شک اور تکذیب کی وجہ سے ان کا رب ان سے ناراض ہو گا لیکن افسوس انہیں اس کا شعور ہی نہیں اور یہ اپنے اندھے پن میں ہی مست ہیں ۔ ابن جریج اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آیت ( لا الہ الا اللہ ) کا اظہار کر کے وہ اپنی جان اور مال کا بچاؤ کرنا چاہتے ہیں ، یہ کلمہ ان کے دلوں میں جا گزریں نہیں ہوتا ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں منافقوں کی یہی حالت ہے کہ زبان پر کچھ ، دل میں کچھ ، عمل کچھ ، عقیدہ کچھ ، صبح کچھ اور شام کچھ کشتی کی طرح جو ہوا کے جھونکے سے کبھی ادھر ہو جاتی ہے کبھی ادھر ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 یہاں سے تیسرے گروہ یعنی منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے...  ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا یوں اس فریب کا سارا نقصان خود انہی کو پہنچتا ہے کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کرلی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس سے پہلے پانچ آیات میں اہل ایمان اور دو آیات میں کھلے کافروں کے ذکر کے بعد منافقین کی خصلتوں کا ذکر تیرہ آیات میں فرمایا ہے، کیونکہ چھپا ہوا کفر زیادہ خطرناک اور اس کی پہچان بہت مشکل ہے۔ مَا نافیہ کی تاکید باء کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” ہرگز “ کے ساتھ کیا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Lying is contemptible (4) The verse آمَنَّا بِاللَّـهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ‌:|"We believe in Allah and in the Last Day|" shows us how disgusting it is to tell a lie - even the hypocrites, with all their hostility to Islam, tried to refrain from it as far as possible. In claiming to be Muslims, they used to mention only their faith in Allah and in the Day of Judgment, but left out the faith in th... e Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) for fear of telling a lie.  Show more

خلاصہ تفسیر : اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخری دن پر حالانکہ وہ بالکل ایمان والے نہیں (بلکہ) چالبازی نہیں کرتے بجز اپنی ذات کے اور وہ اس کا شعور نہیں رکھتے (یعنی اس چالبازی کا انجام بد خود اپنے ہی کو بھگتنا پڑے گا) ان کے دلوں میں بڑا مرض ہے سو اور بھی بڑھا د... یا اللہ نے ان کا مرض (اس مرض میں ان کی بداعتقادی اور اسلام اور مسلمانوں کی ترقی دیکھ کر حسد میں جلنا اور ہر وقت اپنا کفر ظاہر ہوجانے کی فکر وخلجان سب داخل ہیں مسلمانوں کی ترقی سے ان کا مرض حسد اور بڑہنا واضح ہے) اور ان کے لئے سزائے دردناک ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے (یعنی ایمان کا جھوٹا دعویٰ کیا کرتے تھے) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ مت فساد کرو زمین میں تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح ہی کرنے والے ہیں ان کی دو رخی روش سے جب فتنے فساد واقع ہونے لگے اور کسی خیرخواہ نے فہمائش کی کہ ایسی کاروائی موجب فساد ہوا کرتی ہے اس کو چھوڑ دو تو اس کے جواب میں یہ اپنے آپ کو بجائے مفسد کے مصلح بتاتے ہیں یعنی اپنے فساد ہی کو اصلاح سمجھتے ہیں) یاد رکھو بیشک یہی لوگ مفسد ہیں لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے (یہ تو ان کی جہالت اور غباوت کا بیان ہے کہ اپنے عیب ہی کو ہنر سمجھتے ہیں آگے دوسری جہالت کا بیان کہ دوسروں کے ہنر کو یعنی ایمان خالص کو عیب اور حقیر سمجھتے ہیں) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی ایسا ہی ایمان لے آؤ جیسا ایمان لائے ہیں اور لوگ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم ایمان لاویں گے جیسا ایمان لے آئے ہیں یہ بیوقوف یاد رکھو کہ بیشک یہی ہیں بیوقوف لیکن اس کا علم نہیں رکھتے ( یہ منافق ایسی کھلی ہوئی بات بظاہر غریب مسلمانوں کے سامنے کرلیتے ہوں گے جن سے ان کو کوئی اندیشہ نہ تھا ورنہ عام طور پر تو وہ اپنے کفر کو چھپاتے پھرتے ہیں ( اور جب ملتے ہیں وہ منافقین ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب خلوت میں پہنچتے ہیں اپنے شریر سرداروں کے پاس بیشک تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مسلمانوں سے صرف استہزا کیا کرتے ہیں (یعنی ہم مسلمانوں سے بطور تمسخر کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں ورنہ ہم تو تمہارے ہم مشرب ہیں آگے ان کے استہزا کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی استہزاء کر رہے ہیں ان کے ساتھ اور ڈھیل دیتے چلے جاتے ہیں ان کو کہ وہ اپنی سرکشی میں حیران و سرگرداں ہو رہے ہیں (وہ اللہ کا استہزاء یہی ہے کہ ان کو مہلت دی جارہی ہے جب وہ خوب کفر میں کامل ہوجاویں اور جرم سنگین ہوجاوے اس وقت اچانک پکڑ لئے جاویں گے اس کو استہزاء کے عنوان سے تعبیر کردیا گیا) یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے گمراہی لے لی بجائے ہدایت کے تو نفع بخش نہ ہوئی ان کی یہ تجارت اور نہ یہ ٹھیک طریقہ پر چلے (یعنی ان کو تجارت کا سلیقہ نہ ہوا کہ ہدایت جیسی قیمتی چیز کے بدلہ میں گمراہی لے لی) ان کی حالت اس شخص کی حالت کے مشابہ ہے جس نے کہیں آگ جلائی ہو پھر جب روشن کردیا ہو اس آگ نے اس شخص کے گردا گرد کی سب چیزوں کو ایسی حالت میں سلب کرلیا ہو، اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی کو اور چھوڑ دیا ہو ان کو اندھیروں میں کہ کچھ دیکھتے بھالتے نہ ہوں (تو جس طرح یہ شخص اور اس کے ساتھی روشنی کے بعد اندھیرے میں رہ گئے اسی طرح منافقین حق واضح ہو کر سامنے آجانے کے بعد گمراہی کے اندھیرے میں جا پھنسے اور جس طرح آگ جلانے والوں کی آنکھ، کان، زبان، اندھیرے میں بیکار ہوگئے اسی طرح گمراہی کے اندھیرے میں پھنس کر ان کی یہ حالت ہوگئی کہ گویا وہ) بہرے ہیں گونگے ہیں، اندھے ہیں سو یہ اب رجوع نہ ہوں گے، (کہ ان کے حواس حق کو دیکھنے سننے سمجھنے کے قابل نہ رہی، یہ مثال تو ان منافقین کی تھی جو خوب دل کھول کر کفر پر جمے ہوئے ہیں کبھی ایمان کا دھیان بھی دل میں نہیں آتا، آگے منافقین کے اس گروہ کی مثال ہے جو فی الواقع تردد میں تھے کبھی کبھی اسلام کی حقانیت دیکھ کر اس کی طرف مائل ہونے لگتے پھر جب اغراض نفسانی کا غلبہ ہوتا تو یہ میلان بدل جاتا تھا) یا ان منافقوں کی ایسی مثال ہے جیسے آسمان کی طرف سے بارش ہو اس میں اندھیری بھی ہو اور رعد برق بھی ہو جو لوگ اس بارش میں چل رہے ہیں وہ ٹھونسے لیتے ہیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں کڑک کے سبب اندیشہ موت سے، اور اللہ تعالیٰ احاطہ میں لئے ہے کافروں کو برق کی یہ حالت ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ان کی بنیائی اس نے لے لی جہاں ذرا ان کو بجلی کی چمک ہوئی تو اس کی روشنی میں چلنا شروع کردیا، اور جب ان پر تاریکی ہوئی پھر کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور اگر اللہ تعالیٰ ارادہ کرتے تو ان کے کان اور آنکھ سب سلب کرلیتے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں (تو جس طرح یہ لوگ کبھی طوفان بادو باراں میں کبھی چلنے سے رہ جاتے ہیں کبھی موقع پاکر آگے چلنے لگتے ہیں یہی حال ان متردود منافقین کا ہے) (٤) جھوٹ ایک گھناؤ نی چیز ہے : یہاں منافقین کے قول اٰمَنَّا باللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِر میں غور کیجئے کہ یہ لوگ پرلے درجے کے کافر ہونے کے باوجود اپنی دانست میں جھوٹ بولنے سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ دعوٰی ایمان کے لئے صرف اللہ اور روز قیامت پر ایمان کا ذکر کرتے ہیں ایمان بالرسول کا ذکر اس لئے نہیں کرتے کہ جھوٹ نہ ہوجائے اس سے معلوم ہوا کہ جھوٹ ایسی گندی اور گھناؤ نی چیز ہے کہ کوئی شریف آدمی خواہ کافر، فاسق ہو جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتا، یہ دوسری بات ہے کہ ان کا دعویٰ ایمان باللہ وبالیوم الآخر بھی قرآنی اصطلاح کے خلاف ہونے کی وجہ سے نتیجۃً جھوٹ ثابت ہوا،   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 2 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۝ ٨ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِ... رَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اللہ تعالیٰ نے منافقین کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ان کے متعلق خبر دی ہے کہ وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ ان کا عقیدہ ایمان کا نہیں ہوتا اور اپنے بھائی بندوں یعنی شیاطین کے سامنے کفر کا اظہار کرتے ہیں، چناچہ ارشاد ہے : ومن الناس من یقول امنا باللہ والیوم الاخروما ھم بمئومنین ... (اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں) نیز : یخادعون اللہ والذین امنوا (وہ اللہ اور اہل ایمان کو دھوکا دیتے ہیں) تاقول باری : واذا لقوا الذین امنوا قالوا امنا واذا خلوا الی شیاطینھم قالوا انا معکم انما نحن مستھزئون (اور جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لے آئے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہا رہ جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ان لوگوں کے ساتھ محض مذاق کر رہے ہیں) اس آیت سے ایسے زندیق کی تو یہ تسلیم کرلینے پر استدلال کیا جاتا ہے جس کے افعال و اقوال سے اس کے چھپے ہوئے کفر کا پتہ چلا ہو ۔ لیکن پھر اس نے ایمان کا اظہار کیا ہو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے چھپے ہوئے کفر کی خبر دے کر انہیں قتل کردینے کا حکم نہیں دیا، بلکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا ظاہر قبول کرلینے کا امر فرمایا اور ان کا باطن، نیز ان کے عقیدے کی خرابی کا معاملہ جس کا علم اللہ کو تھا اللہ کے حوالے کردینے کا حکم دیا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ زیر بحث آیات کا نزول قتال کی فرضیت کے بعد ہوا تھا کیونکہ یہ آیتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں اور مشرکین سے قتال کی فرضیت ہجرت کے بعد ہی ہوگئی تھی۔ ان آیات کے نظائر سورة برأت اور سورة محمد ((صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نیز دیگر سورتوں میں موجود ہیں جہاں منافقین کا ذکر کر کے ان کا ظاہر قبول کرلینے اور انہیں ان تمام مشرکین کے احکام پر محمول نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کے ساتھ ہمیں قتال کرنے کا حکم ملا ہے۔ جب ہم ان نظائر کی تفسیر پر پہنچیں گے تو وہاں ان کے احکام بھی بیان کریں گے اور زندیق (بےدین اور باطنی طور پر کافر ) کے بارے میں اہل علم کے اختلاف اور ان کے استدلال کا ذکر بھی کریں گے۔ ایک شخص کے ظاہر کو قبول کرلینے کی بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے واضح ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں، یعنی کلمہ توحید کا اقرار نہ کرلیں۔ جب وہ یہ کہہ دیں گے تو وہ مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے اموال محفوظ کرلیں گے۔ البتہ کسی حق کے بدلے ان کی جان اور مال پر گرفت ہو سکے گی اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ “ حضرت اسامہ ایک جنگ کے اندر کسی شخص پر نیزے سے حملہ آور ہوئے۔ اس شخص نے لا الہ الا اللہ کا کلمہ پڑھا، لیکن اس کے باوجود حضرت اسامہ نے اسے قتل کر دای۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی اطلاع لمی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ ‘ یعنی ایسے شخص کو اس کے ظاہر پر حمول کرنا چاہیے تھا اور اس کے باطن کو نظر انداز کردینا چاہیے تھا کہ باطن کا حال جاننے کے لئے ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری : ومن الناس من یقول امنا باللہ والیوم الاخر وما ھم بمئومنین۔ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اعتقاد کے بغیر اقرار کا نام ایمان نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اقرار بالا یمان کی خبر دے کر : وما ھم بمئومنین کے ذریعے ان سے ایمان کی علامت کی نفی کردی۔ مجاہد سے مروی ہے کہ سورة بقرہ کی ابتدا میں چار آیتیں اہل ایمان کی تعریف میں ہیں، دو آیتیں کافروں کے بارے میں ہیں اور تیرہ آیتیں منافقین کے متعلق ہیں۔ نفاق ایک شرعی اسم ہے اور اسے ان لوگوں کی علامت قرار دیا گیا ہے جو ایمان کا اظہار کرتے اور کفر چھپائے رکھتے ہیں۔ اس اسم کے ساتھ منافقین کو اس بنا پر مخصوص کردیا گیا ہے تاکہ نفاق کے معنی اور اس کے حکم پر دلالت ہو سکے ۔ خواہ حقیقت کے اعتبار سے یہ مشرکین کیوں نہ ہوں اس لئے کہ یہ لوگ شرک کا کھلم کھلا اظہار کرنے والوں سے احکام کے اندر مختلف تھے۔ لغت میں لفظ نفاق :” نا فقاء الیربوع (جنگلی چوہے کے پوشیدہ بلوں میں سے ایک بل) سے ماخوذ ہے جب شکاری جنگلی چوہے کو پکڑنا چاہتا ہے تو وہ ایک بل میں داخل ہو کر شکاری کو جل دے کر دوسرے بل سے نکل بھاگتا ہے ۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) یہ لوگ یہود میں سے کعب بن اشرف، حیی بن اخطب اور جدی بن اخطب ہیں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مکہ مکرمہ کے مشرکین عتبہ، شیبہ، اور ولید مراد ہیں، یہ لوگ علانیہ اور ظاہری طور پر ایمان لاتے ہیں اور ہمارے ایمان باللہ اور بعث بعد الموت (مرنے کے بعد اٹھائے جانے) جس میں اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تصدیق کرت... ے ہیں، مگر قلبی طور پر وہ مومن نہیں اور اپنے ایمان لانے کے دعوے میں سچے نہیں ہیں۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ) یہاں ایک بات سمجھ لیجیے ! اکثر و بیشتر مفسرین نے اس تیسری قسم (category) کے بارے میں یہی رائے قائم کی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے ‘ اگرچہ یہاں لفظ منافق یا لفظ نفاق نہیں آیا۔ لیکن مولانا ام... ین احسن اصلاحی صاحب نے اس کے بارے میں ایک رائے ظاہر کی ہے جو بڑی قیمتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے ‘ غور کرنے والے غور کرلیں ‘ دیکھ لیں کہ وہ کس پر چسپاں ہو رہا ہے۔ اور جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں تو ان میں شخصیات کی کردار نگاری کا یہ جو نقشہ کھینچا جا رہا ہے یہ بالفعل دو طبقات کے اوپر راست آ رہا تھا۔ ایک طبقہ علماء یہود کا تھا۔ وہ بھی کہتے تھے کہ ہم بھی اللہ کو مانتے ہیں ‘ آخرت کو بھی مانتے ہیں۔ (اسی لیے یہاں رسالت کا ذکر نہیں ہے۔ ) وہ کہتے تھے کہ اگر سوا لاکھ نبی آئے ہیں تو ان سوا لاکھ کو تو ہم مانتے ہیں ‘ بس ایک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم نے نہیں مانا اور ایک عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نہیں مانا ‘ تو ہمیں بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہاں جس انداز میں تذکرہ ہو رہا ہے اس سے ان کا کردار بھی جھلک رہا ہے اور روئے سخن بھی ان کی طرف جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے دسویں جماعت کے زمانے میں دہلی میں میں نے جوتوں کی ایک دکان پر دیکھا تھا کہ ایک بہت بڑا جوتا لٹکایا ہوا تھا اور ساتھ لکھا تھا : Free to Whom it Fits. یعنی جس کے پاؤں میں یہ ٹھیک ٹھیک آجائے وہ اسے مفت لے جائے ! تو یہاں بھی ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔ اب یہ کردار جس کے اوپر بھی فٹ بیٹھ جائے وہ اس کا مصداق شمار ہوگا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ زیادہ تر مفسرینّ کی رائے تو یہی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے۔ لیکن یہ کردار بعینہٖ یہود کے علماء پر بھی منطبق ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ مدینہ منورہ میں نفاق کا پودا ‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ جو پروان چڑھا ہے وہ یہودی علماء کے زیراثر پروان چڑھا ہے۔ جیسے جنگل کے اندر بڑے بڑے درخت بھی ہوتے ہیں اور ان کے نیچے جھاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔ تو یہ نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ دراصل یہودی علماء کا جو بہت بڑا پودا تھا اس کے سائے میں پروان چڑھا ہے اور ان دونوں میں معنوی ربط بھی موجود ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

(١٠) سورت کے شروع میں مومنوں کے اوصاف اور ان کا انجام خیر بیان فرمایا گیا، پھر ان لوگوں کا ذکر ہوا جو کھلے کافر ہیں، اب یہاں سے ایک تیسرے گروہ کا بیان ہورہا ہے جسے منافق کہا جاتا ہے یہ لوگ ظاہر میں تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے مگر دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(8 ۔ 20): ٨۔ ٢٠۔ شروع سورة سے یہاں تک چار آیتوں میں خالص مومنوں کا ذکر تھا۔ اور پھر دو آیتوں میں کافروں کا اب ان تیرہ آیتوں میں منافقوں کا ذکر ہے۔ منافق وہ ہے جو زبان سے اچھی بات کہے اور دل میں اس کے بدی ہو۔ منافقوں کا ذکر قرآن شریف میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ میں آنے کے بعد ... شروع ہوا ہے۔ ہجرت سے پہلے جس قدر حصہ قرآن شریف کا مکہ میں اترا ہے اس میں منافقوں کا ذکر اس واسطے نہیں ہے کہ مکہ میں یا کھلم کھلا مسلمان تھے یا کافر۔ منافق لوگ وہاں نہیں تھے کیونکہ مکہ میں کفار کا غلبہ تھا جس کے سبب سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے ہجرت کا حکم ہوا۔ اس اپنے غلبہ کے سبب سے وہاں کے کافر اپنی اصلی حالت پر تھے۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں ہجرت کر کے آئے اور اہل اسلام کی جماعت اور قوت بڑھی تو اہل مدینہ میں سے جن کی قسمت میں اللہ تعالیٰ نے اسلام لکھا تھا وہ تو خالص مسلمان ہوگئے لیکن ایک جماعت اہل مدینہ کی ان ان یہود سے میل جول رکھتی تھی جو مدینہ کے گرد نواح میں رہتے تھے ان یہود کے بہکانے سے یہ اہل مدینہ میں کے کچھ لوگ مسلمانوں کی قوت اور شوکت دیکھ کر جب مسلمانوں سے ملتے تو اپنا جان و مال بچانے کے لئے مسلمانوں کے رو برو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے اور جب اپنے ساتھیوں سے ملتے تو کہتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم تو دل لگی کے طور پر اپنے اوپر اسلام ظاہر کردیتے ہیں۔ انہیں لوگوں کی دغا بازی ظاہر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ یہ لوگ دغاباز ہیں اور ان کی دغا بازی انہیں کی عقبیٰ خراب کرے گی اور مسلمانوں کو یہ کیا کم عقل بتاتے ہیں انہیں کی عقلوں میں فتور ہے کہ اپنی عقبیٰ خراب کر رہے اور مسلمانوں کی شوکت کی ترقی روز بروز دیکھ کر ان کے دلوں میں دورنگی اور نفاق کا مرض جو روزبروز بڑھتا جاتا ہے اور انہیں کا آخر کار دوزخ دکھاوے گا۔ اور کسی کو اس سے کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ اور یہ لوگ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم تو یہود سے اس غرض سے ملتے ہیں کہ آپس میں ایک طرح کا میل ملاپ رہے۔ کسی فساد کی نیت سے ہم یہ کام نہیں کرتے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ دین کے مخالف لوگوں سے میل جول رکھنا ہی ایسی بات ہے کہ اس سے ایک نہ ایک دن ضرور کوئی فساد کھڑا ہوجاوے گا غرض یہ لوگ خرابی عقبیٰ کا جو سودا کر رہے ہیں اس تجارت میں ان کو سراپا نقصان ہے نفع کچھ نہیں۔ پھر ان لوگوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ صحابہ کی ایک جماعت نے فرمایا کہ پہلی مثال منافقوں کے حال سے اس طرح مطابق ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ آنے کے وقت پہلے پہل ان لوگوں نے کچھ نور ایمانی کما لیا تھا پھر نفاق کے سبب سے اسی کفر کی تاریکی میں یہ لوگ پھنس گئے۔ دوسری مثال کی مطابقت صحابہ نے منافقوں کے حال سے اس طرح بیان کی ہے کہ بجلی کی آناً فاناً چمک کی طرح مسلمانوں کے دباؤ سے کبھی ان لوگوں میں ایمان کی عارضی جھلک آجاتی ہے اور جس طرح کڑک کی آواز کے ڈر سے کوئی شخص کانوں میں انگلیاں دے کر اپنا ڈر رفع کرلیتا ہے اسی طرح اس عارضی ایمانی جھلک سے مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی جان ومال کی خیر ہوجاتی ہے لیکن اس عارضی ایمانی سے کیا ہوتا ہے۔ اس کے دلوں پر تو وہی کفر و نفاق کی گھٹا چھائی ہوئی ہے جس کے سبب سے ان کا انجام برا اور عاقبت برباد ہے۔ نفاق دو طرح کا ہے ایک تو اعتقادی جیسے اسلام کے زور کے وقت ان لوگوں میں تھا۔ دوسرا عملی۔ صحیح حدیثوں میں اس کی نشانیاں جھوٹ بولنا۔ خیانت وعدہ خلافی گالیاں بکنا۔ عہد شکنی آئی ہیں ١۔ اخیر کو اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کو یہ بھی جتلا دیا کہ اپنے جن اعضا کے بھروسہ پر یہ منافق چلاکیاں اور دغا بازیاں کرتے ہیں اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ چاہے تو ان کے اعضا کو بالکل بیکار کر دیوے۔ پھر یہ اپنے گھروں میں بالکل اپاہج بن کر بیٹھ جاویں۔ اور ان کی چالاکیاں اور دغا بازیاں ان کے آگے آجاویں۔ ترمذی میں عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رعد ایک فرشتہ ہے جو بادلوں کو ہانکتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں آگ کا کوڑا ہے۔ بادلوں کے ہانکنے میں اس کوڑے کا کوئی تس جو جھڑ جاتا ہے وہ بجلی ہے اور کڑک اس فرشتے کی آواز ہے جو بادلوں کو ہانکنے کے وقت اس کے منہ سے نکلتی ہے۔ ٢ اس حدیث کی سندیں اگرچہ کچھ کلام ہے لیکن اکثر علماء مفسرین نے رعد و کڑک و بجلی کی تفسیر اسی حدیث کے موافق کی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:8) ومن الناس۔ میں من تبعیضیہ ہے یعنی بعض ایسے بھی ہیں۔ یہ آیت عبد اللہ بن ابی سلول اور معتب بن قشیر، اور جدین قیس اور ان کے رفقاء کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں اکثر یہودی تھے۔ اور بعض منافق۔ ناس اصل میں اناس تھا۔ ہمزہ کو حذف کرکے اس کے عوض حرف تعریف یعنی الف لام لے آئے یہ جمع ہے انسان کی۔ اور ب... عض کے نزدیک جمع نہیں بلکہ اسم جمع ہے کیونکہ جمع کے اوزان میں فعال نہیں آیا ۔ یہ یا تو انس یا نس انس مصدر باب سمع سے۔ بمعنی مانوس ہونا۔ یا انس یونس ایناس (باب افعال) سے۔ مشتق ہے، جس کے معنی دور سے دیکھنا یا محسوس کرنے کے ہیں۔ چونکہ آدمی ایک دوسرے کو دکھائی دیتے ہیں اس لئے انہیں ناس کہتے ہیں۔ جس طرح جنوں کو ان کے مخفی اور پوشیدہ ہونے کی وجہ سے جن کہتے ہیں۔ من یقول : من اسم موصول یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر صلہ ہے باللہ معطوف علیہ ہے اور بالیوم الاخر معطوف۔ ای امنا باللہ وامنا بالیوم الاخر۔ وماھم بمؤمنین : واو حالیہ ہے اور جملہ مابعد جملہ حالیہ۔ ترجمہ یوں ہوگا۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو (زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے۔ حالانکہ وہ ایماندار نہیں ہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اہل ایمان اور کھلے ڈلے کفار کا ذکر نے کے بعد اس آیت میں ان منافقین کا ذکر ہو رہا ہے جو بظاہر ان کا دعوی کرتے تھے مگر حقیقت میں ان کے دل یقین و اذعان اور نور ایمان سے یکسر خالی تھے اور ان کی تمام ہمدرد دیاں کفر اور اہل کفر کے ساتھ تھیں، یہ بیان تا آخر رکوع 13 آیات میں پھیلا ہوا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 8 20 اسرارو معارف یہاں کفر کی دوسری قسم بیان ہوتی ہے جسے نفاق کہتے ہیں اور یہ اپنے ضرر کے اعتبار سے شدید تر ہے پہلی پانچ آیات میں مومنین کی تعریف ، پھر دو آیات میں کفر کی وضاحت کے بعد تیرہ آیات میں نفاق اور منافق کے حالات ارشاد ہوئے ہیں تاکہ اس کی خوب وضاحت ہوجائے جس طرح منافق ضرر میں بڑھا ہوا...  ہے اسی طرح نفاق کا عذاب بھی دوسری قسم کے کفر سے زیادہ ہوگا۔ ان المنافقین فی الدرک الاسغل من النار ، یعنی کفار سے نیچے کے دجے میں ان کو رکھا جائے گا کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں مگر وہ مومن نہیں ہیں اور مومن نہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں بھئی ! اللہ کو کیسے دھوکا دے سکتے ہیں فرمایا ، اس طرح کہ یہ اللہ کے ایماندار بندوں کو دھوکا دیتے ہیں بظاہر خودکو مسلمان کرکے بباطن ان سے دشمنی رکھتے ہیں تو اللہ کے ان مخلص بندوں سے دھوکا گویا ذات باری سے دھوکا کرنے کی کوشش ہے۔ منافق کی پہچان : والذین امنوا کا مصداق اول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کی ذوات مقدمہ ہیں تو شدید تو کافر جو تھے۔ وہ بظاہر کلمہ پڑھ لینے کے باوجود ان سے حقیقی تعلق پیدا نہ کرسکے بلکہ مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے بھلا کرتے تھے فرمایا ، ان کا یہ فعل اللہ کے بندوں کا تو کچھ بگاڑ نہیں رہا الٹا ان کے اپنے حق میں تباہی کا سبب بن رہا ہے اس طرح وہ اپنے آپ سے دھوکا کر رہے ہیں جس کا انہیں شعور نہیں۔ گویا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت یا ان کے ساتھ خلوص ہی ایمان کی دلیل ہے۔ ورنہ کلمہ پڑھنے کے باوجود منافق ہی رہے گا اور اگر ظاہراً عظمت صحابہ کا منکر ہوا تو کافر ہوجائے گا۔ یہ بات واضح ہے کہ جس میں قدر مذاہب باطلہ اسلام کی نام پر وجود میں آئے ان سب نے صحابہ کرام کو ہدف تنقید بنایا۔ ان میں خواہ منکرین حدیث ہوں یا کسی نئی نبوت کے دعویدار۔ سب کی مجبوری یہ رہی ہے کہ قرآن کریم کو اپنی پسند کے معانی پہنا کر اپنی بات بنانے کی کوشش کی جائے اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان کے مقام سے گرا نہ دیا جائے کہ ان کی زندگی ہی قرآن کی تفسیر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سیکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قرآن پاک پر عمل کرکے اپنے عمل کی صحت کی سند پائی ۔ اب اگر اسلام کے نام پر کوئی کفر کا کارخانہ قائم کرنا چاہے تو صحابہ کرام کی ذات پر اعتراض سے آغاز کرتا ہے اور یہی نفاق کی سب سے بڑی دلیل ہے بعض فرق باطلہ تو صحابہ کرام کو نہ صرف سب وشتم کا نشانہ بنایا بلکہ اس ضل شنیع کو عبادت کا درجہ دے کر مذہب کی بنیاد بنایا۔ ایسے لوگ کفر ونفاق کے جامع ہیں کہ بعض اعمال و عقائد کافرانہ رکھتے ہیں اور بعض منافقانہ۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کے دلوں میں مرض ہے فی قلوبھم مرض۔ اور مریض دل شربت محبت پینے کی استعداد نہیں رکھتا بلکہ اس میں صد اور بغض کی عفونت پیدا ہوتی ہی اور مخالفت مومنین دن بدن بڑھتی جاتی ہے فزادھم اللہ مرضا۔ اہل اللہ سے عداوت گویا خود اللہ سے عداوت ہے اور اگر تو بدنصیب نہ ہو تو یہ مرض بڑھتا رہتا ہے جو ہلاکت وتباہی پر منتج ہوتا ہے۔ اے کاش ! بدن کی فکر کرنے والا انسان کبھی اپنے قلب اور اس کی صحت کی فکر بھی کرلیتا۔ کسی ایسے حکیم کو بھی تلاش کرتا جو دلوں کو منور کرتا ہو اور ان کی اصلاح کے فن سے آشنا ہو جب قلبی امراض کا یہ حال رہا تو پھر ولھم عذاب الیم بما کانو لکذبون۔ فرمایا ان لوگوں کے لئے اتنا بڑا جھوٹ بولنے کی وجہ سے بہت دردناک عذاب ہے گویا ایمان و عمل کی کسوٹی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔ اگر ان سے اختلاف کرتے ہوئے کوئی بزعم خود بہت بڑی نیکی بھی کررہا ہے تو عنداللہ وہ صرف نامقبول ہی نہیں بلکہ منافقت کا درجہ رکھتی ہے اور اس پر عذاب الیم مرتب ہوگا۔ واذ قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالو انما نحن مصلحون الا انھم ھم المفسدون ولکن لا یشعرون۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد پیدا نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح چاہتے ہیں۔ اس آیہ کریمہ نے اصلاح و فساد کا معیار مقرر فرمادیا ہے اگر حدودمتعین نہ ہوں تو کوئی ڈاکو بھی خود کو فساد ہی نہیں کہتا بلکہ اپنی حرکات کا جواز تلاش کرتا ہے مگر یوں کسی کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اس کائنات کا خالق خود فیصلہ نہ فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جو اندرونی اور باطنی طور پر دین حق سے اختلاف رکھتے تھے فسادی کہا ہے۔ فساد کی حقیقت : یعنی اصلاح نام ہے قول و فعل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تعامل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا خواہ عبادات ہوں یا معاملات ، ہر حال میں جو بات ان کے مخالف ہو ہوئی وہ فساد ہوگا جیسے صبح کی دو رکعت فرض ہیں تو اگر کوئی ایک پڑھے تو باطل اگر تین پڑھے تو بھی باطل۔ یہ تیسری رکعت بھی پہلی دو کے لئے مفسد ہوگی یعنی تمام بھلائی ، تمام خوبصورتی تمام حسن اور ساری اصلاح کا معیار ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ جو شخص کسی کام میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اختلاف کرنے والا ہوگا وہ فساد پیدا کرنے والا ہوگا۔ آپ دیکھیں ! دنیا میں کس قدر مشاہیر گزرے ہیں ہر قوم میں ایسے افراد موجود ہیں جن پر قوموں کو ناز ہے مگر ایسے کتنے ہیں جن کا قول قول فیصل ثابت ہوا ہو۔ ایک بھی نہیں قانون اور ضابطے بناتے ہیں پھر خود ہی ان میں ترامیم کرتے ہیں۔ اور یہی اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ اس میں خامی موجود ہے اور اصلاح کی ضرورت باقی ہے صرف ایک ہستی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے جس نے آج سے چودہ صدیاں پیشتر ایک طرز حیات ایک قانون ایک معاشرت اور ایک ضابطہ عطا فرمایا۔ ایسا کامل ، ایساجامع جسے نہ زمانہ فرسودہ کرسکا اور نہ کوئی بدتر اس سے بہتر تدبیر کرسکا یعنی جس کام کو جس طح سے کرنے کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا وہی اس کی بہترین صورت ہے اس سے بہتر کبھی نہ ہوگا بلکہ اختلاف پیدا کرنے والا بگاڑ پیدا کرکے مفسد کہلائے گا خواہ اپنے زعم باطل میں وہ کتنا ہی اچھا کررہا ہو۔ اسی بات کو آپ اس طرح دیکھیں کہ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عملاً کیا تو گویا صحابہ کرام کا عمل کسی بھی کام کی انتہائی خوبصورت شکل ہے اور اس کا مخالف مفسد یہی اصلاح و فساد کا معیار ہے ورنہ تو منافق بھی کہتے ہیں کہ جی ہم تو اصلاح چاہتے ہیں۔ اللہ کریم فرماتے ہیں خبردار ! خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن ان میں شعور نہیں کہ ہر کام کرنے سے دو طرح کا اثر مرتب ہوتا ہے ایک ظاہری اور فانی اور دوسرا باطنی اور ابدی۔ بظاہر حرام کھانے سے پیٹ بھر جاتا ہے اور کوئی ضروری نہیں کہ بدہضمی کی شکایت پیدا ہو مگر بباطن ایک ظلمت اور تاریکی پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف دل کو سیاہ کردیتی ہے بلکہ اپنی حد تک ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے اسی طرح ہر فعل جو سنت کے مطابق ہو ، نور پیدا کرتا ہے اور ماحول میں نورانیت اور نیکی کا سبب بنتا ہے مگر خلاف سنت فعل سے ظلمت پیدا ہو کر ماحول اور معاشرے میں تباہی پھیلانے کا بب بنتی ہے اور یہی فساد فی الارض ہے جسے جہلا اپنی طرف سے اصلاح کا نام کے کر کرتے ہیں مگر نام بدلنے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ واذقیل لھم امنوا ، اور جب ان سے کہا جائے کہ بھئی ! اس طرح ایمان لائو جس طرح یہ سب لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں ہم ان بیوقوفوں کی طرح ماننے سے رہے۔ یہ ہے باطنی تاریکی کا اثر جو بالآخر نوک زبان تک آہی گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم کیسے ایماندار ہو تمہارے اعمال اس کی شہادت نہیں دے رہے ہیں ان اور لوگوں یعنی صحابہ کرام کو دیکھو تو یہ کس طرح ایمان لائے ہیں تم بھی اسی طرح ایمان لائو اور انہی کی طرح عمل کرو تو کہتے ہیں یہ تو بیوقوف لوگ ہیں عقل سے کام ہی نہیں لیتے ہم ان کی طرح کیسے ہوجائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی مانیں گے اور کام عقل کے مطابق کریں گے ۔ بھئی دنیا میں بھی رہنا ہے ، آخر فرمایا ، یہی سب سے بڑی بےقوفی ہے کہ یہ اپنی عقل کو رہنما بناتے ہیں حالانکہ منصب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے اور حقیقی عقلمند وہی ہے۔ جس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مقابلے میں اپنی عقل کو لاشے جانا اور عقلمندی اتباع میں سمجھی کہ اختلاف حقیقتاً بےعقلی ہے ان سے اختلاف رکھنے والے خواہ عقائد میں ہوں یا اعمال میں بےعقل ہیں اور بےعلم بھی ہیں کہ علم نام ہے حق کو جاننے کو ایسے علوم جو حق سے آگاہ نہ کرسکیں حقیقتاً بےعقلی ہے ان سے اختلاف رکھنے والے خواہ عقائد میں ہوں یا اعمال میں بےعقل ہیں اور بےعلم بھی ہیں کہ علم نام ہے حق کو جاننے کا ایسے علوم جو حق سے آگاہ نہ کرسکیں حقیقتاً جہالت کا درجہ رکھتے ہیں۔ علمے کہ راہ حق نہ نماید جہالت است واذالقوالذین امنوا۔ ان کا حال یہ ہے کہ جب مومنین سے ملتے تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے سرداروں کے پاس جاتے ہیں ، تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو ٹھٹھہ کر رہے تھے۔ یہاں منافقین کا حال تو بیان ہو ہی رہا تھا اللہ کریم نے ان کے سرداروں یا پیشرئوں کو ” شیاطین “ کا نام دیا ہے کہ جب اپنے شیطانوں کے پاس لوٹتے ہیں یعنی جو لوگ دین حق کے خلاف کوئی راہ نکالتے اور اس پر لوگوں کو چلانے کی سعی کرتے ہیں وہ بھی شیاطین ہیں۔ اللہ یستھزبھم اللہ کریم انہیں ذلیل کرتا ہے ایسے الفاظ جب ذات باری کی طرف منسوب ہو تو معنی بعیدمراد ہوتا ہے وہ معنی جو اس فعل کا نتیجہ ہو۔ جس سے ٹھٹھہ کیا جائے حقیقتاً مراد اس کو ذلیل کرنا ہوتا ہے تو اللہ ان کو اس طرح ذلیل کرتا ہے کہ انہیں اور ڈھیل دیتا ہے اور وہ گمراہی میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں بظاہر حیات دنیوی پر خوش ہیں کہ ہم نے خوب دائو لگایا کہ دعویٰ مسلمانی کا کرکے جس قدر فوائد ممکن تھے اسلام سے حاصل کئے اور جہاں قربانی دینے کا وقت آیا ہم جان بچا گئے۔ یہ لوگ اس حقیقت کو پا ہی نہیں سکتے۔ کہ حقیقی فائدہ قربانی ہی میں ہے اور کس قدر عظیم ہے وہ انسان جس کے اوقات ، جس کی قوتیں ، جس کی دولت اللہ پر نچھاور ہو۔ یہ منافق تو ایسے لوگ ہیں کہ جنہوں نے ہدایت دے کر گمراہی خریدی اولئک الذین اشترو الضلالۃ فماربحت تجارتھم وما کانوا مہتدین۔ گمراہی اور ہدایت ایک دوسرے کی ضد ہیں ان میں سے ایک حاصل ہوئی تو دوسری کی رخصت کردے گی انسان کی ضرورت ہے ہدایت کی صحیح راستے کی اب جو کوئی گمراہی اختیار کرے گا تو اس نے ہدایت چھوڑ دی۔ یہاں آج کے بےعمل معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ عمل دین کے خلاف کرتے ہیں اور خود کو ہدایت پر بھی جانتے ہیں گویا دونوں جمع کر رکھی ہیں جو محال ہے۔ یہ لوگ بھی ہدایت چھوڑ کر سخت خسارے میں رہے ان کی یہ تجارت انہیں قطعاً کوئی نفع نہیں دے سکتی بلکہ ان کی مثال تو ایسے ہے جیسے کچھ افراد جنگل وخرابے میں رات کی ہولناک تاریکی میں گھر گئے ہیں اور اندھیرے سے گھبرا کر انہوں نے آگ جلائی جب آگ نے ماحول روشن کیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کرلی۔ مثلھم کمثل الذی استوقد ناراً…لایرجعون۔ انسان طبعاً ہدایت کا طلب ہے جب بعثت نبوی سے قبل سخت ظلمت و تاریکی چھارہی تھی تو سب لوگ گھبرا اٹھے اور چاہتے تھے کہ کوئی اعلیٰ صورت حال پیدا ہو تو وحی الٰہی ایک روشنی بن کر ظاہر ہوئی اور پورے ماحول کو جگمگا دیا ، گویا اس ظلمت کدے میں روشنی ہوگئی مگر اس کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کی روشنی چھین لی اور یہ اس سے استفادہ کرنے کے قابل ہی نہ رہے ذھب اللہ بنورھم ، اب یہ ظلمت کدے میں بھٹکے رو گئے کہ دیکھ ہی نہیں سکتے نہ صرف دیکھ نہیں سکتے بلکہ آنکھ کے ساتھ کان اور زبان بھی گئے تو ان کا لوٹ کر آنا کیسے ممکن ہے گویا گمراہی سے واپس کی راہ ہی مسدود ہوگئی اب وہ اس سے باز نہیں آتے۔ یا پھر ان کی مثال ایسی ہے جیسے سخت بارش ہو اوکصیب من السماء جس میں آندھی مرہی نہ جائیں۔ حال یہ ہے کہ ان کی یہ بودی تدبیر بھلا انہیں اللہ کی گرفت سے کیسے بچا سکتی ہے۔ اللہ تو ہر حال میں کافروں کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے یعنی یہ ہمہ وقت اس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اب چمک ایسی ہے کہ آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ جب ذرا چمک ہوتی تو وہ قدم چل پڑے پھر جب تاریکی چھاگئی تو کھڑے کے کھڑے رہ گئے جیسے اندھیری سخت بارش میں بادلوں کی گھن گرج میں پھنسے ہوئے مسافر ہوں۔ انسانیت کی حالت یہی تھی جس میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بجلی کی روشنی کی طرح چمکے اور بھٹکی ہوئی انسانیت کی راہنمائی فرماتی یہ منافقین جب کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ان کا دل بھی نیکی کی طرف مائل ہوتا ہے مگر جب اپنی فطری تاریکی کا اثر ہوتا ہے تو اس گمراہی کے گڑھے میں کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے آنکھ کان سب چھین لیتا کہ جب انہوں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انصاف کی نگاہ سے نہ دیکھا تو ان کے پاس آنکھ ہی کیوں رہے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات نہیں سنتے تو کان کی نعمت سے فائدہ ہی کیوں اٹھائیں اور اللہ اس سب پر قادر ہے۔ یہ دنیا دار ابتلا ہے ایک معین وقت تک فرصت ہے کہ انسان بااختیار خود اگر ہدایت پر چلے تو بہتر نہ جیسے چاہے زندگی بسر کرے مگر آخرت میں ایسے لوگوں سے یہ چیزیں واقعی چھن جائیں گی اور میدان حشر میں اس حال میں کھڑے ہوں گے کہ اندھے ہوں گے ، کان ضائع ہوچکے ہوں گے اور بات کرنے کی توفیق سلب بلکہ دوزخ گدھوں کی طرح چلائیں گے یہ اعمال کا وہ اثر ہوگا جو ظاہر بین نکاہ سے پوشیدہ ہے اللہ ہم سب کو اس سے امان میں رکھے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 8 تا 16 (الناس): لو گ ، انسان، آدمی۔ (یقول): وہ کہتا ہے ، اردو میں اس کا ترجمہ ” امنا “ کی وجہ سے اس طرح کیا جائے گا، ” وہ کہتے ہیں۔ ” (امنا): ہم ایمان لے آئے۔ (یوم آخر): آخری دن، قیامت کا دن۔ (یخدعون): اور یخدعون کے الفاظ ” خدع “ سے بنے ہیں دھوکہ دینا، دل میں بری بات چھپا کر بظ... اہر اچھا بننے کی کوشش کرنا تا کہ دوسرے اس سے دھوکہ کھا جائیں۔ (انفس): نفس کی جمع ہے۔ جان، ذات شخصیت۔ (ما یشعرون): وہ شعور نہیں رکھتے، انہیں سمجھ نہیں ہے، بیخبر ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت میں مبتلا ہیں مگر ان کو اس کا احساس اور خبر نہیں ہے۔ (مرض): بیماری ، بیماری ایک تو وہ ہوتی ہے جو انسان کی بےاعتدالیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کو محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن عام طور پر روحانی بیماری سے انسان آنکھیں بند کئے رکھتا ہے۔ یہاں روحانی بیماری ہی مراد ہے۔ (زاد): زیادہ کیا، رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان صحابہ (رض) کو ترقی دے کر اللہ نے ان کے حسد کو اور بڑھا دیا۔ یا ان کی رسی کو اور دراز کردیا، ان کو ڈھیل دے دی۔ (الیم) : یہ لفظ الم سے بنا ہے ، دردناک ، انتہائی تکلیف دینے والیچیز۔ (یکذبون): یہ لفظ ” کذب “ سے بنا ہے جھوٹ، غلط بیانی، حقیقت کے خلاف ، نقصان پہنچانے والا، یعنی وہ جھوٹ بکتے ہیں۔ (قیل): کہا گیا، بتایا گیا۔ (فساد): تباہی ، بربادی۔ انسان زبان اور ہاتھ سے فساد مچاتا ہے، کبھی کبھی انسان فساد کرتا ہے مگر وہ اپنے خیال میں اس کو اپنا بڑا کارنامہ سمجھتا ہے۔ اللہ نے یہاں اسی سے روکا ہے۔ (مصلحون ): اصلاح کرنے والے، خیر خواہی اور بھلائی کرنے والے۔ (شعور): عقل، سمجھ۔ (انؤمن ): کیا ہم ایمان لائیں ؟ ۔ اس میں صحابہ کرام (رض) کو (نعوذ بااللہ) حقیر اور کم تر سمجھتے ہوئے ایسا کہتے تھے کہ ہم جیسے عزت اور دولت والے ان جیسے کمزوروں کی طرح ایمان لائیں۔ (السفھاء) : (سفیھ) کے معنی آتے ہیں احمق، ناسمجھ، ناعاقبت اندیش ، جو آگے کی نہ سوچتا ہو۔ (لقوا): وہ ملے، ملاقات کی۔ (خلوا): وہ تنہا ہوئے، اکیلے ہوئے۔ (مستھزءون): مذاق کرنے والے۔ (یستھزء): وہ مذاق کرتا ہے۔ وہ مذاق اڑاتا ہے۔ اس جگہ دونوں معنی لیے جاسکتے ہیں۔ (یمد): وہ کھینچتا ہے۔ (طغیان ): سرکشی کرنا، سر اٹھانا، اسی سے ہمارے ہاں یہ لفظ طغیانی کے معنی میں آتا ہے۔ ہم کہتے کہ سمندر میں طغیانی آگئی پانی اونچا اونچا ہوگیا۔ (یعمھون): عمہ اندھا بن جانا، اندھاپن۔ (الضللۃ): گمراہی ، راستہ کھو دینا، بھٹک جانا، یہ لفظ ہدایت کے بالمقابل آتا ہے ماربحت ۔ ۔۔ نفع نہ دیا، اس جگہ فمار بحت تجارتھم سے مراد ہے ان کو ان کی تجارت نفع نہ دے گی۔ تشریح : آیت نمبر 8 تا 16 جیسا کہ خلاصہ کلام میں اس بات کو بتا دیا گیا ہے کہ منافق وہ لوگ ہیں جو ظاہری طور پر مسلمان بنے رہتے ہیں۔ جو کچھ زبان سے کہتے ہیں اسے دل سے نہیں مانتے اور جو دل میں رکھتے ہیں اسے زبان پر نہیں لاتے ۔ ان کا انجام کافروں سے بھی زیادہ اندوہناک ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ ” منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے “ یعنی کافر تو اپنے کفر کی سزا کو بھگتیں گے لیکن منافق کو اس سے بھی زیادہ بڑی سزا دی جائے گی۔ ۔۔ ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک کافر اور مشرک تو اپنے کفرو شرک میں کھلا ہوا دشمن ہے اس کا حملہ اور خطرہ سامنے کی طرف سے ہوگا جس سے بچنا زیادہ آسان ہے لیکن آستین کے سانپ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں جو اس طرح ڈس لیتے ہیں کہ پتہ بھی نہیں چلتا اور دوسرے اس کے زہر سے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ۔۔ ۔ جو اپنے آپ کو ظاہری طور پر مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں لیکن پس پردہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور اپنے دھو کے اور فریب کے جال بنتے رہتے ہیں۔ اس سے بھی آگے کی بات یہ ہے کہ وہ ایمان کے لحاظ سے اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ وہ صرف اللہ کے بندوں ہی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں رکھتے بلکہ وہ اللہ کو بھی اپنے طرز عمل اور روش زندگی سے دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام کافروں سے بھی زیادہ ہیبت ناک ہونا کسی تعجب کی بات نہیں ہے۔ آج کے اس دور میں بھی اسلام اور مسلمانوں کو کافروں اور دشمنان اسلام سے اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے جتنا ان لوگوں سے ہے جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے آستین کا سانپ بنے ہوئے ہیں، وہ لوگ جو اس ” ترقی یافتہ “ دور میں چند رسمی باتوں اور تھوڑے سے من پسند عمل اور نیک کاموں کے سوا اسلام کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو ” ضروری نہیں سمجھتے “ ایسے لوگ پہلے بھی تھے، آج بھی ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ جن کا کام یہ ہے یہ ان کے ہاتھوں، زبانوں اور عمل سے سوائے فساد کے اور کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا وہ جس کو قوم کی اصلاح کا نام دیتے ہیں وہ لاشعوری یا شعوری طور پر دین و دنیا کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایمان والے، ایمان دار لوگ، نیک اور نیکیوں پر چلنے والے، دین اسلام اور مسلمانوں کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دینے والے بےوقوف، ناسمجھ، بےعقل ، ناعاقبت اندیش، دیوانے اور معاشرے کے چھوٹے لوگ شمار ہوتے ہیں (نعوذ باللہ) اس کے برخلاف وہ لوگ جو دن رات گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں، رشوت خور، جواری، شراب خور اور آخرت سے بیخبر لوگ وہ بہت اچھے اعلیٰ مقام رکھنے والے باعزت اور سمجھ دار لوگ سمجھے جاتے ہیں جن کا کام یہ ہے کہ جب وہ مجلسوں اور محفلوں میں بیٹھ کر دین کی باتیں کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کا مخلص کوئی نہیں ہے۔ لیکن جب وہ اپنے کاروبار زندگی یا تنہائیوں میں اپنے یار دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں ان کا رنگ ہی دوسرا ہوتا ہے اب وہ اسی دین کا مذاق اڑا کردیں اور دین داروں کو اپنے مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ اللہ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے کہ اللہ خود ان کی زندگیوں کو مذاق بنا دے گا لیکن ابھی ان کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگ گھاٹے کے سوداگر ہیں جو روشنیوں کو چھوڑ کر اندھیروں کو اپنا رہے ہیں اور جو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفر و نفاق کا راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ نہ ان کو اس دنیا میں کچھ ہاتھ آئے گا، نہ قبر کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں اور نہ آخرت ہی میں ان کو راحتیں نصیب ہوں گی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ایمان کی مبادیات تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں کے بیان کے بعد تیرہ آیات میں منافقوں یعنی دوغلے لوگوں کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر داعی حق کو تین قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ لہٰذا گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں ب... لکہ اس میدان کے غازی کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ نفاق : دل میں کفر اور ظاہر میں اسلام کا اظہار کرنا نفاق کہلاتا ہے۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں، اعتقادی نفاق اور عملی نفاق دونوں احکام کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ تین قسم کے لوگ : نظریاتی اعتبار سے دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ (١) حق اور سچ قبول کرنے والے۔ (٢) حق کا انکار کرنے والے (٣) ذاتی مفاد یا فکری انتشار کی وجہ سے ہمیشہ تذبذب کا شکار اور دنیوی مفاد کی خاطر اعراض کرنے والے لوگ جنہیں قرآن مجید نے منافق قرار دیا ہے۔ یہ ڈبل چہرے اور دوہرے کردار کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسا شخص نہ قول کا سچا اور نہ کردار کا پختہ ہوتا ہے۔ اسے ہر بات میں دنیا کا مفاد عزیزہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقدّس نام اور دین کے پاکیزہ کام کو بھی اپنی ذات اور مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حتی کہ آخرت کے عقیدے کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی باق محسوس نہیں کرتا۔ منافق، مومنوں کی آستینوں میں گھسے ہوئے سانپ ہیں جو ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور شرارتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب سیاق کلام تیسری تصویر اور تیسرے منظر کی طرف منتقل ہوجاتا ہے ۔ اس تیسرے نمونے کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی جاتی ہے ۔” بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت پر ایمان لائے ہیں ، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں ۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں ۔ مگر دراصل...  وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھادیا ۔ اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں ۔ اس کی پاداش میں ان کے لئے دردناک سزا ہے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپانہ کرو ، تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ´خبردار حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ۔ اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ؟ خبردار اس حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں ، مگر یہ جانتے نہیں ۔ جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ہیں اور جب علیحدگی میں ، اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کررہے ہیں ۔ اللہ ان سے مذاق کررہا ہے ، وہ ان کی رسی دراز کئے جارہا ہے اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی مگر یہ سودا ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے ، اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں ۔ ان الفاظ میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ مدینہ طیبہ کی واقعی صورتحال کی صحیح تصویر کشی ہے لیکن زمان ومکان کی حد بندیوں سے قطع نظر کرکے بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو اس قسم کے لوگ ہمیں انسانوں کی ہر نسل میں موجودنظر آتے ہیں ۔ ہر نسل میں ایسے ذی حیثیت منافق لوگ پائے جاتے ہیں جو نہ تو اپنے اندر یہ جراءت پاتے ہیں کہ حق وصداقت کو پوری طرح تسلیم کرلیں اور ایمان لے آئیں اور نہ ان میں یہ سکت ہوتی ہے کہ حق وصداقت کا صاف صاف انکار کردیں ۔ اس صورتحال کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ عوام کے مقابلے میں اپنے لئے ایک اونچی حیثیت اور رتبہ بلند بھی پسند کرتے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو جمہور عوام سے زیادہ علیم وفہیم سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا ہم ان آیات کو ہر قسم کی تاریخی مثالوں سے آزاد اور اصولی آیات سمجھتے ہیں جو ہر دور کے ان تمام لوگوں پر صادق ہیں جو منافقانہ روش اختیار کرتے ہیں ۔ غرض ان آیات میں جس نفسیاتی صورتحال کی تصویر کھینچی گئی ہے وہ ایسی صورتحال ہے کہ ہر دور میں نفس انسانی کی گہرائیوں میں موجود رہی ہے اور اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کی تاریخ اور نفاق کے اسباب جب سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے اور دین اسلام خوب پھیلنے لگا تو یہودیوں اور خاص کر ان کے علماء اور احبار کو یہ بات زیادہ کھلی اور یہ لوگ دشمنی پر اتر آئے۔ کچھ لوگ اوس اور خزرج میں سے بھی اسلام کے مخالف ہوگئے۔ اسلام کی اشاعت عام ہوجانے...  کے بعد کھل کر یہ لوگ مقابلہ نہیں کرسکتے تھے اور دشمنی کے اظہار سے بھی عاجز تھے۔ اس لیے انہوں نے یہ چال چلی کہ ظاہری طور پر اسلام قبول کرلیا، اندر سے کافر تھے اور ظاہر میں مسلمان تھے۔ ان کا سردار عبداللہ ابن ابی تھا۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے اوس اور خزرج نے عبداللہ بن ابی کو اپنا بادشاہ بنانے اور اس کو تاج پہنانے کا مشورہ کیا تھا۔ سید العالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہوتے ہوئے کسی کی سرداری نہیں چل سکتی تھی اس نے اور اس کے ساتھیوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر کے اپنے کو مسلمانوں میں شمار کرا دیا اور اندر سے اسلام کی کاٹ میں لگے رہے۔ ان کے اس طریقہء کار میں یہ راز پوشیدہ تھا کہ اسلام قبول کرنے پر جو منافع ہیں وہ بھی ملتے رہیں اور کنبے اور قبیلے سے باہر بھی نہ ہوں اور اہل کفر سے بھی گٹھ جوڑ رہے اور ان سے بھی فائدہ ملتا رہے۔ اور یہ بھی پیش نظر تھا کہ اگر العیاذ باللہ اسلام اور داعی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام اور بقا زیادہ دیر تک نہ رہے تو حسب سابق پھر سرداری مل جائے گی لہٰذا یہ اوپر سے مسلمان اور اندر سے کافر رہے اور اسلام اور داعی اسلام کی ناکامی کے انتظار میں رہنے لگے۔ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ہم مؤمن ہیں اور اس طرح سے اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے تھے۔ اور خالص کافروں سے تنہائیوں میں ملتے تھے تو کہتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ لوگ اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے لیے نمازیں بھی پڑھتے تھے لیکن چونکہ دل سے نمازی نہ تھے، اس لیے جماعتوں کی حاضری میں سستی کرتے تھے، اور اکساتے ہوئے اوپر کے دل سے نماز پڑھتے تھے جہادوں میں بھی شریک ہونے کے لیے ساتھ لگ جاتے تھے لیکن کبھی تو درمیان سے واپس آگئے اور کبھی ساتھ رہتے ہوئے ہی مکروفریب کو کام میں لاتے رہے۔ حضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو تکلیفیں پہنچانے اور دل دکھانے کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ جھوٹی قسمیں کھا کر کہتے تھے اور قسم کھا جاتے تھے کہ ہم نے تو نہیں کہا۔ ان لوگوں کے حالات سورة بقرہ کے دوسرے رکوع میں اور سورة نساء کے رکوع ٢١ میں اور سورة منافقون میں اور سورة حشر میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور سورة برأۃ میں خوب زیادہ ان کی قلعی کھولی گئی ہے۔ سیرت کی کتابوں میں ان لوگوں کے نام بھی لکھے ہیں کہ یہ کون کون تھے اور کس قبیلہ سے تھے۔ البدایہ والنہایہ اوائل کتاب المغازی ص ٣٣٦ ج ٣ تا ص ٣٤٠ میں یہودی علماء اور احبار جنہوں نے اسلام اور داعی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کھل کر مخالفت اختیار کی اور خوب زیادہ دشمنی میں لگ گئے، ان کے نام اور ان لوگوں کے نام جو یہودیوں اور اوس و خزرج میں سے منافق بنے ہوئے تھے واضح طور پر ذکر کئے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ مروت کا برتاؤ فرماتے رہے اور ان کی ایذاؤں کو سہتے رہے، آپ احسن اسلوب سے اپنی دعوت کو لے کر آگے بڑھتے رہے اور دین اسلام کو برابر ترقی ہوتی رہی۔ اس میں جہاں یہ حکمت تھی کہ شاید یہ لوگ مخلص مسلمان ہوجائیں وہاں یہ مصلحت بھی تھی کہ اگر ان کے ساتھ سختی کریں گے تو عرب کے دوسرے قبائل جو مسلمان نہیں ہوئے ہیں اور صحیح صورت حال انہیں معلوم نہیں وہ اسلام کے قریب آنے کے بجائے اور دور ہوجائیں گے۔ اور شیطان ان کو یہ سمجھائے گا کہ دیکھو محمد ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے ماننے والوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہے۔ بالآخر ایک دن وہ آیا کہ یہ لوگ سختی اور ذلت کے ساتھ مسجد نبوی سے نکال دیے گئے۔ جس کی تفصیل سیرۃ ابن ہشام (جلد ثانی کے اوائل) میں مذکور ہے۔ مذکورہ بالا آیات میں اور ان کے بعد والی چند آیتوں میں منافقین کا تذکرہ فرمایا ہے۔ اوّل تو یہ فرمایا کہ یہ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر بھی ایمان لائے۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ سرا سر جھوٹ ہے۔ یہ اہل ایمان نہیں ہیں۔ ایمان فعل قلب ہے۔ صرف زبانی دعویٰ سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہوگا۔ جب تک دل سے ان چیزوں کی تصدیق نہ کرے جو اللہ نے اپنے نبیوں کے ذریعہ بتائی ہیں اور جن پر ایمان لانے کا حکم فرمایا ہے اس وقت تک کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا۔ منافقین کے اسی دوغلے پن کو کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں۔ حالانکہ مومن نہیں۔ سورة مائدہ میں اس طرح بیان فرمایا : (مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاھِھِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُھُمْ ) (یعنی یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے مونہوں سے کہا کہ ہم ایمان لائے اور حال یہ کہ ان کے دل ایمان نہیں لائے) اس دورنگی اور دوغلے پن کو قرآن و حدیث میں نفاق اور منافقت سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں۔ ان کو منافق فرمایا گیا ہے۔ یہ کلمہ لفظ ” نَفَقْ “ سے ماخوذ ہے۔ نفق اس سرنگ کو کہتے ہیں۔ جس میں دونوں طرف سے راستہ ہو چونکہ منافقین اسلام میں ایک دروازہ سے داخل ہوتے ہیں اور دوسرے دروازہ سے نکل جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے اس عمل کا نام نفاق رکھا گیا۔ مفردات امام راغب میں ہے : و منہ النفاق و ھو الدخول فی الشرع من باب و الخروج عنہ من باب و علی ذلک نبہ تعالیٰ بقولہ ان المنافقین ھم الفاسقون ای الخارجون من الشرع۔ منافقت کفر کی بد ترین اور خبیث ترین قسم ہے۔ اس میں کفر بھی ہے، جھوٹ بھی ہے۔ دھوکہ دہی بھی ہے۔ ایسے لوگ صرف بندوں ہی کو دھوکہ نہیں دیتے بلکہ اللہ تعالیٰ کو بھی دھوکہ دیتے ہیں اور ایمان اور اہل ایمان کا مذاق بناتے ہیں اور جو کھلے کافر ہیں ان کو بھی دھوکہ دیتے ہیں ان سے کہتے ہیں کہ ہم تم میں سے ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ وہ کسی میں سے نہیں جس کو سورة نساء میں یوں بیان فرمایا ہے : (یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ) ” یعنی وہ لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کو بس تھوڑا بہت یاد کرتے ہیں، ایمان اور کفر کے درمیان مذبذب ہیں نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف “ وجہ اس کی یہ ہے کہ منافق کسی کا نہیں ہوتا وہ صرف اپنا ہوتا ہے۔ جہاں دنیا اور دنیاوی منافع دیکھتا ہے موقعہ دیکھ کر اسی طرف ہوجاتا ہے۔ اور اتنے ہی وقت کے لیے ہوتا ہے جتنے وقت تک ضرورت محسوس کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ منافق کی مثال ایسی ہے۔ جیسے بکریوں کے دو ریوڑوں کے درمیان ایک بکری ہے وہ گابھن ہونے کے لیے کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی اس ریوڑ کی طرف جاتی ہے۔ (مشکوٰۃ ص ١٧) منافقین اپنے اس عمل کو چالبازی اور ہوشیاری سمجھتے ہیں کہ ہم نے خوب اللہ تعالیٰ اور مومنین کو دھوکہ دیا اور اپنا کام نکالا۔ حالانکہ اس دھوکہ دہی اور چالبازی کا برا انجام خود انہی کے سامنے آئے گا۔ اور یہ چالبازی انہیں کے لیے وبال جان بنے گی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خوب سمجھتے ہیں حالانکہ اپنے اصل نفع اور نقصان تک کو نہیں سمجھتے۔ نفاق کا مرض بہت پرانا ہے اور اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ زمانہء نبوت کے منافقین اس مرض میں مبتلا تھے۔ جیسے جیسے اسلام آگے بڑھتا گیا منافقوں کا نفاق بھی بڑھتا رہا، مرض نفاق حسد اور حب دنیا کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، دنیا میں ایسا شخص ذلیل ہوتا ہے اور آخرت میں منافق کے لیے سخت سزا ہے۔ حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا کہ نفاق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تھا آج تو یا اسلام ہے یا کفر ہے۔ ان کا یہ ارشاد امام بخاری نے نقل کیا ہے۔ شراح حدیث نے فرمایا ہے کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ چونکہ ہم دلوں کا حال نہیں جانتے اس لیے ہم کسی مدعی اسلام کو یوں نہیں کہیں گے کہ یہ منافق ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کے منافقوں کے نفاق کا علم تھا اس لیے متعین طریقے پر ان کو منافق قرار دیا گیا، ہم ظاہر کے مکلف ہیں جو شخص کہے گا میں مسلمان ہوں، اس کو مسلمان سمجھیں گے جب تک کہ اس سے کفر کا کوئی کلمہ یا کفر کا کوئی کام صادر نہ ہو اگر کسی کے بارے میں اندازہ ہو کہ یہ ظاہر میں مسلمان بنتا ہے، اندر سے مسلمان نہیں ہے اسے منافق کہے بغیر اپنی حفاظت کریں گے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi