Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 51

سورة طه

قَالَ فَمَا بَالُ الۡقُرُوۡنِ الۡاُوۡلٰی ﴿۵۱﴾

[Pharaoh] said, "Then what is the case of the former generations?"

اس نے کہا اچھا یہ تو بتاؤ اگلے زمانے والوں کا حال کیا ہونا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

(Fir`awn) said: "What about the generations of old!" The most correct opinion concerning the meaning of this, is that when Musa informed Fir`awn that his Lord Who sent him is the One Who creates, sustains, ordains and guides, Fir`awn began to argue, using the previous generations as a proof. He was referring to those people of old who did not worship Allah. In other words, "If the matter is as you say, then what happened to those people! They did not worship your Lord. Instead they worshipped other gods besides Him."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہوگا ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣] فرعون کا دوسرا سوال کہ پہلی امتیں کس حال میں ہیں :۔ اس پہلو سے لاجواب ہو کر فرعون نے دوسرا سوال جو کیا وہ اس کی انتہائی شرارت پر مبنی تھا۔ جس سے وہ اپنی تمام مرعیت کو ان رسولوں کے خلاف بھڑکانا اور ان میں مذہبی تعصب پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس کا سوال یہ تھا کہ اگر صورت حال یہی ہے کہ جو توحید و رسالت کی دعوت تم لے کر آئے ہو اس کو ماننے والوں کے لئے امن و سلامت ہے اور جو اس دعوت پر ایمان نہیں رکھتے تو ان کو دردناک سزا ملے گا تو بتلاؤ جو ہمارے باپ دادا فوت ہوچکے ہیں وہ کس حال میں ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى : یہ سوال پوچھنے کی تین وجہیں ہوسکتی ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے جواب میں سب کا حل موجود ہے۔ پہلی وجہ شاہ عبد القادر (رض) کے الفاظ میں یہ ہے : ” فرعون شاید دہریہ مزاج تھا۔ آدمیوں کی پیدائش کو سمجھتا تھا جیسے برسات کا سبزہ، نہ اول کسی نے پیدا کیا، آپ ہی پیدا ہوگیا، نہ آخر باقی رہا، گل کر مٹی ہوگیا۔ جب سنا کہ سب کے سر پر ایک رب ہے تب یہ پوچھا کہ اگلی خلق کہاں گئی ؟ بتایا ان کا حساب لکھا ہوا موجود ہے کہ ایک ایک آدمی پھر حاضر ہوگا۔ “ (موضح) دوسری وجہ اس کے یہ پوچھنے کی کہ پھر پہلے زمانوں کے لوگوں کا کیا حال ہے، یہ ہوسکتی ہے کہ وہ یہ کہلوانا چاہتا تھا کہ جو لوگ سیکڑوں برس سے نسلاً بعد نسل دوسروں کو اپنا رب سمجھتے اور ان کی بندگی کرتے رہے ہیں، وہ سب گمراہ اور مستحق عذاب تھے۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کو گمراہ اور مستحق عذاب قرار دیں گے تو ان کے خلاف تمام لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھیں گے اور وہ ان کی دعوت سے متنفر ہوجائیں گے۔ اہل حق کے خلاف اہل باطل جاہلوں کو مشتعل کرنے کا یہ ہتھکنڈا ہمیشہ سے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسے کارگر حربہ سمجھتے ہیں۔ سورة شعراء کی آیات (٢٣ تا ٢٩) کی روشنی میں یہ مطلب سب سے واضح نظر آتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس معاملے کو اللہ کے علم کے سپرد کردیا، چناچہ فرعون کا وار خالی گیا۔ تیسری وجہ یہ کہ فرعون یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ رسول تو عالم الغیب ہوتے ہیں، اگر تم واقعی رسول ہو تو پہلے یہ بتاؤ کہ پہلے زمانوں کے لوگوں کا کیا حال ہے، ان کا حال ہمیں بتاؤ۔ مقصد یہ تھا کہ جب نہیں بتاسکیں گے تو ہم کہہ دیں گے کہ یہ کیسا رسول ہے جو پہلے زمانوں کے لوگوں کے احوال بھی نہیں جانتا ؟ جواب یہ دیا کہ یہ جاننا رسولوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ رب تعالیٰ کا کام ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر فرعون نے (اس پر شبہ کیا (آیت) ان العذاب علی من کذب و تولی اور) کہا کہ اچھا تو پہلے لوگوں کا کیا حال ہوا ( جو انبیاء کی تکذیب کرتے تھے ان پر کون سا عذاب نازل ہوا) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (کہ میں نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ عذاب موعود دنیا ہی میں آنا ضرور ہے بلکہ کبھی دنیا میں بھی آجاتا ہے اور آخرت میں ضرور ہی ہوگا چنانچہ) ان لوگوں (کی بد اعمالیوں) کا علم میرے پروردگار کے اس دفتر (اعمال) میں (محفوظ) ہے (گو ان کو دفتر کی حاجت نہیں مگر بعض حکمتوں سے ایسا ہی کیا گیا ہے غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے اعمال معلوم ہیں اور) میرا رب (ایسا جاننے والا ہے کہ) نہ غلطی کرتا ہے اور نہ بھولتا ہے (پس ان کے اعمال کا صحیح صحیح علم اس کو حاصل ہے مگر عذاب کے لئے وقت مقرر کر رکھا ہے جب وہ وقت آوے گا وہ عذاب ان پر جاری کردیا جاوے گا۔ پس دنیا میں عذاب نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کفر و تکذیب علت عذاب کی نہ ہو یہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر ہوچکی آگے اللہ تعالیٰ اپنی شان ربوبیت کی کچھ تفصیل بیان فرماتت ہیں جس کا ذکر اجمالاً موسیٰ (علیہ السلام) کے اس کلام میں تھا رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي الخ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ الخ لَا يَضِلُّ رَبِّيْ الخ چناچہ ارشاد ہے کہ) وہ (رب) ایسا ہے جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو (مثل) فرش (کے) بنایا (کہ اس پر آرام کرتے ہو) اور اس (زمین) میں تمہارے (چلنے کے) واسطے رستے بنائے اور آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعہ سے اقسام مختلفہ کے نباتات پیدا کئے (اور تم کو اجازت دی کہ) خود (بھی) کھاؤ اور اپنے مواشی کو (بھی) چراؤ ان سب (مذکورہ) چیزوں میں اہل عقل کے (استدلال کے) واسطے (قدرت الٰہیہ کی) نشانیاں ہیں (اور جس طرح نباتات کو زمین سے نکالتے ہیں اسی طرح) ہم نے تم کو اسی زمین سے (ابتدا میں) پیدا کیا، (چنانچہ آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنائے گئے سو ان کے واسطے سے سب کا مادہ بعید خاک ہوئی) اور اسی میں ہم تم کو (بعد موت) لے جاویں گے (چنانچہ کوئی مردہ کسی حالت میں ہو لیکن آخر کو گو مدتوں کے بعد سہی مگر مٹی میں ضرور ملے گا) اور (قیامت کے روز) پھر دوبارہ اسی سے ہم تم کو نکال لیں گے (جیسا پہلی بار اس سے پیدا کرچکے ہیں) اور ہم نے اس (فرعون کو اپنی (وہ) سب ہی نشانیاں دکھلائیں (جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوئی تھیں) سو وہ (جب بھی) جھٹلایا ہی کیا اور انکار ہی کرتا رہا (اور) کہنے لگا کہ اے موسیٰ تم ہمارے پاس (یہ دعوی لے کر) اس واسطے آئے ہو (گے) کہ ہم کو ہمارے ملک سے اپنے جادو (کے زور) سے نکال باہر کرو (اور خود عوام کو فریضہ اور تابع بنا کر رئیس بن جاؤ) سو اب ہم بھی تمہارے مقابلے میں ایسا ہی جادو لاتے ہیں تو ہمارے اور اپنے درمیان میں ایک وعدہ مقرر کرلو جس کے نہ ہم خلاف کریں اور نہ تم خلاف کرو کسی ہموار میدان میں (تاکہ سب دیکھ لیں) موسیٰ (علیہ السلام نے فرمایا تمہارے (مقابلہ کے) وعدہ کا وقت وہ دن ہے جس میں (تمہارا) میلا ہوتا ہے، اور (جس میں) دن چڑھے لوگ جمع ہوتے ہیں (اور ظاہر ہے کہ میلے کا موقع اکثر ہموار ہی زمین میں ہوتا ہے اسی سے مکان سویٰ کی شرط بھی پوری ہوجاوے گی۔ )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰى۝ ٥١ بال البَال : الحال التي يکترث بها، ولذلک يقال : قال : كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد/ 2] [ طه/ 51] ، أي : فما حالهم وخبرهم . ويعبّر بالبال عن الحال الذي ينطوي عليه الإنسان، فيقال : خطر کذا ببالي . ( ب ی ل ) البال اصل میں اس حالت کو کہتے ہیں جس کی فکر یا پرواہ کی جائے ۔ قرآن میں ہے ۔ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بالَهُمْ [ محمد/ 2] ان سے ان کے گناہ دور کردیئے اور ان کی حالت سنواردی ۔ فَما بالُ الْقُرُونِ الْأُولی[ طه/ 51] تو پہلی جماعتوں کا کیا حال اور انسان کے دل میں گذرنے والے خیال کو بھی بال کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ میرے دل میں یہ بات کھٹکی ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١۔ ٥٢) فرعون نے اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ شبہ ظاہر کیا کہ اچھا تو پہلے لوگوں کا کیا حال ہوا اور کیسے ہلاک کیے گئے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ان کی ہلاکت کا علم میرے رب کے پاس لوح محفوظ میں ہے میرا رب ایسا ہے کہ نہ غلطی کرتا ہے اور نہ ان کا معاملہ اس سے چوک سکتا ہے اور نہ وہ ان کے معاملہ کو بھول سکتا ہے اور نہ ان کو سزا دینے سے چوک سکتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی ) ” یعنی اگر ہم تمہارا یہ دعویٰ تسلیم کرلیں کہ تم اللہ کے رسول ہو اور تمہاری پیروی میں ہی ہدایت ہے تو پھر ہمارے آباء و اَجداد جو اس سے پہلے فوت ہوچکے ہیں ‘ ہماری کئی نسلیں جو اس دنیا سے جا چکی ہیں ‘ ان کے پاس تو کوئی رسول نہیں آیا تھا ‘ ان تک ایسی کوئی دعوت نہیں پہنچی تھی اور وہ اسی طریقے پر فوت ہوئے جسے تم گمراہی قرار دے رہے ہو۔ تو ان سب لوگوں کے بارے میں تمہارا کیا فتویٰ ہے ؟ ان سب کا کیا بنے گا ؟ یہ ایک ٹیڑھا سوال تھا جس کا جواب بڑے حکیمانہ انداز میں دینے کی ضرورت تھی۔ ہمارے جیسا کوئی داعی ہوتا تو کہہ دیتا کہ وہ سب جہنمی ہیں ! ایسے جواب کے ردِّ عمل کے طور پر مخاطبین کی اپنے اسلاف کے بارے میں عصبیت و حمیت کو ہوا ملتی اور صورت حال بگڑ جاتی۔ بہر حال حکمت تبلیغ کا تقاضا یہی ہے کہ دعوت کے دوران مخاطبین کے جذبات اور مخصوص موقع محل کو مد نظر رکھا جائے تاکہ کسی بھی قسم کی منفی صورت حال پیدا نہ ہونے پائے۔ چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کمال حکمت سے جواب دیا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24. The question posed by Pharaoh was very subtle. He meant to say: If there is no other lord than the One Who has given a distinctive form to everyone, then what will be the position of our forefathers who had been worshiping other deities since centuries? Were all those people in error? Did all of them deserve torment? Did they all lack common sense? Thus Pharaoh perhaps wanted to give vent to his anger against Prophet Moses (peace be upon him) for showing disrespect to his forefathers. At the same time he also wanted to incite his courtiers and the common people of Egypt against the message of Prophet Moses (peace be upon him). And this trick has always been used against the people who propagate the truth and has always proved very effective to incite those people who lack common sense. This same trick has been mentioned here for it was being employed at the very time against the Prophet (peace be upon him) by the people of Makkah.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :24 یعنی اگر بات یہی ہے کہ جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی اور زندگی میں کام کرنے کا راستہ بتایا اس کے سوا کوئی دوسرا رب نہیں ہے ، تو یہ ہم سب کے باپ دادا جو صدہا برس سے نسل در نسل دوسرے ارباب کی بندگی کرتے چلے آ رہے ہیں ، ان کی تمہارے نزدیک کیا پوزیشن ہے ؟ کیا وہ سب گمراہ تھے ؟ کیا وہ سب عذاب کے مستحق تھے ؟ کیا ان سب کی عقلیں ماری گئی تھیں ؟ یہ تھا فرعون کے پاس حضرت موسیٰ کی اس دلیل کا جواب ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جواب اس نے بر بنائے جہالت دیا ہو اور ہو سکتا ہے کہ بربنائے شرارت ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں دونوں باتیں شامل ہوں ، یعنی وہ خود بھی اس بات پر جھلا گیا ہو کہ اس مذہب سے ہمارے تمام بزرگوں کی گمراہی لازم آتی ہے ، اور ساتھ ساتھ اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ اپنے اہل دربار اور عام اہل مصر کے دلوں میں حضرت موسیٰ کی دعوت کے خلاف ایک تعصب بھڑکا دے ۔ اہل حق کی تبلیغ کے خلاف یہ ہتھکنڈا ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جاہلوں کو مشتعل کرنے کے لیے بڑا مؤثر ثابت ہوا ہے ۔ خصوصاً اس زمانہ میں جبکہ قرآن کی یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے سب سے زیادہ اسی ہتھکنڈے سے کام لیا جا رہا تھا ، اس لیے حضرت موسیٰ کے مقابلے میں فرعون کی اس مکاری کا ذکر یہاں بالکل بر محل تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

21: اس سوال سے فرعون کا مقصد یہ تھا کہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں جو توحید کی قائل نہیں تھیں، اس کے باوجود وہ زندہ رہیں، اور ان پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا۔ اگر توحید کے انکار سے انسان عذاب الٰہی کا مستحق ہوجاتا ہے تو ان قوموں پر عذاب کیوں نہیں آیا؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ہر شخص کا اور اس کے کیے ہوئے کاموں کا پورا پورا حال معلوم ہے۔ وہ اپنی حکمت ہی سے فیصلہ فرماتا ہے کہ حق کا انکار کرنے والوں میں سے کس کو اسی دنیا میں سزا دینی ہے، اور کس کی سزا آخرت تک موخر کرنی ہے۔ اگر کسی کافر قوم کو دنیا میں کسی عذاب کا سامنا نہیں ہوا۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے معاذ اللہ کوئی بھول چوک ہوگئی ہے بلکہ یہ اس کی حکمت کا فیصلہ ہے کہ اس کو دنیا کے بجائے آخرت میں عذاب دیا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:51) بال۔ حال ۔ خبر ۔ خیال ۔ بول مادہ مابالک کیا بات ہے ؟ تمہیں کیا ہوا ؟ امر ذوبال۔ اہم معاملہ۔ القرون۔ جمع قرن کی بمعنی قومیں۔ الگ الگ زمانے والی قومیں بال مضاف۔ القرون الاولی موصوف صفت ہو کر مضاف الیہ۔ فما بال القرون الاولی تو پہلی قوموں کی کیا حالت ہے یعنی ان کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ اپنے اعتقادات اور نظریات کے نتیجہ میں کس حال میں ہوں گی یا ان کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ سب گمراہ تھیں لہٰذا عذاب کی مستحق۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اگر رب وہی ہے جسے تم بیان کر رہے ہو تو تم بتائو کہ جو لوگ سینکڑوں برس سے نسلاً بعد نسل دوسروں کو اپنا رب سمجھتے اور ان کی بندگی کرتے رہے آیا وہ سب گمراہ مستحق عذاب تھے ؟ ممکن ہے فرعون نے یہ سوال از راہ جہالت کیا ہو یا اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ حضرت موسیٰ جب ان کو گمراہ اور مستحق عذاب قرار دیں گے تو ان کے خلاف تمام لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھیں گے اور وہ ان کی دعوت سے متنفر ہوجائیں گے اہل حق کے خلاف اہل باطل جاہلوں کو مشتعل کرنے کا یہ ہتھکنڈا ہمیشہ سے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسے اپنا کارگر حربہ سمجھتے ہیں۔ (وحیدی مع اضافہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب فرعن نے ایک نیا سوال پیش کیا۔ قال فما بال القرون الاولی (١٥) “ یعنی جو لوگ تمہاری دعوت سے پہلے گزر گئے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ وہ کدھر گئے ۔ ان کا رب کون تھا ؟ اور وہ تو اس الہ کے تصور کے بغیر چلے گئے جس کے بارے میں تم بات کرتے ہو۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرعون نے کہا (فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی) اچھا یہ بتاؤ کہ قرون اولیٰ یعنی پرانی امتیں اور گزری ہوئی جماعتیں جو دنیا سے جا چکی ہیں ان کا کیا حال ہے ؟ یعنی ہلاکت اور موت کے بعد ان کا کیا ہوا وہ کس حال میں ہیں ؟ (قَالَ عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ ) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ ان کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ کس حال میں ہیں اللہ تعالیٰ کے یہاں کتاب میں یعنی لوح محفوظ میں سب کے حالات محفوظ ہیں (لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسٰی) میرا رب نہ خطا کرتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ سب کے احوال اور اعمال کا اسے علم ہے وہ اپنے علم کے مطابق سب کو جزادے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی صفات بتاتے ہوئے یوں بھی فرمایا (الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مَھْدًا وَّ سَلَکَ لَکُمْ فِیْھَا سُبُلًا) کہ میرے رب کی وہ ذات ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش یعنی بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راستے نکال دیئے۔ (وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ) (اور اس نے آسمان سے پانی اتارا) اس سارے بیان میں توحید کی تلقین بھی ہے اور فرعون پر تعریض بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی) (کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں) اسے بتادیا کہ تو رب نہیں ہوسکتا تیرے بس کا کچھ نہیں۔ یہ زمین جو پھیلی ہوئی ہے اور اس میں جو راستے نکلے ہوئے ہیں اور جو آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے تیرا اس میں کچھ بھی دخل نہیں یہ مالک حقیقی جل مجدہ کی تخلیق ہے جب تو پیدا بھی نہیں ہوا تھا اس وقت سے زمین ہے اور زمین میں راستے ہیں اور آسمان سے پانی اترتا ہے پہلے بھی نازل ہوتا تھا اور اب بھی تیرا اس میں کوئی بھی دخل نہیں۔ تیرا مخلوق ہونا تو اسی سے ظاہر ہے رب ہونے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31:۔ جب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مسکت جواب سنا اور لاجواب ہوگیا تو ایک نیا سوال کرڈالا کہ اچھا پہلے لوگوں کا حال بتاؤ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کا علم میرے رب کو ہے جو عالم الغیب ہے میں عالم الغیب نہیں ہوں گذشتہ قرنوں کا علم لوح محفوظ میں ثابت ہے۔ ای مکتوب عند ربی فی اللوح المحفوظ (بحر ج 6 ص 249) اور لوح محفوظ علم الٰہی سے کنایہ ہے۔ یا کتاب سے دفتر مراد ہے اور یہ چیز کے علم الٰہی میں ہونے کی تمثیل ہے وجوز ان یکون المراد بالکت الدفتر کما ھو المعروف فی اللغۃ ویکون ذلک تمثیلا لتمکنہ وتقررہ فی علمہ عز و جل (روح ج 16 ص 185) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

5 1 اس کے بعد فرعون نے ایک اور شبہ کیا اور کہا اچھا تو پہلے لوگوں کا کیا حال ہوا ۔ یعنی تم جو کہتے ہو کہ جو شخص تکذیب کرتا ہے اور منہ موڑتا ہے تو وہ شخص عذاب کا مستحق ہے تو پچھلی امتوں میں سے جن لوگوں نے دین حق کی تکذیب کی اور پیغمبروں کو جھٹلایا ان کا کیا حشر ہوا ان کے تفصیلی حالات مجھے بتائو اس پر پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا۔