Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 119

سورة طه

وَ اَنَّکَ لَا تَظۡمَؤُا فِیۡہَا وَ لَا تَضۡحٰی ﴿۱۱۹﴾

And indeed, you will not be thirsty therein or be hot from the sun."

اور نہ تو یہاں پیاسا ہوتا ہے نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And you (will) suffer not from thirst therein nor from the sun's heat. These two characteristics are also opposites. Thirst is the internal heat and being parched from lack of water, while the suns heat is the external heat. فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا ادَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لاَّ يَبْلَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] جنت میں انسان کی ضروریات کا سامان بھی موجود تھا اور ان کے علاوہ عیش و عشرت کے لئے وافر نعمتیں بھی موجود تھیں اور سیدنا آدم (علیہ السلام) کو بتلایا یہ گیا تھا کہ اگر تم شیطان کے فریب میں آگئے تو نہ صرف یہ کہ تم سے جنت کی نعمتیں چھین لی جائیں گی بلکہ تمہیں اپنی ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرنا پڑے گی اور ان کے لئے مشقت بھی اٹھانا ہوگی۔ مثلا ً دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لئے مکان بنانا ہوگا اور کھانے پینے کے لئے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ہوگا اور پہننے کے لئے لباس کی ضرورت بھی پیش آئے گی اور تمہاری زندگی کا بیشتر حصہ انھیں باتوں کے حصول میں صرف ہوجائے گا۔ جنت کی دوسری نعمتیں تو کم ہی کسی کو میسر آئیں گی۔ لہذا اللہ کے حکم کو دھیان کے ساتھ یاد رکھنا اور شیطان کے فریب میں نہ آجانا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْہَا وَلَا تَضْحٰي۝ ١١٩ ظمأ الظِّمْءُ : ما بين الشّربتین، والظَّمَأُ : العطش الذي يعرض من ذلك . يقال : ظَمِئَ يَظْمَأُ فهو ظَمْآَنُ. قال تعالی: لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] ، وقال : يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً حَتَّى إِذا جاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً [ النور/ 39] . ( ظ م ء ) الظمئ ۔ دو مرتبہ پانی پینے کے درمیان کا وقفہ اظلماء پیاس جو اس وقفہ میں عارض ہو دراصل یہ ظمئ یظماء فھو ظمآن کا مصدر ہے ۔ قرآن میں ہے : لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] اور یہ کہ نہ پیا سے رہو اور نہ دہوپ کھاؤ ۔ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ ماءً حَتَّى إِذا جاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئاً [ النور/ 39] کہ پیاسا اسے پانی سمجھ کر اس کیطرف جاتا ہے مگر جب وہاں پہنچتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ۔ ضحی الضُّحَى: انبساطُ الشمس وامتداد النهار، وسمّي الوقت به . قال اللہ عزّ وجل : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس/ 1] ، إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات/ 46] ، وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی/ 1- 2] ، وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات/ 29] ، وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى [ طه/ 59] ، وضَحَى يَضْحَى: تَعَرَّضَ للشمس . قال : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] ، أي : لك أن تتصوّن من حرّ الشمس، وتَضَحَّى: أَكَلَ ضُحًى، کقولک : تغدّى، والضَّحَاءُ والغداءُ لطعامهما، وضَاحِيَةُ كلِّ شيءٍ : ناحیتُهُ البارزةُ ، وقیل للسماء : الضَّوَاحِي ولیلة إِضْحِيَانَةٌ ، وضَحْيَاءُ : مُضيئةٌ إضاءةَ الضُّحَى. والأُضْحِيَّةُ جمعُها أَضَاحِي وقیل : ضَحِيَّةٌ وضَحَايَا، وأَضْحَاةٌ وأَضْحًى، وتسمیتها بذلک في الشّرع لقوله عليه السلام : «من ذبح قبل صلاتنا هذه فليُعِدْ» ( ض ح و ) الضحی ٰ ۔ کے اصل معنی دہوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس/ 1] سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات/ 46] ایک شام یا صبح وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی/ 1- 2] آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی تاریکی کی جب چھاجائے ۔ وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات/ 29] اور اسکی روشنی نکالی ۔ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى[ طه/ 59] اور یہ لوگ ( اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں ۔ ضحی یضحیٰ شمسی یعنی دھوپ کے سامنے آنا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه/ 119] اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔ یعنی نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاؤ گے ۔ تضحی ضحی کے وقت کھانا کھانا جیسے تغدیٰ ( دوپہر کا کھانا کھانا ) اور اس طعام کو جو ضحی اور دوپہر کے وقت کھایا جائے اسے ضحاء اور غداء کہا جاتا ہے ۔ اور ضاحیۃ کے معنی کسی چیز کی کھلی جانب کے ہیں اس لئے آسمان کو الضواحی کہا جاتا ہے لیلۃ اضحیانۃ وضحیاء روشن رات ( جس میں شروع سے آخر تک چاندنی رہے ) اضحیۃ کی جمع اضاحی اور ضحیۃ کی ضحایا اور اضحاۃ کی جمع اضحیٰ آتی ہے اور ان سب کے معنی قربانی کے ہیں ( اور شرقا قربانی بھی چونکہ نماز عید کے بعد چاشت کے وقت دی جاتی ہے اس لئے اسے اضحیۃ کہاجاتا ہے حدیث میں ہے (9) من ذبح قبل صلوتنا ھذہ فلیعد کہ جس نے نما زعید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا وہ دوبارہ قربانی دے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

98. This is the explanation of the distress which they had to undergo immediately after their expulsion from the Garden. Here instead of mentioning the high and perfect blessings of the Garden, only four basic necessities of life have been stated, namely, food, drink, dress, and shelter, as if to say: In the Garden you are being supplied with all these necessities without any labor from you. But if you succumb to the temptations and seduction of Satan, you will be totally deprived not only of these facilities but also of the higher blessings of the Garden. In that case, you will have to work so hard for these necessities that very little energy and time and leisure will be left with you to strive for higher aims of life.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :98 یہ تشریح ہے اس مصیبت کی جس میں جنت سے نکلنے کے بعد انسان کو مبتلا ہو جانا تھا ۔ اس موقع پر جنت کی بڑی اور اکمل و افضل نعمتوں کا ذکر کرنے کے بجائے اس کی چار بنیادی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ، یعنی یہ کہ یہاں تمہارے لیے غذا ، پانی ، لباس اور مسکن کا انتظام سرکاری طور پر کیا جا رہا ہے ، تم کو ان میں سے کوئی چیز بھی حاصل کرنے کے لئے محنت اور کوشش نہیں کرنی پڑتی ۔ اس سے خود بخود یہ بات آدم و حوا علیہما السلام پر واضح ہو گئی کہ اگر وہ شیطان کے بہکائے میں آ کر حکم سرکار کی خلاف ورزی کریں گے تو جنت سے نکل کار انہیں یہاں کی بڑی نعمتیں تو درکنا ، یہ بنیادی آسائشیں تک حاصل نہ رہیں گی ۔ وہ اپنی بالکل ابتدائی ضروریات تک کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے اور اپنی جان کھپانے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ چوٹی سے ایڑی تک پسینہ جب تک نہ بہائیں گے ایک وقت کی روٹی تک نہ پا سکیں گے ۔ معاش کی فکر ہی ان کی توجہ اور ان کے اوقات اور ان کی قوتوں کا اتنا بڑا حصہ کھینچ لے جائے گی کہ کسی بلند تر مقصد کے لیے کچھ کرنے کی نہ فرصت رہے گی نہ طاقت ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 گویا حضرت آدم اور حوا کو بتادیا گیا کہ تمہاری تمام بنیادی ضرورتوں کا یہاں کسی محنت و مشقت کے بغیر انتظام کردیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہی چارچیزیں ہیں۔ بھوک پوری کرنے کیلئے کھانا، پیاس بجھانے کے لئے پانی، ستر ڈھانپننے کے لے لباس اور سردی گرمی سے بچنے کے لئے مکان یہ آیت دراصل شقاوت کی تفسیر ہے اور اس شقاوت سے دنیوی شقاوت مراد ہے نہ کہ اخروی، (کبیر شوکانی) نوائد صفحہ ہذا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

119 اور نہ یہاں تو پیاسا رہے گا اور نہ دھوپ کی تکلیف اٹھائے گا۔ یعنی بھوک پیاس برہنگی اور دھوپ ان تمام تکالیف سے یہاں محفوظ ہو اور اگر شیطان کے بہکانے سے کوئی غلطی کر بیٹھے اور یہاں سے نکال دیئے گئے تو ہر قسم کی تکلیف اور مشقت میں مبتلا ہو جائو گے۔