Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 89

سورة الأنبياء

وَ زَکَرِیَّاۤ اِذۡ نَادٰی رَبَّہٗ رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡوٰرِثِیۡنَ ﴿۸۹﴾ۚ ۖ

And [mention] Zechariah, when he called to his Lord, "My Lord, do not leave me alone [with no heir], while you are the best of inheritors."

اور زکریا ( علیہ السلام ) کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب سے دعا کی اے میرے پروردگار! مجھے تنہا نہ چھوڑ ، تو سب سے بہتر وارث ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Zakariyya and Yahya Allah tells: وَزَكَرِيَّا ... And (remember) Zakariyya, Allah tells us of His servant Zakariyya, who asked Allah to grant him a son who would be a Prophet after him. The story has already been given in detail at the beginning of Surah Maryam and also in Surah `Imran. Here an abbreviated version is given. ... إِذْ نَادَى رَبَّهُ ... when he cried to his Lord, means, in secret, hiding it from his people. ... رَبِّ لاَ تَذَرْنِي فَرْدًا ... O My Lord! Leave me not single, means, with no child and no heir to stand among the people after me. ... وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ though You are the Best of the inheritors. This is a supplication and form of praise befitting the topic.

دعا اور بڑھاپے میں اولاد اللہ تعالیٰ حضرت زکریا علیہ السلام کا قصہ بیان فرماتا ہے کہ انہوں نے دعا کی کہ مجھے اولاد ہو جو میرے بعد نبی بنے ۔ سورۃ مریم میں اور سورۃ آلٰ عمران میں یہ واقعہ تفصیل سے ہے آپ نے یہ دعا چھپا کر کی تھی ۔ مجھے تنہانہ چھوڑ یعنی بے اولاد ۔ دعا کے بعد اللہ تعالیٰ کی ثنا کی جیسے کہ اس دعا کے لائق تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی ۔ اور آپ کی بیوی صاحبہ کو جنہیں بڑھاپے تک کوئی اولاد نہ ہوئی تھی اولاد کے قابل بنا دیا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں ان کی طول زبانیں بند کردی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے اخلاق کی کمی پوری کردی ۔ لیکن الفاظ قرآن کے قریب پہلا معنی ہی ہے ۔ یہ سب بزرگ نیکیوں کی طرف اللہ کی فرمانبرداری کی طرف بھاگ دوڑ کرنے والے تھے ۔ اور لالچ اور ڈر سے اللہ سے دعائیں کرنے والے تھے اور سچے مومن رب کی باتیں ماننے والے اللہ کا خوف رکھنے والے تواضع انکساری اور عاجزی کرنے والے اللہ کے سامنے اپنی فروتنی ظاہر کرنے والے تھے ۔ مروی ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور اس کی پوری ثنا وصفت بیان کرتے رہنے کی اور لالچ اور خوف سے دعائیں مانگنے کی اور دعاؤں میں خشوع وخضوع کرنے کی وصیت کرتا ہوں دیکھو اللہ عزوجل نے حضرت زکریا علیہ السلام کے گھرانے کی یہی فضیلت بیان فرمائی ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] حضرت زکریا اور ان کا اولاد کے لئے اپنے پروردگار کو پکارنے کا ذکر پہلے سورة آل عمران کی آیت نمبر ٣٧ اور سورة مریم کی ابتداء میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ وہاں سے حواشی دیکھ لئے جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَزَكَرِيَّآ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗ ۔۔ : یہ اس سورت میں مذکور نواں قصہ ہے، اس کی تفصیل سورة آل عمران (٣٩ تا ٤١) اور سورة مریم ( ١ تا ١٥) میں ملاحظہ فرمائیں۔ وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ : وارث وہ ہے جو کسی مالک کے فوت ہونے کے بعد اس کی ملکیت کا مالک بنے۔ اصل وارث سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّا نَحْنُ نَرِثُ الْاَرْضَ وَمَنْ عَلَيْهَا ) [ مریم : ٤٠ ] ” بیشک ہم، ہم ہی زمین کے وارث ہوں گے اور ان کے بھی جو اس پر ہیں۔ “ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے علم و نبوت کا وارث عطا کرنے کی درخواست کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفت ” خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ “ کا وسیلہ پکڑا۔ قرآن و سنت میں مذکور دعاؤں میں ہر دعا کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کی صفت کا ذکر ہے، جیسا کہ ایوب (علیہ السلام) نے ” وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ “ کہا اور یونس (علیہ السلام) نے ” لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ “ کہا۔ بعض مفسرین نے اس جملہ کی یہ توجیہ فرمائی ہے کہ میں تجھ سے وارث عطا کرنے کی دعا کر رہا ہوں، مگر حقیقی وارث تو ہی ہے، اگر تو مجھے اولاد نہ بھی دے گا تب بھی میرے بعد اپنے دین کا انتظام ضرور کرے گا۔ (قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Sayyidna Zakariyya (علیہ السلام) wished for a son and heir for which he prayed to Allah. But at the same time he made it clear that Allah is the best heir no matter if he had a son or not وَأَنتَ خَيْرُ‌ الْوَارِ‌ثِينَ. You are the best of inheritors - 21:89). This was the manifestation of the prophetic respect in that the main concern of the prophets should always be toward Allah Ta’ ala, and even if someone else came into focus, their attention should not deviate from the main objective.

خلاصہ تفسیر اور زکریا (علیہ السلام کے قصہ) کا تذکرہ کیجئے جب کہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب مجھ کو لاوارث نہ رکھیو (یعنی مجھ کو فرزند دیجئے جو میرا وارث ہو) اور (یوں تو) سب وارثوں سے بہتر یعنی حقیقی وارث) آپ ہی ہیں (اس لئے فرزند بھی وارث حقیقی نہ ہوگا بلکہ ایک وقت وہ بھی فنا ہوجاوے گا لیکن اس ظاہری وارث سے بعض دینی فوائد اور منافع حاصل ہوجائیں گے اس لئے اس کی طلب ہے) سو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور ہم نے ان کو یحییٰ (فرزند) عطا فرمایا اور ان کی خاطر سے ان کی بی بی کو بھی (جو بانجھ تھیں) اولاد کے قابل کردیا یہ سب (انبیاء جن کا اس سورت میں ذکر ہوا ہے) نیک کاموں میں دوڑتے تھے اور امید و بیم کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے اور ہمارے سامنے دب کر رہتے تھے۔ معارف و مسائل حضرت زکریا (علیہ السلام) کی خواہش تھی کہ ایک فرزند وارث عطا ہو اس کی دعا مانگی مگر ساتھ یہ بھی عرض کردیا کہ اَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ کہ بیٹا ملے یا نہ ملے ہر حال میں آپ تو بہتر وارث ہیں یہ پیغمبرانہ رعایت ادب ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی اصل توجہ حق تعالیٰ کی طرف ہونا چاہئے غیر اللہ کی طرف ان کی توجہ ہو بھی تو اصل مرکز سے نہ ہٹنے پاوے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَزَكَرِيَّآ اِذْ نَادٰي رَبَّہٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِيْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوٰرِثِيْنَ۝ ٨٩ۚۖ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا [ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ فرد الفَرْدُ : الذي لا يختلط به غيره، فهو أعمّ من الوتر وأخصّ من الواحد، وجمعه : فُرَادَى. قال تعالی: لا تَذَرْنِي فَرْداً [ الأنبیاء/ 89] ، أي : وحیدا، ويقال في اللہ : فرد، تنبيها أنه بخلاف الأشياء کلّها في الازدواج المنبّه عليه بقوله : وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، وقیل : معناه المستغني عمّا عداه، كما نبّه عليه بقوله : غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ [ آل عمران/ 97] ، وإذا قيل : هو مُنْفَرِدٌ بوحدانيّته، فمعناه : هو مستغن عن کلّ تركيب وازدواج تنبيها أنه مخالف للموجودات کلّها . وفَرِيدٌ: واحد، وجمعه فُرَادَى، نحو : أسير وأساری. قال : وَلَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادی [ الأنعام/ 94] . ( ف ر د ) الفرد ( اکیلا ) اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دوسری نہ ملائی گئی ہو یہ لفظ وتر ( طاق ) سے عام اور واحد سے خاص ہے اس کی جمع فراد ی ہے قرآن میں ہے : ۔ لا تَذَرْنِي فَرْداً [ الأنبیاء/ 89] پروردگار ( مجھے اکیلا نہ چھوڑ ۔ اور اللہ تعالیٰ کے متعلق فرد کا لفظ بولنے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ وہ تنہا ہے اس کے بر عکس باقی اشیار جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہیں جس پر کہ آیت وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اللہ کے فرد ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں سے بےنیاز ہے جیسا کہ آیت : ۔ غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ [ آل عمران/ 97] اہل عالم سے بےنیاز ہے ۔ میں اس پر تبنبیہ کی ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ اپنی واحدنیت میں منفرد ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ ذات ہر قسم کی ترکیب اور مجانست سے مبرا ہے اور جملہ موجودات کے بر عکس ہے ۔ اور فرید کے معنی واحد یعنی اکیلا اور تنہا کے ہیں اس کی جمع فراد ی آتی ہے جیسے اسیر کی جمع اساریٰ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادی [ الأنعام/ 94] اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے ہمارے پاس آئے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : 461- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٩) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ زکریا (علیہ السلام) کے قصہ کا ذکر کیجیے جب کہ انہوں نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار مجھے لاوارث تنہا بغیر کسی مددگار کے نہ رکھیے، یوں تو سب مددگاروں سے بہتر آپ ہی ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٩ (وَزَکَرِیَّآ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ ) ” اس بارے میں تفصیل سورة مریم میں گزر چکی ہے۔ (رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ ) ” اے میرے پروردگار ! مجھے کوئی ایسا وارث عطا فرما جو میرے اس مشن کو زندہ رکھ سکے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

41: یعنی ان کی بانجھ تھیں، اللہ تعالیٰ نے ان میں اولاد کی صلاحیت پیدا فرما دی

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٩۔ ٩٠:۔ زکریا (علیہ السلام) کا قصہ سورة آل عمران اور سورة مریم میں گزر چکا ہے ١ ؎ جس کا حاصل یہ ہے کہ مریم (علیہا السلام) کی ماں اور زکریا (علیہ السلام) کی بی بی دونوں بانجھ تھیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے مریم (علیہا السلام) کی ماں کو صاحب اولاد کیا تو زکریا (علیہ السلام) کے دل میں بھی یہ امید پیدا ہوئی کہ ان کے بڑھاپے اور ان کی بی بی کے بانجھ اپنے کی حالت میں ان کو بھی اللہ تعالیٰ صاحب اولاد کر دیوے ‘ اسی امید پر انہوں نے یہ دعا کی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ دعا قبول فرمائی ‘ ان کی بی بی کا بانجھ پن کھو دیا اور ان کے گھر میں یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے ‘ آگے فرمایا زکریا (علیہ السلام) ‘ ان کی بی بی ‘ ان کے بیٹے یحییٰ یہ سب نیک کاموں میں چست اور اللہ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب کے خوف سے اس کی عبادت کرنے والے تھے اور اللہ کی عظمت کے آگے اپنے آپ کو اس کا حقیر اور ادنیٰ بندہ سمجھتے تھے ٢ ؎‘ صحیح مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ زکریا (علیہ السلام) بڑھئی کا کام کر کے اپنے ہاتھ کی مزدوری کی آمدنی پر اپنی گزر کرتے تھے۔ (١ ؎ ص ٢٣٥ جلد اول تفسیر ہذا۔ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ ص ٥٠٩ باب بدء الخلق وذکر الانبیآء۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:89) لا تذرنی۔ فعل نہی واحد مذکر حاضر۔ ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم۔ تو مجھے نہ چھوڑ وذر سے جس کے معنی کسی چیز کو اس کی پرواہ نہ ہونے کے سبب پھینک دینے اور چھوڑ دینے کے ہیں۔ اس فعل سے ماضی مستعمل نہیں۔ فردا۔ اکیلا۔ تنہا۔ (لا وارث)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں اکیلے تھے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو اکیلا خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی دعا کو قبول فرمایا اس لیے یونس (علیہ السلام) کے بعد حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ان کے لخت جگر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت مریم [ جب بڑی ہوئیں تو انہیں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں دیا گیا۔ اس زمانے کے مذہبی رواج کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف لوگ تارک الدّنیا ہو کر مسجد اقصیٰ میں تعلیم و تربیت اور ذکر و اذکار میں مصروف رہتے تھے۔ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے معاملات سے الگ کرلیا ہوتا تھا۔ حضرت مریم [ انہی ذاکرات میں شامل ہو کر اپنے حجرے میں محو عبادت رہا کرتی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپر دتھا۔ ایک دن زکریا (علیہ السلام) ان کے ہاں حجرے میں تشریف لائے تو ان کے پاس غیر موسمی عمدہ پھل دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ بیٹی مریم یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ مریم [ نے جواب دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بلا حساب رزق سے نوازتا ہے۔ یہ سنتے اور اللہ کی قدرت دیکھتے ہی حضرت زکریا (علیہ السلام) کے رونگٹے کھڑے ہوئے اور وجود تھّر تھرّانے لگا اور بےساختہ ہاتھ ” اللہ “ کے حضور اٹھے اور فریاد کرنے لگے کہ اے میرے رب ! مجھے بھی اپنی جناب سے نیکو کار اولاد نصیب فرما یقیناً تو دعا سننے والا ہے زکریا (علیہ السلام) ابھی اسی حجرے میں نماز کی حالت میں کھڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کا نزول ہوا اور انہوں نے آپ کو یہ نوید سنائی کہ اے زکریا ! خوش ہوجائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائیں گے جس کا نام یحییٰ ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کی تصدیق کرے گا اور سردار ہوگا۔ نہایت ہی پاک باز، اپنے آپ کی حفاظت کرنے والا اور انبیاء میں سے ہوگا۔ بیٹے کی خوشخبری سناتے ہوئے ملائکہ نے یہ بھی کہا اس کا نام یحییٰ ہوگا اور اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا۔ تو زکریا (علیہ السلام) حیرت زدہ ہو کر اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ بار الٰہ ! مجھے کس طرح بیٹا نصیب ہوگا جب کہ میں بوڑھا اور میری بیوی جسمانی طور پر بچہ جننے کے لائق نہیں ؟ ملائکہ نے خوشخبری سنائی تو تعجب کا اظہار فرمانے لگے مگر تعجب کا اظہار ملائکہ سے کرنے کے بجائے براہ راست اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ کیونکہ اولاد دینے والا تو وہی ہے اور یہ خوشخبری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ فرشتہ تو محض پیغام رساں ہے۔ زکریا (علیہ السلام) کے تعجب کے جواب میں ارشاد ہوا کہ میرے بندے ! اللہ اپنے کام کو خود ہی جانتا ہے اور وہ اسی طرح ہی کرتا ہے جس طرح اس کی منشا ہوا کرتی ہے۔ پھر عرض کرنے لگے : اے رب ! میرے لیے بیٹے کی کوئی واضح نشانی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارے کے علاوہ کلام نہیں کرسکو گے۔ ان ایام میں خاص طور پر صبح وشام اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر گرامی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت زکریا (علیہ السلام) کے صاحبزادے اور ان کی پیغمبرانہ دعاؤں کا ثمرہ ہیں۔ جس عمر میں اولاد کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اس عمر میں حضرت زکریا کو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) عطا کئے گئے اور نام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجویز ہوا۔ جو اس سے پہلے کسی شخص کا نام نہ تھا۔ خصوصی صفات : ١۔” حَکَم یعنی قوت فیصلہ، معاملات میں ٹھیک، ٹھیک فیصلہ سنانے والا۔ ٢۔ حَنَّانَ دل کی نرمی اور شفقت یعنی انتہائی درجے کی شفقت جو ماں کو اپنے بچے کے ساتھ ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ بچے کی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہے اس سے کہیں زیادہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے دل میں بندگان خدا کے لیے شفقت پیدا کی گئی تھی۔ ٣۔ ” حُصُوْرً “ لذات وشہوات پر قابو پانے والا انتہا درجہ محتاط و متقی۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی حالات زندگی : تاریخی روایات کے مطابق حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے چھ ماہ بڑے تھے، ان کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ آپس میں حقیقی بہنیں تھیں۔ تقریباً تیس سال کی عمر میں منصب نبوت پر فائز کئے گئے۔ شرق اردن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ فرمایا کرتے تھے کہ لوگو ! توبہ کرو اور نماز، روزے کی پابندی اختیار کرو۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اپنے والد حضرت زکریا (علیہ السلام) کی طرح اولوالعزم نبی تھے تورات کی شریعت کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کو تین اوقات میں سلامتی سے نوازا۔ وقت ولادت وقت موت وقت حشرونشر یہ حقیقت ہے کہ انسان کے لیے یہ تین اوقات سب سے زیادہ نازک اور اہم ہوتے ہیں (١) انسان ولادت کے وقت بطن مادر سے جدا ہو کر عالم دنیا میں آتا ہے۔ (٢) موت کے وقت دنیا سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں پہنچتا ہے۔ (٣) عالم برزخ سے نکل کر میدان محشر میں اعمال کی جزاء وسزا کے لیے پیش ہوتا ہے۔ جس شخص کو رب کریم کی طرف سے ان تینوں اوقات کے لیے سلامتی کی بشارت مل جائے گویا کہ اسے سب کچھ مل گیا۔ مسائل ١۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور بیٹے کی دعا کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کو صحت عطا فرما کر یحییٰ (علیہ السلام) عنایت فرمائے۔ ٣۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ، ان کی بیوی اور ان کے بیٹے یحییٰ (علیہ السلام) نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے تھے۔ ٤۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ان کے اہل خانہ اپوری رغبت اور خوف کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن نیکی میں سبقت کرنے کا حکم : ١۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٢۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر : ٣٢) ٣۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : ١٠، ١١) حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہے : آل عمران : ٣٩، الانعام : ٨٥، مریم : ٧۔ ١٢، الانبیاء : ٩٠۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تذکرہ : آل عمران : ٣٧۔ ٣٨، الانعام : ٨٥، مریم : ٢۔ ٧، الانبیاء : ٨٩

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت یحییٰ کی پیدائش کا قصہ سورة مریم اور سورة آل عمران میں گزر چکا ہے ، بڑی تفصیلات کے ساتھ یہاں دوسرے قصص کی طرح فقط اشارات ہی ہیں۔ اس کا آغاز حضرت زکریا کی اس دعا سے ہوتا ہے۔ رب لاتذرنی فرداً (٢١ : ٨٩) ” پروردگار ، مجھے اکیلا نہ چھوڑ “۔ کہ میرا کوئی وارث نہ ہو ، جو میرے بعد ہیکل کے معاملات کا نگراں ہو۔ حضرت زکریا بنی اسرائیل کے ہیکل (عبادت گاہ) کے نگراں تھے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ عبادات ، مقامات ، عبادات اور تمام لوگوں کے اموال کا آخری وارث تو اللہ ہی ہے۔ اسی لئے انہوں نے کہہ دیا۔ وانت خیر الورثین (٢١ : ٨٩) ” اور بہترین وارث تو تو ہی ہے “ لیکن ان کا اصل مدعا یہ تھا کہ ان کے بعد ان کے اہل و عیال کے لئے ، ان کے دین کے لئے اور ان کے مال کے لئے ، ان کو اچھا جانشین ملے کیونکہ خلافت ارضی میں انسان ہی دست قدرت کا کام کرتا ہے۔ قبولیت دعا بھی فوراً ہی ہوتی ہے۔ فاستجبنا لہ و ھبنا لہ یحییٰ و اصلحنا لہ زوجہ (٢١ : ٩٠) ” پس ہم نے اس کی دعا قبول کرلی۔ اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لئے درست کردیا۔ “ وہ بانجھ تھی ولادت کے قابل ہی نہ تھی لیکن یہاں دوسرے قصص کی طرح سیاق کلام میں اختصار کر کے قاری کو انجام یعنی استجابت دعا تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ انھم کانوا یسرعون فی الخیرت (٢١ : ٩٠) ” یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے۔ “ تو اللہ نے قبولیت دعا میں جلدی فرمائی۔ ویدعوننا رغباً و رھباً (٢١ : ٩٠) ” اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے۔ “ رغبت اس لئے کہ اللہ راضی ہوجائے اور ڈر اس کا کہ اللہ ناراض نہ ہوجائے۔ ان کے دل اللہ کے ساتھ پختہ رابطہ رکھتے تھے ۔ اللہ کی رحمت کے وہ ہر وقت امیدوار رہے تھے۔ وکانوالنا خشعین (٢١ : ٩٠) ” اور وہ ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔ “ نہ تکبر کرتے تھے اور نہ ہمارے مقابلے میں زور آور تھے۔ یہ تھیں وہ صفات جن کی وجہ سے حضرت زکریا ، بیگم زکریا (علیہ السلام) اس بات کے مستحق ہوئے کہا نہیں غیر معمولی طور پر یحییٰ جیسا غیر معمولی لڑکا دیا جائے۔ یوں یہ ایک مبارک خاندان تھا ، اللہ کی رحمت و رضا کی مستحق۔ سب سے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے ان کے والدہ حضرت مریم کا ذکر بھی آتا ہے ، اسی اختصار کے ساتھ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بڑھاپے میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ سے بیٹا مانگنا، اور ان کی دعا قبول ہونا یہ تین آیات ہیں ان میں پہلے تو حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا، ان کا کوئی لڑکا نہ تھا خود بھی بوڑھے تھے اور بیوی بھی بانجھ تھی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسا لڑکا عطا فرمائے جو میرا وارث ہو۔ میں اکیلا ہوں میرے بعد کوئی دینی امور کا سنبھالنے والا ہونا چاہیے۔ مجھے ایسا لڑکا عطا فرمایئے جو میرا خلیفہ بن جائے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے انہیں بیٹے کی بشارت دے دی۔ دعا تو اللہ تعالیٰ سے امید باندھ کر کرلی پھر جب فرشتوں نے بیٹے کی خوشخبری دی تو طبعی طور پر انہیں تعجب ہوا کہ میری اولاد کیسے ہوگی میں تو بہت بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تمہارے رب کے لیے آسان ہے اس نے تمہیں بھی تو پیدا کیا تھا جبکہ تمہارا وجود ذرا بھی نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹا دے دیا اور ان کی بیوی کو قابل ولادت بنا دیا اور بیٹے کا نام یحییٰ تجویز فرما دیا اور اس بیٹے کو نبوت سے سر فراز فرما دیا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت کا مفصل قصہ سورة آل عمران رکوع نمبر ٤ میں اور سورة مریم رکوع نمبر ایک میں بیان ہوچکا ہے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تین عظیم صفات : گزشتہ دو رکوع میں متعدد انبیاء کرام ( علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا۔ پھر ان کی تین بڑی صفات بیان فرمائیں۔ اول یہ کہ (اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرَاتِ ) (بلاشبہ وہ نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے) دوسری صفت یہ کہ (وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًَا) (اور وہ ہمیں رغبت کے ساتھ اور ڈرتے ہوئے پکارا کرتے تھے) اور تیسری صفت یہ کہ (وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ ) (اور وہ ہمارے سامنے خشوع سے رہتے تھے) یہ تین بڑی صفات ہیں۔ تمام اہل ایمان کو ان سے متصف ہونا چاہیے۔ پہلی صفت یہ ہے کہ نیک کاموں میں مسارعت اور مسابقت کریں۔ حسب استطاعت نیک کاموں میں دیر نہ لگائیں۔ سورة آل عمران میں فرمایا کہ (وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ) (اور اپنے رب کی مغفرت اور جنت کی طرف جلدی کرو جو اتنی بڑی ہے کہ اس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے) دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ ہمیں رغبت کے ساتھ اور ڈرتے ہوئے پکارتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو اللہ تعالیٰ سے مانگیں خوب رغبت اور لالچ کے ساتھ مانگیں اور ساتھ ہی ڈرتے بھی رہیں۔ اپنے اعمال پیش نظر رکھیں۔ ہر دعا کرنے والا اس بات سے بھی ڈرتا رہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اعمال کی خرابی یا آداب دعا کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے دعا قبول نہ ہو۔ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جبکہ رَغَبًا وَّ رَھَبًا دونوں اسم فاعل کے معنی میں ہوں یعنی راغبین اور راھبین اور بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بھی بتایا ہے کہ رغبت اور خوف کی دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے۔ کسی حالت میں بھی دعا سے غافل نہ ہوتے تھے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تیسری صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ ) (اور ہمارے سامنے خشوع سے رہتے تھے) ۔ خشوع قلبی جھکاؤ کو کہتے ہیں۔ پھر جس کا دل جھکا ہوتا ہے اس کے اعضاء میں بھی جھکاؤ ہوتا ہے۔ یعنی ان سے فخر وتکبر کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ جس کے دل میں اللہ کی عظمت بیٹھ گئی اس کے قلب میں اور اعضاء وجوارح میں اپنی بڑائی کا کہاں تصور ہوسکتا ہے ؟ اور اس کے اعضاء وجوارح میں کیسے اکڑ مکڑ ہوسکتی ہیں، اس میں جو لفظ لَنَا بڑھایا ہے اس میں یہ بتادیا کہ ذات خداوندی کی عظمت اور کبریائی، مومنین اور موقنین کے یقین میں گھلی ملی ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ حالت خشوع ہی میں رہتے ہیں۔ نماز میں تو خشوع ہوتا ہی ہے دیگر احوال و اوقات میں بھی ان کے قلوب میں خشوع رہتا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کے لیے جس کے دل میں جھکاؤ ہوگا وہ مامورات پر بھی عمل کرے گا اور منھیات سے بھی بچے گا۔ جعل لنا اللہ تعالیٰ منہ حظا وافرا۔ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تذکرہ اس عورت کو یاد کرو جس نے اپنی ناموس کو محفوظ رکھا۔ اس سے حضرت مریم [ مراد ہیں۔ جیسا کہ سورة التحریم کے آخر میں اس کی تصریح ہے۔ انہوں نے اپنی عفت و عصمت کو محفوظ رکھا۔ ان کا نہ کسی مرد سے نکاح ہوا اور نہ کسی مرد سے کوئی گناہ گاری کا تعلق ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر میں یہ تھا کہ ان کو بیٹا دیا جائے۔ پھر یہ بیٹا اللہ کا رسول بنے اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے مبعوث ہو۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرشتہ بھیجا جس نے ان کے کرتہ کے دامن میں پھونک مار دی۔ جس سے حمل قرار ہوگیا اور اس کے بعد لڑکا پیدا ہوگیا۔ یہ لڑکا کون تھا ؟ یہ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے جو بنی اسرائیل کے سب سے آخری نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر انجیل نازل فرمائی اور انہوں نے بنی اسرائیل کو تبلیغ کی اور شریعت کے احکام بتائے۔ بنی اسرائیل ان کے سخت مخالف ہوگئے اور ان کے قتل کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ قیامت سے پہلے دوبارہ تشریف لائیں گے۔ جیسا کہ احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (وَ جَعَلْنٰھَا وَ ابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ) (اور ہم نے اس عورت کو اور اس کے بیٹے کو جہانوں کے لیے نشانی بنا دیا) تاکہ دنیا جہاں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ شانہٗ بغیر مرد کے کسی عورت کے رحم میں حمل پیدا فرما سکتا ہے اور بغیر باپ کے بھی عورت کی اولاد ہوسکتی ہے۔ گو عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ اپنی قدرت بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے اور حواء [ کو بغیر ماں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا فرما دیا۔ (ذٰلِکَ مِنْ اٰیَات اللّٰہِ ) یاد رہے کہ قرآن مجید میں حضرت مریم [ کے پاک دامن ہونے کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کی تصریح آگئی ہے لیکن چونکہ اور کسی کے لیے اس کی تصریح نہیں ہے اس لیے کوئی عورت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ میرا یہ حمل بغیر مرد کے ہے۔ اگر کوئی بےشوہر والی عورت ایسا کہے گی اور اسے حمل ہوگا تو امیر المومنین اس پر حد جاری کر دے گا۔ کیونکہ بندے ظاہر کے مکلف ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

62:۔ ” وَ زَکَرِیَّا اِذْ نَادٰي الخ “ یہ نویں تفصیلی نقلی دلیل ہے یعنی زکریا (علیہ السلام) نے آخری عمر میں ہم سے بیٹا مانگا اور ہم ہی نے اس عمر میں ان کو بیٹا عطا کیا اور ہم ہی دینے والے ہیں ان کو اس پر قدرت نہ تھی۔ ” فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ “ زکریا کی دعا ہم ہی نے قبول کی۔ ” وَ وَھَبْنَا لَهٗ “ اور ہم ہی نے اس کو بیٹا عطا کیا۔ ” وَ اَصْلَحْنَا “ اور ہم ہی نے اس کی بیوی کو اولاد کے قابل بنایا۔ ” اِنَّھُمْ کَانُوْا الخ “ اس سے تمام مذکور انبیاء (علیہم السلام) مراد ہیں یعنی وہ تمام ہم سے توقع رکھ کر اور ہم سے ڈر کر حاجات و مشکلات میں غائبانہ ہمیں ہی پکارتے تھے۔ ” یَدْعُوْنَنَا “ تمام انبیاء (علیہم السلام) امید و بیم میں ہمیں ہی پکارتے تھے۔ ” وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ “ اور ہمارے ہی سامنے عاجزی کرتے تھے آیت کا یہ حصہ تمام انبیاء (علیہم السلام) سے متعلق ہے یا اس سے حضرت زکریا، ان کی بیوی اور یحییٰ (علیہم السلام) مراد ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(89) اور اے پیغمبر ! زکریا (علیہ السلام) کا بھی تذکرہ کیجئے جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے پروردگار مجھ کو اکیلا اور تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی سب وارثوں سے بہتر وارث ہے۔ یعنی بےاولاد نہ رکھ اور حقیقی اور بہتر وارث تو ہی ہے ان کی دعا اور تفصیل سورة مریم میں گزر چکی ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) اذن کے بیٹے اور مانان کے پوتے اور بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اولاد دے۔ 12