Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 16

سورة طه

فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنۡہَا مَنۡ لَّا یُؤۡمِنُ بِہَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرۡدٰی ﴿۱۶﴾

So do not let one avert you from it who does not believe in it and follows his desire, for you [then] would perish.

پس اب اس کے یقین سے تجھے کوئی ایسا شخص روک نہ دے جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہو ، ورنہ تو ہلاک ہو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَ يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لاَ يُوْمِنُ بِهَا ... Therefore, let not divert you the one who believes not therein, The address here is directed towards all individuals who are responsible (and capable of taking heed to this message). This means, "Do not follow the way of the person who does not believe in the Hour (Day of Judgement) and he only pursues his desires in this worldly life. He disobeys his Lord and only follows his desires. Whoever behaves like these people, then verily he has failed and lost. ... وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى but follows his own lusts, divert you therefrom, lest you perish." فَتَرْدَى (lest you perish), This means that you will be destroyed and ruined. وَمَا يُغْنِى عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّى And what will his wealth avail him when he goes down (in destruction)! (92:11)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

16۔ 1 اس لئے کہ آخرت پر یقین کرنے سے یا اس کے ذکر و مراقبے سے گریز، دونوں ہی باتیں ہلاکت کا باعث ہیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] اور پانچویں یہ بات کہ جو شخص روز آخرت پر ایمان نہیں لاتا اور اس کا ذہن اللہ کے سامنے جوابدہی کے تصور سے خالی ہوتا ہے وہ اپنی خواہشات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ دنیا کی دلچسپیوں اور دل فریبیوں میں ایسا مستغرق ہوتا ہے کہ اسے اللہ کبھی بھولے سے یاد نہیں آتا۔ لہذا تم ایسے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے ساتھ تمہیں بھی لے ڈوبیں۔ یہ تھیں وہ بنیادی تعلیمات جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت کے آغاز میں ہی بتلا دی گئیں اور یہ پانچویں ہدایت بالخصوص اس لئے دی گئی کہ آپ ایک جابر، سرکش اور دنیا پرست حکمران کے پاس اللہ کا پیغام لے کر جانے والے تھے اور اس کام کے لئے ایسی استقامت اور ثابت قدمی کی ضرورت تھی جو اقامت دین کے لئے ضروری ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا ۔۔ : اس آیت سے حاصل ہونے والے فوائد میں سے ایک فائدہ مفسر زمخشری کے الفاظ میں یہ ہے : ” جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ جم غفیر ہیں، کیونکہ کفار کے لیے قیامت کو تسلیم کرنے سے زیادہ مشکل کوئی چیز نہیں، نہ ہی وہ اس سے زیادہ کسی چیز کا انکار کرتے ہیں۔ سو ایسا ہرگز نہ ہو کہ ان کی طرف سے آنے والے مصائب کی کثرت اور ان کی بہت بڑی تعداد تمہیں خوف زدہ کر دے اور ان کی کثرت تمہارے قدم پھسلنے کا باعث بن جائے۔ یاد رکھو کہ وہ جس قدر بھی تعداد میں زیادہ ہوں، وہ صرف اور صرف اپنی خواہش نفس کے پیچھے چل رہے ہیں، کسی دلیل وبرہان کے پیچھے نہیں اور اس میں بہت بڑی ترغیب ہے کہ دلیل کا علم اور اس کی پیروی لازم ہے اور تقلید سے بچنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ تقلید اور اہل تقلید کا انجام ہلاکت ہے۔ “ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ دنیا پرست لوگوں، خصوصاً کفار کی مجلس اور ان سے نرمی اور مداہنت اختیار کرنے سے پرہیز لازم ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” نہ روک دے اس سے “ یعنی قیامت کے یقین لانے سے یا نماز سے۔ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برے کی صحبت سے منع کیا تو اور کوئی کیا ہے ؟ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا (must not make you neglectful of it - 20:16 ) Here Sayyidna Musa (علیہ السلام) is cautioned by Allah Ta’ ala lest he should allow himself to be led away by the infidels and become negligent about the Day of Judgment because that would be the cause of his ruination. It is clear that a Prophet and a Messenger who is impeccable cannot commit such a lapse but the fact that such a warning has been addressed to him is meant to warn his followers as well as mankind at large to be cautious in the matter

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا، اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خطاب کر کے تنبیہ کی گئی ہے کہ ایسا نہ ہونا چاہیے کہ آپ کافروں اور بےایمانوں کے کہنے سے قیامت کے معاملے میں غفلت برتنے لگیں اور وہ آپ کی ہلاکت کا سبب بن جائے، ظاہر ہے کہ کسی نبی و رسول سے جو معصوم ہے یہ غفلت نہیں ہو سکتی اس کے باوجود ایسا خطاب کرنا دراصل ان کی امت اور عام مخلوق کو سنانا ہے کہ جب اللہ کے پیغمبروں کو بھی ایسی تاکید کی جاتی ہے تو ہمیں اس کا کتنا اہتمام کرنا چاہیے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْہَا مَنْ لَّا يُؤْمِنُ بِہَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ فَتَرْدٰى۝ ١٦ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے رَّدَى : الهلاك، والتَّرَدِّي : التّعرّض للهلاك، قال تعالی: وَما يُغْنِي عَنْهُ مالُهُ إِذا تَرَدَّى[ اللیل/ 11] ، وقال : وَاتَّبَعَ هَواهُ فَتَرْدى[ طه/ 16] ، وقال : تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] ، والمرداة : حجر تکسر بها الحجارة فَتُرْدِيهَا . ( ر د ی ) الردی ۔ ( س ) کے معنی ہلاکت کے ہیں اور التردی ( تفعل ) کے معنی ہیں اپنے آپ کو ہلاکت کے سامنے پیش کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَما يُغْنِي عَنْهُ مالُهُ إِذا تَرَدَّى[ اللیل/ 11] اور جب وہ جہنم میں گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ فَتَرْدى[ طه/ 16] اور وہ اپنی نفسانی خواہش کے پیچھے پڑا ( اگر ایسا کرو گے ) تو تم تباہ ہوجاؤ گے ۔ ( الارداء ) افعال ہلاک کرنا قرآن میں ہے :۔ تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات/ 56] خدا کی قسم تو تو مجھے تباہ کرنے کو تھا ۔ المرداۃ وہ پتھر جس سے دوسرے پتھر توڑے جاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦) تو تمہیں قیامت کے اقرار ویقین سے ایسا شخص روک نہ پائے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اس کے انکار اور بتوں کی پوجا کرکے اپنی خواہشات پر چلتا ہو کہیں تو اس بےفکری سے تباہ نہ ہوجاؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ (فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنْھَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِھَا وَاتَّبَعَ ھَوٰٹہُ فَتَرْدٰی ) ” عَنْھَا کی ضمیر کا تعلق السَّاعَۃ (قیامت) سے بھی ہوسکتا ہے اور الصَّلٰوۃ (نماز) سے بھی۔ چناچہ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ آخرت کا منکر کوئی شخص آپ ( علیہ السلام) کو بھی اس سے برگشتہ نہ کر دے۔ لیکن اگر عَنْھَا کا تعلق الصّٰلوۃ سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص نماز کا منکر ہے تو وہ آپ کو بھی اس سے بدظن کرنے کا باعث نہ بن جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:16) فلا یصدنک۔ فعل نہی واحد مذکر غائب بانون ثقیلہ برائے تاکید۔ صد سے ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ پس ہرگز تجھے نہ روک دے۔ ضمیر فاعل کا مرجع من لا یؤمن بھا ہے۔ عنھا ای عن تصدیق الساعۃ قیامت کی تصدیق سے۔ ھاضمیر کا مرجع الساعۃ ہے۔ فتردی۔ میں ف سببیہ ہے۔ تردی مضارع واحد مذکر حاضر ردی یردی (باب سمع) ردی مصدر بمعنی ہلاک ہونا۔ فتردی ورنہ تم بھی ہلاک ہوجائو گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ بڑے مسئلے اصول میں تین تھے۔ توحید و نبوت و معاد۔ تینوں کی تعلیم کی گئی اور فاعبدنی میں تمام فروع آگئے، نماز کو شرف کی وجہ سے جداگانہ بھی ذکر فرمایا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16 کہیں ایسا نہ ہو کہ جو شخص قیامت کا یقین نہیں رکھتا وہ اپنی نفسانی خواہش اور چائو کی پیروی کرتا ہے وہ تجھ کو قیامت پر اعتقاد رکھنے اور اسکے فکر کرنے سے روک دیا ور تو ہلاک ہوجائے۔ یعنی قیامت کا اعتقاد رکھنا ضروری ہے ایسا نہ ہو کسی بد اعتقاد آدمی کی صحبت سے تم قیامت کے اعتقاد میں ڈھیلے ہو جائو تو یہ تو بات تم کو ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دے گی اور تم ہلاک ہو جائو گی کیونکہ قیامت کا عقیدہ نہ ہو تو حرام و حلال کی تمیز باقی نہیں رہتی اور عذاب وثواب کا خیال بھی نہیں آتا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں نہ روک دے اس سے یعنی قیامت کے یقین لانے سے یا نماز سے جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برے کی صحبت سے منع کیا تو اور کوئی کیا ہے۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ عنھا کی ضمیر کا مرجع قیامت ہے اور ہوسکتا ہے کہ نماز ہو۔