Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 99

سورة طه

کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ مَا قَدۡ سَبَقَ ۚ وَ قَدۡ اٰتَیۡنٰکَ مِنۡ لَّدُنَّا ذِکۡرًا﴿۹۹﴾ۖ ۚ

Thus, [O Muhammad], We relate to you from the news of what has preceded. And We have certainly given you from Us the Qur'an.

اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے کی گزری ہوئی وارداتیں بیان فرما رہے ہیں اور یقیناً ہم تجھے اپنے پاس سے نصیحت عطا فرما چکے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Entire Qur'an is the Remembrance of Allah and mentioning the Punishment of Those Who turn away from It Allah the Exalted says, كَذَلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاء مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ اتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرًا Thus We relate to you some information of what happened before. And indeed We have given you from Us a Reminder. Allah, the Exalted, is saying to Prophet Muhammad, `We have told you (O Muhammad) the story of Musa and what happened with him, Fir`awn and his armies, just as it actually happened. Likewise, We relate to you the information of the past just as it happened, without any increase or decrease. We also gave you a remembrance from Us, the Mighty Qur'an, no falsehood comes to it from before it or behind it.' It is a revelation from One Most Wise, Most Praiseworthy. No Prophet was given any Book like it or more complete than it, since the time of the previous Prophets who were sent, until their being sealed off with the coming of Muhammad. No Prophet was given any Book containing as much information than the Qur'an about what has past and what would be. The judgement concerning the distinction between mankind is taken from it. Therefore, Allah says about it,

سب سے اعلی کتاب فرمان ہے کے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اصلی رنگ میں آپ کے سامنے بیان ہوا ایسے ہی اور بھی حالات گزشتہ آپ کے سامنے ہم ہو بہو بیان فرما رہے ہیں ۔ ہم نے تو آپ کو قرآن عظیم دے رکھا ہے جس کے پاس باطل پھٹک نہیں سکتا کیونکہ آپ حکمت وحمد والے ہیں کسی نبی کو کوئی کتاب اس سے زیادہ کمال والی اور اس سے زیادہ جامع اور اس سے بابرکت نہیں ملی ۔ ہر طرح سب سے اعلیٰ کتاب یہی کلام اللہ شریف ہے جس میں گذشتہ کی خبریں آئندہ کے امور اور ہر کام کے طریقے مذکور ہیں ۔ اسے نہ ماننے والا ، اس سے منہ پھیرنے والا ، اس کے احکام سے بھاگنے والا ، اس کے سوا کسی اور میں ہدایت کو تلاش کرنے والا گمراہ ہے اور جہنم کی طرف جانے والا ہے ۔ قیامت کو وہ اپنا بوجھ آپ اٹھائے گا اور اس میں دب جائے گا اس کے ساتھ جو بھی کفر کرے وہ جہنمی ہے کتابی ہو یا غیر کتابی عجمی ہو یا عربی اس کا منکر جہنمی ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ میں تمہیں بھی ہوشیار کرنے والا ہوں اور جسے بھی یہ پہنچے پس اس کا متبع ہدایت والا اور اس کا مخالف ضلالت وشقاوت والا جو یہاں برباد ہوا وہ وہاں دوزخی بنا ۔ اس عذاب سے اسے نہ تو کبھی چٹھکارا حاصل ہو نہ بچ سکے برا بوجھ ہے جو اس پر اس دن ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور اس میں عبرت کے پہلو ہوں، انھیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔ 99۔ 2 نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات وسعادت کا راستہ اپناتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] اس سورة کا آغاز بھی ذکر سے کیا گیا تھا۔ یعنی ہم نے یہ ذکر اس لئے نہیں نازل کیا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں بلکہ یہ تو ڈرنے والوں کے لئے یاددہانی ہے۔ یہاں اسی اصل موضوع کی طرف عود کیا گیا ہے۔ جو کہ نوع انسان کی ہدایت ہے۔ درمیان میں جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیا گیا تو اس میں بھی یہی رنگ غالب نظر آتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ ۔۔ : یعنی جیسے ہم نے آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) ، بنی اسرائیل، فرعون اور اس کی قوم کے حالات بتائے ہیں، ایسے ہی ہم آپ کو ان چیزوں کی کچھ خبریں سناتے ہیں جو آپ سے پہلے گزر چکیں۔ جنھیں نہ آپ نے دیکھا تھا اور نہ آپ کو یا آپ کی قوم کو ان کا علم تھا۔ دیکھیے ہود (٤٩) ان سے مقصود محض وقت گزاری یا لطف اٹھانا نہیں بلکہ مقصود نصیحت ہے اور ہم نے اپنے پاس سے آپ کو یہ عظیم نصیحت عطا کی ہے۔ اس عظیم نصیحت سے مراد وحی الٰہی کے ذریعے سے نازل ہونے والی کتاب و حکمت (قرآن و سنت) ہے۔ اس کے سوا بڑے سے بڑے آدمی کی بات نہ اللہ کے پاس سے ہے اور نہ اس پر عمل کی اجازت ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٣) ” ذِكْرًا “ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” عظیم نصیحت “ کیا ہے اور ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ” کچھ خبریں “ کیا ہے، تمام خبریں سننے کی نہ ضرورت ہے اور نہ سنی جاسکتی ہیں۔ ” مَا “ اکثر غیر ذوی العقول کے لیے آتا ہے، اس لیے ترجمہ ان لوگوں کے بجائے ” ان چیزوں کی کچھ خبریں “ کیا گیا ہے، ” ان احوال کی کچھ خبریں “ بھی ترجمہ ہوسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرً‌ا (And We have given to you, from Ourself, a (book on advice. - 20:99) According to a majority of commentators the word (advice) in the present context means the Qur&an.

خلاصہ تفسیر ربط آیات : سورة طہ میں اصل بیان توحید، رسالت اور آخرت کے اصولی مسائل کا ہے انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات اسی سلسلہ میں بیان ہوئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بڑی تفصیل سے ذکر ہوا ہے اور اس کے ضمن میں رسالت محمدیہ کا اثبات بھی ہے اسی اثبات رسالت محمدیہ کا یہ حصہ ہے جو اگلی آیات میں بیان ہوا ہے کہ ان واقعات و قصص کا اظہار ایک نبی امی کی زبان سے خود دلیل رسالت و نبوت اور وحی الہی کی ہے اور ان سب کا سرچشمہ قرآن ہے اور حقیقت قرآن کے ذیل میں کچھ تفصیل معاد و آخرت کی بھی آگئی ہے (جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا) اسی طرح ہم آپ سے اور واقعات گزشتہ کی خبریں (اور حکایتیں) بھی بیان کرتے رہتے ہیں (تاکہ نبوت کے دلائل میں زیادتی ہوتی چلی جائے) اور ہم نے آپ کو اپنے پاس سے ایک نصیحت نامہ دیا ہے (یعنی قرآن جس میں وہ خبریں ہیں اور وہ خود بھی استقلالاً بوجہ اپنے اعجاز کے دلیل نبوت ہے اور وہ نصیحت نامہ ایسا ہے کہ) جو لوگ اس (کے مضامین ماننے) سے روگردانی کریں گے سو وہ قیامت کے روز بڑا بھاری بوجھ (عذاب کا) لادے ہوں گے (اور) وہ اس (عذاب) میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بوجھ قیامت کے روز ان کے لئے بڑا (بوجھ) ہوگا جس روز صور میں پھونک ماری جاوے گی ( جس سے مردے زندہ ہوجاویں گے) اور ہم اس روز مجرم (یعنی کافر) لوگوں کو میدان قیامت میں) اس حالت سے جمع کریں گے کہ (نہایت بدصورت ہوں گے کہ آنکھوں سے) کرنجے ہوں گے ( جو آنکھوں کا بدترین رنگ شمار ہوتا ہے اور خوفزدہ اس قدر ہوں گے کہ) چپکے چپکے آپس میں باتیں کرتے ہوں گے ( اور ایک دوسرے سے کہتے ہوں گے) کہ تم لوگ (قبروں میں) صرف دس روز رہے ہوگے (مطلب یہ کہ ہم تو یوں سمجھے تھے کہ مر کر پھر زندہ ہونا نہیں یہ گمان تو بالکل غلط نکلا، نہ زندہ ہونا تو درکنار یہ بھی تو نہ ہوا کہ دیر ہی میں زندہ ہوتے بلکہ بہت ہی جلدی زندہ ہوگئے کہ وہ مدت دس روز کے برابر معلوم ہوتی ہے۔ وجہ اس مقدار کے برابر معلوم ہونے کی اس روز کی درازی اور ہول اور پریشانی ہے کہ قبر میں رہنے کی مدت اس کے سامنے اس قدر کم معلوم ہوگی حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) جس (مدت) کی نسبت وہ بات چیت کریں گے اس کو ہم خوب جانتے ہیں (کہ وہ کس قدر ہے جبکہ ان سب میں کا زیادہ صائب الرائے یوں کہتا ہوگا کہ نہیں تم تو ایک ہی روز (قبر میں) رہے ہو (اس کو صائب الرائی اس لئے فرمایا کہ یوم کے طول اور ہول کے اعتبار سے یہی نسبت اقرب ہے پس اس شخص کو حقیقت شدت کا زیادہ ادراک ہوا اس لئے اس شخص کی رائے پہلے شخص کے اعتبار سے بہتر ہے اور یہ مقصود نہیں کہ اس شخص کی بات بالکل صحیح ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ دونوں مقداریں اصلی تحدید کے اعتبار سے صحیح نہیں اور نہ ان قائلین کا یہ مقصود تھا) اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کا حال سن کر بعضے) لوگ آپ سے پہاڑوں کی نسبت پوچھتے ہیں (کہ قیامت میں ان کا کیا حال ہوگا) سو آپ (جواب میں) فرما دیجئے کہ میرا رب ان کو (ریزہ ریزہ کر کے) بالکل اڑا دے گا پھر زمین کو ایک میدان ہموار کر دے گا کہ جس میں تو (اے مخاطب) نہ ناہمواری دیکھے گا اور نہ کوئی بلندی (پہاڑ ٹیلہ وغیرہ کی) دیکھے گا اس روز سب کے سب (خدائی) بلانے والے (یعنی صور پھونکنے والے فرشتہ) کے کہنے پر ہو لیں گے (یعنی وہ اپنی صور پھونکنے کی آواز سے سب کو قبروں سے بلاوے گا تو سب نکل پڑیں گے) اس کے سامنے (کسی کا) کوئی ٹیڑھا پن نہ رہے گا (کہ قبر سے زندہ ہو کر نہ نکلے جیسے دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) کے سامنے ٹیڑھے رہتے تھے کہ تصدیق نہ کرتے تھے) اور (مارے ہیبت کے) تمام آوازیں اللہ تعالیٰ کے سامنے دب جاویں گی سو (اے مخاطب) تو بجز پاؤں کی آہٹ کے (کہ میدان حشر کی طرف چپکے چپکے چل رہے ہوں گے) اور کچھ (آواز) نہ سنے گا (خواہ بوجہ اس کے کہ اس وقت بولتے ہی نہ ہوں گے گو دوسرے موقع پر آہستہ آہستہ بولیں جیسا اوپر آیا ہے يّتَخَافَتُوْنَ اور خواہ بوجہ اس کے کہ بہت آہستہ بولتے ہوں گے جو ذرا فاصلے سے ہو وہ نہ سن سکے) اس روز (کسی کو کسی کی) سفارش نفع نہ دے گی مگر ایسے شخص کو (انبیاء و صلحاء کی سفارش نفع دے گی) کہ جس (کی سفارش کرنے) کے واسطے اللہ تعالیٰ نے (شافعین کو) اجازت دے دیہو اور اس شخص کے واسطے (شافع کا) بولنا پسند کرلیا ہو ( مراد اس سے مومن ہے کہ شافعین کو اس کی سفارش کے لئے اجازت ہوگی اور اس باب میں شافع کا بولنا پسندیدہ حق ہوگا اور کفار کے لئے سفارش کی کسی کو اجازت ہی نہ ہوگی پس عدم نفع بوجہ عدم شفاعت کے ہے اس میں اعتراض کرنے والے کفار کو ڈرانا ہے کہ تم تو شفاعت سے بھی محروم رہو گے اور وہ (اللہ تعالیٰ ) ان سب کے آگے پچھلے احوال کو جانتا ہے اور اس (کے معلومات) کو ان کا علم احاطہ نہیں کرسکتا (یعنی ایسا تو کوئی امر نہیں جو خلق کو معلوم ہو اور اللہ تعالیٰ کو معلوم نہ ہو اور ایسے بہت امور ہیں جو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں اور خلق کو معلوم نہیں پس مخلوقات کے وہ سب احوال بھی اس کو معلوم ہیں جن پر شفاعت کی قابلیت یا عدم قابلیت مرتب ہے، سو جو اس کا اہل ہوگا اس کے واسطے سفارش کرنے کی شافعین کو اجازت ہوگی اور جو اہل نہ ہوگا اس کے لئے اجازت نہ ہوگی) اور (اس روز) تمام چہرے اس حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوں گے ( اور سب متکبرین اور منکرین کا تکبر و انکار ختم ہوجاوے گا) اور (اس وصف میں تو سب مشترک ہوں گے پھر آگے ان میں یہ فرق ہوگا کہ) ایسا شخص تو (ہر طرح) ناکام رہے گا جو ظلم (یعنی شرک) لے کر آیا ہوگا اور جس نے نیک کام کئے ہوں گے اور وہ ایمان بھی رکھتا ہوگا سو اس کو (کامل ثواب ملے گا) نہ کسی زیادتی کا اندیشہ ہوگا اور نہ کمی کا (مثلاً کہ کوئی گناہ اس کے نامہ اعمال میں زیادہ لکھ دیا جاوے یا کوئی نیکی کم لکھ دی جاوے اور یہ کنایہ ہے کمال ثواب سے پس اس کے مقابلہ میں کفار سے ثواب کی نفی مقصود ہوگی بوجہ عدم موجب ثواب کے گو ظلم اور حق تلفی کفار کی بھی نہ ہوگی اور کفار کے نیک اعمال کا حساب میں نہ لکھا جانا یہ کوئی ظلم نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ ان کے اعمال شرط ایمان سے خالی ہونے کی وجہ سے کالعدم ہوگئے) اور ہم نے (جس طرح یہ مضامین مذکورہ مقام صاف صاف ارشاد کئے ہیں) اسی طرح اس کو (سارے کو) عربی قرآن کر کے نازل کیا ہے ( جس کے الفاظ واضح ہیں) اور اس میں ہم نے طرح طرح سے وعید (قیامت و عذاب کی) بیان کی ہے (جس سے معنی بھی واضح ہوگئے مطلب یہ کہ سارے قرآن کے مضامین ہم نے صاف صاف بتلائے ہیں) تاکہ وہ (سننے والے) لوگ (اس کے ذریعہ سے بالکل) ڈر جائیں (اور فی الحال ایمان لے آئیں) یا (اگر بالکل نہ ڈریں تو یہی ہو کہ) یہ قرآن کے لئے کسی قدر (تو) سمجھ پیدا کردے (یعنی اگر پورا اثر نہ ہو تو تھوڑا ہی ہو اور اسی طرح چند بار تھوڑا تھوڑا جمع ہو کر کافی مقدار ہوجاوے اور کسی وقت مسلمان ہوجاویں) سو اللہ تعالیٰ جو بادشاہ حقیقی ہے عالی شان ہے (کہ ایسا نافع کلام نازل فرمایا) اور (جس طرح عمل کرنا اور نصیحت ماننا جو اوپر مذکور ہوئے قرآن کی تبلیغ کا حق واجب ہے جس کا ادا کرنا سب مسلمانوں پر جو احکام کے مکلف ہیں فرض ہے اسی طرح بعض آداب قرآن کی تنزیل سے بھی متعلق ہیں جن کے ادا کرنے کا تعلق آپ سے ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ) قرآن (پڑھنے) میں قبل اس کے کہ آپ پر اس کی وحی پوری نازل ہوچکے عجلت نہ کیا کیجئے ( کہ اس میں آپ کو تکلیف ہوتی ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) سے سننا اور اس کو پڑھنا ساتھ ساتھ کرنا پڑتا ہے سو ایسا نہ کیجئے اور اس کا اندیشہ نہ کیجئے کہ شاید یاد نہ رہے یاد کرانا ہمارے ذمہ ہے) اور آپ ( بھی یاد ہونے کے لئے ہم سے) یہ دعا لیجئے کہ اے میرے رب میرا علم بڑھا دے (اس میں علم حاصل کے یاد رہنے کی اور غیر حاصل کے حصول کی اور جو حاصل ہونے والا نہیں اس میں عدم حصول ہی کو خیر اور مصلحت سمجھنے کی اور سب علوم میں خوش فہمی کی یہ سب دعائیں داخل ہیں تو لا تعجل کے بعد اس کا آنا نہایت ہی مناسب ہوا حاصل یہ کہ تدابیر حفظ میں سے تدبیر تعجیل کو ترک کیجئے اور تدبیر دعا کو اختیار کیجئے۔ ) معارف ومسائل قَدْ اٰتَيْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا ذکر سے مراد اس جگہ جمہور مفسرین کے نزدیک قرآن ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ۝ ٠ۚ وَقَدْ اٰتَيْنٰكَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْرًا۝ ٩٩ۖۚ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے سبق أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] ، ( س ب ق) السبق اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات/ 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف/ 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف/ 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف/ 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٩) اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ سے بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) اور گزشتہ قوموں کے واقعات بیان کرتے ہیں اور ہم نے بذریعہ قرآن کریم آپ کو کرامت وبلندی عطا فرمائی ہے کہ جس قرآن حکیم میں تمام اولین وآخرین کے متعلق معلومات اور باتیں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِ مَا قَدْ سَبَقَ ج) ” اس طرح بذریعہ وحی پچھلی اقوام کے تفصیلی حالات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔ (وَقَدْ اٰتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا ” ہم نے اپنے فضل خاص سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ قرآن عطا کیا ہے۔ اس میں پچھلے زمانے کی خبریں بھی ہیں اور یاد دہانی اور تذکیر و نصیحت بھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

75. Now that the story of Prophet Moses (peace be upon him) comes to an end, the same theme, that was interrupted by this story, has been resumed. 76. That is, the Quran about which it was said at the beginning of the Surah that it had not been sent down to put the Holy Prophet (peace be upon him) in distress, and that it was an admonition for the God-fearing.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :75 موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ختم کر کے اب پھر تقریر کا رخ اس مضمون کی طرف مڑتا ہے جس سے سورہ کا آغاز ہوا تھا ۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک مرتبہ پلٹ کر سورہ کی ان ابتدائی آیات کو پڑھ لیجیے جن کے بعد یکایک حضرت موسیٰ کا قصہ شروع ہو گیا تھا ۔ اس سے آپ کی سمجھ میں اچھی طرح یہ بات آ جائے گی کہ سورہ کا اصل موضوع بحث کیا ہے ، بیچ میں قصہ موسیٰ کس لیے بیان ہوا ہے ۔ اور اب قصہ ختم کر کے کس طرح تقریر اپنے موضوع کی طرف پلٹ رہی ہے ۔ سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :76 یعنی یہ قرآن ، جس کے متعلق آغاز سورہ میں کہا گیا تھا کہ یہ کوئی ان ہونا کام تم سے لینے اور تم کو بیٹھے بٹھائے ایک مشقت میں مبتلا کر دینے کے لیے نازل نہیں کیا گیا ہے ، یہ تو ایک یاد دہانی اور نصیحت ( تذکرہ ) ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے دل میں خدا کا کچھ خوف ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

43: حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں بتایا جارہا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر اس جیسے واقعات کا جاری ہونا جبکہ آپ اُمّی ہیں، اور آپ کے پاس ان معلومات کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں، اور جو آیات آپ تلاوت کر رہے ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمائی ہوئی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٩۔ ١٠١:۔ اوپر موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے مقابلہ کا فرعون اور اس کی قوم کے ڈوب کر ہلاک ہونے کا بنی اسرائیل میں بچھڑے کی پوجا کا پھیلنا اس کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا کہ جس طرح اس سورت میں پہلے لوگوں کے چند قصے بیان کیے گئے ہیں اسی طرح قرآن میں جگہ جگہ پچھلے انبیاء اور پچھلی امتوں کا ذکر آیا ہے تاکہ اہل کتاب ان قصوں کو اپنی کتابوں کے موافق پاکر اور مشرکین مکہ یہ غیب کی باتیں ان پڑھ رسول ( علیہ السلام) سے سن کر قرآن کو اللہ کا کلام اور جن پر یہ کلام اترا ہے ان کو اللہ کا سچا رسول جان لیں پھر فرمایا ایسی سیدھی بات سمجھانے کے بعد بھی جو کوئی قرآن کو اللہ کا کلام نہ مانے گا اور اس کی نصیحت کو قبول کرنے سے منہ پھیرے گا تو قیامت کے دن ایسے گناہوں کے بوجھ کے نیچے یہ لوگ دبے ہوئے ہوں گے جس بوجھ کی سزا میں ہمیشہ گرفتار رہیں گے پھر فرمایا قیامت کے دن وہ بوجھ ان کو بہت برا لگے گا جس کی سزا ان کو ہمیشہ بھگتنی پڑے گی عمرو بن قیس ثقہ تابعی بعضے صحابہ (رض) سے سنی ہوئی روایت بیان کیا کرتے تھے کہ قیامت کے دن اچھے عمل کرنے والے اپنے عملوں پر سوار ہو کر قبروں سے میدان محشر تک جائیں گے اور برے عمل بداعمال لوگوں پر سوار ہوجائیں گے۔ گناہوں کو بوجھ جو فرمایا اس کا مطلب اس روایت سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے کہ عملوں کے تولے جانے کے بعد جس کے نیک عملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ جنتی قرار پائیں گے اور جن کا بدعملوں کا پلڑا بھاری ہوگا وہ دوزخ میں جائیں گے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم اور تفسیر ابن ابی حاتم میں جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت سے ایک حدیث بھی ہے کہ جن لوگوں کے بدعملوں کا بوجھ قیامت کے دن میزان میں بھاری ہوگا وہ دوزخ میں جائیں گے ١ ؎۔ بدعملوں کو برا بوجھ جو فرمایا اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بدعملوں کا بوجھ ایسا بڑا بوجھ ہے کہ جو گویا آدمی کو دوزخ میں ڈال دے گا۔ ١ ؎ فتح الباری ص ١٧٩ ج ٦ باب من وقش الحساب ‘ عذب۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:99) کذلک نقص علیک الخ کلام مستانفہ ہے اور خطاب حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے کہ جس طرح ہم نے ابھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور سامری کا قصہ بیان کیا ہے اسی طرح ہم ماضی کے اور واقعات و حالات بھی تمہیں سناتے ہیں۔ انبائ۔ نبأ کی جمع۔ خبریں۔ حقیقتیں۔ سچی خبریں۔ ما قد سبق جو پہلے ہوچکا ہے۔ جو پہلے گذر چکا ہے۔ اتینک۔ ماضی بمعنی حال۔ ہم تجھ کو دیتے ہیں۔ من لدنا۔ ہماری طرف سے۔ لدنا مضاف مضاف الیہ۔ ہماری طرف۔ ذکرا۔ بمعنی کتاب، قرآن۔ ذکر کو تعظیم وتفخیم کے لئے نکرہ لایا گیا ہے۔ یعنی ذکر عظیم۔ قرآن کریم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 99 تا 112 نقص ہم بیان کرتے ہیں۔ انباء خبریں۔ سبق جو گزر گیا۔ لدنا ہمارے پاس۔ اعرض جس نے منہ پھیرا۔ حمل بوجھ۔ زرق (ازرق) نیلی آنکھیں۔ یتخافتون چپکے چپکے کہیں گے۔ لبثتم تم ٹھہرے رہے ، رکے رہے۔ امثل زیادہ سے زیادہ۔ ینسف وہ اکھاڑدے گا۔ قاع ہموار میدان۔ صفصف چٹیل میدان۔ امت ٹیلہ، ابھری ہوئی زمین۔ خشعت نیچے، پست ہوگی۔ ھمس دھیمی اور ہلکی آواز۔ عنت چھپ جائے گی۔ الوجوہ (وجہ) چہرے۔ ظلم زیادتی۔ ھضم نقصان پہنچنا، حق تلفی کرنا۔ ٹکڑے ہونا۔ تشریح : آیت نمبر 99 تا 112 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی ! قرآن کریم کے ذریعہ ہم آپ کے سامنے قوموں کے جن واقعات اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کے احوال کو بیان کر رہے ہیں ان کا اصل مقصد ہدایت، عبرت اور نصیحت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔ سورة طہ میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا واقعہ اور بنی اسرائیل کے مزاج کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن حکیم اللہ کی وہ آخری کتاب ہدایت ہے جس کی تعلیمات قیامت تک ہر شخص کے لئے رہبر و رہنما ہیں۔ اگر کوئی شخص قرآن حکیم جیسی عظیم کتاب سے منہ پھیرتا ہے یعنی اس کتاب کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے سے گریز کرتا ہے تو اس کو نہ تو اس دنیا میں امن و سکون نصیب ہوگا۔ نہ قیامت کے ہولناک دن اس کی نجات کا سامان میسر آسکے گا بلکہ ان لوگوں کے برے اعمال ان کے سینے پر ایک بوجھ ہوں گے۔ فرمایا کہ وہ دن کس قدر دہشت ناک ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے (حضرت اسرافیل) صور پھونکیں گے اور ایک شخص (یعنی اسرافیل) بلند آواز سے لوگوں کو محشر کی طرف بلائیں گے تو اولین و آخرین کے تمام مردے اپنی اپنی قبروں سے نکل کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔ یہ سب کچھ اس قدر اچانک اور ہولناک انداز سے ہوگا۔ کہ کفر و شرک میں مبتلا لوگ حیران و ششدر اور ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور نیلی پڑجائیں گی۔ ان پر ایسی وحشت طاری ہوگی کہ وہ چپکے چپکے بیان کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے دنیا میں صرف دس دن گزارے ہیں جو ان میں ذرا سوجھ بوجھ کے دعوے دار ہوں گے وہ کہیں گے کہ ”’ اس دن کہاں، ایسا لگتا ہے کہ اس دنیا میں ہم صرف ایک دن رہ کر آگئے ہیں “ اور اب میدان حشر میں جمع کردیئے گئے ہیں۔ فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں بڑے عقل مند بننے کی کوشش کرتے تھے اور کہتے تھے کہ چلو ہم تو ایک کمزور سی مخلوق ہیں لیکن یہ بلند وبالا پہاڑ جو زمین پر میخوں کی طرح گڑے ہوئے ہیں کیا یہ بھی ختم ہوجائیں گے، فرمایا کہ تمہیں اللہ کی طاقت ، قوت اور قدرت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اس کے سامنے یہ پہاڑ کیا چیز ہیں۔ ان کی کیا طاقت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے ان پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اڑا دیں گے اور زمین اس طرح ہموار ہوجائے گی جس میں نشیب و فراز اور اونچ نیچ نہ رہے گی۔ جب صور پھونکا جائے گا اور ان کو جمع ہونے کے لئے کہا جائے گا تو کفار و مشرکین ہر طرف سے مایوس ہو کر اس آواز کی طرف دوڑے آئیں گے ان کی آوازیں اس طرح دب جائیں گی کہ چپکے چپکے باتیں کریں گے اور آوازیں اس قدرت پست ہوں گی کہ سوائے ایک سرسراہٹ کے کچھ سنائی نہ دے گا۔ کفار پر اس قدر مایوسی طاری ہوجائے گی کہ ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ جائیں گی۔ ہر طرف سے مایوس ہوں گے نہ کسی کی سفارش کا آسرا وہ گا اور نہ کوئی اس وحشت میں ڈھارس بند ھانے والا ہوگا۔ اس کے برخلاف جو لوگ صاحب ایمان اور عمل صالح کے پیکر ہوں گے ان کو ہر طرح کی راحتوں سے ہم کنار کیا جائے گا۔ سفارش کے امیدوار اور مستحق ہوں گے۔ ان کو ان کے بہترین اعمال پر جنت کی ابدی راحتیں عطا کی جائیں گی نہ ان کے حق میں کمی کی جائے گی اور نہ ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی کی جائے گی ان آیات کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) قرآن کریم اللہ کی وہ آخری کتاب ہدایت ہے جو تمام انسانوں کے لئے رہبر و رہنما اور معاملات زندگی میں مشعل راہ ہے۔ اس کی تعلیمات بالکل واضح اور آسان ہیں۔ اگر کوئی شخص ان پر عمل کرے گا۔ تو اس کے ایمان میں پختگی کیساتھ ساتھ تمام مصائب ، مشکلات اور تکالیف میں عزم و ہمت کیس اتھ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت پیدا ہوجائے گی اور دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں اس کا مقدر ہوں گی لیکن جو لوگ قرآن کریم اور اس کی تعلیمات سے منہ پھیریں گے یعنی اس کو پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے سے گریز کریں گے تو یہ نہ صرف ان کی بدقسمتی ہوگی بلکہ ایسے لوگوں کا انجام بڑا بھیانک ہوگا۔ اور دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی سے محروم رہیں گے۔ (2) اعلان نبوت کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جان نثار صحابہ کرام جن مصائب اور مشکلات سے گزر رہے تھے تسلی دیتے ہوئے دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں (1) اللہ کے دین کو پھیلانے اور اس کی سربلندی کی کوشش کرنے والے پیغمبروں اور ان کے ساتھیوں پر ہر طرح کی مشکلات آئیں لیکن انہوں نے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے صبر و تحمل سے ہر مصیبت کو برداشت کیا۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ وہ وقتی تکلیفوں کے بعد آخر کار حق و صداقت کی فتح ہوئی اور دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں ان کو عطا کردی گئیں۔ لیکن وہ لوگ جو کفر و شرک میں مبتلا رہے ان لوگوں کی دنیا بھی برباد ہوئی اور آخرت کے ہولناک دن تو خوف و دہشت سے ان کی آنکھیں بھی نیلی پڑجائیں گی۔ (3) فرمایا کہ جب قیامت کے دن صور اسرافیل پھونکا جائے گا تو اگلے پچھلے تمام لوگ زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔ اس دن کفار و مشرکین اور گناہ گاروں پر ایسی وحشت طاری ہوگی کہ ان کے منہ سے الفاظ نکالنا بھی دشوار ہوگا۔ وہ چپکے چپکے باتیں کر کے اپنی شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ دنیا میں ہمیں جتنا بھی موقع ملا تھا ہم نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ شاید وہ مدت دس دن تھی جو دبے قدموں گزر گئی تھی۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو عقل مندی کے دعوے دار ہوں گے وہ کہیں گے کہ دس دن کیسے ہمیں تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ایک دن گزار کر میدان حشر میں پہنچا دیئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت تک رہ کر آئے ہیں۔ (4) جو لوگ کفر و شرک اور گناہوں میں مبتلا ہوں گے وہ اپنے گناہوں کے بوجھ اپنے کاندھوں پر اس طرح لادے ہوئے آئیں گے کہ ان کو کسی طرح کی خیر کی امید نہ ہوگی بلکہ وہ سخت مایوس ہوں گے۔ (5) فرمایا کہ اللہ کی طاقت و قوت اور قدرت ایسی ہے کہ وہ اس کائنات کی ہر چیز کو اور بلند وبالا پہاڑوں کو جب چاہے ذرے بنا کر فضا میں بکھیر سکتا ہے۔ اس کی طاقت کے سامنے کسی کی طاقت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ سوال کہ کیا پہاڑ جیسی طاقتور مخلوق کو اللہ تباہ کرسکتا ہے ایک احمقانہ سوال ہے۔ (6) فرمایا کہ جب تک اللہ کی طرف سے اجازت نہ دی جائے گی اس وقت تک اس کی بارگاہ میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ جب اجازت دی جائے گی تو انبیاء کرام اور اللہ کے صاحب ایمان نیک بندے گناہگاروں کی سفارش کریں گے۔ لیکن کفار و مشرکین اس دن ہر طرح کی سفارش اور کرم سے محروم رہیں گے۔ (7) جو لوگ ایمان اور عمل صالح کا پیکر ہوں گے ان پر قیامت کے دن انتہائی کرم ہوگا۔ ان کو ابدی راحتوں سے ہمکنار کیا جائے گا۔ ان کے درجات میں اضافہ کیا جائے گا اور ان پر کسی طرح کا ظلم اور زیادتی نہ ہوگی یہ ان کا بہترین انجام ہوگا۔ ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٩٣١ ایک نظر میں سورة کے آغاز میں موضوع بحث قرآن مجید تھا کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لئے نازل نہیں ہوا کہ اس کی وجہ سے ان کو مصیبت میں ڈالا جائے۔ اس کے بعد پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کو لے کر یہ ثابت کیا گیا کہ اللہ اپنے بندوں اور رسولوں کے ساتھ کس قدر رعایت کرتا ہے اور ان پر کس قدر مہربانیاں ہوتی ہیں جس طرح حضرت موسیٰ ان کے بھائی اور ان کی قوم پر ہوئی تھیں۔ اس طویل قصے پر اب یہاں تبصرہ کیا جاتا ہے اور موضوع سخن پھر قرآن مجید ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟ جو لوگ اس سے منہ پھیریں گے ، ان کا انجام کیا ہوگا ؟ یہ انجام قیام کے مناظر میں سے ایک منظر کو پیش کر کے بتایا یا ہے کہ دنیا کے شب و روز سکڑ جائیں گے ، زمین کے اوپر سے پہاڑ اڑ جائیں گے اور یہ ننگی رہ جائے گی “ بس ایک چٹیل میدان ہوگا ، لوگ میدان حشر میں سہمے کھڑے ہوں گے اور تمام چہرے حی وقیوم کے سامنے جھکے ہوئے اور سرنگوں ہوں گے۔ یہ منظر اور قرآن مجید کے تمام وہ مناظر جن میں لوگوں کو ڈرایا گیا ہے ، ان سے غرض وغایت صرف یہ ہے کہ لوگوں کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔ قرآن مجید کی بحث کے سلسلے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی بھی دی جاتی ہے کہ آپ قرآن مجید کو نہ بھولیں گے۔ بھول کے خوف سے اس کے دہرانے میں جلدی نہ کیجیے۔ اس کی وجہ سے اپنے اوپر مصیبت نہ لائیے ، اللہ اسے آپ کے لئے آسان کر دے گا اور آپ کو حفظ کرا دیا جائے گا۔ آپ بس یہ دعا کرتے رہیں کہ اے میرے رب ، میرے علم میں اضافہ کر۔ جب وحی نازل ہونے لگتی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی ختم ہونے سے پہلے ہی قرآن کی عبارت کو دہرانا شروع فرما دیتے تھے ، اس خوف سے کہ کہیں بھول نہ جائیں۔ اس بارے میں ان کو تسلی دی گئی لیکن موضوع کی مناسبت سے بتایا گیا کہ آدم (علیہ السلام) اپنے عہد کو بھول گئے تھے۔ ابلیس نے انہیں بھلا دیا تھا اس لئے آدم اور ابلیس کے درمیان جدی دشمنی چلی آرہی ہے۔ اولاد آدم میں سے بعض لوگ اپنے عہد کو بھلاتے ہیں اور بعض اس کو یاد رکھتے ہیں اور اس انجام کو بھی قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر میں پیش کیا جاتا ہے۔ گویا یہ سفر کا انجام ہے جو عالم بالا سے شروع ہوا او اس کا خاتمہ بھی عالم بالا پر جا کر ہوا۔ سورة کا خاتمہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اے رسول آپ ان لوگوں کے لئے پریشان نہ ہوں جو دعوت کی تکذیب کرتے ہیں یا اس سے روگردانی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اس دنیا میں ایک محدود وقت دیا گیا ہے۔ اس محدود وقت میں ان کو جو ساز و سامان اور متاع دنیا کی وافر مقدار دی گئی ہے ، یہ ان کے لئے کوئی بہتری نہیں ہے۔ یہ تو ان کے لئے فتنہ اور آزمائش ہے۔ آپ کو یہ مشورہ بھی دیا جاتا ہے کہ آپ اللہ کی بندگی اور اس کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجائیں ، یوں آپ کو کسی دولت مند کی دولت سے زیادہ اطمینان حاصل ہوگا اور آپ اپنی حالت پر راضی ہوں گے۔ اس سے قبل اللہ نے بہت سی اقوام کو اسی طرح آزمائش میں ڈال کر ہلاک کیا ہے۔ اللہ نے لوگوں کی طرف نبی آخر الزمان اور آخری رسول کو بھیج کر ان پر حجت تمام کردی ہے۔ اب لوگوں کے پاس جو از ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ لہٰذا آپ ان کے انجام کے معاملے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں اور اس کو اللہ پر چھوڑ دیں اور کہہ دیں ۔ قل کل متربص فتربصوا فستعلمون من اصحب الصراط السوی ومن اھتدی (٢٠ : ٥٣١) ” اے محمد ، ان سے کہو ، ہر ایک انجام کار کے انتظار میں ہے ، بس اب منتظر رہو ، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو شخص اللہ کے ذکر سے اعراض کرے گا قیامت کے دن گناہوں کا بوجھ لاد کر آئے گا، مجرمین کا اس حالت میں حشر ہوگا کہ ان کی آنکھی نیلی ہونگی، آپس میں گفتگو کرتے ہوں گے کہ دنیا میں کتنے دن رہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس طرح ہم نے موسیٰ اور فرعون کا واقعہ اور بنی اسرائیل کے بچھڑا پوجنے کا قصہ بیان کیا اسی طرح ہم آپ سے گزشتہ واقعات کی خبریں بیان کرتے ہیں (یہ خبریں آپ کی نبوت کی دلیلیں ہیں آپ انہیں نہیں جانتے تھے صرف وحی کے ذریعہ آپ کو معلوم ہوئیں) اور ہم نے آپ کو اپنے پاس سے ایک نصیحت نامہ دیا۔ اس سے قرآن مجید مراد ہے جو سارے عالم کے انسانوں کے لیے وعظ اور نصیحت ہے جو اس پر عمل کرے گا کامیاب ہوگا اور جو شخص اس سے اعراض کرے گا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اپنے اوپر کفر کا بوجھ لادے ہوئے ہوگا اس طرح کے لوگ ہمیشہ اسی بوجھ میں رہیں گے یعنی اس بوجھ کے اٹھانے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انہیں ہمیشہ عذاب کی جگہ میں رہنا ہوگا۔ اور یہ بوجھ قیامت کے دن ان کے لیے برا بوجھ ہوگا۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں صور پھونکا جائے گا۔ پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو آسمان والے اور زمین والے سب بیہوش ہوجائیں گے اور زندہ انسان سب مرجائیں گے۔ اور دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو سب قبروں سے نکل کر کھڑے ہوجائیں گے اور میدان حشر میں جمع ہوں گے ان محشورین یعنی قیامت کے دن حاضرین میں جو کفار ہوں گے ان کی آنکھیں نیلی ہونگی یہ اس بات کی نشانی ہوگی کہ یہ لوگ مجرم ہیں یہ لوگ خوف زدہ بھی ہوں گے اور خوف کی وجہ سے چپکے چپکے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہونگے کہ قبروں میں کتنے دن رہے ؟ ان میں سے بعض لوگ کہیں گے کہ دس دن رہے ہوں گے مطلب یہ ہے کہ ہم تو حشر نشر ہی کے منکر تھے ہمارا گمان تھا کہ مر مرا گئے خاک میں مل گئے اب کیسا زندہ ہونا اور قبروں سے نکلنا ؟ ہمارا خیال تو غلط نکلا یہ تو بتاؤ قبروں میں کتنے دن رہنا ہوا۔ ان میں سے بعض جواب دیں گے کہ صرف دس دن رہے ہیں۔ اس دن کی پریشانی اور سخت گھبراہٹ کی وجہ سے ان کی سمجھ میں ایسا ہی آئے گا جو مدت دراز انہوں نے برزخ میں گزاری اسے دس دن کی مدت بتائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جس مدت کے بارے میں وہ بات کریں گے ہمیں اس کا خوب علم ہے کہ وہ کتنی تھی، ان میں سے ایک شخص یوں کہے گا کہ تم تو قبروں میں ایک دن رہے ہو۔ جو شخص یہ بات کہے گا اسے (امثلھم طریقۃ) فرمایا۔ یعنی اس کی رائے سب لوگوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ صحیح ہوگی کیونکہ اس یوم کی درازی اور پریشانی کے اعتبار سے گزشتہ جو وقت گزرا اس کی مدت ایک دن بیان کرنا ہی زیادہ اقرب ہے اس شخص کو شدت کا زیادہ ادراک ہوگا اس لیے اس کی رائے بہ نسبت پہلی رائے کے اصح اور اصوب ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ واقعی قبر میں ایک ہی دن رہے۔ یہاں یوں فرمایا کہ مجرمین اس حالت میں محشور ہوں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور سورة الاسراء میں فرمایا کہ (وَ نَحْشُرُھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ عُمْیًا وَّ بُکْمًا وَّ صُمًّا) (کہ ہم انہیں قیامت کے دن اس حال میں جمع کریں گے کہ اندھے اور بہرے اور گونگے ہوں گے) یہ مختلف حالات کے اعتبار سے ہے، عرصہ قیامت بہت طویل ہوگا اس میں مجرمین پر مختلف حالات گزریں گے، لہٰذا کوئی تعارض نہیں۔ اسی طرح یہاں مجرمین کی یہ بات نقل کی کہ کوئی کہے گا کہ قبروں میں دس دن رہے اور کوئی کہے گا کہ ایک دن رہے اور سورة روم میں ہے (وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ ) (اور جس دن قیامت قائم ہوگی مجرمین اس دن قسم کھائیں گے کہ ہم ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے) اور سورة والنازعات میں فرمایا (کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوْآ اِِلَّا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحٰہَا) (جس روز یہ قیامت کو دیکھیں گے تو انہیں ایسا معلوم ہوگا کہ گویا صرف ایک دن کے آخری حصہ میں یا اس کے اول حصہ میں رہے ہیں) یہ احساس اور وجدان مختلف اشخاص کو مختلف احوال میں ہوگا لہٰذا اس میں بھی کوئی تعارض نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

73:۔ کاف بیان کمال کے لیے ہے یعنی ایسی صحیح تفصیلات بیان کرنا ہمارا ہی کام ہے اور کسی کا نہیں۔ اور یہ تیسری آیت تشجیع ہے یعنی گذشتہ انبیاء (علیہم السلام) کے واقعات ہم آپ پر اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ انہوں نے توحید کی خاطر کس قدر مصیبتیں اٹھائیں اس طرح آپ پر بھی مصائب آئیں گے لہذا آپ بھی ان پر صبر کریں اور یہ جملہ معترضہ ہے برائے بیان صداقت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعنی آپ ہماری وحی سے معلوم کر کے گذشتہ لوگوں کی اخبار بیان کر رہے ہیں۔ لہذا آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ 74:۔ ” ذِکْرًا “ سے قرآن کریم مراد ہے۔ و تفسیر الذکر بالقران ھو الذی ذھب الیہ الجمھور (روح ج 16 ص 259) ۔ ” مَنْ اَعْرَضَ عَنْهُ الخ “ منکرین قرآن کے لیے تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

99 جس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ سنایا اسی طرح ہم آپ کو واقعات گزشتہ کی خبریں بھی سناتے ہیں اور ہم نے اپنے پاس سے آپ کو ایک پڑھنے کی اور نصیحت کی کتاب دی ہے۔ یعنی آپ کو قرآن کریم عنایت کیا ہے جس میں واقعات گزشتہ کی خبریں بھی ہیں اور وہ قرآن کریم آپ کی نبوت پر دلیل بھی ہے۔