Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 128

سورة طه

اَفَلَمۡ یَہۡدِ لَہُمۡ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ یَمۡشُوۡنَ فِیۡ مَسٰکِنِہِمۡ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّہٰی ﴿۱۲۸﴾٪  16

Then, has it not become clear to them how many generations We destroyed before them as they walk among their dwellings? Indeed in that are signs for those of intelligence.

کیا ان کی رہبری اس بات نے بھی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی بستیاں ہلاک کر دی ہیں جن کے رہنے سہنے کی جگہ یہ چل پھر رہے ہیں ۔ یقیناً اس میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Many Nations were destroyed and in Them is a Lesson Allah, the Exalted, says, أَفَلَمْ يَهْدِ ... Is it not a guidance for them... This is addressed to those who reject what the Prophet came to them with: ... لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ... (to know) how many generations We have destroyed before them, in whose dwellings they walk! `We destroyed those who denied the Messengers from the previous nations before them. They showed open hostility, so now there is not trace of them and none of them are left. This is witnessed by the empty homes that these people left behind, and which others have now inherited, moving about in the dwellings of those of the past.' ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لاُِّوْلِي النُّهَى Verily, in this are signs indeed for men of understanding. This means those who have sound intellect and correct understanding. This is as Allah says, أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِى الاٌّرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَأ أَوْ ءَاذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا فَإِنَّهَا لاَ تَعْمَى الاٌّبْصَـرُ وَلَـكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِى فِى الصُّدُورِ Have they not traveled through the land, and have they hearts wherewith to understand and ears wherewith to hear! Verily, it is not the eyes that grow blind, but it is the hearts which are in the breasts that grow blind. (22:46) Allah also said in Surah Alif Lam Mim As-Sajdah, أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَاكِنِهِمْ Is it not a guidance for them: how many generations We have destroyed before them in whose dwellings they walk about. (32:26) Then, Allah, the Exalted, says, وَلَوْلاَ كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى

ویرانوں سے عبرت حاصل کرو ۔ جو لوگ تجھے نہیں مان رہے اور تیری شریعت کا انکار کر رہے ہیں کیا وہ اس بات سے بھی عبرت حاصل نہیں کرتے کہ ان سے پہلے جنہوں نے یہ ڈھنگ نکالے تھے ہم نے انہیں تباہ وبرباد کردیا ؟ آج ان کی ایک آنکھ جھپکتی ہوئی اور ایک سانس چلتا ہوا اور ایک زبان بولتی ہوئی باقی نہیں بچی ، ان کے بلند وبالا پختہ اور خوبصورت کشادہ اور زینت دار محل ویران کھنڈر پڑے ہوئے ہیں جہاں سے ان کی آمد ورفت رہتی ہے اگر یہ علقمند ہوتے تو یہ سامان عبرت ان کے لئے بہت کچھ تھا ۔ کیا یہ زمین میں چل پھر کر قدرت کی ان نشانیوں پر دل سے غور فکر نہیں کرتے ؟ کیا کانوں سے ان کے درد ناک فسانے سن کر عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ کیا ان اجڑی ہوئی بستیاں دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں کھولتے ؟ یہ آنکھوں کے ہی اندھے نہیں بلکہ دل کے بھی اندھے ہیں سورۃ الم السجدہ میں بھی مندرجہ بالل آیت جیسی آیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ بات مقرر کرچکا ہے کہ جب تک بندوں پر اپنی حجت ختم نہ کردے انہیں عذاب نہیں کرتا ۔ ان کے لئے اس نے ایک وقت مقرر کردیا ہے ، اسی وقت ان کو ان کے اعمال کی سزا ملے گی ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ادھر گناہ کرتے ادھر پکڑ لئے جاتے ۔ تو ان کی تکذیب پر صبر کر ، ان کی بےہودہ باتوں پر برداشت کر ۔ تسلی رکھ یہ میرے قبضے سے باہر نہیں ۔ سورج نکلنے سے پہلے سے مراد تو نماز فجر ہے اور سورج ڈوبنے سے پہلے سے مراد نماز عصر ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے کہ ہم ایک مرتبہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھ کر فرمایا کہ تم عنقریب اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو بغیر مزاحمت اور تکلیف کے دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہوسکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی اور سورج غروب ہونے سے پہلی کی نماز کی پوری طرح حفاظت کرو ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا ان دونوں وقتوں کی نماز پڑھنے والا آگ میں نہ جائے گا ۔ مسند اور سنن میں ہے کہ آپ نے فرمایا سب سے ادنی درجے کا جنتی وہ ہے جو ہزار برس کی راہ تک اپنی ہی اپنی ملکیت دیکھے گا سب سے دور کی چیز بھی اس کے لئے ایسی ہی ہو گی جیسے سب سے نزدیک کی اور سب سے اعلیٰ منزل والے تو دن میں دو دو دفعہ دیدار الٰہی کریں گے پھر فرماتا ہے رات کے وقتوں میں بھی تہجد پڑھا کر ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد مغرب اور عشاء کی نماز ہے ۔ اور دن کے وقتوں میں بھی اللہ کی پاکیزگی بیان کیا کر ۔ تاکہ اللہ کے اجر و ثواب سے تو خوش ہو جا ۔ جیسے فرمان ہے کہ عنقریب تیرا اللہ تجھے وہ دے گا کہ تو خوش ہوجائے گا ۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے جنتیو! وہ کہیں گے لبیک ربنا وسعدیک ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم خوش ہو گئے ؟ وہ کہیں گے اے اللہ ہم بہت ہی خوش ہیں تونے ہمیں وہ نعمتیں عطاء فرما رکھی ہیں جو مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیں ۔ پھر کیا وجہ کہ ہم راضی نہ ہوں ۔ جناب باری ارحم الراحمین فرمائے گا لو میں تمہیں ان سب سے افضل چیز دیتا ہوں ۔ پوچھیں گے اے اللہ اس سے افضل چیز کیا ہے؟ فرمائے گا میں تمہیں اپنی رضامندی دیتا ہوں کہ اب کسی وقت بھی میں تم سے ناخوش نہ ہوں گا ۔ اور حدیث میں ہے کہ جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ اسے پورا کرنے والا ہے کہیں گے اللہ کے سب وعدے پورے ہوئے ہمارے چہرے روشن ہیں ہماری نیکیوں کا پلہ گراں رہا ہمیں دوزخ سے ہٹا دیا گیا ۔ جنت میں داخل کردیا گیا اب کون سی چیز باقی ہے؟ اسی وقت حجاب اٹھ جائیں گے اور دیدار الٰہی ہوگا ۔ اللہ کی قسم اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہ ہوگی یہی زیادتی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] اس آیت کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جن میں سابقہ اقوام کی ہلاکت کے چرچے زبان زد تھے اور وہ اپنے تجارتی سفروں کے دوران ان کے تباہ شدہ کھنڈرات بحشم خود ملاحظہ بھی کرسکتے تھے۔ اگر وہ ان کے حالات میں کچھ بھی غور وفکر کرتے تو انھیں معلوم ہوسکتا تھا کہ بالآخر ان کا اپنا بھی ویسا ہی انجام ہوسکتا ہے۔ لہذا وہ چاہتے تو انھیں واقعات سے کافی عبرت حاصل کرسکتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ ۔۔ :” ھَدٰی یَھْدِیْ “ راہنمائی کرنا۔ ” الْقُرُوْنِ “ ” قَرْنٌ“ کی جمع ہے۔ قرن کا معنی متعین کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سب سے زیادہ معتبر ہے، جو آپ نے عبداللہ بن بسر (رض) کے متعلق فرمایا، آپ نے فرمایا : ( یَعِیْشُ ھٰذَا الْغُلَامُ قَرْنًا، فَعَاش ماءَۃَ سَنَۃٍ ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٦؍١٥٩، ح : ٢٦٦٠ ] ” یہ لڑکا ایک قرن زندہ رہے گا “ تو وہ سو سال زندہ رہے۔ “ سلسلہ صحیحہ کی اس روایت میں ابن عساکر کے حوالے سے مزید یہ ہے کہ عبداللہ بن بسر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی : ” یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ قربان ! قرن کتنا ہوتا ہے ؟ “ فرمایا : ” سو سال۔ “ عبداللہ بن بشر (رض) نے فرمایا کہ میں پچانوے برس جی چکا ہوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پوری ہونے میں پانچ برس رہ گئے ہیں۔ محمد بن قاسم کہتے ہیں کہ ہم نے بعد میں پانچ سال گنے، پھر وہ فوت ہوگئے۔ 3 قرون سے مراد عاد وثمود ہیں، کیونکہ عرب لوگ یمن، نجران اور اس کے گرد و نواح کی طرف جاتے ہوئے قوم عاد کے رہنے کی جگہوں سے گزرتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) تبوک کے سفر میں ثمود کے مکانات سے گزرے تھے۔ اسی طرح ان سفروں میں قوم لوط اور اہل مدین کی تباہ شدہ بستیاں سب سے بڑی شاہراہ پر واقع تھیں، جہاں سے وہ صبح و شام گزرتے تھے۔ دیکھیے سورة حجر (٧٦ تا ٧٩) اور صافات (٣٣ تا ٣٨) ۔ 3 اس سورت میں پیغمبروں کو جھٹلانے والے لوگوں کا اور ان کے بدترین انجام کا ذکر گزر چکا ہے۔ حق یہ تھا کہ اہل عرب تاریخ سے سبق حاصل کرتے اور کفر و شرک سے باز آجاتے، مگر وہ اپنی سرکشی پر جمے رہے۔ اس لیے بطور تعجب فرمایا کہ کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر ڈالا، جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں اور جنھیں دیکھنے سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ لوگ قد و قامت، صنعت و زراعت اور قوت و مہارت میں ان سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ مدائن صالح، اہرام مصر اور دوسرے آثار قدیمہ شاہد ہیں کہ اس قوت کے لوگ پھر پیدا نہیں ہوئے۔ دیکھیے سورة فجر (٦ تا ١٤) اور سورة روم (٩، ١٠) ان لوگوں کے آثار آنکھوں سے دیکھ کر اور اپنے آبا و اجداد سے تواتر کے ساتھ ان کی قوت وہیبت اور عذاب الٰہی سے بربادی کے واقعات سن کر بھی کیا ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر یہ لوگ بھی ان کی روش پر اڑے رہے تو ان کا انجام کیا ہوگا ؟ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّهٰى : ” النُّهٰى“ کی تفسیر اسی سورت کی آیت (٥٤) میں دیکھیے۔ ” النُّهٰى“ جمع ہونے کی وجہ سے ترجمہ ” عقلوں والے “ کیا ہے اور ” لَاٰيٰتٍ “ پر تنوین تعظیم کی وجہ سے ترجمہ ” کئی عظیم نشانیاں “ کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The word ھُدٰی - (guidance) implied in the first sentence of verse 128 can refer either to the Qur&an or to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the meaning would be, |"Did not the Qur&an or the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) direct them i.e. the people of Makkah and tell them about the nations and the societies who were destroyed because they disobeyed the commands of Allah and turned away from the message brought to them by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and whose houses and lands are now occupied by them?|" It is also possible that the word ھُدٰی (guidance) may refer to God in which case the meaning would be |"Did God not direct.|"

خلاصہ تفسیر (یہ معترضین جو اعراض پر اصرار کر رہے ہیں تو) کیا ان لوگوں کو (اب تک) اس سے بھی ہدایت نہیں ہوئی کہ ہم ان سے پہلے بہت سے گروہوں کو (اس اعراض ہی کے سبب عذاب سے) ہلاک کرچکے ہیں کہ ان (میں سے بعض) کے رہنے کے مقامات میں یہ لوگ بھی چلتے (پھرتے) ہیں (کیونکہ شام کو جاتے ہوئے اہل مکہ کے رستہ میں بعض ان قوموں کے مکانات آتے تھے) اس (امر مذکور) میں تو اہل فہم کے (سمجھنے کے) لئے (کافی) دلائل (اعراض کے نتائج بد ہونے کے) موجود ہیں اور (ان پر فوری عذاب نہ آنے سے جو ان کو شبہ اپنے مذہب کے مذموم نہ ہونے کا ہوتا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ) اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے فرمائی ہوئی نہ ہوتی (وہ یہ کہ بعض مصلحتوں کی وجہ سے ان کو مہلت دی جاوے گی) اور (عذاب کے لئے) ایک میعاد معین نہ ہوتی (کہ وہ قیامت کا دن ہے) تو (ان کے کفر و اعراض کے اقتضاء سے) عذاب لازمی طور پر ہوتا (خلاصہ یہ کہ کفر تو مقضی عذاب کا ہے لیکن ایک مانع کی وجہ سے توقف ہو رہا ہے پس ان کا وہ شبہ اور فوری عذاب نہ آنے سے اپنے حق پر ہونے کا استدلال غلط ہے، غرضیہ کہ امہال ہے اہمال نہیں) سو (جب عذاب کا آنا یقینی ہے تو) آپ ان کی (کفر آمیز) باتوں پر صبر کیجئے (اور بغض فی اللہ کی وجہ سے جو ان پر غیظ آتا ہے اور ان پر تاخیر عذاب سے اضطراب ہوتا ہے اس اضطراب کو ترک کیجئے اور اپنے رب کی حمد وثناء کے ساتھ (اس کی) تسبیح (و تقدیس) کیجئے (اس میں نماز بھی آگئی) آفتاب نکلنے سے پہلے (مثلاً نماز فجر) اور اس کے غروب سے پہلے (مثلاً نماز ظہر و عصر) اور اوقات شب میں (بھی) کیا کیجئے ( مثلاً نماز مغرب و عشاء) اور ان کے اول و آخر میں (تسبیح کرنے کے واسطے اہتمام کے لئے مکرر کہا جاتا ہے جس سے نماز فجر و مغرب کے ذکر کی بھی اہتماماً تکریر ہوگئی) تاکہ (آپ کو ثواب ملے) آپ (اس سے) خوش ہوں (مطلب یہ کہ آپ اپنی توجہ معبود حقیقی کی طرف رکھئے لوگوں کی فکر نہ کیجئے) اور ہرگز ان چیزوں کی طرف آپ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے (جیسا اب تک بھی نہیں دیکھا) جس سے ہم نے کفار کے مختلف گروہوں کو (مثلاً یہود و نصاری و مشرکین کو) ان کی آزمائش کے لئے متمتع کر رکھا ہے کہ وہ (محض) دنیوی زندگی کی رونق ہے (مطلب اوروں کو سنانا ہے کہ جب معصوم نبی کے لئے یہ ممانعت ہے جن میں احتمال بھی نہیں تو غیر معصوم کو تو اس کا اہتمام کیونکر ضروری نہ ہوگا اور آزمائش یہ کہ کون احسان مانتا ہے اور کون سرکشی کرتا ہے اور آپ کے رب کا عطیہ (جو آخرت میں ملے گا) بدرجہا (اس سے) بہتر اور دیرپا ہے (کہ کبھی فنا ہی نہ ہوگا، خلاصہ کلام کا یہ ہوا کہ نہ ان کے اعراض بکسر الہمزہ کی طرف التفات کیا جاوے نہ ان کے اعراض بفتح الہمزہ یعنی اسباب عیش کی طرف سب کا انجام عذاب ہے) اور اپنے متعلقین کو (یعنی اہل خاندان کو یا مؤمنین کو) بھی نماز کا حکم کرتے رہئے اور خود بھی اس کے پابند رہئے (یعنی زیادہ توجہ کے قابل یہ امور ہیں) ہم آپ سے اور (اسی طرح دوسروں سے ایسے) معاش (کموانا) نہیں چاہتے (جو طاعات ضروریہ سے مانع ہوں) معاش تو آپ کو (اور اسی طرح اوروں کو) ہم دیں گے (یعنی مقصود اصلی اکتساب نہیں بلکہ دین اور اطاعت ہیں، اکتساب کی اسی حالت میں اجازت یا امر ہے کہ ضروری اطاعت میں وہ مخل نہ ہو) اور بہتر انجام تو پرہیزگاری ہی کا ہے (اس لئے ہم حکم دیتے ہیں لَا تَمُدَّنَّ اور وَاْمُرْ اَهْلَكَ الخ اور معترضین کے بعض احوال و اقوال جو اوپر معلوم ہوئے اسی طرح ان کا ایک اور قول بھی مذکور ہوتا ہے کہ) وہ لوگ (عناداً ) یوں کہتے ہیں کہ یہ رسول ہمارے پاس کوئی نشانی (اپنی نبوت کی) کیوں نہیں لاتے) (آگے جواب ہے کہ) کیا ان کے پاس پہلی کتابوں کے مضمون کا ظہور نہیں پہنچا ( مراد اس سے قرآن ہے کہ اس سے کتب سابقہ کے مضمون پیشین گوئی کے صدق کا ظہور ہوگیا مطلب یہ کہ کیا ان کے پاس قرآن نہیں پہنچا جس کی پہلے سے شہرت تھی کہ وہ نبوت پر کافی دلیل ہے) اور اگر ہم ان کو قبل قرآن آنے کے (سزائے کفر میں) کسی عذاب سے ہلاک کردیتے (اور پھر قیامت کے روز اصلی سزا کفر کی دی جاتی کہ وہ لازم ہی تھی) تو یہ لوگ (بطور عذر کے) یوں کہتے کہ اے ہمارے رب آپ نے ہمارے پاس کوئی رسول (دنیا میں) کیوں نہ بھیجا تھا کہ ہم آپ کے احکام پر چلتے قبل اس کے کہ ہم (یہاں خود) بےقدر ہوں اور (دوسروں کی نگاہ میں) رسوا ہوں (سو اب اس عذر کی بھی گنجائش نہیں رہی، اگر وہ یوں کہیں کہ وہ عذاب کب ہوگا تو) آپ کہہ دیجئے کہ (ہم) سب اتنظار کر رہے ہیں سو (چندے) اور انتظار کرلو اب عنقریب تم کو (بھی) معلوم ہوجاوے گا کہ راہ راست والے کون ہیں اور وہ کون ہے جو (منزل) مقصود تک پہنچا (یعنی وہ فیصلہ عنقریب بعد موت یا بعد الحشر ظاہر ہوجاوے گا۔ ) معارف ومسائل اَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ ، يَهْدِ میں ضمیر قاعل ہدی کی طرف راجع ہے جو اسی لفظ کے ضمن میں مذکور ہے اور ہدی سے مراد قرآن یا رسول ہے تو معنے یہ ہیں کہ کیا قرآن یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یعنی اہل مکہ کو یہ ہدایت نہیں دی اور اس سے باخبر نہیں کیا کہ تم سے پہلے کتنی امتیں اور جماعتیں اپنی نافرمانی کی وجہ سے عذاب خداوندی میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوچکی ہیں جن کے گھروں اور زمینوں میں اب تم چلتے پھرتے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں ضمیر فاعل اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہو اور معنے یہ ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہدایت نہیں دی۔ الخ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَ فَلَمْ يَہْدِ لَہُمْ كَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ يَمْشُوْنَ فِيْ مَسٰكِنِہِمْ۝ ٠ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي النُّہٰى۝ ١٢٨ۧ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں مشی المشي : الانتقال من مکان إلى مکان بإرادة . قال اللہ تعالی: كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، وقال : فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ، إلى آخر الآية . يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] ، ويكنّى بالمشي عن النّميمة . قال تعالی: هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] ، ويكنّى به عن شرب المسهل، فقیل : شربت مِشْياً ومَشْواً ، والماشية : الأغنام، وقیل : امرأة ماشية : كثر أولادها . ( م ش ی ) المشی ( ج ) کے معنی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف قصد اور ارادہ کے ساتھ منتقل ہونے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی چمکتی اور ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلى بَطْنِهِ [ النور/ 45] ان میں سے بعض ایسے ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں ۔ فَامْشُوا فِي مَناكِبِها[ الملک/ 15] تو اس کی راہوں میں چلو پھرو ۔ اور کنایۃ مشی کا لفظ چغلی کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ [ القلم/ 11] طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا ۔ اور کنایۃ کے طور پر مشئی کے معنی مسہل پینا بھی آتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ شربت مشیا ومشو ا میں نے مسہل دواپی الما شیۃ مویشی یعنی بھیڑ بکری کے ریوڑ کو کہتے ہیں اور امراۃ ماشیۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے بچے بہت ہوں ۔ سكن السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] ، ( س ک ن ) السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف/ 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ نُّهيَةُ ( عقل) : العقل الناهي عن القبائح . جمعها : نُهًى. قال تعالی: إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِأُولِي النُّهى[ طه/ 54] وتَنْهِيَةُ الوادي حيث ينتهي إليه السّيل، ونَهَاءُ النّهار : ارتفاعه، وطلب الحاجة حتی نُهِيَ عنها . أي : انتهى عن طلبها، ظفر بها أو لم يظفر . النھیۃ ۔ عقل جو انسان کو قبیح باتوں سے روکتی ہو اس کی جمع نھی آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِأُولِي النُّهى[ طه/ 54] بیشک ان ( باتوں ) میں عقل والوں کے لئے ( بہت سے ) نشانیاں ہیں ۔ تنھیۃ الوادی وادی کا آخری کنارہ جہاں کہ سیلاب رک جاتا ہے ۔ نھایۃ النھار دن کا بلند ہونا ۔ طلب الحاجۃ حتی نھی عنھا ۔ اس نے اپنی حاجت کو طلب کیا حتیٰ کہ اس کی طلب کرنے کے بعد اس سے رک گیا اور اس میں کامیاب ہونا شرط نہیں ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢٨) کیا ان مکہ والوں کو اس سے بھی ہدایت نہیں ہوئی کہ ہم ان سے پہلے بہت سی جماعتوں کو ہلاک کرچکے ہیں کہ ان ہی مقامات میں یہ لوگ بھی چلتے پھرتے ہیں، اور جو ان مجرموں کو ہم نے سزا دی ہے ان میں عقل مندوں کے لیے بڑی نشانیاں موجود ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

109. “For them”: means people of Makkah. 110. That is, in this lesson of history and in the observation of the archaeological remains and in this experience of mankind.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :109 اشارہ ہے اہل مکہ کی طرف جو اس وقت مخاطب تھے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :110 یعنی تاریخ کے اس سبق میں ، آثار قدیمہ کے اس مشاہدے میں ، نسل انسانی کے اس تجربے میں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢٨۔ ١٢٩:۔ اوپر عذاب قبر اور عذاب آخرت کا ذکر تھا ان آیتوں میں فرمایا اس عذاب کی قدر تو مرنے کے بعد کھل جائے گی لیکن دنیا میں سوداگری کی غرض سے یہ لوگ اکثر ملک شام کا سفر کرتے رہتے ہیں اور اس سفر میں قوم ثمود اور قوم لوط کی اجڑی ہوئی بستیاں انہیں نظر آیا کرتی ہیں ان بستیوں کو دیکھ کر ان میں کے سمجھ دار لوگوں کو کیا یہ عبرت نہیں ہوتی کہ جو کوئی ان اجڑی ہوئی قوموں کے قدم بقدم چلے گا اس کا بھی مرنے سے پہلے وہی انجام اللہ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں ہے جو انجام ان اجڑی ہوئی قوموں کا ہوا پھر فرمایا ان لوگوں کی سرکشی تو یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ اب تک سوائے مکہ کے قحط کے اور کسی عذاب کی ایسی بلا ان کو آن کر چمٹ جاتی جس سے انہیں پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے دنیا کا ایک انتظام قرار پاکر ہر کام کا وقت مقرر ہوچکا ہے ‘ اس وقت مقررہ تک اگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو علاوہ عذاب قبر اور عذاب قیامت کے دنیا میں بھی ان پر کوئی ایسی سخت آفت آجاوے گی جس سے ان کی ساری سرکشی خاک میں مل جائے گی ‘ اللہ تعالیٰ سچا ہے اللہ تعالیٰ کا کلام سچا ہے ‘ اس مکی سورت کے نازل ہونے کے کچھ عرصہ کے بدر کی لڑائی کے وقت اہل مکہ میں کے بڑے بڑے سرکشوں پر آفت آجانے کا وقت مقررہ آن پہنچا کہ دنیا میں یہ لوگ بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب قبر میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدے کو سچا پالیا ‘ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت سے یہ قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے ١ ؎۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث بھی کئی جگہ گزر چکی ہے ٢ ؎۔ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے نتیجہ کے طور پر جو کچھ دنیا میں ہونے والا تھا وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے وہ لوح محفوظ کے لکھے کے موافق وقت مقررہ پر ہوتا ہے ‘ وقت مقررہ سے پہلے سرکشی کے طور پر اہل مکہ عذاب کی جلدی کرتے رہے مگر عذاب نہ آیا ‘ وقت مقررہ کے آتے ہی ایسی سخت آفت آئی کہ ان میں کے بڑے بڑے سرکشوں کی ساری سرکشی خاک میں مل گئی ‘ مکہ کے قحط کا قصہ صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت کے حوالہ سے کئی جگہ گزر چکا ہے ٣ ؎۔ کہ قریش نے جب بہت سرکشی اختیار کی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے مکہ میں سخت قحط پڑا۔ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ قرآن شریف میں لفظ وہی ہیں جو اہل مکہ رات دن بولتے تھے ‘ مگر ان ہی لفظوں کا برتاؤ قرآن شریف میں اس طرز سے بیان کیا گیا ہے ‘ جس طرز بیان کو سن کر اہل مکہ میں کے منکر قرآن کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے جیسے مثلا ان آیتوں میں آخری آیت کا مطلب یہ تھا (ولولا کلمۃ سبقت من ربک لکان لزاما واجل مسمی) ۔ قرآن شریف کی طرز ادائے مطلب میں واجل مسمی کو لکان لزاما کے بعد ذکر کیا جاکر دوسری آیت کے فاصبر علی مایقولون سے اس کو ملا دیا جس سے یہ مطلب نکلا کہ اہل مکہ کے دنیاوی عذاب کا وقت مقررہ گویا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر کی مدت سے ملا ہوا ہے کچھ بہت دور نہیں ہے اور پھر لفظوں کے آگے پیچھے کردینے سے علم غیب کا جو مطلب آیت میں جتلایا گیا تھا ‘ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ دنوں صبر کرنے کے بعد بدر کی لڑائی کے وقت اس کا ظہور بھی ویسا ہی ہوا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن شریف کی ایسی ہی باتوں نے مخالفوں کو قرآن شریف کے مقابلہ سے عاجز کردیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے آگے نہ انسان کے علم کی کچھ حقیقت ہے نہ جنات کے علم کی اب اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے موافق جس طرز بیان سے قرآن شریف کے لفظوں کا برتاؤ کیا ہے اور غیب کی خبریں اس برتاؤ سے بیان کی گئی ہیں ‘ کسی کی کیا طاقت ہے کہ اس کا مقابلہ کرسکے ‘ اسی واسطے سورة بنی اسرائیل میں فرمایا کہ انسان اور جنات دونوں جمع ہو کر بھی اس قرآن کے مقابلہ کا ارادہ کریں تو عاجز آجاویں ‘ موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) نے اللہ کے علم کو دریا اور مخلوق کے علم کو اس دریا میں کے ایک قطرہ کی مثال سے سمجھایا ہے ٤ ؎۔ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کے موافق نازل فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلہ میں مخلوق کا علم ایسا ہے جس طرح دریا کے مقابلہ میں پانی کا ایک قطرہ ‘ پھر ایک قطرہ کی کیا ہستی ہے ‘ جو دریا کا مقابلہ کرے ‘ اس لیے مخلوقات میں سے کسی کو یہ طاقت نہیں کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرسکے۔ (١ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ ص ٤٥٥۔ باب حکم الاسراء ) (٢ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر ضصل اول ) (٣ ؎ صحیح بخاری ص ٧١٣ ج ٢۔ تفسیر سورة الدخان۔ ) (٤ ؎ نیز دیکھئے صحیح بخاری ص ٢٣ ج ١ باب مالیستحب للعالم اذاسئل ای الناس اعلم )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:128) اولم یھدلہم۔ میں لم یھد کا فاعل اگلا جملہ ہے یعنی کم اھلکنا قبلہم من القرون یمشون فی مسکنہم کہ ان سے قبل ہم کتنی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں جن کے (اجڑے ہوئے) مکانوں میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں۔ اس کی مثال صاحب کشاف نے سورة صافات (37) کی آیات 78:79 دی ہیں وترکنا علیہ فی الاخرین۔ سلم علی نوح فی العلمین۔ اور ہم نے ان کے پیچھے آنے والوں میں (یہ بات ) رہنے دی کہ نوح پر سلام ہو عالم والوں میں۔ اس میں ترکنا کا مفعول اگلا جملہ سلام علی نوح فی العلمین ہے۔ آیت ہذا سے نیا کلام شروع ہوتا ہے اس میں لہم کی ضمیر جمع مذکر غائب مشرکین زمانہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے۔ اسی طرح قبلہم کی ضمیر جمع مذکر غائب بھی۔ اور یمشون کی ضمیر فاعل بھی انہی مشرکین کے لئے ہے مسکنہم کی ضمیر ہم جمع مذکر غائب ان قوموں کے لئے ہے جن کو ماضی میں اللہ تعالیٰ نے ہلاک و برباد کردیا۔ اولی النھی۔ صاحب عقل۔ دانشور۔ دیکھو (20:54) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ شام کو جاتے ہوئے اہل مکہ کے رستہ میں بعض ان قوموں کے مساکن آتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے احکام سے انحراف کرنے والوں کو ناصرف آخرت میں عذاب ہوگا بلکہ انھیں دنیا میں بھی کسی نہ کسی صورت عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ مشرکین مکہ کے سامنے جب آخرت کے عذاب اور پہلی قوموں کی تباہی کا ذکر کیا جاتا تو وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چیلنج کے انداز میں کہتے کہ جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں۔ اس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ اس پر انہیں سمجھایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہر کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے اسی طرح ہی مجرم کی گرفت اور عذاب کا وقت متعین کیا ہوا ہے۔ اس میں آگا پیچھا نہیں ہوتا۔ اگر یہ وقت مقرر نہ کیا ہوتا تو ان لوگوں پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہوتا۔ کیونکہ ان کے اعمال ان لوگوں جیسے ہوچکے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کیا تھا۔ کیا ان لوگوں کے لیے یہ دلیل کافی نہیں کہ ان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو ہلاک کیا۔ جن کے رہنے سہنے کی جگہوں پر یہ چلتے پھرتے ہیں۔ اگر یہ عقل سے کام لیں تو ان کے لیے رہنمائی کے دلائل موجود ہیں۔ ” قَرَنْ “ کی جمع ’ ’ قُرُوْنَ “ ہے۔ ” قَرَنَ “ کے بارے میں اہل علم کے تین خیالات ہیں۔ ١۔ قَرَنْ سے مراد ” ایک سو سال “ ٢۔ ” انسانوں کی ایک نسل “ ٣۔ کسی قوم کا مخصوص دور۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ٢۔ افراد اور قوموں کی تباہی کا وقت بھی متعین ہے۔ ٣۔ اگر عقل سے کام لیا جائے انسان کی ہدایت کے لیے تاریخ اور جغرافیہ کے حوالے کافی ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جب انسان اپنے دل و دماغ کو زمانہ ماضی کی ہلکا شدہ اقوام کی تاریخ پر مرکوز کرتا ہے اور ان کے کھنڈرات کو ، وادیوں اور پہاڑیوں میں دیکھتا ہے تو اگرچہ یہ لوگ کب کے ہلکا ہوگئے ہیں لیکن ان کی بڑی بڑی شخصیات ، ان کی بھاگتی ہوئی شکلیں ، ان کی حرکات و سکنات ، ان کی امنگیں اور آرزوئیں ، ان کی پریشانیاں اور ان کے منصوبے انسان کے ذہن کو بھر دیتے ہیں او انسان جب تک آنکھیں بند کر کے محض تصور ہی کرے تو یہ پوری دنیا ہمارے ذہن کی اسکرین پر بھی نظر آتی ہے اور جب انسان اچانک آنکھ کھولے تو نظر آتا ہے کہ ماضی کی عقوبت نے ان سب بستیوں کو ہڑپ کرلیا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ دست قدرت نے کس طرح ان لوگوں کو اور ان تہذیبوں کو نیست و نابود کردیا ہے۔ اس طرح زمانہ حال کے ان غافلوں کو بھی دست قدرت نابود کرسکتا ہے۔ یوں اس طرز تصور سے اس آیت کا مفہوم اور قرآن کا انداز بیان اور عبرت آموزی اچھی طرح انسان کے ذہن میں آجاتی ہے۔ تعجب ہے کہ لوگ کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے حالانکہ ان کھنڈرات میں تو عبرت کے بہت بڑے سامان ہیں بشرطیکہ عقل سلیم ہو۔ اگر اللہ نے پہلے سے فیصلہ نہ کردیا ہوتا اور یہ بات اللہ کی خاص حکمت کے تحت طے نہ ہوگئی ہوتی تو اللہ اہل قریش کو بھی بعینہ اسی طرح نیست و نابود کردیتا اور یہ بھی نمونہ عبرت بن جاتے لیکن ان کو ایک مقررہ وقت تک مہلت مل چکی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا (اَفَلَمْ یَھْدِلَھُمْ ) (الایۃ) کیا انہیں اس چیز نے ہدایت نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی جماعتوں کو ہلاک کردیا۔ یہ لوگ ان کے رہنے کی جگہوں میں چلتے پھرتے ہیں۔ بلاشبہ اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ قرآن کے مخالف ہیں انہیں پرانی امتوں کے واقعات معلوم ہیں۔ تباہ شدہ آبادیاں ان کے سامنے ہیں۔ وہاں جاتے ہیں اور چلتے پھرتے ہیں۔ بربادوں کے نشان دیکھتے ہیں، ویران گھروں کے اینٹ پتھر ان کے سامنے ہیں۔ (اور اب تو تاریخ کی کتابیں بھی چھپ گئی ہیں جن کا مطالعہ کرتے ہیں) ان سب چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی اثر نہیں لیتے۔ قرآن کی دعوت نہیں مانتے۔ اہل عقل اور اہل بصیرت کے لیے یہ برباد شدہ آبادیوں کی زمین اور نشانات کافی ہیں۔ ان کو دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے کے بجائے ان چیزوں کو تفریح گاہ بنا رکھا ہے۔ کیمرے ساتھ لے جاتے ہیں، فوٹو لیتے ہیں، وہاں وقت گزارتے ہیں، رات گزار کر کھانا کھا کر تفریح کر کے بغیر کسی عبرت کے واپس آجاتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

128 کیا ان لوگوں کو اس بات سے بھی ہدایت نصیب نہ ہوئی اور ان کو ہدایت میسر نہ ہوئی کہ ہم ان سے پہلے بہت سی قوموں اور بہت سے ایسے گروہوں کو ہلاک کرچکے ہیں کہ جن کے رہنے اور بسنے کے مکانوں اور مقامات میں یہ کفار مکہ جاتے آتے اور چلتے پھرتے ہیں بلاشبہ ان قوموں کی تباہی میں اہل عقل و فہم کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ یعنی جو بستیاں اپنی نافرمانی کے باعث ان سے پہلے ہلاک کی جا چکی ہیں اور یہ ان کے اجڑے ہوئے مکانوں اور کھنڈروں میں چلتے پھرتے ہیں اور سفر میں وہ مقامات ا ن کی گزر گاہ بھی ہیں انہیں دیکھ کر انہیں ہدایت و بصیرت اور عبرت نہیں ہوتی اگر ان کو عقل ہوتی اور یہ فہم سے کام لیتے تو سابقہ اقوام کی تباہی میں موعظت اور ہدایت کی بڑی بڑی نشانیاں مضمر ہیں۔