Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 74

سورة طه

اِنَّہٗ مَنۡ یَّاۡتِ رَبَّہٗ مُجۡرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ ؕ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی ﴿۷۴﴾

Indeed, whoever comes to his Lord as a criminal - indeed, for him is Hell; he will neither die therein nor live.

بات یہی ہے کہ جو بھی گناہ گار بن کر اللہ تعالٰی کے ہاں حاضر ہوگا اس کے لئے دوزخ ہے ، جہاں نہ موت ہوگی اور نہ زندگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Magicians admonish Fir`awn The clear intent of this is to be a completion of what the magicians admonished Fir`awn with. They warned him of the vengeance of Allah and His eternal and everlasting punishment. They also encouraged him to seek Allah's eternal and endless reward. They said, إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا ... Verily, whoever comes to his Lord as a criminal, This means, whoever meets Allah on the Day of Judgment while being a criminal. ... فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لاَإ يَمُوتُ فِيهَا وَلاَإ يَحْيى then surely, for him is Hell, wherein he will neither die nor live. This is similar to Allah's statement, لااَ يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُواْ وَلااَ يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِى كُلَّ كَفُورٍ Neither will it have a complete killing effect on them so that they die, nor shall its torment be lightened for them. Thus do We requite every disbeliever! (35:36) Allah also said, وَيَتَجَنَّبُهَا الاٌّشْقَى الَّذِى يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرَى ثُمَّ لاَ يَمُوتُ فِيهَا وَلاَ يَحْيَا But it will be avoided by the wretched, who will enter the great Fire. There he will neither die nor live. (87:11-13) وَنَادَوْاْ يمَـلِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَّـكِثُونَ And they will cry: "O Malik (Keeper of Hell)! Let your Lord made an end of us." He will say: "Verily, you shall abide forever." (43:77) Imam Ahmad bin Hanbal recorded that Abu Sa`id Al-Khudri said that the Messenger of Allah said, أَمَّا أَهْلُ النَّارِ الَّذِينَ هُمْ أَهْلُهَا فَإِنَّهُمْ لاَ يَمُوتُونَ فِيهَا وَلاَ يَحْيَوْنَ وَلكِنْ أُنَاسٌ تُصِيبُهُمُ النَّارُ بِذُنُوبِهِمْ فَتُمِيتُهُمْ إِمَاتَةً حَتَّى إِذَا صَارُوا فَحْمًا أُذِنَ فِي الشَّفَاعَةِ فَجِيءَ بِهِمْ ضَبَايِرَ ضَبَايِرَ فَبُثُّوا عَلَى أَنْهَارِ الْجَنَّةِ فَيُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ أَفِيضُوا عَلَيْهِمْ فَيَنْبُتُونَ نَبَاتَ الْحِبَّةِ تَكُونُ فِي حَمِيلِ السَّيْل The dwellers of Hellfire, who are those who deserve it, they will not die in it, nor will they be living. Rather, they will be a people who will be punished by the Fire due to their sins. It will be gradually killing them and devouring them until they become burnt coals. Then, intercession will be allowed and they will be brought (out of Hell) group by group and they will be spread on the rivers of Paradise. It will then be said, "O people of Paradise, pour (water) over them." Then, they will start to grow like the growing of a seed on the muddy banks of a flowing river. A man among the people said, "It is as if the Messenger of Allah lived in the desert." This is how Muslim recorded this narration in his Sahih. Concerning Allah's statement,

ایمان یافتہ جادوگروں پر فرعون کا عتاب ۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جادوگروں نے ایمان قبول فرما کر فرعون کو جو نصیحتیں کیں انہیں میں یہ آیتیں بھی ہیں ۔ اسے اللہ کے عذاب کے عذابوں سے ڈرا رہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا لالچ دلا رہے ہیں کہ گنہگاروں کا ٹھکانا جہنم ہے جہاں موت تو کبھی آنے ہی کی نہیں لیکن زندگی بھی بڑی مشقت والی موت سے بدتر ہو گی ۔ جسے فرمان ہے ( لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ ) 35- فاطر:36 ) ۔ یعنی نہ موت آئے گی نہ عذاب ہلکے ہوں گے کافروں کو ہم اسی طرح سزا دیتے ہیں ۔ اور آیتوں میں ہے ( وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى 11۝ۙ ) 87- الأعلى:11 ) یعنی اللہ کی نصیحتوں سے بےفیض وہی رہے گا جو ازلی بدبخت ہو جو آخرکار بڑی سخت آگ میں گرے گا جہاں نہ تو موت آئے نہ چین کی زندگی نصیب ہو ۔ اور آیت میں ہے کہ جہنم میں جھلستے ہوئے کہیں گے کہ اے داروغہ دوزخ تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت ہی دے دے لیکن وہ جواب دے گا کہ نہ تم مرنے والے ہو نہ نکلنے والے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اصلی جہنمی تو جہنم میں ہی پڑے رہیں گے نہ وہاں انہیں موت آئے نہ آرام کی زندگی ملے ہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جہنیں ان گناہوں کی پاداش میں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ جل کر کوئلہ ہوجائیں گے جان نکل جائے گی پھر شفاعت کی اجازت کے بعد ان کا چورا نکالا جائے گا اور جنت کی نہروں کے کناروں پر بکھیردیا جائے گا اور جنتیوں سے فرمایا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو تو جس طرح تم نے نہر کے کنارے کے کھیت کے دانوں کو اگتے ہوئے دیکھا ہے اسی طرح وہ اگیں گے ۔ یہ سن کر ایک شخص کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال تو ایسی دی ہے گویا آپ کچھ زمانہ جنگل میں گزار چکے ہیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ خطبے میں اس آیت کی تلاوت کے بعد آپ نے یہ فرمایا تھا ۔ اور جو اللہ سے قیامت ایمان اور عمل صالح کے ساتھ جا ملا اسے اونچے بالا خانوں والی جنت ملے گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنت کے سو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین وآسمان میں ۔ سب سے اوپر جنت الفردوس ہے اسی سے چاروں نہریں جاری ہوتی ہیں اس کی چھت رحمان کا عرش ہے اللہ سے جب جنت مانگو تو جنت الفردوس کی دعا کرو ۔ ( ترمذی وغیرہ ) ابن ابی حاتم میں ہے کہ کہا جاتا تھا کہ جنت کے سو درجے ہیں ہر درجے کے پھر سو درجے ہیں دو درجوں میں اتنی دوری ہے جتنی آسمان وزمین میں ۔ ان میں یاقوت اور موتی ہیں اور زیور بھی ۔ ہرجنت میں امیر ہے جس کی فضیلت اور سرداری کے دوسرے قائل ہیں ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ اعلی علیین والے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے تم لوگ آسمان کے ستاورں کو دیکھتے ہو ۔ لوگوں نے کہا پھر یہ بلند درجے تو نبیوں کے لئے ہی مخصوص ہونگے ؟ فرمایا سنو اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے نبیوں کو سچا جانا ۔ سنن کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ابو بکر وعمر انہی میں سے ہیں ۔ اور کتنے ہی اچھے مرتبے والے ہیں ۔ یہ جنتیں ہمیشگی کی اقامت ہیں جہاں یہ ہمیشہ ابدالاباد رہیں گے ۔ جو لوگ اپنے نفس پاک رکھیں گناہوں سے .خباثت سے .گندگی سے.شرک و کفر سے دور رہیں . اللہ واحد کی عبادت کرتے رہیں . رسولوں کی اطاعت میں عمرگزاردیں ان کے لئے یہی قابل رشک مقامات اور قابل صد مبارکباد انعام ہیں ( رزقنا اللہ ایاہا ) ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 یعنی عذاب سے تنگ آ کر موت کی آرزو کریں گے، تو موت نہیں آئے گی اور رات دن عذاب میں مبتلا رہنا، کھانے پینے کو زقوم جیسا تلخ درخت اور جہنمیوں کے جسموں سے نچڑا ہوا خون اور پیپ ملنا، یہ کوئی زندگی ہوگی ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] ایمان لانے والے جادوگروں کا بیان ختم ہو کر اب یہ آیت اور اس سے اگلی دو آیات اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جن میں ساتھ ہی ساتھ تذکیر و نصائح اور اشارات کا سلسلہ بھی حسب دستور چل رہا ہے۔ ] ـ٥٣] دنیا کی تکلیفیں خواہ کس قدر زیادہ اور سخت ہوں۔ موت ان سب کا خاتمہ کردیتی ہے اور دوزخ میں کافروں کو سب سے بڑی جو سزا ملے گی وہ یہ ہوگی کہ انھیں موت نہیں آئے گی۔ وہ موت کو ایسی مصیبت کی زندگی پر ترجیح دے گا اور اس کا مطالبہ یہی کرے گا مگر اسے موت نصیب نہ ہوگی۔ اور زندگی موت سے بھی بدتر ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (أَمَّا أَہْلُ النَّارِ الَّذِیْنَ ہُمْ أَہْلُہَا، فَإِنَّہُمْ لاَ یَمُوْتُوْنَ فِیْہَا وَلاَ یَحْیَوْنَ ، وَلٰکِنْ نَاسٌ مِنْکُمْ أَصَابَتْہُمُ النَّارُ بِذُنُوْبِہِمْ فَأَمَاتَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِمَاتَۃً ، حَتّٰی إِذَا کَانُوْا فَحْمًا أُذِنَ بالشَّفَاعَۃِ ، فَجِيْءَ بِہِمْ ضَبَاءِرَ ضَبَاءِرَ ، فَبُثُّوْا عَلَی أَنْہَارِ الْجَنَّۃِ ، ثُمَّ قِیْلَ ! یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ ! أَفِیْضُوْا عَلَیْہِمْ ، فَیَنْبُتُوْنَ نَبَاتَ الْحِبَّۃِ تَکُوْنُ فِيْ حَمِیْلِ السَّیْلِ ) [ مسلم، الإیمان، باب إثبات الشفاعۃ و إخراج الموحدین من النار : ١٨٥، عن أبي سعید الخدري (رض) ]” آگ والے، جو اسی میں رہنے والے ہیں، وہ تو اس میں نہ مریں گے اور نہ جییں گے اور لیکن کچھ لوگ، جنھیں ان کے گناہوں کی وجہ سے آگ لگ جائے گی تو اللہ تعالیٰ انھیں ایک طرح کی موت دے دے گا، یہاں تک کہ جب وہ کوئلہ ہوجائیں گے تو شفاعت کا اذن ہوجائے گا۔ سو انھیں ڈھیروں کی صورت میں لایا جائے گا اور وہ جنت کی نہروں (کے کناروں) پر بکھیر دیے جائیں گے، پھر کہا جائے گا کہ اے جنتیو ! ان پر پانی انڈیلو، تو وہ اس طرح اگ آئیں گے جیسے سیلاب کی لائی مٹی میں جڑی بوٹیوں کے بیج (فوراً ) اگ آتے ہیں۔ “ ” نہ مرے گا اور نہ جیے گا “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة فاطر (٣٦) ، ابراہیم (١٥ تا ١٧) ، نساء (٥٦) ، اعلیٰ (١١ تا ١٣) اور زخرف (٧٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Revolutionary change in the lives of the magicians إِنَّهُ مَن يَأْتِ رَ‌بَّهُ مُجْرِ‌مً---- وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَن تَزَكَّىٰ Surely whoever comes to his Lord as a sinner, for him there is Jahannam .:.. And whoever comes to Him as a believer ... for such people there are the highest ranks.... (20:74-76) These words which refer to the Islamic beliefs and the hereafter have been spoken by the magician who only recently became Muslims and who had not yet been instructed about the principles and the obligations of the new faith. It was the result of their brief association with Sayyidna Musa (علیہ السلام) that Allah, in an instant, revealed to them the mysteries of their new faith so that they gave scarce heed to Pharaoh&s threats. Thus with the adoption of the religion of Allah they attained a state of sainthood which is given to others after long and assiduous exertions. Sayyidna Ibn ` Abbas and ` Ubaid Ibn ` Umair (رض) said it was a divine marvel that the magicians who started the day as infidels became saints before it ended. (Ibn Kathir)

فرعونی جادوگروں میں عجیب انقلاب : اِنَّهٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّهٗ مُجْرِمًا الی وَذٰلِكَ جَزٰۗؤ ُ ا مَنْ تَزَكّٰى، یہ کلمات جن کا تعلق خالص اسلامی عقائد اور عالم آخرت سے ہے ان جادوگروں کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں جو ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں اور اسلامی عقائد و اعمال کی کوئی تعلیم ان کو ملی نہیں، یہ سب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صحبت کی برکت اور ان کے اخلاص کا اثر تھا کہ حق تعالیٰ نے ان پر دین کے تمام حقائق آن کی آن میں ایسے کھول دیئے کہ ان کے مقابلے میں نہ اپنی جان کی پروا رہی نہ کسی بڑی سے بڑی سزا اور تکلیف کا خوف رہا، گویا ایمان کے ساتھ ساتھ ہی ان کو ولایت کا بھی وہ مقام حاصل ہوگیا جو دوسروں کو عمر بھر کے مجاہدوں ریاضتوں سے بھی حاصل ہونا مشکل ہے فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ حضرت عبداللہ ابن عباس اور عبید بن عمیر نے فرمایا کہ قدرت حق کا یہ کرشمہ دیکھو کہ یہ لوگ شروع دن میں کفار جادوگر تھے اور آخر دن اولیاء اللہ اور شہداء (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّہٗ مَنْ يَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَہَنَّمَ۝ ٠ۭ لَا يَمُوْتُ فِيْہَا وَلَا يَحْيٰي۝ ٧٤ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤) اور جو شخص قیامت کے دن کفر کی حالت میں آئے گا اس کے لیے جہنم مقرر ہے کہ اس میں نہ مرے ہی گا کہ چھٹکارا مل جائے اور نہ زندہ ہی رہے گا یعنی نہ ایسی زندگی حاصل ہوگی کہ اس کو اس سے کچھ آرام ملے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

50. This is a saying of Allah, which has been added to the foregoing words of the magicians. 51. This is the most terrible of all the punishments that have been mentioned in the Quran. The criminal will prefer death to the horrible life in Hell, but death will not come to him. He will remain in that state of agony without any hope of relief from it.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :50 یہ جادوگروں کے قول پر اللہ تعالیٰ کا اپنا اضافہ ہے ۔ انداز کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ عبارت جادوگروں کے قول کا حصہ نہیں ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :51 یعنی موت اور زندگی کے درمیان لٹکتا رہے گا ۔ نہ موت آئے گی کہ اس کی تکلیف اور مصیبت کا خاتمہ کر دے ۔ اور نہ جینے کا ہی کوئی لطف اسے حاصل ہو گا کہ زندگی کو موت پر ترجیح دے سکے ۔ زندگی سے بیزار ہو گا ، مگر موت نصیب نہ ہو گی ۔ مرنا چاہے گا مگر مر نہ سکے گا ۔ قرآن مجید میں دوزخ کے عذابوں کی جتنی تفصیلات دی گئی ہیں ان میں سب سے زیادہ خوفناک صورت عذاب یہی ہے جسکے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: مرے گا تو اس لیے نہیں کہ وہاں کسی کو موت نہیں آئے گی۔ اور جینے کی جو نفی کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جینا چونکہ موت سے بھی بد تر ہوگا۔ اس لیے وہ جینے میں شمار کرنے کے لائق نہیں ہوگا۔ اعاذنا اللہ من ذلک۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٤۔ ٨٢:۔ مسند امام احمد بن حنبل صحیح مسلم وغیرہ میں ابوسعید خدری (رض) سے جو روایت ہے اس کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے حاصل اس روایت کا یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کافروں کو دوزخ میں موت نہیں ہے کلمہ گو گنہگار جو دوزخ میں ڈالے جائیں گے وہ جل کر کوئلے ہوجائیں گے یہاں تک کہ مرجائیں گے پھر شفاعت کے سبب سے جنت میں داخل ہوں گے ١ ؎۔ اس سے معلوم ہوا کہ مجرم کے معنے اس آیت میں مشرک کے ہیں اسی واسطے مجرم کا لفظ مومن کے مقابلہ میں فرمایا آخری آیت میں توبہ کا جو ذکر ہے اوپر توبہ کی شرائط بیان ہوچکی ہیں ان میں بڑی شرط توبہ کی مذمت ہے کہ برا کام کرکے آدمی بچھتائے کہ یہ کام میں نے کیوں کیا جب یہ پچھتانا آدمی کے دل میں سچے طور پر ہوگا تو جو گناہ کرچکا ہے اس سے اور آئندہ گناہ کرنے کے ارادہ سے ضرور دل بیزار ہوگا غرض سچی ندامت ہوگی تو باقی کی دو شرطیں یعنی گذشتہ گناہ سے بیزاری اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا قصد یہ خود بخود حاصل ہوجائیں گی اسی واسطے معتبر سند سے عبداللہ بن مسعود کی روایت مسند امام احمد بن حنبل مستدرک حاکم ابن ماجہ اور بیہقی میں جو ہے اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنا ہی فرمایا کہ گناہ کرکے گناہ پر پچھتانا اور نادم ہونا بس یہی توبہ ہے ٢ ؎۔ لیکن سچی ندامت کو باقی کی دونوں باتیں بھی لازم ہیں اس لیے علماء نے ندامت کا سچا پن آزمانے کے لیے ندامت کے ساتھ وہ شرطیں اسی حدیث سے نکال کر اور بڑھا دی ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ علاوہ ان تین شرطوں کے علماء نے یا اہل تصوف نے جو اور شرطیں توبہ کی بڑھا دی ہیں مثلا جس شہر میں گناہ کیا ہے اس شہر کو چھوڑ دینا وغیرہ ان میں سے کوئی بات توبہ کی شرط میں داخل نہیں ہے ہاں ندامت میں اتنی شرط ضرور ہے کہ وہ ندامت محض خدا کے خوف سے ہو اگر وہ ندامت لوگوں کے برا کہنے کے ڈر سے یا حاکم کے خوف سے ہوگی تو یہ توبہ نہیں ہے۔ اسی طرح پچھلے گناہ پر کسی قدر جو شخص نادم ہے مگر آئندہ گناہ کرنے کا قصد دل میں موجود ہے تو بھی توبہ پوری نہیں ہے اور توبہ کے قبول ہونے کے معنے شریعت میں یہ ہیں کہ جو سزا قیامت میں اللہ نے اس گناہ کے لیے رکھی ہے وہ بالکل ساقط ہوجاتی ہے لیکن اگر اس گناہ میں علاوہ خدا کے گناہ کے کچھ کسی آدمی کا بھی حق ہے مثلا ایک شخص نے ایک شخص کی لونڈی بھگائی اور اس لونڈی سے بدکاری بھی کی تو توبہ کرنے سے بدکاری کا گناہ معاف ہوجائے گا مگر جب تک پرایا مال مالک کو نہ پہنچایا جائے گا پرائے مال کے رہنے کا مؤاخذہ محض توبہ سے ساقط نہ ہوگا اسی واسطے علماء نے چوتھی شرط توبہ میں یہ بڑھائی ہے کہ اگر گناہ حق العباد کی قسم سے ہے تو اس کی تلافی بھی جس طرح ممکن ہو کرنی چاہیے اور اگر تلافی انسان کے اختیار سے باہر ہوگئی ہو تو اللہ معاف کرنے والا ہے صحیح حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ قیامت کے دن جس طرح اللہ تعالیٰ توحید ‘ نماز ‘ روزہ ‘ حج ‘ زکوٰۃ ان اپنے حقوق کا حساب لے گا اسی طرح آپس کے آدمیوں اور جانوروں کے حقوق کا بھی حساب و فیصلہ ہوگا ٣ ؎۔ لیکن یہ بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جس کسی بندہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کو رعایت کرنی منظور ہوگی تو اللہ صاحب حق بندہ کو جنت کا لالچ دے کر وہ حق معاف کرادے گا۔ اور یہ بھی صحیح حدیث میں ہے کہ جس شخص کے پاس لونڈی غلام ہوں اور شرارت کریں اور آقا ان کی شرارت کے سبب سے ان کو مارے یا برا کہے تو لونڈی غلام کی شرارت اور آقا کی مار پیٹ جھاڑ کی دونوں کا مقابلہ کیا جائے گا اگر آقا کی مار پیٹ جھاڑ کی لونڈی غلام کی شرارت کے برابر ہے تو کچھ نہیں ورنہ مؤاخذہ ہوگا ٤ ؎۔ اصل مقصد یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں خدا کا خوف ہوگا سوا شرک کے وہ کسی طرح کے کبیرہ گناہ کرکے بغیر توبہ کیے بھی اگر مرجائے گا تو اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کی توقع ہے چناچہ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے وہ ایک گناہ گار کا قصہ مشہور ہے جس نے مرتے وقت اپنی لاش کو جلانے کی اور اس جلی ہوئی خاک کو آدھی دریا میں بہانے اور آدھی ہوا میں اڑانے کی وصیت کی تھی جب اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو پھر زندہ کر کے پوچھا کہ یہ وصیت تو نے کس غرض سے کی تھی اس نے کہا یا اللہ میں بہت گناہ گار تھا تیرے روبرو آنے کے خوف سے میں نے اپنی خاک کے رائیگاں کرنے کی وصیت کی تھی اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تو نے میرے خوف سے یہ کام کیا تھا تو میں نے تیرے سب گناہ معاف کردیئے ٥ ؎۔ جس وقت جادوگروں نے فرعون سے وہ باتیں کیں جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں ہے اس وقت تک نہ تورات نازل ہوئی تھی نہ جادوگروں اور بنی اسرائیل کو دوزخ اور جنت کا تفصیلی حال معلوم تھا اس واسطے ظاہر یہی بات ہے کہ جادوگروں اور بنی اسرائیل کو دوزخ اور جنت کا تفصیلی حال معلوم تھا اس واسطے ظاہر یہی بات ہے کہ جادوگروں کا کلام کے بعد یہاں سے اللہ تعالیٰ کا کلام شروع ہوا۔ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جو شخص شرک کی حالت میں مر کر اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہوگا وہ ہمیشہ اسی حالت سے دوزخ میں رہے گا کہ نہ تو سختی عذاب اس کی موت کا سبب قرار پاسکے گی نہ زندگی سے ہی اس کو کچھ فائدہ پہنچے گا اور جو ایماندار شخص نیک عمل لے کر اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر ہوگا وہ عقبیٰ میں بڑا مرتبہ پائے گا کہ ہمیشہ جنت میں رہے گا کیونکہ شرک سے بچنے والوں کا اللہ تعالیٰ نے یہی بدلہ مقرر کیا ہے جب فرعون بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کردینے پر کسی طرح راضی نہیں ہوا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ایک رات مصر سے چل کھڑے ہوں اور قلزم دریا پر پہنچ کر دریا کے پانی میں اپنے ہاتھ کی لکڑی ماریں اللہ کے حکم سے دریا میں سوکھا راستہ پیدا ہوجائے گا اور بغیر خوف فرعون کے حملہ اور دریا کی طغیانی کے اے موسیٰ تم اور بنی اسرائیل تو دریا میں سوکھے راستہ سے دریا پار ہوجاؤگے۔ فرعون اپنے لشکر کو ساتھ لے کر تمہارا پیچھا کرے گا تو وہ مع اپنے لشکر کے دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوگا کیونکہ فرعون نے اپنی قوم کو برے راستے سے لگایا اور قوم کے لوگوں نے اس کا کہنا مانا اس لیے ان سب کی یہی سزا ہے جو انہوں نے بھگتی فرعون اور اس کے لشکر کے ڈوب کر ہلاک ہونے کا قصہ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ آگے فرعون کی ہلاکت کے بعد تورات کے نازل کرنے کے اور من وسلوٰی کے اتارنے کے احسانات کو یاد دلا کر بنی اسرائیل کو ارشاد ہے کہ اے بنی اسرائیل اللہ کی دی ہوئی نعمتیں کھاؤ اور ان نعمتوں کی ناشکری نہ کرو ورنہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوجاؤ گے اور یہ خوب یاد رکھو کہ جو شخص اللہ کے غضب میں گرفتار ہوا اس کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جگہ میں خرابی ہے آخری آیت میں قریش کو شرک سے باز آنے کی رغبت دلائی اور فرمایا جو شخص شرک سے توبہ کرے اللہ کی وحدانیت اور اللہ کے سول کی صداقت کو مانے گا اور پھر اس پر قائم رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے سب گناہ معاف کردے گا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے عمرو بن العاص کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے ٦ ؎۔ کہ جو شخص شرک سے توبہ کرے تو اس کے پچھلے سب گناہوں کی بنیاد اکھڑ جاتی ہے یہ حدیث آخری آیت کی گویا تفسیر ہے۔ تورات کے نازل ہونے اور من سلٰوی کے اترنے کا قصہ سورة بقرہ میں اور سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ ١ ؎ صحیح مسلم ص ١٠٤ ج ١ باب اثبات الشفاعۃ دخراج املوحدین من النار۔ ٢ ؎ نیز دیکھئے) سنن ابن ماجہ ص ٣٢٣ باب ذکر التوبہ و ترغیب ص ٢٢١ ج ٢ کتاب التوبہ والزہد۔ ٣ ؎ الترغیب ص ٢٩٩ ج ٢ فصل فی ذکر الحساب۔ ٤ ؎ التر غیب ص ٢٩٩ ج ٢ ضصل فی ذکر الحساب۔ ٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٠٧ باب بعد باب الا ستغفار والتوبہ فصل اول۔ ٦ ؎ ص ٣٣٩ ج ٣۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:74) انہ ضمیر شان (یہ ضمیر غائب بغیر مرجع کے واقع ہوئی ہے) تحقیق شان یہ ہے من یات۔۔ الخ) ۔ مجرما۔ ای کافرا ومشرکا۔ حال ہے۔ لا یحیی۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب حیاۃ مصدر (باب سمع) نہ جئے گا۔ حیی یحیی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی زندگی اور موت کے درمیان لٹکتا رہے گا حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک مرتبی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطب دیتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ نے فرمایا :” جو لوگ دوزخ والے (کافر) ہیں وہ تو نہ اس میں جئیں گے اور نہ مریں گے اور جو دوزخ والے نہیں (یعنی گنہگار مسلمان) تو آگ انہیں یکبارگی مار دے گی، پھر شفاعت کرنے والے پیغمبر کھڑے ہو کر ان کی شفاعت کریں گے پھر انہیں گھٹھڑیوں کی صورت میں ایک دریا پر جس کا نام ” الحیاۃ “ یا ” الحیوان “ ہوگا لایا جائے گا پھر (اس میں نہا کر) وہ اس طرح بڑھیں گے جس طرح گھاس پھوس سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں بڑھتا ہے۔ (ابن کثیر بحوالہ مسلم و ابن ابی حاتم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ نہ مرنا تو ظاہر ہے، اور نہ جینا یہ کہ جینے کا آرام نہ ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح ذات کبریا نے باقی رہنا ہے اسی طرح ہی اس کے فیصلے باقی رہیں گے۔ ایمان لانے والے حضرات فرعون کے سامنے یہ کہہ کر ڈٹ گئے کہ تیری سزائیں صرف دنیا تک ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور اجر عطا فرمانے میں سب سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ایمانداروں کی اس گفتگو کو قرآن مجید حسب دستور نصیحت کے طور پر یوں بیان کرتا ہے۔ جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں مجرم بن کر پیش ہوا۔ اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ موت ہوگی اور نہ ہی زندگی گویا کہ وہ موت وحیات کی کشمکش میں رہے گا۔ جو خوش نصیب سچے ایمان اور پاکیزہ کردار کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوا اس کے لیے اعلیٰ درجات اور ہمیشہ ہمیش رہنے والے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جنتی لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کا صلہ ہے جس نے اپنے آپ کو کفر و شرک اور برے کاموں سے بچائے رکھا۔ ” عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو (مینڈھے کی شکل میں) لایا جائے گا ‘ یہاں تک کہ اسے جنت اور دوزخ کے درمیان لٹا کر ذبح کردیا جائے گا۔ اس کے بعد منادی کرنیوالا اعلان کرے گا ‘ اے جنت والو ! اب موت نہیں آئے گی اے دوزخ والو ! اب تمہیں بھی موت نہیں ہے اس اعلان سے اہل جنت کی خوشیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اور اہل دوزخ کے غموں میں بےپناہ اضافہ ہوگا۔ “ [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔ “ [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت اور ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء في صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] مسائل ١۔ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں موت وحیات کی کشمکش میں رہیں گے۔ ٢۔ مومنوں کے لیے اپنے رب کے ہاں اعلیٰ درجات ہوں گے۔ ٣۔ مومن جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا بدترین انجام : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) ٤۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٥۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انہ من یات ……تزکی (٦٧) اس نے ان کو دھمکی دی تھی کہ کون سخت ہے اور کس کا اقتدار دائمی ہے تو وہ پیش کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ کے سامنے مجرم بن کر آئے تو اس کو شدید عذاب ملتا ہے اور وہ عذاب دوزخ ہوتا ہے کیونکہ فان لہ جھنم لا یموت فیھا ولا یحییٰ (٠٢ : ٣٨) ” اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور جیے گا۔ “ نہ وہ مر کر آرام کرے گا اور نہ زندہ رہ کر آرام میں ہوگا۔ وہ ایسا عذاب ہوگا کہ اس کے نتیجے میں موت بھی واقع نہ ہوگی ، نہ آرام کی زندگی ملے گی جبکہ دوسری جانب بلند درجے ہیں۔ ایسے باغات ہیں اور ان میں ایسے بالا خانے ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وذلک جزوا من تزکی (٠٢ : ٦٨) ” اور یہ جزاء ہے اس شخص کی جو پاکیزگی ” اختیار کرے۔ “ اور گناہوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔ ایک سرکش اور تشدد پسند مقتدر اعلیٰ کی دھمکی جس نے اہل ایمان کے دلوں کو ہلاک کر رکھ دیا ، لیکن جواب میں انہوں نے بھی قوت ایمانی کے ساتھ جواب دیا۔ ایمان کی سربلندی کا ثبوت دیا اور اس سرکش کو انجام ہد سے ڈرایا اور اسے گہرے ایمان کی چمک دکھائی۔ یہ منظر اب آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے لیکن اس نے ثابت کردیا کہ جن لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل ہوجاتا ہے تو وہ اس دنیا کے حدود وقیود کو پار کر کے ، اپنی آزادی اور حریت کا اعلان کردیتے ہیں۔ ان دلوں میں پھر طمع و لالچ نہیں رہتا ، ان کے سامنے زمین کا اقتدار ہیچ ہوتا ہے۔ اہل اقتدار کے ڈر سے وہ بےنیاز ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی انسان اور قلب انسانی آزادی کا یہ اعلان صرف ایمانی قوت کے بل بوتے پر کرسکتا ہے۔ اب پردہ گرتا ہے ، تاکہ اس قصے کی ایک جدید کڑی کو اسٹیج پر لایا جائے۔ یہ وہ منظر ہے جس میں ایک سچی جماعت کو اس کرئہ ارض پر بھی کامیابی نصیب ہوتی ہے لیکن یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب وہ نظریات اور ایمان کی دنیا میں اخلاقی فتح حاصل کرلیتی ہے۔ سیاق کلام میں عصا کو جادوگری پر فتح حاصل ہوچکی ہے۔ جادوگروں کے ایمان کو فرعون پر اخلاقی فتح حاصل ہوچکی ہے۔ ایمان کے بعد ان کو تمام دنیاوی خوف و خطر پر فتح حاصل ہوچکی ہے۔ وہ اب دھمکی اور دھونس سے نہیں ڈرتے۔ اب حق باطل پر ، ایمان ضلالت پر ، حق سرکشی پر عالم واقعہ میں فتح حصال کرتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ آخری فتح مشروط ہے ایمانی اور نظریاتی فتح کے ساتھ۔ واقعہ ار میدان جنگ میں فتح تب ہوتی ہے جب ضمیر کے اندر کوئی گروہ فاتح ہو۔ اہل حق کو ظاہری فتح ، ان کے باطن کی فتح کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایمان اور نظریات اپنے اندر ایک حقیقت رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت جب انسان کے شعور اور اس کی سوچ میں مجسم ہوتی ہے تو پھر یہ باہر نکلتی ہے اور لوگ اسے واقعی صورت میں زمین پر دیکھتے ہیں۔ اگر ایمان دلوں کے اندر مجسم شکل میں موجود نہ ہو ، اور سچائی ایک شعاع اور عمل کی شکل میں دلوں سے بہہ کر نکلتی ہو تو ایسے حالات میں سرکش اہل باطل ہی غالب ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسی مادی قوت کے مالک ہوتے ہیں جس کے مقابلے کے لئے ایمانی قوت بھی اہل حق کے ساتھ نہیں ہوتی اور قوت کا توازن نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ قلب اور دل میں ایمان ایک حقیقی قوت کی شکل میں موجود ہو۔ یہ ایمانی قوت اگر کسی کے اندر موجود ہو تو وہ بڑی سے بڑی مادی قوت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا یہی موقف تھا جو انہوں نے جادو گروں ، فرعون اور سرداران فرعن کے مقابلے میں اختیار کیا ۔ وہ ایمانی اور نظریاتی اور اخلاقی کامیابی کے بعد اس سر زمین پر بھی کامیاب ہوئے۔ ذرا اس منظر کو دیکھیے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

49:۔ یہاں سے تا ” ذٰلِکَ جَزَاءُ مَنْ تَزَکّٰی “ جادوگروں کے قول کی حکایت ہے یا ادخال الٰہی ہے۔ ” مُجْرِمًا “ سے مراد مشرک ہے۔ و دل قولہ ” مَنْ یَّاتِهٖ مُوْمِنًا “ علی ان المراد بالمجرم المشرک (قرطبی ج 11 ص 227) ۔ ” تَزَکّٰی “ یعنی شرک سے پاک ہوا۔ تطھر من الشرک یقول لا الہ الا اللہ قیل ھذہ الایات الثلث حکایۃ قولھم وقیل خبر من اللہ تعالیٰ لا علی وجہ الحکایۃ وھو اظھر (مدارک ج 2 ص 47) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

74 بلاشبہ ! جو اپنے پروردگار کی حضور میں مجرم اور باغی بن کر حاضر ہوا تو اس کے لئے دوزخ اور جہنم مقرر ہے جس میں نہ وہ مرے ہی گا اور نہ جئے ہی گا ۔ یعنی جو شخص کافربن کر اس کے حضور میں حاضر ہوگا اس کو جہنم کا عذاب ہوگا اور جہنم کے عذاب کی یہ حالت ہے کہ وہاں موت تو ہے ہی نہیں اور جس زندگی میں زندگی کا آرام نہ ہو وہ زندگی نہ ہونے کے برابر۔