92. From here begins a new discourse, which probably was revealed some time after the preceding discourse see (E.N. 90), and it was incorporated in this Surah by the command of Allah because both deal with the same theme. The following are the similarities between the two:
(1) Both the discourses remind mankind of the forgotten lesson, the admonition, which Allah had taught man on the occasion of his creation.
(2) Both teach that it is Satan who seduces man to forget that lesson. He succeeded in this by causing his first parents to forget it. Since then he has been forgetting it over and over again and, therefore, has been cautioned against this.
(3) Both warn man that his ultimate success or failure depends upon his attitude towards this admonition.
(4) Both warn mankind to discriminate between an inadvertent error and an intentional rebellion and their consequences. If man (like Prophet Adam and his offspring and the magicians of Pharaoh) realizes that he has been seduced by Satan, his eternal enemy, and then repents of his error, he is forgiven. But there is no forgiveness for intentional rebellion as was the case with Satan, Pharaoh and the Samiri.
93. The story of Prophet Adam has already been stated in (Surah Al-Baqarah, Ayats 30-39); (Surah Al-Aaraf, Ayats 11- 27, 189); (Surah Al-Hijr, Ayats 28-42); (Surah Al-Isra, Ayats 61-65) and (Surah Al-Kahf, Ayats 51-52). But at every place only that part of the story which was relevant to the context has been cited. Therefore, in order to understand the entire story well, one should read it in all the Surahs along with the relevant E.N's.
94. This means that he disobeyed the command because he lacked the firmness of purpose and not because of intentional rebellion. He did not say: I don't care for Allah. If it is His command, let it be. I will do whatever I like. Who is Allah to intervene in my private affairs?
On the contrary, he disobeyed because he forgot Allah’s command, and did not show firmness of purpose and determination against the temptations presented by Satan. This is shown by his subsequent repentance.
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :92
جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے ، یہاں سے ایک الگ تقریر شروع ہوتی ہے جو اغلباً اوپر والی تقریر کے بعد کسی وقت نازل ہوئی ہے اور مضمون کی مناسبت سے اس کے ساتھ ملا کر ایک ہی سورہ میں جمع کر دی گئی ہے ۔ مضمون کی مناسبتیں متعدد ہیں ۔ مثلاً یہ کہ:
1 ) وہ بھولا ہوا سبق جسے قرآن یاد دلا رہا ہے وہی سبق ہے جو نوع انسانی کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تھا اور جسے یاد دلاتے رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا ، اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ذکر آتے رہے ہیں ۔
2 ) انسان اس سبق کو بار بار شیطان کے بہکانے سے بھولتا ہے ، اور یہ کمزوری وہ آغاز آفرینش سے برابر دکھا رہا ہے ۔ سب سے پہلی بھول اس کے اولین ماں باپ کو لاحق ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس کا سلسلہ برابر جاری ہے ، اسی لیے انسان اس کا محتاج ہے کہ اس کو پیہم یاد دہانی کرائی جاتی رہے ۔
3 ) یہ بات کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا انحصار بالکل اس برتاؤ پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس ذکر کے ساتھ وہ کرے گا ، آغاز آفرینش ہی میں صاف صاف بتا دی گئی تھی آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جا رہی ہے کہ اس کی پیروی کرو گے تو گمراہی و بد بختی سے محفوظ رہو گے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلا ئے مصیبت ہو گے ۔
4 ) ایک چیز ہے بھول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان اپنے ازلی دشمن شیطان کے بہکائے میں آجائے اور غلطی کر بیٹھے ۔ اس کی معافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس ہوتے ہی اپنے رویے کی اصلاح کر لے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے ۔ دوسری چیز ہے وہ سرکشی اور سرتابی اور خوب سوچ سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں شیطان کی بندگی جس کا ارتکاب فرعون اور سامری نے کیا ۔ اس چیز کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اس کا انجام وہی ہے جو فرعون اور سامری نے دیکھا اور یہ انجام ہر وہ شخص دیکھے گا جو اس روش پر چلے گا ۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :93
آدم علیہ السلام کا قصہ اس سے پہلے سورہ بقرہ ، سورہ اعراف ( دو مقامات پر ) ، سورہ حجر ، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف میں گزر چکا ہے ۔ یہ ساتواں موقع ہے جبکہ اسے دہرایا جا رہا ہے ۔ ہر جگہ سلسلہ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں ۔ قصے کے جو اجزاء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوئے ہیں ، دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے ، یا طرز بیان ذرا مختلف ہو گا ۔ پورے قصے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے ۔ ہم نے ہر جگہ اس کے ربط و تعلق اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا ہے ۔
سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :94
یعنی اس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی سرکشی کی بنا پر نہ تھا بلکہ غفلت اور بھول میں پڑ جانے اور عزم و ارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا ۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پروا کرتا ہوں ، اس کا حکم ہے تو ہوا کرے ، جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا ، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے ۔ اس کے بجائے اس کی نافرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی ، بھول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا تھا ، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا اس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو ( جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے ) یاد کرتا اور اس کے دیے ہوئے لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا ۔
بعض لوگوں نے اس نے عزم نہ پایا کا مطلب یہ لیا ہے کہ ہم نے اس میں نافرمانی کا عزم نہ پایا ، یعنی اس نے جو کچھ کیا بھولے سے کیا ، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا ۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے ۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو : لَمْ نَجِدْ لَہ عَزْماً عَلَ الْعِصْیَانِ کہا جاتا نہ کہ محض : لَمْ نَجِدْلَہ عَزْماً ۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعت حکم کے عزم کا فقدان ہے ، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان ۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصہ بیان نہیں کر رہا ہے ، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے با وجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے ۔ مزید براں ، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آئے گا کہ ہم نے اس میں اطاعت امر کا عزم ، یا مضبوط ارادہ نہ پایا ۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ آدم علیہ السلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نامناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے ۔ یہی رائے علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں : لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ ، مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو گی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی اور نہ موقع و محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ ( ملاحظہ ہو روح المعانی ۔ جلد 16 ۔ صفحہ 243 ) ۔