Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 13

سورة طه

وَ اَنَا اخۡتَرۡتُکَ فَاسۡتَمِعۡ لِمَا یُوۡحٰی ﴿۱۳﴾

And I have chosen you, so listen to what is revealed [to you].

اور میں نے تجھے منتخب کر لیا ہے اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سن ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَنَا اخْتَرْتُكَ ... And I have chosen you. is similar to His statement, إِنْى اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَـلَـتِي وَبِكَلَـمِي I have chosen you above men by My Messages, and by My speaking (to you). (7:144) This means over all human beings of that time. It has also been said that Allah said, "O Musa, do you know why I chose to speak to you directly out of all of the people!" Musa said, "No." Allah then said, "Because I have not made anyone humble himself as much as you have humbled yourself. " Concerning Allah's statement, ... فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى So listen to that which will be revealed. "Now listen to what I say to you and what I reveal to you."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 یعنی نبوت و رسالت اور ہم کلامی کے لئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] موسیٰ (علیہ السلام) کا اتفاقا طوی وادی میں پہنچنا :۔ جب سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک درخت میں آگ بھڑک رہی ہے۔ پاس نہ کوئی آدم ہے نہ آدم زاد۔ آگ جوں جوں بھڑکتی ہے درخت مزید سرسبز ہوجاتا ہے۔ اس عجیب نظارہ کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اس میں ایک آواز آئی کہ && اے موسیٰ ! میں تمہارا پروردگار تم سے ہم کلام ہو رہا ہوں۔ تم اس وقت طویٰ کے مقدس میدان میں پہنچ چکے ہو۔ لہذا اپنے جوتے اتار لو۔ اس آواز کی کیفیت یہ تھی کہ یہ معلوم ہی نہ ہوسکتا تھا کہ کس سمت سے آواز آرہی ہے۔ دائیں سے آرہی ہے یا بائیں سے آگے سے یا پیچھے سے، اوپر سے یا نیچے سے۔ لہذا موسیٰ (علیہ السلام) پس آواز کو سننے کے لئے ہمہ تن گوش بن گئے۔ اس آواز نے پہلے جملہ میں اپنا تعارف کرایا۔ دوسرے جملے میں یہ بتلایا کہ تم جو راہ بھول چکے تھے تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے اس وقت تم طویٰ کے صاف ستھرے میدان میں کھڑے ہو اور یہاں پہنچنے کے لئے ہی تم راہ بھولے تھے۔ تیسرے جملہ میں یہ ہدایت دی کہ اپنے جوتے اتار لو۔ ممکن ہے کہ آپ کے جوتوں کو راستہ میں کچھ گندگی اور آلائش لگ گئی ہو۔ ورنہ جوتے اگر نئے یا صاف ستھرے ہوں تو جوتوں سمیت مسجد تک جانا تو درکنار نماز ادا کرنا بھی جائز ہے۔ تاہم ادب کا تقاضا یہی ہے کہ کسی مقدس مقام میں داخل ہوتے وقت اتار لئے جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۭوَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى : نبوت کے حصول میں کسی کی جد و جہد یا محنت کا کچھ دخل نہیں، یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے۔ دیکھیے سورة حج (٧٥) قادیانی دجال نے اسے مجاہدہ و کسب سے حاصل ہوسکنے کا دعویٰ کیا، چناچہ اس کی زندگی ہی میں اس کے پیروکاروں میں سے تیرہ آدمیوں نے نبوت کا دعویٰ کردیا۔ دیکھیے قادیانیت از ابوالحسن علی ندوی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

How to conduct oneself when the Qur&an is being recited فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ (So listen to what is revealed - 20:13). Sayyidna Wahb Ibn Munabbih has said that the correct behavior while listening to the recitation of the Qur&an is, that one sits still, refrains from any unnecessary movement in a way that no organ of his body is involved in any other work, keeps eyes down - concentrates the mind towards understanding its meaning. The person who listens to the Holy Qur&an in this respectful manner is rewarded by Allah Ta` ala with a better understanding of His word.

قرآن سننے کا ادب : فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى، حضرت وہب بن منبہ سے منقول ہے کہ قرآن سننے کے ادب میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعضاء کو فضول حرکت سے روکے کہ کسی دوسرے شغل میں کوئی عضو بھی نہ لگے اور نظر نیچی رکھے اور کلام سمجھنے کی طرف دھیان لگائے اور جو شخص اس ادب کے ساتھ کوئی کلام سنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے سمجھنے کی بھی توفیق دے دیتے ہیں۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰى۝ ١٣ اختیارُ : طلب ما هو خير وفعله، وقد يقال لما يراه الإنسان خيرا، وإن لم يكن خيرا، وقوله : وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان/ 32] ، يصحّ أن يكون إشارة إلى إيجاده تعالیٰ إياهم خيرا، وأن يكون إشارة إلى تقدیمهم علی غيرهم . والمختار في عرف المتکلّمين يقال لكلّ فعل يفعله الإنسان لا علی سبیل الإكراه، فقولهم : هو مختار في كذا، فلیس يريدون به ما يراد بقولهم فلان له اختیار، فإنّ الاختیار أخذ ما يراه خيرا، والمختار قد يقال للفاعل والمفعول . الاختیار ( افتعال ) بہتر چیز کو طلب کرکے اسے کر گزرنا ۔ اور کبھی اختیار کا لفظ کسی چیز کو بہتر سمجھنے پر بھی بولا جاتا ہے گو نفس الامر میں وہ چیز بہتر نہ ہو اور آیت کریمہ :۔ وَلَقَدِ اخْتَرْناهُمْ عَلى عِلْمٍ عَلَى الْعالَمِينَ [ الدخان/ 32] ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا ۔ میں ان کے بلحاظ خلقت کے بہتر ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں دوسروں پر فوقیت بخشتا مراد ہو ۔ متکلمین کی اصطلاح میں مختار ( لفظ ہر اس فعل کے متعلق بولا جاتا ہے جس کے کرنے میں انسان پر کسی قسم کا جبروا کراہ نہ ہو لہذا ھو مختار فی کذا کا محاورہ فلان لہ اختیار کے ہم معنی نہیں ہے کیونکہ اختیار کے معنی اس کام کے کرنے کے ہوتے ہیں جسے انسان بہتر خیال کرتا ہو ۔ مگر مختار کا لفظ فاعل اور مفعول دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) اور میں نے فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجنے کے لیے تمہارا انتخاب کیا ہے لہذا جو تمہیں حکم دیا جائے اس پر عمل کرو،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (وَاَنَا اخْتَرْتُکَ ) ” میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے رسول کے طور پر پسند کرلیا ہے اور ایک بڑے مشن کے لیے آپ ( علیہ السلام) کا انتخاب کرلیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:13) اخترتک۔ ماضی واحد متکلم اختیار (افتعال) مصدر ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ میں نے تجھے منتخب کرلیا ہے۔ فاستمع۔ پس خوب (کان لگا کر) سن۔ استماع افتعال فعل امر واحد مذکر حاضر الاستماع کے معنی غور سے سننے کے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے ومنہم من یستمعون الیک (10:42) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں۔ لما۔ میں لام کا تعلق یا اخترتک سے ہے کہ جو وحی کیا جاتا ہے اس کے لئے میں نے تمہیں منتخب کیا ہے یا اس کا تعلق استمع سے ہے کہ جو وحی کیا جاتا ہے اسے خوب دھیان سے سنو۔ یوحی۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ ایحاء (افعال) مصدر۔ وحی مادہ وحی کی جاتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں دین کے تیسرے بنیادی عقیدہ کا یوں تعارف کروایا گیا ہے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! قیامت ہر صورت برپا ہونے والی ہے لیکن اس کے وقت کو میں نے چھپا رکھا ہے۔ قیامت کا برپا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ ہر شخص کو اس کی اچھی بری کوشش کا بدلہ چکایا جائے۔ اے موسیٰ ! وہ شخص یعنی فرعون جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تجھے نبوت کے کام سے نہ روک دے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اپنی خواہشات کا بندہ بنا لیا ہے۔ اگر آپ توحید کی دعوت دینے اور نبوت کے کام سے رک گئے تو آپ ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ دین کے اعتقادات میں توحید، رسالت اور آخرت کا عقیدہ بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ باقی امور انہی کے متعلقات اور ان کا عملی تقاضا ہیں۔ یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کرتے ہوئے عقیدہ توحید کا پہلا تقاضا یہ بتلایا ہے کہ اللہ کی بندگی کی جائے۔ اس کے بعد قیامت برپا کرنے کا مقصد بیان کیا ہے تاکہ ہر انسان اپنے اچھے برے اعمال کی جزا اور سزا پائے۔ یاد رہے کہ جو شخص عقیدۂ توحید کا دعویٰ کرتا ہے اسے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قیامت کے قیام اور اس کی جزا، سزا پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ ان میں کسی ایک بات کا انکار کرنا پوری کی پوری دعوت کا انکار کرنا ہے۔ اس فرمان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کسی ظالم کے خوف کی وجہ سے اللہ کی توحید کو نہ ماننا اور اس کا پرچار نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانا اخترتک (٣١) ” اور میں نے تجھ کو چن لیا “۔ ما شاء اللہ کیا اکرام ہے ! اللہ بذات خود انتخاب فرما رہے ہیں۔ اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو ‘ انسانوں کے ہزارہا گروہوں میں سے صرف ایک فرد کو ‘ یہ فرد اللہ کے پیدا کردہ ستاروں میں سے ایک ستارے پر رہتا ہے ‘ جو بہ نسبت پوری کائنات کے ایک ذرہ ہے۔ وہ کائنات جو صرف کن کے حکم کے نتیجے میں وجود میں آگئی لیکن یہ اس ذات باری کی ذرہ نوازی ہی تو ہے۔ اس اعزاز اور انتخاب کے بعد اور جوتے اتار کر بار گاہ رب العزت میں حاضری اور اخذ وحی کی تیاری و استعداد کے بعد حکم آتا ہے کہ اب سنو ‘ باران رحمت کا نزول ہورہا ہے۔ فاستمع لما یوحی (٣١) ” سن جو کچھ وحی کیا جاتا ہے “۔ جو پیغام دیا جارہا ہے ‘ وہ تین مربوط امور پر مشتمل ہے۔ عقیدہ توحید ‘ توجہ سے اللہ کی بندگی اور آخرت کی جوابدہی کا احساس اور اس کی تیاری۔ یہ نکات تمام رسالتوں کا نصب العین رہے ہیں جو ایک ہی نوعیت رکھتی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ میں نے تمہیں رسالت و نبوت کے لیے چن لیا ہے لہذا اب میری باتوں پر کان دھر اور ان کو غور سے سن۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 اور میں نے تجھ کو منجملہ دوسرے لوگوں کے نبوت کے لئے پسند فرمایا ہے اور منتخب کیا ہے۔ لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اور جو وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن۔ یعنی میں نے تجھ کو اپنی پیغمبری کے لئیپ سند فرمایا ہے اب میں تجھ پر جو وحی بھیجتا ہوں اس کو غور سے سن۔