Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 98

سورة الأنبياء

اِنَّکُمۡ وَ مَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ؕ اَنۡتُمۡ لَہَا وٰرِدُوۡنَ ﴿۹۸﴾

Indeed, you [disbelievers] and what you worship other than Allah are the firewood of Hell. You will be coming to [enter] it.

تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو سب دوزخ کا ایندھن بنو گے ، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators and their gods are Fuel for Hell Allah says to the people of Makkah, the idolators of the Quraysh and those who followed their religion of idol worship: إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ... Certainly you and that which you are worshipping now besides Allah, are (but) Hasab for Hell! Ibn Abbas said: "Kindling." This is like the Ayah: وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ whose fuel is men and stones. (66:6) According to another report, Ibn Abbas said: حَصَبُ جَهَنَّمَ (Hasab for Hell), means firewood in (the dialect of the people of) Zanjiyyah. Mujahid, Ikrimah and Qatadah said: "Its fuel." Ad-Dahhak said: "The fuel of Hell means that which is thrown into it." This was also the view of others. ... أَنتُمْ لَهَا وَارِدُونَ (Surely) you will enter it. means, you will go into it.

جہنم کی ہولناکیاں بت پرستوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنوگے جیسے فرمان ہے آیت ( وقودہا الناس والحجارۃ ) اس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر حبشی زبان میں حطب کو حصب کہتے ہیں یعنی لکڑیاں ۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے حصب کے حطب ہے ۔ تم سب عابد و معبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لئے ۔ اگر یہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے ؟ یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پردوزخی ہوگئے وہ الٹی سانس میں چیخیں گے جیسے فرمان ہے آیت ( فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّشَهِيْقٌ ١٠٦؀ۙ ) 11-ھود:106 ) ، وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کردیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہوگا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ( ابن جریر ) حسنیٰ سے مراد رحمت وسعادت ہیں ۔ دوزخیوں کا اور ان کے عذابوں کا ذکر کر کے اب نیک لوگوں اور ان کی جزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے یہ لوگ باایمان تھے ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سعادت انکے استقبال کو تیار تھی جیسے فرمان ہے آیت ( لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ ۭ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ 26؀ ) 10- یونس:26 ) نیکوں کے لئے نیک اجر ہے اور زیادتی اجر بھی ۔ فرمان ہے آیت ( هَلْ جَزَاۗءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ 60۝ۚ ) 55- الرحمن:60 ) نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے ۔ ان کے دنیا کے اعمال نیک تھے تو آخرت میں ثواب اور نیک بدلہ ملا ، عذاب سے بچے اور رحمت رب سے سرفراز ہوئے ۔ یہ جہنم سے دور کردئیے گئے کہ اس کی آہٹ تک نہیں سنتے نہ دوزخیوں کا جلنا وہ سنتے ہیں ۔ پل صراط پردوزخیوں کو زہریلے ناگ ڈستے ہیں اور یہ وہاں ہائے ہائے کرتے ہیں جنتی لوگوں کے کان بھی اس درد ناک آواز سے ناآشنا رہیں گے ۔ اتنا ہی نہیں کہ خوف ڈر سے یہ الگ ہوگئے بلکہ ساتھ ہی راحت وآرام بھی حاصل کرلیا ۔ من مانی چیزیں موجود ۔ دوامی کی راحت بھی حاضر ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رات اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا میں اور عمر عثمان اور زبیر اور طلحہ اور عبدالرحمن انہی لوگوں میں سے ہیں یا حضرت سعد کا نام لیا رضی اللہ عنہم ۔ اتنے میں نماز کی تکبیر ہوئی تو آپ چادر گھیسٹتے آیت ( وہم لایسمعون حسیسہا ) ۔ پڑھتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوگئے اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی ایسے ہی ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہی لوگ اولیاء اللہ ہیں بجلی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پل صراط سے پار ہوجائیں گے اور کافر وہیں گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ بزرگان دین ہیں جو اللہ والے تھے شرکت سے بیزار تھے لیکن ان کے بعد لوگوں نے ان کی مرضی کے خلاف ان کی پوجا پاٹ شروع کردی تھی ، حضرت عزیر ، حضرت مسیح ، فرشتے ، سورج ، چاند ، حضرت مریم ، وغیرہ ۔ عبداللہ بن زبعری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا تیرا خیال ہے کہ اللہ نے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀ ) 21- الأنبياء:98 ) اتاری ہے ؟ اگر یہ سچ ہے تو کیا سورج چاند ، فرشتے عزیر ، عیسیٰ ، سب کہ سب ہمارے بتوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ؟ اس کے جواب میں آیت ( وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ 57؀ ) 43- الزخرف:57 ) اور آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۙ اُولٰۗىِٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ ١٠١؀ۙ ) 21- الأنبياء:101 ) نازل ہوئی ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نضر بن حارث آیا اس وقت مسجد میں اور قریشی بھی بہت سارے تھے نضر بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا لیکن وہ لاجوب ہوگیا آپ نے آیت ( اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ 98؀ ) 21- الأنبياء:98 ) تلاوت فرمائی ۔ جب آپ اس مجلس سے چلے گئے تو عبد اللہ بن زبعری آیا لوگوں نے اس سے کہا آج نضر بن حارث نے باتیں کیں لیکن بری طرح چت ہوئے اور حضرت یہ فرماتے ہوئے چلے گے ۔ اس نے کہا اگر میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ ہم فرشتوں کو پوجتے ہیں یہود عزیر کو نصرانی مسیح کو تو کیا یہ سب بھی جہنم میں جلیں گے ؟ سب کو یہ جواب بہت پسند آیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا جس نے اپنی عبادت کرائی وہ عابدوں کے ساتھ جہنم میں ہے یہ بزرگ اپنی عبادتیں نہیں کراتے تھے بلکہ یہ لوگ تو انہیں نہیں شیطان کو پوج رہے ہیں اسی نے انہیں ان کی عبادت کی راہ بتائی ہے ۔ آپ کے جواب کے ساتھ ہی قرآنی جواب اس کے بعد ہی آیت ( ان الذین سبقت ) میں اترا تو جن نیک لوگوں کی جاہلوں نے پرستش کی تھی وہ اس سے مستثنیٰ ہوگئے ۔ چنانچہ قرآن میں ہے آیت ( ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم ۔ الخ ) یعنی ان میں سے جو اپنی معبودیت اوروں سے منوانی چاہے اس کا بدلہ جہنم ہے ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں اور آیت ( وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا اِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّوْنَ 57؀ ) 43- الزخرف:57 ) اتری کہ اس بات کہ سنتے ہی وہ لوگ متعجب ہوگئے اور کہنے لگے ہمارے معبود اچھے یا وہ یہ تو صرف دھینگا مشتی ہے اور یہ لوگ جھگڑالو ہی ہیں وہ ہمارا انعام یافتہ بندہ تھا اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے نمونہ بنایا تھا ۔ اگر ہم چاہتے تو تمہارے جانشین فرشتوں کو کردیتے حضرت عیسیٰ نشان قیامت ہیں ان کے ہاتھ سے جو معجزات صادر ہوئے وہ شبہ والی چیزیں نہیں وہ قیامت کی دلیل ہیں تجھے اس میں کچھ شک نہ کرنا چاہے ۔ میری مانتا چلاجا یہی صراط مستقیم ہے ابن زبعری کی جرات دیکھئے خطاب اہل مکہ سے ہے اور ان کی ان تصویروں اور پتھروں کے لئے کہا گیا ہے جنہیں وہ سوائے اللہ کے پوجا کرتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ پاک نفس کے لئے جو غیر اللہ کی عبادت سے روکتے تھے ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں لفظ ما جو یہاں ہے وہ عرب میں ان کے لئے آتا ہے جو بےجان اور بےعقل ہوں ۔ یہ ابن زبعری اس کے بعد مسلمان ہوگئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بڑے مشہور شاعر تھے ۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں کی دل کھول کر دھول اڑائی تھی لیکن مسلمان ہونے کے بعد معذرت کی ۔ موت کی گھبراہٹ ، اس گھڑی کی گھبراہٹ جبکہ جہنم پر ڈھکن ڈھک دیا جائے گا جب کہ موت کو دوزخ جنت کے درمیان ذبح کردیا جائے گا ۔ غرض کسی اندیشے کا نزول ان پر نہ ہوگا وہ ہر غم وہراس سے دور ہوں گے ، پورے مسرور ہوں گے ، خوش ہوں گے اور ناخوشی سے کوسوں الگ ہوں گے ۔ فرشتوں کے پرے کے پرے ان سے ملاقاتیں کررہے ہوں گے اور انہیں ڈھارس دیتے ہوئے کہتے ہوں گے کہ اسی دن کا وعدہ تم سے کیا گیا تھا ، اس وقت تم قبروں سے اٹھنے کے دن کے منتظر رہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لات منات اور عزٰی و ہبل کی پوجا کرتے تھے یہ سب پتھر کی مورتیاں تھیں۔ جو جمادات یعنی غیر عاقل تھیں، اس لئے آیت میں مَا تَعْبُدُوْنَ کے الفاظ ہیں اور عربی میں ( مَا) غیر عاقل کے لئے آتا ہے۔ یعنی کہا جارہا ہے کہ تم بھی اور تمہارے معبود بھی جن کی مورتیاں بنا کر تم نے عبادت کے لئے رکھی ہوئی ہیں سب جہنم کا ایندھن ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] یعنی مشرکوں کو ان کے معبودوں یعنی بتوں سمیت جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور یہ بت عموماً پتھر کے ہوتے تھے۔ اسی مضمون کو اللہ نے سورة بقرہ میں فرمایا (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۝) 66 ۔ التحریم :6) جہنم کا ایندھن آدمی بھی ہوں گے اور پتھر بھی اور ان معبودوں کو جہنم میں دیکھ کر ان کے پوجنے والوں کی تکلیف اور حسرت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ ایک اس لئے کہ جن معبودوں سے وہ کئی طرح توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے وہ ایسے بےبس ثابت ہوئے کہ انہی کی طرح جہنم میں جل رہے ہیں اور دوسرے اس لئے وہ جہنم کا ایندھن بن کر ان پجاریوں کے آگ کے عذاب کو مزید بھڑکانے کا باعث بن رہے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ : یعنی اس وقت ان کے اعتراف جرم اور توبہ کا انھیں کچھ فائدہ نہ ہوگا (سورۂ مومن : ٨٥) بلکہ کہا جائے گا کہ تم اور جن چیزوں کی تم عبادت کرتے تھے، سب جہنم کا ایندھن ہو۔ اس میں ان کے بت بھی شامل ہیں اور وہ تمام انسان یا جن بھی جو اپنی عبادت کروا کر خوش ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو جہنم کا ایندھن قرار دیا۔ بتوں کو آگ میں پھینکنے کا مقصد ان مشرکین کو ذلیل کرنا ہے کہ اپنے خداؤں کا حال دیکھ لو، جیسا کہ فرمایا : (وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ) [ البقرۃ : ٢٤ ] کہ جہنم کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ” مَا “ کا لفظ عموماً غیر ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتا ہے، گویا اپنی عبادت پر خوش ہونے والے انسانوں اور جنوں کو غیر ذوی العقول قرار دیا گیا۔ اگر ” مَا “ کو عاقل و غیر عاقل سب کے لیے عام مانا جائے، جیسا کہ بعض اوقات استعمال ہوتا ہے، تب بھی اللہ کے پیغمبر اور مقبول بندے اس میں شامل نہیں ہوں گے، کیونکہ آیت (١٠١) میں تمام مومنوں کے لیے جہنم سے دور رکھے جانے کی بشارت آرہی ہے۔ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ : ” لَھَا “ کا لفظ ” وٰرِدُوْنَ “ سے پہلے آنے سے حصر پید اہو گیا، اس لیے ترجمہ ” اس میں “ کے بجائے ” اسی میں “ داخل ہونے والے ہوگا۔ اس جملے کا فائدہ یہ ہے کہ جہنم کا ایندھن بننے کے بعد یہ مت سمجھو کہ موحدین کی طرح اس سے نکل کر جنت میں چلے جاؤ گے، نہیں ! بلکہ تم اسی میں داخل رہو گے۔ اس کے علاوہ ” وٰرِدُوْنَ “ کو بعد میں لانے سے دوسری آیات کے فواصل (آخری حروف) کے ساتھ موافقت بھی ہوگئی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (Surely, you and whatever you worship other than Allah are the fuel of Jahannam - 21:98) Here a question may arise as to the application of this verse to the case of Sayyidna Masih (علیہ السلام) ، Sayyidna ` Uzair (علیہ السلام) and angels who were also worshipped by some people. According to account given by Qurtubi in his Tafsir, this issue was adequately resolved by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) who wondered that there is a verse in the Qur&an about which people have reservations, yet they do not question him about it. He went on to say that this may be due to the fact that either the people have found a convincing answer to their doubts or that they are totally indifferent and do not consider the matter important enough for any kind of investigation. When people asked him which particular verse he had in mind, he recited the verse إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ and went on to say that when this verse was revealed, it made the unbelievers of Quraish very angry because they felt that it offended their gods. So they approached Ibn al-Ziba` ra (A scholar of the scriptures) and complained to him about it. He said that if he were present there, he would have given them a reply which would have confounded all of them. Pressed further he said that he would have asked them what they thought about Sayyidna Masih (علیہ السلام) and about Sayyidna ` Uzair (علیہ السلام) ، who were worshipped by the Christians and the Jews respectively (meaning whether they too مَعَاذَ اللہ would be sent to Hell). The unbelievers of Quraish were delighted to hear this and were sure that Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) would have no answer to their question.

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ ، یعنی تم اور تمہارے معبود بجز اللہ کے سب کے سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس آیت میں تمام معبودات باطلہ جن کی ناجائز پرستش کفار کے مختلف گروہوں نے دنیا میں کی سب کا جہنم میں داخل ہونا بیان فرمایا گیا ہے اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ ناجائز عبادت تو حضرت مسیح اور عزیر اور فرشتوں کی بھی کی گئی ہے تو سب کے جہنم میں جانے کا کیا مطلب ہوگا ؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس نے دیا ہے ان کی روایت تفسیر قرطبی میں اس طرح ہے کہ ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن کی ایک آیت ایسی ہے جس میں لوگ شبہات کرتے ہیں مگر عجیب اتفاق ہے کہ اس کے متعلق لوگ مجھ سے سوال نہیں کرتے، معلوم نہیں کہ شبہات کا جواب ان لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے اس لئے سوال نہیں کرتے یا انہیں شبہ اور جواب کی طرف التفات ہی نہیں ہوا۔ لوگوں نے عرض کیا وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ آیت اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ الآیة ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفار قریش کو سخت ناگوار ہوا اور کہنے لگے کہ اس میں تو ہمارے معبودوں کی سخت توہین کی گئی ہے یہ لوگ (عالم اہل کتاب) ابن الزبعری کے پاس گئے اور اس کی شکایت کی اس نے کہا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو ان کو اس کا جواب دیتا۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ آپ کیا جواب دیتے، اس نے کہا کہ میں ان سے کہتا کہ نصاریٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی اور یہود حضرت عزیر (علیہ السلام) کی عبادت کرتے ہیں ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے (کیا معاذ اللہ وہ بھی جہنم میں جائیں گے) کفار قریش یہ سن کر بڑے خوش ہوئے کہ واقعی یہ بات تو ایسی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی جو آگے آتی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ۝ ٠ۭ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ۝ ٩٨ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ حصب۔ ایندھن۔ ہر وہ چیزجو آگ بھڑکانے کے کام آئے اسے حصب کہتے ہیں۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم . ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ ورد الوُرُودُ أصله : قصد الماء، ثمّ يستعمل في غيره . يقال : وَرَدْتُ الماءَ أَرِدُ وُرُوداً ، فأنا وَارِدٌ ، والماءُ مَوْرُودٌ ، وقد أَوْرَدْتُ الإبلَ الماءَ. قال تعالی: وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص/ 23] والوِرْدُ : الماءُ المرشّحُ للوُرُودِ ، والوِرْدُ : خلافُ الصّدر، ( ور د ) الورود ۔ یہ اصلی میں وردت الماء ( ض ) کا مصدر ہے جس کے معنی پانی کا قصد کرنے کے ہے ۔ پھر ہر جگہ کا قصد کرنے پر بولا جاتا ہے اور پانی پر پہنچنے والے کو ورود اور پانی کو مردود کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَمَّا وَرَدَ ماءَ مَدْيَنَ [ القصص/ 23] قرآن میں ہے : ۔ اور جب مدین کے پانی کے مقام پر پہنچے الوادر اس پانی کو کہتے ہیں جو وادر ہونے کے لئے تیار کیا گیا ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٨) بیشک اے مکہ والو تم اور تمہارے یہ بت سب دوزخ کا ایندھن ہیں اور تم سب اور یہ تمہارے بت دوزخ میں داخل ہوں گے۔ شان نزول : ( آیت) ” انکم وما تعبدون “۔ (الخ) امام حاکم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو ابن زبعری نے کہا کہ چاند سورج، ستارے، فرشتے، اور حضرت عزیر (علیہ السلام) ان کی پرستش ہوتی ہے، یہ سب ہمارے معبودوں کے ساتھ دوزخ میں جائیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ( آیت ) ” ان الذین سبقت “۔ (الخ) یعنی جن حضرات کے لیے جنت مقدر ہوچکی، وہ دوزخ سے اس قدر دور رہیں گے کہ اس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور دوسری یہ آیت نازل ہوئی ( آیت) ” ولما ضرب مریم مثلا “۔ تا ”۔ خصمون “۔ (الخ)

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

95. We learn from traditions that Abdullah bin Azzaara raised an objection in this connection, saying: According to this not only our deities but Prophets Jesus and Uzair (peace be upon them) and the Angels also will become fuel for Hell because they are also worshiped. The Prophet (peace be upon him) replied: Yes, everyone who would approve of his own worship instead of Allah’s will go to Hell along with those who worshiped him. He meant to say: There is no reason why Prophets Jesus and Uzair (peace be upon them) and the Angels should go to Hell because they never approved that they should be worshiped instead of Allah, and were not responsible for this. On the other hand, they taught people to worship Allah alone. Of course, those who tried to become deities and became partners in the shirk of others will certainly go to Hell along with their worshipers. Likewise those, who induced others to take deities other than Allah, will go to Hell. Satan comes under this category for he induces others to make deities. Thus it is Satan who is made the real deity whom they obey and commit shirk. Besides this, idols of stone and wood and other accessories of shirk will also be thrown into Hell along with the mushriks so that the latter should see that their deities were becoming a cause of the intensity of their torture of fire instead of becoming their intercessors.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :95 روایات میں آیا ہے کہ اس آیت پر عبداللہ بن الذَّبَعْریٰ نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو صرف ہمارے ہی معبود نہیں ، مسیح اور عُزیر اور ملائکہ بھی جہنم میں جائیں گے ، کیونکہ دنیا میں ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے ۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نعم ، کل من احب ان یعبد من دون اللہ فھو مع من عبدہ ، ہاں ، ہر وہ شخص جس نے پسند کیا کہ اللہ کے بجائے اس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہوں نے اس کی بندگی کی ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے خلق خدا کو خدا پرستی کی تعلیم دی تھی اور لوگ ان ہی کو معبود بنا بیٹھے ، یا جو غریب اس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا میں ان کی بندگی کی جا رہی ہے اور اس فعل میں ان کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے ، ان کے جہنم میں جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ البتہ جنہوں نے خود معبود بننے کی کوشش کی اور جن کا خلق خدا کے اس شرک میں واقعی دخل ہے وہ سب اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے ۔ اسی طرف وہ لوگ بھی جہنم میں جائیں گے جنہوں نے اپنی اغراض کے لیے غیر اللہ کو معبود بنوایا ، کیونکہ اس صورت میں مشرکین کے اصلی معبود وہی قرار پائیں گے نہ کہ وہ جن کو ان اشرار نے بظاہر معبود بنوایا تھا ۔ شیطان بھی اسی ذیل میں آتا ہے ، کیونکہ اس کی تحریک پر جن ہستیوں کو معبود بنایا جاتا ہے ، اصل معبود وہ نہیں بلکہ خود شیطان ہوتا ہے جس کے امر کی اطاعت میں یہ فعل کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ پتھر اور لکڑی کے بتوں اور دوسرے سامان پرستش کو بھی مشرکین کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جائے گا ، تاکہ وہاں پر آتش جہنم کے اور زیادہ بھڑکنے کا سبب بنیں اور یہ دیکھ کر انہیں مزید تکلیف ہو کہ جن سے وہ شفاعت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ ان پر الٹے عذاب کی شدت کے موجب بنے ہوئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

46: پتھر کے جن بتوں کی یہ مشرکین عبادت کرتے تھے ان کو بھی سزا کے طور پر نہیں بلکہ اس لئے جہنم میں ڈالا جائے گا تاکہ اس بات کا عملی مظاہرہ کیا جائے کہ جن بتوں کو تم خدا سمجھتے تھے وہ آخر کار کتنے بے بس ثابت ہوئے۔46:

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩٨۔ ٩٩:۔ مستدرک حاکم اور تفسیر ابن مردویہ ١ ؎ میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے قائل کرنے کے لیے اوپر کی آیتیں نازل فرمائی تھیں جن کا حاصل یہ ہے کہ یہ مشرک لوگ اور جن بتوں کو یہ پوجتے ہیں قیامت کو یہ سب دوزخ کا ایندھن بنائے جاویں گے اور ہمیشہ دوزخ ان کا ٹھکانا ہوگا ‘ ان سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ بت معبود ہونے کی صلاحیت رکھتے تو خدا کے نزدیک ان کی بھی قدر ومنزلت ہوتی نہ کہ خدا ان کو دوزخ کا ایندھن ٹھہراتا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیتیں مشرکوں کو پڑھ کر سنائیں تو ایک شخص ابن الزبعری شاعر نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑا جھگڑا کیا اور کہا کہ سوائے اللہ کے حضرت عیسیٰ اور عزیر اور ملائکہ کو بھی لوگ پوجتے ہیں ہمارے معبود دوزخ کا ایندھن ٹھہریں گے تو عیسیٰ عزیر اور ملائکہ کا کیا حال ہوگا ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے آگے کی آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ جن سے اللہ تعالیٰ نجات کا وعدہ فرما چکا ہے اور یہ مشرک ان کی بغیر مرضی انہیں اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں ان کو دوزخ کی بھاپ بھی نہ لگے گی یہ ابن الزبعری پھر مسلمان ہوگئے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی مدح میں بہت شعر انہوں نے کہے ہیں ٢ ؎‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ آخر کو دوزخ سے نکل کر جنت میں داخل ہوگا ‘ اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی دوسری روایت بھی گزر چکی ہے کہ جب جنت کے قابل لوگ جنت میں جا چکیں گے اور ہمیشہ وہیں رہے گا ‘ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کلمہ گو گنہگار جب دوزخ سے نکل کر جنت میں جا چکیں گے اور کلمہ کے منکر مشرک لوگ اور ان کے بت دوزخ میں رہ جاویں گے تو ان کو یہ حکم سنا دیا جائے گا کہ اب تم اور تمہارے جھوٹے معبود ہمیشہ دوزخ میں پڑے رہو۔ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٣٨ ج ٤ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیرص ١٩٩ ج ٣ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:98) حصب۔ ایندھن۔ ہر وہ چیزجو آگ بھڑکانے کے کام آئے اسے حصب کہتے ہیں۔ واردون۔ اترنے والے۔ داخل ہونے والے۔ لھا میں ضمیر واحد مؤنث غائب جہنم کے لئے ہے اور تم اس دوزخ میں داخل ہونے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ مراد میں بت، شیاطین اور وہ تمام چیزیں جن کی مشرکین پوجا کرتے تھے۔ 6 ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ پوجاتو فرشتوں کی بھی ہوتی ہے اور عیسیٰ ( علیہ السلام) اور عزیر ( علیہ السلام) کی بھی تو کیا یہ بھی دوزخ میں جائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت ” ان الذین سبقت الخ “ نازل فرمائی۔ ابن اسحٰق کی روایت میں ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن زبغریٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہی اعتراض کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص یہ چاہے کہ اللہ کی بجائے اس کی عبادت کی جائے وہ ان عبادت کرنے والوں کے ساتھ (جہنم میں) ہوگا۔ (ابن کثیر) معلوم ہوا کہ دوزخ میں وہی معبود (لوگ) جائیں گے جنہوں نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی ہوگی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انکم و ماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم انتم لھا وردون (٢١ : ٩٨) ترجمہ :۔ ” بیشک تم اور تمہارے وہ معبود جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو ، جہنم کا ایندھن ہو ، وہیں تم کو جانا ہے۔ “ اچانک یہ لوگ اب میدان حشر میں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ یہ جہنم کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ بڑی بےدردی کے ساتھ فرشتے ان کو اور ان کے معبودوں کو پکڑتے ہیں اور جہنم میں پھینکتے ہیں۔ وہاں پھینکے جاتے ہیں اور ایندھن کے ساتھ ایندھن ہو کر جلتے جاتے ہیں۔ صرف اس منظر سے ان کے خلاف استدلال ، وجدانی استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر یہ الہ ہوتے تو وہ جہنم کا ایندھن نہ بنتے۔ یہ ہے واقعی وجدانی دلیل۔ لوکان ھولآء الھۃ ماوردوھا (٢١ : ٩٩) ” اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ “ یہ منظر ان کے سامنے تو قرآن اس دنیا میں پیش کر رہا ہے ، لیکن اس طرح کہ گویا یہ منظر ہو کر گزر گیا ہے۔ وہ عملاً جہنم کے دھانے تک پہنچ گئے اور وہاں ڈال دیئے گئے تو اب جہنم میں ان کا جو حال ہے ، وہ پیش کردیا جاتا ہے ۔ اس طرح کہ جس طرح کوئی عملاً ایسے حالات میں پڑا ہو۔ وکل فیھا خلدون (٢١ : ٩٩) لھم فیھا زفیر وھم فیھا لا یسمعون (٢١ : ١٠٠) ” اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ وہاں وہ پھنکارے ماریں گے اور حال یہ ہوگا کہ اس میں کان بڑی آواز نہ سنائی دے گی۔ “ اب ذرا ان کو یہاں ہی چھوڑیئے اور آیئے دیکھیں مومنین کا حال کیسا ہے۔ ان کے حق میں تو فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ کامیابی اور نجات ان کا مقصدر ہوچکی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ ) (بلاشبہ تم اور وہ چیزیں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہو) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ اہل مکہ کو خطاب ہے۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ مشرکین خود اور اللہ کے سوا جن چیزوں کی عبادت کرتے ہیں وہ سب دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ یعنی دوزخ میں جائیں گے۔ (اَنْتُمْ لَھَا وَارِدُوْنَ ) (تم سب دوزخ میں داخل ہو گے) اس میں سابق مضمون کی تاکید ہے۔ مشرکین جب اپنے معبودوں کو دوزخ میں دیکھیں گے تو اس وقت وہ پوری طرح سے سمجھ لیں گے کہ اگر یہ عبادت کے لائق ہوتے تو دوزخ میں کیوں داخل ہوتے۔ دوزخ میں جانے کے بعد مشرک اور کافروں کا اس میں سے نکلنا نہیں ہوگا۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ اس میں چیخیں گے اور چلائیں گے اور یہ چیخ و پکار ایسے ہوگی کہ ایک دوسرے کی چیخ و پکار کی آواز آپس میں نہ سن سکیں گے۔ مشرکین چونکہ اپنے باطل معبودوں کے بارے میں یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ ہماری سفارش کردیں گے ان کی یہ غلط فہمی اس وقت بالکل ہی دور ہوجائے گی جب اپنے معبودوں کو دوزخ میں دیکھیں گے۔ باطل معبودوں میں شیاطین بھی ہوں گے اور بت بھی، بتوں کو عذاب دینے کے لیے نہیں بلکہ ان کی عبادت کرنے والوں کو عبرت دلانے کے لیے دوزخ میں داخل کیا جائے گا اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو دوزخ میں ہو اسے عذاب ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ آگ میں کوئی چیز ہو اور اسے تکلیف نہ ہو۔ دوزخ میں عذاب دینے والے فرشتے بھی ہوں گے اور انہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

71:۔ ” اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ الخ “” مَاتَعبُدُوْنَ “ سے برے پیر مراد ہیں جو اپنی پرستش پر راضی ہوں نیز انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کی مورتیاں جن کی مشرکین پرستش کرتے تھے۔ انبیاء (علیہم السلام) ملائکہ کرام اور اولیاء اللہ اس میں شامل نہیں ہیں۔ بقرینۃ ان الذی سبقت لھم منا الحسنی الخ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(98) بلاشبہ تم اور تمہارے معبود جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا اور پرستش کررہے ہو سب جہنم کا ایندھن ہوں گے۔ اور تم سب اس جہنم میں جھونکے جائوگے اور تم سب اس میں داخل ہوگے۔ یعنی جن چیزوں کو تم پوجتے ہو اس میں ہر قسم کے اصنام اور شیاطین داخل ہوگئے یہ سب مع اپنے بچاریوں کے دوزخ میں جھونکے جائیں گے اور داخل کردیئے جائیں گے یا صرف غیر ذی روح اشیاء اس میں داخل ہیں۔ بہرحال ! انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ملائکہ اس میں داخل نہیں جیسا کہ ان الذین سبقت لھم منا الحسنیٰ سے ظاہر ہے۔