Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 23

سورة طه

لِنُرِیَکَ مِنۡ اٰیٰتِنَا الۡکُبۡرٰی ﴿ۚ۲۳﴾

That We may show you [some] of Our greater signs.

یہ اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھانا چاہتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That We may show you (some) of Our greater signs. Allah commanded Musa to go to Fir`awn to convey the Message Allah said, اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] یہ دو معجزات تو نبوت ملنے کے ساتھ ہی سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو دے دیئے گئے اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ آئندہ بھی عندالضرورت ہم آپ کو اپنے معجزات دکھلاتے رہیں گے۔ اور یہ دونوں معجزے آپ کو نبوت کی صداقت کے طور پر دیئے گئے تھے۔ پہلے معجزے میں جبروت الٰہی کا اظہار مقصود تھا۔ جو فرعون جیسے سرکش بادشاہ کے لئے ضرورت بات تھی اور دوسرے معجزہ میں ہدایت کے روشن راستے کی طرف اشارہ تھا جو مقصود انبیاء (علیہم السلام) ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِنُرِيَكَ مِنْ اٰيٰتِنَا الْكُبْرٰى : یہاں ” مِنْ “ بعض کے معنی میں ہے، یعنی ہم نے عصا اور ید بیضا تمہیں اپنے چند بڑے معجزے دکھانے کے لیے عطا کیے ہیں۔ یہ معنی بھی ہے کہ ہم نے یہ معجزے تمہیں اپنے کچھ مزید بڑے معجزے دکھانے کے لیے دیے ہیں۔ ان کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١٠١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِنُرِيَكَ مِنْ اٰيٰتِنَا الْكُبْرٰى۝ ٢٣ۚ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ كبر الْكَبِيرُ والصّغير من الأسماء المتضایفة التي تقال عند اعتبار بعضها ببعض، فالشیء قد يكون صغیرا في جنب شيء، وكبيرا في جنب غيره، ويستعملان في الكمّيّة المتّصلة كالأجسام، وذلک کالکثير والقلیل، وفي الكمّيّة المنفصلة کالعدد، وربما يتعاقب الکثير والکبير علی شيء واحد بنظرین مختلفین نحو : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة/ 219] ( ک ب ر ) کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں ۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں ۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ بمعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ [ البقرة/ 219] کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣۔ ٢٤) تاکہ ہم تمہیں اپنی قدرت کی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دکھائیں اب یہ نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ، اس نے بہت بڑائی تکبر اور کفر اختیار کرلیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:23) لنریک من ایتنا الکبری۔ لام تعلیل کا ہے تاکہ۔ اس لئے کہ۔ نریمضارع جمع متکلم کضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ من بمعنی بعض۔ ایتنا الکبری موصوف وصفت۔ ہماری بڑی بڑی نشانیاں۔ یعنی ہم نے عصا اور یدبیضاء کے معجزے اس لئے عطا کئے تاکہ اپنی بڑی بڑی نشانیوں میں سے کچھ نشانیاں آپ کو دکھائیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لنریک من ایتنا۔۔۔۔ انہ طغی (٣٢۔ ٤٢) ” اس لئے کہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں۔ اب تو فرعون کے پاس جا ‘ وہ سرکش ہوگیا ہے “۔ یہ نشانیاں اور معجزات جس کا حسن اظہار ہو رہا ہے اے موسیٰ (علیہ السلام) پہلے آپ کو دکھائی جارہی ہیں تاکہ تم مطمئن ہو کر اور ان سے مسلح ہو کر فرعون کے پاس جائو یہاں تک کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم نہ تھا کہ وہ اس عظیم مہم اور اس عظیم منصب کے لئے چن لئے گئے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ فرعون کون ہے کیونکہ وہ تو پہلے ہی اس کے گھر میں تھے ‘ اس کی سرکشی اور سخت داروگیر سے وہ وقف تھے۔ وہ بنی اسرائیل پر جو مظالم ڈھا رہا تھا اس سے بھی واقف تھے ‘ وہ اس وقت چونکہ بارگاہ رب العزت میں پہنچے ہوئے ہیں ‘ سمجھتے ہیں کہ ان کو بڑا اعزاز مل چکا ہے اور وہ ایک بہت ہی معزز بندے ہیں لہٰذا ان کے دل میں یہ بات آگئی کہ یہ موزوں وقت ہے کہ وہ اس مہم کے لیے ضروری سازو سامان اسی وقت طلب کرلیں تا کہ وہ پوری طرح لیس ہو کر فرعون کے پاس جائیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ یہ فعل مقدر کے متعلق ہے ای فعلنا ما فعلنا لنریک (روح) ۔ ” مِنْ اٰیٰتِنَا “ اس سے دریائے نیل میں بارہ راستوں کا نمودار ہونا، بنی اسرائیل کا ان سے صحیح سلامت گذر جانا اور فرعون کا مع لاؤ لشکر غرق ہوجانا مراد ہے۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

23 ہم نے یہ اس لئے کیا تاکہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تجھ کو اپنی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دکھا دیں ۔ یعنی اس لئے تجربہ کرا دیا کہ معجزے کے ظہور کے وقت کوئی گھبراہٹ نہ ہو۔