Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 112

سورة الأنبياء

قٰلَ رَبِّ احۡکُمۡ بِالۡحَقِّ ؕ وَ رَبُّنَا الرَّحۡمٰنُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ ﴿۱۱۲﴾٪  7 النصف

[The Prophet] has said, "My Lord, judge [between us] in truth. And our Lord is the Most Merciful, the one whose help is sought against that which you describe."

خود نبی نے کہا اے رب! انصاف کے ساتھ فیصلہ فرما اور ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے ان باتوں پر جو تم بیان کرتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ ... He said: "My Lord! Judge You in truth! means, judge between us and our people who disbelieve in the truth. Qatadah said: "The Prophets (peace be upon them) used to say: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَـتِحِينَ "Our Lord! Judge between us and our people in truth, for You are the Best of those who give judgment." (7:89), and the Messenger of Allah was commanded to say this too." It was reported from Malik from Zayd bin Aslam that; when the Messenger of Allah witnessed any fighting, he would say: رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ "My Lord! Judge You in truth!" ... وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ Our Lord is the Most Gracious, Whose help is to be sought against that which you attribute! means, `against the various lies and fabrications that you utter, some of which are worse than others; Allah is the One Whose Help we seek against that.' This is the end of the Tafsir of Surah Al-Anbiya'. To Allah be praise and blessings.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

112۔ 1 یعنی اس وعدہ الٰہی میں تاخیر، میں نہیں جانتا کہ تمہاری آزمائش کے لئے ہے یا ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھانے کے لئے مہلت دینا ہے۔ 112۔ 2 یعنی میری بابت جو تم مختلف باتیں کرتے رہتے ہو، یا اللہ کے لئے اولاد ٹھہراتے ہو، ان سب باتوں کے مقابلے میں وہ رب ہی مہربانی کرنے والا اور وہی مدد کرنے والا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٩] اکثر انبیاء جب اپنی زندگی بھر اللہ کی طرف دعوت دینے کے بعد کافروں کی طرف سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے ایسی ہی یا ان الفاظ سے ملے جلے الفاظ میں دعا کی کہ یا اللہ ! اب تو ہی ان کافروں کے اور ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرما دے۔ چناچہ اس رسول (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کافروں کو مخاطب کرکے فرمایا : کہ جس طرح تم اللہ کی آیات کا مذاق اڑاتے رہے ہو اور مسلمانوں کو اپنی تضحیک اور ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے ہو تو اس کے ردعمل کے طور پر ہم اپنے پروردگار کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں جو نہایت مہربان ہے اور ایسے مشکل اوقات میں اسی سے مدد طلب کرنا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قٰلَ رَبِّ احْكُمْ ‎بِالْحَقِّ ۔۔ : پہلے انبیاء کی امتوں نے جب حق کو جھٹلایا تو انھوں نے حق تعالیٰ سے اس دعا سے ملتی جلتی دعا کی جو اس آیت میں مذکور ہے، چناچہ شعیب (علیہ السلام) نے دعا کی : (رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفٰتِحِيْنَ ) [ الأعراف : ٨٩ ] ” اے ہمارے رب ! ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ “ اور ان سب پیغمبروں کے متعلق فرمایا جنھیں ان کی قوم نے کفر اختیار نہ کرنے کی صورت میں اپنی بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی : (وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ ) [ إبراہیم : ١٥ ] ” اور انھوں نے (حق تعالیٰ سے) فیصلہ مانگا اور ہر سرکش، سخت عناد رکھنے والا نامراد ہوا۔ “ ” قٰلَ رَبِّ احْكُمْ ‎بِالْحَقِّ “ کے ” قٰلَ “ میں دو قراءتیں ہیں، ایک امر کے صیغے کے ساتھ ” قُلْ “ ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ یہ کہیں جو اس آیت میں مذکور ہے۔ دوسری قراءت ، جو ہمارے ہاں رائج ہے، اس کے مطابق یہ ماضی کا صیغہ ” قَالَ “ ہے، جس کا معنی ہے، اس نے کہا۔ اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے اس رسول نے بھی کفار کے جھٹلانے اور جلاوطن کرنے کی کوششوں کی وجہ سے ہم سے یہ کہا جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی بھی داعی جب ایسے حالات سے دو چار ہو تو اسے یہ دعا کرنی چاہیے۔ 3 قرآن مجید کے رسم الخط میں اس آیت کا پہلا لفظ الف کے بغیر ” قٰلَ “ لکھا گیا ہے، جسے ” قُلْ “ اور ” قَالَ “ دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہے، جس طرح ” مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ “ میں ” مَلِکِ “ اور ” مَالِکِ “ دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہے اور یہ قرآن مجید کے رسم الخط کا کمال ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قٰلَ رَبِّ احْكُمْ ‎بِالْحَقِّ۝ ٠ۭ وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ۝ ١١٢ۧ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ استِعَانَةُ : طلب العَوْنِ. قال : اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة/ 45] الا ستعانہ مدد طلب کرنا قرآن میں ہے : ۔ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ [ البقرة/ 45] صبر اور نماز سے مدد لیا کرو ۔ وصف الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ : الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] ( و ص ف ) الوصف کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١٢) آپ فرما دیجیے کہ میرے اور مکہ والوں کے درمیان حق اور عدل کے موافق فیصلہ فرما دیجیے اور ہمارا رب بڑا مہربان ہے جس سے ہم ان جھوٹی باتوں کے مقابلہ میں مدد چاہتے ہیں جو تم بنایا کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١٢ (قٰلَ رَبِّ احْکُمْ بالْحَقِّ ط) ” چونکہ کفار کے ساتھ کش مکش اور ردّوکدح کا سلسلہ بہت طوالت اختیار کر گیا تھا ‘ اس لیے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اب آخری فیصلہ آجانا چاہیے۔ (وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ ) ” اس فرمان کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ اے گروہ منکرین ! تم لوگوں کی مخالفت ‘ ہٹ دھرمی اور سازشوں کے خلاف میں اپنے پروردگار سے مدد کا طلب گار ہوں جو مجھ پر بہت مہربان ہے۔ چناچہ پچھلے کئی برس سے جو رویہ تم لوگ میرے خلاف ‘ میری دعوت کے خلاف اور میرے پیروکاروں کے خلاف اپنائے بیٹھے ہو وہ اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ یقیناً ہماری مدد فرمائے گا اور تم لوگوں کو تمہارے کرتوتوں کی قرار واقعی سزا دے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١٢:۔ یہ اللہ کے رسول کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے مشرکین مکہ کی سرکشی سے تنگ آن کر اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں کی تھی ‘ حاصل اس بددعا کا یہ ہے کہ یا اللہ جو لوگ تیری عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں اور تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں اور جو غریب لوگ راہ راست پر آئے ہیں ان کو طرح طرح سے ستاتے ہیں ‘ ان سرکش لوگوں کی سرکشی کے مٹ جانے میں تجھ سے ہی مدد چاہی جاتی ہے ‘ ان سرکشوں اور اپنے رسول کا اپنے انصاف کے موافق یا اللہ کوئی فیصلہ جلدی سے فرماوے اللہ تعالیٰ کے انتظام میں دنیا کے پیدا ہونے سے پچاس ہزار برس پہلے ہر کام کا وقت مقرر ہوچکا ہے چناچہ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن عمرو بن العاص کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے اس واسطے اللہ کے رسول کی اس بددعا کے ظہور کا ایک وقت تو بدر کی لڑائی کے موقع پر آیا کہ اس لڑائی کے موقع پر بڑے بڑے سرکش معاندین نہایت ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو سچا پالیا۔ یہ قصہ صحیح بخاری ومسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے ‘ دوسرا موقع فتح مکہ کے وقت آیا کہ مشرکین مکہ جن بتوں کی حمایت میں اللہ کے رسول کو جھٹلاتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ سے فتح مکہ کے وقت ان بتوں کو یہ ذلت دلوائی کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان بتوں کو اپنے ہاتھ کی لکڑی سے مار مار کر زمین میں ڈال دیا اور کسی مشرک کو اپنے جھوٹے معبودوں کی حمایت کی جرأت نہ ہوئی یہ قصہ بھی صحیح بخاری کی عبداللہ بن مسعود کی اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ (رض) کی روایت سے کئی جگہ گزر چکا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:112) رب۔ (اے) میرے رب۔ احکم۔ حکم (باب نصر) سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ۔ تو فیصلہ کر دے۔ تو حکم کر۔ المستعان۔ اسم مفعول واحد مذکر۔ استعانۃ (استفعال) مصدر۔ وہ جس سے مدد مانگی جائے۔ استعانۃ مدد مانگنا۔ سورة الفاتحہ میں ہے ایاک نستعین۔ (1:4) بس ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ اعانت۔ مدد۔ مدد دینا۔ تعاون (تفاعل) باہم مدد کرنا۔ علی ما تصفون۔ ان باتوں پر جو تم کرتے ہو۔ (مراد کفار کی دھمکیاں ۔ یا کلمات کفرو الحاد) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ عملی فیصلہ کردیجئے یعنی مسلمانوں کے جس غلبہ کی پیشنگوئی ہے اس کو واقع کردیجئے، تاکہ حجت اور زیادہ تام ہوجاوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال رب احکم بالحق و ربنا الرحمٰن المستعان علی ماتصفون (٢١ : ١١٢) ترجمہ :۔ ” آخر کار رسول نے کہا کہ اے رب حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور لوگو ! تم جو باتیں بناتے ہو ، ان کے مقابلے میں ہمارا رب رحمٰن ہی ہمارے لئے مدد کا سہارا ہے۔ “ آخر میں صفت رحمت کا ذکر خاص قابل توجہ ہے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا۔ لیکن لوگوں نے آپ کی تکذیب کی ، مذاق کیا ، اس لئے اللہ ہی رسول پر رحم کرسکتا ہے اور رحم و کرم کا ضامن ہے۔ اس طرح سورة کا آغاز اور انجام دونوں ایک ہی مضمون سے مملو ہوجاتے ہیں ، نہایت ہی موثر انداز میں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(قٰلَ رَبِّ احْکُمْ بالْحَقِّ وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ ) (پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا اے میرے رب حق کے ساتھ فیصلہ فرما دیجیے اور ہمارا رب رحمن ہے جس سے ان باتوں کے مقابلہ میں مدد چاہی جاتی ہے جو تم لوگ بیان کرتے ہو) یہ سب باتیں بیان کرنے کے بعد پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی کہ اے میرے رب میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دیجیے۔ دشمنان اسلام کے سامنے کوئی ایسی صورت پیش آجائے جس سے اپنے بارے میں یہ سمجھ لیں کہ وہ باطل پر ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔ حق اور باطل فیما بین العباد فیصلہ سامنے لانے کے لیے غزوۂ بدر پیش آیا جس میں بڑے بڑے کفر کے سر غنے مارے گئے جو خود یہ دعا کر کے چلے تھے کہ اے اللہ ہمارا اور محمد ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقابلہ ہے جو حق پر ہو اسے غالب کر۔ کما مر فی تفسیر قولہ تعالیٰ (اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَکُمُ الْفَتْحُ ) (سورۃ الانفال) اسی لیے غزوۂ بدر کے دن کو یوم الفرقان فرمایا ہے۔ مشرکین مکہ یہ چاہتے تھے کہ داعی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھی نیست و نابود ہوجائیں جس سے ان کا یہ مقصد تھا کہ دین اسلام ختم ہوجائے۔ اس کی دعوت دینے والا، اس کا نام لینے والا کوئی نہ رہے۔ ان کی اس خواہش کا جواب دیتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم لوگ جو باتیں کہتے ہو اور ہمارے خلاف جو ارادے رکھتے ہو اس کے مقابلہ میں ہم اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ وہ رحمن ہے ہم پر رحم فرمائے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رحم فرمایا اور کافر اور ان کے ارادے نیست و نابود ہوگئے۔ و ھذا آخر الکلام فی تفسیر سورة الانبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام والحمد للہ علی التمام و الصلوٰۃ والسلام علی البدر التمام و علی الہ و اصحابہ البررۃ الکرام الی یوم القیام

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91:۔ ” قَالَ رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ الخ “ یہ تخویف اخروی ہے کیو کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کی حکایت فرمائی ہے کہ اے پروردگار ہمارے اور ان مشرکین کے درمیان جلد فیصلہ فرما دے۔ ہمیں غلبہ عطا کر اور ان کو مغلوب و مقہور اور ذلیل و خوار کر تو گویا یہ ان کے لیے عذاب دنیا کی بد دعا ہے ای رب اقض بیننا وبین اھل مکۃ بالعدل المقتضی لتعجیل العذاب والتشدید علیہم فھو دعاء بالتعجیل والتشدید والانکل قضائہ تعالیٰ عدل و وحق (روح ج 17 ص 108) ۔ 92:۔ ” وَ رَّبُّنَا الرَّحْمٰنُ الخ “ اور ہمارا رب اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے اور ہر آڑے وقت میں ہمارا کارساز اور مددگار ہے اے مشرکین جو کچھ تم کہہ رہے ہو۔ اور اپنی بہادری اور دلیری کی جو ڈینگیں مار رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو ناکام کرے گا اور تمہارے مقابلے میں ہماری مدد کرے گا۔ مشرکین کہتے تھے کہ آخر شوکت و غلبہ ان کو حاصل ہوگا اور وہ اسلام کا جھنڈا سرنگوں کردیں گے۔ مگر اللہ نے ایمان والوں کو غلبہ اور عزت سے سرفراز فرمایا اور مشرکین کو سرنگوں کردیا اور اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا قبول فرما لی۔ انھم کانوا یقولون ان الشوکۃ تکون لھم وان رایۃ الاسلام تخفق۔ فاستجاب اللہ عز وجل دعوۃ رسولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فخیب اٰمالم و غیر احوالھم ونصر اولیاء ہٗ علیھم فاصابھم یوم بدر ما اصابھم (روح ج 17 ص 108) ۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ سورة انبیاء ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(112) پیغمبر (علیہ السلام) نے یوں دعا کی اے میرے پروردگار میرے اور میری قوم کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور ہمارا پروردگار بےحد مہربان ہے اور ان باتوں کے مقابلے میں جو تم بناتے رہتے ہو اسی سے مدد چاہی اور طلب کی جاتی ہے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب ان کی قوم نے ان کو تنگ کیا اور لغو باتوں سے ان کو پریشان کیا تو جناب باری عزاسمہ کی بارگاہِ عالی میں دعا کرتے تھے۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا فرمائی کہ پروردگار یہ لوگ تو کسی طرح میری دعوت و تبلیغ کو قبول نہیں کرتے۔ بلکہ ہر بات کا مذاق اڑاتے اور استہزا کرتے ہیں اب تو ہی میرے اور ان کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ اور چونکہ تیرا ہر فیصلہ مبنی برانصاف ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا رب احکم رحکمک الحق یعنی آپ فیصلہ فرما دیجئے اور آپ کا فیصلہ ہمیشہ حق اور انصاف ہی ہوتا ہے۔ ہمارا پروردگار رحمان ہے اور اسی سے ہر معاملہ میں مدد طلب کی جاتی ہے جس قسم کی تم باتیں بناتے رہتے ہو ان کے مقابلہ میں اسی سے مدد مانگتا ہوں۔ (112) الحمد للہ والمنتہ آج سورة انبیآء کی تیسیر ختم ہوئی 29 ذی الحجہ 1372؁ھ مطابق یکم ستمبر 1953 ئ؁