Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 77

سورة طه

وَ لَقَدۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی ۬ ۙ اَنۡ اَسۡرِ بِعِبَادِیۡ فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَکًا وَّ لَا تَخۡشٰی ﴿۷۷﴾

And We had inspired to Moses, "Travel by night with My servants and strike for them a dry path through the sea; you will not fear being overtaken [by Pharaoh] nor be afraid [of drowning]."

ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تو راتوں رات میرے بندوں کو لے چل اور ان کے لئے دریا میں خشک راستہ بنالے پھر نہ تجھے کسی کے آپکڑنے کا خطرہ ہوگا نہ ڈر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Children of Israel leave Egypt Allah tells, وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي ... And indeed We revealed to Musa: "Travel by night with My servants, Allah, the Exalted, informs that He commanded Musa to journey at night with the Children of Israel, when Fir`awn refused to release them and send them with Musa. He was to take them away from Fir`awn's captivity. Allah expounds upon this in Surahs other than this noble Surah. Musa left with the Children of Israel, and when the people of Egypt awoke in the morning they found that not a single one of them remained in Egypt. Fir`awn became extremely furious. He sent callers into all of the cities to gather together his army from all of his lands and provinces. He said to them, إِنَّ هَـوُلاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَأيِظُونَ Verily, these indeed are but a small band. And verily, they have done what has enraged us. (26:54-55) Then when he gathered his army and organized his troops, he set out after them and they followed them at dawn when the sun began to rise. فَلَمَّا تَرَاءَا الْجَمْعَانِ And when the two hosts saw each other. (26:61) This means that each person of the two parties was looking at the other party. فَلَمَّا تَرَاءَا الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَـبُ مُوسَى إِنَّا لَمُدْرَكُونَ قَالَ كَلَّ إِنَّ مَعِىَ رَبِّى سَيَهْدِينِ The companions of Musa said: "We are sure to be overtaken." (Musa) said: "Nay, verily, with me is my Lord. He will guide me." (26:61-62) Musa stopped with the Children of Israel and the sea was in front of them and Fir`awn was behind them. Then, at that moment, Allah revealed to Musa, ... فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ... And strike a dry path for them in the sea. So Musa struck the sea with his stick and he said, "Split for me, by the leave of Allah." Thus, it split, and each separate part of the water became like a huge mountain. Then, Allah sent a wind to the land of the sea and it burned the soil until it became dry like the ground that is on land. For this reason Allah said, ... فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لاَّ تَخَافُ دَرَكًا ... and strike a dry path for them in the sea, fearing neither to be overtaken... This means being caught by Fir`awn. ... وَلاَ تَخْشَى nor being afraid. meaning, "Do not be afraid of the sea drowning your people." Then, Allah, the Exalted, said,

بنی اسرائیل کی ہجرت اور فرعون کا تعاقب ۔ چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کو بھی فرعون نے ٹال دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے آزاد کر کے انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سپرد کردے اس لئے جناب باری نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ راتوں رات ان کی بےخبری میں تمام بنی اسرائیل کوچپ چاپ لے کریہاں سے چلے جائیں جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان قرآن کریم میں اور بہت سی جگہ پر ہوا ہے چنانچہ حسب ارشاد آپ نے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے کر یہاں ہجرت کی ۔ صبح جب فرعونی جاگے اور سارے شہر میں ایک بنی اسرائیل نہ دیکھا ۔ فرعون کو اطلاع دی وہ مارے غصے کے چکر کھا گیا اور ہر طرف منادی دوڑا دئیے کہ لشکرجمع ہوجائیں اور دانت پیس پیس کر کہنے لگا کہ اس مٹھی بھر جماعت نے ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے آج ان سب کو تہ تیغ کردوں گا ۔ سورج نکلتے ہی لشکر آ موجود ہوا اسی وقت خود سارے لشکرکو لے کر ان کے تعاقب میں روانہ ہو گیا ۔ بنی اسرائیل دریا کے کنارے پہنچے ہی تھے کہ فرعونی لشکر انہیں دکھائی دے گیا گھبرا کر اپنے نبی سے کہنے لگے لو حضرت اب کیا ہو گا سامنے دریا ہے پیچے فرعونی ہیں ۔ آپ نے جواب دیا گھبرانے کی بات نہیں میری مدد پر خود میرا رب ہے وہ ابھی مجھے راہ دکھا دے گا اسی وقت وحی الہی آئی کہ موسیٰ دریا پر اپنی لکڑی مار وہ ہٹ کر تمہیں راستہ دے دے گا ۔ چنانچہ آپ نے یہ کہ کر لکڑی ماری کے اے دریا بحکم الہی تو ہٹ جا اسی وقت اس کا پانی پتھر کی طرح ادھر اْدھر جم گیا اور بیچ میں راستے نمایاں ہو گئے ۔ ادھرادھر پانی مثل پہاڑوں کے کھڑا ہو گیا اور تیز اور خشک ہواؤں کے جھونکوں نے راستوں کو بالکل سوکھی زمین کے راستوں کی طرح کر دیا ۔ نہ تو فرعون کی پکڑ کا خوف رہا نہ دریا میں ڈوب جانے کا خطرہ رہا ۔ فرعون اور اس کے لشکری یہ حال دیکھ رہے تھے ۔ فرعون نے حکم دیا کہ انہی راستوں سے تم بھی پار ہو جاؤ ۔ چیختا کودتا مع تمام لشکر کے ان ہی راہوں میں اتر پڑا ان کے اترتے ہی پانی کو بہنے کا حکم ہوگیا اور چشم زون میں تمام فرعونی ڈبو دیئے گئے ۔ دریا کی موجوں نے انہیں چھپا لیا ۔ یہاں جو فرمایا کہ انہیں اس چیزنے ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیا یہ اس لئے کہ یہ مشہور ومعروف ہے ٫نام لینے کی ضرورت نہیں یعنی دریا کی موجوں نے اسی آیت ( وَالْمُؤْتَفِكَةَ اَهْوٰى فَغَشّٰـىهَا مَا غَشّٰى 54؀ۚ ) 53- النجم:54 ) ہے یعنی قوم لوط کی بستیوں کو بھی اسی نے دے پٹکا تھا ۔ پھر ان پر جو تباہی آئی سو آئی ۔ عرب کے اشعار میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ الغرض فرعون نے اپنی قوم کو بہکا دیا اور راہ راست انہیں نہ دکھائی جس طرح دنیا میں انہیں اس نے آگے بڑھ کر دریا برد کیا اسی طرح آگے ہو کر قیامت کے دن انہیں جہنم میں جا جھونکے گا جو بدترین جگہ ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

77۔ 1 جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا۔ 77۔ 2 اس کی تفصیل سورة الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ 77۔ 3 خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى ڏ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى ۔۔ : فرعون کے جادوگروں کے مقابلے میں ناکام ہونے اور ان کے ایمان قبول کرلینے کے بعد ایک لمبی مدت گزری، جس میں بنی اسرائیل پر ظلم کے کئی پہاڑ ٹوٹتے رہے، ساتھ ہی فرعون اور اس کی قوم پر قحط، طوفان، ٹڈی دل، جوؤں، مینڈکوں اور خون کی صورت میں معجزے کے طور پر کئی عذاب آئے، جن میں سے ہر عذاب آنے پر وہ لوگ اپنے ایمان لانے کا اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا وعدہ کرتے مگر عذاب ٹل جانے پر صاف مکر جاتے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو راتوں رات بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کا حکم دیا۔ اس کا ذکر سورة اعراف (١٣٠ تا ١٣٥) میں تفصیل سے ہے۔ یہاں وہ ساری بات حذف کرکے فرعون کا انجام ذکر فرما دیا۔ اس لیے اس آیت کا عطف آیت (٥٦) (وَلَقَدْ اَرَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَاَبٰى ) پر ہے کہ فرعون کے تمام آیات (نشانیوں) کو جھٹلانے اور انکار کا انجام کیا ہوا ؟ اس کا عطف موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے مقابلے کے واقعہ پر نہیں۔ (بقاعی) اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ ۔۔ : یہ قصہ تفصیل کے ساتھ سورة شعراء (٥٢ تا ٦٦) اور یونس (٩٠ تا ٩٢) میں مذکور ہے۔ یہاں ” فَاجْعَلْ لَہُمْ طَرِیْقًا “ (پس ان کے لیے راستہ بنا) کے بجائے ” فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا “ (پس ان کے لیے سمندر میں ایک خشک راستہ مار) فرمایا، مقصود لمبی بات کو مختصر کرنا ہے، یعنی ” اِجْعَلْ لَھُمْ بِضَرْبِ الْبَحْرِ بِعَصَاکَ طَرِیْقًا “ (سمندر پر اپنی لاٹھی مارنے کے ساتھ ان کے لیے اس میں خشک راستہ بنا) ۔ گویا ” اِضْرِبْ “ میں ” اِجْعَلْ “ کا معنی سمو دیا ہے، اسے تضمین کہتے ہیں۔ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى : ” وَّلَا تَخْشٰى“ کا مفعول ذکر نہیں فرمایا، تاکہ وہ عام رہے۔ معنی یہ ہوگا کہ نہ تو پکڑے جانے سے خوف کھائے گا اور نہ کسی بھی دوسری چیز سے ڈرے گا، مثلاً غرق ہونے، راستہ بھول جانے، بھوک پیاس سے ہلاک ہونے یا کسی اور دشمن کے حملے سے، غرض کسی بھی خطرے کا تجھے ڈر نہیں ہوگا۔ بعض مفسرین نے اس کا مفعول ” غَرْقًا “ محذوف مانا ہے، یعنی تو غرق ہونے سے نہیں ڈرے گا، مگر محذوف مفعول مقام کی مناسبت سے کوئی بھی ہوسکتا ہے، اس لیے اسے عام رکھنا بہتر ہے اور پھر اس میں غرق ہونا بھی آجاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The decisive defeat which he suffered in the contest between the right and wrong and between miracle and magic broke the power of the Pharaoh, and the Bani Isra&ile stood united under the leadership of Sayyidni Musa (علیہ السلام) . Allah now commanded Sayyidna Musa (علیہ السلام) to take his men out of Egypt. But this move was full of danger. First there was the risk of pursuit by the Pharaoh, and second the river, which they had no means of crossing, barred their flight. Allah dispelled both these fears from Sayyidna Musa (علیہ السلام) mind and told him to strike his staff on the surface of the water, and dry passageways would appear in the bed of the river over which they could all escape, thus frustrating Pharaoh&s pursuit. This story has been narrated earlier under Hadith ul-Futun in this very Surah. When the time came, Sayyidna Musa علیہ السلام struck the surface of water with his staff and masses of water stood asunder revealing twelve dry paths, as mentioned in Surah Ash-Shu` ara& فَكَانَ كُلُّ فِرْ‌قٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ (And each part became like a big mountain- 26:63). The walls of water which divided the passages were so formed that those going on one road could see and talk to those travelling on other roads, thus imparting to them all a sense of security. The number of the Ban& Isra&il who fled Egypt and the strength of the Pharaoh&s army According to Ruh ul-Ma` ani Sayyidna Musa (علیہ السلام) embarked on his journey towards the Red Sea with the Bani Isra&il soon after sunset. Earlier they had announced that one of their festivals was approaching which they would celebrate outside the city, and on this excuse, as well as to allay the suspicions of the Egyptians, they borrowed some jewellery from the Copts promising to return it after the festival. At that time Bani Isra&il numbered six hundred and three thousand, while another version puts their number at six hundred and seventy thousand. These figures, which may be exaggerated, have been taken from Isra&ilite traditions, but one thing appears certain, namely that they were divided into twelve very populous tribes. These large numbers were also a gift from Allah because the first arrivals in Egypt in the days of Sayyidna Yusuf (علیہ السلام) were just the twelve brothers. Now the twelve tribes of those twelve brothers which fled Egypt numbered well over six hundred thousand. When the Pharaoh learned that the Bani Isra&il had taken flight, he assembled a large army of which the advance units consisted of seven hundred thousand horsemen and started off in pursuit. When the Bani Isra&il saw the river barring their way ahead and the Pharaoh hot on their heels, they cried out in despair. |"Surely! We are caught|". Sayyidna Musa (علیہ السلام) consoled them with the words إِنَّ مَعِيَ رَ‌بِّي سَيَهْدِينِ (With me is my Lord indeed. He will guide me - 26:62). Then by the command of Allah he struck his staff on the water and twelve dry passageways appeared on which the twelve tribes of Bani Isra&il crossed over to the other side in safety. The Pharaoh who saw all this was frightened but he urged his men on by declaring that the dry paths were formed because the river stopped flowing on account of the awe which it felt in his presence. Saying so, he spurred his horse into the river ordering his army to follow him. When they were all in the middle, Allah commanded the river to resume its flow and water covered them over. (Ruh ul-Ma` ani)

خلاصہ تفسیر اور (جب فرعون اس پر بھی ایمان نہ لایا اور ایک عرصہ تک مختلف معاملات و واقعات ہوتے رہے اس وقت) ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ ہمارے (ان) بندوں کو (یعنی بنی اسرائیل کو مصر سے) راتوں رات (باہر) لے جاؤ ( اور دور چلے جاؤ تاکہ فرعون کے ظلم و شدائد سے ان کو نجات ہو) پھر (راہ میں جو دریا ملے گا تو) ان کے لئے دریا میں (عصا مار کر) خشک راستہ بنادینا (یعنی عصا مارنا کہ اس سے خشک راستہ بن جاوے گا) نہ تو تم کو کسی کے تعاقب کا اندیشہ ہوگا (کیونکہ اہل تعاقب کامیاب نہ ہوں گے گو تعاقب کریں) اور نہ اور کسی قسم کا (مثلاً غرق وغیرہ کا) خوف ہوگا (بلکہ امن و اطمینان سے پار ہوجاؤ گے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) موافق حکم کے ان کو شباشب نکال لے گئے اور صبح مصر میں خبر مشہور ہوئی) پس فرعون اپنے لشکروں کو لے کر ان کے پیچھے چلا (اور بنی اسرائیل موافق وعدہ الہیہ کے دریا سے پار ہوگئے اور ہنوز وہ دریائی راستے اسی طرح اپنی حالت پر تھے جیسا دوسری آیت میں ہے واتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْوً آ اِنَّهُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ ، فرعونیوں نے جلدی میں کچھ آگا پیچھا سوچا نہیں، ان رستوں پر ہو لئے، جب سب اندر آگئے) تو (اس وقت چاروں طرف سے) دریا (کا پانی سمٹ کر) ان پر جیسا ملنے کو تھا آ ملا ( اور سب غرق ہو کر رہ گئے) اور فرعون نے اپنی قوم کو بری راہ پر لگایا اور نیک راہ ان کو نہ بتلائی (جس کا اس کو دعویٰ تھا وَمَآ اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ ، اور بری راہ ہونا ظاہر ہے کہ دنیا کا بھی ضرر ہوا کہ سب ہلاک ہوئے اور آخرت کا بھی، کیونکہ جہنم میں گئے جیسا کہ آیت میں ہے اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ ، پھر بنی اسرائیل کو فرعون کے تعاقب اور غرق دریا سے نجات کے بعد اور نعمتیں عنایت ہوئیں مثلاً عطائے توراة اور من وسلوی ان نعمتوں کو عطا کر کے ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ) اے بنی اسرائیل (دیکھو) ہم نے (تم کو کیسی کیسی نعمتیں دیں کہ) تم کو تمہارے (ایسے بڑے) دشمن سے نجات دی اور ہم نے تم سے (یعنی تمہارے پیغمبر سے تمہارے نفع کے واسطے) کوہ طور کی داہنی جانب آنے کا (اور وہاں آنے کے بعد توراة دینے کا) وعدہ کیا اور وادی تیہ میں) ہم نے تم پر من وسلوی نازل فرمایا ( اور اجازت دی کہ) ہم نے جو نفیس چیزیں (شرعاً بھی کہ خلال ہیں اور طبعاً بھی کہ لذیذ ہیں) تم کو دی ہیں ان کو کھاؤ اور اس (کھانے) میں حد (شرعی) سے مت گزرو (مثلاً یہ کہ حرام سے حاصل کیا جاوے، کذا فی الدریا کھا کر معصیت کی جاوے) کہیں میرا غضب تم پر واقع ہوجائے اور جس شخص پر میرا غضب واقع ہوتا ہے وہ بالکل گیا گزرا ہوا اور (نیز اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ) میں ایسے لوگوں کے لئے بڑا بخشنے والا بھی ہوں جو (کفر و معصیت سے) توبہ کرلیں اور ایمان لے آویں اور نیک عمل کریں پھر (اسی راہ) پر قائم (بھی) رہیں (یعنی ایمان و عمل صالح پر مداومت کریں یہ مضمون ہم نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ تذکیر نعمت اور امر بالشکر و نہی عن المعصیت اور وعد وعید یہ خود بھی دینی نعمت ہے۔ معارف و مسائل اَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى، حق و باطل معجزہ اور جادو کے فیصلہ کن معرکہ نے فرعون اور آل فرعون کی کمر توڑی دی اور بنی اسرائیل حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کی قیادت میں جمع ہوگئے تو اب ان کو یہاں سے ہجرت کا حکم ملتا ہے اور چونکہ فرعون کے تعاقب اور آگے دریا کے راستہ میں حائل ہونے کا خطرہ سامنے تھا اس لئے دونوں چیزوں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مطمئن کردیا گیا کہ دریا پر اپنی لاٹھی ماریں گے تو درمیان سے خشک راستے نکل آئیں گے اور پیچھے سے فرعون کے تعاقب کا خطرہ نہ رہے گا جس کا تفصیلی واقعہ حدیث الفتون کے تحت میں اسی سورة میں گزر چکا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دریا پر لاٹھی ماری تو اس میں بارہ سڑکیں اس طرح بن گئیں کہ پانی کے تودے بحر منجمد کی طرح دونوں طرف پہاڑ کی برابر کھڑے رہے اور درمیان سے راستے خشک نکل آئے جیسا کہ سورة شعراء میں ہے فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيْمِ ، اور درمیان میں جو یہ پانی کی دیواریں ان بارہ سڑکوں کے درمیان تھیں ان کو قدرت نے ایسا بنادیا کہ ایک سڑک سے گزرنے والے دوسری سڑکوں سے گزرنے والوں کو دیکھتے بھی جاتے تھے اور باہم باتیں بھی کر رہے تھے تاکہ ان کے دلوں میں یہ خوف و ہراس بھی نہ رہے کہ ہمارے دوسرے قبیلوں کا کیا حال ہوا (قرطبی) مصر سے نکلنے کے وقت بنی اسرائیل کے بعض حالات اور ان کی تعداد اور لشکر فرعون کی تعداد : تفسیر روح المعانی میں یہ روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شروع رات میں بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے دریائے قلزم کی طرف نکلے۔ بنی اسرائیل نے اس سے پہلے شہر کے لوگوں میں یہ شہرت دے دیتھی کہ ہماری عید ہے ہم عید منانے کے لئے باہر جائیں گے اور اس بہانے سے قبطی لوگوں سے کچھ زیورات عاریۃً مانگ لئے کہ عید سے آ کر واپس کردیں گے۔ بنی اسرائیل کی تعداد اس وقت چھ لاکھ تین ہزار اور دوسری روایت میں چھ لاکھ ستر ہزار تھی (یہ اسرائیلی روایات ہیں جن میں مبالغہ ہوسکتا ہے لیکن اتنی بات قرآن کریم کے اشارات اور روایات حدیث سے ثابت ہے کہ ان کے بارہ قبیلے تھے اور ہر قبیلے کی بہت بڑی تعداد تھی۔ یہ بھی قدرت حق تعالیٰ کا ایک عظیم مشاہدہ تھا کہ جب یہ حضرات یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر آئے تو بارہ بھائی تھے، اب بارہ بھائیوں کے بارہ قبیلوں کی اتنی عظیم الشان تعداد مصر سے نکلی جو چھ لاکھ سے زائد بتلائی جاتی ہے۔ فرعون کو جب ان کے نکل جانے کی اطلاع ملی تو اپنی فوجیں جمع کیں جن میں ستر ہزار سیاہ گھوڑے تھے اور لشکر کے مقدمہ میں سات لاکھ سوار تھے۔ جب پیچھے سے اس فوجی سیلاب کو اور آگے دریائے قلزم کو بنی اسرائیل نے دیکھا تو گھبرا اٹھے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کی اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ کہ ہم تو پکڑ لئے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ کہ میرے ساتھ میرا رب ہے وہ مجھے راستہ دے گا، پھر بحکم ربانی دریا پر لاٹھی ماری اور اس میں بارہ سڑکیں خشک نکل آئیں۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے ان سے گزر گئے۔ جس وقت فرعون اور اس کا لشکر یہاں پہنچا تو لشکر فرعون یہ حیرت انگیز منظر دیکھ کر سہم گیا کہ ان کے لئے دریا میں کس طرح راستے بن گئے مگر فرعون نے ان کو کہا کہ یہ سب کرشمہ میری ہیبت کا ہے جس سے دریا کی روانگی رک کر راستے بن گئے ہیں یہ کہہ کر فوراً آگے بڑھ کر اپنا گھوڑا دریا کے اس راستہ میں ڈال دیا اور سب لشکر کو پیچھے آنے کا حکم دیا۔ جس وقت فرعون مع اپنے تمام لشکر کے ان دریائی راستوں کے اندر سما چکے اسی وقت حق تعالیٰ نے دریا کو روانی کا حکم دے دیا اور دریا کے سب حصے مل گئے فَغَشِيَهُمْ مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ کا یہی حاصل ہے (روح المعانی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى مُوْسٰٓى۝ ٠ۥۙ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِيْ فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِيْقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا۝ ٠ۙ لَّا تَخٰفُ دَرَكًا وَّلَا تَخْشٰى۝ ٧٧ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے سری السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] 232- بسرو حمیر أبوال البغال به «1» فأسری نحو أجبل وأتهم، وقوله تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] ، أي : ذهب به في سراة من الأرض، وسَرَاةُ كلّ شيء : أعلاه، ومنه : سَرَاةُ النهار، أي : ارتفاعه، وقوله تعالی: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا[ مریم/ 24] أي : نهرا يسري «2» ، وقیل : بل ذلک من السّرو، أي : الرّفعة . يقال، رجل سَرْوٌ. قال : وأشار بذلک إلى عيسى عليه السلام وما خصّه به من سروه، يقال : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي، أي : نزعته، وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس «3» ، وقیل : ومنه : رجل سَرِيٌّ ، كأنه سَرَى ثوبه بخلاف المتدثّر، والمتزمّل، والزّمّيل «4» ، وقوله : وأَسَرُّوهُ بِضاعَةً [يوسف/ 19] ، أي : خمّنوا في أنفسهم أن يحصّلوا من بيعه بضاعة، والسَّارِيَةُ يقال للقوم الذین يَسْرُونَ باللیل، وللسّحابة التي تسري، وللأسطوانة . ( س ر ی و ) السریٰ کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود/ 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء/ 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اسریٰ ( باب افعال ) سریٰ یسری سے نہیں ہے ۔ جس کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں بلکہ یہ سراۃ سے مشتق ہے جس کے معنی کشادہ زمین کے ہیں ۔ اور اصل میں اس کے لام کلمہ میں واو ہے اور اسی سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط ) بسرو حمیر أبوال البغال بهحمیر کی کشادہ زمین میں جہاں خچروں کا پیشاب یعنی کہ سراب نظر آتے ہیں ۔ پس اسری کے معنی کشادہ زمین چلے جانا ہیں ۔ جیسے اجبل کے معنی ہیں وہ پہاڑ پر چلا گیا اور اتھم کے معنی ، وہ تہامہ میں چلا گیا ۔ لہذا آیت ؛۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ [ الإسراء/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وسیع اور کشادہ سر زمین میں لے گیا ۔ نیز سراۃ ہر چیز کے افضل اور اعلیٰ حصہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی سے سراۃ النھار ہے جس کے معنی دن کی بلندی کے ہیں ۔ اور آیت : قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا [ مریم/ 24] تمہارے پروردگار نے تمہارے سے نیچے ایک چشمہ پیدا کردیا ہے میں سری سے نہر جاری مراد ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ سرو سے مشتق ہے جس کے معنی رفعت کے ہیں اور بلند قدر آدمی کو رجل سرو ۔ کہا جاتا ہے تو لفظ سری سے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اس شرف کی طرف اشارہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں خاص طور پر نوازا تھا ۔ محاورہ ہے : سَرَوْتُ الثوبَ عنّي : میں نے اپنے اوپر سے کپڑا اتار دیا ۔ وسَرَوْتُ الجُلَّ عن الفرس : میں گھوڑے سے جھول اتار دیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسی سے رجل سری ۔ ہے کیونکہ بلند قدر آدمی ہوشیار رہتا ہے گویا وہ کپڑے اتارے ہوئے ہے اسکے برعکس کاہل سست اور ناتوان آدمی کو متدثر متزمل اور زمیل وغیرہ کہا جاتا ہے گویا وہ اپنے کپڑوں میں لپٹا پڑا ہے اور الساریۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جو رات کو سفر کرتی ہو اور اس کے معنی رات کے بادل اور ستون بھی آتے ہیں ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ ضرب الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا [ الزخرف/ 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الكهف/ 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] . والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ : ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها . ( ض ر ب ) الضرب کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال/ 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد/ 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة/ 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف/ 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات/ 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد/ 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء/ 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران/ 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة/ 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران/ 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران/ 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف/ 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف/ 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف/ 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف/ 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔ طرق الطَّرِيقُ : السّبيل الذي يُطْرَقُ بالأَرْجُلِ ، أي يضرب . قال تعالی: طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] ، وعنه استعیر کلّ مسلک يسلكه الإنسان في فِعْلٍ ، محمودا کان أو مذموما . قال : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] ، وقیل : طَرِيقَةٌ من النّخل، تشبيها بالطَّرِيقِ في الامتداد، والطَّرْقُ في الأصل : کا لضَّرْبِ ، إلا أنّه أخصّ ، لأنّه ضَرْبُ تَوَقُّعٍ كَطَرْقِ الحدیدِ بالمِطْرَقَةِ ، ويُتَوَسَّعُ فيه تَوَسُّعَهُم في الضّرب، وعنه استعیر : طَرْقُ الحَصَى للتَّكَهُّنِ ، وطَرْقُ الدّوابِّ الماءَ بالأرجل حتی تكدّره، حتی سمّي الماء الدّنق طَرْقاً «2» ، وطَارَقْتُ النّعلَ ، وطَرَقْتُهَا، وتشبيها بِطَرْقِ النّعلِ في الهيئة، قيل : طَارَقَ بين الدِّرْعَيْنِ ، وطَرْقُ الخوافي «3» : أن يركب بعضها بعضا، والطَّارِقُ : السالک للطَّرِيقِ ، لکن خصّ في التّعارف بالآتي ليلا، فقیل : طَرَقَ أهلَهُ طُرُوقاً ، وعبّر عن النّجم بالطَّارِقِ لاختصاص ظهوره باللّيل . قال تعالی: وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] ، قال الشاعر : 299 ۔ نحن بنات طَارِقٍ«4» وعن الحوادث التي تأتي ليلا بالطَّوَارِقِ ، وطُرِقَ فلانٌ: قُصِدَ ليلًا . قال الشاعر :۔ كأنّي أنا المَطْرُوقُ دونک بالّذي ... طُرِقْتَ به دوني وعیني تهمل «5» وباعتبار الضّرب قيل : طَرَقَ الفحلُ النّاقةَ ، وأَطْرَقْتُهَا، واسْتَطْرَقْتُ فلاناً فحلًا، کقولک : ضربها الفحل، وأضربتها، واستضربته فحلا . ويقال للنّاقة : طَرُوقَةٌ ، وكنّي بالطَّرُوقَةِ عن المرأة . وأَطْرَقَ فلانٌ: أغضی، كأنه صار عينه طَارِقاً للأرض، أي : ضاربا له کا لضّرب بالمِطْرَقَةِ ، وباعتبارِ الطَّرِيقِ ، قيل : جاءت الإبلُ مَطَارِيقَ ، أي : جاءت علی طَرِيقٍ واحدٍ ، وتَطَرَّقَ إلى كذا نحو توسّل، وطَرَّقْتُ له : جعلت له طَرِيقاً ، وجمعُ الطَّرِيقِ طُرُقٌ ، وجمعُ طَرِيقَةٍ طرَائِقُ. قال تعالی: كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] ، إشارة إلى اختلافهم في درجاتهم، کقوله : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ، وأطباق السّماء يقال لها : طَرَائِقُ. قال اللہ تعالی: وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ، ورجلٌ مَطْرُوقٌ: فيه لين واسترخاء، من قولهم : هو مَطْرُوقٌ ، أي : أصابته حادثةٌ لَيَّنَتْهُ ، أو لأنّه مضروب، کقولک : مقروع، أو مدوخ، أو لقولهم : ناقة مَطْرُوقَةٌ تشبيها بها في الذِّلَّةِ. ( ط رق ) الطریق کے معنی راستہ ہیں جس پر چلا جاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه/ 77] پھر ان کے لئے دریا میں راستہ بناؤ ۔ اسی سے بطور استعارہ ہر اس مسلک اور مذہب کو طریق کہاجاتا ہے جو انسان کوئی کام کرنے کے لئے اختیار کرتا ہے اس سے کہ وہ قتل محمود ہو یا مذموم ۔ قرآن میں ہے : وَيَذْهَبا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلى[ طه/ 63] اور تمہارے بہتر مذہب کو نابود کردیں ۔ اور امتداد میں راستہ کے ساتھ تشبیہ دے کر کھجور کے لمبے درخت کو بھی طریقۃ کہہ دیتے ہیں ۔ الطرق کے اصل معنی مارنے کے ہیں مگر یہ ضرب سے زیادہ خاص ہے ۔ کیونکہ طرق کا لفظ چٹاخ سے مارنے پر بولا جاتا ہے جیسے ہتھوڑے سے لوہے کو کوٹنا بعد ازاں ضرب کی طرح طرق کے لفظ میں بھی وسعت پیدا ہوگئی چناچہ بطور استعارہ کہاجاتا ہے ۔ طرق الحصی ٰ کا ہن کا اپنی کہانت کے لئے کنکر مارنا طرق الدواب چوپائے جانورون کا پانی میں داخل ہوکر اسے پاؤں سے گدلا کردینا ۔ طارقت النعل وطرق تھا میں نے جوتے ایک پر تلہ پر دوسرا رکھ کر اسے سی دیا ۔ پھر طرق النعل کی مناسبت سے طارق بین الدرعین کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ایک زرہ کے اوپر دوسری زرہ پہننا کے ہیں ۔ طرق الخوارج پرند کے اندورنی پروں کا تہ برتہ ہونا اور الطارق کے معنی ہیں راستہ پر چلنے والا ۔ مگر عرف میں بالخصوص اس مسافر کو کہتے ہیں جو رات میں آئے چناچہ طرق اھلہ طروقا کے معنی ہیں وہ رات کو آیا اور النجم ستارے کو بھی الطارق کہاجاتا ہے کیونکہ وہ بالخصوص رات کو ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالسَّماءِ وَالطَّارِقِ [ الطارق/ 1] آسمان اور رات کو آنے والے کی قسم ۔ شاعر نے کہاے ُ ۔ ( الرجز) (291) نحن بنات طارق ہم طارق یعنی سردار کی بیٹیاں ہیں ۔ طوارق اللیل وہ مصائب جو رات کو نازل ہوں ۔ طرق فلان رات میں صدمہ پہنچا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الطویل ) (292) کانی انا المطروق دونک بالذی طرقت بہ دونی وعینی تھمل میں اس طرح بےچین ہوتا ہوں کہ وہ مصیبت جو رات کو تجھ پر آتی ہے مجھے پہنچ رہی ہے ۔ اور میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ اور معنی ضرف یعنی مجفتی کرنے کے اعتبار سے کہاجاتا ہے ۔ صرق الفحل الناقۃ ( اونٹ کا ناقہ سے جفتی کرنا ) اطرق تھا میں نے سانڈہ کو اونٹنی پر چھوڑا۔ استطرقت فلانا الفحل : میں نے فلاں سے جفتی کے لئے سانڈھ طلب کیا اور یہ محاورات ضربھا الفحل واضرب تھا واستضربتہ کی طرح استعمال ہوتے ہیں اور اس ناقہ کو جو گابھن ہونے کے قابل ہوجائے اسے طروقۃ کہاجاتا ہے اور بطور کنایہ طروقۃ بمعنی عورت بھی آجاتا ہے ۔ اطرق فلان فلاں نے نگاہیں نیچی کرلیں ۔ گویا اس کی نگاہ زمین کو مارنے لگی جیسا کہ مطرقۃ ( ہتھوڑے ) سے کو ٹا جاتا ہے اور طریق بمعنی راستہ کی مناسبت سے جاءت الابل مطاریق کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اونٹ ایک ہی راستہ سے آئے اور تطرقالیٰ کذا کے معنی ہیں : کسی چیز کی طرف رستہ بنانا طرقت لہ کسی کے لئے راستہ ہموار کرنا ۔ الطریق کی جمع طرق آتی ہے اور طریقۃ کی جمع طرائق ۔ چناچہ آیت کریمہ : كُنَّا طَرائِقَ قِدَداً [ الجن/ 11] کے معنی یہ ہیں کہ ہم مختلف مسلک رکھتے تھے اور یہ آیت کریمہ : هُمْ دَرَجاتٌ عِنْدَ اللَّهِ [ آل عمران/ 163] ان لوگوں کے خدا کے ہاں ( مختلف اور متقارب ) درجے ہیں ۔ کی مثل ہے یعنی جیسا کہ یہاں دربات سے مراد اصحاب الدرجات ہیں اسی طرح طرئق سے اصحاب طرائق مراد ہیں ) اور آسمان کے طبقات کو بھی طرائق کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرائِقَ [ المؤمنون/ 17] ہم نے تمہارے اوپر کی جانب سات طبقے پیدا کئے ) رجل مطروق نرم اور سست آدمی پر ھو مطروق کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مصیبت زدہ کے ہیں یعنی مصائب نے اسے کمزور کردیا جیسا کہ مصیبت زدہ آدمی کو مقروع یا مدوخکہاجاتا ہے یا یہ ناقۃ مطروقۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ ذلت میں اونٹنی کیساتھ تشبیہ دیکر بولا جاتا ہے ۔ بحر أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر : 39- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره . ( ب ح ر) البحر ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة/ 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان/ 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ يبس يَبِسَ الشیءُ يَيْبَسُ ، واليَبْسُ : يَابِسُ النّباتِ ، وهو ما کان فيه رطوبة فذهبت، واليَبَسُ : المکانُ يكون فيه ماء فيذهب . قال تعالی: فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه/ 77] والأَيْبَسَانِ «1» : ما لا لحم عليه من الساقین إلى الکعبین . ( ی ب س ) یبس ( س ) الشئی کے معنی کسی چیز کا خشک ہوجانا کے ہیں ۔ اور ترگھاس جب خشک ہوجائے تو اسے یبس ( بسکون الباء ) کہاجاتا ہے اور جس جگہ پر پانی ہو اور پھر خشک ہوجائے اسے یبس ( بفتح الباء ) کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ يَبَساً [ طه/ 77] تو انکے لیے دریا میں لائٹس مارکر خشک راستہ بنادو ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ درك الدَّرْكُ کالدّرج، لکن الدّرج يقال اعتبارا بالصّعود، والدّرک اعتبارا بالحدور، ولهذا قيل : درجات الجنّة، ودَرَكَات النار، ولتصوّر الحدور في النار سمّيت هاوية، وقال تعالی: إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] ، والدّرك «3» أقصی قعر البحر . ويقال للحبل الذي يوصل به حبل آخر ليدرک الماء دَرَكٌ ، ولما يلحق الإنسان من تبعة دَرَكٌ کالدّرک في البیع . قال تعالی: لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] ، أي : تبعة . وأَدْرَكَ : بلغ أقصی الشیء، وأَدْرَكَ الصّبيّ : بلغ غاية الصّبا، وذلک حين البلوغ، قال : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] ، وقوله : لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، فمنهم من حمل ذلک علی البصر الذي هو الجارحة، ومنهم من حمله علی البصیرة، وذکر أنه قد نبّه به علی ما روي عن أبي بکر رضي اللہ عنه في قوله : (يا من غاية معرفته القصور عن معرفته) إذ کان غاية معرفته تعالیٰ أن تعرف الأشياء فتعلم أنه ليس بشیء منها، ولا بمثلها بل هو موجد کلّ ما أدركته . ( درک ) الدرک اور درج کا لفظ اوپر چڑھنے کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اور الدرک کا لفظ نیچے اترنے کے لحاظ سے اس لئے درجات الجنۃ اور درکات النار کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ پستی کے اعتبار سے دوذخ کو ھاویۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُنافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ [ النساء/ 145] کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے ۔ اور سمندر کی گہرائی کی تہہ اور اس رسی کو جس کے ساتھ پانی تک پہنچنے کے لئے دوسری رسی ملائی جاتی ہے بھی درک کہا جاتا ہے / اور درک بمعنی تاوان بھی آتا ہے مثلا خرید وفروخت میں بیضانہ کو درک کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تخافُ دَرَكاً وَلا تَخْشى [ طه/ 77] پھر تم کو نہ تو ( فرعون کے ) آپکڑے نے کا خوف ہوگا اور نہ غرق ہونے کا ( ڈر ۔ ادرک ۔ کسی چیز کی غایت کو پہچنا ، پالنا جیسے ادرک الصبی لڑکا بچپن کی آخری حد کو پہنچ گیا یعنی بالغ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس/ 90] یہاں تک کہ اس کو غرق ( کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] وہ ایسا ہے کہ ( نگا ہیں اس کا اور اک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا اور اک کرسکتا ہے ۔ کو بعض نے ادارک بصری کی نفی پر حمل کیا ہے اور بعض نے ادارک کی نفی ملحاظ بصیرت مراد دلی ہے اور کہا ہے کہ اس آیت سے اس معنی پر تنبیہ کی ہے جو کہ حضرت ابوبکر کے قول اے وہ ذات جس کی غایت معرفت بھی اس کی معرفت سے کوتاہی کا نام ہے ) میں پایا جاتا ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی غایت یہ ہے کہ انسان کو تمام اشیاء کا کماحقہ علم حاصل ہونے کے بعد یہ یقین ہوجائے کہ ذات باری تعالیٰ نہ کسی کی جنس ہے اور نہ ہی کسی چیز کی مثل ہے بلکہ وہ ان تمام چیزو ن کی موجد ہی ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٧) (فرعون جب کسی کسی صورت میں ایمان نہیں لایا) تو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ بنی اسرائیل کو راتوں رات مصر سے باہر لے جاؤ، پھر عصا مار کر ان کے لیے دریا میں خشک راستہ بنا دیا کہ اس میں نہ فرعون کے تعاقب کا خدشہ ہوگا اور نہ غرق ہونے کا خوف ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٧ (وَلَقَدْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓیلا اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ ) ” ان کے مصر سے نکلنے کے لیے ایک رات کا مخصوص وقت طے کردیا گیا تھا کہ اس رات جب قبطی لوگ اپنے اپنے گھروں میں نیند کے مزے لے رہے ہوں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تمام اسرائیلیوں کو لے کر چپکے سے صحرائے سینا کی طرف نکل کھڑے ہوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52. Here the details of the events which happened during the long period of Prophet Moses’(peace be upon him) stay in Egypt have been omitted. For these please see (Surah Al- Aaraf, Ayat 130-147), (Surah Younus, Ayats 83-92); (Surah Al-Momin, Ayats 23-50) and (Surah Az-Zukhuruf 46-56). 53. This happened when God at last appointed a night for the exodus of the Israelites and the other Muslims from Egypt. They were asked to gather at a fixed place and set forth as a caravan. Just at the time when they reached the coast of the Red Sea from where they had to cross to the Sinai Peninsula, Pharaoh arrived there with a large army in their pursuit. We learn from (Surah Ash-Shuara, Ayats 61-63) that when they were literally between the army and the deep sea, Allah commanded Moses (peace be upon him) to smite the sea with his staff and according to this verse the sea split and stood like two high walls on both sides, leaving a dry path between them for the caravan to pass. Thus, it is quite clear and plain that it was a miracle, and not the result of a wind storm or tide, for when the water rises in this way it does not remain standing like two high walls, leaving a dry path between them. (For details see (E.N. 47 of Surah Ash-Shuara).

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :52 بیچ میں ان حالات کی تفصیل چھوڑ دی گئی ہے جو اس کے بعد مصر کے طویل زمانہ قیام میں پیش آئے ۔ ان تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع 15 ۔ 16 ، سورۂ یونس رکوع 9 ، سورۂ مومن رکوع 3 تا 5 ، اور سورۂ زخرف رکوع 5 ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :53 اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرما دی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو ( جن کے لیے میرے بندوں ‘’ کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے ) مصر کے ہر حصے سے ہجرت کے لیے نکل پڑنا تھا ۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گئے ۔ اس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی ۔ بحر احمر سے بحر روم ( میڈیٹرینین ) تک کا پورا علاقہ کھلا ہوا تھا ۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا ۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا ۔ غالباً ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا کی طرف نکل جائیں ۔ لیکن ادھر سے فرعون ایک لشکر عظیم لے کر تعاقب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آ پہنچا جبکہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا ۔ سورۂ شعراء میں بیان ہوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل گھر چکا تھا ۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ : اِضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ ، اپنا عصا سمندر پر مار : فَاَنْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ ، فوراً سمندر پھٹ گیا اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا ۔ اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نکل آیا ، بلکہ بیچ کا یہ حصہ ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا ۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا ۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا نہیں ہو جاتا ، اور بیچ کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ 47 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

28: جادوگروں سے مقابلے میں فتح پانے کے بعد بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کافی عرصے مصر میں رہے۔ اور اس دوران فرعون کو ان کی تبلیغ بھی جاری رہی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعدد نشانیاں بھی دکھائی جاتی رہیں، جن کا ذکر سورۃ اعراف میں گذرا ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ٰیہ حکم دیا کہ تمام بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات مصر سے نکل جائیں 29: یعنی تمہارے راستے میں سمندر آئے گا، تم اپنا عصا اس پر مارو گے تو اس میں تمہاری قوم کے گذرنے کے لیے خشک راستہ بن جائے گا۔ اس کی تفصیل سورۃ یونس : 89 تا 92 میں بھی گذری ہے، اور سورۃ شعراء : 60 تا 66 میں بھی آئے گی۔ چونکہ یہ راستہ اللہ تعالیٰ نے صرف تمہارے لیے پیدا کیا ہوگا۔ اس لیے فرعون کا لشکر اس سے گذر کر تمہیں نہیں پکڑ سکے گا۔ لہذا نہ تمہیں پکڑے جانے کا خوف ہوگا، نہ ڈوب جانے کا

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:77) اسر۔ اسراء سے فعل امر۔ واحد مذکر حاضر ۔ تو رات کو لے کر چل۔ اسراء رات کو لے کر چلنے یا رات کو سفر کرنے کے معنی میں آتا ہے جیسا کہ اور جگہ ارشاد ہے سبحن الذی اسری بعبدہ (17:1) پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت لے گیا۔ ان مفسرہ ہے اور اوحینا کی وضاحت کرتا ہے کہ ہم نے کیا وحی کی۔ فاجرب لہم طریقا فی البحر یبسا۔ اضرب فعل امر واحد مذکر حاضر طریقا فی البحر مفعول بہ اضرب کا یبسا صفت ہے طریقا کی۔ عبارت کچھ یوں ہے اضرب البحر (بعصاک لیسیر لہم طریقا یبسا۔ اپنے عصا کو سمندر کے پانی پر مارو کہ ان کے لئے (پانی میں) خشک راستہ بن جائے۔ قرآن کے جملہ کے لفظی معنی ہوں گے پھر ان کے لئے سمندر میں خشک راستہ بنائو۔ یبسا مصدر بمعنی اسم فاعل (یابس) ہے یبس ییبس اور یابس یبس (باب سمع) یبوسۃ خشکی۔ لا تخاف۔ مضارع منفی واحد مذکر حاضر تو نہیں ڈرے گا۔ تجھے (کوئی) ڈر نہ ہوگا۔ ولا تخشی اور نہ تجھ کو خوف و خطرہ ہوگا۔ درکا۔ پالینا۔ آپکڑنا۔ درک کا استعمال دو معنی میں ہوتا ہے ۔ ایک تو اس رسی کے لئے جس کے ساتھ دوسری رسی اس غر ض سے ملا دی جاتی ہے کہ وہ پانی تک پہنچ جائے۔ دوسرے انسان کو جو کچھ خرابی کا نتیجہ پہنچے اس کو درک کہتے ہیں ۔ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں۔ لا تخاف درکا والا تخشی نہ تجھے پیچھے سے پکڑے جانے کا خوف ہوگا اور نہ کوئی اندیشہ۔ باب افعال سے ادرک یدرک ادراک (لڑکے کا) بالغ ہونا۔ (پھل کا) پک جانا۔ کسی شخص یا چیز کو) آلینا۔ (مسئلہ کو) سمجھ لینا۔ (کسی چیز کو آنکھ سے) دیکھنا۔ مثلاً لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار (6:103) (وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادرادک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ استدراک (استفعال) (کسی چیز سے کسی چیز کو) حاصل کرنے کی کوشش کرنا

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٤) اسرارومعارف القصہ تمام معجزات اور ساری تعلیمات سننے کے باوجود بھی جب فرعون نے راہ راست قبول نہ کی تو موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ میرے بندوں یعنی اپنی قوم کو لے کر راتوں رات نکل جائیں اور فرعون کی حکومت اور ملک سے دوسری جگہ چلے جائیں کہ اس کے ظلم سے نجات حاصل ہو بنی اسرائیل اگرچہ غلطی پر غلطی کرتے رہے مگر موسیٰ (علیہ السلام) سے نسبت کے سبب یہاں ان کو بھی عبادی کا اعلی لقب عطا ہوا۔ (اہل اللہ سے نسبت کی برکت) گویا اہل اللہ سے نسبت بھی بہت بڑا انعام ہے اور رحمت باری کا سبب نیز ارشاد ہوا کہ سمندر کی طرف جائیے اور جب کنارے پر پہنچیں تو اپنا عصا پانی پر ماریں اس میں خشک راستے پیدا ہوجائیں گے ، پانی اس طرح راستے چھوڑ دے گا کہ راستے میں نمی اور پانی کا اثر بھی نہ ہوگا نیز یہ خبر بھی دے دی کہ فرعون سے پکڑے جانے کا خطرہ بھی نہ جانیں وہ آپ کو پکڑ نہیں سکے گا اور نہ کوئی اور اندیشہ غرق وغیرہ کا کریں ، بس آپ اللہ جل جلالہ کے بھروسے پہ نکل کھڑے ہوں ، چناچہ آپ بنی اسرائیل کو لے کر رات کو نکل پڑے علی الصبح فرعون کو خبر ہوئی تو فورا بہت بڑا لشکر لے کر پیچھے لپکا تب تک یہ لوگ سمندر کے کنارے پہنچ چکے تھے دوسری جگہ ارشاد ہے کہ لوگ پکار اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے حوصلہ دیا اور فرمایا رب کریم میرے ساتھ ہے نیز سمندر پہ عصا مارا تو بارہ راستے پیدا ہوگئے ، درمیان میں پانی کی دیواریں کھڑی تھیں چناچہ ہر قبیلہ ایک راستے پر ہو لیا کہ ایک دوسرے کو دیکھتے اور بات بھی کرتے جاتے تھے فرعون جب پہنچا تو یہ لوگ سمندر کے اندر تھے ، اس نے بھی لشکر پیچھے ڈال دیا ، جب وہ لوگ درمیان میں پہنچے تو بنی اسرائیل پار اتر چکے تھے چناچہ پانی آپس میں مل گیا اور ان کو یوں ڈبویا کہ کوئی بھی نہ بچ سکا اور خود فرعون مع لشکر کے تباہ ہوگیا نیز صرف دنیا کی تباہی نہ تھی بلکہ اس نامراد نے تو پوری قوم کو گمراہ کرکے تباہی سے دوچار کردیا اور انھیں کوئی راستہ نہ دکھا سکا ، ان کی آخرت بھی برباد کردی ۔ اور ارشاد ہوا کہ اے بنی اسرائیل ہم نے تمہارے بہت ظالم دشمن کو تباہ کرکے تمہیں اس کے ستم سے نجات دے دی ، پھر مزید انعام یہ ہوا کہ ارشاد ہوا طور پہاڑ کی دائیں وادی میں پہنچو کہ تمہیں کتاب عطا ہو اور پھر جب تم اس کے بعد وادی تیہ میں سرگرداں تھے تم پر آسمان سے پکے پکائے کھانے من وسلوی نازل فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ یہ لذیذ کھانے ضرور کھاؤ مگر حد سے نہ بڑھو یعنی کھا کر نافرمانی نہ کرو یا ایک دوسرے سے چھپانا شروع نہ کر دو یا چھینا چھپٹی نہ کرو ورنہ پھر میرا غضب تمہیں آلے گا اور جس پر اللہ جل جلالہ کا غضب نازل ہو وہ تباہ ہوجاتا ہے لیکن جو توبہ کرے عقیدہ صحیح کرے اور عمل بھی درست کرلے تو اللہ کریم بہت بڑا بخشنے بھی والا ہے ۔ (مجاہدہ ضروری ہے) اب موسیٰ (علیہ السلام) شوق میں آگے نکل گئے اور ہارون (علیہ السلام) کو اپنے پیچھے امیر مقرر فرمایا کہ قافلہ تو اپنی رفتار سے چلے گا کہ انھیں حکم تھا طور پر پہنچ کر تیس روزے رکھیں پھر دس اور بڑھا کر چالیس کردیئے گئے تب کتاب عطا ہوئی یعنی حصول برکات کے لیے مجاہدہ ضروری ہے مگر بنی اسرائیل اس وادی تک نہ پہنچے کہ مفسرین کرام کے مطابق وہ پیچھے اختلاف میں مبتلا ہو کر رک گئے اور نہ جانے کا فیصلہ کرلیا تو اس جرم میں مصیبت میں گرفتار ہوئے کہ سامری نامی ایک جادوگر بھی ساتھ ساتھ جو بظاہر مسلمان بنا ہوا تھا اس نے ایک بچھڑا بنا کر انھیں اس کی پوجا کی دعوت دی تو کچھ لوگوں نے اسے پوجنا شروع کردیا ۔ (اللہ اور اس کے رسول کا حکم توڑنے سے دین اور دنیا دونوں میں مصیبت آتی ہے) ادھر موسیٰ (علیہ السلام) کو ارشاد ہوا کہ آپ قوم سے آگے چلے آئے آخر وجہ کیا تھی عرض کیا اے اللہ وہ بھی پہنچنے والے ہوں گے میرے پیچھے ہی تھے اور مجھے تو ذوق حضوری بھگا کرلے آیا تو اللہ کریم نے اطلاع دی کہ انہوں نے آنے کا فیصلہ ترک کردیا تھا لہذا ہم نے انھیں امتحان میں ڈال دیا اور یوں سامری نے انھیں گمراہ کردیا اور اب ان میں سے کچھ لوگ بچھڑے کی پوجا کر رہے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت دکھ بھی ہوا اور بہت خفا بھی ہوئے اور غصے میں بھرے ہوئے پلٹے قوم کے پاس پہنچے تو وہی حال یہاں دیکھا تو فرمایا اللہ جل جلالہ نے تم سے کتنا خوبصورت وعدہ فرمایا تھا کہ وادی میں پہنچو تو تم وہ بھول ہی گئے ، کیا اس پہ کوئی لمبا زمانہ بیت گیا تھا یا بدبختی کے باعث تم نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اللہ جل جلالہ کا غضب حاصل کیا جائے اور وعدہ توڑ دیا اور سفر ختم کر کے بیٹھ رہے ، تب انھوں نے کہا ہم نے بخوشی تو ایسا نہیں کیا واقعہ ہی عجیب رونما ہوگیا کہ ہمارے پاس فرعون کی قوم کے بہت سے زیورات تھے ہم نے وہ ضائع کرنے کے لیے آگ میں ڈال دیئے ہمیں ہارون (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ اس طرح تو کافر کا مال لینا بھی گناہ ہے ۔ لہذا اسے ایک جگہ گلا کر اکٹھا کر رکھو پھر جیسے ارشاد ہوگا موسیٰ (علیہ السلام) آلیں تو ویسا عمل کیا جائے گا ، مگر اس میں سامری نے بھی کچھ ڈالا ، دوسری جگہ ارشاد ہے کہ اس نے جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدموں سے مٹی اٹھا لی تھی کہ اس نے اس میں حیات کا ہونا مشاہدہ کیا تھا جہاں گھوڑے کا قدم پڑتا روئیدگی ہوجاتی ، چناچہ ایک جسم بچھڑے کا بنا کر نکالا جس میں سے آواز نکلتی تھی ، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ محض بت تھا اور اس میں سوراخ تھے ، ان سے جب ہوا گذرتی تو آواز پیدا ہوتی مگر یہ بات ہو تو پھر سامری کے کچھ ڈالنے کا کیا معنی ، لہذا اکثر مفسرین کے مطابق اس بت میں زندگی کے آثار تھے جن میں سے ایک اثر یہ تھا کہ وہ آواز نکالتا تھا تو اس نے کہہ دیا کہ یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی جو بچھڑے سے بول رہا ہے موسیٰ (علیہ السلام) بھول کر کہیں اور چلے گئے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے اگر آواز نکلتی بھی تھی تو کون ان کی آواز سن کر جواب دے رہا تھا یا ان کے کسی نفع ونقصان کا مالک ہو چلا تھا محض ایک عجیب شے دیکھ کر یا ایک عجیب بات کا مشاہدہ کرکے انہوں نے معبود مان لیا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 77 تا 89 بس راتوں رات نکل جا۔ طریق راستہ۔ یبس خشک۔ درک پکڑنا۔ لاتخشی خوف نہ کر۔ اضل گمراہ کردیا۔ الایمن داہنے جانب۔ لاتطغوا حد سے نہ بڑھو۔ رجع لوٹ گیا۔ اخلفتم تم نے خلاف کیا۔ اوزار (وزر) بوجھ۔ قذفنا ہم نے پھینک دیا۔ خوار بچھڑے کی آواز ، گائے کی آواز۔ نسی وہ بھول گیا۔ افلا یرون کیا پھر وہ نہیں دیکھتے۔ ضر نقصان۔ تشریح : آیت نمبر 77 تا 89 فرعونی ظلم و ستم اور بنی اسرائیل کے خلاف سازشوں کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب تک مصر میں رہے وہ ان کو نصیحتیں اور تبلیغ دین فرماتے رہے جن سے قوم بنی اسرائیل میں ایک نئی زندگی اور امنگ پیدا ہوگئی۔ حضرت موسیٰ اس طرح فرعن کو معجزات دکھا کر اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ کس طرح فرعون قوم بنی اسرائیل کو چھوڑ دے اور وہ فلسطین میں جا کر آباد ہوجائیں تاکہ وہاں آزادی سے اللہ کے دین پر عمل کرسکیں مگر فرعون بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہائی دینے پر آمادہ نہ تھا۔ جب فرعون کسی طرح اپنی حرکتوں سے بز نہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ حکو حکم دیا کہ وہ خود اور بنی اسرائیل کو راتوں رات نہایت خاموشی اور احتیاط سے لے کر ہجرت کر جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو یقین دلایا کہ ہو کسی طرح کا فکر اور غم نہ کریں۔ بیشک فرعون پیچھا کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی حفاظت کا انتظام فرما دیں گے۔ بنی اسرائیل جس علاقے میں رہتے تھے وہ قبطیوں یعنی فرعونیوں کی بستی سے کافی فاصلے پر تھا۔ اس لئے جب لاکھوں بنی اسرائیل راتوں رات نہایت خاموشی اور احتیاط سے مصر کے علاقوں سے نکل کر فلسطین کی طرف چلے تو فرعون او اس کے لوگوں کو ان کی روانگی کا علم نہ ہوسکا۔ راستے میں سمندر پڑتا تھا جب وہ سمندر کے کنارے تک پہنچنے کے قریب تھے کہ کسی طرح فرعون کو اس بات کی اطلاع ہوگئی۔ وہ اپنے تمام لشکر کو لے کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں روانہ ہوگیا۔ ابھی بنی اسرائیل پانی کے کنارے پر پہنچے ہی تھے کہ دیکھا فرعون اپنے عظیم الشان لشکر کو لئے ان کے تعاقب میں سمندر کے کنارے کی طرف تیزی سے آ رہا ہے۔ اس ناگہانی آفت کو دیکھ کر بنی اسرائیل بوکھلا اٹھے اور اپنی موت کو سامنے دیکھ کر چلانے لگے کہ اب ان کا کیا ہوگا۔ ایک طرف فرعون کا لشکر ہے اور دوسری طرف ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی فرمائی کہ موسیٰ گھبرانے یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تم اپنا عصا پانی پر مارو پھر ہماری قدرت کا تماشا دیکھو۔ حضرت موسیٰ نے جیسے ہی اپنا عصا پانی پر مارا اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کیلئے بارہ راستے اس طرح بنا دیئے گئے کہ جس سے گذرنا بہت آسان تھا جب بنی اسرائیل ان راستوں سے گذر کر دوسرے کنارے پر پہنچ گئے تو اس وقت فرعون سمندر کے کنارے پر پہنچ گیا۔ پہلے تو فرعون اس عجیب صورتحال سے گھبرایا مگر تکبر اور غرور کے انداز سے کہنے لگا کہ یہ سب میری وجہ سے راستے بنائے گئے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنا گھوڑا ان راستوں پر ڈال دیا۔ اس کی ساری فوج نے اس کی بات کی جب وہ سب کے سب سمندر کے درمیان میں پہنچے تو اللہ نے پانی کو آپس میں مل جانے کا حکم دیا۔ جیسے ہی پانی آپس میں ملا تو فرعون اور اس کا لشکر ڈوبنے لگا۔ جب فرعون نے دیکھا کہ اب موت سامنے ہے اور اس سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے تو اس نے کہا ” میں اس بات پر ایمان لے آیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اللہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں میں بھی اس اللہ پر ایمان لاتا ہوں۔ ( سورة یونس) اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس ایمان لان کو قبول نہیں کیا بلکہ فرمایا ” اب تو ایمان لایا ہے حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمانی کرتا رہتا تھا اور تو فسادی آدمی ہے۔ پس آج کے دن ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ اپنے بعد آنے والوں کے لئے تو اللہ کی طرف سے عبرت کا نشان بن جائے۔ ( سورة یونس آیت 90 تا 92) اس طرح فرعون، اس کا لشکر اور غرور وتکبر کا ہر انداز سمندر کے پانی میں غرق کردیا گیا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ فرعون کو غرق کر کے اس کے بدن کو بچا لیا جائے گا اس لئے اللہ نے اس کی موت کے بعد اس کی لاش کو سمندر کے کنارے پر لا ڈالا جب قوم نے فرعون کی لاش کو دیکھا تب ان کو یقین آگیا کہ فرعون اور اس کا لشکر تباہ و برباد ہوچکا ہے۔ اس تمام صورتحال کو بنی اسرائیل دوسرے کنارے پر دیکھ رہے تھے کہ اس کائنات میں ساری قوت و طاقت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جب چاہتا ہے طاقت و قوت کا دعویٰ کرنے والوں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے تہس نہس کر ڈالتا ہے۔ فرعون کے غرق کردینے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پوری قوم بنی اسرائیل کو لے کر صحرائے سینا سے گزرنے لگے اس وقت ان کی خوراک کے ذخیرے ہونے لگے اور جو کچھ اپنے ساتھ لائے تھے ان کو کم ہوتا دیکھا تو ایک دفعہ پھر بوکھلا اٹھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ساری صورت حال کو رکھا۔ اللہ نے حضرت موسیٰ کی دعا کی برکت سے صحرا میں بنی اسرائیل کو خوراک کا انتظام کردیا اور ” من وسلویٰ “ نازل کیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو یاد کریں جو اللہ نے ان پر نچھاور کی ہیں۔ سب سے پہلی نعمت تو یہ ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے ظلم سے نجات عطا فرمائی، ان کے دشمنوں کو کیفرکردار تک پہنچا دیا اور غرق کردیا گیا۔ دوسری نعمت یہ ہے کہ اللہ نے ایک لق و دق صحرا میں ” من وسلویٰ “ جیسی تازہ، لذیذ اور بہترین غذا عطا فرمائی۔ نزول توریت کے متعلق فرمایا کہ جب اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر بلایا تاکہ ان کو کتاب ہدایت دی جائے تو حضرت موسیٰ اس خوشی میں کہ اللہ نے ان کی قوم کی ہدایت کے لئے راہنما اصول عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے بہت جلد کوہ طور پر پہنچ گئے۔ فرمایا کہ اللہ نے جو کچھ کرم فرمائے ہیں ان کا یہ تقاضا ہے کہ وہ لوگ ہدایت کے سیدھے راستے پر چلیں۔ جو بھی ان کو رزق حلال دیا گیا ہے اس کو کھائیں استعمال کریں لیکن حد سے نہ گزریں، ورنہ اللہ کے عذاب کو روکنا ممکن نہ ہوگا۔ کیونکہ جس پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے وہ بڑا بدنصیب اور اللہ کی رحمتوں سے محروم ہوتا ہے۔ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو ایمان لا کر عمل صالح اختیار کرتے ہیں اور توبہ کرنے کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ ان پر اللہ کی رحمتیں برستی ہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل جب تک اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے رہے اور انہوں نے جھوٹ، فریب اور کفر کی روش اختیار نہ کی تھی اس وقت تک اللہ نے ان پر بےانتہا کرم فرمائے لیکن جب وہ صراط مستقیم کو بھول کر کفر اور زیادتیوں میں لگ گئے تو اللہ نے اسی قوم کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا۔ سورة بنی اسرائیل میں اس کی تفصیل گذر چکی ہے کہ جب بنی اسرائیل نے اللہ کی نافرمانی اختیار کی تو وہ اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکے ان پر ظالم و جابر بادشاہوں کو مسلط کر کے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ انہوں نے ان کے گھروں اور بستیوں کو اجاڑ دیا اور ان کے گھروں میں گھس گئے۔ ان کو اور ان کی اولاد دوں کو نہ صرف قتل کیا گیا بلکہ ان کو اس طرح بےعزت کیا گیا کہ ان کو اپنا وجود سنبھالنا دشوار ہوگیا۔ اس طرح وہ عرصہ تک کفار و مشرکین کے ظالمانہ نظام کے حت اپنی زندگیاں گذارنے پر مجبور کردیئے گئے۔ لیکن جب انہوں نے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوئے تو ان کو دوبارہ عزت و عظمت سے ہم کنار کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو ان کی لغزشوں اور کوتاہیوں پر آگاہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم نے ہمیشہ جلد زی سے کام لیا ہے اور صبر سے کام نہیں یا۔ اس لئے تم بےصبری کی وجہ سے سامری جیسے مکار آدمی کے جال میں پھنس گئے تھے اور حضرت موسیٰ جو چند روز کے لئے کتاب ہدایت لینے کو وہ طور پر گئے تھے تم ان کی واپسی کا بھی انتظار نہ کرسکے تھے اور سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو تم نے اپنا معبود بنا لیا تھا۔ واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو ریت لینے کے لئے کوہ طور پر گئے تو انہوں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود کوہ طور پر تشریف لے گئے تیس دن کے بجائے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے دس دن کے لئے مزید روک لیا تو سامری نے بنی اسرائیل کے زیورات سے ایک ایسا بچھڑابنایا جس سے ایک خاص آواز نکلتی تھی اور اس نے بنی اسرائیل کو یقین دلا دیا کہ موسیٰ ہم سب کو چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں اور جاتے ہوئے یہ بتانا بھول گئے تھے کہ یہی بچھڑا تمہارا معبود ہے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے پوری قوم کو سمجھایا کہ یہ سامری کا فریب ہے مگر قوم بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود بنا کر اس کی پرستش اور عبادت شروع کردی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو بتایا کہ تمہارے آنے کے بعد تمہاری قوم ایک فتنے میں مبتلا ہوگئی ہے۔ حضرت موسیٰ توریت کی تختیاں لے کر جن پر اللہ کی آیات تحریر تھیں جب واپس پہنچے اور قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے دیکھا تو غصہ سے بےقابو ہوگئے تو ری کی تختیاں بھی ہاتھ سے چھوٹ گئیں اور یہ سمجھ کر ان کے بھائی حضرت ہارون نے غفلت کا مظاہرہ کیا ہے شدید غصے میں ان کے سر کے بال اور ڈاڑھی پکڑ کر فرمایا کہ تم نے قوم بنی اسرائیل کو کس حال تک پہنچا دیا۔ حضرت ہارون نے فرمایا کہ بھائی پہلے میری بات تو سنو، میں نے اپنی قوم کو ہر طرح سمجھایا گیا مگر وہ سب کے سب سامری کے فریب میں پھنس گئے تھے میں کیا کرتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے بعد سامری کو بلا کر پوچھا۔ اس نے کہا کہ میں نے حضرت جبرئیل کے پاؤں تلے سے مٹی اٹھا کر اس میں ڈال دی تھی اور اس میں سے ایک آواز نکلنے لگی تھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تیری سزا تو یہ ہے کہ اب تو ہر شخص سے کہے گا کہ ” مجھے ہاتھ نہ لگاؤ “ یعنی مجھ سے دور رہو اور پھر بنی اسرائیل کے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی اس کی سزا مقرر فرمائی۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں اور احسانات یاد دلا کر فرمایا ہے کہ اللہ نے تمہیں ہر نعمت سے نوازا تھا مگر تم نے نافرمانیوں کی انتہا کردی جس کی تمہیں سزا دی جا رہی ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے کے بعد پھر ایک موقع دیا جا رہا ہے۔ اگر اس قوم نے اپنی اصلاح کرلی تو ان کو دین و دنیا کی تمام بھلائیاں عطا کی جائیں گیا ور اگر ان کا کہنا نہ مانا تو پھر قیامت تک ان کی اصلاح ممکن نہ ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اور دور چلے جاو تاکہ فرعون کے ظلم و شدائد سے ان کو نجات ہو۔ 2۔ کیونکہ اہل تعاقب کامیاب نہ ہوں گے گو تعاقب کریں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے مظالم کی انتہا اور بنی اسرائیل کا مصر سے ہجرت کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مؤثر ترین خطاب اور ان کے عظیم معجزہ کی وجہ سے ہزاروں لوگ ایمان لائے۔ جس بناء پر فرعون نے مظالم کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ جس کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کیا جاتا اور ان کی عورتوں کو باقی رہنے دیا جاتا۔ مظالم کا یہ دور اس قدر اذّیت ناک اور سنگین تھا کہ مظلوم لوگ موسیٰ (علیہ السلام) سے ان الفاظ میں فریاد کرتے ہیں کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم پر مظالم کیے گئے اور آپ کے نبی بننے کے بعد بھی ہم پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمہیں زمین پر حکمرانی دے گا۔ پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسا کردار پیش کرتے ہو۔ (الاعراف : ١٢٩) جب موسیٰ (علیہ السلام) کی پیش گوئی کا وقت آن پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ میرے بندوں کو رات کے وقت لے کر مصر سے نکل جاؤ۔ جب تم دریا کے کنارے پہنچو تو پانی پر لاٹھی مار نا جس سے دریا عبور کرنے کے لیے تمہارے لیے خشک راستے بنائے جائیں گے۔ ہاں فرعون اور اس کے لشکر تمہارا پیچھا کریں گے۔ لیکن ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ کو غرق کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری رازداری کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو ناصرف ہجرت سے آگاہ فرمایا بلکہ انھیں یہ بھی بتلا دیا کہ ہم فلاں وقت اور فلاں مقام پر دریا عبور کریں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کا تعاقب کرتے ہوئے فرعون بھی اس مقام پر پہنچ گیا۔ جہاں بنی اسرائیل دریا عبور کر رہے تھے۔ نامعلوم فرعون نے اپنے ساتھیوں کو کیا کچھ کہہ کر دریا میں اترنے کا حکم دیا ہوگا۔ جونہی فرعون کی قیادت میں لشکر دریا میں داخل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا کی موجوں نے انھیں آلیا اور انھیں ڈبکیاں دے دے کر مار ڈالا۔ فرعون نے بار بار اس بات کی دہائی دی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کیا گیا۔ تیرے ایمان لانے کا تجھے کیا فائدہ ؟ اب تیرے وجود کو عبرت کے طور پر رہتی دنیا کے لوگوں کے لیے باقی رکھا جائے گا۔ (یونس : ٩٢) اس موقع پر قرآن مجید صرف یہ بیان کرتا ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور اس نے کسی صورت بھی قوم کو راہ راست پر نہ آنے دیا۔ جس وجہ سے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ غرق ہوا۔ مسائل ١۔ فرعون خود بھی گمراہ تھا اور اس نے اپنی قوم کو بھی گمراہ کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤ ولشکر کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : ١۔ آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنایا جائے۔ (یونس : ٩٢) ٢۔ ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ (الاعراف : ١٦٤) ٣۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ (الزخرف : ٥٥) ٤۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٥۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦) ٦۔ قیامت کے دن (فرعون) اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود : ٩٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد اوحینآ الی ……ھدی (٩٧) یہاں قرآن مجید نے وہ تمام واقعات حذف کردیئے ہیں جو جادوگروں کے ساتھ مقابلے کے بعد پیش آئے۔ فرعون نے جادوگروں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جبکہ وہ اپنی قوت ایمانی کیس اتھ فرعون کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ وہ اس کی دھمکیوں سے نہ ڈرے ، انہوں نے حیات دنیا کے بارے میں اپنا جدید نظر یہ فرعون کے سامنے بڑی بےباکی سے پیش کیا۔ ان سب واقعات کو چھوڑ کر یہاں اب فتح ظاہری کا یہ منظر دکھایا جاتا ہے ، تاکہ قلبی اور نظریاتی فتح کے بعد اب میدانی فتح کو دکھایا جائے اور اللہ کی نصرت اور مدد اہل ایمان کو بچشم سر نظر آجائے۔ مکمل اور فیصلہ کن فتح۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اس منظر سے قبل بنی اسرائیل کے منظر خروج اور سمندر کے سامنے ان کے کھڑے ہونے کے مناظر کو طول نہیں دیا گیا ، جس طرح ان مناظر کو دوسری سورتوں میں مفصل دکھایا گیا۔ بلکہ چند جھلکیوں کے بعد مکمل فتح ہمارے سامنے ہے کیونکہ یہ تمام حذف شدہ مناظر ذہن انسانی خود سوچ سکتا ہے۔ اس لئے یہ تخیل پر چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ وہ میرے بندوں کو لے کر رات کو نکل جائیں۔ سمندر میں ان کو خشک راہ مل جائے گی اور فرعون کے لشکر ان کو نہ پکڑ سکیں گے۔ سمندر میں بننے والے خشک راستوں میں بھی خوف نہ کھائو ، اللہ نے سمندر میں پانی کو جس قانون کے مطابق رکھا ہوا ہے وہ اسے کچھ دیر کے لئے اپنی طبیعی ڈگر سے ہٹا بھی سکتا ہے۔ ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جب موسیٰ نکلے تو : فاتبعھم ……وما ھدی (٩٨) (٠٢ : ٨٨-٩٨) ” پیچھے سے فرعون اپنے لشکر لے کر پہنچا اور پھر سمندر ان پر چھا گیا جیسا کہ چھا جانے کا حق تھا۔ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا ، کوئی صحیح رہنمائی نہیں کی تھی۔ “ قرآن مجید یہاں فرعون کی غرقابی کا بھی مجملاً ذکر کرتا ہے۔ تفصیلات نہیں دی جاتیں تاکہ یہ واقعہ مجمل ہی رہے۔ فرعون نے زنگدی بھر اپنی قوم کی قیادت فسق و فجور اور ضلالت میں کی اور اب تباہی اور بربادی کے وقت بھی سمندر میں اس نے اپنی قوم کی قیادت کی۔ جس طرح اس واقعہ کی اس کڑی کو یہاں قرآن مجید نے خاص حکمت کے تحت مجمل چھوڑا ہے ہم بھی اسے مجمل ہی رہنے دیتی ہیں۔ مناسب ہے کہ اس منظر سے ہمیں جو سبق حاصل ہوتا ہے اور اس منظر میں واقعات کا جو اثر دلوں پر ہوتا ہے اس کے حوالے سے بحث کی جائے۔ اس قصے میں پہلی عبرت یہ ہے کہ دست قدرت نے ایمان اور سرکشی کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور ان کے درمیان معرکہ برپا کیا گیا ہے ، اس معرکہ میں اہل ایمان سے صرف یہ مطالبہ کیا گیا کہ بس وہ فقط احکام کی اطاعت کرتے چلے جائیں۔ حکم ہوا کہ تم رات کو نکل پڑو اس لئے کہ دونوں محاذوں کے درمیان جنگی قوت کا توازن نہ تھا۔ حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو ان دو قوتوں کے درمیان کوئی نسبت ہی نہ تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم ضعیف ہیں۔ ان کے پاس کوئی مادی قوت نہیں ہے۔ جبکہ فرعون اور اس کی افواج ہر قسم کی قوت رکھتی ہیں۔ لہٰذا ان کے درمیان کسی مادی جنگ کا کوئی موقع ہی نہیں ہے اس لئے یہ جنگ دست قدرت نے اپنے ہاتھ میں لے لی۔ لیکن جب اہل ایمان کے دلوں میں ایمانی قوت مضبوط ہوگئی ، ایمان ان کے دلوں میں اچھی طرح داخل ہوگیا اور اس کے سوا ان کے پاس اور کوئی مادی قوت نہ تھی تو قوت ایمانی نے ایک سرکش مقتدر اعلیٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ اس کی دھمکیوں سے نہ ڈری اور اہل اقتدار کے پاس جو دولت اور عزت تھی اسے خاطر میں نہ لائی۔ سرکش ڈکٹیٹر نے کہا فلاقطعن ایدیکم وارجلکم من خلاف وانا وصلبنکم فی حذوع النخل (١٨) ” میں تمہارے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمہیں سولی دوں گا۔ “ تو جواب میں انہوں نے کہا۔ فاقض ما انت قاض انما تقضی ھذہ الحیوۃ الدنیا (٠٢ : ٢٨) ” تو جو کچھ کرنا چاہے کرلے تو زیادہ سے زیادہ بس اس دنیا کی زنگدی کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ “ جب دلوں کے میدان میں نظریاتی اور ایمانی قوت اور سرکشی اور اقتدار کی قوت کے درمیان معرکہ یہاں تک پہنچ گیا تو اب دست قدرت نے ایمان کا جھنڈا اٹھا لیا تاکہ اسے بلند کر دے اور اہل باطل کا جھنڈا سرنگوں کردیا گیا بغیر اس کے کہ اہل حق اس کے لئے کوئی مادی جدوجہد کریں۔ دوسری عبرت یہ ہے کہ جب تک بنی اسرائیل ذلت اور غلامی کا ٹیکس فرعون کو ادا کرتے رہے ان کے بیٹے قتل ہوتے رہے اور ان کی بیٹیاں زندہ چھوڑی جاتی رہیں تو دست قدرت ان کی امداد کے لئے بلند نہ ہوا اور یہ معرکہ آرائی نہ کرائی گئی۔ کیونکہ وہ یہ ٹیکس محض ذلت ، غلامی اور خوف کی وجہ سے ادا کرتے رہے لیکن جب ان لوگوں کے دلوں میں ایمان سربلند ہوگیا اور انہوں نے ایمان کی راہ میں مشکلات اور تشدد برداشت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب انہوں نے سر اٹھا کے چلنے کی رسم ڈال لی۔ کلمہ حق بلند کرنا شروع کردیا اور فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا شروع کردیا اور یہ کام انہوں نے ہر قسم کا خطرہ انگیز کرتے ہوئے کیا تو پھر دست قدرت ان کی مدد کے لئے بلند ہوا۔ یہ معرکہ شروع ہوا ، اس وقت جبکہ میدانی فتح سے قبل اہل ایمان دل کی دنیا میں فتح پا چکے تھے۔ اس اجمال کے ذریعے یہاں قرآن کریم یہی عبرت اور سبق دینا چاہتا ہے اور ان مناظر میں تفصیلات یعنی جزوی تفصیلات نہیں دی گئی تاکہ دعوت اسلامی کے حاملین کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کی طرف سے ان کی نصرت کب ہوگی اور باغیوں اور سرکشوں کے ماقبلے میں فتح کب نصیب ہوگی۔ جب بنی اسرائیل فتح و نصرت کے جھنڈے اٹھاتے ہوئے ایک آزاد فضا میں قدم رکھ رہے تھے تو اب ان کو صنیحت کی جاتی ہے ، سچائی کا سبق یاد کرایا جاتا ہے اور انجام بد سے انہیں ڈرایا جاتا ہے تاکہ وہ اس سبق کو بھول نہ جائیں جو فرعون و موسیٰ کی کشمکش سے حاصل ہوتا ہے ۔ اب آزادی اور اقتدار کی فضا کہیں ان کو کبر و غرور میں مبتلا نہ کر دے اور وہ اس ساز و سامان کو نظر انداز نہ کردیں جس کی وجہ سے انہیں طاقت کے عدم توازن کے باوجود ، فتح نصیب ہوئی کیونکہ یہ اصل قوت ، قوت ایمانی ہی ہر میدان میں فتح کی ضامن ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کا موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم فرمانا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو مصر سے لے جاؤ، سمندر پر پہنچ کر ان کے لیے خشک راستہ بنا دینا، پکڑے جانے کا خوف نہ کرنا، فرعون کا ان کے پیچھے سے سمندر میں داخل ہونا اور لشکروں سمیت ڈوب جانا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں فرعون نے زک اٹھائی ذلیل ہوا لیکن ابھی مصر میں اس کا ظاہر اقتدار باقی تھا اور وہ مسئلہ در پیش تھا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے جانے نہیں دیتا تھا، بنی اسرائیل کو اس کی تکلیفوں سے نجات پانے کے لیے ضروری تھا کہ مصر کو چھوڑ دیں اللہ تعالیٰ شانہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ تم بنی اسرائیل کو لیکر مصر سے نکل جاؤ اور یہ روانگی رات کو ہو، موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ساتھ لیکر مصر سے نکل کھڑے ہوئے اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا کہ تم سمندر کی طرف نکل جانا جب سمندر پر پہنچو تو اپنی لاٹھی مار ہی دینا وہاں پر تمہارے اور تمہاری قوم کے لیے خشک راستہ بن جائے گا اس میں سے گزر جانا نہ کسی کے تعاقب سے ڈرنا اور نہ کسی قسم کا دل میں خوف لانا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لیکر روانہ ہوگئے۔ فرعون کو سورج نکلنے کے وقت پتہ چلا لہٰذا وہ اپنے لشکروں کو لیکر ان کا تعاقب کرنے کے لیے روانہ ہوگیا جب فرعونی لشکروں کا بنی اسرائیل کے قبیلوں نے یہ منظر دیکھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہم تو دھرلئے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہرگز ایسا نہیں، بلاشبہ میرا رب میرے ساتھ ہے وہ ابھی مجھے راہ بتادے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ اپنی لاٹھی سمندر پر مارہی دو انہوں نے لاٹھی ماری تو سمندر پھٹ گیا اور اس میں مختلف حصے ہوگئے۔ اور وہ حصے اتنے چوڑے تھے جیسے کوئی بڑا پہاڑ ہو بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ہر قبیلہ کے لیے ایک ایک راستہ بن گیا، موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لیکر ان راستوں میں داخل ہوگئے پیچھے سے فرعون اپنے لشکر کو لے کر پہنچ ہی چکا تھا اس نے بھی اپنے لشکر دریا میں ڈال دیئے اور خود بھی ان کے ساتھ سمندر میں گھس گیا اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لیکر پار ہوگئے اور فرعون اور اس کے لشکرو ہیں غرق ہوگئے پانی کی بڑی بڑی موجوں نے ان کو اپنی لپیٹ میں لے گیا۔ اسی کو فرمایا (فَغَشِیَھُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَھُمْ ) (پھر دریا سے انہیں اس چیز نے ڈھانک دیا جس چیز نے بھی ڈھاپنا) (مَا غَشِیَھُمْ ) میں جو ابہام ہے وہ عربی میں کسی چیز کو بڑا بتانے کے لیے لایا جاتا ہے اسے اہل فصاحت پہچانتے ہیں (وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہٗ وَ مَا ھَدٰی) (اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور ہدایت کا راستہ نہیں بتایا) وہ خود بھی ڈوبا اور اپنی قوم کو بھی لے ڈوبا دنیا میں بھی تباہ اور آخرت میں بھی۔ سورة قصص میں فرمایا (وَ اَتْبَعْنٰھُمْ فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ھُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِیْنَ ) (اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگادی اور قیامت کے دن وہ بد حال لوگوں میں سے ہوں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

50:۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کے معجزات اور ان کی تبلیغ و ارشاد سے فرعون اور اس کی قوم پر اپنی حجت تمام کردی اور وہ ایمان نہ لائے تو اب ان کی تباہی اور بنی اسرائیل کی نجات کا وقت آپہنچا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر راتوں رات شہر سے نکل جائیں۔ راستہ میں بحر قلزم آئے گا۔ لیکن وہ تمہارے سفر میں حائل نہیں ہوگا۔ آپ اپنی لاٹھی اس پر ماریں فورًا اس کا پانی سمٹ کر اس میں بارہ خشک اور چلنے کے قابل راستے بن جائیں گے۔ بےخوف و خطر جائیے۔ نہ فرعون کے پیچھے سے جا پہنچنے سے ڈرئیے نہ سمندر میں غرق ہونے کا خطرہ دل میں لائیے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

77 اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی اور موسیٰ کے پاس حکم بھیجا کہ میرے بندوں کو راتوں رات نکال لے جا پھر ان کے لئے دریا میں خشک راستہ بنا دے نہ تجھ کو دشمن کے تعاقب اور گرفت کا اندیشہ اور نہ دریا میں غرق ہونے کا ڈر ہو۔ یعنی فرعون کے مظالم کچھ اور دن جاری رہے اور جب مظالم کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعہ بتایا کہ تورات کو میرے بندوں کو لے کر نکل جا راستہ میں دریائے قلزم پڑے گا اس پر لاٹھی ماریو دریا میں خشک راستہ بن جائے گا اس راستہ سے دریا کو عبور کرلینا اور دشمن کی گرفت کا خطرہ نہ کیجیو اور نہ ڈوبنے اور غرق ہونے سے ڈریو یعنی ان باتوں میں سے کوئی بات نہ ہوگی۔