Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 81

سورة الأنبياء

وَ لِسُلَیۡمٰنَ الرِّیۡحَ عَاصِفَۃً تَجۡرِیۡ بِاَمۡرِہٖۤ اِلَی الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَکۡنَا فِیۡہَا ؕ وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیۡءٍ عٰلِمِیۡنَ ﴿۸۱﴾

And to Solomon [We subjected] the wind, blowing forcefully, proceeding by his command toward the land which We had blessed. And We are ever, of all things, Knowing.

ہم نے تند و تیز ہوا کو سلیمان ( علیہ السلام ) کے تابع کر دیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی ، اور ہم ہرچیز سے باخبر اور دانا ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً ... And to Suleiman (We subjected) the wind strongly raging, means, `We subjugated the strong wind to Suleiman.' ... تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الاَْرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ... running by his command towards the land which We had blessed. meaning, the land of Ash-Sham (Greater Syria). ... وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ And of everything We are the All-Knower. He had a mat made of wood on which he would place all the equipment of his kingship; horses, camels, tents and troops, then he would command the wind to carry it, and he would go underneath it and it would carry him aloft, shading him and protecting him from the heat, until it reached wherever he wanted to go in the land. Then it would come down and deposit his equipment and entourage. Allah says: فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِى بِأَمْرِهِ رُخَأءً حَيْثُ أَصَابَ So, We subjected to him the wind; it blew gently by his order whithersoever he willed. (38:36) غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ its morning was a month's (journey), and its afternoon was a month's. (34:12)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردی گئی تھی۔ وہ اپنے وزرا سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کرکے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کرلے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] پہلے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے فیصلے کا ذکر ہوا۔ بعد میں ان پر انعامات کا۔ حضرت سلیمان کو ایک معجزہ تو یہ عطا ہوا کہ تند و تیز ہوا ان کے لئے مسخر کردی گوی تھی۔ وہ ہوا کا جس طرح کا حکم دیتے وہ آپ کا تابع فرمان رہتی اور اس طرح آپ ایک ماہ کا سفر صرف چند گھنٹوں یعنی ٣ سے ٦ گھنٹوں کے درمیان کرلیا کرتے تھے۔ قرآن کریم کی تصریحات سے یہی کچھ ثابت ہے اور اس کی ایک توجیہہ، جو عام طور پر مشہور ہے، یہ کی گئی ہے کہ آپ نے ایک بہت بڑا تخت بنوایا تھا۔ جب آپ چاہتے اس پر خود بھی آپ کے۔۔ سلطنت بھی بیٹھ جاتے اور بھی جسے چاہتے اس پر بٹھا لیتے، پھر ہوا کو حکم دیتے تو وہ اس تخت کو اٹھا لیتی اور جب یہ تخت زمین سے خاصا بلند ہوجاتا تو آپ اس شام کا سفر کیا کرتے تھے اور جہاں آپ کو اترنا ہوتا تو آپ ہوا کو حکم دیتے تو وہ نرمی سے چلنے لگتی اور جہاں آپ چاہتے وہاں اتر جاتے تھے۔ اس طرح جو کام آج کے ہوائی جہاز پٹرول کے ذریعہ کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان یہی کام ہوا سے لے لیا کرتے تھے۔ اور اس کی رفتار بھی تقریباً وہی ہوتی تھی جو آج کل ہوائی جہازوں کی ہے۔ اس دور میں یہ ایک معجزہ تھا مگر آج کے دور میں ایک عادی اور معمولی چیز بن چکا ہے اور اس سفر کی دوسری توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ حضرت داؤد کو تو اللہ تعالیٰ نے لوہے کی ڈھلائی کا کام سکھلایا تھا۔ جبکہ سلیمان کو لوہے کے علاوہ تانبے کی ڈھلائی کا فن بھی سکھلا دیا تھا اور آپ کے دور میں یہ کام آپ کی نگرانی میں وسیع پیمانہ پر ہوتا تھا۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا (وَاَسَلْنَا لَهٗ عَيْنَ الْقِطْرِ 12؀) 34 ۔ سبأ :12) (یعنی ہم نے سلیمان کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے بہا دیئے تھے) جس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے دور میں لوہے اور تانبے کی مصنوعات نے خاص ترقی کی تھی اور آپ ان کی وسیع پیمانہ پر تجارت کیا کرتے تھے۔ آپ کے بحری بیڑے یمن سے شام اور شام سے یمن آتے جاتے تھے۔ اور چونکہ ہوا آپ کے تابع فرمان تھی لہذا یہ بیڑے برق رفتاری سے سفر کرتے اور ایک ماہ کا سفر چند گھنٹوں میں طے کرلیتے تھے۔ [٧٠] یعنی ہم یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ کون کس بات کا اہل ہے اور یہ بھی کسی چیز مثلاً ہوا سے ہی کیا کیا کام لیا جاسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً : اللہ تعالیٰ نے پانی کو حکم دیا تو اس نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو چھوڑ کر ان کی ساری قوم کو غرق کردیا۔ آگ کو حکم دیا تو وہ ابراہیم (علیہ السلام) پر برد وسلام بن گئی۔ داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح کے لیے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا، فرمایا : (وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ) [ الأنبیاء : ٧٩ ] مگر پانی یا آگ کو نوح یا ابراہیم (علیہ السلام) کے تابع فرمان نہیں کیا، نہ پہاڑوں یا پرندوں کو داؤد (علیہ السلام) کے حکم کا پابند کیا، مگر سلیمان (علیہ السلام) کا خاصہ یہ ہے کہ ہوا ان کے حکم کے تابع کردی گئی، فرمایا : (تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ ) کہ وہ اس کے حکم سے چلتی تھی۔ عَاصِفَةًکا معنی ہے ” شَدِیْدَۃُ الْھُبُوْبِ “ بہت سخت تیز چلنے والی ہوا۔ سورة ص میں فرمایا : (فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖ رُخَاۗءً حَيْثُ اَصَابَ ) [ ص : ٣٦ ] ” تو ہم نے اس کے لیے ہوا کو تابع کردیا، جو اس کے حکم سے بہت نرم چلتی تھی، جہاں کا وہ ارادہ کرتا تھا۔ “ اور سورة سبا میں فرمایا : (وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَّ رَوَاحُهَا شَهْرٌ ) [ سبا : ١٢ ] ” اور (ہم نے) ہوا کو سلیمان کے (تابع کردیا) پہلے پہر اس کا چلنا ایک ماہ کا تھا اور پچھلے پہر اس کا چلنا بھی ایک ماہ کا۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ ایک جگہ اس کو تند و تیز بتایا، دوسری جگہ نہایت نرم ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس ہوا میں دونوں خوبیاں موجود ہوتی تھیں، تند و تیز اتنی کہ صبح کے وقت چند گھنٹوں میں ایک ماہ کا سفر طے کرلیتی، اسی طرح پچھلے پہر بھی چند گھنٹوں میں اتنا ہی سفر طے کرلیتی اور نرم اور ہموار اتنی کہ سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے ہمراہیوں کو کوئی تکلیف یا جھٹکا محسوس نہ ہوتا۔ تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا : قرآن مجید میں ارض مبارک شام کو کہا گیا ہے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل۔ اس آیت میں سلیمان (علیہ السلام) کے اپنے کسی بھی سفر سے ان کے دار الحکومت شام کی طرف واپسی کا ذکر ہے، کیونکہ بعض اوقات آدمی سفر میں جاتے ہوئے بہت دور پہنچ جاتا ہے اور واپسی اس کے لیے مشکل ہوتی ہے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہوا سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے ارض مبارک کی طرف چلتی تھی۔ رہا سلیمان (علیہ السلام) کا دوسرے مقامات کی طرف جانا، تو اس کا ذکر سورة ص (٣٦) میں ہے کہ ہوا ان کے حکم سے اسی طرف چل پڑتی تھی جہاں ان کا ارادہ ہوتا، جیسا کہ پچھلے فائدے میں گزرا ہے۔ ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کرنے سے کیا مراد ہے ؟ بعض مفسرین نے اس سے ہوا کا ان کے بحری بیڑوں کے موافق چلنا مراد لیا ہے، کیونکہ اس زمانے میں بحری جہازوں کا چلنا موافق ہوا پر موقوف تھا۔ یہ حضرات بائبل کا حوالہ دیتے ہیں۔ بعض تابعین نے کہا کہ سلیمان (علیہ السلام) اور ان کی افواج لکڑی کے بہت لمبے چوڑے چبوترے پر بیٹھ جاتے تو سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے ہوا انھیں اٹھا کر ان کی منزل مقصود کی طرف چل پڑتی۔ بعض نے اس طرح کے ایک مربع میل قالین کا ذکر کیا ہے۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی صاحب بھی موقع پر موجود نہیں تھا اور نہ انھوں نے اپنی معلومات کا کوئی ذریعہ بیان کیا ہے۔ رہی بائبل، تو اس کی حیثیت مقدمے میں تفصیل سے بیان ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة ص میں ذکر فرمایا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی تھی : (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ) [ صٓ : ٣٥ ] ” اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو۔ “ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ہوا ان کے تابع کردی کہ ان کے حکم سے وہ جہاں کا ارادہ کرتے چل پڑتی تھی۔ آج کل انسان مہینوں کا سفر گھنٹوں میں ہوائی جہاز کے ذریعے سے طے کر رہا ہے، اگر سمندری سفر کی تیزی ہی مراد ہو تو یہ وہ سلطنت تو ہرگز نہیں جو سلیمان (علیہ السلام) کے بعد کسی کے لائق ہی نہیں۔ کیونکہ ہوائی جہاز سمندر ہی نہیں خشکی کو بھی عبور کرتے چلے جا رہے ہیں اور وہ تقریباً ہر ملک میں موجود ہیں۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ ان کے لیے ہوا کی وہ تسخیر ہوائی جہازوں اور اس قسم کے آلات کی محتاج نہ تھی، بلکہ وہ اس سے بہت اعلیٰ چیز تھی جس کی بدولت وہ ہوا کے ذریعے سے سمندروں اور خشکی پر مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرتے ہوئے جہاں چاہتے چلے جاتے تھے۔ اس کی تفصیل اگر انسان کی سمجھ میں آسکتی یا اس کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ بیان فرما دیتا، ہمیں اتنا ہی کافی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا۔ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ : یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تند و تیز ہوا نہایت نرمی سے چلتی ہوئی سلیمان (علیہ السلام) کو لے کر مہینوں کا سفر پہروں میں طے کرلے ؟ فرمایا، ہم ہمیشہ سے ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور ہمارے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّ‌يحَ عَاصِفَةً (And for Sulayman [ We subjugated ] the violent wind - 21:81) This sentence is a continuation of an earlier verse وَسَخَّرْ‌نَا مَعَ دَاوُودَ (And with Dawad We subjugated - 21:79). Thus it means that just as Allah Ta’ ala had made birds and hills subservient to Dawud (علیہ السلام) who used to sing in praise of Allah while he recited the Zabur, in the same way He made the wind subservient to Sulayman (علیہ السلام) who used to fly on its wings swiftly wherever he wanted to go. It is worth noting here that while describing subservience of birds and hills for Dawud (علیہ السلام) the word معَ (with) has been used, but the subservience of wind for Sulayman (علیہ السلام) has been described using the letter لام (which means &for& ). In this there is a subtle hint that the subservience in both these cases was different. In the case of Dawud (علیہ السلام) the birds and hills used to sing praise of Allah with him simultaneously without any command from him. But in the case of Sulayman (علیہ السلام) the wind acted according to his commands and carried him where and when he desired. (Ruh ul-Ma’ ani, with reference to A1-Baidawi). Ibn Kathir in his commentary has described in fair detail the platform on which Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) was carried by the wind. It was made of wood and was of an enormous size which could accomodate him and all the functionaries of the government as well as the army alongwith their weapons, and the wind carried them all wherever it was commanded to go, covering two month&s journey in one day. Ibn Abi Hatim has narrated on the authority of Sayyidna Said Ibn Jubair (رض) that 600, 000 six hundred thousand chairs were placed on this platform on which humans who were also believers sat in front with Sayyidna Sulayman (علیہ السلام) and behind them sat the believing Jinns. Then the birds were commanded to fly above the platform and protect it from the heat of the sun. Then by the command of Sulayman (علیہ السلام) the wind would take the platform to a specified destination. Some traditions report that throughout this aerial journey, Sulayman علیہ السلام used to sit with his head bowed down praying to and thanking Allah Ta` ala in all humility and not turning his head to the right or to the left. عَاصِفَةً (violent) Literal meaning of is strong and violent wind. At another place in the Holy Qur&an the attribute of this wind is given as رِیحُ عَاصِفَةً which means a mild breeze, which neither raises dust nor creates turbulence. On the face of it, these attributes are contradictory, but they can be reconciled in that whereas in itself it was so strong that it could accomplish two month&s Journey in one day, yet it did not create. any turbulence. It is reported that when this platform used to fly in the air, no birds were ever harmed due to velocity of the wind.

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً ، یہ جملہ سابقہ سَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ پر عطف ہے یعنی جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا جو ان کی آواز کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کو مسخر کردیا تھا جس پر سوار ہو کر وہ جہاں چاہتے بہت جلد آسانی سے پہنچ جاتے تھے اس جگہ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ تسخیر داؤد (علیہ السلام) میں تو لفظ مَعَ استعمال فرمایا کہ ان کے ساتھ پہاڑوں پرندوں کو مسخر کردیا تھا اور یہاں حرف لام کے ساتھ فرمایا کہ ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیا تھا اس میں لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ دونوں تسخیروں میں فرق تھا، داؤد (علیہ السلام) جب تلاوت کرتے تو پہاڑ اور پرندے خود بخود تسبیح کرنے لگتے تھے ان کے حکم کے منتظر نہ رہتے تھے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کو ان کے حکم کے تابع بنادیا گیا کہ جب چاہیں جس وقت چاہیں جس طرف جانا چاہیں ہوا کو حکم دے دیا اس نے پہنچا دیا پھر جہاں اترنا چاہیں وہاں اتار دیا پھر جب واپس چلنے کا حکم ہوا واپس پہنچا دیا۔ (روح عن البیضاوی) تفسیر ابن کثیر میں تخت سلیمان (علیہ السلام) جو ہوا پر چلتا تھا اس کی کیفیت یہ بیان کی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے لکڑی کا ایک بہت بڑا وسیع تخت بنوایا تھا جس پر خود مع اعیان سلطنت اور مع لشکر اور آلات حرب کے سب سوار ہوجاتے پھر ہوا کو حکم دیتے وہ اس عظیم الشان وسیع و عریض تخت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا وہاں جا کر اتار دیتی تھی۔ یہ ہوائی تخت صبح سے دوپہر تک ایک مہینہ کی مسافت طے کرتا تھا اور دوپہر سے شام تک ایک مہینہ کی یعنی ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت ہوا کے ذریعہ طے ہوجاتی تھی۔ ابن ابی حاتم نے حضرت سعید بن جبیر سے نقل کیا ہے کہ اس تخت سلیمانی پر چھ لاکھ کرسیاں رکھی جاتی تھی جس میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ اہل ایمان انسان سوار ہوتے تھے اور ان کے پیچھے اہل ایمان جن بیٹھتے تھے پھر پرندوں کو حکم ہوتا کہ وہ اس پورے تخت پر سایہ کرلیں تاکہ آفتاب کی تپش سے تکلیف نہ ہو پھر ہوا کو حکم دیا جاتا تھا وہ اس عظیم الشان مجمع کو اٹھا کر جہاں کا حکم ہوتا پہنچا دیتی تھی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ اس ہوائی سفر کے وقت پورے راستہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) سر جھکائے ہوئے اللہ کے ذکر و شکر میں مشغول رہتے تھے دائیں بائیں کچھ نہ دیکھتے تھے اور اپنے عمل سے تواضع کا اظہار فرماتے تھے (ابن کثیر) عَاصِفَةً ، ریح عاصفہ کے لفظی معنی سخت اور تیز ہوا کے ہیں۔ قرآن کریم کی دوسری آیت میں اس ہوا کی صفت رخاء بیان کی گئی ہے جس کے معنی نرم ہوا کے ہیں جس سے نہ غبار اڑے نہ فضا میں تلاطم پیدا ہو۔ بظاہر یہ دو متضاد صفتیں ہیں لیکن دونوں صفتوں کا جمع ہونا اس طرح ممکن ہے کہ یہ ہوا اپنی ذات میں بڑی سخت اور تیز ہو جس کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ایک مہینہ کی مسافت طے کرسکے لیکن قدرت حق تعالیٰ نے اس کو ایسا بنادیا ہو کہ اس سے فضاء میں تلاطم نہ پیدا ہو چناچہ اس کا یہ حال بیان کیا گیا ہے کہ جس فضا میں یہ تخت روانہ ہوتا تھا وہاں کسی پرندے کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچتا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِيْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْہَا۝ ٠ۭ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عٰلِمِيْنَ۝ ٨١ الرِّيحُ معروف، وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] . وأمّا قوله : يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ. وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ : تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ : مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء . ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح . الریح کے معنی معروف ہیں ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر/ 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب/ 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران/ 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم/ 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر/ 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم/ 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف/ 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال/ 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔ المراوحتہ کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف/ 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔ عصف العَصْفُ والعَصِيفَةُ : الذي يُعْصَفُ من الزّرعِ ، ويقال لحطام النّبت المتکسّر : عَصْفٌ. قال تعالی: وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] ، ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ، وعَاصِفَةٌ ومُعْصِفَةٌ: تَكْسِرُ الشیءَ فتجعله كَعَصْفٍ ، وعَصَفَتْ بهم الرّيحُ تشبيها بذلک . ( ع ص ف ) العصف واعصیفتہ کھیتی کے پتے جو کاٹ لئے جاتے ہیں نیز خشک نباتات جو ٹوٹ کر چور چور ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ [ الرحمن/ 12] اور اناج چھلکے کے اندر ہوتا ہے ۔ ، كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ [ الفیل/ 5] جیسے کھا یا ہوا بھس ہو ۔ ورِيحٌ عاصِفٌ [يونس/ 22] ریح عاصف وعاصفتہ ومعصفتہ تند ہوا جو ہر چیز کو توڑ کر بھس کی طرح بنادے اور مجازا عصفت بھم الریح کے معنی ہیں وہ ہلاک اور برباد ہوگئے ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے برك أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء . قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] ( ب رک ) البرک اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١) اور ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تیز ہوا کو تابع بنادیا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے، یا یہ کہ سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے اصطخر سے اس سرزمین کی طرف چلتی، جس میں ہم نے پھلوں وغیرہ کی برکت رکھی ہے یعنی شام، اردن، فلسطین کی طرف اور ہم ہر چیز کو جانتے ہیں، اس لیے ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان چیزوں کو مسخر کیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74. This is also explained in (Surah Saba, Ayat 12): And for Solomon We had subjected the wind which covered a month’s journey in the morning and a month’s journey in the evening, and in (Surah Suad, Ayat 36): So We subjected the wind to him. It blew softly at his bidding wherever he wanted it to blow. Thus it is clear that the wind was so subjected to Prophet Solomon that the voyages to places at one month’s sea journey could be performed conveniently, because a favorable wind was always blowing for his ships to and from those places. It is confirmed by the Bible that Prophet Solomon had developed sea trade on a large scale. (I Kings, 10: 22). On the one side, his trade ships sailed from Ezion-geber, through the Red Sea, towards Yaman and other southern and eastern lands, and on the other, his naval fleet called Thar-shish, sailed on the Mediterranean to the western countries. The great furnace which he had built at Eziongeber for melting and molding ores extracted from the copper and iron mines in the Arabah in Edom, has been confirmed by modem archaeological researches as well. This molten iron and copper was used in building ships besides being put to other uses. The Quran refers to this when it says: And We made a fountain of molten copper to flow for him (Solomon). (Surah Saba, Ayat 12). As regards to the subjection of the wind, it may mean that Allah, by His special favor, had so arranged that the wind, and sea voyages in those days depended entirely on wind, was always favorable for Prophet Solomon’s fleet. But if we take the literal meaning of verse 81: It blew at his command, there will be no harm, for Allah is able to give such powers to any of His servants He pleases.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :74 اس کی تفصیل سورہ سبا میں یہ آئی ہے : وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّ یْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَ رَوَاحُھَا شَھْرٌ ، اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا تھا ، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو ۔ پھر اس کی مزید تفصیل سورہ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہ رَخَآءً حَیْثُ اَصَابَ ۔ پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا ۔ جانے میں بھی ہمیشہ ان کی مرضی کے مطابق باد موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی ۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ ایک طرف عصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے ، اور دوسری طرف بحر روم کے بندر گاہوں سے ان کا بیڑہ ( جسے بائیبل میں ترسیسی بیڑہ کہا گیا ہے ) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا ۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی ۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقہ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جا تا تھا ۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورہ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ : وَاَسَلْنَا لَہ عَیْنَ الْقِطْرِ ، اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا ۔ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو مسخر کرنے کا کیا مطلب ہے ۔ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا ، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی ۔ تا ہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو ، جیسا کہ : تَجْرِیْ بِاَمْرِہ ، ( اس کے حکم سے چلتی تھی ) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے ، تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے ۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے ۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات چاہے دے سکتا ہے ۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دل دکھنے کی وجہ نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: حضرت داود (علیہ السلام) کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوہے جیسی سخت چیز کو نرم کردیا تھا، اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا جیسی لطیف چیز کو۔ چنانچہ وہ اپنے تخت پر بیٹھ کر ہوا کو حکم دیتے تو وہ انہیں ان کی مرضی کے مطابق جہاں چاہتے لے جاتی تھی، اور سورۃ سبا : 12 میں مذکور ہے کہ وہ ایک مہینے کا فاصلہ صبح کے سفر میں، اور ایک مہینے کا فاصلہ شام کے سفر میں طے کرلیا کرتے تھے اور برکتوں والی سرزمین سے مراد شام یا فلسطین کا علاقہ ہے، اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ کہیں دور چلے جاتے تو وہ ہوا انہیں تیز رفتاری کے ساتھ واپس اپنے شہر میں لے آتی تھی جو فلسطین میں واقع تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:81) ولسلیمن الریح۔ ای وسخرنا لسلیمن الریح اس صورت میں سخرنا فعل محذوف ہے۔ یا یہ جملہ معطوف ہے اور اس کا عطف جملہ سابقہ وسخرنا مع داود الجبال ہے اور ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو فرمانبردار بنادیا۔ عاصفۃ۔ باد تند۔ زور کی ہوا۔ عصف اسم فاعل واحد مؤنث یہ الریح سے حال ہے جب وہ تیزی سے چلتی ہے، کہتے ہیں عصفت الریح۔ جب وہ تیزی سے چلتی ہے۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے فسخرنا لہ الریح تجری بامرہ رخاء حیث اصاب (38:36) پھر ہم نے ہوا کو ان کے تابع کردیا کہ وہ ان کے حکم کے مطابق جہاں وہ چاہتے نرمی سے چلتی ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ہوا پر مکمل تسخیر عطا کی چاہیں تو تیز چلے چاہیں تو نرمی سے چلے۔ الی الارض التی برکنا فیھا۔ اس سرزمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھ دی ہے۔ اس کو حیث اصاب (38:36) (ای حیث اراد) کے ساتھ پڑھا جائے تو کوئی اشکال باقی نہیں رہتا کہ وہ جہاں چاہتے ان کے حکم کے مطابق انہیں وہاں لے جاتی۔ الارض سے یہاں مراد باتفاق ملک شام ہے اور اس ملک میں آپ کا قصر سلطنت تھا۔ لہٰذا اس کی مرکزی حیثیت سے الی الارض التی برکنا فیھا۔ استعمال ہوا ہے کہ جہاں کہیں بھی تشریف لے جائے مراجعت اسی مقام کی طرف ہوتی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ اس کی تفسیر میں حجرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان نے ایک تخت تیار کرایا تھا جس میں مع اعیان سلطنت بیٹھ جاتے اور ضروری سامان بھی رکھ لیتے پھر ہوا آتی اور اسے اڑالے جاتی۔ جب وہ چاہتے ہوا تیز چلتی اور جب چاہتے دھیمی۔ صبح سے زوال تک وہ ایک ماہ کی مسافت اور زوال سے شام تک ایک ماہ کی مسافت طے کرتی۔ نیز دیکھئے سورة سبا آیت 211 اور سورة ص آیت 53 تا 63 (فتح القدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جب ملک شام سے کہیں جاتے اور پھر آتے تو یہ آنا اور اسی طرح جانا بھی ہوا کے ذریعہ سے ہوتا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے ہونہار صاحب زادے کا ذکر۔ (وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَاحُھَا شَھْر) [ السباء : ١٢] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا تھا ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو۔ “ مزید تفصیل سورة ص میں بیان فرمائی۔ (فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَُ ) [ ص : ٣٦] ” پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جدھر وہ جانا چاہتا اس کے حکم کے مطابق بسہولت چلتی تھی۔ “ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عِصُیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحراحمر میں یمن اور دوسرے جنوبی ومشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے اور دوسری طرف بحر روم کے بندرگاہوں سے ان کا بیڑہ (جسے بایئبل میں ” ترسیسی بیڑہ “ کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقۂ عَرَبہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورة سبا میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق آئی ہے کہ (وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ) ” اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا۔ “ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ” مسخر “ کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو جیسا کہ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات چاہے دے سکتا ہے جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دل دکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ( تفہیم القرآن) سیدنا سلیمان (علیہ السلام) حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں لہٰذا ان کا نسب بھی یہودا کے واسطے سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے ملتا ہے۔ (وَ وَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَا وَ نُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ ) [ الانعام : ٨٤] ” اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق و یعقوب عطا کئے ہر ایک کو ہدایت بخشی اور نوح کو ابراہیم سے پہلے ہدایت بخشی اور ابراہیم کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو ہدایت عطا کی۔ “ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر مبارک سولہ مقامات پر آیا۔ ان میں سے چند مقامات پر تفصیلی ذکر ہے اور اکثر جگہ مختصر طور پر البقرۃ : ١٠٢ النساء : ١٦٣ الانعام : ٨٩ الانبیاء : ٧٨۔ ٨١ النمل : ١٥۔ ١٦۔ ١٧۔ ١٨۔ ٨۔ ٣٠۔ ٣٦۔ ٤٤ السباء : ١٢ ص : ٣٠۔ ٣٤ حضرت سلیمان (علیہ السلام) فطری طور پر بہت ذہین اور سمجھ دار تھے۔ اپنے والد داؤد (علیہ السلام) کی معیت میں سن شعور کو پہنچے تو اس وقت حضرت داؤد (علیہ السلام) کا انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا اور حکومت میں بھی حضرت داؤد (علیہ السلام) کا جانشین بنایا۔ قرآن حکیم نے اسی جانشینی کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی وراثت قرار دیا ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی نبوت میں بھی وارث قرار پائے۔ نبوت وراثت کی چیز نہیں جو لازماً اولاد کے حصے میں آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء ( علیہ السلام) پر یہ بھی فضل کیا ہے کہ ان کی اولاد کو نبوت میں بھی ان کا جانشین بنایا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی ان انبیائے کرام میں سے ایک ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی خصوصیات و امتیازات سے نوازا گیا جس کی وجہ سے وہ انبیاء میں ممتاز حیثیت کے حامل ہوئے :۔ (وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ ) [ النمل : ١٦] ” اور وارث ہوئے سلیمان حضرت داؤد کے “ ” اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور ان دونوں نے کہا ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کو زیبا ہے جس نے اپنے مومن بندوں پر ہم کو فضیلت عطا کی ہے۔ سلیمان داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور انہوں نے کہا لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے اور ہم کو ہر چیز بخشی گئی ہے بیشک یہ اللہ کا بڑا فضل ہے۔ “ [ النمل : ١٥] حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خصوصی امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ” ہوا “ کو انکے زیر فرماں کردیا تھا وہ جب اور جہاں چاہتے اس کو چلنے اور رک جانے کا حکم دیتے تھے۔ ہوائیں ان کے حکم سے نرم اور سبک رفتار ہوجاتی تھیں جب تیز روی کا حکم دیتے تو برق رفتاری کا یہ عالم ہوتا کہ اس کے دوش پر سوار ہو کر ایک ماہ کی مسافت صبح کے وقت اور ایک ماہ کی مسافت شام کے آخری لمحات میں طے کرلیتے تھے۔ ان کا تخت جہاں چاہتے ہوا پہنچادیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عام قوانین قدرت کے تحت کائنات کی اشیاء کو اسباب کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ اسی طرح اپنے قانون خاص کے تحت انبیاء کے ساتھ معاملہ فرمایا ہے جس کو معجزہ کہا جاتا ہے۔ ہوا کا تابع فرمان ہونا اسی قسم سے ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زیر نگیں نہ صرف انسان تھے بلکہ جنات اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے یہ ایسا اقتدار تھا کہ کائنات میں شاید ہی کسی اور کو عطا کیا گیا ہو۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا : ” اے پروردگار مجھے معاف فرما دے اور مجھ کو ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو بیشک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔ “ [ ص : ٣٥] معدنیات تک رسائی : اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ بھی تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تانبے کے چشمے فراہم کئے گئے جس کو تعمیرات کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کا انعام خاص یہ تھا کہ ان چشموں کو آشکارا کردیا گیا جن سے پہلے کوئی شخص آگاہ نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے حضرت قتادہ (رض) کی ایک روایت نقل کی ہے کہ پگھلے ہوئے تانبے کے یہ چشمے ملک یمن میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ظاہر کردیا تھا۔ (البدایہ والنہایہ ج ٢) شیاطین جنّات کا تابع فرماں ہونا : ” اور شیاطین میں سے ہم نے اکثر کو سلیمان کا تابع بنا دیا تھا جو ان کے لیے سمندر میں موتی نکالنے کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام بھی کرتے تھے ان سب کے نگراں ہم ہی تھے۔ “ [ انبیاء : ٨٢] ” اور سلیمان کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پوری طرح نظم وضبط میں رکھے جاتے تھے۔ “ [ النمل : ١٧] ” اور سرکش جنوں کو بھی ان کے تابع کردیا ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور اور سرکش وباغی بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ ہم نے سلیمان سے کہا یہ ہماری عطا ہے تم کو اختیار ہے جس کو چاہو دو اور جس سے چاہے روک لو کوئی حساب کتاب نہیں۔ “ [ ص : ٣٧ تا ٣٩] چیونٹیوں اور جانوروں پر حکمرانی : وادئ نملہ : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ علم خاص معجزہ کے طور پر دیا گیا تھا جس طرح ایک انسان دوسرے انسان کی گفتگو بےتکلف سن لیتا ہے اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کی بولیاں سن اور سمجھ لیا کرتے تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں مدّت مدید تک بارش نہ ہوئی۔ سلیمان (علیہ السلام) لوگوں کے ساتھ صلوٰۃِ استسقاء کے لیے کھلے میدان کی طرف نکلے۔ راستہ میں دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے اگلے پیر اٹھائے آسمان کی طرف منہ کئے دعا کر رہی ہے : خدایا ہم بھی تیری مخلوق اور تیرے فضل وکرم کے محتاج ہیں ہم کو بارش سے محروم رکھ کر ہلاک نہ فرما۔ سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی دعا سنی اور اپنی قوم سے فرمایا واپس چلو ایک چیونٹی کی دعا نے ہمارا کام پورا کردیا۔ اب بارش ضرور ہوگی۔ (تاریخ ابن کثیر : ج، ٢ ) ایک مرتبہ حضرت سلیمان جن وانس اور حیوانات کے ایک عظیم لشکر کے ساتھ کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے چلتے چلتے لشکر ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں چیونٹیاں بیشمار تھیں اور پوری وادی ان کا مسکن بنی ہوئی تھی چیونٹیوں کی سردار نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کو دیکھ کر کہا اے چیونٹیو۔ فوراً اپنی اپنی بلوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں بیخبر ی میں روند نہ دے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹیوں کی سردار کی بات سنی تو ہنس پڑے۔ ( السباء : ١٨۔ ١٩) ہُدہُد اور ملکۂ سبا : ایک مرتبہ سلیمان (علیہ السلام) اپنے دربار میں پورے جاہ و جلال کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ انسان، جنات، حیوانات کے نمائندے بھی موجود تھے لیکن پرندوں میں ہدہد موجود نہ تھا۔ فرمایا کیا بات ہے کہ میں ہد ہد کو موجود نہیں پاتا ؟ اگر وہ واقعی غیر حاضر ہے تو اس کو سخت سزادوں گا یا پھر ذبح کر ڈالوں گا۔ الاّ یہ کہ وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بیان کرے۔ اسی غضب میں تھے کہ ہدہد حاضر ہوگیا اور حضرت سلیمان کے سوال پر کہنے لگا کہ میں ایک یقینی خبر لایا ہوں جسے آپ نہیں جانتے۔ وہ یہ ہے کہ سبا کے ملک پر ایک ملکہ حکمرانی کرتی ہے۔ اللہ نے اس کو سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تخت نہایت عظیم الشان ہے ملکہ اور اس کی قوم سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ الٰہ واحد کی عبادت نہیں کرتے شیطان نے ان کی سورج پرستی کو ان کے لیے خوشنما بنا دیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ خبر سن کر فرمایا کہ تیری سچائی کا ابھی علم ہوجائے گا۔ میرا خط لے جا اور اس کو ان تک پہنچا اور انتظار کر کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ہدہد خط لے کر اڑا اور خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا ملکہ خط پڑھ کر اہل دربار سے کہنے لگی کہ ابھی ابھی یہ خط سلیمان کی جانب سے آیا ہے۔ جو اللہ کے نام سے شروع کیا گیا ہے جو بڑا مہربان رحم فرمانے والا ہے۔ “ خط کا مضمون یہ ہے کہ تم سرکشی کا اظہار نہ کرو اور میرے پاس تابعدار ہو کر آجاؤ۔ (النمل : ٣١) وزیروں مشیروں نے کہا جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم طاقت ور اور جنگی قوت کے مالک ہیں البتہ آخری فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے جو مناسب سمجھیں فیصلہ فرمائیں۔ ملکہ نے کہا بیشک ہم طاقتور ہیں لیکن سلیمان کے معاملے میں ہمیں جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پہلے اپنے نمائندے بھیجوں جو اس کی خدمت میں تحائف پیش کریں۔ اس سے اس کی شان و شوکت اور مزاج کا اندازہ لگائیں کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ اگر واقعی قوت و شوکت کے مالک ہیں تو پھر ان سے لڑنا فضول ہے۔ کیونکہ فاتح بادشاہوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی شہر میں فاتحانہ طور پر داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو برباد اور باعزت شہریوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ تیسرا واقعہ : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اہل دربار سے مخاطب ہو کر فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ ملکۂ سبا کے ہمارے ہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت اٹھا کر یہاں لے آیا جائے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ملکہ کو ایک معجزہ دکھانا چاہتے تھے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے مرسلین کو کس طرح غیر معمولی طاقت عطا فرماتا ہے تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ سلیمان واقعی اللہ کا رسول ہے۔ یہ سن کر ایک دیو پیکر جِن کہنے لگا یہ کام میں انجام دوں گا اور آپ کا دربار برخاست ہونے سے پہلے پہلے تخت لے آؤں گا میں طاقتور اور امانتدار ہوں۔ جن کا دعویٰ سن کر دربار کے ایک اہل علم نے کہا۔ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے تخت کو پیش کرتا ہوں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے رخ پھیراتو تخت ان کے سامنے تھا۔ فرمانے لگے یہ میرے پروردگار کا فضل ہے وہ مجھ کو آزماتا ہے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نافرمانی کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے اپنی ذات ہی کو فائدہ دیتا ہے اور جو نافرمانی کرتا ہے اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے رب کے شکر گزار بندے اور نبی تھے۔ اس موقعہ پر اس لیے شکریہ ادا کیا کہ میرے رب نے نہ نا صرف مجھے اقتدار، اختیارات اور امتیازات دیے بلکہ میرے ساتھیوں کو بھی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ عظیم محل حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چاہا کہ نبوت کا اعجاز دکھلانے کے بعد ملکۂ کو دنیوی شوکت بھی دکھلا دی جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو دنیا کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو کمتر سمجھے اس لیے شیش محل بنوا کر اس کے صحن میں ایک بڑا حوض بنوایا جس پر بلوری فرش بنا دیا گیا جو دیکھنے والے کو حوض ہی نظر آتا تھا جنوں کی مدد سے یہ عالی شان شیش محل آناً فاناً تیار ہوگیا جو صنعت کاری کے لحاظ سے اپنی نظیر آپ تھا۔ ملکۂ سبا سے کہا گیا کہ قصر شاہی میں قیام کریں۔ ملکہ محل کے سامنے پہنچی تو بہتا ہوا پانی پایا یہ دیکھ کر ملکہ نے اپنے پہنچے اٹھا لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا پہنچے نہ اٹھائیں کیونکہ یہ پانی نہیں بلکہ فرش ہے جو آبگینوں سے بنایا گیا ہے۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی وفات : بیت المقدس کی تعمیر کا آغاز حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کیا تھا وہ اپنے انتقال کی وجہ سے مکمل نہ کر پائے۔ ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی تکمیل فرمائی۔ تعمیر کے مکمل ہونے کے باوجود تیاری کا کام کچھ باقی تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا وقت قریب آپہنچا۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے سوچا کہ اگر جنات کو معلوم ہوگیا تو کام چھوڑ دینگے اور تعمیر نامکمل رہ جائیگی۔ ان (علیہ السلام) نے یہ انتظام کیا کہ موت سے کچھ قبل شیشے کی بنی ہوئی محراب میں داخل ہوگئے۔ جنّات اس کے سامنے سے گزرتے تو سلیمان (علیہ السلام) کو رکوع، سجدے اور قیام میں مشغول پاتے اور اپنے اپنے کام میں مصروف رہتے۔ سلیمان (علیہ السلام) طویل قیام کرنے کی خاطر عصا کے سہارے کھڑے عبادت کر رہے تھے تو اسی حالت میں انہیں موت نے آلیا۔ ” جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو جنات کو ان کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز سوائے اس زمین کے کیڑے دیمک کے سوا نہ تھی جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا، جب سلیمان گرپڑے تو جنوں کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اس ذلّت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔ “ [ سبا : ١٤] کہا جاتا ہے کہ جنات پر یہ راز جب کھلا تو اس وقت تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ اس لیے جنوں کو احساس ہوا کہ اگر وہ غیب داں ہوتے تو اس سے بہت پہلے آزاد ہوجاتے۔ اس کے علاوہ ان گمراہ انسانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ جنّات اور شیاطین غیب کی خبریں نہیں جانتے ہیں۔ یہ جہالت ہر دور میں رہی ہے کہ جنّات غیب کی خبریں جانتے ہیں۔ لیکن سلیمان (علیہ السلام) کی موت نے ثابت کردیا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ تفسیر بالقرآن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی فضیلت اور خصوصیات : ١۔ حضرت سلیمان کا قرآن مجید میں ١٧ مرتبہ تذکرہ ہوا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو غیر معمولی بادشاہت عطا فرمائی۔ ( الانبیاء : ٧٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تابنے کے چشمے عطا فرمائے۔ ( سبا : ١٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو صنعت وحرفت میں کمال عطا فرمایا۔ ( سبا : ١٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو فہم و فراست عطا کی۔ (الانبیاء : ٧٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے چلتی تھی۔ (الانبیاء : ٨١) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) کو علم عطا کیا۔ (النمل : ١٥) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ( سبا : ١٢) ١٠۔ حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی زبان سمجھنے کا فہم عطا کیا۔ (النمل : ١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولسلمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا لھم حفظین (١٢ : ٢٨) ” اور سلیمان کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخر کردیا تھا جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں ‘ ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام کرتے تھے ‘ ان سب کے نگران ہم ہی تھے “۔ سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں بہت سی باتیں ‘ بہت سی روایات اور بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ ان میں سے اکثر یا تو اسرائیلیات سے لی گئی ہیں یا اوہام و تخیلات کا نتیجہ ہیں۔ لیکن روایات کے اس صحرا میں ہم نے اپنے آپ کو بےراہ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حددود قرآنیہ تک اپنے آپ کو محدود کردیں۔ قرآن کریم کے علاوہ سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے۔ قرآن کریم میں صرف اس حد تک بیان ہوا ہے کہ ہوا کو ان کے لیے مسخر کردیا گیا تھا۔ یعنی تیز رفتار ہوا کو۔ یہ ہوا ارض متبرک کر طرف چلتی تھی۔ برکت والی سر زمین سے مراد موجودہ شام کی سر زمین ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے قصے میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے لیے اس ہوا کو کیونکر مسخر کردیا گیا تھا۔ ایک قصہ ہوا کے تخت یا ہو کی چادر کا ہے کہ حضرت سیلمان (علیہ السلام) اور آپ کے حاشیہ نشین اس پر بیٹھتے تھے اور اڑ جاتے تھے اور شام کی طرف چلے جاتے تھے اور چشم زون میں وہ شام میں ہوتے تھے۔ یہ اس قدر سفر تھا کہ اونٹوں پر ایک ماہ میں طے ہوتا تھا اور اسی طرح وہ واپس آجاتے تھے۔ اس روایت کو سورة سبا کی اس آیت سے ثابت کیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے۔ ولسلیمان الریح۔۔۔۔۔ رواحھا شھر (٤٣ـ: ٢١) ” اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا تھا ‘ صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک “۔ لیکن قرآن کریم نے ہوا کی اس چادرکا ذکر کہیں نہیں کیا۔ اس کا ذکر کسی صحیح حدیث میں بھی نہیں ہوا۔ لہذا اس قسم کی روایات کے بارے میں ہمیں کوئی مستند ثبوت نہیں ملا۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم تسخیرہوا کا مفہوم یہ لیں کہ یہ ہوا اللہ کے حکم کے مطابق یوں چلتی تھی کہ ایک طرف سے ایک ماہ کا مفر وہ صبح و شام طے کرتی تھی۔ یہ سفر کیسے ہوجاتا تھا ؟ تو یہ قدرت الہٰی کے کارنامے ہیں۔ اس کے بارے میں ہم نہیں پوچھ سکتے کہ یہ کیسے چلتی تھی۔ قوانین قدرت کی تخلیق اللہ نے کہ ہے۔ وہ جس طرف چاہے ان قوائے قدرت کا رخ پھیر سکتا ہے۔ اس کائنات میں قدرت کے اصولوں میں سے ابھی انسان کو کم ہی کا پتہ چلا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ کے کچھ خفیہ طبیعی قوانین ایسے ہوں جن کا ابھی تک ہمیں علم نہ ہو اور ان اصولوں کا ظہور اور انکشاف اس وقت ہو جب انسان اس کا برداشت کرنے کے اہل ہوں اور اللہ کا حکم ہو۔ وکنا بکل شیی علمین (١٢ : ١٨) ” اور ہم ہر چیز کو جانتے تھے “۔ مطلق اور بےقید علم ہمارے قبضے میں ہے۔ رہا انسان کا علم تو وہ محدود ہے۔ یہی معاملہ تسخیر جنات کا ہے جو بحروبر میں ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور سیلمان (علیہ السلام) کے لیے زمین کے خزانے نکالتے تھے یا وہ ان کے لیے دوسری خدمات سر انجام دیتے تھے۔ جن ہر اس مخلوق کو کہتے ہیں جو مخفی ہو۔ قرآن مجید کی صریح آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک مخلوق ایسی ہے جسے جن کہتے ہیں ‘ جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس مخلوق میں سے کچھ لوگوں کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا گیا تھا جو ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور دوسرے کام کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے کنٹرول میں دے دیا تھا کہ نہ وہ بھاگ سکتے تھے ‘ نہ فساد کرسکتے تھے۔ وہ نہ ان کی فرماں برادری کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر پوری طرح کنٹرول کرسکتا ہے اور اپنی مخلوق کو جس طرح چاہے استعمال کرے۔ بس فی ظلال میں ہم اس حد تک جاتے ہیں اور یہی وہ حد ہے جس میں غلطی کا احتمال کم ہے۔ اس لیے ہمیں اسرائیلیات میں تیرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو خوشحالی میں آزمایا تھا۔ انعامات میں آزمایا تھا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کو فیصلے میں آزمایا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو گھوڑوں کے بارے میں آزمایا تھا (تفصیلات سورة ص میں آرہی ہیں لہٰذاہم یہ مباحث یہاں نہیں چھیڑتے) ۔ اپنی جگہ یہ سب بحثیں ہوں گی۔ یہاں نتیجے کا ذکر ضروری ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے بھے صبر کیا ‘ حضرت سلیمان (علیہما السلام) نے بھی صبر کیا اور آزمائشوں کے بعد اللہ سے معافی اور مغفرت طلب کی اور امتحان و آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزر گئے۔ چناچہ وہ اللہ کے انعامات پر شکر خداوندی بجالانے والے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ ” وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ الخ “ یہ مع داؤود پر معطوف ہے ای سخرنا لہ الریح الخ (روح) ۔ یعنی ہم ہی نے اپنے حکم سے ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع فرمان بنادیا اور ہم ہی ہر چیز کو جاننے والے ہیں دوسرا کوئی نہیں۔ ” وَ مِنَ الشَّیَاطِیْنِ مَنْ یّغُوْصُوْنَ الخ “ الریح پر معطوف ہے اور من الشیاطین اس کا بیان ہے یعنی ہم نے جنوں کو مسخر کردیا کہ وہ اس کے حکم کے مطابق کام کرتے تھے۔ ” وَ کُنَّا لَھُمْ حَافِظِیْنَ “ لیکن سرکشی اور طغیان سے جنوں کو بچانا اور ان پر کنٹرول رکھنا یہ ہمارا کام تھا تاکہ وہ شر و فساد نہ کریں۔ داؤود و سلیمان (علیہما السلام) پر یہ تمام احسانات و انعامات ہم نے کیے تھے اور وہ ہمارے شکر گذار بندے تھے اس لیے وہ خود متصرف و کارساز اور لائق الوہیت نہ تھے۔ ” کُنَّا لِحُکْمِھِمْ شَاھِدِیْنَ “ ان کے فیصلے کو ہم ہی جانتے تھے۔ ” فَفَھَّمْنَا ھَا سُلَیْمٰن “ سلیمان (علیہ السلام) کو یہ فیصلہ ہم ہی نے سمجھایا۔ ” وَ کُلَّاً اٰتَیْنَا حُکْمًا “ دونوں کو علم و حکمت ہم ہی نے دی۔ ” وَ سَخَّرْنَا “ پہاڑوں کو ہم ہی نے تابع فرمان کیا ” وَ کُنَّا بِکُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ “ اور ہر چیز کو ہم ہی جانتے تھے۔ ” وَ کُنَّا لَھُمْ حٰفِظِیْنَ “ اور ان کی حفاظت کرنے والے بھی ہم ہی تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(81) اور سیلمان (علیہ السلام) کے لئے ہم نے زور سے چلنے والی ہوا کو تابع کردیا تھا کہ وہ ہوا ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے ہر قسم کی برکتیں رکھی ہیں اور ہم ہر چیز سے باخبر ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زیر فرمان ہوا کو کردیا تھا اور وہ ان کے تخت کو اڑا کرلے جاتی تھی اور ایک مہینہ کی مسافت دوپہر دن میں طے ہوجاتی تھی۔ برکت والی زمین سے مراد ملک شام ہے جہاں کی سرزمین ظاہر و باطن کی برکتوں سے لبریز ہے ہم ہر چیز سے باخبر ہیں یعنی ہوا کو تابع کردینا بھی ہماری مصلحت کا تقاضہ تھا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک تخت بنایا تھا بہت بڑا اپنے سارے کارخانوں سے اور لوگوں سے اس پر بیٹھتے پھر بائو آتی زور سے اس کو زمین سے اٹھاتی اوپر نرم بائو چلتی۔ یمن سے شام کو اور شام سے یمن کو مہینے کی راہ دوپہر میں پہنچاتی۔ 12۔ سورة سبا میں انشاء اللہ تفصیل آئے گی۔