The Qur'an was revealed so that the People would have Taqwa and reflect
Allah says,
وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْانًا عَرَبِيًّا
...
And thus We have sent it down as a Qur'an in Arabic,
After Allah, the Exalted, mentions that on the Day of Judgement both the good and the evil will be recompensed and there is no avoiding it, He then explains that the Qur'an was revealed as a bringer of glad tidings and a warner in the clear and eloquent Arabic language. There is no confusion or deficiency in it.
...
وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
...
and have explained therein in detail the warnings, in order that they may have Taqwa of,
This means: so that they will leave off sins, forbidden things and lewd abominations.
...
أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا
or that it may cause them to have a lesson from it.
This means: to produce acts of obedience and deeds that will bring one closer to Allah.
وعدہ حق وعید حق ۔
چونکہ قیامت کا دن آنا ہی ہے اور اس دن نیک بد اعمال کا بدلہ ملناہی ہے ، لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لئے ہم نے بشارت والا اور دھمکانے والا اپنا پاک کلام عربی صاف زبان میں اتارا تاکہ ہر شخص سمجھ سکے اور اس میں گو ناگوں طور پرلوگوں کو ڈرایا طرح طرح سے ڈراوے سنائے ۔ تاکہ لوگ برائیوں سے بچیں بھلائیوں کے حاصل کرنے میں لگ جائیں یا ان کے دلوں میں غور و فکر نصیحت و پند پیدا ہو اطاعت کی طرف جھک جائیں نیک کاموں کی کوشیش میں لگ جائیں ۔ پس پاک اور برتر ہے وہ اللہ جو حقیقی شہنشاہ ہے دونوں جہاں کا تنہا مالک ہے وہ خود حق ہے اس کا وعدہ حق ہے اس کی وعید حق ہے اس کے رسول حق ہیں جنت دوزخ حق ہے اس کے سب فرمان اور اس کی طرف سے جو ہو سراسرعدل وحق ہے ۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ آگأہ کئے بغیر کسی کو سزا دے وہ سب کے عذر کاٹ دیتا ہے کسی کے شبہ کو باقی نہیں رکھتا حق کو کھول دیتا ہے پھر سرکشوں کو عدل کے ساتھ سزا دیتا ہے ۔ جب ہماری وحی اتر رہی ہو اس وقت تم ہمارے کلام کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو پہلے پوری طرح سن لیا کرو ۔ جیسے سورۃ قیامہ میں فرمایا ( لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ 16ۭ ) 75- القيامة:16 ) یعنی جلدی کر کے بھول جانیکے خوف سے وحی اترتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے نہ پڑھنے لگو ۔ اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے تلاوت کرانا ہمارے ذمے ہے ۔ جب ہم اسے پڑھیں تو آپ اس پڑھنے کے تابع ہو جائیں پھر اس کا سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ حدیث میں ہے کہ پہلے آپ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے جس میں آپ کودقت ہوتی تھی جب یہ آیت اتری آپ اس مشقت سے چھوٹ گئے اور اطمینان ہو گیا کہ وحی الٰہی جتنی نازل ہو گی مجھے یاد ہوجایا کرے گی ایک حرف بھی نہ بھولوں گا کیونکہ اللہ کا وعدہ ہو چکا ۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ فرشتے کی قرأت چپکے سے سنو جب وہ پڑھ چکے پھر تم پڑھو اور مجھ سے اپنے علم کی زیادتی کی دعا کیا کرو ۔ چنانچہ آپ نے دعا کی اللہ نے قبول کی اور انتقال تک علم میں بڑھتے ہی رہے ۔ حدیث میں ہے کہ وحی برابر پے درپے آتی رہی یہاں تک کہ جس دن آپ فوت ہونے کو تھے اس دن بھی بکثرت وحی اتری ۔ ابن ماجہ کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا منقول ہے ( اللہم انفعنی بما علمتنی وعلمنی ما ینفعنی وزدنی علما والحمدللہ علی کل حال ) ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور آخر میں یہ الفاظ زیادہ ہیں واعوذ باللہ من حال اہل النار ۔