Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 115

سورة طه

وَ لَقَدۡ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا ﴿۱۱۵﴾٪  15

And We had already taken a promise from Adam before, but he forgot; and We found not in him determination.

ہم نے آدم کو پہلے ہی تاکیدی حکم دے دیا تھا لیکن وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں کوئی عزم نہیں پایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Adam and Iblis Allah tells, وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى ادَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا And indeed We made a covenant with Adam before, but he forgot, and We found on his part no firm willpower. Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said, "Verily, man was named Insan only because he was given a covenant, but he forgot it (Nasiya)." Ali bin Abi Talhah reported the same from Ibn Abbas. Mujahid and Al-Hasan said that he forgot means, "He abandoned it." Concerning Allah's statement,

انسان کو انسان کیوں کہا جاتا ہے ؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں انسان کو انسان اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسے جو حکم سب سے پہلے فرمایا گیا یہ اسے بھول گیا ۔ مجاہد اور حسن فرماتے ہیں اس حکم کو حضرت آدم علیہ السلام نے چھوڑ دیا ۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کی شرافت وبزرگی کا بیان ہو رہا ہے کہ سورۃ بقرۃ سورۃ اعراف سورۃ حجر اور سورۃ کہف میں شیطان کے سجدہ نہ کرنے والے واقعہ کی پوری تفسیر بیان کی جاچکی ہے اور سورۃ ص میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ان تمام سورتوں میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا پھر ان کی بزرگی کے اظہار کے لئے فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کے حکم کا اور ابلیس کی مخفی عداوت کے اظہار کا بیان ہوا ہے ، اس نے تکبر کیا اور حکم الٰہی کا انکار کردیا ۔ اس وقت حضرت آدم علیہ السلام کو سمجھا دیا گیا کہ دیکھ یہ تیرا اور تیری بیوی حضرت حوا علیہ السلام کا دشمن ہے اس کے بہکاوے میں نہ آنا ورنہ محروم ہو کر جنت سے نکال دیے جاؤ گے اور سخت مشقت میں پڑ جاؤ گے ۔ روزی کی تلاش کی محنت سر پڑجائے گی ۔ یہاں تو بےمحنت ومشقت روزی پہنچ رہی ہے ۔ یہاں تو ناممکن ہے کہ بھوکے رہو ناممکن ہے کہ ننگے رہو اس اندورنی اور بیرونی تکلیف سے بچے ہوئے ہو ۔ پھریہاں نہ پیاس کی گرمی اندرونی طور سے ستائے ، نہ دھوپ کی تیزی کی گرمی بیرونی طور پر پریشان کرے اگر شیطان کے بہکاوے میں آگئے تو یہ راحتیں چھین لی جائیں گی اور ان کے مقابل کی تکلیفیں سامنے آجائیں گی ۔ لیکن شیطان نے اپنے جال میں انہیں پھانس لیا اور مکاری سے انہیں اپنی باتوں میں لے لیا قسمیں کھا کھا کر انہیں اپنی خیر خواہی کا یقین دلادیا ۔ پہلے ہی سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے فرما دیا تھا کہ جنت کے تمام میوے کھانا لیکن اس درخت کے نزدیک نہ جانا ۔ مگر شیطان نے انہیں اس قدر پھسلایا کہ آخرکار یہ اس درخت میں سے کھا بیٹھے ۔ اس نے دھوکہ کرتے ہوئے ان سے کہا کہ جو اس درخت کو کھا لیتا ہے وہ ہمیشہ یہیں رہتا ہے ۔ صادق ومصدوق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے تلے سوار سو سال تک چلا جائے گا لیکن تاہم وہ ختم نہ ہو گا اس کا نام شجرۃ الخلد ہے ( مسند احمد وابوداؤد طیالسی ) دونوں نے درخت میں سے کچھ کھایا ہی تھا کہ لباس اتر گیا اور اعضا ظاہر ہو گئے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو گندمی رنگ کا لمبے قدوقامت والازیادہ بالوں والا بنایا تھا کھجور کے درخت جتنا قد تھا ممنوع درخت کو کھاتے ہی لباس چھن گیا ۔ اپنے ستر کو دیکھتے ہی مارے شرم کے ادھر ادھر چھپنے لگے ، ایک درخت میں بال الجھ گئے ، جلدی سے چھڑانے کی کوشیش کر رہے تھے جب اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ آدم کیا مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کلام رحمان سن کر ادب سے عرض کیا کہ اے اللہ مارے شرمندگی کے سرچھپانا چاہتا ہوں ۔ اچھا اب یہ تو فرما دے کہ توبہ اور رجوع کے بعد بھی جنت میں پہنچ سکتا ہوں ؟ جواب ملا کہ ہاں ۔ یہی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ۔ آدم نے اپنے رب سے چند کلمات لے لئے جس کی بنا پر اللہ نے اسے پھر سے اپنی مہربانی میں لے لیا ۔ یہ روایت منقطع ہے اور اس کے مرفوع ہونے میں بھی کلام ہے ۔ جب حضرت آدم علیہ السلام و حضرت حوا علیہ السلام سے لباس چھن گیا تو اب جنت کے درختوں کے پتے اپنے جسم پر چپکانے لگے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں انجیر کے پتوں سے اپنا آپ چھپانے لگے ۔ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے راہ راست سے ہٹ گئے ۔ لیکن آخرکار اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی رہنمائی کی ۔ توبہ قبول فرمائی اور اپنے خاص بندوں میں شامل کر لیا ۔ صحیح بخاری شریف وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام میں گفتگو ہوئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے آپ نے اپنے گناہ کی وجہ سے تمام انسانوں کو جنت سے نکلوا دیا اور انہیں مشقت میں ڈال دیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیا اے موسیٰ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت سے اور اپنے کلام سے ممتاز فرمایا آپ مجھے اس بات پر الزام دیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے مقدر اور مقرر کرلیا تھا ۔ پس حضرت آدم علیہ السلام نے اس گفتگو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاجواب کردیا ۔ اور روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا اور آپ میں آپ کی روح اس نے پھونکی تھی ۔ اور آپ کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجدہ کرایا تھا اور آپ کو اپنی جنت میں بسایا تھا ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے اس جواب میں یہ بھی مروی ہے کہ اللہ نے آپ کو وہ تختیاں دیں جن میں ہر چیز کا بیان تھا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ کو قریب کر لیا بتلاؤ اللہ نے تورات کب لکھی تھی؟ جواب دیا آپ سے چالیس سال پہلے پوچھا کیا اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہ بھول گیا کہا ہاں ۔ فرمایا پھر تم مجھے اس امر کا الزام کیوں دیتے ہو؟ جو میری تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 نسیان، (بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استفغار میں مصروف ہوجاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کیا) حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے گا۔ یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم (علیہ السلام) اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انھیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہوگئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٣] یہاں سیدنا آدم (علیہ السلام) کے بھولنے کا ذکر، ذکر کی مناسبت سے فرمایا۔ یعنی چونکہ بھول جانا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار ذکر یا یاددہانی نازل کی جاتی رہی ہے۔ اور اس فطرت انسان کا آغاز ان کے باوا آدم سے ہی ہوگیا تھا۔ ان کا عزم اتنا مضبوط نہ تھا کہ وہ ہر وقت اللہ سے کئے ہوئے عہد کو یاد رکھتے۔ چناچہ ایک طویل مدت کے بعد جب کہ سیدنا آدم (علیہ السلام) اس عہد کو بھول ہی چکے تھے۔ شیطان کا داؤ چل گیا اور آپ شیطان کے فریب میں آگئے۔ اس مطلب سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بھول چوک انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اس کا دوسرا مطلب یہ یہی بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بھول چوک کر اللہ کی نافرمانی کی تھی۔ ان کا ارادہ نافرمانی کا ہرگز نہیں تھا۔ اور اس مطلب کا نتیجہ آدم (علیہ السلام) کی سرکشی سے بریت ہے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے پہلا مطلب ہی درست معلوم ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ عَهِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ ۔۔ : ” عَھِدَ إِلَیْہِ “ کا معنی ” أَوْصَاہُ “ ہے کہ اس نے اسے تاکید کی۔ تاکید سے مراد مخصوص درخت کے قریب نہ جانے کا حکم ہے۔ ” نَسِیَ “ کا معنی عام طور پر ” وہ بھول گیا “ آتا ہے، مگر یہاں مراد جان بوجھ کر عمل ترک کرنا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ابلیس نے آدم و حوا ( علیہ السلام) کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا اور ان دونوں کے لیے اپنے خیر خواہ ہونے کی قسم اٹھائی تھی : (مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ ) [ الأعراف : ٢٠ ] ” تم دونوں کے رب نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لیے کہ کہیں تم دونوں فرشتے بن جاؤ یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ “ معلوم ہوا کہ آدم (علیہ السلام) کو وہ درخت کھاتے وقت اللہ تعالیٰ کا حکم یاد تھا، مگر شیطان کے وسوسے سے لالچ میں آ کر حکم عدولی کر بیٹھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے فعل کو عصیان (نافرمانی) قرار دیا، فرمایا : (وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى) [ طٰہٰ : ١٢١ ] ” اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گیا۔ “ بھول کر کیے ہوئے عمل کو نافرمانی نہیں کہا جاتا۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے کہ ” فَنَسِيَ یَقُوْلُ فَتَرَکَ “ یعنی ” فَنَسِيَ “ کا معنی ” اس نے عمل ترک کردیا “ ہے۔ اس واقعہ کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ قرآن میں آدم (علیہ السلام) کا یہ قصہ چھٹی بار بیان ہو رہا ہے، اول سورة بقرہ، دوم اعراف، سوم حجر، چہارم بنی اسرائیل، پنجم کہف اور ششم یہاں اور ہر جگہ ایک خاص مقصد کے تحت مختلف انداز سے اس قصے کو دہرایا گیا ہے۔ یہاں ماقبل سے اس کی مناسبت کے سلسلہ میں چند وجوہ بیان کی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا تعلق آیت : (كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ ) [ طٰہٰ : ٩٩ ] (اسی طرح ہم تجھ سے ان چیزوں کی کچھ خبریں بیان کرتے ہیں جو پہلے گزر چکیں) سے ہے، یعنی اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ ہم قصے بیان فرمائیں گے، چناچہ اس کے تحت آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرما دیا۔ ایک مناسبت یہ ہے کہ ” رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا “ کہنے کا حکم دینے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں اضافے کے لیے آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا اور ایک مناسبت وہ ہے جو اوپر شاہ عبد القادر (رض) کی توضیح میں گزر چکی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary _ And now we come to the story of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) which has been related earlier in Surah Al-Baqarah and Al-A` raf and partly in Surah Hijr and Al-Kahf, and will also appear later in Surah Sad. The link of the story with the preceding verses has been variously explained by the commentators. The most obvious of these explanations is the one which refers to an earlier verse كَذَٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ (Thus We narrate to you certain events of what has passed- 20:99) in which Allah informed the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that the stories of the past prophets were revealed to him as evidence and confirmation of his own prophethood and in order that his own followers be warned against committing the sins for which the earlier generations were punished. The first, and in some ways, the most instructive story was that of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) in which there was a clear warning for the followers of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that Shaitan was an old enemy of mankind who by his flattery and show of sympathy tricked Sayyidna &Adam (علیہ السلام) into committing an error for which both he and his wife were expelled from Paradise and the clothes which they wore there were taken away from them. Later their prayer for forgiveness was accepted by Allah and Sayyidna &Adam (علیہ السلام) was elevated to the status of prophethood. وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا (And earlier We had given a directive to &Adam, then he forgot, and We did not find in him a firm resolve. - 20:115) Here the word 6 has been used in the sense of اَمَرنَا or وَصَّینَا (A1-Bahr ul-Muhit), and the meaning of the verse is that long before the time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Allah had assigned a particular tree and enjoined upon Sayyidna &Adam (علیہ السلام) to shun it and not to eat any yield from it, and that barring this tree and its yields he was free to use the fruits of all the trees and all the other gifts from Allah which were abundantly available in Paradise. And, as will follow, he was also warned that the Shaitan was his enemy against whose wiles he must at all times remain on his guard and that any lapse on his part would land him in serious trouble. But he forgot and was found wanting in resolution. Here two words have been used, namely of نِسیَان (nisyan) which means to forget or to be unmindful, the other word is عَزم (` azm) which means to be resolute in the performance of some task. In order to fully comprehend the meanings of these two words it is well to bear in mind that Sayyidna &Adam علیہ السلام was one of those prophets who were endowed by Allah with constancy and determination, and that prophets, by virtue of their status are infallible. The first word suggests that Sayyidna &Adam (علیہ السلام) was overtaken by نِسیَان . (forgetting) and since forgetting something is beyond one&s control and volition it does not constitute sin. There is a Hadith which says رَفَعَ عَن اُمَّتِی الخَطَأ وَالنِسیَان (My followers will not be held liable for mistakes and unmindfulness). Then there is the general pronouncement in the Qur&an لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (Allah does not obligate anyone beyond his capacity - 2:286). At the same time it has to be remembered that there are ways and means which if adopted will prevent people from forgetting things. And since the prophets stand high in the favour of Allah a special responsibility rests upon them to adopt such ways and means to avoid even mistakes and refrain even from forgetting something, therefore, they may well be held liable for not using the means which were available to them in order to avoid forgetfulness. The well known Sufi Junaid Al-Baghdadi (رح) has expressed this idea in the following words: حَسَنَات الابرار سَیَّٔات اَلمُقَرّبِین (The good deeds of ordinary virtuous men are often regarded as sinful and evil when performed by those who stand high in Allah&s favour). The episode under reference occurred before Sayyidna &Adam (علیہ السلام) was granted prophethood and according to some Sunni Scholars sins committed in the prior period do not militate against the concept of the prophet&s immunity from sin. Also it was a case of forgetfulness which cannot be considered as a sin, but in view of the high position of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) as a prophet of Allah this too was regarded as a lapse for which he was admonished and as a warning to him his lapse was described as عِصیَان ; as (Disobedience). The second word is عَزم ` azm (firm resolve) and the same verse says that Sayyidna &Adam (علیہ السلام) was found wanting in عَزم ` azm. As a matter of fact he was fully determined to comply with the commands of Allah but the intrigues of Shaitan weakened his resolve and unmindfulness made him lose his grip on it.

خلاصہ تفسیر اور اس سے (بہت زمانہ) پہلے ہم آدم (علیہ السلام) کو ایک حکم دے چکے تھے (جس کا بیان آگے آتا ہے) سو ان سے غفلت (اور بےاحتیاطی) ہوگئی اور ہم نے (اس حکم کے اہتمام میں) ان میں پختگی (اور ثابت قدمی) نہ پائی اور (اس اجمال کی تفصیل اگر مطلوب ہو تو) وہ وقت یاد کرو جبکہ ہم نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ (تحیت) کرو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے (کہ) اس نے انکار کیا پھر ہم نے (آدم سے) کہا کہ اے آدم (یاد رکھو) یہ بلاشبہ تمہارا اور تمہاری بی بی کا (اس وجہ سے) دشمن ہے (کہ تمہارے معاملہ میں مرد و ہوا) سو کہیں تم دونوں کو جنت سے نہ نکلوا دے (یعنی اس کے کہنے سے کوئی ایسا کام مت کر بیٹھنا کہ جنت سے باہر کئے جاؤ) پھر مصیبت (اکتساب معاش) میں پڑجاؤ ( اور ساتھ میں تمہاری بی بی بھی مگر زیادہ حصہ مصیبت کا تم کو بھگتنا پڑے اور) یہاں جنت میں تو تمہارے لئے یہ (آرام) ہے کہ تم نہ کبھی بھوکے ہو گے ( جس سے تکلیف ہو یا اس کی تدبیر میں دیر اور پریشانی ہو) اور نہ ننگے ہوں گے ( کہ کپڑا نہ ملے یا احتیاج کے اتنی دیر بعد ملے کہ تکلیف ہونے لگے) اور نہ یہاں پیاسے ہوگے (کہ پانی نہ ملے یا دیر ہونے سے تکلیف ہو) اور نہ دھوپ میں تپو گے (کیونکہ جنت میں دھوپ ہی نہیں اور مکان بھی ہر طرح پناہ کے ہیں بخلاف اس حالت کے کہ اگر جنت سے نکل کر دنیا میں گئے تو ساری مصیبتیں پیش آویں گی اس لئے ان امور کو پیش نظر رکھ کر خوب ہی ہوشیاری و بیداری سے رہنا) پھر ان کو شیطان نے (جھانسہ دیا یعنی) بہکایا، کہنے لگا کہ اے آدم کیا میں تم کو ہمیشگی (کی خاصیت) کا درخت بتلا دوں (کہ اس کے کھانے سے ہمیشہ شاد و آباد رہو اور ایسی بادشاہی جس میں کبھی ضعف نہ آوے سو ( اس کے بہکانے سے) دونوں نے اس درخت سے کھالیا (جس سے ممانعت ہوئی تھی اور شیطان نے اس کو شجرة الخلد کہہ کر بہکایا تھا) تو (اس کے کھاتے ہی) ان دونوں کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور (اپنا بدن ڈھانکنے کو) دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کا قصور ہوگیا سو (جنت میں ہمیشہ رہنے کا مقصد حاصل کرنے کے باب میں) غلطی میں پڑگئے پھر (جب انہوں نے معذرت کی تو) ان کے رب نے (زیادہ) مقبول بنا لیا سو ان پر (مہربانی سے) توجہ فرمائی اور راہ (راست) پر ہمیشہ قائم رکھا (کہ پھر ایسی خطا نہیں ہوئی اور جب درخت کھالیا تو) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دونوں کے دونوں جنت سے اترو (اور دنیا میں) ایسی حالت سے جاؤ کہ (تمہارے فرزندوں میں) ایک کا دشمن ایک ہوگا پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت (کا ذریعہ یعنی رسول یا کتاب) پہنچے تو (تم میں) جو شخص میری اس ہدایت کا اتباع کرے گا تو وہ نہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) شقی ہوگا اور جو شخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لئے (قیامت) سے پہلے دنیا اور قبر میں) تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے روز ہم اس کو اندھا کر کے (قبر سے) اٹھائیں گے وہ (تعجب سے) کہے گا کہ اے میرے رب آپ نے مجھ کو اندھا کر کے کیوں اٹھایا میں تو (دنیا میں) آنکھوں والا تھا ( مجھ سے ایسی کیا خطا ہوئی) ارشاد ہوگا کہ (جیسی تجھ کو سزا ہوئی ہے) ایسا ہی (تجھ سے عمل ہوا تھا وہ یہ کہ) تیرے پاس (انبیاء و علماء کے واسطے سے) ہمارے احکام پہنچے تھے پھر تو نے ان کا کچھ خیال نہ کیا اور ایسا ہی آج تیرا کچھ خیال نہ کیا جاوے گا (جیسا تو نے خیال نہ کیا تھا) اور (جس طرح کہ یہ سزا مناسب عمل دی گئی) اسی طرح (ہر) اس شخص کو ہم (مناسب عمل) سزا دیں گے جو حد (اطاعت) سے گزر جاوے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لاوے اور واقعی آخرت کا عذاب ہے بڑا سخت اور بڑا دیرپا (کہ اس کے کہیں انتہا ہی نہیں تو اس سے بچنے کا بہت ہی اہتمام کرنا واجب ہے۔ ) معارف و مسائل ربط : یہاں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہوتا ہے یہ قصہ اس سے پہلے سورة بقرہ اور اعراف میں پھر کچھ سورة حجر اور سورة کہف میں گزر چکا ہے اور آخر میں سورة صٓ میں آئے گا، ہر مقام پر اس کے مناسب اجزاء قصہ کو مع ہدایات متعلقہ کے بیان کیا گیا ہے۔ اس مقام پر اس قصہ کی مناسبت پچھلی آیات سے حضرات مفسرین نے مختلف پہلوؤں سے بیان فرمائی ہے ان میں سب سے زیادہ روشن اور بےغبار بات یہ ہے کہ سابقہ آیات میں یہ ارشاد آیا ہے كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ ، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ کی نبوت و رسالت کے اثبات اور آپ کی امت کو متنبہ کرنے کے لئے ہم انبیاء سابقین کے حالات و واقعات آپ سے بیان کرتے ہیں جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیلی قصہ اس آیت سے پہلے بیان ہوچکا ہے اور ان تمام قصوں میں سب سے پہلا اور بعض حیثیات میں سب سے اہم حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ ہے۔ یہاں سے اس کو شروع کیا گیا ہے جس میں امت محمدیہ کو اس پر تنبیہ کرنا ہے کہ شیطان تمام بنی آدم کا پرانا دشمن ہے اس نے سب سے پہلے تمہارے ماں باپ سے اپنی دشمنی نکالی اور طرح طرح کے حیلوں بہانوں اور ہمدردانہ مشوروں کے جال پھیلا کر ان کو ایک لغزش میں مبتلا کردیا جس کے نتیجہ میں جنت سے اترنے کے احکام جاری ہوئے اور جنت کی پوشاک ان سے سلب ہوگئی پھر حق تعالیٰ کی طرف رجوع اور لغزش کی معافی ہو کر ان کو رسالت و نبوت کا مقام بلند عطا ہوا۔ اس لئے تمام بنی آدم کو اغواء شیطانی سے کبھی بےفکر نہ ہونا چاہئے، احکام دین کے معاملے میں شیطانی وساوس اور حیلوں سے بچنے کا بڑا اہمتام کرنا چاہئے۔ وَلَقَدْ عَهِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا، اس میں لفظ عہدنا امرنا یا وصینا کے معنے میں ہے (بحر محیط) مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس واقعہ کے متعلق آپ سے بہت پہلے آدم (علیہ السلام) کو ایک وصیت کی تھی یعنی تاکیدی حکم دیا تھا (جس کا ذکر سورة بقرہ وغیرہ میں بھی آ چکا ہے اور آگے بھی کچھ آ رہا ہے کہ ایک درخت کو معین کر کے بتلا دیا تھا کہ اس درخت کو یعنی اس کے پھل پھول یا کسی جز کو نہ کھانا اور اس کے قریب بھی نہ جانا، باقی ساری جنت کے باغات اور نعمتیں تمہارے لئے کھلی ہوئی ہیں ان کو استعمال کرتے رہو اور جیسا کے آگے آتا ہے یہ بھی بتلا دیا تھا کہ ا بلیس تمہارا دشمن ہے کہیں اس کے بہکانے میں نہ آجانا کہ تمہارے لئے مصیبت بنے مگر آدم (علیہ السلام) بھول گئے اور انہیں ہم نے ارادہ کی پختگی نہ پائی۔ یہاں دو لفظ آئے ہیں ایک نسیان دوسرے عزم، نسیان کے معنی مشہور ہیں بھول جانا، غفلت میں پڑجانا اور عزم کے لفظی معنے کسی کام کے لئے اپنے ارادے کو مضبوط باندھنے کے ہیں۔ ان دونوں لفظوں سے مراد اس جگہ کیا ہے اس کے سمجھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے اوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں اور پیغمبر سب کے سب گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ پہلے لفظ میں حضرت آدم (علیہ السلام) پر نسیان اور بھول طاری ہوجانے کا ذکر ہے اور چونکہ بھول اور نسیان غیر اختیاری امر ہے اس لئے اس کو گناہ ہی میں شمار نہیں کیا گیا جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے رفع عن امتی الخطا و النسیان یعنی میری امت سے خطا اور نسیان کا گناہ معاف کردیا گیا ہے اور قرآن کریم کا ارشاد عام ہے لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا یعنی اللہ تعالیٰ کسی شخص کو ایسا حکم نہیں دیتے جو اس کے اختیار وقدرت سے باہر ہو۔ لیکن یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ حق تعالیٰ نے اس عالم میں ایسے اسباب بھی رکھے ہیں کہ ان کو پوری احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جائے تو انسان بھول اور خطا سے بچ سکتا ہے انبیاء (علیہم السلام) چونکہ حق تعالیٰ کے مقربین خاص ہیں ان سے اتنی بات پر بھی مواخذہ ہوسکتا ہے کہ ان اسباب اختیاریہ سے کیوں کام نہ لیا جن کے ذریعہ اس بھول سے بچ سکتے تھے۔ بسا اوقات ایک وزیر سلطنت کے لئے وہ کام قابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے جو عام نوکروں کے لئے قابل انعام ہوتا ہے۔ اسی کو حضرت جنید بغدادی (رح) نے فرمایا ہے حسنات الابرار سیات المقربین، یعنی امت کے صالحین اور نیک لوگوں کے بہت سے نیک عمل مقربان بارگاہ الٰہی کے حق میں سیات اور لغزش قرار دی جاتی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ اول تو نبوت و رسالت سے پہلے کا ہے جس میں کسی گناہ کا صدور انبیاء سے بعض علمائے اہل سنت کے نزدیک عصمت کے خلاف نہیں۔ دوسرے درحقیقت یہ بھول ہے جو گناہ نہیں مگر حضرت آدم (علیہ السلام) کے مقام بلند اور تقرب حق سبحانہ و تعالیٰ کے لحاظ سے اس کو بھی ان کے حق میں ایک لغزش قرار دی گئی جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہوا اور ان کو متنبہ کرنے کے لئے اس لغزش کو عصیان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا جیسا کہ آگے آتا ہے۔ دوسرا لفظ عزم ہے اور اسی آیت میں یہ فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) میں عزم نہ پایا گیا اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ عزم کے معنی کسی کام کے ارادہ پر مضبوطی سے قائم رہنے کے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) حکم ربانی کی تعمیل کا مکمل فیصلہ اور قصد کئے ہوئے تھے مگر شیطانی وساوس سے اس قصد کی مضبوطی میں فرق آ گیا اور بھول نے اس پر قائم نہ رہنے دیا۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلٰٓى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۝ ١١٥ۧ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ آدم آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان/ 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء/ 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب . ( ادم ) ادم ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت { أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ } ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : { وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا } ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔ نسی النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، ( ن س ی ) النسیان یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف/ 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف/ 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة/ 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر/ 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی/ 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة/ 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف/ 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة/ 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر/ 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف/ 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ عزم العَزْمُ والعَزِيمَةُ : عقد القلب علی إمضاء الأمر، يقال : عَزَمْتُ الأمرَ ، وعَزَمْتُ عليه، واعْتَزَمْتُ. قال : فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران/ 159] ، وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] ، وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة/ 227] ، إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری/ 43] ، وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] ، أي : محافظة علی ما أمر به وعَزِيمَةً علی القیام . والعَزِيمَةُ : تعویذ، كأنّه تصوّر أنّك قد عقدت بها علی الشّيطان أن يمضي إرادته فيك . وجمعها : العَزَائِمُ. ( ع ز م ) العزم والعزیمۃ کسی کام کو قطعی اور حتمی طور پر کرنے کا ارادہ کرنا عزمت الامر وعزمت علیہ واعتزمت میں نے اس کام کو قطعی طور پر کرنے کا ارادہ کرلیا / قرآن میں ہے : ۔ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ [ آل عمران/ 159] جب کسی کام کا عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسہ رکھو ۔ وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكاحِ [ البقرة/ 235] اور نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا ۔ وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ [ البقرة/ 227] اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیں إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [ الشوری/ 43] بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں ۔ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه/ 115] اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ پایا ۔ یعنی جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اسکی حفاظت کرنے اور اسے بجا لانے میں ثابت قدم نہ پایا ۔ العزیمۃ ایک قسم کا گنڈہ اور تعویز جس میں اس خیال سے گر ہیں لگائی جاتی تھیں کہ گویا شیطان کو ایزا رسانی سے روک دیا گیا ہے عزیمۃ کی جمع عذایم آتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٥) اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے اس درخت میں سے کھانے سے پہلے یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہم حضرت آدم (علیہ السلام) کو ایک حکم دے چکے تھے تو ان سے اس حکم کی بجا آوری میں غفلت اور بےاحتیاطی ہوگی اور ہم نے ان میں (مردوں والی) پختگی اور ثابت قدمی نہ پائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٥ (وَلَقَدْ عَہِدْنَآ اِلآی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ ) ” یعنی مخصوص درخت کے پاس نہ جانے کا عہد ‘ جس کا ذکر قرآن میں متعدد بار ہوا ہے۔ (فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا ) ” آیت زیر نظر میں ” عزم “ کے دو ترجمے کیے گئے ہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ ایک ارادے کی پختگی۔ اس لحاظ سے وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے آدم ( علیہ السلام) کے اندر ارادے کی پختگی ‘ ہمت اور عزیمت نہیں پائی۔ وہ اللہ سے کیے گئے اپنے عہد کو نبھا نہ سکے اور اس اعتبار سے انہوں نے کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ یہ دراصل انسانی خلقت کے اندر موجود اس کمزوری کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر سورة النساء میں اس طرح آیا ہے : (وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ) کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اس کے اندر (سرکشی کا) ارادہ نہیں پایا۔ یعنی آدم ( علیہ السلام) نے جان بوجھ کر اس عہد کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ ہم نے ان ( علیہ السلام) کی نیت میں سرکشی ‘ بغاوت اور نافرمانی کا کوئی ارادہ نہیں دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھول گئے تھے ‘ ان پر نسیان طاری ہوگیا تھا ‘ جس کی وجہ سے انہیں وقتی طور پر اللہ کا وہ عہد یاد نہیں رہا تھا۔ نسیان دراصل انسان کی ایک فطری کمزوری ہے اور اسی حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ عظیم دعا سکھائی ہے : (رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا ج) (البقرۃ : ٢٨٦) کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمارا مواخذہ نہ کرنا اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہوجائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

92. From here begins a new discourse, which probably was revealed some time after the preceding discourse see (E.N. 90), and it was incorporated in this Surah by the command of Allah because both deal with the same theme. The following are the similarities between the two: (1) Both the discourses remind mankind of the forgotten lesson, the admonition, which Allah had taught man on the occasion of his creation. (2) Both teach that it is Satan who seduces man to forget that lesson. He succeeded in this by causing his first parents to forget it. Since then he has been forgetting it over and over again and, therefore, has been cautioned against this. (3) Both warn man that his ultimate success or failure depends upon his attitude towards this admonition. (4) Both warn mankind to discriminate between an inadvertent error and an intentional rebellion and their consequences. If man (like Prophet Adam and his offspring and the magicians of Pharaoh) realizes that he has been seduced by Satan, his eternal enemy, and then repents of his error, he is forgiven. But there is no forgiveness for intentional rebellion as was the case with Satan, Pharaoh and the Samiri. 93. The story of Prophet Adam has already been stated in (Surah Al-Baqarah, Ayats 30-39); (Surah Al-Aaraf, Ayats 11- 27, 189); (Surah Al-Hijr, Ayats 28-42); (Surah Al-Isra, Ayats 61-65) and (Surah Al-Kahf, Ayats 51-52). But at every place only that part of the story which was relevant to the context has been cited. Therefore, in order to understand the entire story well, one should read it in all the Surahs along with the relevant E.N's. 94. This means that he disobeyed the command because he lacked the firmness of purpose and not because of intentional rebellion. He did not say: I don't care for Allah. If it is His command, let it be. I will do whatever I like. Who is Allah to intervene in my private affairs? On the contrary, he disobeyed because he forgot Allah’s command, and did not show firmness of purpose and determination against the temptations presented by Satan. This is shown by his subsequent repentance.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :92 جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے ، یہاں سے ایک الگ تقریر شروع ہوتی ہے جو اغلباً اوپر والی تقریر کے بعد کسی وقت نازل ہوئی ہے اور مضمون کی مناسبت سے اس کے ساتھ ملا کر ایک ہی سورہ میں جمع کر دی گئی ہے ۔ مضمون کی مناسبتیں متعدد ہیں ۔ مثلاً یہ کہ: 1 ) وہ بھولا ہوا سبق جسے قرآن یاد دلا رہا ہے وہی سبق ہے جو نوع انسانی کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تھا اور جسے یاد دلاتے رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا ، اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ذکر آتے رہے ہیں ۔ 2 ) انسان اس سبق کو بار بار شیطان کے بہکانے سے بھولتا ہے ، اور یہ کمزوری وہ آغاز آفرینش سے برابر دکھا رہا ہے ۔ سب سے پہلی بھول اس کے اولین ماں باپ کو لاحق ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس کا سلسلہ برابر جاری ہے ، اسی لیے انسان اس کا محتاج ہے کہ اس کو پیہم یاد دہانی کرائی جاتی رہے ۔ 3 ) یہ بات کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا انحصار بالکل اس برتاؤ پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس ذکر کے ساتھ وہ کرے گا ، آغاز آفرینش ہی میں صاف صاف بتا دی گئی تھی آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جا رہی ہے کہ اس کی پیروی کرو گے تو گمراہی و بد بختی سے محفوظ رہو گے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلا ئے مصیبت ہو گے ۔ 4 ) ایک چیز ہے بھول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان اپنے ازلی دشمن شیطان کے بہکائے میں آجائے اور غلطی کر بیٹھے ۔ اس کی معافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس ہوتے ہی اپنے رویے کی اصلاح کر لے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے ۔ دوسری چیز ہے وہ سرکشی اور سرتابی اور خوب سوچ سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں شیطان کی بندگی جس کا ارتکاب فرعون اور سامری نے کیا ۔ اس چیز کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اس کا انجام وہی ہے جو فرعون اور سامری نے دیکھا اور یہ انجام ہر وہ شخص دیکھے گا جو اس روش پر چلے گا ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :93 آدم علیہ السلام کا قصہ اس سے پہلے سورہ بقرہ ، سورہ اعراف ( دو مقامات پر ) ، سورہ حجر ، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف میں گزر چکا ہے ۔ یہ ساتواں موقع ہے جبکہ اسے دہرایا جا رہا ہے ۔ ہر جگہ سلسلہ بیان سے اس کی مناسبت الگ ہے اور ہر جگہ اسی مناسبت کے لحاظ سے قصے کی تفصیلات مختلف طریقے سے بیان کی گئی ہیں ۔ قصے کے جو اجزاء ایک جگہ کے موضوع بحث سے مناسبت رکھتے ہیں وہ اسی جگہ بیان ہوئے ہیں ، دوسری جگہ وہ نہ ملیں گے ، یا طرز بیان ذرا مختلف ہو گا ۔ پورے قصے کو اور اس کی پوری معنویت کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات پر نگاہ ڈال لینی چاہیے ۔ ہم نے ہر جگہ اس کے ربط و تعلق اور اس سے نکلنے والے نتائج کو اپنے حواشی میں بیان کر دیا ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :94 یعنی اس نے بعد میں اس حکم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ استکبار اور قصدی و ارادی سرکشی کی بنا پر نہ تھا بلکہ غفلت اور بھول میں پڑ جانے اور عزم و ارادے کی کمزوری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے تھا ۔ اس نے حکم کی خلاف ورزی کچھ اس خیال اور نیت کے ساتھ نہیں کی تھی کہ میں خدا کی کیا پروا کرتا ہوں ، اس کا حکم ہے تو ہوا کرے ، جو کچھ میرا جی چاہے گا کروں گا ، خدا کون ہوتا ہے کہ میرے معاملات میں دخل دے ۔ اس کے بجائے اس کی نافرمانی کا سبب یہ تھا کہ اس نے ہمارا حکم یاد رکھنے کی کوشش نہ کی ، بھول گیا کہ ہم نے اسے کیا سمجھایا تھا ، اور اس کے ارادے میں اتنی مضبوطی نہ تھی کہ جب شیطان اسے بہکانے آیا اس وقت وہ ہماری پیشگی تنبیہ اور نصیحت و فہمائش کو ( جس کا ذکر ابھی آگے آتا ہے ) یاد کرتا اور اس کے دیے ہوئے لالچ کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرتا ۔ بعض لوگوں نے اس نے عزم نہ پایا کا مطلب یہ لیا ہے کہ ہم نے اس میں نافرمانی کا عزم نہ پایا ، یعنی اس نے جو کچھ کیا بھولے سے کیا ، نافرمانی کے عزم کی بنا پر نہیں کیا ۔ لیکن یہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے ۔ یہ بات اگر کہنی ہوتی تو : لَمْ نَجِدْ لَہ عَزْماً عَلَ الْعِصْیَانِ کہا جاتا نہ کہ محض : لَمْ نَجِدْلَہ عَزْماً ۔ آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ فقدان عزم سے مراد اطاعت حکم کے عزم کا فقدان ہے ، نہ کہ نافرمانی کے عزم کا فقدان ۔ علاوہ بریں اگر موقع و محل اور سیاق و سباق کی مناسبت کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کی پوزیشن صاف کرنے کے لیے یہ قصہ بیان نہیں کر رہا ہے ، بلکہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ بشری کمزوری کیا تھی جس کا صدور ان سے ہوا اور جس کی بدولت صرف وہی نہیں بلکہ ان کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ کی پیشگی تنبیہات کے با وجود اپنے دشمن کے پھندے میں پھنسی اور پھنستی رہی ہے ۔ مزید براں ، جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر اس آیت کو پڑھے گا اس کے ذہن میں پہلا مفہوم یہی آئے گا کہ ہم نے اس میں اطاعت امر کا عزم ، یا مضبوط ارادہ نہ پایا ۔ دوسرا مفہوم اس کے ذہن میں اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک وہ آدم علیہ السلام کی طرف معصیت کی نسبت کو نامناسب سمجھ کر آیت کے کسی اور معنی کی تلاش شروع نہ کر دے ۔ یہی رائے علامہ آلوسی نے بھی اس موقع پر اپنی تفسیر میں ظاہر فرمائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں : لکن لا یخفٰی علیک ان ھٰذا التفسیر غیر متبادرٍ ولا کثیر المناسبۃ للمقامِ ، مگر تم سے یہ بات پوشیدہ نہ ہو گی کہ یہ تفسیر آیت کے الفاظ سن کر فوراً ذہن میں نہیں آتی اور نہ موقع و محل کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ ( ملاحظہ ہو روح المعانی ۔ جلد 16 ۔ صفحہ 243 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

49: جس تاکید کا یہاں ذکر ہے، اس سے مراد ایک خاص درخت کا پھل نہ کھانے کی تاکید ہے۔ اس واقعے کی تفصیل اور اس سے متعلق سوالات کا جواب سورۃ بقرہ : 34 تا 39 میں گذر چکا ہے۔ اور یہاں آدم (علیہ السلام) کے بارے میں جو فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان میں عزم نہیں پایا، اس کا ایک مطلب بعض مفسرین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ان سے درخت کا پھل کھانے کے سلسلے میں جو غلطی ہوئی، اس میں ان کے عزم کو دخل نہیں تھا، یعنی انہوں نے نافرمانی کے ارادے سے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ ان سے بھول ہوگئی۔ اور دوسرے مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ان میں ایسا پختہ عزم نہیں تھا کہ شیطان کے بہکائے میں نہ آتے۔ اس سے انسان کی اس سرشت کی طرف اشارہ ہے جس میں شیطان اور نفس کے بہکائے میں آنے کی صلاحیت موجود ہے۔ چونکہ قرآن کریم نے عزم کی نفی کو بھول ہوجانے کے ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے، اس لیے یہاں پہلے معنی زیادہ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:155) عھدنا الی ادم۔ ہم نے آدم سے عہد کیا تھا۔ عہد الی۔ عہد کرنا۔ شرط لگانا۔ وصیت کرنا۔ یہ عہد شجر ممنوعہ کے پاس نہ جانے کا تھا۔ فنسی۔ ای فنسی العہد۔ پس وہ اس عہد کو بھول گیا۔ صاحب ضیاء القرآن المفردات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :۔ نسیان کا معنی ہے انسان کا اس چیز کو محفوظ نہ رکھنا جو اسے ودیعت کی گئی ہے اور اس کی وجہ کبھی تو دل کی کمزوری کبھی غفلت ہوتی ہے اور کبھی قصداً بھی انسان کسی چیز کو اپنے دل سے محو کردیتا ہے ۔ اور یہی نسیان اللہ تعالیٰ کے نزدیک مذموم ہے۔ لم نجد لہ عزما۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔ (1) ہم نے (اس لغزش میں) ان کا کوئی قصد نہ پایا۔ یعنی آپ نے قصدا اس درخت کا پھل نہیں کھایا بلکہ بھول کر کھا بیٹھے۔ ای لم نجد لہ قصدا علی اکل الشجرۃ بل اکل ناسیا۔ (مظہری) (2) ہم نے حکم الٰہی پر ثابت قدم رہنے کی آپ میں ہمت نہ پائی شیطان نے جب دل میں وسوسہ ڈالا تو آپ فریب میں آگئے۔ (3) ہم نے ان میں ارادہ ہی نہ پایا (کہ وہ ایک عہد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں) بلکہ محض بےخیالی اور بےاحتیاطی میں ان سے سرزد ہوگئی۔ العزم عقد القلب علی امضاء الامر۔ کسی کام کے کرنے کا تہیہ کرلینا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی ارادہ کی پتخگی اور درخت کے قریب نہ جانے کا جو عہد کیا تھا اس پر جمے رہتے بلکہ شیطان کے بہکانے میں آگئے۔ (شوکانی) اس واقعہ کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ (قرآن میں یہ چھٹی با رآدم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہو رہا ہے۔ اول سورة قرہ، دوم اعراف، سوم حجر، چہار اسرا، پنجم کہف اور ششم یہاں اور ہر جگہ ای ک خاص مقصد کے تحت مختلف انداز سے اس قصہ کو دہرایا گیا ہے۔ یہاں جمل سے اس کی مناسبت کے سلسلہ میں چند وجوہ بیان کی گی ہیں۔ اوپر آیت ” نذالک نقص علیک من انبا وما قدسبق “ سے اس کا تعلق ہے یعنی اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے کہ ہم قصے بیان فرمائیں گے۔ چناچہ اس کے تحت آدم کا قصہ بیان فرما دیا اور ایک مناسبت وہ ہے جو اوپر شاہ صاحب کی توضیح میں گزر چکی ہے۔ امام رازی نے فی الجملہ پانچ وجوہ ذکر کی ہیں۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 115 تا 128 تشقی تم مصیبت میں پڑجاؤ گے۔ لاتجوع تو بھوکا نہ رہے گا۔ لاتعری تو ننگا نہ رہے گا۔ لاتضمو نہ پیاسے رہوگے۔ لاتضحی نہ دھوپ میں رہوگے۔ ادل میں رہنمائی کرتا ہوں۔ الخلد ہمیشہ۔ لایبلی زوال نہ آئے۔ طغی وہ بہک گیا۔ لایشقی بدنصیب نہ ہوگا۔ معیشتۃ گزر بسر کا سامان۔ ضنک تنگ۔ النھی عقل و سمجھ۔ تشریح : آیت نمبر 115 تا 128 اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں بڑی عظمتوں سے نوازا ہے وہیں اس میں بعض کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ خواہش ہے کہ اس کو زندگی کی نعمتیں، لذتیں، راحتیں، عیش و آرام، حکومت و سلطنت اور اقتدار اس طرح مل جائے جس سے وہ سب کچھ اسے ہمیشہ حاصل رہیں اور ان کو کبھی زوال نہ آئے۔ حالانکہ اس دنیا کی مختصر زندگی میں یہ ممکن بھی نہیں ہے لیکن انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ یہ چیزیں ہمیشہ اس کے پاس رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کی رفیقہ حیات بی بی حوا کو ایسی جنت عطا فرما دی تھی جس میں بھوک، پیاس، دھوپ کی تپش اور لباس کی کمی نہ تھی اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اس جنت میں رہیں سوائے ایک درخت کے ہر چیز کو وہ کھائیں اور استعمال کریں۔ اس درخت کے قریب نہ جانا جوان کی محض ایک آزمائش تھا۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے اس نے ہمدردانہ انداز اختیار کر کے اور خیر خواہی پر قسمیں کھا کر حضرت آدم و حوا سے یہ کہا کہ اصل میں تم دونوں کو اس درخت کا پھل کھانے سے صرف اس لئے منع کیا گیا ہے کہ اگر تم نے اس کو کھالیاتو ہمیشہ اسی جنت میں رہ جاؤ گے اور تمہیں ہر طرح کا اقتدار و اختیار دائمی طور پر مل جائے گا۔ اس وقت حضرت آدم و حوا اس بات کو بھول گئے کہ شیطان ان کا ازلی دشمن ہے اور وہ دونوں اس کے دھوکے اور فریب میں آگئے۔ درخت کے کھاتے ہی ان دونوں کے بدن سے جنت کا لباس اتر گیا۔ ایک دوسرے کا ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گیا حالانکہ اس جگہ وہ دونوں تنہا تھے مگر شرم و حیا سے دونوں اپنے ستر کو جنت کے پتوں سے چھپانے لگے۔ اس وقت حضرت آدم (علیہ السلام) کو اس غلطی کا احساس ہوا کہ ان سے بھول ہوگئی حالانکہ عزم و ہمت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ دونوں اتنی بڑی بات کو کبھی نہ بھولتے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حوا کو جنت کی راحتوں سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا اور فرمایا کہ اب جنت میں آنے کا ایک ہی راستہ ہے تم اور تمہاری اولادیں دنیا میں ایک مدت تک رہ کر ایمان اور حسن عمل کا مظاہرہ کریں گے تو جنت کے مستحق بن سکیں گے۔ اس بات کی یاد دھانی کے لئے ہم اپنے پاک نفس انبیاء کرام کو راہ ہدایت کی تعلیمات دے کر بھیجتے رہیں گے اگر ان کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل کیا گیا تو وہ جنت کی ابدی راحتوں سے محروم نہ رہیں گے لیکن اگر نافرمانی کی روش اختیار کی گئی تو نہ صرف یہ کہ ان کی زندگی کا دائرہ تنگ کردیا جائے گا بلکہ دنیا اور آخرت میں سوائے نقصان کے کچھ بھی حاصل نہ ہو سکے گا۔ آخرت کی سزا تو یہ ہوگی کہ جن لوگوں نے اللہ کے پیغمبروں کی لائی ہوئی تعلیمات سے منہ پھیرا ہوگا۔ اور جان بوجھ کر اندھے بنے رہے ہوں گے جب وہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو بصارت سے محروم ہوں گے۔ وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم دنیا میں تو آنکھوں والے تھے ہمیں یہاں اندھا کر کے کیوں اٹھایا گیا ہے ؟ جواب دیا جائے گا کہ جب تمہارے پاس ہماری آیتیں بھیجی گئی تھیں تو نہ صرف ہماری آیتوں کا انکار کر کے تم حد سے بڑھ گئے تھے بلکہ جان بوجھ کر اندھے بنے رہے تھے۔ لہٰذا یہ تمہاری سزا ہے یہ تو ان کی آخرت میں سزا ہوگی۔ دنیاوی سزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ بہت سی قوموں کو اس لئے برباد کردیا گیا تھا کہ انہوں نے ہماری نافرمانیوں کے ایسے انداز اختیار کئے جس سے انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنی دنیا اور آخرت کو برباد کر ڈالا۔ آج ان کے کھنڈرات ان کی نافرمانیوں کی منہ بولتی تصویریں ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت آدم سے حکم کی فرماں برداری میں غفلت ہوگئی ان کو دنیا میں بھیجا گیا تاکہ تمام لوگ ایمان اور حسن عمل اختیار کر کے دوبارہ اپنے آپ کو جنت کا مستحق ثابت کریں۔ دنیا میں آنے کے بعد حضرت آدم و حوا اس نافرمانی پر شرمندگی محسوس کر رہے تھے اور دن رات روتے رہتے اور توبہ و استغفار میں لگے رہتے تھے آخر کار اللہ کو ان کے ندامت کے آنسوؤں پر رحم آگیا اور اللہ نے ان کی اس خطا کو معاف کردیا اور ان کی توبہ کو قبول فرما لیا۔ اب نصاریٰ کا یہ عقیدہ کہ حضرت آدم کا یہ گناہ نعوذ باللہ ان کی نسلوں میں چلتا رہا اور اللہ نے (نعوذ باللہ) اپنے بیٹے حضرت عیسیٰ کو سولی پر چڑھا کر حضرت آدم اور سارے انسانوں کے گناہوں کو معاف کردیا ۔ یہ عقیدہ کس قدر کمزور اور احمقانہ ہے لیکن بدقسمتی سے نصاریٰ اس عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں اور گمراہی کو اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ اب آدم (علیہ السلام) کے حوالے سے جلد بازی کی مثال اور اس کا نقصان ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو جنت میں داخل کرتے وقت عہد لیا تھا کہ اے آدم (علیہ السلام) ! تو اور تیری بیوی جنت میں قیام کرو۔ تمہیں اس بات کی کھلی اجازت ہے جہاں سے چاہو اور جو چاہو کھاؤ اور پیو۔ لیکن جس درخت کی نشاندہی کی گئی ہے اس کے قریب نہیں جانا۔ اگر تم اس درخت کے قریب جاؤ گے تو ظالموں میں شمار ہوگے۔ (البقرۃ : ٣٥) لیکن آدم (علیہ السلام) اس عہد کو بھول گئے اور اس پر استقامت نہ دکھا سکے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا واقعہ موقع کی مناسبت سے قرآن مجید کے کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ لیکن قرآن مجید کا حسن اسلوب ہے کہ کہیں بھی الفاظ اور انداز کا تکرار نہیں پایا جاتا۔ جہاں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے اس کے الفاظ، انداز میں نمایاں فرق ہونے کے ساتھ ساتھ استدلال کی نئی شکل میں انسان کو رہنمائی کے لیے ایک الگ سبق دیا گیا ہے۔ جس کی اس موقع پر واضح مثال یہ ہے کہ قرآن مجید کے کسی دوسرے مقام پر حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بیان نہیں ہوا کہ آدم (علیہ السلام) نے درخت کے قریب جانے کی غلطی عزم بالجزم کے ساتھ کی تھی۔ صرف یہاں قرآن مجید نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے یہ خطا بھول کر کی تھی اور وہ اپنے کیے ہوئے عہد پر عزم دکھلانے میں ناکام رہے۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) بھول گئے ان کی اولاد بھی بھول جائے گی۔ [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القران، باب ومن سورة المعوذتین ] مسائل ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بھول گئے اور بھول جانا انسان کی فطرت ہے۔ ٢۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد پر قائم نہ رہ سکے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا واقعہ کہاں کہاں بیان ہوا ہے : ١۔ حضرت آدم کی تخلیق کا اور ان کی خلافت کا اعلان۔ (البقرۃ : ٣٠) ٢۔ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ (نوح : ١٧) ٣۔ حضرت آدم بد بودار مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (الحجر : ٢٦) ٤۔ انسان یعنی آدم (علیہ السلام) کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ (الرحمن : ١٤) ٥۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے۔ (آل عمران : ٥٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آدم (علیہ السلام) کو حکم یہ تھا کہ وہ جنت کا ہر پھل کھائیں مگر ایک خاص درخت کا پھل نہ کھائیں۔ انسان کی تربیت اور اس کی قوت ارادی کو جانچنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے بعض چیزوں کی ممانعت کردی جائے تاکہ اس کی شخصیت پختہ ہو۔ یہ انسانی خواہشات اور مادی میلانات پر وہ کنٹرول کرسکے تاکہ وہ جب روحانی ترقی کے لئے اپنی ضروریات مادی کو کم کرنا چاہے تو کم کرسکے۔ وہ مرغوبات اور خواہشات کا غلام بن کر نہ رہ جائے۔ یہ وہ معیار ہے جو انسانی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ دنیا میں جن اقوام نے بھی ترقی کی ہے وہ ایسی رہی ہیں کہ انہوں نے اپنے نفس پر ضبط کیا ہے۔ ان کے مرغوبات کے استعمال میں اعتدال ہوتا ہے اور خواہشات سے وہ بلند رہے ہیں۔ انسانی تاریخ میں جب کوئی قوم بندہ مرغوبات اور دلدادہ لذات بنی ہے ، وہ روحانی اعتبار سے گر کر حیوانی درجہ تک جا پہنچی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ نے انسان اول کو اس آزمائش میں ڈالا کیونکہ اس کو منصب خلافت ارضی کے لے تیار کرنا تھا کیونکہ یہاں انہی انسانوں نے کامیاب زندگی بسر کرنی تھی جو مضبوط قوت ارادی کے مالک ہوں۔ وہ لوگ جو شیطانی چمک دمک اور شیطانی وسواس اور مرغوبات کے حصول اور فراوانی کے مقابلے میں ضبط نفس کرسکتے ہیں۔ یہ تھا انسان کا ، پہلے انسان کا پہلا تجربہ۔ اب نتیجے کا اعلان ہوتا ہے۔ فنسی ولم ندلہ عزماً (٠٢ : ٥١١) ” وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کو جنت میں مخصوص درخت کھانے سے منع فرمانا، پھر شیطان کے وسوسوں کی وجہ سے بھول کر اس میں سے کھا لینا، اور دنیا میں نازل کیا جانا حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی حضرت حوا [ کا قصہ سورة بقرہ اور سورة اعراف میں گزر چکا ہے دونوں جگہ ہم تفصیل کے ساتھ بیان کرچکے ہیں اور اجمالی طور پر سورة حجر اور سورة بنی اسرائیل میں بھی بیان کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ فلاں درخت کے پاس نہ جانا لیکن وہ اسے بھول گئے اور پختگی کے ساتھ حکم کی پابندی کا دھیان نہ رکھا لہٰذا غفلت ہوگئی۔ پہلی آیت میں بالاجمال اس کو بیان فرمایا، اس کے بعد واقعہ کی تفصیل بیان فرمائی اور وہ یہ کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو ان سب نے سجدہ کرلیا لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا وہ حکم ماننے سے انکار کر بیٹھا اور کٹ حجتی بھی کی۔ کہنے لگا کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور یہ مٹی سے، لہٰذا میں افضل ہوا جو افضل ہے وہ اپنے کم درجہ والے کو کیوں سجدہ کرے ؟ اس نے حکم عدولی بھی کی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو خلاف حکمت بھی بتایا اور اپنی افضلیت کا دعویٰ بھی کردیا۔ جب اس نے یہ حرکت کی تو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ اے آدم یہ تمہارا دشمن ہے یہ تمہارے پیچھے لگے گا اور کوشش کرے گا کہ تمہیں یہاں سے نکلوا دے۔ تم ہرگز اس کے کہنے میں نہ آنا ورنہ مصیبت میں پڑجاؤ گے۔ (دنیا میں جانا پڑے گا اور وہاں کی مشقتوں اور محنتوں میں پڑو گے۔ مشکلات اور مصائب سہو گے) یہاں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہے۔ کھاؤ، پیو، پہنو نہ یہاں بھوکے رہو گے نہ پیاسے اور نہ ننگے، یہاں تمہیں دھوپ کی حرارت بھی نہیں پہنچے گی۔ و ھو من باب الاکتفاء کقولہ تعالیٰ سرابیل تقیکم الحر (ای والبرد فلا یمسھم الحر ولا البردُ ) اس میں یہ بتادیا کہ شیطان کے بہکاوے میں آنے سے یہاں سے نکلنا ہوگا اور دنیا میں جانا ہوگا اور وہاں ان مشکلات اور مصائب سے دو چار ہونا پڑے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

81:۔ ہم نے بنی آدم کی تخلیق سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ وہ جنت میں رہیں اور وہیں کے پھلوں اور میووں میں سے جو چاہیں کھائیں اور ایک درخت سے ہم نے ان کو منع کیا تھا کہ اس کے قریب نہ جائیں مگر ان سے بھول ہوگئی اور انہوں نے شجرہ ممنوعہ سے تناول کرلیا۔ اس طرح وہ عزم اور ثبات قدم کا ثبوت نہ دے سکے یا عزم سے پختہ ارادہ مراد ہے، یعنی آدم (علیہ السلام) نے بالارادہ اللہ کے حکم کے خلاف نہیں کیا تھا۔ بلکہ بھول ہوگئی تھی اور اللہ کا حکم یاد نہیں رہا تھا۔ کانہ لما مدح سبحانہ القران وحرض علی استعمال التؤدۃ والرفق فی اخذہ و عھد علی العزیمۃ بامرہ وترک النسیان فیہ ضرب حدیث ادم مثلاً للنسیان فیہ ضرب حدیث ادم مثلا للنسیان وترک العزیمۃ (روح ج 16 ص 219) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 15 اور بلاشبہ ہم نے اب سے بہت پہلے آدم کی تاکید کی تھی اور حکم دیا تھا مگر وہ بھول گیا اور بےاحتیاطی سے کام لیا اور یاد نہ رکھا اور ہم نے اس میں پختگی اور استقلال نہ پایا۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) نے اس حکم اور تاکید کو یاد نہ رکھا جس چیز کے کھانے سے منع کیا تھا اس کے کھانے میں مبتلا ہوگئے ہم نے اس کے ارادے میں ہمت و استقلال اور پختگی اور ثابت قدمی نہ پائی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں وہی جو دانا کھالیا بھول گئے یعنی قائم نہ رہے۔