Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 125

سورة طه

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی وَ قَدۡ کُنۡتُ بَصِیۡرًا ﴿۱۲۵﴾

He will say, "My Lord, why have you raised me blind while I was [once] seeing?"

وہ کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He will say:O my Lord! Why have you raised me up blind, while I had sight (before). This means in the life of this world. قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ ايَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩١] یعنی اس کا اعتراض یہ تھا کہ دنیا میں تو میں بینا تھا اور ہر چیز کو دیکھ سکتا تھا۔ آج مجھے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا جارہا ہے۔ اس کو جواب یہ دیا جائے گا کہ تو دنیا میں میری آیات دیکھنے سے اندھا بنا رہا تھا۔ آنکھیں عطا کرنے کا مقصد صرف یہی نہیں تھا کہ تو اپنے مطلب کی چیزیں دیکھے۔ بلکہ اصل مطلب یہ تھا کہ تو اللہ کی آیات کو دیکھے۔ اس لحاظ سے تو دنیا میں اندھا ہی بنا رہا۔ تیرے اس فعل کا نتیجہ ہی مثل شکل میں تیرے سامنے آیا ہے۔ تو اب تعجب کیوں کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ابتدائے حشر کا ذکر ہے۔ بعد میں اس کی آنکھیں کھول دی جائیں گی تو وہ دوزخ اور اموال محشر کا ٹھیک ٹھیک معائنہ کرسکے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِيْٓ اَعْمٰي وَقَدْ كُنْتُ بَصِيْرًا۝ ١٢٥ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ حشر ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٥) وہ عرض کرے گا کہ مجھے اندھا کیوں کیا میں تو دنیا میں آنکھوں والا تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:125) لم حشرتنی۔ لم یہ مرکب ہے لام تعلیل اور ما استفہامیہ سے۔ ما کے الف کو تخفیف کے لئے ساقط کردیا گیا ہے۔ کیوں ۔ کس لئے ۔ کس وجہ سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ میرے ذکر کو نہ بھولنا جس نے اپنے رب کے ذکر اور نصیحت کو بھولا دیا اس کی سزا یہ ہوگی کہ اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھایا جائے گا اور وہ اپنے رب سے ان الفاظ میں فریاد کرے گا۔ جس شخص کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھایا جائے گا وہ اپنے رب کے حضور التجا کی صورت میں سوال کرے گا کہ میرے رب مجھے آج اندھا کرکے کیوں اٹھایا گیا ہے۔ جبکہ دنیا میں میں سب کچھ دیکھا کرتا تھا۔ رب ذوالجلال کی طرف سے اسے جواب دیا جائے گا کہ یہ سزا تجھے اس لیے دی گئی ہے کیونکہ تو نے ہماری آیات کو بھلا دیا تھا۔ اس لیے آج تمہیں بھی بھلا دیا گیا ہے۔ یہ اس شخص کی سزا ہے جس نے حدود سے تجاوز کیا اور اپنے رب کے احکام کو ماننے سے انکار کردیا۔ آخرت کا عذاب بہت سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ پہلی آیت میں اس شخص کی سزا دنیا کی تنگی کے حوالے سے بیان ہوئی۔ اس کے مقابلے میں یہاں فرمایا کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی تنگی اذیت ناک عذاب کی صورت میں ہوگی جو ہمیشہ رہنے والا ہوگا۔ دوسرا اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے یہ بتلایا جائے گا کہ تو اندھا ہونے پر پریشانی کا اظہار کررہا ہے۔ یہ تو تیری پریشانی کی ابتداء ہے۔ اس کے بعد جو تجھے سزا ملنے والی ہے وہ بڑی ہی سخت اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے جب فریاد کریں گے تو انھیں یہ کہہ کر ٹھکرا دیا جائے گا کہ آج تمہیں اس طرح ہی فراموش کیا جاتا ہے۔ جس طرح تم نے دنیا میں اپنے رب اور اس کے احکام کو فراموش کیا تھا۔ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے احکام کو فراموش کرنے والے کو قیامت کے دن فراموش کردیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ کو فراموش کرنے والے کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھایا جائے گا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال رب لم حشر تنی اعمی وقد کنت بصیراً (٠٢ : ٥٢١) ” پروردگار دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا ، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا۔ “ تو جواب آئے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

85:۔ جس شخص نے اللہ کی ہدایت کو محض ضد وعناد کی وجہ سے رد کردیا قیامت کے دن اس کو قبر سے اندھا اٹھایا جائے گا تو وہ اللہ سے سوال کرے گا کہ بارے خدایا ! دنیا میں تو چنگا بھلا دیکھتا تھا اور تو نے میری آنکھوں کو نور دے رکھا تھا تو آج مجھے کیوں آنکھوں کی روشنی سے محروم کردیا گیا ہے۔ ” قَالَ کَذَاَلِکَ “ تو اس کو جواب ملے گا کہ جس طرح دنیا میں تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں۔ ہمارے پیغمبروں اور مبلغوں نے تجھے پڑھ کر سنائیں تو تو نے ان کو پس پشت ڈال دیا ان کی پرواہ نہ کی اور ان سے آنکھیں بالکل بند کرلیں اور ان سے اندھا ہوگیا۔ اسی طرح آج تجھے بھلا دیا گیا ہے اور تجھے کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور تیری آنکھوں سے نور چھین کر تجھے اندھیرے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان ایاتنا اتتک واضحۃ مستنیرۃ فلم تنظر الیھا بعین المعتبر ولم تتبصرو ترکتھا وعمیت عنھا فکذلک الیوم نترکک علی عماک ولا نزیل غطاء ه عن عینیک (بحر ج 6 ص 287) ۔ لیکن یہ اندھا پن ایک معین وقت تک ہوگا اس کے بعد زائل ہوجائے گا اور وہ قیامت کے اہوال اور جہنم وغیرہ کا مشاہدہ کریں گے۔ وھذا الترک یبقی الی ماشاء اللہ تعالیٰ ثم یزال العمی عنہ فیری اھوال القیمۃ ویشاھد النار کما قال سبحابہ ورای المجرمون النار الخ (روح ج 16 ص 251) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

125 اے میرے پروردگار آپ نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھنے والا تھا۔ یعنی میں تو خاصہ اچھا بچھا دیکھتا بھالتا تھا آج میدان حشر میں مجھے اندھا کیوں کردیا۔