Surat Tahaa
Surah: 20
Verse: 19
سورة طه
قَالَ اَلۡقِہَا یٰمُوۡسٰی ﴿۱۹﴾
[ Allah ] said, "Throw it down, O Moses."
فرمایا اے موسٰی! اسے ہاتھ سے نیچے ڈال دے ۔
قَالَ اَلۡقِہَا یٰمُوۡسٰی ﴿۱۹﴾
[ Allah ] said, "Throw it down, O Moses."
فرمایا اے موسٰی! اسے ہاتھ سے نیچے ڈال دے ۔
(Allah) said: "Cast it down, O Musa!" "Throw down this stick that is in your right hand, O Musa." فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى
اللہ تعالیٰ کے حکم پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو اچانک وہ سانپ بن گیا جو دوڑتا تھا، یعنی حقیقی اور زندہ سانپ تھا۔ قرآن مجید میں اس کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں ” حَیَّةٌ“ (سانپ) ، ” جَانٌّ“ (پتلا چھڑی جیسا چمکتا ہوا سانپ) اور ” ثُعْبَانْ “ (بہت بڑا اژدہا) ۔ معلوم ہوا کہ لاٹھی پھینکتے ہی پتلے سانپ جیسی بنی، پھر بڑھتے بڑھتے بہت بڑا اژدہا بن گئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) خوف زدہ ہو کر بےاختیار بھاگ اٹھے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ دیکھیے سورة نمل (١٠) اور قصص (٣١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے پکڑو اور ڈرو نہیں، ہم اسے دوبارہ پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ 3 اہل علم نے لاٹھی کے ایک لمحہ میں سانپ اور پھر دوبارہ لاٹھی بننے میں کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح اپنی قدرت کا عین الیقین عطا فرما دیا کہ کس طرح اس کے حکم سے ایک بےجان چیز اتنی خطرناک ہوجاتی ہے کہ اس کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی اور پھر کس طرح اتنی خطرناک چیز اس کے حکم سے بےجان لکڑی بن جاتی ہے، جو حرکت بھی نہیں کرسکتی۔ مقصد یہ یقین دلانا تھا کہ فرعون اپنی تمام تر قہرمانیوں کے باوجود اللہ کے حکم کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ دوسری حکمت یہ کہ اس زمانے میں جادو اپنے عروج پر تھا، اس کے توڑ کے لیے یہ معجزہ دیا اور انھیں مشاہدہ بھی کروا دیا، تاکہ میدان میں لاٹھی کے سانپ بننے سے موسیٰ (علیہ السلام) خوف زدہ ہو کر بھاگ نہ اٹھیں، بلکہ انھیں آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوت کا ہر وقت احساس رہے۔ تیسری حکمت بقاعی (رض) نے ربط آیات کے ضمن میں لکھی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کے آغاز سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے آنے کا ذکر فرمایا ہے، جسے ” اَلسَّاعَۃُ “ کہتے ہیں، یعنی ایک لمحہ، ایک گھڑی، قیامت کا ذکر کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک لمحے میں لاٹھی کو سانپ اور سانپ کو لاٹھی بنا کر ایک گھڑی میں قیامت قائم ہونے کا مشاہدہ کروا دیا۔ (نظم الدرر)
قَالَ اَلْقِہَا يٰمُوْسٰى ١٩ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔
(١٩۔ ٢٠) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے زمین پر ڈال دو چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ڈال دیا تو یکایک وہ ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ڈر کر بھاگے۔
(20:19) القھا۔ فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تو اس کو ڈال دے۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب عصا کے لئے ہے۔ القی اس نے ڈال دیا۔ القاء مصدر۔
قال القھایموسی۔۔۔۔۔ سیرتھا الاولیٰ (٩١ تا ١٢) ”“۔ ۔ یہ خارق عادت معجزہ ظہور پذیر ہوگیا ‘ یہ معجزہ اس کائنات میں ہر لمحہ ہر طرف ظاہر ہوتا رہتا ہے ‘ لیکن لوگوں کی سوچ اس طرف نہیں جاتی۔ یعنی ” زندگی “ کا معجزہ ۔ ایک عصا سانپ بن گئی۔ اس دنیا میں ہر سیکنڈ میں عصا کی طرح اربوں مردہ ذرے زندگی پاتے ہیں اور زندہ خلیوں کی شکل اختیار کرتے ہیں لیکن انسان انہین اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح وہ ایک بڑی عصا کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اس لیے کہ انسان اپنے حواس کا بندہ اور اپنے تجربات کا قیدی ہے۔ وہ اپنے تصورات میں حواس کے دائرے سے آگے جانے کی تکلیف نہیں کرتا۔ ایک عصا کا زندہ ہو کر سانپ بن جانا اور پھر چلنا انسانی احساس کو شدت سے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے ‘ لیکن وہ خلیے جو زندگی کے پہلے معجزے کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں اور وہ مظاہر جوہر لمحہ اربوں ذرات کے زندہ خلیوں کی شکل اختیار کرنے میں پیش آتے ہیں۔ یہ خفیہ یا باریک ہیں۔ اور انسان ان کی طرف متفت نہیں ہوتے۔ پھر جو لوگ ان کا ملاحظہ بھی کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے وہ ان مناظر کے اس زدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر وہ ان سے متاثر ہی نہیں ہوتے اور غفلت کے ساتھ ان مناظر پر سے گزر جاتے ہیں۔ یہ معجزہ جب رہ نما ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) ششدر رہ گئے ‘ بلکہ ڈر گئے اور اللہ کو کہنا پڑاخذھا ولا۔۔۔۔ سیرتھا الاولیٰ (٠٢ : ١٢) ” پکڑلے اس کو اور ڈرو نہیں ‘ ہم اسے پھر ویسا ہی کریں گے “۔ یعنی عصا۔۔۔ یہاں قرآن مجید نے ایک بات کا ذکر نہیں کیا جو دوسری جگہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھاگ کھڑے ہوئے اور پیچھے نہ دیکھا۔ یہاں صرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ نہ ڈرو ‘ یہ اس لیے کہ اس سورة کی فضا اور مناظر میں امن ‘ اطمینان ‘ سکون اور وقار چھایا ہوا ہے لہٰذا اس میں یہ مناسب نہیں ہے کہ اسٹیج پر جزع و فزع دکھایا جائے اور کوئی بھاگ کھڑا ہو۔ حضرت موسیٰ مطمئن ہوگئے ‘ عصا کو لیا توسانپ پھر عصا تھا۔ یہ معجزہ اب دوسری شکل میں ظاہر ہوگیا۔ ایک زندہ چیز کو مردہ بنایا گیا۔ اچانک زندہ رینگنے ‘ والی چیز مردہ اور عصا کی شکل میں آگئی۔ جس طرح کہ پہلے معجزے سے قبل تھی۔ ایک بار پھر موسیٰ کو عالم بالا سے حکم ملتا ہے۔
(قَالَ اَلْقِھَا یٰمُوْسٰی) (باری تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہوا کہ اس لاٹھی کو زمین پر ڈال دو ) فالقاھا (سو اسے انہوں نے ڈال دیا) (فَاِذَا ھِیَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی) (سوا چانک وہ دوڑتا ہوا سانپ بن گئی) سورة نمل میں ہے کہ جب انہوں نے اسے سانپ کی شکل میں حرکت کرتے ہوئے دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا (خُذْھَا وَلَاتَخَفْ ) (اس کو پکڑ لو اور ڈرو نہیں) سورة نمل میں یہ الفاظ بھی ہیں (اِِنِّیْ لاَ یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ ) (کہ میرے سامنے پیغمبر ڈرا نہیں کرتے) اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہم اس کو اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔ (چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر ہاتھ رکھا اور اٹھانے لگے تو وہ لاٹھی ویسی ہی ہوگئی جیسی پہلے تھی) یہ ایک نشانی ہوئی۔ دوسری نشانی عطا فرمانے کے لیے باری تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہوا (وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ ) (تم اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں ملا لو) (تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ ) (وہ بغیر عیب کے سفید ہونے کی حالت میں نکلے گا) چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بغل میں ہاتھ ڈالا پھر واپس نکالا تو وہ خوب زیادہ سفید روشن تھا۔ اور یہ سفیدی کسی عیب یعنی برص وغیرہ کی بیماری کی وجہ سے نہ تھی اسی کو من غیر سوء فرمایا۔ یہ دونشانیاں ہوئیں پھر فرمایا (لِنُرِیَکَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْکُبْرٰی) (تاکہ ہم تمہیں اپنی بڑی آیات میں سے دکھائیں) اس کے بارے میں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو بڑے بڑے معجزات دیئے گئے تھے ان میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کا روشن ہونا سب سے بڑی نشانی تھی۔ یہ دونوں نشانیاں دیکر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس بھیج دیا اور فرمایا (اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی) (فرعون کے پاس جاؤ بیشک اس نے سرکشی اختیار کر رکھی ہے) اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دعا کرنے اور اپنے بھائی ہارون کو اپنا وزیر بنانے اور پھر فرعون کے پاس جانے اور جادو گروں کے مقابلہ کرنے کا ذکر ہے جو آئندہ دو رکوع میں ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نور ربانی کو نار سمجھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب آگ کی جگہ پر پہنچے تو (مقدس سر زمین طویٰ کی اس جانب کے کنارے سے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے داہنی طرف تھی) ایک درخت سے آواز آئی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام فرمایا جیسا کہ سورة قصص میں مذکور ہے۔ یہ جو آگ نظر آئی تھی اس کے بارے میں علامہ بغوی معالم التنزل ج ٣ ص ٢١٣ میں لکھتے ہیں قال اھل التفسیر لم یکن الذی راہ موسیٰ نارا بل کان نورا ذکر بلفظ النار لان موسیٰ حسبہ نارا یعنی اہل تفسیر نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ دیکھا تھا وہ حقیقت میں آگ نہیں تھی بلکہ وہ نور تھا چونکہ انہوں نے اسے دور سے آگ محسوس کیا تھا اس لیے نار سے تعبیر فرمایا۔ پھر فرماتے ہیں وقال اکثر المفسرین ھو نور الرب عزوجل وھو قول ابن عباس و عکرمۃ و غیر ھما (اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ وہ رب جل شانہ کا نور تھا حضرت ابن عباس اور حضرت عکرمہ وغیرہما کا یہی ارشاد ہے) ۔ حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا حجابہ النور لو کشفہ لاحرقت سبحات وجھہ ما انتھی الیہ بصرہ من خلقہ یعنی اس کی ذات کا پردہ نور ہے اگر وہ پردہ ہٹا دے تو اس کی ذات کے انوار ساری مخلوق کو جلا دیں جہاں تک اس کی نظر ہے (رواہ مسلم) یعنی مخلوق کے پردے مادی پردے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ جو اپنی مخلوق سے محجوب ہے وہ اپنے عزو جلال کے نور سے محتجب یہ انوار اٹھ جائیں تو ساری مخلوق جل کر خاک ہوجائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس نور کو آگ کی صورت میں محسوس کیا تھا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ وہی حجاب والا نور تھا۔ جسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دور سے آگ محسوس کیا۔ صاحب روح المعانی ١٦ ص ١٢٦ نے وہب بن منبہ (رض) سے بحوالہ کتاب الزہد لامام احمد وغیرہ نقل کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب آگ کے قریب پہنچے تو وہاں ایک عجیب حیرت انگیز منظر دیکھا ایک بڑی آگ ہے جو ایک ہرے بھرے درخت کے اوپر شعلے مار رہی ہے مگر حیرت یہ ہے کہ درخت کی کوئی شاخ یا پتہ نہیں جلتا بلکہ آگ کی وجہ سے درخت کے جسم میں تری اور تازگی اور رونق میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) اس انتظار میں رہے کہ شاید کوئی چنگاری زمین پر گرے تو اسے اٹھالیں دیر تک دیکھتے رہے لیکن کوئی چنگاری نہ گری انہوں نے گھاس کے کچھ تنکے جمع کئے اور انہیں آگ کے قریب کیا تاکہ ان میں آگ لگ جائے تو انہیں لیکر چلے جائیں لیکن اس میں بھی آگ نہ لگی اور بعض روایات میں ہے کہ آگ ان کی طرف بڑھی تو وہ خود پیچھے ہٹ گئے بہرحال آگ لینے کے مقصد سے تشریف لائے تھے وہ مقصد پورا نہ ہوا اسی عجیب و غریب حالت وحیرت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک غیبی آواز آگئی انی انا ربک فاخلع نعلیک ١ ھ مختصراً ۔ نماز ذکر اللہ کے لیے ہے : اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی عبادت کا حکم فرمایا پھر ایک خاص طریقہ عبادت یعنی نماز کا خاص طور پر حکم دیا اور فرمایا (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِّکْرِیْ ) اس سے معلوم ہوا کہ نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء سابقین (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کو بھی نماز پڑھنے کا حکم تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب سر زمین مکہ میں اپنی اہلیہ اور بچے کو چھوڑا تو بار گاہ الٰہی میں یوں عرض کیا (رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ ) (اے ہمارے رب میں نے اپنی ذریت کو آپ کے بیت محرم کے پاس ایسی وادی میں ٹھہرایا ہے جو کھیتی باڑی والی نہیں ہے اے ہمارے رب تاکہ وہ نماز قائم کریں) اور دعا میں یوں عرض کیا (رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ ) (اے میرے رب مجھے نماز کا قائم کرنے والا بنا اور میری ذریت میں سے بھی اور اے ہمارے رب ہماری دعا قبول فرما) درحقیقت نماز بہت بڑی چیز ہے اور شہادتین کے بعد سب سے بڑی عبادت ہے۔ سفر میں حضر میں حرج میں مرض میں امن میں خوف میں ہر حال میں نماز فرض ہے۔ یہ تو ہے کہ لمبے سفر میں (جس کی مقدار کتب فقہ میں لکھی ہے) چار رکعت کی جگہ دو رکعت مشروع کردی گئی لیکن بالکل ہی معاف نہیں جب تک ہوش و حواس قائم ہیں انسان نماز پڑھنے کا مکلف ہے۔ نماز کی بڑی خصوصیات ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے اور کسی عبادت کے لیے اذان نہیں رکھی گئی۔ پھر اذان بھی اول سے آخر تک اللہ کا ذکر ہے اور نماز بھی اول سے آخر تک ذکر اللہ ہے۔ اللہ اکبر سے شروع کی جاتی ہے اور السلام علیکم پر ختم کی جاتی ہے درمیان میں تلاوت ہے اذکار ہیں تسبیح اور تقدیس ہے۔ تکبیر وتہلیل ہے۔ تشہد ہے اور صلوٰۃ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور آخر میں دعا ہے یہ سب ذکر ہی ہے پھر نماز کے بعد تسبیحات پڑھنے کی تعلیم دی ہے اور نماز میں سارے اعضاء عبادت میں لگ جاتے ہیں زبان سے ذکر ہے آنکھیں بھی پابند ہیں ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ پاؤں بھی ایک جگہ رکھے گئے ہیں دل میں خشوع کی کیفیت ہے پورے جسم سے خشوع اور عجز و نیاز ظاہر ہو رہا ہے یہ سب ایسے ہیں جو بندے کو سراپا خالق ومالک جل مجدہ کی طرف متوجہ کردیتے ہیں نماز دنیا میں بھی اول ہے اور آخرت میں سب سے پہلے اس کی پوچھ ہوگی، یہ جو فرمایا (اَقِمِ الصَّلوٰۃ لِذِکْرِیْ ) کہ نماز کو میری یاد کے لیے قائم کرو اس میں لفظ ذکر عام ہے زبان سے تو نماز میں اللہ کا ذکر ہوتا ہی ہے حضور قلب بھی ہونا چاہئے تاکہ دل سے بھی ذاکر اور خاشع ہو جب دل میں خشوع اور خضوع ہوتا ہے تو اعضاء جو ارح پر بھی ظاہر میں اس کا اثر پڑتا ہے۔ اور جب نماز اچھی طرح پڑھی جائے اور دل میں ذکر اللہ کی کیفیت جاگزین ہوجائے تو پھر نماز کی طرف پوری رغبت ہوجاتی ہے نفس نماز سے کتراتا ہے تو قلب اسے رجوع کرا دیتا ہے اور نماز پر آمادہ کردیتا ہے جس قدر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگی اسی قدر نماز کی رغبت ہوگی دل بھی لگے گا فرائض اچھی طرح پڑھے جائیں گے سنن اور نوافل کا بھی اہتمام ہوگا۔ بکریاں چرانے میں حکمت اور مصلحت : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب مدین تشریف لے گئے تو وہاں ایک صالح بزرگ تھے انہوں نے ان سے اس شرط پر اپنی ایک لڑکی سے نکاح کردیا کہ تم آٹھ سال تک میری بکریاں چراؤ اور اگر دس سال تک چرادو تو یہ خدمت تمہاری اپنی طرف سے ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دس سال کی مدت پوری فرمائی وہاں بکریاں چراتے رہے۔ حضرت عتبہ بن ندر (رض) نے بیان فرمایا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے آپ نے سورة طسم یعنی سورة قصص پڑھی۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ پر پہنچے تو فرمایا کہ بلاشبہ موسیٰ نے اپنی جان کو آٹھ سال یا دس سال اپنی شرمگاہ کی پاکیزگی اور اپنے پیٹ کی خوراک کے لیے اجرت پردے دیا تھا (رواہ احمد وابن ماجہ کمافی المشکوۃ ص ٢١٨) مطلب یہ ہے کہ اتنی طویل مدت تک اپنے خسر کی بکریاں چرائیں جس سے پیٹ بھر نے کا انتظام بھی ہوگیا اور شرمگاہ کے پاک رکھنے کا بھی کیونکہ یہ خدمت بیوی کے مہر کے حساب میں لگائی گئی تھی۔ (کما قالہ بعض العلماء) بکریاں چرانے کا کام تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نے کیا ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ بکریوں کے چرانے میں نفس کو مشقت بھی ہوتی ہے جسے برداشت کرنا پڑتا ہے اور ضعیف کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کی بھی مشق ہوجاتی ہے بکری ضعیف جانور ہے اگر وہ بھاگ جائے تو پکڑ کر لانا پڑتا ہے اسے مارو تو ہڈی پسلی ٹوٹنے کا اندیشہ رہتا ہے ضبط و تحمل کے بغیر چارہ نہیں ہوتا پھر اس کے مزاج میں تواضع بھی ہے اسی لیے حدیث شریف میں فرمایا کہ اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہوں میں نمازیں نہ پڑھو اور بکریوں کے رہنے کی جگہوں میں نمازیں پڑھ لیا کرو۔ مشکوۃ المصابیح) اونٹوں میں شرکا مادہ ہے حملہ کرنے کا اندیشہ رہتا ہے بکری بیچاری سیدھی سادھی عاجز مخلوق ہے اس سے حملہ کا کوئی اندیشہ نہیں جب بکریوں کے ساتھ کوئی شخص گزارہ کرے اور ایک عرصہ تک چرائے تو اس کے عوام الناس سے خطاب کرنے اور ان کے ساتھ نباہنے اور ان سے جو تکلیفیں پہنچیں انہیں برداشت کرنے کی عادت بن جاتی ہے اس لیے حکمت کا تقاضا ہوا کہ ہر نبی بکریاں چرائے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟ فرمایا ہاں میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا۔ جس کی مزدوری چند قیراط تھی۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٣٠١) قیراط اس زمانہ میں چاندی کے ایک بہت چھوٹے سے ٹکڑے کو کہا جاتا تھا جس کی مقدار پانچ جو کے برابر ہوتی تھی اس کے ذریعہ لین دین ہوتا تھا اور مز دور کو مزدوری میں بھی دیا جاتا تھا۔ فائدہ : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ میں ان کی لاٹھی کے بارے میں کہیں حیۃ اور کہیں جان اور کہیں ثعبان کا لفظ آیا ہے۔ ثعبان بڑے اژدھے کو اور جان پتلے اور چھوٹے سانپ کو کہا جاتا ہے اور حیۃ عام ہے یہاں بعض مفسرین کو اشکال ہوا کہ ایک ہی چیز کو تین طرح جو تعبیر فرمایا اس سے تعارض کا ابہام ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ثعبان کا لفظ صرف اس موقع پر آیا ہے جب پہلی بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے پاس پہنچے اور اسے ید بیضاء دکھایا پھر اپنے عصاء کو ڈال دیا تو وہ ثعبان بن گیا۔ اس موقع کے علاوہ یہ لفظ کسی جگہ استعمال نہیں ہوا۔ وادی طویٰ پر جب عصاء ڈالنے کے لیے اللہ جل شانہ کا ارشاد ہوا اور اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی عصاء ڈال دی سورة طہ میں یہ ہے کہ وہ حیۃ بن گئی اور سورة قصص اور سورة نمل میں ہے کہ وہ جان بن گئی اس میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ لفظ حیۃ ہر چھوٹے بڑے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے۔ اب رہا جادو گروں کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو اپنی عصا کو ڈالا وہاں تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی لاٹھی ڈال دی۔ وہ جادو گروں کی بنائی ہوئی چیزوں کو لقمہ بنانے لگی سورة اعراف اور سورة طہ اور سورة شعراء میں تینوں جگہ یہی ہے ان مواقع میں حیۃ یا ثعبان یا جان میں سے کوئی لفظ نہیں لہٰذا کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے۔ تعارض جب ہوتا جبکہ ایک ہی جگہ میں ثعبان اور جان دونوں کا ذکر ہوتا۔