74. This is also explained in (Surah Saba, Ayat 12): And for Solomon We had subjected the wind which covered a month’s journey in the morning and a month’s journey in the evening, and in (Surah Suad, Ayat 36): So We subjected the wind to him. It blew softly at his bidding wherever he wanted it to blow. Thus it is clear that the wind was so subjected to Prophet Solomon that the voyages to places at one month’s sea journey could be performed conveniently, because a favorable wind was always blowing for his ships to and from those places.
It is confirmed by the Bible that Prophet Solomon had developed sea trade on a large scale. (I Kings, 10: 22). On the one side, his trade ships sailed from Ezion-geber, through the Red Sea, towards Yaman and other southern and eastern lands, and on the other, his naval fleet called Thar-shish, sailed on the Mediterranean to the western countries. The great furnace which he had built at Eziongeber for melting and molding ores extracted from the copper and iron mines in the Arabah in Edom, has been confirmed by modem archaeological researches as well. This molten iron and copper was used in building ships besides being put to other uses. The Quran refers to this when it says: And We made a fountain of molten copper to flow for him (Solomon). (Surah Saba, Ayat 12).
As regards to the subjection of the wind, it may mean that Allah, by His special favor, had so arranged that the wind, and sea voyages in those days depended entirely on wind, was always favorable for Prophet Solomon’s fleet. But if we take the literal meaning of verse 81: It blew at his command, there will be no harm, for Allah is able to give such powers to any of His servants He pleases.
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :74
اس کی تفصیل سورہ سبا میں یہ آئی ہے : وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّ یْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَ رَوَاحُھَا شَھْرٌ ، اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا تھا ، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو ۔ پھر اس کی مزید تفصیل سورہ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہ رَخَآءً حَیْثُ اَصَابَ ۔ پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا ۔ جانے میں بھی ہمیشہ ان کی مرضی کے مطابق باد موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی ۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ ایک طرف عصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے ، اور دوسری طرف بحر روم کے بندر گاہوں سے ان کا بیڑہ ( جسے بائیبل میں ترسیسی بیڑہ کہا گیا ہے ) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا ۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی ۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقہ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جا تا تھا ۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورہ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ : وَاَسَلْنَا لَہ عَیْنَ الْقِطْرِ ، اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا ۔ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو مسخر کرنے کا کیا مطلب ہے ۔ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا ، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی ۔ تا ہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو ، جیسا کہ : تَجْرِیْ بِاَمْرِہ ، ( اس کے حکم سے چلتی تھی ) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے ، تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے ۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے ۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات چاہے دے سکتا ہے ۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دل دکھنے کی وجہ نہیں ۔