Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 110

سورة طه

یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِہٖ عِلۡمًا ﴿۱۱۰﴾

Allah knows what is [presently] before them and what will be after them, but they do not encompass it in knowledge.

جو کچھ ان کے آگے پیچھے ہے اسے اللہ ہی جانتا ہے مخلوق کا علم اس پر حاوی نہیں ہو سکتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ... He knows what happens to them and what will happen to them, He encompasses all creation with His knowledge. ... وَلاَ يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا but they will never encompass anything of His knowledge. This is like His statement, وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَأءَ And they will never encompass anything of His knowledge except that which He wills. (2:255) Concerning Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کردی گئی ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے ؟ اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جاسکے ؟ اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء وصلحا کی سفارش کے مستحق ہیں ؟ کیونکہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت و کیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] اس آیت میں سفارش پر عائد کردہ پابندیوں کی وجہ بیان فرما دی گئی ہے کہ لوگوں کے اعمال اور ان کے حالات جن میں وہ اعمال سرزد ہوئے اور ان کی نیتوں کا علم تو صرف اللہ کو ہے۔ دوسرے کسی کو نہیں ہوسکتا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک شخص کسی افسر کو جاکر کہے کہ آپ کا فلاں ماتحت آدمی میرا دوست ہے لہذا اس کا فلاں قصور معاف کردیجئے تو وہ جواب میں کہے گا کہ آپ واقعی میرے دوست ہیں لیکن یہ شخص پہلے جتنے قصور کرچکا اس کا آپ کو علم ہے ؟ اس کا ریکارڈ پہلے ہی بہت گندا ہے۔ لہذا اسے معاف کرنا بھی ظلم کے مترادف ہے۔ بالکل یہی اصول وہاں بھی کارفرما ہوگا یہ ممکن نہ ہوگا کہ کوئی بزرگ اللہ کے حضور یوں سفارش کرنے لگیں کہ حضور اسے معاف فرما دیں کیونکہ یہ میرا خاص آدمی ہے۔ اس طرح سفارش کے اس عقیدہ کی جڑ کٹ جاتی ہے جو عام لوگوں نے اپنی معبودوں یا پیروں سے وابستہ کر رکھا ہے کہ وہ چونکہ اللہ مقرب ہیں لہذا سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ : دیکھیے آیت الکرسی (بقرہ : ٢٥٥) کی تفسیر۔ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِهٖ عِلْمًا : ” بِهٖ “ کی ضمیر کے مرجع کے لحاظ سے اس کے تین مطلب ہوسکتے ہیں اور تینوں صحیح ہیں۔ ایک یہ کہ ” بِهٖ “ میں ” ہٖ “ ضمیر اللہ تعالیٰ کے لیے قرار دی جائے۔ معنی یہ ہوگا کہ کسی کا علم اتنا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا احاطہ کرسکے، مخلوق کا محدود علم خالق کا احاطہ کیسے کرسکتا ہے ؟ دوسرا یہ کہ یہ ضمیر ” يَعْلَمُ “ کے مصدر ” عِلْمٌ“ کے لیے قرار دی جائے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ کوئی شخص اللہ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا اور اس صورت میں یہ آیت الکرسی کے جملہ ” وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ “ کا ہم معنی ہوگا۔ تیسرا یہ ہے کہ ” ہٖ “ ضمیر ” مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ “ میں موجود ” مَا “ کی طرف لوٹ رہی ہو۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ان میں سے کسی کا علم بھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتا، جو لوگوں کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو (چاہے وہ فرشتے ہوں یا جن یا انسان یا کوئی اور) لوگوں کے اگلے پچھلے حال کا پورا علم نہیں ہے کہ جان سکیں کہ کس کے حق میں شفاعت کرنی چاہیے اور کس کے حق میں نہیں کرنی چاہیے، اس لیے شفاعت کو اللہ تعالیٰ کے اذن (اجازت) پر موقوف رکھا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو فرشتوں یا انبیاء و اولیاء اور بزرگوں کی پرستش اس امید پر کرتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا۝ ١١٠ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٠) اللہ تعالیٰ امور آخرت میں سے فرشتوں کے تمام اگلے احوال کو اور امور دنیا میں سے تمام پچھلے احوال کو جانتا ہے اور فرشتوں کا علم اس کی معلومات کا احاطہ نہیں کرسکتا مگر جس چیز کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٠ (یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا ) ” یہی بات سورة البقرۃ ‘ آیت ٢٥٥ (آیت الکرسی) میں الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ اس طرح بیان فرمائی گئی ہے : (یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْج وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ الاَّ بِمَاشَآءَج ) ” وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے ‘ اور وہ احاطہ نہیں کرسکتے اس کے علم کا کچھ بھی ‘ مگر یہ کہ جو وہ خود چاہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

86. Here the reasons for the restrictions on intercession have been stated. On the one hand, no angel, no prophet, no saint, nor anyone else knows, nor can know, the full details about the records of others. On the other hand, Allah has full knowledge of all the deeds and misdeeds of everyone and He knows who deserves pardon or punishment, and how much. If, therefore, there had been full freedom for intercession, the whole purpose of the creation of man would have become meaningless. According to this verse, the door against intercession has not been entirely closed. The righteous people will be allowed to show their sympathy for other human beings as they did in the world, but they will have to get permission for this beforehand and even then make only a right sort of recommendation.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :86 یہاں وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے ۔ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء ، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ کیسا ہے ، کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے ، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر آیا ہے ۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا موقف کیا ہے ۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے ۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں ۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا سکتی ہے ۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے ۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیاناس کر کے رکھ دے گا ۔ پھر بھلا زمین و آسمان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہو گا ، اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا لائیں گے ، درآنحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامۂ اعمال کیسے ہیں ۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور ، نافرض شناس ، رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے ، میں اس کے کرتوتوں سے واقف ہوں ، اس لیے آپ براہ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں ۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح ، معقول اور مبنی بر انصاف ہے ۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہو گا ۔ نیک بندے ، جو دنیا میں خلق خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرنے کے عادی تھے ، انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا ۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کریں گے ، اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اسی کے حق میں وہ سفارش کر سکیں گے ۔ پھر سفارش کے لیے بھی شرط یہ ہو گی کہ وہ مناسب اور مبنی برحق ہو ، جیسا کہ : وَقَالَ صَوَاباً ( اور بات ٹھیک کہے ) کا ارشاد ربانی صاف بتا رہا ہے ۔ بونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہو گی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں ، ہزاروں بندگان خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اٹھ کر سفارش کر دیں کہ حضور اسے انعام سے سر فراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:110) یعلم ما بین ایدیہم۔ میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع وہ تمام لوگ ہیں جو کہ حشر کے دن الداعی کی آواز پر اکٹھے ہوجاویں گے (آیت 108 مذکور بالا) یا بلا قید حشر جمیع الناس مراد ہیں۔ لا یحیطون بہ علما۔ میں ضمیر ہ واحد مذکر غائب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ علما تمیز ہے لا یحیطون سے یعنی ازروئے علم وہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ یا یوں کہ ان کا علم اس کی ذات وصفات کا کما حقہ ادراک نہیں کرسکتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی کسی کا علم اتنا نہیں ہے کہ اس کی ذات صفات اور معلومات کا احاطہ کرسکے۔ اس آیت کا یہ مفہوم اس صورت میں ہے جب ” ب 5“ میں 22 ہ “ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے قرار دی جائے اور اگر وہ ” مابین ایدیھم وما خلفھم “ میں ” ما “ کے لئے قرار دی جائے تو مطل یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو (چاہے وہ فرشتے ہوں یا خود انسان یا کوئی اور) لوگوں کے اگلے پچھلے حال کا پورا علم نہیں ہے کہ یہ جان سکیں کہ کس کے حق میں شفاعت کرنی چاہیے اور کس کے حق میں نہ کرنی چاہیے اس لئے شفاعت کو اللہ تعالیٰ کے اذن (اجازت) پر موقف رکھا گیا ہے اس میں ان لوگوں کے لئے سرزنش ہے جو فرشتوں یا انبیاء اولیا اور بزرگوں کی پرستش اس امید پر کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے۔ (شوکانی کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عَلْمًا) (اور ان لوگوں کا علم اس کا احاطہ نہیں کرسکتا) صاحب روح المعانی ج ١٦ ص ٢٢٥ نے اس کا ایک مطلب تو یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معلومات کو مخلوق کا علم احاطہ نہیں کرسکتا۔ اور دوسرا مطلب یہ لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اس کی صفات کمال کے ساتھ بندے پوری طرح نہیں جان سکتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 10 وہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے اگلے اور پچھلے احوال کو جانتا ہے اور مخلوق باعتبار اپنے علم کے معلومات باری تعالیٰ کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ یعنی اللہ تعالیٰ تو مخلوقات کے تمام حالات و معلومات کو جانتا ہے لیکن سب لوگ حضرت حق تعالیٰ کی معلومات کا احاطہ نہیں کرسکتے۔