Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 30

سورة الأنبياء

اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۳۰﴾

Have those who disbelieved not considered that the heavens and the earth were a joined entity, and We separated them and made from water every living thing? Then will they not believe?

کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا ، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Signs of Allah in the Heavens and the Earth and in the Night and the Day Here Allah tells of His perfect might and power in His creation and subjugation of all things. أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا ... Have not those who disbelieve known, means, those who deny His Divine nature and worship others instead of Him, do they not realize that Allah is the One Who is Independent in His powers of creation and is running the affairs of all things with absolute power. So how can it be appropriate to worship anything else beside Him or to associate others in worship with Him! ... أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ... known that the heavens and the earth were joined together as one united piece, then We parted them! Do they not see that the heavens and the earth were joined together, i.e. in the beginning they were all one piece, attached to one another and piled up on top of one another, then He separated them from one another, and made the heavens seven and the earth seven, placing the air between the earth and the lowest heaven. Then He caused rain to fall from the sky and vegetation to grow from the earth. He says: ... وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَ يُوْمِنُونَ And We have made from water every living thing. Will they not then believe! meaning, they see with their own eyes how creation develops step by step. All of that is proof of the existence of the Creator Who is in control of all things and is able to do whatever He wills. In everything there is a Sign of Him, showing that He is One Sufyan Ath-Thawri narrated from his father from Ikrimah that Ibn Abbas was asked; "Did the night come first or the day?" He said, "Do you think that when the heavens and the earth were joined together, there was anything between them except darkness! Thus you may know that the night came before the day. Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Umar said that; a man came to him and questioned him about when the heavens and earth were joined together then they were parted. He said, "Go to that old man (Sheikh) and ask him, then come and tell me what he says to you." So he went to Ibn Abbas and asked him. Ibn Abbas said: "Yes, the heavens were joined together and it did not rain, and the earth was joined together and nothing grew. When living beings were created to populate the earth, rain came forth from the heavens and vegetation came forth from the earth." The man went back to Ibn Umar and told him what had been said. Ibn Umar said, "Now I know that Ibn Abbas has been given knowledge of the Qur'an. He has spoken the truth, and this is how it was." Ibn Umar said: "I did not like the daring attitude of Ibn Abbas in his Tafsir of the Qur'an, but now I know that he has been given knowledge of the Qur'an." Sa`id bin Jubayr said: "The heavens and the earth were attached to one another, then when the heavens were raised up, the earth became separate from them, and this is their parting which was mentioned by Allah in His Book." Al-Hasan and Qatadah said, "They were joined together, then they were separated by this air." ... وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ .. And We have made from water every living thing. meaning, the origin of every living thing is in water. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said, "I said: O Messenger of Allah, when I see you I feel happy and content, tell me about everything." He said, كُلُّ شَيْءٍ خُلِقَ مِنْ مَاء "Everything was created from water." I said, tell me about something which, if I do it, I will enter Paradise." He said: أَفْشِ السَّلَمَ وَأَطْعِمِ الطَّعَامَ وَصِلِ الاَْرْحَامَ وَقُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ ثُمَّ ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِسَلَم Spread (the greeting of) Salam, feed others, uphold the ties of kinship, and stand in prayer at night when people are sleeping. Then you will enter Paradise in peace. This chain of narration fulfills the conditions of the Two Sahihs, apart from Abu Maymunah, who is one of the men of the Sunans, his first name was Salim; and At-Tirmidhi classed him as Sahih.

زبردست غالب اللہ تعالیٰ اس بات کو بیان فرماتا ہے کہ اس کی قدرت پوری ہے اور اس کا غلبہ زبردست ہے ۔ فرماتا ہے کہ جو کافر اللہ کے سوا اوروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور سب چیز کا نگہبان بھی وہی ہے پھر اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت تم کیوں کرتے ہو؟ ابتدا میں زمین وآسمان ملے جلے ایک دوسرے سے پیوست تہ بہ تہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا زمینیں پیدا کیں اور سات ہی آسمان بنائے ۔ زمین اور پہلے آسمان کے درمیان جوف اور خلا رکھا ۔ آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے پیداوار اگائی ۔ ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی ۔ کیا یہ تمام چیزیں جن میں سے ہر ایک صانع کی خود مختاری ، قدرت اور وحدت پر دلالت کرتی ہے اپنے سامنے موجود پاتے ہوئے بھی یہ لوگ اللہ کی عظمت کے قائل ہو کر شرک کو نہیں چھوڑتے؟ ففی کل شئلہ ایتہ تدل علی انہ واحد یعنی ہر چیز میں اللہ کی حکمرانی اور اس کی وحدانیت کا نشان موجود ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ پہلے رات تھی یا دن؟ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زمین وآسمان ملے جلے تہ بہ تہ تھے تو ظاہر ہے کہ ان میں اندھیرا ہوگا اور اندھیرے کا نام ہی رات ہے تو ثابت ہوا کہ رات پہلے تھی ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جب اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا تم حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کرو اور جو وہ جواب دیں مجھ سے بھی کہو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا زمین وآسمان سب ایک ساتھ تھے ، نہ بارش برستی تھی ، نہ پیداوار اگتی ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی ۔ جب سائل نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ جواب بیان کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے آج مجھے اور بھی یقین ہوگیا کہ قرآن کے علم میں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی بڑھے ہوئے ہیں ۔ میرے جی میں کبھی خیال آتا تھا کہ ایسا تو نہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جرات بڑھ گئی ہو؟ لیکن آج وہ وسوسہ دل سے جاتا رہا ۔ آسمان کو پھاڑ کر سات آسمان بنائے ۔ زمین کے مجموعے کو چیر کر سات زمینیں بنائیں ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر میں یہ بھی ہے کہ یہ ملے ہوئے تھے یعنی پہلے ساتوں آسمان ایک ساتھ تھے اور اسی طرح ساتوں زمینیں بھی ملی ہوئی تھیں پھر جدا جدا کردی گئیں ۔ حضرت سعید رحمتہ اللہ علیہ کی تفسیر ہے کہ یہ دونوں پہلے ایک ہی تھے پھر الگ الگ کردیئے گئے ۔ زمین وآسمان کے درمیان خلا رکھ دی گئی پانی کو تمام جانداروں کی اصل بنا دیا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میں آپ کو دیکھتا ہوں میرا جی خوش ہوجاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں آپ ہمیں تمام چیزوں کی اصلیت سے خبردار کردیں ۔ آپ نے فرمایا ابو ہریرہ تمام چیزیں پانی سے پیدا کی گئی ہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ پھر میں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں ؟ آپ نے فرمایا لوگوں کو سلام کیا کرو اور کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کرتے رہو اور رات کو جب لوگ سوتے ہوئے ہوں تو تم تہجد کی نماز پڑھا کرو تاکہ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ ۔ زمین کو جناب باری عزوجل نے پہاڑوں کی میخوں سے مضبوط کردیا تاکہ وہ ہل جل کر لوگوں کو پریشان نہ کرے مخلوق کو زلزلے میں نہ ڈالے ۔ زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لئے کھلا ہوا ہے ۔ تاکہ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کر سکیں ۔ پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنا دیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کرسکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں ۔ شان الٰہی دیکھئے اس حصے اور اس کے ٹکڑے کے درمیان بلند پہاڑی حائل ہے یہاں سے وہاں پہنچنا بظاہر سخت دشوار معلوم ہوتا ہے لیکن قدرت الہٰی خود اس پہاڑ میں راستہ بنادیتی ہے کہ یہاں کے لوگ وہاں اور وہاں کے یہاں پہنچ جائیں اور اپنے کام کاج پورے کرلیں ۔ آسمان کو زمین پر مثل قبے کے بنا دیا جیسے فرمان ہے کہ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم وسعت اور کشادگی والے ہیں فرماتا ہے قسم آسمان کی اور اس کی بناوٹ کی ۔ ارشاد ہے کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان کے سروں پر آسمان کو کس کیفیت کا بنایا ہے اور کس طرح زینت دے رکھی ہے اور لطف یہ ہے کہ اتنے بڑے آسمان میں کوئی سوارخ تک نہیں ۔ بنا کہتے ہیں قبے یا خیمے کے کھڑا کرنے کو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنائیں پانچ ہیں جیسے پانچ ستون پر کوئی قبہ یا خیمہ کھڑا ہوا ہو ۔ پھر آسمان جو مثل چھت کے ہے ۔ یہ ہے بھی محفوظ بلند پہرے چوکی والا کہ کہیں سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ بلندوبالا اونچا اور صاف ہے جیسے حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یہ آسمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا رکی ہوئی موج ہے ۔ یہ روایت سنداً غریب ہے لیکن لوگ اللہ کی ان زبردست نشانیوں سے بھی بےپرواہ ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آسمان وزمین کی بہت سی نشانیاں ہیں جو لوگوں کی نگاہوں تلے ہیں لیکن پھر بھی وہ ان سے منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ کوئی غور و فکر ہی نہیں کرتے کبھی نہیں سوچتے کہ کتنا پھیلا ہوا کتنا بلند کس قدر عظیم الشان یہ آسمان ہمارے سروں پر بغیر ستون کے اللہ تعالیٰ نے قائم کر رکھا ہے ۔ پھر اس میں کس خوبصورتی سے ستاروں کاجڑاؤ ہو رہا ہے ۔ ان میں بھی کوئی ٹھیرا ہوا ہے کوئی چلتا پھرتا ہے ۔ پھر سورج کی چال مقرر ہے ۔ اس کی موجودگی دن ہے اس کا نظر نہ آنا رات ہے ۔ پورے آسمان کا چکر صرف ایک دن رات میں سورج پورا کرلیتا ہے ۔ اس کی چال کو اس کی تیزی کو بجز اللہ کے کوئی نہیں جانتا ۔ یوں قیاس آرائیاں اور اندازے کرنا اور بات ہے ۔ بنی اسرائیل کے عابدوں میں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدت عبادت پوری کر لی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہوجایا کرتا تھا اس پر نہ ہوا تو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا ۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانے میں کوئی گناہ کرلیا ہوگا ؟ اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں ۔ کہا پھر تم نے کسی گناہ کا پورا قصد کیا ہوگاجواب دیا کہ ایسا بھی مطلقا نہیں ہوا ۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غور وتدبر کے بغیر ہی ہٹالی ہو ۔ عابد نے جواب دیا ایسا تو برابر ہوتا رہا فرمایا بس یہی سبب ہے ۔ پھر اپنی قدرت کاملہ کی بعض نشانیاں بیان فرماتا ہے کہ رات اور اس کے اندھیرے کو دیکھو ، دن اور اس کی روشنی پر نظر ڈالو ، پھر ایک کے بعد دوسرے کا بڑھنا دیکھو ، سورج چاند کو دیکھو ۔ سورج کا نور ایک مخصوص نور ہے اور اس کا آسمان اس کا زمانہ اس کی حرکت اس کی چال علیحدہ ہے ۔ چاند کا نور الگ ہے ، فلک الگ ہے ، چال الگ ہے ، انداز اور ہے ۔ ہر ایک اپنے اپنے فلک میں گویا تیرتا پھرتا ہے اور حکم الٰہی کی بجا آوری میں مشغول ہے ۔ جیسے فرمان ہے وہی صبح کاروشن کرنے والا ہے وہی رات کو پرسکون بنانے والاہے ۔ وہی سورج چاند کا انداز مقرر کرنے والا ہے ۔ وہی ذی عزت غلبے والا اور ذی علم علم والاہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی آسمان و زمین، ابتدائے امر ہیں، باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے۔ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا، آسمانوں کو اوپر کردیا جس سے بارش برستی ہے اور زمین کو اپنی جگہ پر رہنے دیا، تاہم وہ پیداوار کے قابل ہوگئی۔ 30۔ 2 اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس کی روئیدگی ہوتی ہے اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے اور اگر مراد نطفہ ہے، تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کے باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی پیٹھ کی ہڈیوں سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جاکر قرار پکڑتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] اس آیت میں رتق اور فتق کے الفاظ استمعال ہوئے ہیں۔ اور یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ رتق کے معنی دو چیزوں یا کئی چیزوں کا مل کر جڑ جانا اور چیدہ ہوتا ہے اور فتق کے معنی ایسی گڈ مڈ شدہ اور جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کردیتا ہے۔ اس آیت میں کائنات کا نقطہ آغاز بیان کیا گیا ہے کہ ابتداء صرف ایک گڈ مڈ اور کئی چیزوں سے مخلوط مادہ تھا۔ اسی کو کھول کر اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور دوسرے اجرام فلکی کو پیدا فرمایا۔ [٢٦] ہر وہ چیز جس میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہوں اس کی زندگی کا سبب پانی ہی ہوتی ہے اور اس میں نباتات، حیوانات سب شامل ہیں۔ اور ایسی تمام اشیاء پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے جیسے فرمایا : (وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي بَطْنِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي رِجْلَيْنِ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰٓي اَرْبَعٍ ۭ يَخْلُقُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 45؀) 24 ۔ النور :45) اس لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر چیز کی پیدائش میں پانی کی موجودگی ضروری ہے اگرچہ یہ غالب عنصر کے طور پر نہ ہو۔ جیسے انسان کی پیدائش میں غالب عنصر مٹی ہے اور جنوں کی پیدائش میں آگ۔ اور اس کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ تمام موجودات میں پانی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ کتاب و سنت میں یہ صراحت میں ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب صرف پانی ہی پانی تھا اور اس پر اللہ کا عرش تھا اور پانی کے علاوہ کوئی دوسری چیز موجود نہ تھی۔ پھر ہر طرح کی تخلیق کا آغاز پانی سے ہی ہوا۔ حتیٰ کہ جمادات میں بھی پانی کا کچھ نہ کچھ حصہ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ جڑی ہوئی ہے اگر اس سے پانی کو ختم کردیا جائے تو وہ چیز ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا ۔۔ : ” رَتْقًا “ کا معنی دو یا کئی چیزوں کا آپس میں سختی سے جڑا اور چپکا ہوا ہونا ہے، خواہ وہ فطری ہو (جیسے پتھر) یا کسی کے بنانے سے۔ (راغب) یہ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے، یعنی بالکل بند۔ ” فَتْقٌ“ کا معنی ایسی جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کرنا ہے۔ ” اَوَلَمْ يَرَ “ کا معنی ہے ” اور کیا دیکھا نہیں “ اور جہاں دیکھی جانے والی چیز نہ ہو وہاں معنی ہے ” اور کیا جانا نہیں۔ “ (دیکھیے سورة فیل) اس آیت کے دو معنی ہیں اور دونوں درست ہیں۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے : ( کَانَتَا مُلْتَزِقَتَیْنِ ) ” سارے آسمان اور زمین آپس میں سختی سے ملے ہوئے تھے۔ “ یعنی کیا یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ بےبس ہستیوں کو شریک بنا رہے ہیں، انھیں معلوم نہیں کہ سارے آسمان اور زمین ایک ٹھوس تودہ تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی بےپناہ قوت اور کمال قدرت کے ساتھ ان کو الگ الگ کرکے درمیان میں ہوا اور خلا کا فاصلہ کردیا اور آسمانوں کو سات آسمان اور زمین کو سات زمینیں بنادیا۔ دیکھیے سورة طلاق (١٢) بھلا اس کے سوا کسی کی یہ مجال ہے ؟ آج کل سائنس بھی تسلیم کرتی ہے کہ کائنات پہلے ایک تودے کی شکل میں تھی، پھر ایک بہت بڑے دھماکے کے ساتھ جدا جدا ہوئی، مگر بےچارے سائنس دان وہ دھماکا کرنے والے سے ناآشنا ہی رہے۔ (الا ما شاء اللہ) دوسرا معنی یہ ہے کہ کیا اللہ کی توحید کے منکروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان بند تھا، اس سے ایک قطرہ نہیں برستا تھا اور زمین بند تھی، اس سے ایک پتا نہیں اگتا تھا ؟ ہم نے اپنی قدرت کاملہ کے ساتھ اپنی مخلوق کے فائدے کے لیے بارش کے ساتھ آسمان کے دہانے کھول دیے اور اس کے ساتھ زمین کے مسام کھول کر طرح طرح کی نباتات پیدا فرما دیں۔ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ : اس میں انسان، حیوان، پودے اور درخت سب شامل ہیں۔ پانی سے جاندار چیز کی پیدائش کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نور (٤٥) اور نباتات کی پیدائش کے لیے دیکھیے سورة انعام (٩٩) ۔ 3 ہمارے استاذ محمد عبدہ (رض) امام رازی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” یعنی جن چیزوں میں جان ہے، جیسے حیوانات اور نباتات، ان سب کی پیدائش پانی سے ہے، لیکن فرشتے اور جن یا دوسری کوئی چیز جس کے متعلق ثابت ہوجائے کہ اس کے مادہ میں پانی کو دخل نہیں ہے، وہ اس سے مستثنیٰ قرار پائیں گی۔ “ (کبیر) دراصل یہ اس سوال کا جواب ہے کہ فرشتے اور جن تو پانی سے نہیں بلکہ نور اور آگ سے پیدا ہوئے ہیں، ان کی پیدائش پانی سے کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے ؟ اس جواب کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ” کُلٌّ“ سے مراد کائنات کی ہر چیز نہیں ہوتی، بلکہ ہر موقع کی مناسبت سے ” کُلٌّ“ کا معنی کیا جاتا ہے، جیسا کہ ملکہ سبا کے متعلق ہد ہد نے کہا تھا : (وَاُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ عَظِيْمٌ) [ النمل : ٢٣ ] ” اور اسے ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے۔ “ اور قوم عاد پر آنے والی آندھی کے متعلق اللہ نے فرمایا : (تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا ) [ الأحقاف : ٢٥ ] ” جو ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے برباد کر دے گی۔ “ مفسر رازی کا یہ جواب معقول ہے۔ تاہم اگر ” كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ “ ہر زندہ چیز کا وجود پانی سے مان لیا جائے، جس میں انسان کے ساتھ جن اور فرشتے بھی شامل ہوں تو کچھ بعید نہیں، جب مٹی سے بننے والے انسان کا اصل پانی ہے تو آگ اور نور سے بننے والے جنوں اور فرشتوں کا اصل بھی پانی ہوسکتا ہے۔ آج جب ایٹم کو پھاڑنے کی صورت میں مادے کا توانائی میں بدلنا مشاہدے سے ثابت ہوچکا ہے، جس سے انسان کو بےپناہ تعمیری اور تخریبی قوت حاصل ہوئی ہے اور قیامت کے دن سمندر کے پانی آگ کی صورت اختیار کر جائیں گے (دیکھیے سورة تکویر : ٦) تو اللہ کے حکم سے پانی آگ کے علاوہ نور کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔ (واللہ اعلم) اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ : یعنی زمین و آسمان میں حیرت انگیز نظام قائم کرنے والے ہم ہیں، کوئی اور نہیں، کیا اس پر بھی یہ لوگ توحید کا راستہ اختیار نہیں کرتے، بلکہ دوسروں کو ہمارا شریک سمجھ رہے ہیں ؟ رازی فرماتے ہیں : ” اس آیت (٣٠) سے آیت (٣٣) تک چار آیات میں کائنات کو بنانے والے کے وجود اور اس کے صرف ایک ہونے کے چھ قسم کے دلائل مذکور ہیں۔ “ (کبیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary أَوَلَمْ يَرَ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا (Have the disbelievers not seen. - 21:30) Here the word رُؤیَت (to see, to think) is used in its general sense i.e. knowledge, whether acquired by visual observation or by way of logical conclusion. The discussion which follows refers partly to actual observation and partly to logical inference. أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ كَانَتَا رَ‌تْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا (The heavens and the earth were closed, then We opened them. - 30) The word رَتَق (ratq) means to close and فَتَق (fatq) means to open. When used in combination the words mean full control in the management and execution of a job. The translation of the verse is that the earth and the sky were closed and Allah opened them up. Different exegesists have explained differently the sense of the words |"closing|" and |"opening|", but the meanings which the companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the majority of the exegesists have adopted are that closing of sky and earth means shutting off rainfall from the sky and vegetation from the earth, and opening means the opening of these two i.e. the rainfall and vegetation. The following story about Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) has been related in Ibn Kathir&s commentary on the authority of Ibn Abi Hatim. A man went to Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) and requested him to explain the meaning of this verse to him. He pointed out towards Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and told him to go to him for an explanation of the verse. He also requested him to let him know the explanation that Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) gave to him. The man went to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) and asked him what do the words رَتَقاً (ratqan) and فَتَقنَا (fata¬qna) mean in the verse. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) replied that originally the sky was closed and there was no rainfall, likewise the earth was closed and there was no growth on it. When Allah Ta&ala sent down man on earth to live here He opened up rainfall from the sky and the vegetation from the earth. After learning the explanation of the verse the man went back to Sayyidna Ibn ` Umar (رض) and repeated to him what he had learnt from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . Then Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) remarked that he was then left in no doubt that Allah Ta&ala had graciously bestowed upon Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) a complete knowledge of Qur&an. He further said that previously he used to consider Sayyidna Ibn ` Abbas&s (رض) explanations of the Holy Qur&an as bold attempts, of which he did not approve. But now he was convinced that Allah Ta&ala had granted to him special insight into the meaning of Qur&an, and that the explanation he gave of the words رَتق و فَتق was absolutely correct. This story of Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) is also reported in Ruh ul-Ma` ani through Ibn Mundhir and Abu Nu&aim, and a group of the scholars of hadith including Hakim, the writer of Mustadark, who has accepted the tradition as correct. After reporting this narration Ibn Ibn ` Atiyyah al-&Aufi says that this interpretation is hasan and comprehensive, and is compatible with the text of the Qur&an. It contains a lesson and argument against the infidels and also mentions about the Omnipotence and the special bounties of Allah Ta&ala, which is the basis of His Oneness and recognition of His attributes. The following sentence وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّ‌جْعِ ﴿١١﴾ وَالْأَرْ‌ضِ ذَاتِ الصَّدْعِ ﴿١٢﴾ (and We created from water every living thing) also corroborates this interpretation. Al-Bahr ul-Muhit has also adopted the same interpretation. Qurtubi has declared this explanation to be that of ` Ikrimah as well and said that another verse also endorses this meaning.& Tabari has also adopted this very interpretation. وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (And We created from water every living thing. - 21:30) Water is an essential element in the creation of all living things. According to the latest research it is not only the humans and animals which possess both life and soul but also plants and minerals. Water plays a very important role in the creation, growth and evolution of all living things. 1. The author has explained the interpretation of this verse as adopted by many authorities. But the miraculous style of the Holy Qur’ an is that the words used by it may have different possibilities for interpretation. The words ratq and fatq used here have another meaning which is &being compact& and &being separated&. If these words are taken in this sense, the verse may also be translated as, |"The heavens and the earth were compact, then We separated them.|" In this case the verse will refer to an event of the early creation, meaning thereby that the heavens and the earth were originally a single body. Thereafter Allah separated the earth from the heavens. The contemporary research about the Big Bang is close to this description. But it should always be kept in mind that the Qur&anic descriptions are independent of any scientific theory and the Qur&an should not be made subject to ever-changing theories. (Muhammad Taqi Usmani) Ibn Kathir has quoted Sayyidna Abu Hurairah (رض) on the authority of Imam Ahmad (رح) ، that he requested the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to tell him how things were created. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied that everything was created from water. Then Abu Hurairah (رض) asked about the acts that lead one to the Jannah. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied: اَفش السّلام واطعم و صل الارحام وقم بالّیل والناس نیام ثُمّ ادخل الجنّۃ بسلام (تفرد بہ احمد و حٰذا اسناد علی شرط الشیخین الخ) |"Make greeting with Salam common between you, and feed (others) and observe the rights of kinship, and stand (in prayers) at night when people are asleep. Then enter the Jannah with peace|".

خلاصہ تفسیر کیا ان کافروں کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ آسمان اور زمین (پہلے) بند تھے (یعنی نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی نہ زمین سے کچھ پیداوار، اسی کو بند ہونا فرمایا جیسا کہ اب بھی اگر کسی جگہ یا کسی زمانے میں آسمان سے بارش اور زمین سے پیداوار نہ ہو تو اس جگہ یا اس زمانے کے اعتبار سے ان کو بند کہا جاسکتا ہے) پھر ہم نے دونوں کو (اپنی قدرت) کھول دیا (کہ آسمان سے بارش اور زمین سے نباتات کا اگنا شروع ہوگیا) اور (بارش سے صرف نباتات ہی کو نمو نہیں ہوتا بلکہ ہم نے (بارش کے) پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا ہے (یعنی ہر زندہ جاندار کے وجود اور بقاء میں پانی کا دخل ضرور ہے خواہ بلاواسطہ ہو یا کسی واسطہ سے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ) یا (ان باتوں کو سن کر) پھر بھی ایمان نہیں لاتے اور ہم نے (اپنی قدرت سے) زمین میں پہاڑ اس لئے بنائے کہ زمین ان لوگوں کو لے کر ہلنے نہ لگے اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ کشادہ رستے بنائے تاکہ لوگ (ان کے ذریعہ) منزل (مقصود) کو پہنچ جاویں اور ہم نے (اپنی قدرت سے) آسمان کو (بمقابلہ زمین کے اس کے اوپر مثل) ایک چھت (کے) بنایا جو (ہر طرح سے) محفوظ ہے۔ (یعنی گرنے سے بھی ٹوٹنے پھوٹنے سے بھی اور اس سے بھی کہ شیطان وہاں تک پہنچ کر آسمان کی باتیں سن سکیں مگر یہ آسمان کا محفوظ و مضبوط ہونا بھی دائمی نہیں ایک زمانہ معین تک ہے) اور یہ لوگ اس (آسمان) کے (اندر کی موجودہ) نشانیوں سے اعراض کئے ہوئے ہیں (یعنی ان میں غور و فکر اور تدبر نہیں کرتے) اور وہ ایسا (قادر) ہے کہ اس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے (وہ نشانیاں آسمان کی یہی ہیں اور شمس و قمر میں سے) ہر ایک، ایک ایک دائرے میں (اس طرح چل رہے ہیں کہ گویا) تیر رہے ہیں۔ معارف و مسائل اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا، اس جگہ لفظ رؤ یت بمعنے علم عام ہے خواہ وہ آنکھوں سے دیکھ کر حاصل ہو یا استدلال عقلی سے کیونکہ آگے جو مضمون آ رہا ہے اس کا تعلق کچھ مشاہدہ اور دیکھنے سے ہے کچھ علم استدلالی سے۔ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا لفظ رتق کے معنے بند ہونے اور فتق کے معنے کھول دینے کے ہیں۔ ان دو لفظوں کا مجموعہ رتق و فتق کسی کام کے انتظام اور اس کے پورے اختیار کے معنے میں استعمال ہوتا ہے۔ الفاظ آیت کا ترجمہ یہ ہوا کہ آسمان اور زمین بند تھے ہم نے ان کو کھول دیا۔ اس میں بند ہونے اور کھول دینے سے مراد کیا ہے اس کی مراد میں حضرات مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں مگر ان سب میں جو معنے صحابہ کرام اور جمہور مفسرین نے اختیار فرمائے وہ وہی ہیں جو خلاصہ تفسیر میں لئے گئے ہیں کہ بند ہونے سے مراد آسمان کی بارش اور زمین کی پیداوار کا بند ہونا ہے اور کھولنے سے مردا ان دونوں کو کھول دینا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ابن ابی حاتم کی سند سے حضرت عبداللہ بن عمر کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی انہوں نے حضرت ابن عباس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس شیخ کے پاس جاؤ ان سے دریافت کرو اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس کی اطلاع کرو۔ یہ شخص حضرت ابن عباس کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ اس آیت میں رتقا اور فتقنا سے کیا مراد ہے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ پہلے آسمان بند تھے بارش برساتے تھے اور زمینیں بند تھی کہ اس میں نباتات نہیں اگتی تھی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کو آباد کیا تو آسمان کی بارش کھول دی اور زمین کا نشو و نما۔ یہ شخص آیت کی تفسیر معلوم کر کے حضرت ابن عمر کے پاس واپس گیا اور جو کچھ ابن عباس سے سنا تھا وہ بیان کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ اب مجھے ثابت ہوگیا کہ واقعی ابن عباس کو قرآن کا علم عطا کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے میں تفسیر قرآن کے بارے میں ابن عباس کے بیانات کو ایک جرأت سمجھا کرتا تھا جو مجھے پسند نہ تھی اب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم قرآن کا خاص ذوق عطا فرمایا ہے انہوں نے رتق و فتق کی تفسیر صحیح فرمائی ہے۔ روح المعانی میں ابن عباس کی اس روایت کو ابن المنذر اور ابونعیم اور ایک جماعت محدثین کے حوالہ سے نقل کیا ہے جن میں حاکم صاحب مستدرک بھی ہیں، حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ ابن عطیہ عوفی اس روایت کو نقل کر کے کہتے ہیں کہ یہ تفسیر حسن اور جامع اور سیاق وسباق قرآن کے مناسب ہے اس میں منکرین کے خلاف عبرت اور حجت بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاص نعمتوں اور قدرت کاملہ کا اظہار بھی جو معرفت و توحید کی بنیاد ہے اور بعد کی آیت میں جو وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ فرمایا ہے اس سے اسی معنے کے اعتبار سے مناسبت ہے۔ بحر محیط میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ قرطبی نے اسی کو عکرمہ کا قول بھی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایک دوسری آیت سے بھی اس معنے کی تائید ہوتی ہے یعنی والسَّمَاۗءِ ذَات الرَّجْعِ ، وَالْاَرْضِ ذَات الصَّدْعِ طبری نے بھی اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ، مراد یہ ہے کہ ہر جاندار کی تخلیق میں پانی کا دخل ضرور ہے اور جاندار و ذی روح اہل تحقیق کے نزدیک صرف انسان اور حیوانات ہی نہیں بلکہ نباتات بلکہ جمادات میں روح اور حیات محققین کے نزدیک ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ پانی کو ان سب چیزوں کی تخلیق و ایجاد اور ارتقاء میں بڑا دخل ہے۔ ابن کثیر نے امام احمد کی سند سے بروایت ابوہریرہ نقل کیا ہے کہ ابوہریرہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ میں جب آپ کی زیارت کرتا ہوں تو میرا دل باغ باغ اور آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں، آپ مجھے ہر شی (کی تخلیق) کے بارے میں بتلا دیجئے، آپ نے فرمایا کہ ہر چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے، اس کے بعد ابوہریرہ نے سوال کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتلا دیجئے جس پر عمل کرنے سے میں جنت میں پہنچ جاؤ ں، آپ نے فرمایا۔ افش السلام واطعم الطعام وصل الارحام وقم باللیل والناس نیام ثم ادخل الجنۃ بسلام تفرد بہ احمد وھذا اسناد علی شرط الشیخین الخ۔ سلام کرنے کو عام کرو (خواہ مخاطب اجنبی ہو) اور کھانا کھلایا کرو (اس کو بھی حدیث میں عام رکھا ہے کھانا کھلانا ہر شخص کو خواہ کافر فاسق ہی ہو ثواب سے خالی نہیں) اور صلہ رحمی کیا کرو اور رات کو تہجد کی نماز پڑھا کرو جب سب لوگ سوتے ہوں تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا۝ ٠ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ۝ ٠ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۝ ٣٠ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ رتق الرَّتْقُ : الضمّ والالتحام، خلقة کان أم صنعة، قال تعالی: كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما [ الأنبیاء/ 30] ، أي : منضمّتين، والرَّتْقَاءُ : الجارية المنضمّة الشّفرین، وفلان رَاتِقٌ وفاتق في كذا، أي : هو عاقد وحالّ. ( ر ت ق ) الرتق ۔ اس کے اصل معنی جوڑنا اور ملانا کے ہیں خواہ خلقی طور پر ہو یا صناعی طریقہ سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما [ الأنبیاء/ 30] ( کہ آسمان و زمین ) دونوں ایک ہیولٰی تھے تو ہم نے ( اس کو توڑ کر ) زمین و آسمان کو الگ الگ کیا ۔ رتقاء وہ عورت جس کی شرمگاہ کے دونوں کنارے باہم چسپیدہ ہوں اور اس سے ہم بستری نہ ہو سکے مشہور محاورہ ہے فلان رَاتِقٌ وفاتق في کذافلاں اس معاملہ میں کرتا دھرتا ہے ۔ فتق الفَتْقُ : الفصل بين المتّصلین، وهو ضدّ الرّتق، قال تعالی: أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما[ الأنبیاء/ 30] ، والفَتْقُ والفَتِيقُ : الصّبح، وأَفْتَقَ القمر : صادف فتقا فطلع منه، ونصل فَتِيقُ الشّفرتین : إذا کان له شعبتان كأنّ إحداهما فُتِقَتْ من الأخری. وجمل فَتِيقٌ: تَفَتَّقَ سمنا، وقد فَتِقَ فَتْقاً. ( ف ت ق ) الفتق ( ض ) کے معنی دو متصل چیزوں کو الگ الگ کردینے کے ہیں اور یہ ( رتق کی ضد ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ كانَتا رَتْقاً فَفَتَقْناهُما[ الأنبیاء/ 30] آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے تو ہم نے ان کو جدا جدا کردیا ۔ الفتق والفتیق صبح کو کہتے ہیں ( کیونکہ وہ تاریکی سے نمودار ہوتی ہے ۔ افتق القمر چاند کا بادل سے ظاہر ہونا ۔ نصل فتیق الشفر تین بھالا جس کی دو شاخیں ہوں گویا ایک کو دوسری سے پھاڑ کر بنایا گیا ہے ۔ جمل فتیق اونٹ جس کا چمڑا موٹا پے کی وجہ سے پھٹ گیا ہو اور یہ فتق ( س ) لازم ) تفقا سے ہے ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٠) کیا یہ لوگ جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کے منکر ہیں نہیں جانتے کہ آسمان اور زمین پہلے بند تھے یعنی نہ آسمان سے بارش کا ایک قطرہ گرتا تھا اور نہ زمین سے کچھ پیداوار ہوتی تھی ایک دوسرے کے اس اعتبار سے ملے ہوئے تھے پھر ہم نے دونوں کو کھول دیا اور ایک دوسرے سے جدا کردیا کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور زمین میں نباتات اگنے لگے، بلکہ ہم نے مرد و عورت کے پانی سے ہر ایک چیز کو بنایا جو بارش کے پانی کی محتاج ہے کیا ان باتوں کو سن کر بھی مکہ والے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ (اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا ط) ” یعنی شدید گرمی اور حبس کی صورت حال جس میں لوگوں کی جان پر بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کیفیت میں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان کے دروازے بھی بند ہیں ‘ زمین کے سوتے بھی خشک ہیں ‘ بارش کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ‘ ہر طرف خشک سالی کا راج ہے اور پھر یکا یک اللہ کی رحمت سے یہ صورت حال تبدیل ہوجاتی ہے۔ آسمان کے دہانے کھل جاتے ہیں اور بارش کے پانی سے زمین پر نباتاتی اور حیواناتی زندگی کی چہل پہل شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ Big Bang کے بعد مادے کا جو ایک بہت بڑا گولا وجود میں آیا تو وہ ایک یکجا وجود (Homogenous mass) کی صورت میں تھا۔ پھر مادے کے اس گولے میں تقسیم ہوئی ‘ مختلف ستاروں اور سیاروں کے گچھے بنے ‘ کہکشائیں (Galaxies) وجود میں آئیں ‘ سورج اور اس کے سیاروں کی تخلیق ہوئی ‘ اور یوں ہماری زمین بھی پیدا ہوئی۔ گویا اس سارے تخلیقی عمل کا اظہار اس ایک فقرے میں ہوگیا کہ آسمان اور زمین بند تھے ‘ یعنی باہم ملے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں کھول دیا ‘ جدا کردیا۔ (وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ط) ” یہاں پر خَلَقْنَا کے بجائے جَعَلْنَا فرمایا۔ زمین کے اوپر زندگی جس کسی شکل میں بھی ہے ‘ چاہے وہ نباتاتی حیات ہو یا حیوانی ‘ ہر جاندار چیز کا مادۂ تخلیق مٹی اور مبدأ حیات پانی ہے۔ مٹی (تُراب) اور پانی مل کر گارا (طِین) بنا۔ پھر یہ طینٍ لَّازب میں تبدیل ہوا۔ پھر اس نے حماأ مسنون کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد صلصالٍ مّنْ حَمَاأ مسنونکا مرحلہ آیا۔ پھر صلصا لٍ کا لفخّار بنا۔ (اس سلسلے میں سورة الحجر ‘ آیت ٢٦ کی تشریح بھی مد نظر رہے) ۔ گویا مٹی سے ہر جاندار چیز کی تخلیق ہوئی اور ان سب کی زندگی کا دارومدار پانی پر رکھا گیا۔ چناچہ ہر جاندار کے لیے مبدأ حیات پانی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28. From the wording of the text, it appears that at first the whole universe was a single mass of matter; then it was split into different parts and the earth and the other heavenly bodies were formed. For more details, please see (Surah HaMim, E.Ns 13-15). 29. From the wording of the text, it appears that Allah made water the cause and origin of life. See also (Surah An- Nur, Ayat 45).

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :28 اصل میں لفظ رتق اور فتق کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ رتق کے معنی ہیں یکجا ہونا ، اکٹھا ہونا ، ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہونا ، متصل اور متلاصق ہونا ۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں ۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے ( Mass ) کی سی تھی ، بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اجرام فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم حٰمٓ السجدہ ، حاشیہ 13 ۔ 14 ۔ 15 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :29 اس سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کو خدا نے سبب زندگی اور اصل حیات بنایا ، اسی میں اور اسی سے زندگی کا آغاز کیا ۔ دوسری جگہ اس مطلب کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، : وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَآءٍ ( النور ۔ آیت 45 ) اور خدا نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: اکثر مفسرین کی تفسیر کے مطابق اس آیت میں آسمان کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس سے بارش نہیں ہوتی تھی، اور زمین کے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس سے کوئی پیداوار نہیں ہوتی تھی، اور ان دونوں کو کھولنے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسنے لگا، اور زمین سے سبزیاں اگنے لگیں، یہ تفسیر متعدّد صحابہ اور تابعین سے منقول ہے۔ لیکن دوسرے بعض مفسرین نے اِس کی یہ تفسیر بھی کی ہے کہ آسمان اور زمین دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے اور یک جان تھے، اﷲ تعالیٰ نے اُن کو الگ الگ کیا۔ 14: اس آیت نے واضح کردیا ہے کہ ہر جان دار چیز کی تخلیق میں پانی کا کوئی نہ کوئی دخل ضرور ہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٠۔ ٣٣:۔ اگرچہ پہلی آیت کی تفسیر میں سلف کے کئی قول ہیں مگر بیہقی کی کتاب اسماء وصفات ‘ تفسیر عبد بن حمید اور مستدرک ١ ؎ حاکم میں معتبر سند سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے جس میں انہوں نے کانتا رتقا ففتقنھما کی تفسیر یوں بیان فرمائی ہے کہ آسمان بند تھا ‘ اس میں مینہ برسنے کی تاثیر نہیں تھی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس میں مینہ برسنے کی تاثیر پیدا کی اسی طرح زمین بند تھی ‘ اس میں کسی طرح کی پیداوار نہیں تھی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس میں پیداوار کی قوت پیدا کی ‘ حافظ ابو جعفر ابن جریر نے سلف کے سب قولوں میں سے اسی قول کو معتبر ٹھہرایا ہے ‘ آخر آیت میں اللہ تعالیٰ نے بھی مینہ کا ذکر فرمایا ہے ‘ اس واسطے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے۔ حاصل مطلب پہلی آیت کا یہ ہے کہ مکہ کے قحط کے وقت ان مشرکوں نے کیا یہ نہیں دیکھا کہ اس وقت یہی آسمان زمین تھے اور یہ مشرک لوگ اپنے بتوں سے مینہ کے برسنے کی التجائیں بھی کر رہے تھے ‘ لیکن آسمان و زمین میں جو قوت اور تاثیر اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے ‘ اس کا ظہور سوائے اس کے اور کسی کے اختیار میں نہیں اس لیے جب تک اس کا حکم نہ ہوا یہ دونوں ایسے ہی بند ہوگئے ‘ جس طرح اس تاثیر کے پیدا کیے جانے سے پہلے بند تھے پر ایسی آنکھوں کی دیکھی ہوئی بات کا یقین ان لوگوں کے دل میں کیوں نہیں پیدا ہوتا مکہ کے قحط کا قصہ صحیح بخاری وغیرہ کی عبداللہ (رض) بن مسعود کی روایت ٢ ؎ سے اسی سورة میں گزر چکا ہے ‘ قحط کی حالت کے علاوہ کسی جگہ بارش اور قوت پیداوار کم ہے اور کسی جگہ زیادہ مثلا مکہ کی سر زمین کا کچھ اور حال ہے اور طائف کی زمین کا کچھ اور حال ہے ‘ اس سے بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وہی نشانی ہر وقت ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے جو نشانی انہوں نے مکہ کے قحط میں آنکھوں سے دیکھی ‘ صحیح ٣ ؎ مسلم کے حوالہ سے حضرت عائشہ (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جنات آگ کے شعلے سے ‘ اس حدیث کو آیت کے ٹکڑے وجعلنا من الماء کل شی حی کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ آیت کے اس ٹکڑے میں انسان اور اس کی ضرورت کی سب چیزوں کو پانی سے پیدا کرنے کا ذکر ہے فرشتوں اور جنات کا ذکر یہاں نہیں ہے ‘ کھیتی اور باغات کی سر سبزی کو ان کی زندگی فرمایا ‘ آگے فرمایا ‘ پانی پر زمین جب بچھائی گئی تو وہ ہلتی تھی ‘ اس کے جمانے کے لیے اس میں پہاڑ ٹھونکے گئے اور ان پہاڑوں میں گھاٹیاں رکھی گئیں تاکہ ایک شہر سے دوسرے شہر کو جانے میں لوگوں کو تکلیف نہ ہوا ‘ آسمان کو بچاؤ کی چھت جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پر فرشتوں کا پہرہ رہتا ہے جس سے شیاطین آسمان پر کی باتیں چوری سے نہیں سن سکتے ’ پھر فرمایا آسمان پر سورج چاند اور تارے اللہ کی قدرت کے نمونے ہیں جن کو یہ لوگ دھاون کرکے اس کی قدرت کو نہیں پہچانتے ‘ پھر فرمایا سمجھ دار شخص کے لیے رات دن بھی اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں کہ رات کے نیند سے آدمی کی دن بھر کی تکان رفع ہوجاتی ہے اور دن کو پھر چل کر ہر شخص اپنی گزران کی صورت نکال سکتا ہے ‘ اسی طرح سورج کی گردش سے جاڑے گرمی اور برسات کا موسم پیدا ہوتا ہے اور چاند کی گردش سے مہینہ اور سال کا حساب معلوم ہوجاتا ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ سمجھ دار کے حق میں سب مخلوقات اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں اور جو لوگ ناسمجھی سے شیطان کے پنجے میں پھنسے ہوئے ہیں ‘ وہ ان قدرت کی نشانیوں سے ایسے غافل ہیں کہ سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ ٤ ؎ سے حضرت علی (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے اپنے علم غیب کے موافق اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کون شخص دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کرے گا اور کون شخص جنت میں جانے کے قابل ‘ اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری کی حدیث بھی گئی جگہ گزر چکی ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے لوگوں کی مثال اچھی بری زمین کی بیان فرمائی ہے ‘ ان حدیثوں کو آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ جو لوگ دنیا کے پیدا ہونے سے ایسا ہی فائدہ پہنچا ‘ اور قیامت تک پہنچتا رہے گا جس طرح اچھی زمین کو مینہ کے پانی سے فائدہ پہنچتا ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں بد قرار پاچکے تھے ‘ ان کے حق میں قرآن کی نصیحت اور قدرت کی سب نشانیاں اسی طرح رائیگاں ہیں جس طرح بری زمین میں مینہ کا پانی رائیگاں جاتا ہے۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثورص ٣١٧ ج ٤ ) (٢ ؎ ص ٢١٧ جلدہذا ) (٣ ؎ مشکوٰۃ باب بدء الخلق الخ ) (٤ ؎ مشکوٰۃ ‘ باب الایمان بالقدر )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:30) کانتا رتقا۔ دونوں باہم ملے ہوئے تھے۔ جڑے ہوئے تھے۔ رتقا ملا ہوا جڑا ہوا۔ رتق رتق یرتق کا مصدر ہے۔ رتق کے اصل معنی ہیں جڑ جانا۔ بند ہوجانا خواہ خلقی طور پر خواہ صناعی طور پر۔ یہاں مصدر بمعنی اسم فاعل یا اسم مفعول کے ہے۔ ففتقنا ہما۔ پھر ہم نے ان دونوں کو الگ الگ کردیا الفتق (باب ضرب) کے معنی دو متصل چیزوں کو الگ الگ کردینے کے ہں۔ اور یہ رتق کی ضد ہے۔ تخلیق عالم کا ذکر کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن میں لکھتے ہیں :۔ موجودہ زمانہ میں اجرام سماویہ کی ابتدائی تخلیق اور کرہ ارضی کی ابتدائی نشو و نما کے جو نظرئیے تسلیم کر لئے گئے ہیں یہ اشارات بظاہر ان کی تائید کرتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو ان بنیادوں پر شرح و تفصیل کی بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہ ہوگا۔ یہ نظرئیے کتنے ہی مستند تسلیم کر لئے گئے ہوں لیکن پھر بھی نظرئیے ہیں اور نظریات جزم و یقین کے ساتھ حقیقت کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ پھر اس سے کیا فائدہ کہ ان کی روشنی میں قرآن کے مجمل اور محمل اشارات کی تفسیر کی جائے۔ لیکن کل کو کیا کریں گے اگر ان نظریوں کی جگہ دوسرے نظرئیے پیدا ہوگئے۔ صاف بات یہی ہے کہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کی حقیقت ہم اپنے علم و ادراک کے ذریعے معلوم نہیں کرسکتے۔ اور قرآن کا مقصود ان اشارات سے تخلیق عالم کی شرح و تحقیق نہیں ہے خدا کی قدرت و حکمت کی طرف انسان کی توجہ دلانا ہے۔ کل شیء حی۔ ہر جاندار چیز۔ لفظ کل محاورہ میں تقریبا کل یا بہت بڑی اکثریت کے مرادف مستعمل ہے۔ اس لئے اگر کسی جاندار کی پیدائش کا اس قاعدے سے استثناء ثابت ہوجائے تو یہ عموم قانون کے منافی نہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی دونوں ایک چیز اور ایک ہی طبقہ تھے یا دونوں کے منہ بند تھے۔ چناچہ نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی اور نہ زمین میں سے کوئی چیز اگتی تھی (کبیر)10 یعنی زمین کو اپنی جگہ رہنے دیا اور آسمان کو اوپر اٹھا دیا اور درمیان میں ہوا کا نظام قائم کردیا یا دونوں کے منہ کھول دیئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور زمین میں پیداوار (کبیر)11 یعنی جن چیزوں میں جان سے جیسے حیوانات اور نباتات ان سب کی نشات پانی سے ہے لیکن فرشتے اور جن یا دوسری کوئی چیز جس کے متعلق ثابت ہوجائے کہ اس کے مادہ میں پانی کو دخل نہیں ہے وہ اس سے مستثنیٰ قرار پائیں گی۔ (کبیر) یا سب جاندار چیزوں کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے اور پانی وہ چیز ہے جس کے آسمان سے اترنے اور زمین میں موجود رہنے کے اسباب ہم نے پیدا کئے بعض مفسرین نے پانی سے مراد نطفہ لیا ہے یعنی ہر جاندار (حیوان) کو ہم نے نطفہ سے پیدا کیا جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : واللہ خلق کل دآبۃ من مآء اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ (نور 45)12 یعنی زمین آسمان میں یہ حیرت انگیز نظام قائم کرنے والے ہم ہیں کوئی اور نہیں کیا اس پر بھی یہ لوگ توحید کا راستہ اختایر نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو ہمارا شریک سمجھ رہے ہیں۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے یستبحون تک صانع کے وجود اور اس کی وحدانیت پر چھ قسم کے دلائل مذکور ہیں۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٣) اسرارومعارف کیا کافر جان نہیں چکے کہ آسمان اور زمین پہلے بند تھے یعنی اب تو عقل انسانی نے بھی یہ بات دریافت کرلی ہے کہ نہ آسمانوں سے بارش برستی تھی اور نہ زمین میں روئیدگی تھی اور نہ ان کی صورت اس قابل تھی پھر رب کریم نے معمورہ عالم کو بسانا چاہا تو انہیں کھول دیا یعنی اس نظام حیات کو رواں کردیا سورج کی گرمی و روشنی اور ہواؤں کی آمد وشد اپنا اپنا کام دکھانے لگی ، بادل برسنے لگے اور زمین سے رنگا رنگ چیزیں پیدا ہونے لگیں لیکن یہ سب اتفاقا نہیں ہو رہا بلکہ اللہ کریم کا نظام ہے جس کی ایک اصل یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے ہر شے کی حیات خواہ حیوانات ہوں یا نباتات پانی پر مقرر کردی ہے ، اب کوئی بھی چاہے تو اس بنیادی بات کو تبدیل نہیں کرسکتا ، وجود حیوانی نطفہ سے بنایا تو نباتات کے بیج تراوت سے اگائے ، انسانی ، حیوانی غذا کا اہم جز پانی ٹھہرا تو نباتات کا حال بھی یہی ہے جس کی قدرت کاملہ کی عظمت اس قدر ظاہر ہے کیا یہ اس کے ساتھ بھی ایمان نہیں لانے والے ۔ دوسری بات دیکھیں کہ ہم نے زمین کے مختلف حصوں پہ پہاڑوں کا بوجھ لاد کر اسے جما دیا مختلف نعمتوں کے لیے وہ خزانہ اور بنک بن گئے اور نہ صرف زمین کے قرار کا باعث ٹھہرے کہ جھولتی نہ رہے بلکہ زمین پر سفر کرنے اور جگہوں اور راستوں کے تعین کا کام بھی کرتے ہیں یعنی اگر ساری زمین چٹیل میدان یا صحرا ہوتی تو انسان راستوں ہی میں کھویا رہتا ، یہ نشیب و فراز انسانی رہنمائی بھی تو کرتے ہیں کہ منزل کی راہ اور سمت سے واقفیت دلاتے ہیں نیز اس تمام نظام پر آسمان کی کس قدر محفوظ چھت تان دی ہے جو نہ پرانی ہوتی ہے اور نہ ٹوٹتی ہے ، پھر جس طرح سارے گھر کو چھت تحفظ فراہم کرتی ہے ، تمام نظام دنیا کا سیکرٹریٹ بھی تو اسی چھت میں ہے کہ سب نظام کو تحفظ فراہم کر رہی ہے یہ منکرین ایسے بدنصیب ہیں کہ اتنی بڑی بڑی نشانیوں سے بیخبر ہیں ، وہی تو ہے جس نے رات اور دن پیدا فرمایا اور سورج اور چاند کو پیدا کیا جو سب کے سب اپنے اپنے مدار میں پھرتے ہیں یعنی اللہ جل جلالہ ایسا قادر اور علیم ہے کہ شب وروز بنا کر حیات کی راہیں تخلیق فرما دیں اور چاند ستارے اور سیارے سب کچھ ایک نظام میں پرو کر تانا بانا چلا دیا ، اب ہر شے اپنے وقت مقررہ پر اپنے اپنے مدار میں اپنی خاص رفتار اور سمت میں ہر آن متحرک ہے یہی حرکت رات دن گرمی سردی اور حیات وزندگی کا باعث بن رہی ہے ، وہ ایسا قادر ہے کہ ان کی ہر حرکت ، روشنی ، گرمی سردی ۔۔۔۔۔۔ میں رائی برابر فرق نہیں آنے دیتا ، لیکن جب چاہے گا تو کسی بھی جگہ ذرا سی رکاوٹ ڈال دے گا جو سارے نظام کو الٹ پلٹ دے گی مگر یہ سب لاحاصل نہ ہوگا بلکہ ہر ایک کو اس کا نتیجہ بھگتنا ہوگا ۔ (موت کیا ہے) کفار کا یہ خیال کہ آخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کب تک رہیں گے آخر موت کی آغوش میں چلے جائیں گے اور یہ بات ختم ہوجائے گی تو ان کی یہ بات درست نہیں کہ موت تو انہیں بھی آئے گی تو کیا موت سے معاملہ ختم ہوجائے گا ہرگز نہیں بلکہ اصل بات تو یہی ہے کہ موت کی تیاری کی جائے اور موت کیا ہے یہ تو زندگی کا ایک حال ہے جس میں سے ہر متنفس کو گزرنا ہے یہاں زمینی مخلوق کو ہے لہذا بالائے آسمان کی مخلوق فرشتے یا جنت کی مخلوق پہ موت آئے گی یا نہیں یہ الگ بحث ہے بعض کے نزدیک ایک لمحہ تو سب پر موت وارد ہوگی اور بعض کے نزدیک فرشتے اور حور غلمان اس سے مستثنی ہیں ، بہرحال یہاں بات انسانی حیات کی ہو رہی ہے تو ارشاد ہوتا ہے کہ موت زندگی کے خاتمے کا نام نہیں اس کے حال کو موت کہا جاتا ہے مگر یہ نہ روح کی فنا کا نام ہے اور نہ اجزائے بدن سے لاتعلق ہونے کا ، ہاں وہ تعلق ختم ہوا جس سے حیات دنیا قائم تھی اور یہ عمومی قاعدہ ہے ورنہ کافر اور مومن کی موت میں فرق ہے ، مومن عام اور شہید میں اتنا فاصلہ ہے کہ شہید کی روح کا تعلق اس قدر مضبوط رہتا ہے کہ اسے مردہ کہنا جائز نہیں اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کا تعلق اس سے بھی مضبوط تر ، اسی کو حیات النبی کہا گیا ہے کہ موت وارد ہو کر بھی حیات کی نفی نہیں کر پاتی صرف دار تکلیف سے دار بقا کو جانے کا باعث ہوتی ہے اسی لیے ارشاد ہوا کہ (آیت) ” کل نفس ذآئقۃ الموت “۔ کہ ہر نفس موت کا مزہ چکھے گا کہ گویا موت خاتمہ نہیں ایک حال کی تبدیلی ہے اور یہ کہ ہر ایک کو دکھ ہی ہوگا تو یہ ایک امر طبعی ہے ورنہ اہل اللہ کو یہ دکھ بھی راحت دیتا ہے کہ جب ان کی نگاہ دنیا کی قید سے آزادی اور محبوب کی بارگاہ میں باریابی کی طرف جاتی ہے تو اس کی راحت الگ ہے یہ وہ طلب ہے جو طلب ہے جو موت کی تلخی میں بھی امید کی شیرینی ملادیتی ہے اس کے مقابلے میں دنیا کی دولت یا راحت میں عمر ضائع کرنا دانشمندی نہیں کہ دنیا کا ہر حال وہ راحت ونعمت ہو یا تکلیف ومصیبت دراصل ایک امتحان ہے جس سے تمہیں آزمایا جا رہا ہے کسی کو مصیبت میں کہ اللہ پر بھروسہ کرتا ہے یا غیر اللہ کی طرف دوڑتا ہے تو دوسرے کو راحت میں کہ اطاعت کرتا یا تکبر میں گرفتار ہو کر تباہی کی طرف چلتا ہے کہ انجام کار تو سب کو موت ہی کے راستے سے گذر کر ہمارے ہی پاس آنا ہے آپ ان کفار کو دیکھتے ہیں یہ ہمہ وقت آپ کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں دیکھو یہ تمہارے بتوں کو باطل کہتا ہے اور ان کی عبادت سے روکتا ہے یعنی وہ آپ کو تنقید کانشانہ بنا رہے ہیں کہ آپ بتوں پر ایمان کیوں نہیں لاتے جبکہ ان اپنا حال یہ ہے کہ اللہ کریم جو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے اور جس کی رحمانیت ہی کے طفیل یہ بیشمار نعمتیں حاصل کر رہے ہیں کہ نہیں مانتے اور اس کے ذکر سے انکار کرتے ہیں تو قابل مذمت حال تو ان کا اپنا ہے مگر بغیر غور وفکر کے فتوی دینے میں جلد بازی سے کام لے رہے ہیں جبکہ جلد بازی کبھی اچھی نہیں ہوتی ، انھیں غور وفکر اور سوچ بچار سے فیصلہ کرنا چاہیے تھا ۔ (جلد بازی کبھی بھی اچھی نہیں ہوتی) مگر انسان کے مزاج میں جلد بازی ہے اور وہ تمام کمزوریاں جو انسانی مزاج میں ہوں ان علاج اللہ سے ایمان ہے یہ اس سے محروم ہیں تو پھر پھر انہیں کا شکار ہو رہے ہیں مگر خیر جلدی نہ کرو میں تمہیں بہت روشن اور واضح نشانیاں دکھا دوں گا کہ حق و باطل کا صاف پتہ چل جائے گا جیسا کہ بعد میں ، احد اور فتح مکہ سے اسلام کی کامیابی اور کفر و باطل کی تباہی ظاہر ہوگئی ، لہذا ذرا ٹھہرو۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں تو پھر قیامت کہاں ہے آپ کے سچے ہونے کا یہ معنی تو نہیں کہ جہاں کوئی انکار کرے قیامت قائم ہوجائے بلکہ ہر کام اپنے مقررہ وقت پر ہوگا اور ضرور ہوگا ، انکار کرنے والے کتنے بیخبر ہیں کاش یہ جان لیتے کہ کفر کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے جو ان کے خوبصورت چہروں اور نازک جسموں کو جلا رہی ہوگی اور ان میں اتنی سکت نہیں ہوگی کہ اپنے منہ یا جسم سے آگ کو ہٹا سکیں اور نہ ہی کوئی ہستی وہاں ان کی مدد کرسکے گی بلکہ یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوگا کہ یہ دنیا اور بال بچوں میں مصروف ہوں گے تو انھیں اچانک موت اچک لے گی اور آخرت سامنے آجائے گی یہ تو مبہوت ہوجائیں گے کہ نہ تو موت اور آخرت کی سختیوں کو روک سکتے ہوں گے اور نہ عمل کی مہلت ہی باقی ہوگی کہ توبہ کا لمحہ بھی گذر چکا ہوگا ۔ ایسا پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ بھی ہوا صرف آپ کے ساتھ نہیں مگر گزشتہ اقوام کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ مذاق کرنے والوں پر ان کا ٹھٹھا مذاق ایسا الٹ کر پڑا کہ تباہ وبرباد ہو کر ہمیشہ کے لیے باعث عبرت بن گئے اگر یہ بھی باز نہ آئے تو ان کی تباہی بھی انہیں درس عبرت بنا دے گی ، یہی قانون فطرت ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 30 تا 33 رتق ایک دوسرے میں گھسے ہوئے۔ ملے ہوئے۔ فتقنا ہم نے الگ الگ کردیا۔ جدا کردیا۔ حی زندہ۔ رواسی (راسیۃ) بوجھ، جمی ہوئی چیزیں، بوجھل۔ ان تمید یہ کہ جھک پڑے، ایک طرف کو ڈھلک جائے۔ فجاج (فج) کھلے ہوئے پہاڑی درے۔ سقف چھت، سائبان۔ فلک گول چیز، گھومنا، مدار۔ یسبحون وہ تیرتے ہیں۔ بلا روک ٹوک راستے پر چلتے ہیں۔ تشریح : آیت نمبر 30 تا 33 وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کی قدرت کا ملہ اور آخرت کا انکار کرتے ہیں ان سے فرمایا جا رہا ہے اس اللہ نے انسان کے اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی زمین و آسمان کو پیدا کر کے سارے اسباب مہیا کردیئے تھے پانی کو پیدا کیا تاکہ اس کے ذریعے ہر چیز کو زندگی مل جائے۔ بلند وبالا پہاڑوں کو زمین میں میخوں کی طرح گاڑ کر بھاری بوجھ رکھ دیئے تاکہ یہ زمین ادھر ادھر ڈھلک نہ جائے اور تو ازن برقرار رہے۔ آنے اور جانے کے راستے بنا دیئے تاکہ ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور سامان لانے لے جانے میں سہولت حاصل رہے۔ آسمان کو ایک محفوظ چھت کی طرح بنا دیا تاکہ کائنات کے جراثیم اور نقصان دینے والی چیزیں دنیا والوں تک نہ پہنچ سکیں رات اور دن کا ایک ایسا نظام بنا دیا کہ کبھی رات ہے، کبھی دن ہے، کبھی کی راتیں بڑی اور کبھی کے دن بڑے۔ اس نظام سے ہر طرح کے موسم بنا دیئے تاکہ یکسانیت سے دل اچاٹ نہ ہوجائے۔ اسی طرح سورج، چاند اور ستاروں کو ایک مربوط اور لگے بندھے نظام میں جکڑ دیا۔ تاکہ وہ ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں اور ہر ایک اپنے دائرے میں گھومتا رہے۔ فرمایا گیا کہ اب یہ انسان کی عقل و فہم اور بصیرت پر ہے کہ وہ اس بات پر اچھی طرح غور اور فکر کر کے دیکھ لے کہ اتنے بڑے نظام کائنات کو پیدا کر کے اس کو چلانے والی کوئی ہستی ہے یا نہیں ؟ یقینا ہر شخص کے دل سے یہی صدا بلند ہوگی کہ ایک معمولی سی چیز بھی خود بخودپیدا ہو کر کام نہیں کرسکتی۔ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی بنانے والا ہوتا ہے۔ یقینا اس کائنات کو بھی کسی نے بنا کر اس کا انتظام سنبھال رکھا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے۔ جو تنہا اس نظام کائنات کو چلا رہی ہے اور وہ اس کے چلانے اور سنبھالنے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ” رتق اور فتق “ دو لفظوں میں کائنات کی ابتدا کی پوری تاریخ کو سمو دیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے جب اس آیت کی تفصیل معلوم کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ پہلے آسمان بند تھا پانی نہ برساتا تھا اور اسی طرح زمین بھی بند تھی جو (بغیر پانی کے) نباتات نہ اگاتی تھی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کو آباد کیا تو آسمان کی بارش کھول دی اور اس طرح زمین کی نشو و نما کو بھی کھول دیا گیا (تفسیر ابن کثیر) حضرت ابن عباس کی اس تشریح اور تفسیر سے ابتدائے کائنات کی تفصیل معلوم ہوئی جس پر جمہور علما اور مفسرین کا اتفاق ہے۔ ہمارا موجودہ دور سائنسی معلومات اور تحقیقات کا دور ہے جس میں لوگوں کے پاس ایسے وسائل موجود ہیں۔ جن کے ذریعے اس کائنات کے پوشیدہ راز معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ موجودہ سائنس دانوں کا یہ خیال اور تحقیق ہے کہ یہ کائنات کھولتے ہوئے بیحد گرم پگھلے ہوئے دھاتوں کا ایک ایسا مجموعہ تھی جس کے اجزا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ اچانک اس مادے میں ایک زبردست دھماکہ ہوا جس کو بگ بینگ (Big Gang) کہا جاتا ہے اس سے ابتدائی حصے کو الگ ہونے میں ایک سیکنڈکا ہزاروں حصہ لگا۔ یعنی اس قدر جلد ہوا کہ اس کے مادے کو الگ ہونے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا اور اس کے نتیجے میں اس کائنات نے وجود اختیار کیا اور اس میں ہماری دنیا اور اس میں انسانی ضرورتوں کی ہر چیز پیدا ہوئی۔ اسی مقام پر قرآن کریم ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ اللہ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو وسائل ذرائع اور اسباب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کو ” کن “ (ہوجا) کہتا ہے اور وہ چیز ہوجاتی ہے یعنی جتنی دیر میں ان دو حرفوں ” کن “ کی ادائیگی کی جاتی ہے شاید اس میں بھی دیر لگتی ہے اس سے بھی پہلے وہ کام ہوجاتا ہے۔ ابھی آپ نے سائنسدانوں کی تحقیق سے اندازہ کرلیا ہوگا۔ کہ ایک شدید اور عظیم مادے کو پھٹنے اور دنیائیں بننے میں گھنٹے یا منٹ نہیں بلکہ ایک سیکنڈ کا ہزارواں حصہ لگا ہے جو اللہ کی قدرت کا ملہ کا اظہار ہے۔ بہرحال یہ تو علمی تحقیقات ہے جس کا سلسلہ قیامت تک چلتا ہی رہے گا اصل چیز یہ ہے کہ یہ دنیا خود بخود نہیں بن گئی ہے بلکہ اللہ رب العالمین نے ان تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے آج دنیا اللہ کی قدرت کو ماننے پر مجبور ہے اور انسان جتنی بھی ترقی کرتا جائے گا۔ اس کو یہ ماننا ہی پڑے گا کہ اس کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے وہی اس کا نگران ہے۔ اسی کا قانون چلتا ہے۔ ان آیات میں دوسری چیز جو انسانوں کے لئے عظیم نعمت ہے وہ پانی ہے۔ اگر پانی نہ ہوتا تو انسانی زندگی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی ہر چیز میں زندگی نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں بھی فرمایا کہ ” اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ “ موجودہ تحقیق کے مطابق ہماری اس زمین کے سوا کہیں کسی ستارے اور سیارے میں پانی موجود نہیں ہے انسان نے جب چاند پر قدم رکھا تو اس کو آکسیجن اور پانی اسی دنیا سے لے کر جاناپڑا کیونکہ چاند پر آکسیجن اور پانی کا وجود نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے پانی کو ایک بہت بڑی اور انمول نعمت بنایا ہے جو تمام جان داروں کے لئے ہے، یہ ان کی ضرورت ہے، جہاں انسان یا جان دار آباد نہیں ہے وہاں حیات کا یہ چشمہ بھی موجود نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین کی سطح کو پائے دار بنانے اور بقا کے لئے پہاڑوں کی شکل میں بڑے بڑے وزن رکھ دیئے ہیں تاکہ اس دنیا کا تو ازن برقرار رہے اور یہ دنیا انسانوں کے وزن سے ادھر ادھر ڈھلک نہ جائے یہ پہاڑ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو یہ زمین اپنا تو ازن کھو بیٹھتی اور ایک خیمہ تک اس پر نہ ٹکتا۔ موجودہ تحقیق یہ ہے کہ یہ پہاڑ زمین کے مرکز میں بھڑکتی ہوئی آگ کو بھی قابو میں رکھے ہوئے ہیں۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو مسلسل اور متواتر نہ رکنے والے زلزلوں کا سامنا کرنا پڑتا اور زمین پر معمولی سی عمارت بنانا بھی مشکل ہوجاتا حالانکہ اسی زمین پر بڑے بڑے شہر آباد ہیں اور عظیم الشان بلڈنگیں بنی ہوئی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا۔ اگر چند منٹ تک زلزلہ آتا رہے تو عظیم الشان بلڈنگیں مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ ان زلزلوں کو روکنے میں اللہ کی طرف سے پہاڑوں کو بھی بہت کچھ دخل ہے۔ دوسرے یہ کہ پہاڑ آنے والی نسلوں کے لئے ان کی زندگی کا سامان امانت کے طور پر اپنے اندر لئے ہوئے ہیں۔ آتش فشاں پہاڑ جب اپنے اندر موجود دھاتوں کو اگلتے ہیں تو یہ بھی انسانوں کے فائدے کی چیزیں بن جاتی ہیں۔ پہاڑوں سے (1) پہلا فائدہ تو ہے کہ یہ زمین میں بوجھ بنا کر رکھ دیئے گئے ہیں (2) دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ پہاڑ زبردست زلزلوں کو کنٹرول میں رکھے ہوئے ہیں (3) تیسرا فائدہ یہ ہے کہ پہاڑوں کے اندر اللہ نے جو دھاتیں رکھ دی ہیں اگر وہ آتش فشاں پہاڑوں کے ذریعہ باہر نہ نکلتیں تو پہاڑوں کا آتش فشاں مادہ زمین کو پھاڑ کر رکھ دیتا اور انسانی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے پہاڑوں کو ہر اعتبار سے ایک تو ازن قائم کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ پانی اور پہاڑوں کی طرح ایک تیسری نعمت کا بھی اظہار فرمایا ہے اور وہ ہیں آنے جانے اور میل ملاپ کے راستے، اگر یہ راستے نہ ہوتے تو انسانوں کو ترقیات میں آگے بڑھنے کے موقعے نہ ملتے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا کس قدر دشوار ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں اللہ نے انسانوں کو برو بحر اور فضاؤں پر کیسی عظمت عطا فرمائی ہے کہ اس نے ہواؤں میں فضاؤں میں سمندروں اور پہاڑوں میں ایسے ایسے راستے بنا دیئے ہیں جن سے وہ نہایت سہولت کے ساتھ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو آج کی ترقیات کا بہت کچھ دار و مدار ان ہی راستوں اور آمد و رفت پر ہے۔ اللہ نے فضاؤں کو سمندروں، پہاڑوں اور خشکی کے راستوں کو انسان کے لئے نعمت بنا دیا ہے۔ پانی، پہاڑ اور آنے جانے کے راستوں کے علاوہ آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا ہے۔ اصل میں ” السمائ “ کے معنی بلندی کے آتے ہیں یعنی جو ہمارے اوپر ہے اس میں بھی موجودہ تحقیق یہ ہے کہ اللہ نے ہماری دنیا پر ایک غلاف سا چڑھا دیا ہے۔ جس کو ” اوزون “ کہتے ہیں اس کا کام یہ ہے کہ کائنات سے آنے والے جراثیم اور ہزاروں قسم کے نقصان دینے والی چیزوں کو اس دنیا میں پہنچنے سے روکنے کا کام اس سے لیا گیا ہے۔ اس لئے اس کو صرف چھت نہیں فرمایا بلکہ ” محفوظ چھت “ کا نام دیا ہے۔ سورج کی شدید ترین تیز و تند گرمی کو روکنے کا بھی یہی ایک ذریعہ ہے۔ آج کے انسانوں نے اپنے کیمیکل وغیرہ سے اس محفوظ چھت (اوزون) کو شدید نقصان پہنچا دیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہا تو اس سے انسانوں کی صحت اور مفادات کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ” محفوظ چھت “ اللہ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی طرح رات اور دن کا آنا جانا۔ رات اور دن کے اوقات کا بدلتے رہنا بھی نعمت سے کم نہیں ہے کیونکہ اگر دن ہی دن ہوتا یا رات ہی رات ہوتی تو نہ لوگوں کو آرام ملتا اور نہ کام کاج ہوتا۔ اللہ نے اسک کا ایک ایسا نظام بنایا ہے کہ کبھی کی راتیں بڑی ہوتی ہیں کبھی کے دن، اس سے موسموں میں تغیر بھی آتا ہے اور اس سے سردی گرمی، بہار اور خزاں کے موسم بھی بنتے ہیں اور انسان کے لئے اکتا دینے والی یکسانیت پیدا نہیں ہوتی اور آخری جس نعمت کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔ وہ ہے چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کا ایک دائرے میں چلنا۔ اگر یہ اپنی چال بھول جائیں تو یہ ساری کائنات آپس میں ٹکرا جائے۔ چونکہ اللہ نے اس کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو کسی مجال نہیں ہے کہ وہ اپنی رفتار یا چال سے ایک قدم بھی آگے بڑھا سکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان بنائے۔ پانی کے چشمے بہا دیئے، زمین پر پہاڑوں کے بوجھ رکھ دیئے۔ آسمان کو محفوظ چھت بنا دیا، رات اور دن کا نظام ائم فرمایا اور چاند سورج، ستاروں اور سیاروں کو اس طرح اپنے قابو میں رکھا ہوا ہے کہ ہر ایک اپنے محور اور مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ یہ سب کچھ محض اللہ کی قدرت اور طاقت سے ہی ممکن ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس نظام کائنات کو نہ چلا رہے ہوتے تو اس کائنات کا نظام ایک دن میں تباہ و برباد ہو کر رہ جاتا۔ ہمیں اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں یہ اور اس قسم کی ہزاروں نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ ہم سب کو شکر ادا کرنے اور حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ کیونکہ جس طرح اللہ نے دنیا کی اس مختصر سی زندگی کے لئے ہر طرح کے اسباب کا نظام بنایا ہے اس نے قیامت کے دن اپنے نیک اور مومن بندوں کے لئے کیا کچھ تیار کر کے نہ رکھا ہوگا۔ یہ زندگی تو چند برسوں کے اندر محدود ہے جو ایک وقت پر آکر ختم ہوجائے گی لیکن آخرت کی زندگی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس آخرت کی پوری طرح تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی نہ زمین سے کچھ پیداوار، اور اسی کو بند ہونا فرما دیا، چناچہ جس زمانہ میں بارش نہیں ہوتی اور زمین سے کچھ پیدا نہیں ہوتا اب بھی بند ہوتے ہیں۔ 3۔ کہ آسمان سے بارش ہونے لگی اور زمین سے نباتات اگنے لگیں۔ 4۔ خواہ حدوثا خواہ بقاء خواہ بواسطہ یا بلا واسطہ۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس اِلٰہ کے سامنے کوئی دَم نہیں مار سکتا اس کی الوہیت کے دلائل۔ اللہ تعالیٰ کے واحد اِلٰہ ہونے کا جو لوگ انکار کرتے ہیں کیا انھیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان آپس میں خلط ملط تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جدا جدا کردیا اور اس نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ اتنے ٹھوس دلائل کے باوجود لوگ پھر بھی اس کے واحد اِلٰہ ہونے پر یقین نہیں کرتے۔ پہلے پارے میں یہ بتلایا ہے کہ ” اللہ “ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی نمونے کے پیدا کیا کیونکہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ وہ کام من و عن اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ : ١١٧) ” رَتْقًا “ کا معنی ہے کہ آپس میں خلط ملط اور جڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو حکم دیا کہ تم اوپر نیچے سات آسمان بن جاؤ اور زمین کو حکم ہوا کہ تہہ بہ تہہ سات زمینوں کی شکل اختیار کرلے چناچہ ایسا ہوگیا قرآن مجید کے الفاظ سے یہ عمل بظاہر بڑا سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن اب تک اس عمل کی جو جزیات سامنے آئی ہیں ان پر غور کیا جائے تو آدمی کی عقل نہ صرف دنگ رہ جاتی ہے بلکہ اس عمل کا احاطہ کرنے سے پہلے ہی سوچ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اِلٰہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ دیا ہے کہ اس نے ہر چیز کو پانی سے بنایا ہے۔ بعض اہل علم نے ان الفاظ کا ترجمہ کرتے ہوئے جاندار، چیزیں لکھی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ” کُلُّ شَیْ ءٍ “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں یعنی ” ہر چیز “۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاندار چیزیں پانی کے بغیر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتیں اور ہر جاندار کے وجود میں پانی کی خاص مقدار کا ہونا لازم ہے ورنہ اس کے وجود کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ لیکن بعض جمادات کے اندر بھی پانی کی ایک مقدار موجود ہوتی ہے اور جن چیزوں کے اندر پانی کے اثرات دکھائی نہیں دیتے ہوسکتا ہے کہ ان کے میٹریل میں بھی بنیادی طور پر پانی کا عنصر موجود ہو۔ قرآن مجید نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ زمین سے پہلے اس کائنات میں پانی ہی پانی تھا اور اللہ تعالیٰ کا عرش بھی پانی پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے حکم سے سات زمینیں اور سات آسمان موجودہ شکل میں معرض وجود میں آئے اور اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہوا۔ (ھود : ٧) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الشَّیْطَانَ یَأْتِی أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ فَیَقُول اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ الأَرْضَ فَیَقُول اللَّہُ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ اللَّہَ فَإِذَا أَحَسَّ أَحَدُکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ ذَلِکَ فَلْیَقُلْ آمَنْتُ باللَّہِ وَبِرُسُلِہِ ) [ رواہ احمد : مسند ابی ہریرہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس آتا ہے وہ پوچھتا ہے آسمان کو کس نے پیدا کیا بندہ جواب دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے۔ شیطان پھر پوچھتا ہے زمین کو کس نے پیدا کیا بندہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے۔ شیطان پھر سوال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب آدمی کے ذہن میں یہ خیال آئے تو وہ کہے۔ میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ “ زمین و آسمانوں کی ابتدا کس طرح ہوئی : سائنس کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز (Beginning) رکھتی ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صداقت کو ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ جو چیز اپنا آغاز رکھتی ہو وہ اپنے آپ شروع نہیں ہوسکتی۔ یقیناً وہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خدا کی محتاج ہے۔ “ (The evidence of God , p51) چناچہ کائنات کے وجود میں آنے کا مسلمہ جدید ترین نظریہ یہ ہے کہ ابتداً مادہ مرکوز اور مجتمع (Concentrated and condensed) حالت میں تھا۔ (اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَاوَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ ) [ سورة الأنبیاء : ٣٠] ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ارض و سماوات آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلّاقی) پر ایمان نہیں لاتے ؟ “ یہ مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا اس میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہ تھی پھر اچانک یہ ایک عظیم دھماکہ (Big Bang) (یہ عظیم دھماکہ ایک اندازہ کے مطابق 15 کھرب سال پہلے ہوا) سے پھٹ پڑا اور اس نے ایک عظیم گیسی بادل یا قرآن کے لفظ میں دخان (ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ) کی صورت اختیار کرلی۔ سائنس کی یہ دریافت قرآنی بیان کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ یہ گیسی بادل بہت عظیم الجثہ تھا اور آہستہ آہستہ گردش کر رہا تھا۔ یہ عظیم سدیم (Primery Nebula) انجام کار متعدد ٹکڑوں میں بٹ گیا جن کی لمبائی چوڑائی اور مقدار مادہ بہت ہی زیادہ تھا۔ نجمی طبیعات (Astrophysicist) کے ماہرین اس کی مقدار کا اندازہ سورج کے موجودہ مادہ کے ایک ارب سے لگا کر ایک کھرب گنا تک لگاتے ہیں۔ ان اعداد سے ابتدائی گیسی مقدار مادہ (Hydrogen and Helium) کے ان ٹکڑوں کے عظیم جثوں کا کچھ تصور ملتا ہے جن سے بعد میں عمل انجماد (Condensation) کے ذریعے کہکشائیں وجود میں آئیں۔ علمائے فلکیات کے ایک جدید اندازے کے مطابق ہر کہکشاں (Galaxy) میں دو کھرب ستارے ہیں اور اب تک معلوم کائنات میں تقریباً دو کھرب یہ کہکشائیں ہیں۔ جو کہکشاں ہم سے قریب ترین ہے وہاں سے روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً نو لاکھ سال لگ جاتے ہیں۔ یہ کہکشاں مراۃ السلسلہ (Andromida) نامی مجمع النجوم میں واقع ہے۔ لہٰذا روشنی کو ان ستاروں سے جو معلوم سماوی جہاں کے اس سرے پر واقع ہیں ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی پہنائیاں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کی پیمائش کے لیے خاص اکائیاں مثلاً نوری سال اور پارسک وغیرہ وضع کی گئیں ہیں۔ نوری سال یا سال نوای اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ تقریباً 58 کھرب ستر ارب میل کے برابر ہوتا ہے اور پارسک 3.26 نوری سال یا ایک نیل 92 کھرب میل کے لگ بھگ ہے۔ ( فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ) مزید تفصیل کے لیے فہم القرآن جلد ٢ سورة الاعراف آیت ٥٤ کی تفصیل ملاحظہ کریں۔ مسائل ١۔ زمین و آسمان پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں موجودہ شکل میں بننے کا حکم دیا اور یہ اسی طرح ہی بن گئے جس طرح اللہ تعالیٰ کی منشا تھی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل : ٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے اور مٹیریل کے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ (البقرۃ : ١١٦) ٣۔ زمین و آسمان پہلے باہم جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ : ١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں بنائے۔ (الاعراف : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یرالذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل فی فلک یسبحون ” یہ اس نظر آنے والی کائنات کی سیر ہے ‘ جبکہ انسانوں کے دل و دماغ اس میں موجود دلائل و شواہد سے بالکل غافل ہیں۔ اگر کھلے دل و دماغ سے اس پر غور کیا جائے تو اس میں ایسے شواہد ہیں جو عقل و خرو کے دامن گیر ہوجاتے ہیں ‘ صرف چشم بینا چاہیے۔ یہ بات کہ زمین و آسمان پہلے ملے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو بعد میں جدا کردیا ‘ قابل غور ہے۔ فلکیات کے شعبے میں انسانی علم جس قدر آگے بڑھتا ہے وہ قرآن کے اس فرمان کی توثیق کرتا ہے جو قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے کہی۔ آج تک انسانوں نے جو نظریات قائم کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج کی کہکشاں جس میں سورج ‘ چاند ‘ زمین اور ان کے تابع دوسرے سیارے ہیں وہ پہلے ایک “ سدیم “ تھے بعد میں جدا ہو کر ان اجرام نے موجودہ شکل اختیار کرلی۔ اور یہ کہ زمین سروج ہی کا ایک حصہ تھی جس سے وہ جدا ہوئی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ لیکن یہ تو فلکی نظریات میں سے ایک نظریہ ہے۔ آج یہ قائم ہے ‘ کل پھر اڑ جائے گا اور اس کی جگہ ایک دوسرا زیادہ مضبوط نظریہ لے لے گا۔ مسلمانوں کا طریقہ کار یہ نہیں ہے کہ وہ یقینی آیت پر ماہرین فلکیات کا کوئی غیر یقینی نظر یہ تھوپ دیں اور پھر اس کی تفسیر اس کے مطابق کریں۔ آج ہم اسے قبول کریں اور کل مسترد کردیں۔ اس لیے قرآن مجید کی اس تفسیر میں ہم نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا کہ ہم قرآن کریم اور جدید سائنسی نظریات کے درمیان تطبیق کریں۔ لیکن سائنسی نظریات اور چیز ہیں اور سائنسی حقائق اور چیز۔ سائنسی حقائق وہ ہوتے ہیں جو تجربے سے ثابت ہوں مثلا۔ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ مادہ گرمی سے بڑھ جاتا ہے اور پانی گرم ہونے سے بخارات میں بدل جاتا ہے اور برودت سے پانی جم جاتا ہے۔ اس طرح کے دوسرے تجربات دراصل سائنسی حقائق ہوتے ہیں۔ یہ سائنسی حقائق علمی اور فلکی نظریات سے مختلف چیز ہے۔ قرآن کریم علمی نظریات کی کتاب نہیں ہے۔ نہ قرآن کریم اس لیے نازل ہوا ہے کہ سائنس کی طرح اس کے تجربے کیے جائیں۔ دراصل قرآن زندگی کا ایک پورا نظام ہے ‘ نیز اسلام عقل کے لیے بھی حدود متعین کرتا ہے تاکہ وہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔ اسلام معاشرے کے لیے بھی ایک ضابطہ مقرر کرتا ہے تاکہ وہ عقل کو کام کرنے کی آزادی دے۔ لیکن اسلام سائنسی جزئیات میں مداخلت نہیں کرتا۔ نہ جزئیات میں جاتا ہے۔ عقل کی سمت درست کرکے اسلام ان باتوں کو عقل پر چھوڑ دیتا ہے۔ قرآن کریم کبھی کبھار کائناتی حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے مثلا ان السموات والارض کانتا رتقا ۔۔۔ (١٢ : ٠٣) ” آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان دونوں کو جدا کیا “۔ ہم اس حقیقت پر محض اس لیے یقین کرتے ہیں کہ یہ قرآن میں مذکور ہے ‘ اگرچہ تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے کہ یہ کیونکر ہوا ؟ زمین آسمان سے کیسے جدا ہوئی یا آسمان زمین سے کیسے جدا ہوئے۔ ہم ان سائنسی نظریات کو بھی اس مجھمل حد تک قبول کرتے ہیں جو حقیقت مذکورہ در قرآن کے خلاف نہ ہوں۔ لیکن ہم یہ نہیں کرتے کہ فلکیاتی نظریات کو سامنے رکھ کر آیات قرآنیہ کو ان کے پیچھے دوڑائیں اور قرآن کی صداقت کا سرٹیفکیٹ ان نظریات سے لیں کیونکہ یقینی حقیقت قرآن ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکت ہیں کہ آج کے فلیکاتی نظریات اس آیت کے اس مجمل مضمون کے خلاف نہیں ہیں جو آیت میں آج سے صدیوں پہلے بیان کردیا گیا تھا۔ اب ہم اس آیت کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں جس میں کہا گیا ہے۔ وجعلنا من المآء کل شیء حی (١٢ : ٠٣) ” اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی “۔ یہ آیت بھی نہایت ہی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سائنس دان اس کے انکشاف اور ثبوت کو ایک عظیم با تخیال کرتے ہیں اور ڈارون کی اس بات پر تعریف کرتے ہیں جس نے کہ یہ دریافت کیا کہ پانی حیات کا بنیادی گہوارہ ہے اور اس حقیقت کو تجربے سے ثابت کیا۔ اس میں شک نہیں کہ سائنس دان جب اس حقیقت تک پہنچے تو یہ بہت بڑا انکشاف تھا لیکن قرآن مجید میں جو بات آئی ہے یہ ہمارے لیے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے اور نہ سائنس دانوں کے انکشاف اور تجربے سے قرآن پر ایک مسلمان کے عقیدے میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن پر ہمارے اعتقاد کی بنیاد یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بنیاد نہیں ہے کہ جدید سائنسی نظریات قرآن کریم میں دیئے گئے حقائق کو ثابت کرتے ہیں۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈارون کا نظہ یہ ارتقاء اور نشوونما اس حد تک درست اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کس حدتک وہ زندگی کے لیے پانی کو ضروری خیال کرتا ہے۔ قرآن کریم نے تو آج سے چودہ سو سال قبل کفار کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ ذرا اس کائنات پر غور کرو ‘ اس کے عجائبات کو دیکھو ‘ قرآن نے تو ان کی جانب سے کائنات کا مشاہدہ نہ کرنے پر سخت تنقید کی تھی اور یہ کہا تھا۔ افلا یو منون (١٢ : ٠٣) ” کیا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے “۔ حالانکہ ان کے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات یہ پکاررہی ہے کہ اللہ پر ایمان لائو۔ اور ذرا مزید کائناتی مناظر : وجعلنا فی الارض رواسی ان تمید بھم ” اور زمین پر پہاڑ جمادیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے “۔ یہاں جو بات ثابت کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین پر بڑے بڑے پہاڑ جمادیئے تاکہ وہ انسانوں کو لے کر ایک طرف ڈھلک نہ جائے اور اس کے اندر اضطراب نہ ہو۔ توازن مختلف صورتوں میں پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً بعض اوقات داخلی دبائو جو زمین کے اندر ہوتا ہے ‘ توازن پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات خارجی دبائو توازن پیدا کرتا ہے اور یہ دبائو مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک جگہ پہاڑ بلند ہوں ‘ دوسری جگہ زمین میں گہرے کھدے کے ساتھ متوازن ہوتا ہے۔ جو بھی ہو ‘ بہر حال اس آیت سے اجمالاً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین کے توازن کا پہاڑوں کے ساتھ تعلق ہے اس لیے ہم عقلی علوم اور تجربات کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ قرآن نے ایک حقیقت کے بارے حقیقت ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ آپ اسے ثابت کریں ‘ سائنسی تجربات سے اور یہ ہے عقل انسانی اور سائنسی موضوع کے لیے کام کرنے کا اصل میدان۔ ہمیں قرآن کریم کے اس اعلان پر وجدانی یقین رکھنا چاہیے اور اس کے ثبوت کے لیے اس کائنات میں مزید تحقیقات کرنا چاہئیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید دلائل توحید کا بیان، تخلیق ارض و سما، پہاڑوں کا جما دینا اور شمس و قمر کا ایک ہی دائرہ میں گردش کرنا ان آیات میں اللہ جل شانہٗ نے اپنی صفت خالقیت کو بیان فرمایا ہے اور مخلوق میں جو بڑی بڑی چیزیں ہیں ان کو بطور نشانی کے پیش فرما کر اہل کفر کو ایمان کی دعوت دی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ کافروں کو یہ معلوم نہیں کہ آسمان و زمین سب بند تھے۔ نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی نہ زمین سے کچھ پیدا ہوتا تھا۔ پھر ہم نے انہیں اپنی قدرت سے کھول دیا۔ بارشیں بھی خوب ہونے لگیں اور زمین سے نباتات بھی نکلنے لگی۔ یہ چیزیں منکرین کے سامنے ہیں۔ کچھ لوگ تو خالق ومالک کو مانتے ہی نہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو مانتے تو ہیں لیکن وہ اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے کافروں کو ایسی بڑی بڑی نشانیاں دیکھ کر توحید کا قائل ہونا لازم تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔ قدرت الٰہیہ کے مظاہر بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا (وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ) (اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا) اس عموم میں جتنے بھی جاندار ہیں سب داخل ہیں اور من الماء سے بارش کا پانی مراد ہے جس کا کسی نہ کسی درجہ میں بالواسطہ یا بلاواسطہ جاندار چیزوں کے پیدا ہونے میں یا زندہ رہنے میں دخل ہے۔ یہ بھی بہت بڑی نشانی ہے جو اہل عقل کے لیے کافی ہے۔ لیکن کافر پھر بھی منکر ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ بارش برسانے والا اور اس پانی کو زندگی کا ذریعہ بنانے والا صرف خالق وحدہ لا شریک لہ ہی ہے، ایمان نہیں لاتے۔ مزید فرمایا (وَ جَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ ) (یعنی ہم نے زمین میں بھاری بوجھل چیزیں بنا دیں جو زمین پر مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی ہیں تاکہ وہ لوگوں کو لے کر نہ ہلے) ان بھاری چیزوں سے پہاڑ مراد ہیں۔ جیسا کہ سورة النازعات میں فرمایا (وَالْجِبَالَ اَرْسٰھَا) (اور زمین میں پہاڑوں کو جما دیا) اور سورة والمرسلات میں فرمایا (وَ جَعَلْنَا فِیْھَا رَوَاسِیَ شَامِخَاتٍ ) (اور ہم نے اس میں اونچے اونچے پہاڑ بنا دیئے جو اپنی جگہ پر مضبوطی کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں) ۔ یہ پہاڑ بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی مخلوق ہیں۔ ان کے جو دوسرے فوائد ہیں وہ اپنی جگہ ہیں۔ ان کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اونچے بھی ہیں، بوجھل بھی ہیں، زمین کے اوپر بھی ہیں، اندر بھی ہیں۔ زمین میں میخوں کی طرح گڑے ہوئے ہیں۔ سورة النباء میں فرمایا (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھَادًا وَّ الْجِبَالَ اَوْتَادًا) (کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا) یہ پہاڑ زمین کو حرکت نہیں کرنے دیتے اور زمین پر رہنے والے اطمینان اور سکون سے رہتے اور بستے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انعام بھی ہے اور اس کی قدرت کی بہت بڑی نشانی بھی ہے۔ یہ تو زمین کے عام احوال کے اعتبار سے ہے پھر جب کبھی کسی جگہ پر اللہ تعالیٰ کو زلزلہ بھیجنا ہوتا ہے تو انہیں پہاڑوں کے ہوتے ہوئے زمین میں زلزلہ آجاتا ہے اور خود پہاڑ بھی اس کی زد میں آکر چکنا چور ہوجاتے ہیں۔ (وَ جَعَلْنَافِیْھَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ ) (اور ہم نے زمین میں کشادہ راستے بنا دیئے تاکہ وہ راہ پالیں) یعنی بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں۔ یہ راستے ایک شہر سے دوسرے شہر کو ملاتے ہیں۔ ان میں پیدل اور سواریوں پر گزرتے ہیں۔ پہاڑوں تک میں اللہ تعالیٰ نے راستے بنا دیئے ہیں۔ ادھر ادھر پہاڑ ہیں، درمیان میں ایک گاڑی کے چلنے کا راستہ ہے جنہیں عموماً مسافر جانتے ہیں۔ سورة نوح میں فرمایا (وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا لِتَسْلُکُوْا مِنْہَا سُبُلًا فِجَاجًا) (اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا تاکہ تم اس کے کھلے راستوں پر چلو) (وَ جَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًامَّحْفُوْظًا) (اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا) اور یہ آسمان زمین کے لیے چھت کی طرح سے ہے اور محفوظ بھی ہے۔ گرنے سے بھی محفوظ ہے اور ٹوٹنے پھوٹنے سے بھی۔ پھر جب قیامت آئے گی اس وقت آسمان پھٹ پڑیں گے اس سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ فرما رکھا ہے۔ جس طرح ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ ہیں اسی طرح شیاطین سے بھی محفوظ ہیں۔ جیسا کہ سورة حجر میں فرمایا (وَ حَفِظْنٰھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ مُّبِیْنٌ) (اور ہم نے اس کو ہر شیطان مردود سے محفوظ فرمایا مگر یہ کہ ان میں سے کوئی چوری سے بات سن بھاگے، اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ لگ جاتا ہے) (وَّ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِھَا مُعْرِضُوْنَ ) (اور یہ لوگ اس کی نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں) آسمان میں بہت سی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر کھلی ہوئی دلیلیں ہیں۔ لوگ قصداً ان سے اعراض کرتے ہیں اور ایمان کی طرف نہیں آتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

30 کیا ان لوگوں کو جو کفر و انکار کے مرتکب ہیں یہ بات معلوم نہیں کہ آسمان و زمین دونوں بند تھے یعنی نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی اور نہ زمین سے روئیدگی ، پھر ہم نے ان دونوں کو کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے بنایا ہے کیا اس پر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ یعنی جب زمین پر کوئی مخلوق نہ تھی تو آسمان و زمین بھی بند تھے نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی اور نہ زمین سے کچھ اگتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے دونوں کو کھول دیا اور آسمان سے بارش شروع ہوئی اور زمین کے مسامات کھل گئے اور نباتات اگنی شروع ہوئی اور ہم نے ہر چیز کو بالواسطہ یا بلاواسطہ پانی سے بنایا ہے کیا پھر یہ لوگ ان باتوں کو سن کر بھی ایمان نہیں لاتے اور ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے پہلے جب زمین پر مخلوق نہ تھی تو نہ پانی تھا اور نہ نباتات تھی۔ جیسا کہ اب بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ برسات کے مہینوں میں بارش ہوتی ہے اور برسات کا موسم نہ ہو تو بارش بالکل نہیں ہوتی یہی حال پہلے تھا۔ پانی سے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پانی سے زندگی ہے پانی اور خوراک نہ ہو تو تولید بھی بند ہوجائے اور مخلوق کی زندگیاں ختم ہوجائیں یعنی ان چیزوں کا علم ہونے کے بعد اور اللہ تعالیٰ کی کھلی ہوئی نشانیوں کے دیکھنے کے بعد بھی کیا یہ لوگ ایمان لانے پر تیار نہیں یہ تفسیر عبداللہ بن عباس (رض) سے منقول ہے۔ رتق اور فتق کے سلسلہ میں بعض اور اقوال بھی ہیں مثلاً زمین آسمان ملے ہوئے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے جدا کیا یا عالم عدم میں دونوں یکجا تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت بالغہ نے ان کو وجود بخشا اور دونوں کو اپنی اپنی جگہ قائم کیا اور دونوں کو کام میں لگا دیا۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں منھ بند تھے یعنی ایک چیز تھے زمین میں سے نہریں اور کانیں اور سبزے بھانت بھانت نکالے آسمان میں سے کئے ستارے ہر ایک کا گھر جدا اور چال جدی اور جان دار بنائے یعنی جانور پانی سے یعنی نطفے سے۔ 12