The Magicians admonish Fir`awn
The clear intent of this is to be a completion of what the magicians admonished Fir`awn with. They warned him of the vengeance of Allah and His eternal and everlasting punishment. They also encouraged him to seek Allah's eternal and endless reward.
They said,
إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا
...
Verily, whoever comes to his Lord as a criminal,
This means, whoever meets Allah on the Day of Judgment while being a criminal.
...
فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لاَإ يَمُوتُ فِيهَا وَلاَإ يَحْيى
then surely, for him is Hell, wherein he will neither die nor live.
This is similar to Allah's statement,
لااَ يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُواْ وَلااَ يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِى كُلَّ كَفُورٍ
Neither will it have a complete killing effect on them so that they die, nor shall its torment be lightened for them. Thus do We requite every disbeliever! (35:36)
Allah also said,
وَيَتَجَنَّبُهَا الاٌّشْقَى
الَّذِى يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى
ثُمَّ لاَ يَمُوتُ فِيهَا وَلاَ يَحْيَا
But it will be avoided by the wretched, who will enter the great Fire. There he will neither die nor live. (87:11-13)
وَنَادَوْاْ يمَـلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَّـكِثُونَ
And they will cry: "O Malik (Keeper of Hell)! Let your Lord made an end of us."
He will say: "Verily, you shall abide forever." (43:77)
Imam Ahmad bin Hanbal recorded that Abu Sa`id Al-Khudri said that the Messenger of Allah said,
أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا فَإِنَّهُمْ لاَ يَمُوتُونَ فِيهَا وَلاَ يَحْيَوْنَ وَلكِنْ أُنَاسٌ تُصِيبُهُمُ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ فَتُمِيتُهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا صَارُوا
فَحْمًا أُذِنَ فِي الشَّفَاعَةِ فَجِيءَ بِهِمْ ضَبَايِرَ ضَبَايِرَ فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ
فَيُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ
فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْل
The dwellers of Hellfire, who are those who deserve it, they will not die in it, nor will they be living. Rather, they will be a people who will be punished by the Fire due to their sins. It will be gradually killing them and devouring them until they become burnt coals.
Then, intercession will be allowed and they will be brought (out of Hell) group by group and they will be spread on the rivers of Paradise.
It will then be said, "O people of Paradise, pour (water) over them."
Then, they will start to grow like the growing of a seed on the muddy banks of a flowing river.
A man among the people said, "It is as if the Messenger of Allah lived in the desert."
This is how Muslim recorded this narration in his Sahih.
Concerning Allah's statement,
ایمان یافتہ جادوگروں پر فرعون کا عتاب ۔
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں ۔ اسے اللہ کے عذاب کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی مشقت والی موت سے بدتر ہو گی ۔ جسے فرمان ہے ( لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36ۚ ) 35- فاطر:36 ) ۔ یعنی نہ موت آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔ اور آیتوں میں ہے ( وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى 11ۙ ) 87- الأعلى:11 ) یعنی اللہ کی نصیحتوں سے بےفیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو ۔ اور آیت میں ہے کہ جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دے دے لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اصلی جہنمی تو جہنم میں ہی پڑے رہیں گے نہ وہاں انہیں موت آئے نہ آرام کی زندگی ملے ہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جہنیں ان گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جل کر کوئلہ ہوجائیں گے جان نکل جائے گی پھر شفاعت کی اجازت کے بعد ان کا چورا نکالا جائے گا اور جنت کی نہروں کے کناروں پر بکھیردیا جائے گا اور جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو تو جس طرح تم نے نہر کے کنارے کے کھیت کے دانوں کو اگتے ہوئے دیکھا ہے اسی طرح وہ اگیں گے ۔ یہ سن کر ایک شخص کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال تو ایسی دی ہے گویا آپ کچھ زمانہ جنگل میں گزار چکے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ خطبے میں اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ نے یہ فرمایا تھا ۔ اور جو اللہ سے قیامت ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جا ملا اسے اونچے بالا خانوں والی جنت ملے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت کے سو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان میں ۔ سب سے اوپر جنت الفردوس ہے اسی سے چاروں نہریں جاری ہوتی ہیں اس کی چھت رحمان کا عرش ہے اللہ سے جب جنت مانگو تو جنت الفردوس کی دعا کرو ۔ ( ترمذی وغیرہ ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ کہا جاتا تھا کہ جنت کے سو درجے ہیں ہر درجے کے پھر سو درجے ہیں دو درجوں میں اتنی دوری ہے جتنی آسمان وزمین میں ۔ ان میں یاقوت اور موتی ہیں اور زیور بھی ۔ ہرجنت میں امیر ہے جس کی فضیلت اور سرداری کے دوسرے قائل ہیں ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ اعلی علیین والے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان کے ستاورں کو دیکھتے ہو ۔ لوگوں نے کہا پھر یہ بلند درجے تو نبیوں کے لئے ہی مخصوص ہونگے ؟ فرمایا سنو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے نبیوں کو سچا جانا ۔ سنن کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ابو بکر وعمر انہی میں سے ہیں ۔ اور کتنے ہی اچھے مرتبے والے ہیں ۔ یہ جنتیں ہمیشگی کی اقامت ہیں جہاں یہ ہمیشہ ابدالاباد رہیں گے ۔ جو لوگ اپنے نفس پاک رکھیں گناہوں سے .خباثت سے .گندگی سے.شرک و کفر سے دور رہیں . اللہ واحد کی عبادت کرتے رہیں . رسولوں کی اطاعت میں عمرگزاردیں ان کے لئے یہی قابل رشک مقامات اور قابل صد مبارکباد انعام ہیں ( رزقنا اللہ ایاہا ) ۔