Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 113

سورة طه

وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا وَّ صَرَّفۡنَا فِیۡہِ مِنَ الۡوَعِیۡدِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ اَوۡ یُحۡدِثُ لَہُمۡ ذِکۡرًا ﴿۱۱۳﴾

And thus We have sent it down as an Arabic Qur'an and have diversified therein the warnings that perhaps they will avoid [sin] or it would cause them remembrance.

اسی طرح ہم نے تجھ پر عربی قرآن نازل فرمایا ہے اور طرح طرح سے اس میں ڈر کا بیان سنایا ہے تاکہ لوگ پرہیزگار بن جائیں یا ان کے دل میں سوچ سمجھ تو پیدا کرے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an was revealed so that the People would have Taqwa and reflect Allah says, وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ قُرْانًا عَرَبِيًّا ... And thus We have sent it down as a Qur'an in Arabic, After Allah, the Exalted, mentions that on the Day of Judgement both the good and the evil will be recompensed and there is no avoiding it, He then explains that the Qur'an was revealed as a bringer of glad tidings and a warner in the clear and eloquent Arabic language. There is no confusion or deficiency in it. ... وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ... and have explained therein in detail the warnings, in order that they may have Taqwa of, This means: so that they will leave off sins, forbidden things and lewd abominations. ... أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا or that it may cause them to have a lesson from it. This means: to produce acts of obedience and deeds that will bring one closer to Allah.

وعدہ حق وعید حق ۔ چونکہ قیامت کا دن آنا ہی ہے اور اس دن نیک بد اعمال کا بدلہ ملناہی ہے ، لوگوں کو ہوشیار کرنے کے لئے ہم نے بشارت والا اور دھمکانے والا اپنا پاک کلام عربی صاف زبان میں اتارا تاکہ ہر شخص سمجھ سکے اور اس میں گو ناگوں طور پرلوگوں کو ڈرایا طرح طرح سے ڈراوے سنائے ۔ تاکہ لوگ برائیوں سے بچیں بھلائیوں کے حاصل کرنے میں لگ جائیں یا ان کے دلوں میں غور و فکر نصیحت و پند پیدا ہو اطاعت کی طرف جھک جائیں نیک کاموں کی کوشیش میں لگ جائیں ۔ پس پاک اور برتر ہے وہ اللہ جو حقیقی شہنشاہ ہے دونوں جہاں کا تنہا مالک ہے وہ خود حق ہے اس کا وعدہ حق ہے اس کی وعید حق ہے اس کے رسول حق ہیں جنت دوزخ حق ہے اس کے سب فرمان اور اس کی طرف سے جو ہو سراسرعدل وحق ہے ۔ اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ آگأہ کئے بغیر کسی کو سزا دے وہ سب کے عذر کاٹ دیتا ہے کسی کے شبہ کو باقی نہیں رکھتا حق کو کھول دیتا ہے پھر سرکشوں کو عدل کے ساتھ سزا دیتا ہے ۔ جب ہماری وحی اتر رہی ہو اس وقت تم ہمارے کلام کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو پہلے پوری طرح سن لیا کرو ۔ جیسے سورۃ قیامہ میں فرمایا ( لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ 16؀ۭ ) 75- القيامة:16 ) یعنی جلدی کر کے بھول جانیکے خوف سے وحی اترتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اسے نہ پڑھنے لگو ۔ اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے تلاوت کرانا ہمارے ذمے ہے ۔ جب ہم اسے پڑھیں تو آپ اس پڑھنے کے تابع ہو جائیں پھر اس کا سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے ۔ حدیث میں ہے کہ پہلے آپ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے جس میں آپ کودقت ہوتی تھی جب یہ آیت اتری آپ اس مشقت سے چھوٹ گئے اور اطمینان ہو گیا کہ وحی الٰہی جتنی نازل ہو گی مجھے یاد ہوجایا کرے گی ایک حرف بھی نہ بھولوں گا کیونکہ اللہ کا وعدہ ہو چکا ۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ فرشتے کی قرأت چپکے سے سنو جب وہ پڑھ چکے پھر تم پڑھو اور مجھ سے اپنے علم کی زیادتی کی دعا کیا کرو ۔ چنانچہ آپ نے دعا کی اللہ نے قبول کی اور انتقال تک علم میں بڑھتے ہی رہے ۔ حدیث میں ہے کہ وحی برابر پے درپے آتی رہی یہاں تک کہ جس دن آپ فوت ہونے کو تھے اس دن بھی بکثرت وحی اتری ۔ ابن ماجہ کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا منقول ہے ( اللہم انفعنی بما علمتنی وعلمنی ما ینفعنی وزدنی علما والحمدللہ علی کل حال ) ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور آخر میں یہ الفاظ زیادہ ہیں واعوذ باللہ من حال اہل النار ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

113۔ 1 یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آجائیں۔ 113۔ 2 یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١] یعنی قرآن میں جو قیامت کے احوال اور برے اعمال کی سزائیں بتلائی گئی ہیں۔ تو ان سے مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے برے اعمال کے نتائج سے ڈر جائیں اور ان میں تقویٰ پیدا ہو اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم از کم ان کے دلوں میں کچھ سوچ ہی پیدا ہوجائے۔ ممکن ہے یہ سوچ ان کی ہدایت کا سبب بن جائے اور ان کے ذریعہ پھر دوسروں کو ہدایت ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا : ” اسی طرح “ کا اشارہ اس سورت میں مذکور آیات کی طرف ہے کہ ہم نے پورا قرآن ہی ان آیات کی طرح نازل کیا ہے۔ ” قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا “ کی تفسیر سورة یوسف (٢) میں دیکھیے۔ وَّصَرَّفْنَا فِيْهِ مِنَ الْوَعِيْدِ : یعنی بار بار اور مختلف طریقوں کے ساتھ دنیا اور آخرت میں اپنی گرفت اور عذاب سے ڈرایا ہے۔ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ۔۔ : تاکہ وہ ڈر جائیں، یا کم از کم یہ ان کے دل میں کسی طرح کی عبرت و نصیحت پیدا کر دے اور وہ سوچیں کہ پچھلی امتوں کا کیا انجام ہوا ؟ اگر ہم بھی گناہ کریں گے تو انھی کی طرح تباہ و برباد ہوں گے۔ (ابن کثیر) ” ذِكْرًا “ کی تنوین تنکیر کی وجہ سے ” کسی طرح کی نصیحت “ ترجمہ کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

۔ وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا وَّصَرَّفْنَا فِيْہِ مِنَ الْوَعِيْدِ لَعَلَّہُمْ يَتَّقُوْنَ اَوْ يُحْدِثُ لَہُمْ ذِكْرًا۝ ١١٣ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا قرآن والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء/ 78] أي : قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ( ق ر ء) قرآن القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء/ 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم/ 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء/ 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ عَرَبيُّ : الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] ، العربی واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف/ 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء/ 195] صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ وعید ومن الإِيعَادِ قوله : وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِراطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 86] ، وقال : ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] ، فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق/ 45] ، لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ [ ق/ 28] ورأيت أرضهم وَاعِدَةً : إذا رجي خيرها من النّبت، ويومٌ وَاعِدٌ: حرّ أو برد، ووَعِيدُ الفحلِ : هديره اور الا یعاد ( افعال ) بمعنی تہدید کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِراطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 86] اور ہر راستہ پر مت بیٹھا کرو کہ تم ڈراتے اور راہ خدا سے روکتے ہو ۔ اور لفظ وعید کے متعلق ارشاد ہے ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم/ 14] یہ اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور میرے عذاب سے خوف کرے ۔ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخافُ وَعِيدِ [ ق/ 45] پس جو ہمارے عذاب کی وعید سے ڈرے اس کو قرآن پاک سے نصیحت کرتے رہو ۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ وَقَدْ قَدَّمْتُ إِلَيْكُمْ بِالْوَعِيدِ [ ق/ 28] ہمارے حضور میں رود کد نہ کرو ۔ ہم تمہارے پاس پہلے ہی عذاب کی وعید بھیج چکے تھے ۔ اور محاورہ ہے ۔ یعنی ان کی زمین سے اچھی پید اوار کی امید ہے یوم واعد : بہت گر ما یا بہت سرد دن ۔ وعید الفحل : حملہ کے وقت نراونٹ کا بڑ بڑانا لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ حدث الحدوث : كون الشیء بعد أن لم يكن، عرضا کان ذلک أو جوهرا، وإِحْدَاثه : إيجاده . وإحداث الجواهر ليس إلا لله تعالی، والمُحدَث : ما أوجد بعد أن لم يكن، وذلک إمّا في ذاته، أو إحداثه عند من حصل عنده، نحو : أحدثت ملکا، قال تعالی: ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء/ 2] ، ويقال لكلّ ما قرب عهده محدث، فعلا کان أو مقالا . قال تعالی: حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف/ 70] ، وقال : لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] ، وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ( ح د ث ) الحدوث ) ( ن) کے معنی ہیں کسی ایسی چیز کو جود میں آنا جو پہلے نہ ہو عام اس سے کہ وہ جوہر ہو یا عرض اور احداث صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ محدث ( صیغہ صفت مفعول ) ہر وہ چیز جو عدم سے وجود میں آئی ہو اور کسی چیز کا احداث کبھی تو نفس شے کے اعتبار سے ہوتا ہے اور کبھی اس شخص کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ جسے وہ حاصل ہوئی ہو ۔ جیسے ۔ احدثت ملکا ) میں نے نیا ملک حاصل کیا ) چناچہ آیت کریمۃ ؛۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ [ الأنبیاء/ 2] ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے پروردگار کی طرف سے نہیں آتی ( میں اسی دوسرے معنی کے اعتبار ذکر کو محدث کہا گیا ہے اور ہر وہ قول و فعل جو نیا ظہور پذیر ہوا ہو اسے بھی محدث کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْراً [ الكهف/ 70] جب تک میں خود ہی پہل کرکے تجھ سے بات نہ کروں ۔ لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] شاید خدا اس کے بعد کوئی ( رجعت کی ) سبیل پیدا کردے ۔ ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری ) قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٣) اسی طرح اس سارے قرآن کریم کو ہم نے بذریعہ جبریل امین رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عربی زبان میں نازل کیا ہے اور قرآن کریم میں ہم نے طرح طرح سے وعدے وعید بیان کیے ہیں تاکہ یہ لوگ کفر وشرک اور فواحش سے ڈریں یا اگر یہ ایمان لے آئیں تو قرآن کریم ان کے لیے ثواب پیدا کردے یا یہ کہ اگر یہ توحید کے قائل ہوجائیں تو قرآن کریم ان کے لیے باعث عزت ہوجائے یا یہ کہ اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو عذاب کا باعث ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَہُمْ ذِکْرًا ) ” ہو سکتا ہے قرآن کی تاثیر سے ان کے اندر کوئی مثبت سوچ یا ایمان کا جذبہ پیدا ہوجائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88. This means that the Quran is full of such high themes, wise teachings and admonitions as are contained in the preceding portion of this Surah as well as in the other Surahs of the Book. 89. That is, the Arabic Quran might awaken them from their heedlessness and they might recollect the forgotten lessons and feel that they are going astray and might realize the consequences thereof.

سوْرَةُ طٰهٰ حاشیہ نمبر :88 یعنی ایسے ہی مضامین اور تعلیمات اور نصائح سے لبریز ۔ اس کا اشارہ ان تمام مضامین کی طرف ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں ، نہ کہ محض قریبی مضمون کی طرف جو اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے ۔ اور اس کا سلسلہ بیان ان آیات سے ملتا جلتا ہے جو قرآن کے متعلق آغاز سورہ اور پھر قصۂ موسیٰ کے اختتام پر ارشاد فرمائی گئی ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ’‘ تذکرہ جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ، اور وہ ذکر جو ہم نے خاص اپنے ہاں سے تم کو عطا کیا ہے ، اس شان کا تذکرہ اور ذکر ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :89 یعنی اپنی غفلت سے چونکیں ، بھولے ہوئے سبق کو یاد کریں ، اور ان کو کچھ اس امر کا احساس ہو کہ کن راہوں میں بھٹکے چلے جا رہے ہیں اور اس گمراہی کا انجام کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٣۔ ١١٥:۔ اوپر ذکر تھا کہ جس طرح اس سورت میں پہلے لوگوں کے چند قصے بیان کیے گئے ہیں اس طرح قرآن میں جگہ جگہ پچھلے انبیاء اور پچھلی امتوں کا ذکر آیا ہے تاکہ لوگ ان پڑھ رسول سے یہ غیب کی باتیں سن کر قرآن کو اللہ کا کلام اور جن پر یہ قرآن اترا ہے ان کو اللہ کا رسول جان لیں ان آیتوں میں فرمایا جس طرح قرآن میں جگہ جگہ پچھلے انبیاء اور پچھلی امتوں کا ذکر ہے اسی طرح عذاب آخرت سے ڈرانے کی آیتیں بھی اہل مکہ کی بول چال کی عربی زبان کے موافق قرآن میں جگہ جگہ ہیں تاکہ یہ لوگ عذاب آخرت کی آیتوں کو سن کر شرک سے باز آئیں اور عذاب آخرت سے بچیں اور پچھلی امتوں کے ہلاکت کے قصے سن کر اور شام کے ملک کے سفر میں قوم ثمود اور لوط کے اجڑے ہوئے مکانات کو دیکھ کر دنیا کے عذاب سے بھی ڈرتے ہیں اور یہ یاد رکھیں کہ جو شرک کی باتیں یہ لوگ کر رہے ہیں کہ بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہی اللہ کی شان ان باتوں سے بہت بلند ہے اور اس کی بادشاہت ایسی سچی ہے کہ اس میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے یہ اس کی بردباری ہے کہ وہ اپنی شان اور اپنی بادشاہت کے برخلاف باتیں ان لوگوں کی سنتا ہے اور ان پر کسی طرح کا عذاب نہیں بھیجتا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ سے بڑھ کر کون برد بار ہوسکتا ہے کہ وہ لوگوں سے اپنی شان کے برخلاف باتیں سنتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کے آرام کا انتظام قائم رکھتا ہے ١ ؎۔ سورة الزمر اور سورة المومن میں آئے گا کہ پہلا صور پھونکا جاکر جب تمام دنیا ویران ہوجائے گی تو اس ویرانی کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ یہ فرمائے گا کہ آج وہ بادشاہت کا دعویٰ کرنے والے کہاں گئے اس وقت کوئی جواب دینے والا موجود نہ ہوگا اس لیے پھر خود فرمائے گا کہ ساری بادشاہت اللہ ہی کی ہے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی بردباری اور سچی بادشاہت کا جو ذکر ہے اس کا مطلب ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت سے اور سورة الزمر اور سورة المومن کی آیتوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے قرآن شریف میں لفظ وہی ہیں جو اہل مکہ رات دن بولتے تھے اسی واسطے قرآن کو اہل مکہ کی بول چال کی موافق کہا جاتا ہے لیکن اہل مکہ ان لفظوں کو اپنی نظم اور نثر میں جن ڈھنگوں سے برتاؤ میں لاتے تھے قرآن شریف کا ڈھنگ ان سب سے نرالا ہے اس سبب سے اہل مکہ منکرین قرآن جب قرآن کی آیتوں کو سن کر بےقابو ہوجاتے تھے تو اس کو جادو بتلاتے تھے جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس قرآن میں اگرچہ لفظ وہی ہیں جو رات دن ہم بولتے ہیں لیکن جادو کی خلاف عادت باتوں سے جس طرح آدمی کا دل بےقابو ہوجاتا ہے یہی حال اس قرآن کا ہے کہ لوگ اس کو سن کر یہاں تک بےقابو ہوجاتے ہیں کہ اپنے باپ دادا کے طریقہ کو چھوڑ کر قرآن کی پیروی اختیار کرلیتے ہیں ٢ ؎۔ مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی صحیح روایت سے ولید بن مغیرہ کا جو قصہ ہے اس میں ولید بن مغیرہ نے قرآن کی آیتیں سن کر قریش سے یہی بات کہی تھی کہ تم سب میں کوئی شخص مجھ سے زیادہ عربی زبان کی نظم ونثر سے واقف نہیں ہے اور مجھ کو جنات کے بھی بہت سے شعر یاد ہیں لیکن اس قرآن میں تو ایسا ایک جادو کا اثر ہے جو ہم لوگوں کی نظم ونثر سے بالکل نرالا ہے اسی واسطے قرآن کی آیتیں سن کر میرا دل بےقابو ہوگیا جبیر بن مطعم (رض) کی روایت صحیحین وغیرہ میں ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ اسلام لانے سے پہلے سورة والطور کو سن کر میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوا جاتا تھا ٣ ؎۔ اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگرچہ قرآن شریف کی آیتوں کے لفظ وہی ہیں جن کو اہل مکہ رات دن بولتے تھے لیکن ان ہی لفظوں سے مطلب کو اس طرز سے ادا کیا گیا ہے جس سے اہل مکہ لاجواب اور ان کے دل بےقابو ہوتے تھے ابتدائے وحی کے زمانہ میں جب جبرئیل (علیہ السلام) وحی لاتے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبرئیل (علیہ السلام) کی قرأت کے ساتھ ساتھ وحی کی آیتوں کو خود بھی پڑھنا شروع کردیتے تھے تاکہ کوئی آیت بھول نہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کا بھولے سے گیہوں کھانے کا قصہ یاد دلا کر یہ بتلایا کہ بنی آدم میں بھول کی عادت اگرچہ موروثی ہے لیکن اے رسول اللہ کے اگر تم اپنے علم کی ترقی کی دعا اللہ سے مانگتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ جل شانہ کے حکم سے قرآن کی پچھلی آیتیں بھی تم کو یاد رہیں گی اور قرآن کی نئی نئی آیتوں سے روز بروز تمہارا علم بڑھتا رہے گا آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے برخلاف گیہوں کا دانہ جو کھایا اس قصہ کے ذکر کرنے سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی یہ تسکین بھی فرمائی ہے کہ قریش سیدھی سیدھی باتیں جو قرآن کی نہیں مانتے اور شیطان کے بہکانے میں آ کر اللہ کے حکم کے برخلاف کام کرتے ہیں یہ آدم (علیہ السلام) کے زمانہ سے انسان کی ایک قدیمی عادت ہے اس لیے اس کا کچھ رنج نہیں کرنا چاہیے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر حوا نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر کے برخلاف شیطان کے کہنے میں نہ آتی ٤ ؎۔ اس حدیث سے ان علماء کے قول کی بڑی تائید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شیطان کے بہکانے سے پہلے حوا نے گیہوں کے دانے کھائے اور پھر آدم (علیہ السلام) کو بھی ان دانوں کے کھا لینے کی رغبت دلائی اس قول کے موافق ولم نجد لہ عزما کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدم (علیہ السلام) کے مزاج میں شیطان کی مخالفت کی پوری ہمت ہوتی تو وہ کبھی حوا کا کہنا ماننے میں جلدی نہ کرتے موضع القرآن میں یہی قول لیا گیا ہے لیکن بعضے سلف نے ولم نجدلہ عزما کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے گیہوں کھانے کا کام کچھ دل کے عزم سے نہیں کیا بلکہ بھول کر کیا ان آیتوں میں عزما کا جو لفظ ہے یہ مطلب اس کے موافق ہے دل کے مضبوط ارادہ کو عزم کہتے ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں بھول کا لفظ موجود ہونے سے علماء نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ انبیاء سے کبیرہ گناہ تو ہوتا ہی نہیں اور صغیرہ گناہ بھی جان بوجھ کر نہیں بلکہ بھول سے ہوتا ہے۔ ١ ؎ مثلاص ٥٠ ج ٣۔ ٢ ؎ مستدرک ص ٥٠٦۔ ٥٠٧ ج ٢ کتاب التفسیر۔ ٣ ؎ فتح الباری ص ٤١٨ ج ١ باب الجہر بالمغرب۔ ٤ ؎ صحیح بخاری ص ٤٦١ ج ١ باب خلق آدم وذریۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

ّ (20:113) کذالک۔ اس کا عطف کذلک نقص (آیۃ 99) پر ہے یعنی جس طرح اوپر کے مضامین، قیامت کے ہول۔ عذاب اور جہنم کے متعلق صاف صاف ارشاد ہوئے ہیں اسی طرح ہم نے قرآن کو عربی زبان میں وضاحت وفصاحت کے ساتھ نازل کیا ہے اور گناہوں کی سزائوں کو پھیر پھیر کر طرح طرح سے بیان کیا ہے کہ لوگ پرہیزگار بن جائیں۔ یحدث۔ احدث یحدث (افعال) احداث وہ پیدا کر دے۔ نیز ملاحظہ ہو (2:2) ۔ ذکرا۔ ذکر، پند۔ نصیحت۔ بیان۔ نفس کی وہ ہیئت جس کے ذریعہ انسان کے لئے جو کچھ معرفت حاصل کرے اس کا یاد رکھنا ممکن ہو۔ صاحب تفسیر ماجدی رقم طراز ہیں :۔ راہ حق قبول کرنے کے دو ہی واسطے ہیں۔ یا بواسطہ جذبات تعقل۔ دونوں آیت کے اس ٹکڑے میں جمع ہوگئے ہیں۔ یا یہ مراد ہو کہ بدیوں سے بچنے لگیں اور نیکیوں کی طرف بڑھنے لگیں۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ منکر تخویف وترہیب سے ایمان لائے اور جو مومن ہے اس کا مرتبہ فہم وتذکر قرآن سے اور دوبالا ہوجائے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی انہیں عبرت و نصیحت ہو اور وہ سوچیں کہ پچھلی امتوں کا کیا انجام ہوا۔ اگر ہم بھی گناہ کرینگے تو انہی کی طرح تباہ و برباد ہوں گے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 113 تا 114 صرفنا ہم نے طرح طرح بیان کیا۔ الوعید ڈرا دے۔ یحدث وہ پیدا کرتا ہے۔ تعالیٰ بلندو برتر۔ الملک بادشاہ، فرمان روا۔ لاتجعل تو جلدی نہ کر۔ ان یقضیٰ یہ کہ پوری ہوجائے۔ زدنی مجھے زیادہ دے۔ علماً علم۔ تشریح :- آیت نمبر 113 تا 114 قرآن کریم میں گزشتہ قوموں کے ذکر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی اصلاح و تربیت اور ہدایت کے اسباب پیدا ہوجائیں ۔ برے اعمال کے برے نتائج کا ذکر بھی اسی لئے کیا گیا ہے کہ ان میں دنیا کی سمجھ پیدا ہوجائے۔ وہ نصیحت و عبرت حاصل کر کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرماں برداری کا راستہ اختیار کریں اور ہر اس راستے سے بچ کر چلیں جو ان کو گناہوں اور برے اعمال کی دلدل میں پھنسا سکتا ہے۔ اس طرح ان میں اخلاق اور تقویٰ کی اعلیٰ اور بہترین صفات پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ فرمایا کہ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کو صاف ستھری عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ وہ اس کو آسانی سے سمجھ کر تقویٰ کی زندگی احتیار کرسکیں اور کم از کم اپنی اصلاح کی فکر تو کرسکیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے تاکہ وہ اس کو آسانی سے سمجھ کر تقویٰ کی زندگی اختیار کرسکیں اور کم از کم اپنی اصلاح کی فکر تو کرسکیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ سب سے بلندو برتر اور حقیقی بادشاہ ہے۔ اس نے اپنی رحمت سے ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس کو پڑھنے سے انسانوں کی ہدایت کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں وہ خود اس کا نگراں اور محافظ ہے۔ لہٰذا یہ قرآن اصل حالت میں قیامت تک باقی رہے گا۔ فرمایا کہ اے نبی ! آپ اس بات کی فکر نہ کیجیے اور اپنے آپ کو اس مشقت میں نہ ڈالئے کہ جو قرآن نازل کیا جا رہا ہے اس کو آپ بھول جائیں گے۔ جب قرآن کریم کا نزول ہو رہا ہو تو آپ اس قرآن کو (یاد کرنے کے لئے) اس وقت تک غور سے سنئے جب تک وحی مکمل نہ ہوجائے اور ہمیشہ یہ کہئے کہ اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ اور ترقی عطا فرمائیے۔ ان آیات کی چند باتوں کی وضاحت (1) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اس قرآن حکیم کو عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ اس کی پہلی حکمت تو یہ ہے کہ قرآن کے سب سے پہلے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کی زبان عربی ہے۔ لہٰذا ان کو سمجھنے کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ دوسری حکمت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ عربی زبان دنیا کی وسیع ترین، باعظمت اور زندہ زبان ہے۔ کہتے ہیں کہ آج دنیا میں چھوٹی بڑی ساڑھے آٹھ ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن عربی زبان کا آج بھی ایک اعلیٰ مقام ہے۔ یہ دنیا کی وہ عظیم زبان ہے جس کا مقابلہ ساری دنیا کی زبانیں بھی نہیں کرسکتیں۔ اس لئے اللہ نے اپنے کلام کے لئے اس عظیم و فصیح زبان کا انتخاب فرمایا ہے۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ اگر کوئی اور زبان ہوتی تو شاید وہ قرآن کریم کے معانی اور فصاحت و بلاغت کا بوجھ برداشت نہ کرسکتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو وہ پہاڑ دب جاتا۔ اس کے ٹکڑے اڑ جاتے مگر وہ قرآن کے بوجھ کو برداشت نہ کرسکتا۔ اسی طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ عربی جیسی عظیم اور شاندار زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت، مفہوم اور معانی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس لئے قرآن کریم کے لئے عربی زبان کا انتخاب کیا گیا جس سے یہ زبان بھی ایک زندہ زبان بن گئی ہے۔ قرآن کریم قیامت تک کے لئے ہے اور عربی زبان میں قرآن کریم اترنے کی وجہ سے اس زبان کو بھی قیامت تک تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ (2) دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم میں بار بار لوگوں کو ان کے برے اعمال کے بارے نتائج سے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ اپنے سامنے اللہ کی وعید کو رکھیں گے تو ان میں دو اعلیٰ ترین صفات پیدا ہوجائیں گی۔ (1) پہلی تو یہ ہے کہ ان میں تقویٰ اور پرہیز گاری جیسی اعلیٰ صفت پیدا ہوجائے گی۔ (2) دوسری یہ کہ ان میں تقویٰ کیساتھ ساتھ کم از کم سوچنے اور فکر کرنے سے نصیحت و عبرت کے اسباب پیدا ہوجائیں گے۔ (3) تیسری بات یہ فرمائی کہ اس کائنات میں اگر کوئی بلندو برتر ہستی ہے تو وہ اللہ ہے جو حقیقی اور سچا بادشاہ اور حکمران ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر اعتبار سے اس قدر بلند اور برتر ہے کہ انسان اس کی عظمت کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ وہی اس کائنات کا خالق ومالک ہے۔ وہی سچا بادشاہ ہے، اس کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ (4) چوتھی اہم بات یہ ارشاد فرمائی کہ یہ قرآن کریم اللہ نے نازل کیا ہے وہی اس کا نگران اور محافظ ہے۔ وہ اس کی حفاظت میں کسی کا محتاج نہیں ہے وہ جس سے چاہے اس کی حفاظت کا کام لے سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس نے کفار کو ایمان کی توفیق عطا فرما کر ان سے حفاظت قرآن کا وعدہ پورا کیا ہے چناچہ وہ تاتاری قوم جو دنیا سے مسلمانوں اور قرآن کو مٹانے کے لئے اٹھی تھی جس نے بظاہر دین اسلام اور مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی۔ اللہ نے اس قوم کو راہ ہدایت دی اور انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کی عظیم خدمات سر انجام دیں یعنی دین اسلام کو مٹانے والے خود ہی دین کے محافظ بن گئے۔ غرضیکہ یہ اللہ کا کلام ہے وہ اس کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ! جب تک آپ کی طرف پوری طرح وحی نازل نہ ہوجائے اس وقت تک آپ جلدی نہ کیجیے۔ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت جبرئیل اللہ کا کلام لے کر آتے اور آپ کو قرآن کریم سناتے تھے تو آپ شدید احساس ذمہ داری کی وجہ سے یہ خیال کرتے تھے کہ میں ان آیات کو اچھی طرح یاد کرلوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھول جاؤں اور ادائیگی رسالت میں کمی رہ جائے۔ آپ یاد کرنے کے لئے جلدی جلدی اپنی زبان کو حرکت دیا کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے سورة الاعلیٰ میں فرمایا کہ اے نبی ! ہم آپ کو (یہ قرآن) اس طرح پڑھائیں گے کہ آپ اس کو بھول نہ سکیں گے۔ سورۃ القیامہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ اے نبی ! آپ اپنی زبان مبارک (ہونٹوں) کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں کیونکہ اس (قرآن کو دل پر جمع کردینا) اور اس کو (آپ کی زبان مبارک سے) تلاوت کرا دینا ہماری ذمہ داری ہے جب یہ قرآن پڑھا جائے تو آپ اس کی اتباع کیجیے (خاموشی سے سنئے) پھر یہ مہاری ذمہ داری ہے (کہ قلب پر جمع کرائیں اور تلاوت کرا دینے کے علاوہ) اس کا مفہوم بھی (آپ کی زبان مبارک سے) بیان کرا دیں گے۔ ( سورة قیامہ) اس میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں اپنے ذمے رکھی ہیں (1) آپ کے قلب مبارک پر قرآن کو جمع کردینا۔ (2) اس کی تلاوت کرا دینا (3) اور اس کا بیان یعنی وضاحت کرا دینا۔ یعنی صرف یہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جس قرآن کو آپ کے قلب مبارک پر جمع کردیا ہے اس کی تلاوت کرا دیں گے بلکہ آیات الٰہی کے معانی، مفہوم اور مراد کی وضاحت بھی اللہ کی طرف سے ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے جس لفظ کا ترجمہ اور اس کی وضاحت جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی ہے وہی اللہ کی مراد ہے اور اس کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر القا فرمائی ہے یعنی آپ کے دل میں اس کا مفہوم ڈالا گیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ اور آیات کا مطلب اور مفہوم متعین کرنے کا اختیار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔ الحمد اللہ ہمارے اکابر اور بزرگوں نے پوری دیانت و امانت کے ساتھ قرآن کریم کی وہی تشریح فرمائی ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی گئی ہے۔ انسان تاریخ میں ان اکابر کی کاوشوں کو سنہری حروف سے لکھا جائے گا اور امت ہمیشہ ان کے کارناموں پر فخر کرے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی ہر وہ تشریح جو احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ہوگی وہی اللہ کی مراد سمجھی جائے گی لیکن جو لوگ اپنی اغراض کے لئے احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منہ پھیر کر من مانی تشریح کرتے ہیں وہ ناقابل اعتبار تشریح ہے۔ (5) پانچویں بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اے ہمارے حبیب ! آپ ہمیشہ یہی کہئے کہ اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ اور ترقی عطا فرمائیے۔ ان علوم کے علاوہ جتنے بھی علوم ہیں ضروری نہیں ہے کہ ان علوم کے ذریعہ انسان کو راہ ہدایت نصیب ہوجائے بلکہ اگر اللہ کا نور ہدایت اس میں شامل نہیں ہوگا۔ تو انسانوں کے بھٹکنے کے زیادہ امکانات ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مطلب یہ کہ سارے قرآن کے مضامین ہم نے صاف صاف بتلائے ہیں۔ 6۔ یعنی اگر پورا اثر نہ ہو تو تھوڑا ہی ہو، اور اسی طرح چند بار تھوڑا تھوڑا جمع ہو کر کافی مقدار ہوجاوے اور کسی وقت مسلمان ہوجاویں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کے آخر میں نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حصول علم کے آداب اور ایک دعا سکھائی گئی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے براہ راست اور اولیّن مخاطب عرب تھے جن کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا۔ نزول قرآن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کرکے کفر و شرک اور ہر قسم کے گناہ سے بچنے کی کوشش کریں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ جس رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ کسی نسبت اور حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ کے شریک نہیں ہوسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ مقام، شان، ذات اور اپنی صفات کے لحاظ سے اعلیٰ وارفع ہے۔ وہی بادشاہ حقیقی ہے اس کی ملک اور حکمرانی میں نہ کائنات میں کوئی شریک کار ہے اور نہ آخرت میں کوئی شریک ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود اگر لوگ اللہ تعالیٰ کو بلاشرکت غیر اِلٰہ نہیں مانتے تو آپ کو نزول قرآن کے بارے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو اپنی حکمت کے ساتھ وقفہ وقفہ کے ساتھ نازل کر رہا ہے تاکہ آپ کو اس کے ابلاغ اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ عجلت سے کام لینے کی بجائے آپ کو اپنے رب کے حضور مسلسل دعا کرنی چاہیے۔ اے میرے پروردگار ! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔ نزول قرآن کے بارے میں آپ کی طرف سے جلدی کرنے کا دوسرا مطلب مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کے ابتدائی دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غرض کے ساتھ جلدی جلد ی تلاوت کرتے کہ کہیں وحی کا کوئی حصہ عدم ضبط کا شکار نہ ہوجائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا “ کی دعا سکھلانے کے ساتھ یہ بھی ہدایت فرمائی کہ ضبط قرآن کی فکر میں اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے کی ضرورت نہیں۔ آپ غور سے سنتے جائیں آپ کو قرآن مجید ضبط کروانا اور آپ کی زبان اطہر سے اس کا ابلاغ کروانا ہماری ذمہ داری ہے۔ (القیٰمۃ : ١٧) سورة اعلیٰ میں فرمایا۔ ہم آپ پر قرآن پڑھیں گے اور آپ بھول نہیں پائیں گے۔ [ اعلیٰ : ٦] (حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُہَیْمِنِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الأَنَاۃُ مِنَ اللَّہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی التانی ] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ “ مسائل ١۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل فرمایا۔ ٢۔ قرآن مجید میں لوگوں کو ان کی برائیوں پر تنبیہات کی گئی ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید باعث نصیحت ہے۔ ٤۔ اللہ ذات اور صفات کے اعتبار سے سب سے بلند وبالا ہے۔ ٥۔ کسی کام میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ ٦۔ علم کے اضافے کے لیے رب کے حضور مسلسل دعا کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن علم اور اہل علم کی فضیلت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق : ٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن : ٤) ٣۔ انسان کو رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن : ٢) ٤۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ : ٣١) ٥۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ : ٣٢) ٦۔ سدھائے ہوئے جانوروں کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (المائدۃ : ٤) ٧۔ اللہ نے اہل علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ (المجادلۃ : ١١) ٨۔ کیا علم والے اور بےعلم برابر ہوسکتے ہیں۔ ( الزمر : ٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی ہم نے نہایت ہی موثر انداز میں شاہد قیامت ، مناظر عذاب ، اور عبرت آموز کہانیاں ابر بار پیش کی ہیں تکاہ لوگوں کے اندر نیکی کے لئے جوش پیدا ہو اور جھٹلانے والے ڈر جائیں اور جان لیں کہ قیامت میں ان کا انجام کس قدر ہولناک ہوگا۔ یہی مضمون سورة کے آغاز میں بھی تھا۔ ما انزلنا علیک القرآن لتشقی (٢) الاتذکرہ لمن یخشی (٠٢ : ٢-٣) ” یہ قرآن ہم نے تجھ پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مصیبت میں گرفتار ہو جائو بلکہ یہ تو اس شخص کے لئے یاد دہانی ہے جو ڈرے۔ “ جب جبرائیل وحی لے کر آتے تھے تو ابھی وہ پوری وحی نہ سنا چکتے کہ حضور دہرانا شروع کردیتے ، اس خوف سے کہ کہیں کوئی لفظ چھوٹ نہ جائے۔ ہر نئی وحی کا یاد کرنا آپ کے لئے شاق ہوتا تھا۔ چناچہ اللہ نے آپ کو یہ اطمینان دلا دیا کہ آپ پریشان نہ ہوں ، اللہ اس کا ضامن ہے کہ آپ نہ بھولیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کہ ہم نے آپ کی طرف عربی میں قرآن نازل کیا، اس میں طرح طرح سے وعیدیں بیان کیں، آپ وحی ختم ہونے سے پہلے یاد کرنے میں جلدی نہ کریں اور علم کی زیادتی کے لیے دعا کرتے رہیں قیامت کا ذکر فرمانے کے بعد اب قرآن مجید کے بارے میں چند باتیں ارشاد فرمائیں، اول تو یہ فرمایا کہ یہ قرآن ہم نے عربی بنا کر نازل کیا ہے جب یہ عربی ہے جس کا مخاطبین کو بھی انکار نہیں ہے اور عرب ہونے کی وجہ سے اس کے اولین مخاطبین اس کو سمجھتے بھی ہیں اور اس کی فصاحت اور بلاغت کو جانتے بھی ہیں تو ایمان لانے سے کیوں گریز کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ہم نے اس میں طرح طرح سے وعید بیان کی ہے تاکہ وہ ڈر جائیں اور ایمان لے آئیں یا اگر پوری طرح نہ ڈریں تو قرآن کے ذریعہ ان میں کچھ سمجھ پیدا ہوجائے اور سمجھتے سمجھتے آگے بڑھ کر کسی وقت کفر کو چھوڑ دیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 13 اور ہم نے جس طرح یہ مذکورہ باتیں اور مضامین بیان کئے ہیں اسی رطح ہم نے اس پورے قرآن کریم کو عربی زبان کا نازل کیا ہے اور ہم نے اس میں طرح طرح سے ڈرانے کی باتیں سنائیں تاکہ لوگ ان کو سن کر پرہیز گاری اور تقویٰ اختیار کریں اور عذاب کی باتوں سے ڈریں یا یہ قرآن کریم ان میں سوجھ بوجھ پیدا کر دے۔ یعنی جس طرح اوپر کے مضامین صاف صاف مذکور ہیں اسی طرح ہم نے پورے قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل کیا ہے اور اس وعید یعنی قیامت اور عذاب کے وعدوں کو مختلف طریقوں سے بار بار بیان کیا ہے تاکہ لوگ ڈریں اور تقویٰ کی راہ اختیار کریں اور اگر کامل خوف خشیت اور تقویٰ و پرہیز گاری نہ بھی حاصل ہو تو کم از کم سوچنے سمجھنے کی ان میں قرآن کریم صلاحیت ہی پیدا کر دے اور اس صلاحیت کے بعد ان کو اپنے انجام کی فکر ہوجائے اور یہ دین حق کو قبول کرلیں ۔