Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 17

سورة طه

وَ مَا تِلۡکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۱۷﴾

And what is that in your right hand, O Moses?"

اے موسٰی! تیرے اس دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Stick of Musa turned into a Snake This was a proof from Allah for Musa and a great miracle. This was something that broke through the boundaries of what is considered normal, thus, it was a brilliant evidence that none but Allah could do. It was also a proof that no one could come with the likes of this (from mankind) except a Prophet who was sent (by Allah). Concerning Allah's statement, وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى And what is that in your right hand, O Musa! Some of the scholars of Tafsir have said, "He (Allah) only said this to him in order to draw his attention to it." It has also been said, "He only said this to him in order to affirm for him what was in his hand. In other words, that which is in your right hand is a stick that you are familiar with. You will see what We are about to do to it now." وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى And what is that in your right hand, O Musa, This is an interrogative phrase for the purpose of affirmation.

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معجزات ملے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک بہت بڑے اور صاف کھلے معجزے کا ذکر ہو رہا ہے جو بغیر اللہ کی قدرت کے ناممکن اور جو غیر نبی کے ہاتھ پر بھی ناممکن ۔ طور پہاڑ پر دریافت ہو رہا ہے کہ تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ یہ سوال اس لئے تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی گھبراہٹ دور ہو جائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سوال بطور تقریر کے ہے یعنی تیرے ہاتھ میں لکڑی ہی ہے یہ جیسی کچھ ہے تجھے معلوم ہے اب یہ جو ہو جائے گی وہ دیکھ لینا ۔ اس سوال کے جواب میں کلیم اللہ عرض کرتے ہیں یہ میری اپنی لکڑی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں یعنی چلنے میں مجھے یہ سہارا دیتی ہے اس سے میں اپنی بکریوں کا چارہ درخت سے جھاڑ لیتا ہوں ۔ ایسی لکڑیوں میں ذرا مڑا ہوا لوہا لگا لیا کرتے ہیں تاکہ پتے پھل آسانی سے اتر آئیں اور لکڑی ٹوٹے بھی نہیں اور بھی بہت سے فوائد اس میں ہیں ۔ ان فوائد کے بیان میں بعض لوگوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ یہی لکڑی رات کے وقت روشن چراغ بن جاتی تھی ۔ دن کو جب آپ سو جاتے تو یہی لکڑی آپ کی بکریوں کی رکھوالی کرتی جہاں کہیں سایہ دار جگہ نہ ہوتی آپ اسے گاڑ دیتے یہ خیمے کی طرح آپ پر سایہ کرتی وغیرہ وغیرہ لیکن بظاہر یہ قول بنی اسرائیل کا افسانہ معلوم ہوتا ہے ورنہ پھر آج اسے بصورت سانپ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قدر کیوں گھبراتے ؟ وہ تو اس لکڑی کے عجائبات دیکھتے چلے آتے تھے ۔ پھر بعض کا قول ہے کہ دراصل یہ لکڑی حضرت آدم علیہ السلام کی تھی ۔ کوئی کہتا ہے یہی لکڑی قیامت کے قریب وابستہ الارض کی صورت میں ظاہر ہو گی ۔ کہتے ہیں اس کا نام ماشا تھا ۔ اللہ ہی جانے ان اقوال میں کہاں تک جان ہے؟ لاٹھی اژدھا بن گئی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لکڑی کا لکڑی ہونا جتا کر انہیں بخوبی بیدار اور ہوشیار کر کے حکم ملا کہ اسے زمین پر ڈال دو ۔ زمین پر پڑتے ہی وہ ایک زبردست اژدھے کی صورت میں پھنپھناتی ہوئی ادھر ادھر چلنے پھرنے بلکہ دوڑنے بھاگنے لگی ۔ ایسا خوفناک اژدھا اس سے پہلے کسی نے دیکھا ہی نہ تھا ۔ اس کی تو یہ حالت تھی کہ ایک درخت سامنے آ گیا تو یہ اسے ہضم کر گیا ۔ ایک چٹان پتھر کی راستے میں آ گئی تو اس کا لقمہ بنا گیا ۔ یہ حال دیکھتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام الٹے پاؤں بھاگے ۔ آواز دی گئی کہ موسیٰ پکڑ لے لیکن ہمت نہ پڑی پھر فرمایا موسیٰ علیہ السلام ڈر نہیں پکڑ لے پھر بھی جھجک باقی رہی تیسری مرتبہ فرمایا تو ہمارے امن میں ہے اب ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا ۔ کہتے ہیں فرمان الٰہی کے ساتھ ہی آپ نے لکڑی زمین پر ڈال دی پھر ادھر ادھر آپ کی نگاہ ہو گئی اب جو نظر ڈالی بجائے لکڑی کے ایک خوفناک اژدھا دکھائی دیا جو اس طرح چل پھر رہا ہے جیسے کسی کی جستجو میں ہو ۔ گابھن اونٹنی جیسے بڑے بڑے پتھروں کو آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے درختوں کو ایک لقمے میں ہی پیٹ میں پہنچا رہا ہے آنکھیں انگاروں کی طرح چمک رہی ہیں اس ہیبت ناک خونخوار اژدھے کو دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سہم گئے اور پیٹھ موڑ کر زور سے بھاگے پھر اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی یاد آ گئی تو شرما کر ٹھہر گئے وہیں آواز آئی کہ موسیٰ لوٹ کر وہیں آ جاؤ جہاں تھے آپ لوٹے لیکن نہایت خوفزدہ تھے ۔ تو حکم ہوا کہ اپنے داہنے ہاتھ سے اسے تھام لو کچھ بھی خوف نہ کرو ہم اسے اس کی اسی اگلی حالت میں لوٹا دیں گ ۔ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام صوف کا کمبل اوڑھے ہوئے تھے جسے ایک کانٹے سے اٹکا رکھا تھا آپ نے اسی کمبل کو اپنے ہاتھ پر لپیٹ کر اس ہیبت ناک اژدھے کو پکڑنا چاہا فرشتے نے کہا موسیٰ علیہ السلام اگر اللہ تعالیٰ اسے کاٹنے کا حکم دے دے تو کیا تیرا یہ کمبل بچا سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں لیکن یہ حرکت مجھ سے بہ سبب میرے ضعف کے سرزد ہو گئی میں ضعیف اور کمزور ہی پیدا کیا گیا ہوں ۔ اب دلیری کے ساتھ کمبل ہٹا کر ہاتھ بڑھا کر اس کے سر کو تھام لیا اسی وقت وہ اژدھا پھر لکڑی بن گیا جیسے پہلے تھا اس وقت جب کہ آپ اس گھاٹی پر چڑھ رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں یہ لکڑی تھی جس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اسی حال میں آپ نے پہلے دیکھا تھا اسی حالت پر اب ہاتھ میں بصورت عصا موجود تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اللہ کی موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلامی :۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال اس لئے نہیں کیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو پتا نہ تھا کہ یہ میری لاٹھی ہے۔ بلکہ اس لئے کہا تھا کہ اسی لاٹھی کی ہیئت بدلنے والی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے خود یہ یقین دلانا مقصود تھا کہ وہی تمہاری لکڑی کی لاٹھی اژدھا بنسکتی ہے جسے تم ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى : اللہ تعالیٰ کے اس سوال کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم نہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں کیا ہے، بلکہ اس میں حکمت یہ تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کے عصا ہونے کا یقین ہوجائے، بعد میں سانپ بننے پر انھیں یہ شک پیدا نہ ہو کہ شاید میں نے کوئی اور چیز پکڑی ہوئی تھی۔ (واللہ اعلم) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دل سے ہیبت دور کرنے اور مانوس کرنے کے لیے لاٹھی کے متعلق سوال فرمایا ہو، تاکہ انھیں اگلا حکم دیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ The question: |"What is in your right hand, 0 Musa|"? - 20:17 marks the beginning of the special favour which Allah Ta` ala showed towards Sayyidna Musa (علیہ السلام) in order to dispel the fear created by the unusual sights that he had seen and the Divine Word that he had heard. The style in which Allah Ta` ala addressed him was friendly, inquiring from him what he held in his hand. Besides there was a subtle purpose in the question, namely to make him aware that what he held in his hand was a staff made of wood and nothing more. And when he had satisfied himself again that it was indeed a wooden staff, then the miracle of turning it into a serpent was revealed, thus precluding any doubt in his mind that in the darkness of the night he might have picked up a serpent instead of his staff.

خلاصہ تفسیر اور (حق تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ بھی فرمایا کہ) یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا چیز ہے اے موسیٰ ! انہوں نے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے میں (کبھی) اس پر سہارا لگاتا ہوں اور (کبھی) اس سے اپنی بکریوں پر (درختوں کے) پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے اور بھی کام (نکلتے) ہیں (مثلاً کندھے پر رکھ کر اسباب وغیرہ لٹکا لینا یا اس سے موذی جانوروں کو دفع کرنا وغیرہ وغیرہ) ارشاد ہوا کہ اس (عصا) کو (زمین پر) ڈال دو اے موسیٰ سو انہوں نے اس کو (زمین پر) ڈال دیا تو یکایک وہ (خدا کی قدرت سے) ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گیا (جس سے موسیٰ (علیہ السلام) ڈر گئے) ارشاد ہوا کہ اس کو پکڑ لو اور ڈرو نہیں ہم ابھی (پکڑتے ہیں) اس کو اس کی پہلی حالت پر کردیں گے (یعنی یہ پھر عصا بن جاوے گا اور تم کو کوئی گزند نہ پہنچے گا، ایک معجزہ تو یہ ہوا) اور (دوسرا معجزہ اور دیا جاتا ہے کہ) تم اپنا (داہنا) ہاتھ اپنی (بائیں) بغل میں دے لو (پھر نکالو) وہ بلا کسی عیب (یعنی بلا کسی مرض برص وغیرہ) کے (نہایت) روشن ہو کر نکلے گا کہ یہ دوسری نشانی (ہماری قدرت اور تمہاری نبوت کی) ہوگی (اور یہ حکم لاٹھی کے ڈال دینے اور ہاتھ کو گریبان میں دینے کا اس لئے ہے) تاکہ ہم تم کو اپنی (قدرت کی) بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دکھلائیں (تو اب یہ نشانیاں لے کر) تم فرعون کے پاس جاؤ وہ بہت حد سے نکل گیا ہے (کہ خدائی کا دعویٰ کرتا ہے تم اس کو تبلیغ توحید کرو اور اگر نبوت میں شبہ کرے تو یہی معجزے دکھلا دو ) ۔ معارف ومسائل وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى، بارگاہ رب العالمین کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال کرنا کہ آپ کے ہاتھ میں کیا چیز ہے موسیٰ (علیہ السلام) پر لطف و کرم اور خاص مہربانی کا آغاز ہے تاکہ حیرت انگیز مناظر کے دیکھنے اور کلام ربانی کے سننے سے جو ہیبت اور دہشت ان پر طاری تھی وہ دور ہوجائے یہ ایک دوستانہ انداز کا خطاب ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کیا چیز ہے اس کے علاوہ اس سوال میں یہ حکمت بھی ہے کہ آگے اس عصا کو جو ان کے ہاتھ میں تھی ایک سانپ اور اژدھا بنانا تھا۔ اس لئے پہلے ان کو متنبہ کردیا کہ دیکھ لو تمہارے ہاتھ میں کیا چیز ہے جب انہوں نے دیکھ لیا کہ وہ لکڑی کا عصا ہے تب ان کو سانپ بنانے کا معجزہ ظاہر کیا گیا ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ احتمال ہوسکتا تھا کہ میں رات کے اندھیرے میں شاید لاٹھی کی جگہ سانپ ہی پکڑ لایا ہوں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يٰمُوْسٰى۝ ١٧ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل : 477- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

سوال عصائے موسٰی پر جواب موزوں قول باری ہے (وما تلک بیمینک یا موسیٰ قالھی عصای اتوکا علیھا ۔ اور اے موسیٰ ! یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ موسیٰ نے جواب دیا۔” یہ میری لاٹھی ہے اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں۔ “) ایک قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس لاٹھی کے متعلق پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ذہن میں یہ بات اچھی طرح بٹھا دی جائے کہ اس وقت جو چیز ان کے ہاتھ میں ہے وہ لاٹھی ہی ہے اور اس کے بارے میں اچھی طرح بات سمجھ لینے اور جانچ پرکھ کرلینے کے بعد جب لاٹھی کی کارکردگی ظاہر ہو تو اس وقت اس کے اعجاز کی حیثیت اور معجز نمائی کیفیت پوری طرح واضح ہو۔ پھر جب حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام نے جواب میں عرض کیا کہ یہ میری لاٹھی ہے جس پر میں تھکاوٹ کے وقت ٹیک لگا لیتا ہوں، اپنی بکریوں کے لئے اس کے ذریعے پتے جھاڑ لیتا ہوں اور اسی طرح کے کئی اور فائدے اٹھا لیتا ہوں تو یہ چیز واضح تھی کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو یہ باتیں معلوم کرانے کی نیت سے نہیں کہی تھیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو لاٹھی کے متعلق اس سے بڑھ کر علم تھا، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سوال کیا گیا تھا جس کا جواب دینا ضروری تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ لاٹھی سے حاصل ہونے والے فوائد کا ذکر کر کے اس سوال کا جواب دے دیں جس میں یہ پہلو بھی ہو کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان پر جو انعام کیا تھا اس کا اعتراف کیا جائے، اس کے فوائد گنوائے جائیں اور اس پر اس کا شکر بجا لانے کا التزام کیا جائے۔ بعض جاہلوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (وما تلک بیمینک یا موسیٰ ) فرما کر لاٹھی کی ماہیت دریافت کی تھی اس کے فوائد نہیں پوچھتے تھے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس سوال کا درست جواب نہ دے سکے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کی درست توجیہ وہی ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں وہ یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے تو سوال کا (ھی عصای) کہہ کر جواب دیا پھر اس لاٹھی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کا اعتراف کرتے ہوئے اور اس عطیے پر اس کا شکر بجا لاتے ہوئے اس کے فوائد گنوائے ایسے سوالات کے موقع پر انبیاء کرام (علیہم السلام) اور اہل ایمان کے جواب کا یہی طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو گنوانا شروع کردیتے ہیں اور ان نعمتوں پر واضح طور پر شکر بجا لاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے (واما بنعمۃ ربک فحدث۔ اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کرو) ۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧۔ ١٨) اور اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ میری لاٹھی ہے جب تھک جاتا ہوں تو اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے میرے اور بھی کئی کام نکلتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. This question was not asked for the sake of getting any information, for Allah knew that Moses (peace be upon him) held a staff in his hand. The question was posed with a view to impressing upon him the fact that it was a staff so that he might be mentally prepared to see the miracle which was going to be performed with it.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :11 یہ سوال طلب علم کے لیے نہ تھا ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کو بھی معلوم تھا کہ موسیٰ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے ۔ پوچھنے سے مقصود یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں اچھی طرح مستحضر ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ ٣٢:۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغمبری جو ملی اوپر اس کا ذکر تھا ان آیتوں میں معجزوں کے ملنے کا ذکر ہے اگرچہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم سے باہر نہیں ہے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بات جتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے اس لکڑی کا حال پوچھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی جس لکڑی کا حال بیان کر رہے تھے اللہ تعالیٰ نے دم بھر میں اس کو اپنی قدرت سے سانپ بنا دیا اس بات کے اچھی طرح جتلانے میں یہ حکمت تھی کہ فرعون کو معجزہ دکھانے اور جادوگروں کے مقابلہ کے وقت اس لکڑی کا سانپ بن جانا موسیٰ (علیہ السلام) کے دھیان میں رہے حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے جب اللہ تعالیٰ نے پوچھا اے موسیٰ ( علیہ السلام) تمہارے داہنے ہاتھ میں یہ کیا چیز ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا یہ میرے ہاتھ کی لکڑی ہے بکریاں چرانے کے وقت اس پر اپنی تھوڑی ٹیک کر میں کھڑا ہوجاتا ہوں اور اسی سے بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑتا ہوں اور کبھی یہ لکڑی میرے اور کام بھی آجاتی ہے۔ یہ آخری بات اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے نکلوائی کیونکہ اسی لکڑی کے کام میں لانے سے پانی کے وہ بارہ چشمے پیدا ہوئے جس کا ذکر سورة البقرہ میں گزرا اور اسی لکڑی کے کام میں لانے سے دریائے قلزم نے راستہ دے دیا جس کا ذکر سورة الشعراء میں آئے گا غرض اس طرح کی غیب کی خبروں سے قرآن شریف کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی لکڑی کا حال بیان کرچکے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا موسیٰ ( علیہ السلام) تم اس لکڑی کو زمین میں ڈال دو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو زمین میں ڈال دیا اور ڈالتے ہی اس لکڑی کا سانپ بن کر دوڑنے لگا یہ حالت دیکھ کو موسیٰ (علیہ السلام) ڈر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ڈرو نہیں اس سانپ کو ہاتھ میں پکڑ لو پھر وہ سانپ کی لکڑی ہوجائے گی۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے دوسرے معجزے کی تدبیر بتلائی کہ موسیٰ ( علیہ السلام) تم اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بغل میں دبا کر نکالو اور پھر دیکھو کہ تمہارے ہاتھ کی ہتھیلی سفید اور اس میں سورج کی سی روشنی ہوجائے گی یہ سفیدی برص کی بیماری کی طرح نہ ہوگی بلکہ جب تم چاہو گے تو وہ ہتھیلی کی سفیدی جاتی رہے گی یہ تمہارا دوسرا معجزہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھانے کے لیے یہ دو بڑے معجزے تم کو دیئے ہیں اب تم مصر میں فرعون کے پاس جاکر اسے یہ معجزے دکھاؤ کہ اس نے بہت سر اٹھایا ہے اپنے آپ کو خدا کہتا ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی تو وہ فرعون کے رعب کا حال خوب دیکھ چکے تھے اس واسطے فرعون کے پاس جانے کا حکم سن کر موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دعا کی کہ یا اللہ تو اپنی رحمت سے میرا دل ایسا کھول دے کہ میں بےدھڑک تیرا پیغام فرعون کو پہنچا دوں اور میرے نزدیک یہ کام بہت مشکل ہے تو ہی اپنی قدرت سے اس کو آسان کردے زبان کے جل جانے کے سبب سے اس میں ایک طرح کا توتلا پن جو ہوگیا ہے وہ بھی جاتا رہے تاکہ فرعون اور اس کی قوم کے لوگ میری بات کو اچھی طرح سمجھیں جس طرح اپنی رحمت سے تو نے مجھ کو پیغمبر بنایا ہے اسی طرح میرے بھائی ہارون کو نبوت دے کر میرا مدگار بنا دے تاکہ اس کے شکریہ میں ہم دونوں بھائی ہر وقت تیری یاد میں لگے رہیں ہماری حالت کچھ تجھ سے چھپی نہیں ہے کہ ہم تیری یاد میں کوتاہی نہیں کرتے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کے جواب میں فرمایا کہ تمہاری دعا قبول ہوگئی تمہاری دعا کے موافق سب باتیں تم کو مل جائیں گی جب موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے گھر میں پرورش پا رہے تھے تو فرعون کی بی بی آسیہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک دن فرعون کی گود میں دے دیا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی ڈاڑھی نوچ ڈالی اس سے فرعون کو اپنے خواب کی وہ تعبیر یاد آئی جو نجومیوں نے بتلائی تھی کہ بنی اسرائیل میں کا ایک لڑکا ایسا پیدا ہوگا جو فرعون کا دشمن ہوگا اور اس کے ہاتھ سے فرعون کی سلطنت کو زوال آئے گا یہ تعبیر یاد کر کے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے مار ڈالنے کا قصد کیا آسیہ نے فرعون کو اس قصد سے روکا اور کہا کہ اتنے چھوٹے بچے بالکل ناسمجھ ہوتے ہیں تم کو میری بات کا یقین نہ ہو تو ایک رکابی میں آگ کے انگارے اور دوسری میں کچھ جواہرات منگا کر اس بچہ کے سامنے رکھو اور دیکھو تو یہ کون سی رکابی میں ہاتھ ڈال دیتا ہے جب یہ رکابیاں آئیں تو موسیٰ (علیہ السلام) جواہرات کی رکابی میں ہاتھ ڈالنا چاہتے تھے لیکن جبرئیل (علیہ السلام) نے ادھر سے موسیٰ (علیہ السلام) کا ہاتھ کھینچ کر انگاروں کی رکابی میں ڈال دیا اور ایک انگارہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں دے کر وہی ہاتھ ان کے منہ میں دے دیا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں توتلا پن آگیا اسی کا ذکر ان آیتوں میں ہے سورة مریم کی آیت (ووھبنا لہ من رحمتنا اخاہ ھرون نبیا) سے جس طرح ہارون (علیہ السلام) کا نبی ہونا ثابت ہے اسی طرح صحیح بخاری میں سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی سے فرمایا میری نبوت کے زمانہ میں تمہارا وہی مرتبہ ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت میں ہارون (علیہ السلام) کا تھا ١ ؎۔ فقط اتنا ہی فرق ہے کہ ہارون ( علیہ السلام) نبی تھے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ سورة مریم کی وہ آیت اور یہ حدیث واشر کہ فی امری کی گویا تفسیر ہے جس سے ہارون (علیہ السلام) کا نبی ہونا اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں مالک بن صعصعہ سے اور صحیح مسلم میں انس بن مالک (رض) سے جو معراج کی روایتیں ہیں ٢ ؎۔ ان میں یہ ہے کہ معراج کی رات میں پہلے پچاس نمازیں فرض ہوئیں تھیں پھر موسیٰ ( علیہ السلام) کے مشورہ کے موافق خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی التجا کی تو پچاس نمازوں کی پانچ رہ گئیں موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے امت محمدیہ کو جو فائدہ پہنچا یہ روایتیں گویا اس کی تفسیر ہیں۔ ١ ؎ صحیح بخاری ص ٥٦٢ ج ١ مناقب علی بان ابی طالب۔ ٢ ؎ صحیح مسلم ص ٩١ ج ١ باب الاسراء برسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ کے ہاتھ میں لاٹھی ہے مگر ان سے یہ سوال اس لئے کہا کہ حضرت موسیٰ لاٹھی کے لاٹھی ہونے کا اقرار کریں اور پھر اپنے رب کی قدرت کا کرشمہ دیکھیں (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 24 یمین داہنا ہاتھ، عصا لاٹھی۔ اتوکا میں سہارا لیتا ہوں۔ اھش میں پتے جھاڑتا ہوں۔ مارب (ماربۃ) نفع، فائدہ۔ حیۃ سانپ۔ نعید ہم لوٹا دیں گے۔ سیرۃ الاولی پہلی حالت۔ اضمم ملالے۔ جناح بازو۔ بیضاء روشن، سید۔ غیر سوء بغیر کسی عیب اور تکلیف کے۔ طغی اس نے سرکشی کی۔ تشریح : آیت نمبر 17 تا 24 گزشتہ آیات سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ” وادی طویٰ “ کی مقدس وادی میں پہنچے اور انہوں نے ایک دھکتے ہوئے درخت کو دیکھا جو عجیب کیفیات کیساتھ روشن ہو رہا تھا تو آواز آئی اے موسیٰ ! یہ میں ہوں تمہارا رب، یہ سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وجد کی جیسی کیفیت طاری ہوگئی کیونکہ انسان کا اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوگا۔ کہ کائنات کا مالک خود انسان سے بات کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے۔ عرض کردیتے کہ یہ لاٹھی ہے مگر انہوں نے جواب میں طوالت اختیار کرتے ہوئے عرض کیا یہ ایک لاٹھی ہے جس پر میں ٹیک لگا لیتا ہوں، کبھی اپنی بکریوں کیلئے پتے جھاڑ لیتا ہوں اور میں اس سے اور بہت سے کام لیتا ہوں۔ فرمایا کہ اے موسیٰ اپنے عصا کو ذرا زمین پر تو پھینکئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جیسے ہی اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک خوفناک اژدھا بن گیا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اتنے بڑے خوفناک اژدھے کو دیکھا وہ بشری تقاضے کے تحت سخت خوفزدہ ہو کر بھاگنے لگے۔ ندا آئی اے موسیٰ ! آپ اس سے نہ ڈرئیے۔ آپ جیسے ہی اس کو پکڑیں گے تو یہ پھر عصا بن گیا۔ اللہ نے فرمایا کہ اے موسیٰ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکم کی تعمیل کی تو بغیر کسی عیب اور بیماری کے ان کا ہاتھ چاند کی طرح چمکتا ہوا نکلا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ ” عصا اور ید بیضا “ یہ دونوں معجزات ہیں۔ ان کو لے کر آپ فرعون کی طرف جائیے۔ اس نے سرکشی اور نافرمانی اختیار کر رکھی ہے اس کو بتائیے کہ وہ اپنی نافرمانی کے ہر انداز سے باز آجائے۔ اس واقعہ کی بقیہ تفصیلات اگلی آیت میں آرہی ہیں۔ ان آیات میں جو کچھ ارشاد فرمایا گیا ہے۔ اس میں چند باتوں کی وضاحت یہ ہے۔ (1) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ نہیں پوچھا کہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے بلکہ یہ فرمایا کہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے ؟ اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ اہمیت کی چیز کو داہنے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ اس بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ” ان اللہ یحب التیامن فی کل شیء حتی التنعل والترجل “ بیشک اللہ کو ہر چیز میں داہنی جانب میں پسند ہیں یہاں تکہ جوتا پہننا اور بالوں میں کنگھی کرنا۔ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کی دوسری قومیں اپنے ہر کام میں بایاں ہاتھ استعمال کرتی ہیں۔ اہل ایمان اپنے ہر کام کی ابتداء داہنی جانبوں سے کیا کریں تاکہ یہ اہل ایمان کا ایک امتیازی وصف بن جائے کھانے، پینے، کپڑا پہننے، کسی کو کچھ دینے لینے میں ہمیشہ داہنی جانبوں کو اختیار کریں۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ ہاتھ میں عاص رکھنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ (3) اس کائنات میں فاعل حقیقی اللہ ہے۔ اس کی قدرت ہے کہ وہ لکڑی کو اژدھا اور اژدھے کو لکڑے بنا دے ۔ ایک مؤمن کو ہر آن اللہ کی اس قدرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اللہ سے ہی مانگنا چاہئے کیونکہ اگر اللہ چاہے تو کائنات کی ہر چیز بدل سکتا ہے۔ برے حالات کو بہتر بنا دینا بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فکر آخرت کا سبق دے کر یہ بات سمجھائی گئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! جو شخص آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اس کے پیچھے لگنے اور اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فرعون پرلے درجے کا نافرمان، باغی اور ظالم انسان تھا جس وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلی وحی کے وقت بتلا یا اور سمجھایا گیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! بیشک فرعون حد سے بڑھا ہوا ظالم اور نافرمان ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے خوف کی وجہ سے آپ کو اس کی کسی بات کو نہیں ماننا چاہیے۔ اگر آپ خوف یا کسی وجہ سے حق بات کہنے سے رک گئے یا خوف کی وجہ سے اس کے سامنے جھک گئے تو یاد رکھیں آپ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوں گے۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو از راہ محبت اور ان کی تربیت کی خاطر یہ سوال کیا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میرے رب میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے میں اس کے ساتھ بھیڑ بکریوں کے لیے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں جب تھک جاؤں تو اس کا سہارا لیتا ہوں میرے لیے اس میں اور بھی کئی فائدے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صرف اتنا ہی استفسار فرمایا تھا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی قربت اور محبت کی وجہ سے ایک سوال کے جواب میں تین جوابات عرض کیے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بندے کو دعا اور اللہ کی عبادت کرتے ہوئے جب اس کی رحمت اور قرب کی لذت محسوس ہوتی ہے تو پھر اس پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اگر قیام میں ہو تو اللہ تعالیٰ کو اس قدر یاد کرتا ہے کہ اسے اپنے قیام کی طوالت کا احساس نہیں رہتا۔ اگر رکوع اور سجود میں اللہ تعالیٰ کی قربت کا احساس ہوجائے تو دیر تک رکوع میں جھکا اور سجدے میں پڑا رہتا ہے۔ اسی قرب اور لذت کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر طویل قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر سو جن پڑجاتی تھی۔ اسی سبب ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک استفسار کے بدلے تین جواب عرض کیے تاکہ میں اپنے رب کے ساتھ دیر تک محو گفتگو رہ سکوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے سرور میں آکر پے درپے کئی جواب عرض کیے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی بات پوری ہوئی اور ان کی کامل توجہ اپنی لاٹھی کی طرف مرکوز ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینکیں جو نہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے لاٹھی پھینکی تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر لہرانے لگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس اژدھا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیں یہ پہلے کی طرح پھر لاٹھی بن جائے گا۔ یاد رہے کہ سیرت کا معنی ہے حالت اور کیفیت سیرت طیبہ سے مراد پاکیزہ زندگی اور عمدہ کردار۔ اس کے اوّلین اور کامل ترین مصداق سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو پوری امت کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور قربت محسوس کرتے ہوئے ایک سوال کے کئی جواب عرض کیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو چوکنا کرنے کے لیے ان کے عصا کے بارے میں سوال کیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا تذکرہ : حضرت موسیٰ کے عصا کا تذکرہ قرآن میں ١٠ بار آیا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہے۔ البقرۃ، ٦٠، الاعراف : ١٠٨، ١١٨، ١٦٠، الشعراء : ٢٣، ٤٥، ٦٣ النمل : ١٠، القصص : ٣١، طٰہٰ : ١٨ ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے جب پانی طلب کیا تو موسیٰ کو اپنا عصا پتھر پر مارنے کا حکم دیا گیا۔ (البقرۃ : ٦٠) ٢۔ جب فرعون لاؤ لشکر سمیت بنی اسرائیل کے خلاف چڑھ دوڑا تو موسیٰ کو اپنا عصا دریا پر مارنے کا حکم ہوا۔ (الشعراء : ٦٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ میرا عصا ہے۔ (طٰہٰ : ١٧، ١٨) ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے عصا کو جب زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن گیا۔ (النمل : ١٠) ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) عصا کو سانپ بنتا ہوا دیکھ کر ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ( القصص : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما تلک۔۔۔۔۔ مارب اخری (٧١۔ ٨١) ’ سوال ہوتا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کیا ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو اپنے حال میں نہ تھے۔ دیکھ کر بتایا کہ عصا ہے۔ سوال میں یہ نہ تھا کہ عصا کے فوائد کیا ہیں ؟ صرف یہ تھا کہ ہاتھ میں کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سمجھا کہ جو ہاتھ میں ہے ‘ اس کی ماہیت تو نہیں پوچھی جاتی ‘ ماہیت تو واضح ہے ‘ بلکہ عصا کے فوائد پوچھے جارہے ہیں ‘ اس لیے انہوں نے فوائد گنوا دیئے ‘ جو فوائد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جانتے تھے ‘ وہ بتا دیئے کہ وہ اس کا سہارا لیتے ہیں ‘ اس کے ذریعہ درختوں کے پتے جھاڑتے ہیں تا کہ بکریاں کھا لیں۔ آپ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بکریاں چراتے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ واپسی کے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بکریوں کا ایک گلہ بھی تھا ‘ جو ان کے حصے میں آئی تھیں ‘ الایہ کہ یہ عصا اس قسم کے دوسرے مقاصد میں بھی استعمال ہوتا ہے ‘ ان کا ذکر انہوں نے اجمالا کردیا کہ اس میں اور بھی فوائد ہیں۔ لیکن ذرا آگے دیکھو کہ قدرت خداوندی اس عصا سے وہ کچھ کام لینا چاہتی ہے جس کا کبھی موسیٰ (علیہ السلام) نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ یہ تجربہ ان کو اس لیے کرایا جاتا ہے کہ وہ فرعون کے دربار میں بےدھڑک ہو کر جائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ اس سے مقصود لاٹھی کی تعیین کرانا ہے کہ یہ وہی لاٹھی ہے جس سے تم یہ کام لیتے ہو کہا وہی ہے تو فرمایا ” اَلْقٰهٰا “ اسے زمین پر ڈال دو ۔ لاٹھی کا زمین پر پھینکنا تھا کہ وہ اژدھا بن کر دوڑنے لگا۔ حکم ہوا ڈرو مت اسے پکڑ لو۔ ہم اس کو پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔ یہ ایک معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17 اور اے موسیٰ ! یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا چیز ہے۔ بطور استفہام تقریری کے ارشاد ہوا۔