Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 11

سورة الحج

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَ اِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۱﴾

And of the people is he who worships Allah on an edge. If he is touched by good, he is reassured by it; but if he is struck by trial, he turns on his face [to the other direction]. He has lost [this] world and the Hereafter. That is what is the manifest loss.

بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر ( کھڑے ) ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ اگر کوئی نفع مل گیا تو دلچسپی لینے لگتے ہیں اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقعی یہ کھلا نقصان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The meaning of worshipping Allah as it were upon the edge Allah says: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ... And among mankind is he who worships Allah as it were upon the edge: if good befalls him, he is content therewith; Mujahid, Qatadah and others said: عَلَى حَرْفٍ (upon the edge), means, in doubt. Others said that; it meant on the edge, such as on the edge or side of a mountain, i.e., (this person) enters Islam on the edge, and if he finds what he likes he will continue, otherwise he will leave. Al-Bukhari recorded that Ibn Abbas said: وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ (And among mankind is he who worships Allah as it were upon the edge). "People would come to Al-Madinah (to declare their Islam) and if their wives gave birth to sons and their mares gave birth to foals, they would say, `This is a good religion,' but if their wives and their mares did not give birth, they would say, `This is a bad religion."' Al-`Awfi reported that Ibn Abbas said, "One of them would come to Al-Madinah, which was a land that was infected with a contagious disease. If he remained healthy there, and his mare foaled and his wife gave birth to a boy, he would be content, and would say, `I have not experienced anything but good since I started to follow this religion." ... وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ ... but if a Fitnah strikes him, Fitnah here means affliction, i.e., if the disease of Al-Madinah befalls him, and his wife gives birth to a babe girl and charity is delayed in coming to him, the Shaytan comes to him and says: "By Allah, since you started to follow this religion of yours, you have experienced nothing but bad things," and this is the Fitnah. This was also mentioned by Qatadah, Ad-Dahhak, Ibn Jurayj and others among the Salaf when explaining this Ayah. Mujahid said, concerning the Ayah: ... انقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ ... he turns back on his face. "(This means), he becomes an apostate and a disbeliever." ... خَسِرَ الدُّنْيَا وَالاْخِرَةَ ... He loses both this world and the Hereafter. means, he does not gain anything in this world. As for the Hereafter, he has disbelieved in Allah the Almighty, so he will be utterly doomed and humiliated. So Allah says: ... ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ That is the evident loss. i.e., the greatest loss and the losing deal.

شک کے مارے لوگ حرف کے معنی شک کے ایک طرف کے ہیں ۔ گویا وہ دین کے ایک کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں فائدہ ہوا تو پھولے نہیں سماتے ، نقصان دیکھا بھاگ کھڑے ہوئے ۔ صحیح بخاری شریف میں ( ابن عباس سے مروی ) ہے کہ اعراب ہجرت کرکے مدینے پہنچتے تھے اب اگر بال بچے ہوئے جانوروں میں برکت ہوئی تو کہتے یہ دین بڑا اچھا ہے اور اگر نہ ہوئے تو کہتے یہ دین تو نہایت برا ہے ۔ ابن حاتم میں آپ سے مروی ہے کہ اعراب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اسلام قبول کرتے واپس جاکر اگر اپنے ہاں بارش ، پانی پاتے ، جانوروں میں ، گھر بار میں برکت دیکھتے تو اطمینان سے کہتے بڑا اچھا دین ہے اور اگر اس کے خلاف دیکھتے توجھٹ سے بک دیتے کہ اس دین میں سوائے نقصان کے اور کچھ نہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ بروایت عوفی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ایسے لوگ بھی تھے جو مدینے پہنچتے ہی اگر ان کے ہاں لڑکا ہوتا یا ان کی اونٹنی بچہ دیتی تو انہیں راحت ہوئی تو خوش ہوجاتے اور ان کی تعریفیں کرنے لگتے اور اگر کوئی بلا ، مصیبت آگئی ، مدینے کی ہوا موافق نہ آئی ، گھر میں لڑکی پیدا ہوگئی ، صدقے کا مال میسر نہ ہوا توشیطانی وسوسے میں آجاتے اور صاف کہہ دیتے کہ اس دین میں تو مشکل ہی مشکل ہے ۔ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ یہ حالت منافقوں کی ہے ۔ دنیا اگر مل گئی تو دین سے خوش ہیں جہاں نہ ملی یا امتحان آگیا فوراً پلہ جھاڑلیاکرتے ہیں ، مرتد کافر ہوجاتے ہیں ۔ یہ پورے بدنصیب ہیں دنیا آخرت دونوں برباد کرلیتے ہیں اس سے زیادہ اور بربادی کیا ہوتی ؟ جن ٹھاکروں ، بتوں اور بزرگوں سے یہ مدد مانگتے ہیں ، جن سے فریاد کرتے ہیں ، جن کے پاس اپنی حاجتیں لے کر جاتے ہیں ، جن سے روزیاں مانگتے ہیں وہ تو محض عاجز ہیں ، نفع نقصان ان کے ہاتھ ہی نہیں ۔ سب سے بڑی گمراہی یہی ہے ۔ دنیا میں بھی ان کی عبادت سے نقصان نفع سے پیشتر ہی ہوجاتا ہے ۔ اور آخرت میں ان سے جو نقصان پہنچے گا اس کا کہنا ہی کیا ہے؟ یہ بت تو ان کے نہایت برے والی اور نہایت برے ساتھی ثابت ہوں گے ۔ یا یہ مطلب کہ ایسا کرنے والے خود بہت ہی بد اور بڑے ہی برے ہیں لیکن پہلی تفسیر زیادہ اچھی ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] یعنی کفر اور اسلام کی سرحد پر ہی کھڑا رہتا ہے۔ اسلام میں داخل ہوتا ہی نہیں اور اس انتظار میں وہاں کھڑا ہے کہ اگر اسلام لانے سے کوئی مادی فائدہ پہنچنے کی توقع ہے تو پھر تو اسے اسلام گوارا ہے لیکن اگر اسلام میں داخل نہ ہونے میں کوئی مشکل یا مادی نقصان نظر آرہا ہو تو اس۔۔ سے فوراً کفر کی طرف نکل بھاگے۔ جیسا کہ عموماً منافقوں کا حال ہوتا ہے۔ گویا ایسے لوگوں کا مطمع نظر صرف مادی فوائد ہوتے ہیں۔ وہ جس طرف نظر آئیں ادھر ہی لڑھک جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے خسارہ میں رہتے ہیں۔ دینی نقصان تو واضح ہے کہ ایسے لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں داخل کئے جائیں گے اور دنیوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ نہ کافر انھیں اپنا ہمدرد اور ساتھی سمجھتے ہیں اور نہ مسلمان، دونوں طرف سے ان کی ساکھ تباہ ہوجاتی ہے اور بمصداق && دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا && انھیں کبھی بھی پذیرائی اور عزت نصیب نہیں ہوتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۧوَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ۔۔ :” حَرْفٍ “ کا معنی کنارا ہے، یعنی وہ دین کے دائرے کے وسط میں داخل نہیں ہوتا، بلکہ کنارے ہی پر رہتا ہے، یا اس کے دل میں ایمان جاگزیں نہیں ہوتا، صرف زبان اسلام کا اقرار کرتی ہے، جیسے کوئی شخص کسی لشکر کے کنارے پر رہے، اگر فتح نظر آرہی ہو تو جا ملے، ورنہ فرار اختیار کرے۔ یہ آیت ان اعراب (بادیہ نشین) لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو صحرا سے ہجرت کرکے آتے۔ پھر اگر جان و مال میں برکت ہوتی تو اسلام پر بڑے اطمینان کا اظہار کرتے اور اگر تکلیف اور دکھ میں مبتلا ہوجاتے تو مرتد ہو کر واپس بھاگ جاتے۔ بعض ” مؤلفۃ القلوب “ کی بھی یہی حالت تھی۔ (کبیر) اور دیکھیے سورة بقرہ (١٧ تا ٢٠) ۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : ( کَان الرَّجُلُ یَقْدَمُ الْمَدِیْنَۃَ ، فَیُسْلِمُ ، فَإِنْ وَلَدَتِ امْرَأَتُہُ غُلَامًا وَنُتِجَتْ خَیْلَُہُ قَالَ ہٰذَا دِیْنٌ صَالِحٌ وَ إِنْ لَّمْ تَلِدِ امْرَأَتُہُ وَ لَمْ تُنْتَجْ خَیْلُہُ قَالَ ھٰذَا دِیْنُ سُوْءٍ ) [ بخاري، التفسیر، باب ( و من الناس من یعبد اللہ علی حرف ) : ٤٧٤٢ ] ” آدمی مدینے آتا، پھر اگر اس کی بیوی لڑکے کو جنم دیتی اور اس کی گھوڑیاں بچے دیتیں تو کہتا، یہ اچھا دین ہے اور اگر بیوی کے ہاں بچہ نہ ہوتا اور نہ گھوڑیاں بچے دیتیں تو کہتا یہ دین برا ہے۔ “ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْهِهٖ یعنی مرتد ہوگیا اور پھر کفر و شرک کی طرف پلٹ گیا۔ ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ : شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں، یعنی دنیا کا فائدہ اور بھلائی دیکھے تو بندگی پر قائم رہے اور اگر آزمائش آجائے اور کوئی تکلیف پہنچے تو بندگی چھوڑ دے۔ ادھر (تکلیف اور مصیبت سے) دنیا گئی ادھر (بندگی چھوڑ کر مرتد ہونے سے) دین گیا۔ کنارے پر کھڑا ہے، یعنی دل ابھی نہ اس طرف ہے اور نہ اس طرف، جیسے کوئی مکان کے کنارے کھڑا ہے، جب چاہے نکل جائے۔ (موضح )

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary (And among men there is one who worships Allah (standing) on the verge - 22:11.) Bukhari and Ibn Abi Haim have related from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) migrated to Madinah, people flocked to him and accepted the new religion. But there were some among them whose conversion to Islam was far from being genuine, and whose sole motive for their action was to seek self-advancement, and they lacked conviction. If, after becoming Muslims, favorable circumstances resulted in an increase in their prosperity and their children, they thought Islam was a very good religion, but they were equally ready to condemn it if things went against their personal interests. This verse was revealed to describe such people who were mere opportunists and were easily swayed either way depending on where their selfish interests lay.

خلاصہ تفسیر اور بعض آدمی اللہ کی عبادت (ایسے طور پر) کرتا ہے (جیسے کوئی کسی چیز کے) کنارہ پر ( کھڑا ہو اور موقع پا کر چل دینے پر تیار ہو) پھر اگر اس کو کوئی (دنیوی) نفع پہنچ گیا تو اس کی وجہ سے (ظاہری) قرار پا لیا اور اگر اس پر کچھ آزمائش ہوگئی تو منہ اٹھا کر (کفر کی طرف) چل دیا (جس سے) دنیا و آخرت دونوں کو کھو بیٹھا یہی ہے کھلا نقصان (دنیا کا نقصان تو دنیاوی آزمائش جو کسی مصیبت سے ہوتی وہ ظاہر ہی ہے اور آخرت کا نقصان یہ ہوا کہ اسلام اور) خدا کو چھوڑ کر اسی چیز کی عبادت کرنے لگا جو (اس قدر عاجز اور بےبس ہے کہ) نہ اس کو نقصان پہنچا سکتی ہے نہ نفع پہنچا سکتی ہے (یعنی اس کی عبادت نہ کرو تو کوئی نقصان پہنچانے کی اور کرو تو نفع پہنچانے کی کوئی قدرت نہیں۔ ظاہر ہے کہ قادر مطلق کو چھوڑ کر ایسی بےبس چیز کو اختیار کرنا خسارہ ہی خسارہ ہے) یہ انتہا درجہ کی گمراہی ہے (صرف یہی نہیں کہ اس کی عبادت سے کوئی نفع نہ پہنچے بلکہ الٹا ضرر اور نقصان ہے کیونکہ) وہ ایسے کی عبادت کر رہا ہے کہ اس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے۔ ایسا کار ساز بھی برا اور ایسا رفیق بھی برا (جو کسی طرح کسی حال کسی کے کام نہ آوے کہ اس کو مولیٰ اور آقا بنا لو یا دوست اور ساتھی بنا لو کسی حال اس سے کچھ نفع نہیں) ۔ معارف و مسائل وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ ، بخاری اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں مقیم ہوگئے تو بعض ایسے لوگ بھی آ کر مسلمان ہوجاتے تھے (جن کے دل میں ایمان کی پختگی نہیں تھی) اگر اسلام لانے کے بعد اس کی اولاد اور مال میں ترقی ہوگئی تو کہتا تھا کہ یہ دین اچھا ہے اور اگر اس کے خلاف ہوا تو کہتا تھا کہ یہ برا دین ہے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ لوگ ایمان کے ایک کنارہ پر کھڑے ہیں۔ اگر ان کو ایمان کے بعد دنیوی راحت اور مال و سامان مل گیا تو اسلام پر جم گئے اور اگر وہ بطور آزمائش کسی تکلیف و پریشانی میں مبتلا ہوگئے تو دین سے پھرگئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۝ ٠ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝ ٠ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ۝ ٠ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ۝ ١١ حرف حَرْفُ الشیء : طرفه، وجمعه : أحرف وحروف، يقال : حرف السیف، وحرف السفینة، وحرف الجبل، وحروف الهجاء : أطراف الکلمة، والحروف العوامل في النحو : أطراف الکلمات الرابطة بعضها ببعض، وناقة حرف «3» ، تشبيها بحرف الجبل، أو تشبيها في الدّقة بحرف من حروف الکلمة، قال عزّ وجلّ : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلى حَرْفٍ [ الحج/ 11] ، قد فسّر ذلک بقوله بعده : فَإِنْ أَصابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلى وَجْهِهِ [ الحج/ 11] ، وفي معناه : مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ [ النساء/ 143] . وانحرف عن کذا، وتحرّف، واحترف، والاحتراف : طلب حرفة للمکسب، والحرفة : حالته التي يلزمها في ذلك، نحو : القعدة والجلسة، والمحارف : المحروم الذي خلا به الخیر، وتَحریفُ الشیء : إمالته، کتحریف القلم، ( ح رٖ ف) حرف الشئی کے معنی کسی چیز کے کنارہ کے ہیں حرف کی جمع احرف وحروف آتی ہے اور پہاڑ ، کشتی اور تلوار کے کنارہ کو حرف کہا جاتا ہے اور حروف الھجا کے معنی اطراف کلمہ کے ہیں اور اصطلاح نحاۃ میں الحروف العومل ان حروف کو کہا جاتا ہے ہے جو کلموں کے اطراف میں واقع ہوتے ہیں اور ان کو باہم مرتبط کرتے ہیں اور حرف الجبل یعنی پہاڑ کے کنارے اور با ی کی میں حرف کے ساتھ تشبیہ دے کر لاغر اونٹنی کو حرف کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلى حَرْفٍ [ الحج/ 11] اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں ۔ جو کنارے پرد گھڑا ہو کر ) خدا کی عبادت کرتے ہیں سب میں علیٰ حرف کے معنی خود قرآن نے ہی بعد میں فان اصابہ خیر الایۃ سے بیان کردئیے ہیں یعنی جب تک اطاعت و عبادت میں کچھ دنیاوی فائدہ نظر آتا ہے کرتا رہتا ہے اور جب کوئی تکلیف نظر آتی ہے تو چھوڑ بیٹھتا ہے ۔ اور یہی معنی آیت ؛مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِكَ [ النساء/ 143] کے ہیں ۔ کسی چیز سے کنارہ کرنا ایک جانب مائل ہونا ۔ الاحتراف کوئی پیشہ اختیار کرنا ۔ الحرفہ ( فعلۃ ) پیشے کی حالت جیسے قعدۃ وجسلۃ المحارف ۔ وہ شخص جو خیر سے محروم اور اس کے کنارہ پر ہو ( کم نصیب ) صوب الصَّوَابُ يقال علی وجهين : أحدهما : باعتبار الشیء في نفسه، فيقال : هذا صَوَابٌ: إذا کان في نفسه محمودا ومرضيّا، بحسب مقتضی العقل والشّرع، نحو قولک : تَحَرِّي العدلِ صَوَابٌ ، والکَرَمُ صَوَابٌ. والثاني : يقال باعتبار القاصد إذا أدرک المقصود بحسب ما يقصده، فيقال : أَصَابَ كذا، أي : وجد ما طلب، کقولک : أَصَابَهُ السّهمُ ، وذلک علی أضرب : الأوّل : أن يقصد ما يحسن قصده فيفعله، وذلک هو الصَّوَابُ التّامُّ المحمودُ به الإنسان . والثاني : أن يقصد ما يحسن فعله، فيتأتّى منه غيره لتقدیره بعد اجتهاده أنّه صَوَابٌ ، وذلک هو المراد بقوله عليه السلام : «كلّ مجتهد مُصِيبٌ» «4» ، وروي «المجتهد مُصِيبٌ وإن أخطأ فهذا له أجر» «1» كما روي : «من اجتهد فَأَصَابَ فله أجران، ومن اجتهد فأخطأ فله أجر» «2» . والثالث : أن يقصد صَوَاباً ، فيتأتّى منه خطأ لعارض من خارج، نحو من يقصد رمي صيد، فَأَصَابَ إنسانا، فهذا معذور . والرّابع : أن يقصد ما يقبح فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يقصده، فيقال : أخطأ في قصده، وأَصَابَ الذي قصده، أي : وجده، والصَّوْبُ ( ص و ب ) الصواب ۔ ( صحیح بات ) کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے (1) کسی چیز کی ذات کے اعتبار سے یعنی خب کوئی چیز اپنی ذات کے اعتبار سے قابل تعریف ہو اور عقل و شریعت کی رو سے پسندیدہ ہو مثلا تحری العدل صواب ( انصان کو مدنظر رکھنا صواب ہے ) الکرم صواب ( کرم و بخشش صواب ہے ) (2) قصد کرنے والے کے لحاظ سے یعنی جب کوئی شخص اپنے حسب منشا کسی چیز کو حاصل کرلے تو اس کے متعلق اصاب کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے مثلا اصابہ بالسھم ( اس نے اسے تیر مارا ) پھر اس دوسرے معنی کے اعتبار سے اس کی چند قسمیں ہیں (1) اچھی چیز کا قصد کرے اور اسے کر گزرے یہ صواب تام کہلاتا ہے اور قابل ستائش ۔ (2) مستحسن چیز کا قصد کرے لیکن اس سے غیر مستحسن فعل شرزہ اجتہاد کے بعد اسے صواب سمجھ کر کیا ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کل مجتھد مصیب ( کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ) کا بھی یہی مطلعب ہے اور یہ بھی مروی ہے کہ المجتھد مصیب وان اخطاء فھذا لہ اجر کہ مجتہد مصیب ہوتا ہے اگر خطا وار بھی ہو تو اسے ایک اجر حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ا یک اور روایت میں ہے من اجتھد فاصاب فلہ اجران ومن اجتھد فاخطا فلہ اجر کہ جس نے اجتہاد کیا اور صحیح بات کو پالیا تو اس کے لئے دواجر ہیں اور جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔ (3) کوئی شخص صحیح بات یا کام کا قصد کرے مگر کسی سبب سے اس سے غلطی سرزد ہوجائے مثلا ایک شخص شکار پر تیز چلاتا ہے مگر اتفاق سے وہ کسی انسان کو الگ جاتا ہے اس صورت میں اسے معذور سمجھا جائے گا ۔ ( 4 ) ایک شخص کوئی برا کام کرنے لگتا ہے مگر اس کے برعکس اس سے صحیح کام صحیح کام سرز د ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ گو اس کا ارادہ غلط تھا مگر اسنے جو کچھ کیا وہ درست ہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ طمن الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] ( ط م ن ) الطمانینۃ والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ انقلاب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، والِانْقِلابُ : الانصراف، قال : انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] ، وقال : إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں الانقلاب کے معنی پھرجانے کے ہیں ارشاد ہے ۔ انْقَلَبْتُمْ عَلى أَعْقابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ ( یعنی مرتد ہوجاؤ ) وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلى عَقِبَيْهِ [ آل عمران/ 144] اور جو الٹے پاؤں پھر جائے گا ۔إِنَّا إِلى رَبِّنا مُنْقَلِبُونَ [ الأعراف/ 125] ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ خسر ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] ، ( خ س ر) الخسروالخسران عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر/ 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) اور بعض آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طریقے سے کرتے ہیں جیسے کہ کسی چیز کے کنارے پر کھڑے ہوں اور شک میں ہوں اور کسی نعمت کے انتظار میں مبتلا ہوں، یہ آیت بنوحلاف اور منافقین بنی اسد وغطفان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر اگر اس کو کوئی دنیاوی فائدہ پہنچ گیا تو ظاہری طور پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین سے رضا مندی کا اظہار کردیا اور اگر کسی قسم کی کوئی سختی آگئی تو اپنے سابقہ مشرکانہ دین کو اختیار کرلیا جس سے دنیا و آخرت دونوں کو کھو بیٹھا، دنیا کی ذات کو برباد کیا اور آخرت میں جنت ہاتھ سے چھوٹی، یہ دنیا وا آخرت کے برباد ہونے کا نقصان واضح نقصان کہلاتا ہے۔ شان نزول : ومن الناس من یعبد اللہ “۔ (الخ) امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی مدینہ منورہ آکر اسلام قبول کرلیتا تھا پھر اگر اس کی بیوی کے لڑکا پیدا ہوجائے اور اس کی گھوڑ بچہ دے دے تب تو کہتا تھا تب تو کہتا تھا کہ یہ دین اچھا ہے اور اگر اس کی بیوی کے لڑکا نہ پیدا ہوا اور اس کی گھوڑی نے بچہ نہ دیا تو کہتا کہ یہ دین برا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ بعض آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے طور پر کرتا ہے جیسے کوئی چیز کے کنارا پر کھڑا ہو۔ اور ابن مردویہ (رح) نے عطیہ (رح) کے ذریعے سے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے ایک شخص مشرف بااسلام ہوا، اسلام لاتے ہی اس کی بینائی مال و اولاد سب چیزیں جاتی رہیں، اس نے اسلام سے برا شگون لیا اور کہنے لگا میرے اس دین سے مجھے نعوذ باللہ کوئی بھلائی نہیں حاصل ہوئی، میری نظر اور مال جاتا رہا، میرا لڑکا مرگیا، اور پر آیت مبارکہ نازل ہوئی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ ج) ” انسانی دل کے اس روگ کی نشان دہی سورة البقرۃ کی آیت ١٠ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے : (فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ) ” ان کے دلوں میں مرض ہے “۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حق کا ساتھ دینا تو چاہتے ہیں ‘ لیکن اس کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ گہرے پانی میں جانے کا خطرہ مول لینے کے بجائے کنارے پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مبادا کہ اس سفر میں کوئی گزند پہنچ جائے یا کوئی مالی نقصان اٹھانا پڑجائے۔ وہ لوگ بڑی چالاکی کے ساتھ اس قسم کے سب خطرات سے خود کو محفوظ فاصلے پر رکھ کر حق کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں ‘ لیکن اس راستے میں ایسا طرز عمل قابل قبول نہیں ہے۔ یہ تو سرا سر قربانی کا راستہ ہے۔ اس راستے میں اپنی جان اور اپنے مال کو بچا بچا کر رکھنے والے فرزانوں کی نہیں بلکہ قدم قدم پر قربانیاں دینے والے دیوانوں کی ضرورت ہے۔ اسی فلسفے کو اقبال ؔ نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے : ؂ تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں ! ایسے لوگوں کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ وہ لوگ ہیں جو حق کو قبول کرتے ہی یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے منجدھار میں کود پڑتے ہیں : ع ” ہر چہ بادا باد ‘ ماکشتی در آب انداختیم ! “ کہ اب جو ہو سو ہو ‘ ہم تو حق کی اس کشتی میں سوار ہو کر اسے دریا میں ڈال چکے ہیں۔ اب یہ تیرے گی تو ہم بھی تیریں گے اور اگر اس راستے میں ہماری جان بھی چلی جائے تو ہم اس قربانی کے لیے بھی تیار ہیں۔ (وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ ج) ” ایسے لوگ موافق حالات میں تو ہر کام میں اہل ایمان کے ساتھ شریک رہتے ہیں ‘ لیکن اگر کہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کا مرحلہ آجائے یا کسی اور قربانی کا تقاضا ہو تو چپکے سے واپسی کی راہ لے لیتے ہیں۔ (ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ) ” یہ بہت ہی نمایاں اور واضح تباہی ہے۔ اس آیت میں منافقانہ کردار کا ذکر ہے۔ اسی طرح اس سورت میں جہاد کا ذکر بھی ملتا ہے۔ منافقت اور جہاد چونکہ مدنی سورتوں کے موضوعات ہیں اس لیے سورة الحج کو بعض مفسرین مدنی سورت مانتے ہیں ‘ لیکن میرے نزدیک یہ مکی ہے۔ تفسیر طبری میں منقول حبر الامت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول سے اس خیال کی تائیدہوتی ہے کہ اس سورت کی کچھ آیات (٣٨ تا ٤١) اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئیں۔ چناچہ ان آیات کو ” برزخی آیات “ کہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سورة الحج کو اس بنا پر بھی مدنی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی بعض آیات کی سورة البقرۃ کی بعض آیات کے ساتھ گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ مثلاً سورة البقرۃ کی آیت ١٤٣ اور سورة الحج کی آخری آیت میں ” شہادت علی الناس “ کا مضمون بالکل ایک جیسے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح زیر نظر آیت میں منافقین کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ اس کیفیت سے بہت مشابہت رکھتی ہے جس کا نقشہ سورة البقرۃ کے دوسرے رکوع میں کھینچا گیا ہے کہ جب بجلی چمکتی ہے تو یہ لوگ کچھ چل پھر لیتے ہیں لیکن جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ بہر حال مدینہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے منافقین کا بالکل وہی حال تھا جس کی تصویر سورة البقرۃ کی مذکورہ تمثیل اور زیر مطالعہ آیت میں دکھائی گئی ہے۔ جب کسی جنگ یا کسی مہم کا تقاضا نہ ہوتا تو یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے اور بڑے بڑے دعوے کرتے ‘ مگر جونہی کسی قربانی کا مرحلہ آتا تو گویا اوندھے منہ گرپڑتے تھے۔ دعا کریں کہ اللہ ہمیں اس بیماری سے بچائے اور اقامت دین کی جدوجہد میں پورے خلوص کے ساتھ ہمہ تن اور ہمہ وجوہ اپنے آپ کو جھونک دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین ! )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15. This type of man is a time server, who stands on the boundary line between Islam and kufr so that he may join the winning side whether it be Islam or kufr. 16. As this type of man has a weak character and wavers between kufr and Islam he becomes the slave of his self. He accepts Islam for the sake of self interest. He is faithful to it if all his wishes are fulfilled and he has a life of ease and comfort, he is well-pleased with his Allah and is firm in his faith. On the contrary, if his faith demands some sacrifice from him, or he is visited by some affliction, or encounters some hardship and loss in the way of Allah, or he does not have his way, he begins to waver about the Godhead of Allah and the Prophethood of the Messenger and becomes skeptical about everything of the faith. Then he is ready to bow down before any power from which he expects some benefit and security from loss. 17. This is a great moral proposition that has been stated concisely. The fact is that the wavering man remains a loser in this world as well as in the next world, and fares worse even than an unbeliever. The unbeliever applies himself exclusively to the benefits of this world and becomes more or less successful in his object because he is not handicapped by the fear of Allah, accountability of the Hereafter and restrictions of divine law. Likewise, a true believer follows the way of Allah with fortitude and perseverance and may as well become successful in this world, but even if he loses it altogether, he is assured of success in the next world. But the wavering Muslim becomes a loser both in this world and in the next world because he is handicapped by doubt and indecision and cannot make his choice between the two worlds. As he cannot decide whether there is Allah and the Hereafter, he cannot apply himself exclusively to the worldly affairs with that single-mindedness which the unbeliever enjoys. And when he thinks of Allah and the Hereafter, the allurements of this world and the fear of the disadvantages here and the abhorrence of observing the divine restrictions do not let him apply himself exclusively to the demands of the Hereafter. This conflict between God worship and world worship makes him a loser in this world as well as in the next.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :15 یعنی دائرہ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کنارے پر ، یا بالفاظ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے ۔ جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پر کھڑا ہو ، اگر فتح ہوتی دیکھے تو ساتھ آ ملے اور شکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :16 اس سے مراد ہیں وہ خام سیرت ، مضطرب العقیدہ اور بندۂ نفس لوگ جو اسلام قبول تو کرتے ہیں مگر فائدے کی شرط کے ساتھ ۔ ان کا ایمان اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں ، ہر طرح چین ہی چین نصیب ہو ، نہ خدا کا دین ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے ، اور نہ دنیا میں ان کی کوئی خواہش اور آرزو پوری ہونے سے رہ جائے ۔ یہ ہو تو خدا سے وہ راضی ہیں اور اس کا دین ان کے نزدیک بہت اچھا ہے ۔ لیکن جہاں کوئی آفت آئی ، یا خدا کی راہ میں کسی مصیبت اور مشقت اور نقصان سے سابقہ پیش آ گیا ، یا کوئی تمنا پوری ہونے سے رہ گئی ، پھر ان کو خدا کی خدائی اور رسول کی رسالت اور دین کی حقانیت ، کسی چیز پر بھی اطمینان نہیں رہتا ۔ پھر وہ ہر اس آستانے پر جھکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جہاں سے ان کو فائدے کی امید اور نقصان سے بچ جانے کی توقع ہو ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :17 یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے ۔ مذبذب مسلمان کا حال درحقیقت سب سے بدتر ہوتا ہے ۔ کافر اپنے رب سے بے نیاز ، آخرت سے بے پروا ، اور قوانین الہٰی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسوئی کے ساتھ مادی فائدوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو چاہے وہ اپنی آخرت کھو دے ، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے ۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین کی پیروی کرتا ہے تو اگرچہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کر رہتی ہے ، تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے ، آخرت میں بہرحال اس کی فلاح و کامرانی یقینی ہے ۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے ۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان جو اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے ، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کر دیا ہے ، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے ، اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی ۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف ، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اس طرف جانے نہیں دیتا بلکہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا ۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخرت بھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کچھ لوگ اس لالچ میں اسلام لائے کہ اسلام کی وجہ سے انہیں دنیا میں کچھ فوائد حاصل ہوں گے ؛ لیکن جب ان کی توقع پوری نہیں ہوئی ؛ بلکہ کوئی آزمائش آگئی تو دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے، یہ آیت ان کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ یہ لوگ حق کو حق ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرتے ؛ بلکہ دنیا کے مفادات کی خاطر قبول کرتے ہیں، اور ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی جنگ میں اس نیت سے ایک کنارے کھڑا ہوگیا ہو کہ دونوں لشکروں میں سے جس کا پلہ بھاری نظر آئے گا اسکے ساتھ ہوجاؤں گا ؛ تاکہ کچھ مفادات حاصل کرسکوں، سبق یہ دیا گیا ہے کہ اسلام پر عمل اس لالچ میں نہ کرو کہ اس دنیا ہی میں تمہیں کوئی فائدہ مل جائے گا ؛ بلکہ اس لئے کرو کہ وہ برحق ہے، اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا تقاضا یہی ہے، جہاں تک دنیا کے مفادات کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حکیمانہ مشیت ہے کہ کس کو کیا دیا جائے ؛ چنانچہ اسلام لانے کے بعددنیوی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور کوئی آز مائش بھی آسکتی ہے جس میں صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ مصیبت دور فرما کر آزمائش سے نکال دے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ ١٣:۔ صحیح بخاری ‘ مصنف ابن ابی شیبہ ‘ تفسیر ابن المنذر ‘ تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ ٢ ؎ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے آس پاس کے کچھ دیہاتی لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آن کر اسلام لے آتے تھے اور پھر اپنے اپنے گاؤں کو چلے جاتے تھے ‘ گاؤں میں چلے جانے کے بعد اگر ان کے مال یا اولاد میں کچھ ان کو بہبودی نظر آتی تھی تو اسلام پر قائم رہتے تھے اور کہتے تھے بلاشک یہ دین اچھا ہے اور اگر اسلام کے بعد اتفاق سے کوئی سختی پیش آتی تھی تو اسلام کی مذمت کرنے لگتے تھے اور اسلام سے پھرجاتے تھے ایسے لوگوں کی شان میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ‘ تفسیر ابن مردویہ ٣ ؎ میں ایک یہودی کا قصہ اس آیت کی شان نزول میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک یہودی اسلام لایا اسلام لانے کے بعد اتفاق سے وہ اندھا ہوگیا اس لیے اسلام سے پھر گیا ‘ اس روایت کی سند ضعیف ہے حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ اللہ کے نزدیک خالص دل کا اسلام اور عمل مقبول ہے اس طرح دو دلہ بن کر اسلام لاوے یا نیک عمل کرے کہ خوشحالی کے وقت جو کچھ بن آیا وہ کرلیا ذرا کسی طرح کی کوئی مصیبت پیش آئی تو ناشکری کا کلمہ بھی زبان پر آنے لگا ‘ نماز روزہ بھی چھوٹ گیا یا چھوٹا نہیں تو اس میں کچھ فرق آگیا اس طرح کا اسلام اور نیک عمل اللہ کی درگاہ میں مقبول نہیں ‘ صحیح مسلم میں سفیان بن عبد اللہ سے روایت ہے ٤ ؎ جس میں سفیان بن عبد اللہ کہتے ہیں میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ حضرت دین میں مجھ کو کوئی ایسی بات بتلا دیجئے کہ پھر مجھ کو کسی بات کے پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے احکام پر ایمان لانا اور ہر حال میں اس پر قائم رہنا یہی بڑی بات دین کی ہے یہاں بعضے مفسروں ٥ ؎ نے اعتراض کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بت پرستوں کو ان کے بت نفع نقصان کچھ نہیں پہنچا سکتے اور پھر فرمایا کہ بت پرستوں کو ان کے بتوں سے بہ نسبت نفع کے نقصان زیادہ پہنچنے والا ہے اس اختلاف کا رفع کیونکر ہے اس اختلاف کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ دونوں آیتوں میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے ایک ٹکڑے میں دنیا کا حال ہے کہ بت بالکل پتھر ہیں ان کو کوئی پوجے تو وہ پتھر کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے اور جو نہ پوجے تو کچھ نقصان ان پتھروں سے انہیں پہنچ سکتا ‘ دوسرے ٹکڑے میں آیت کے آخرت کا حال ہے ‘ اس دوسرے ٹکڑے کے معنی کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جس طرح بت پرستوں کو بتوں سے نفع ونقصان پہنچانے کا غلط خیال ہے ‘ آخرت میں ان لوگوں کو بت پرستی کا نقصان جو عذاب آخرت سے پہنچنے والا ہے وہ خیالی نہیں بلکہ یقینی ہے ‘ اس لیے بت پرستی میں نفع سے نقصان زیادہ اور زیادہ نزدیک ہے ان پوری آیتوں کا حاصل مطلب یہ ہے کہ بعضے دیہاتی لوگوں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ غنیمت کے مال میں سے صدقہ و خیرات میں سے کچھ مل جانے کا لالچ کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور جب تک ان کا مطلب پورا ہوتا رہتا ہے تو اوپرے دل سے مسلمانوں کے ساتھ نماز روزہ میں شریک ہوجاتے ہیں اور جس وقت ان کا یہ مطلب پورا نہیں ہوتا تو اسلام سے پھرجاتے ہیں جس سے ان کا دنیا میں تو یہ نقصان ہے کہ اسلام کے چھوڑنے پر ان کے نصیب سے زیادہ ان کو کچھ ملنے والا نہیں اور عقبیٰ کا نقصان وقت مقررہ پر ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا پھر فرمایا اسلام سے پھرجانے کے بعد یہ اور ان کے ساتھی مشرک پتھر کی مورتوں کی پوجا کرتے ہیں اتنا نہیں سمجھتے کہ وہ بت بالکل پتھر ہیں ان کو کوئی پوجا کرے تو وہ کچھ نفع نہیں پہنچا سکتے اور نہ پوجا کرے تو ان پتھروں سے کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا یہ تو ان بت پرستوں کا دنیاوی مآل ہوا ‘ عقبیٰ میں ایسے لوگوں کا جو کچھ انجام ہوگا وہ سب کی آنکھوں کے سامنے آجائے گا ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی روایت کئی جگہ گزر چکی ‘ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان اور ایک فرشتہ رہتا ہے شیطان ہر وقت اس کو برے کاموں کی اور فرشتہ نیک کاموں کی رغبت دلاتا رہتا ہے یہ حدیث لبئس المولی ولبئس العشیر کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ان لوگوں کا دوست اور رفیق ان کے ساتھ رہنے والا شیطان ہے جو ان کو برے کاموں میں لگائے رکھتا ہے اور اگرچہ ان لوگوں کے حق میں وہ بہت برا دوست اور رفیق ہے جس کی برائیاں لوگوں کو مرنے کے بعد معلوم ہوگی لیکن دنیا میں ان کو اس کی برائی نظر نہیں آتی۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٠٩ ج ٤ و تفسیر الدر المنثور ص ٣٤٦ ج ٤ ) (٣ ؎ فتح الباری ٢٥٩ ج ٤ ) (٤ ؎ دیکھئے مشکوٰۃ ص ١٢ کتاب الایمان ) (٥ ؎ تفسیر کبیر ‘ تفسیر آیت ہذا۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:11) علی حرف۔ حرف بمعنی کنارہ۔ رخ، احرف حروف جمع۔ یعنی وہ دائرہ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کفرو اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے یعنی متذبذب حالت میں۔ خسر۔ اس نے گھاٹا پایا۔ وہ خسارہ میں رہا۔ خسر خسار و خسران مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 ۔ یعنی دین کے اندر نہیں آتا بلکہ کنارے یا بالفاظ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے۔ جیسے کوئی لشکر کے کنارے پر رہے۔ اگر فتح ہو تو ساتھ آملے اور شکست ہو تو بھاگ جائے۔ یہ اس کیفیت کا ذکر ہے جو تذبذب اور دلی بےاطمینانی سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ آیت ان اعزاب (بادیہ نشین) کے بارے میں نازل ہوئی جو صحرا سے ہجرت کرکے آتے پھر اگر جان و مال میں برکت ہوتی تو اسلام پر بڑے اطمینان کا اظہار کرتے اور اگر تکلیف اور دکھ میں مبتلا ہوجاتے تو مرتد ہو کر واپس بھاگ جاتے۔ بعض ” مئولفۃ القلوب “ کی بھی یہی کیفیت تھی۔ (کبیر) 10 ۔ یعنی مرتد ہوگیا اور پھر کفرو شرک کی طرف پلٹ گیا۔ 1 ۔ آخرت کا گھاٹا تو ظاہر ہے، رہا دنیا کا خسارہ تو یہ اس لئے کہ ایسے لوگ معاشرے میں بدنام ہوجاتے ہیں اور پھر نفاق اور بزدلی کی وجہ سے اپنے مقاصد میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتے۔ شاہ صاحب (رح) کہتے ہیں، دنیا کی نیکی پاوے تو بندگی اور تکلیف پائے چھوڑدے، ادھر دنیا گئی ادھر دین گیا۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٢) اسرارومعارف دین یا مذہب وہ راستہ اور طریقہ ہے جسے اختیار کرکے بندہ اپنے مالک کی رضا مندی اور خوشنودی حاصل کرتا ہے ، یہ اسلام ہے مگر کفر نے الگ سوچ دی ہے ہر کافرانہ رسم کے ساتھ کوئی دنیا کا فائدہ جوڑ دیا گیا ہے یا کسی دنیاوی نقصان سے بچنے کا تصور چناچہ کافر کا دین بھی دنیا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا تو فرمایا بعض لوگ اسلام بھی اسی انداز سے قبول کرتے ہیں اور عبادات اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں دنیا کے فوائد حاصل ہوں گے حالانکہ دنیا کا اپنا ایک نظام ہے جس میں روزی ، عمر ، صحت وبیماری ، عزت وذلت ، اپنے اپنے نصیب سے حالات پیش آتے رہتے ہیں ، فرق صرف یہ پڑتا ہے کہ مومن پر بظاہر مصبیت بھی آئے تو اس کا دل مطمئن ہوتا ہے کہ مصیبت بھی اسے مزید قربت الہی عطا کرتی ہے اور کافر پہ راحت بھی آئے تو اندر آگ بھڑکتی ہے کہ ظاہری راحت بھی اس کے لیے مزید ابتلا بن رہی ہوتی ہے تو جن لوگوں کا ایمان کمزور ہوتا ہے یا سوچ درست نہیں ہوتی وہ ایک کنارے پہ کھڑے اللہ جل جلالہ کی عبادت بھی کرتے ہیں پھر اتفاق ایسا ہو کہ انہیں دنیا کے مال وغیرہ میں فائدہ نظر آیا تو بڑے خوش کہ جناب ہماری عبادت رنگ لا رہی ہے یا ہماری ہی دعا سے سب کام چل رہے لیکن اگر کوئی مشکل آپڑی تو بھاگ گئے اور غیر اللہ کا سہارا تلاش کرنے لگ گئے نہ صرف یہ بلکہ عبادت سے شکوہ پیدا ہوگیا کہ جی کچھ حاصل نہیں ، ایسے لوگ دو عالم میں نقصان اٹھانے والے بن گئے کہ دنیا کی مصیبت میں تو پہلے مبتلا تھے آخرت کو بھی چھوڑ بیٹھے اور یہ بہت بڑا نقصان ہے ، اب لگے ہیں بتوں کو پکارنے یا اللہ کے علاوہ مخلوق کی پوجا میں لگ گئے حالانکہ ساری مخلوق نظام کائنات کا حصہ ہے کوئی بھی نہ سکی کا کچھ بگاڑ سکتا ہے اور نہ سنوار سکتا ہے کہ ہر کوئی ذاتی طور پر تقدیر الہی سے بندھا ہوا ہے اور نظام عالم میں پرویا ہوا ہے ، اگر گھڑی کی ایک سوئی دوسری سوئی سے مدد مانگے تو کیا حاصل کرے گی یہ تو بہت دور نکل گئے گمراہی میں ایسے وجودوں کو پکارتے ہیں ایسے لوگوں کی غلامی اللہ جل جلالہ کے مقابلے میں اختیار کی جن کا نقصان نفع کی امید سے پہلے ہے کہ نفع کا تو وہم ہے اور ان کی وجہ سے اللہ جل جلالہ کے غضب کا شکار ہوئے اتنا بڑا نقصان تو پہلے ہی اٹھا گئے کیا ہی برے دوست اور برے رفیق ہیں یہ ان کے مقابل جو لوگ اللہ پر ایمان لا کر ثابت قدم رہے اور اللہ کی اطاعت اختیار کی اللہ جل جلالہ انہیں آخرت کے باغات میں جگہ دے گا جو سدا ہرے بھرے اور شاداب رہتے ہیں اور ان میں نہریں جاری ہیں کہ اللہ جل جلالہ قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ جن کفار کو یہ خیال غالب ہے کہ اللہ جل جلالہ دین اسلام اور اس کے ماننے والوں کی یعنی اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دنیا وآخرت میں مدد نہ کرے گا اسے چاہیے کہ کوئی رسہ آسمان پر پھینکے اور اوپر پہنچ کر نظام عالم کا رشتہ کاٹ دے اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے تو کرلے یا بدل سکتا ہے تو آزمالے اور اگر کچھ بھی نہیں کرسکتا تو کیا اب اس کا غصہ کسی قدر کم ہوا یعنی کفار کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ جس طرح جہاں سورج چمکے گا وہاں روشنی ہوگی اسی طرح جہاں ایمان اور عمل صالح ہوگا وہاں اللہ جل جلالہ کی مدد پہنچے گی اور کامیابی ہوگی یہ نظام عالم کا طے شدہ اصول ہے ۔ (مومن اور اللہ کی مدد نظام عالم کا طے شدہ طریقہ ہے) اب اس نظام کا سکرٹریٹ یا صدر دفتر آسمانوں پر ہے تو کفار کمند ڈال کر اوپر چڑھ جائیں اور نظام عالم کو تباہ کردیں تاکہ مومن سے اللہ جل جلالہ کی مدد رک جائے اگر انہیں یقین آگیا ہے کہ ایسا ان کے بس میں نہیں تو غصۃ ٹھنڈا کرلیں وہ بھی ایمان لا کر اللہ جل جلالہ کی مدد حاصل کرنے کی سوچیں کہ روکنا انکے بس کی بات نہیں نہ وہ سلسلہ وحی کو روک سکتے ہیں جو ایسی کھلی اور زبردست دلیلیں لاتا ہے مگر اس کے باوجود جن کی بات اللہ ہی باوجود جن کی بات اللہ جل جلالہ ہی سے بگڑ گئی انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی ۔ اور یہ یقینی امر ہے کہ مومن وکافر اپنے اپنے انجام کو پہنچیں گے ، کافر خواہ یہودی ہوں یا صابی ، بت پرست نصاری ہوں یا آتش پرست یا دوسرے مشرکین ان تمام گروہوں کے درمیان اللہ جل جلالہ فیصلہ فرما دیں گے اور ہر ایک اپنے کردار کے مطابق نتیجہ حاصل کرلے گا مومن نجات اور انعامات اپنے احوال کے مطابق اور کافر عذاب اور ذلت اپنے اپنے عقیدے اور عمل کے مطابق اس لیے کہ اللہ جل جلالہ سب کے احوال سے واقف ہے ۔ اے مخاطب کہ تو نہیں دیکھتا کہ جو کچھ آسمانوں یا زمینوں میں ہے سورج ہو یا چاند ستارے ہوں یا پہاڑ درخت ہوں یا جانور ہر شے اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں سراطاعت جھکائے ہوئے ہے صرف تکوینی طور پر ہی نہیں اپنے ارادے اور اختیار سے بھی کہ یہ سمجھنا درست نہیں کہ صرف انسان ہی عاقل ہے اور باقی مخلوق شعور سے بالکل بیگانہ کہ تکوینی طور پر تو انسان بھی اللہ جل جلالہ کے حکم کے تابع ہے جہاں اسے اختیار ملتا ہے اور اپنے عقل و شعور سے فیصلہ کرنا ہوتا ہے نافرمانی وہاں کرتا ہے جبکہ ساری کائنات کی ہر شے میں عقل ہے یہ الگ بات کہ انسان کا شعور سب سے کامل ہے اور ذات وصفات باری اور جلال و جمال تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ایسے ہی دوسرے نمبر پر جنات دوسری مخلوق کا شعور کم ہے اور ان کی اپنی حیثیت کے مطابق ہے جیسے اس کے بعد حیوانات پھر نباتات اور ایسے ہی جمادات میں بھی کہ پہاڑوں ، درختوں ، پرندوں کا ذکر کرنا کتاب اللہ میں موجود ہے ، زمین آسمان کو دعوت کہ اطاعت اختیار کرنا تو ان کا جواب قالتا اتینا طائعین بتاتا ہے کہ ارض وسما نے اپنی حیثیت کے مطابق اطاعت ہی کو پسند کرکے اختیار کرلیا ، پتھروں اور درختوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کہنا حدیث میں وارد ہے پہاڑوں کی آپس میں گفتگو نقل فرمائی گئی ہے تو گویا ہر شے میں عقل و شعور تو ہے مگر اس کی اپنی حیثیت کے مطابق اور وہ سب کے سب اس کی بارگاہ عالیہ میں سرتسلیم خم ہیں اور بیشتر انسان بھی کہ شعور کامل ساری مخلوق میں انسان کو حاصل ہے تو وہ بھی ان سب اطاعت گذاروں کے ساتھ سرنیاز جھکائے ہوئے ہیں مگر ایسے بےنصیب بھی انسانوں میں ہیں کہ جن کی بات اللہ جل جلالہ سے بگڑ چکی ہے اور ان کے حق میں عذاب میں مقرر ہوچکا ان کے کرتوت اور نافرمانیوں کی وجہ سے تو انہیں اطاعت کی توفیق نہیں ، ظاہر ہے جسے اللہ جل جلالہ کی بارگاہ سے ذلیل کردیا جائے پھر اسے کہیں سے عزت نہیں مل سکتی اور اللہ جل جلالہ کو اختیار ہے وہ حکیم ودانا ہے وہ علیم وخبیر ہے لہذا جو چاہتا ہے کرسکتا ہے اور کرتا ہے ۔ (دو قومیں) یہ دو گروہ اور دو طبقے ہیں یعنی مومن وکافر دو قومیں ہیں جن کا آپس کا جھگڑا ذات وصفات باری میں ہے اور اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے کے ساتھ مومن ایمان و اطاعت کا رشتہ جوڑتا ہے جبکہ کافر انکار ونافرمانی کرتا ہے تو ان کا فیصلہ اور نتیجہ یہ ہوگا کہ کافر کا لباس بھی آگ ہی سے تیار ہوگا اور سارے بدن کو ڈھانپ لے گا جبکہ اس کے سر پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا ایسا گرم کہ نہ صرف کھال بلکہ پیٹ کے اندر تک کی انتڑیوں کو بھی جلاتا چلا جائے گا نیز اس پر لوہے کے بڑے بڑے ہتھوڑوں سے انہیں مارا جا رہا ہوگا اور وہاں موت بھی نہ ہوگی نہ اس حال سے نکل سکیں گے ، اگر گھبرا کر گرتے پڑتے نکلنے کی کوشش کریں گے بھی تو واپس پھینک دیے جائیں گے اور کہا جائے گا اب جلنے کا مزہ لو یہی راستہ تم نے منتخب کیا تھا ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 11 تا 16 : حرف (کنارہ) ‘ اصاب (پہنچ گیا) ‘ انقلب (پلٹ گیا) ‘ الضلال البعید (دور کی گمراہی۔ انتہا درجہ کی گمراہی) ‘ اقرب (زیادہ قریب) ‘ المولی (دوست) ‘ العشیر (ساتھی۔ رفیق) ‘ یظن (وہ گمان کرتا ہے) ‘ یمدد (وہ باندھتا ہے) ‘ یقطع (وہ کاٹتا ہے) ‘ کید (تدبیر) یغظ (غصہ دلاتا ہے) ‘ تشریح آیت نمبر 11 تا 16 : دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی ڈھنگ سے اچھی یا بری زندگی گذار ہی لیتا ہے۔ وہ زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے خوب محنت کرتا ہے۔ بھاگ دوڑ میں لگا رہتا ہے کوئی کامیاب ہوتا ہے اور کسی کو زندگی بھر حسرتوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس کے ہر عمل کے پیچھے اعتقاد اور یقین کتنا ہے ؟ اگر اس کا اعتقاد اور یقین مستحکم ‘ مضبوط اور پختہ ہے تو اس کے عمل کے انداز میں چستی اور پھرتی ہوگی۔ اگر اعتقاد ‘ نیت اور عمل درست نہیں ہے تو وہ ہر کام کو کرے گا مگر اس میں سستی اور کاہلی کا انداز نمایاں نظر آئے گا۔ چناچہ اگر دین کے معاملہ میں کسی کا اعتقاد اور یقین کامل ہے تو اس کی عبادات ‘ اخلاق و عادات اور معاملات زندگی میں ایک خاص شوق ‘ تڑپ ‘ لگن ‘ اخلاص جوش و جذبہ اور ولولہ ہوگا۔ وہ اللہ کی رضا کے لئے نہایت شوق سے اللہ کی عبادات کا حق ادا کرے گا۔ نماز کا وقت ہوگا۔ تو وہ نہایت ذوق و شوق سے دوڑ کر آئے گا ‘ خشوع و خضوع سے اول وقت نماز ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب اللہ کی طرف بلایا جائے گا تو وہ اپنے گھر کے راحت و آرام کو چھوڑ کر مسجد میں حاضر ہوجائے گا۔ جمعہ کا دن ہوگا۔ تو وہ عین اس وقت جب دوپہر کے وقت کاروبار میں زیادہ نفع کمانے کا وقت وہ تا ہے وہ اپنے نفع سے بےنیاز ہو کر جمع کی نماز کی طرف لپکتا اور دوڑتاآئے گا۔ کسی کی مدد کرے گا تو اس میں دنیا کے دکھانے کے بجائے محض اللہ کی رضا و خوشنودی کو پیش نظر رکھے گا۔ صدقہ داہنے ہاتھ سے دے گا تو بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوگی ‘ حج کو ایک فریضہ زندگی سمجھ کر اداکرے گا محض خانہ پری یا سیرو تفریح کے لئے نہیں۔ غرضیکہ اس کی زندگی کا ہر کام سچے اعتقاد ‘ یقین محکم اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہوگا۔ نفع اور نقصان کے وقت ہر حال میں اللہ ہی کو اپنا سب کچھ سمجھے گا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جن کو ایمان و یقین میں استحکام اور مضبوطی حاصل نہیں ہوتی وہ ایسے مفاد پرست ‘ لالچی اور خود غرض ہوتے ہیں جو دین اسلام کے ایک مکمل ضابطہ حیات کو ماننے کے بجائے محض نفع نقصان کی ترازو سے تولتے رہتے ہیں۔ اگر دین اسلام کو اپنانے ‘ نیکی اور پرہیزگاری اور بھلائی کے کاموں میں نفع اور فائد نظر آتا ہے تو ان کے نزدیک اس سے اچھا دین اور مذہب کوئی اور نہیں ہوتا لیکن اگر ان کے معاملات زندگی میں ذرا اونچ نیچ ہوجائے انہیں کسی طرح کا نقصان پہنچ جائے تو وہ کہتے ہیں کہ جب سے ہم نے دین داری اور نیکیوں کی زندگی کو اختیار کیا ہے ہمیں سوائے نقصان کے اور کیا حاصل ہوا ہے۔ بعض لوگ نمازیں اور وظیفے پڑھتے ہیں جس کا مقصد دنیا کے بعض فائدے حاصل کرنا ہوتے ہیں جب وہ حاصل نہیں ہوتے تو کہتے ہیں کہ اتنے دن ہوگئے ہو طرح کے وظیفے پڑھے نمازیں پڑھیں ‘ حج کئے ‘ صدقات دیئے مگر ہماری ایک تمنا بھی پوری نہیں ہوئی بلکہ نقصان ہی نقصان ہوا ہے اب تو ہمارا ایمان ہی ہٹتا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا ایسے لوگوں کے نزدیک عبادات اور نیکیوں کا مفہوم اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ان کو دنیا کے کچھ مفادات حاصل ہو اجائیں۔ حاصل ہوگئے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر حاصل نہ ہوئے تو ان کے ایمان ہل جاتے ہیں اور وہ اسی دین کو برا کہنے لگتے ہیں۔ حالانکہ ایک مومن کا ایمان تو اس پر ہونا چاہیے کہ اللہ اس سے راضی ہوجائے اور وہ جو کچھ نیکیاں کررہا ہے اس سے اس کی آخرت درست ہوجائے اور وہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ دنیا میں اگر فائدہ ملتا ہے تو ٹھیک ہے اور اگر اس کو اس دنیا میں نہ ملے تو یقیناً آخرت میں اس کو اجر وثواب ضرور ملے گا۔ اسی بات کو ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ بعض لوگ کنارے پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں ان کو نفع مل جائے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی نقصان پہنچ جائے تو ان کے چہرے بگڑ جاتے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اس زمانہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو دیہاتوں اور صحراؤں سے آکر مدینہ میں اسلام قبول کرلیتے۔ اگر ان کی صحت اچھی ہوتی ‘ اولاد نرینہ پیدا ہوتی اور انکی گھوڑیوں کے ہاں نر پیدا ہوتے اور اولاد خوش ال ہوتی تو کہتے تھے کہ اس سے اچھا دین و مذہب کوئی نہیں ہے لیکن اس کے برخلاف اگر کسی کے مال واولاد اور صحت و تندرستی کا نقصان ہوجاتا تو وہ اس دین کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی مسلمان ہوگیا۔ اسلام لانے کے بعد اس کی آنکھیں جاتی رہیں۔ اس کا بچہ مر گیا۔ اس کے جان و مال کا بھی نقصان ہوگیا۔ اس نے بےوقوفی سے یہ سمجھا کہ یہ سب کچھ اسلام لانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ مجھے میری بیعت واپس کر دو ( یعنی میں اسلام کا راستہ چھوڑنا چاہتا ہوں) کہنے لگا کہ میں نے تو اس مذہب میں کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔ میری نظر جاتی رہی ‘ میرا بچہ مر گیا اور میرے مال کا بھی کافی نقصان ہوگیا ہے (ابن ابی حاتم ‘ بغوی) ان ہی باتوں کو اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ارشاد فرمایا ہے : بعض لوگ وہ ہیں جو کنارے پر رہ کر عبادت و بندگی کرتے ہیں۔ اگر ان کو کوئی فائدہ پہنچ گیا تو وہ عبادت پر قائم رہتے ہیں لیکن اگر کوئی ازمائش سامنے آگئی تو وہ الٹے پاؤں پھرجاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں ہی کو اپنے ہاتھوں برباد کرلیا۔ وہ ایک اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کو پکارتے ہیں جو نہ تو ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں او نہ ہی نفع پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ ان کی انتہا درجہ کی گمراہی ہے۔ وہ ایسی چیز کو پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے قریب ترین ہے۔ انہوں نے کیسے برے دوست اور بدترین ساتھی بنا رکھے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح اختیار کئے انکو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی (ہر طرح کی راحتیں حاصل ہوں گی) اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ جس کام کو کرنا چاہتا ہے کرتا ہے۔ فرمایا کہ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں وحی کے ذریعہ اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ وہ ایک رسی کو آسمان تک تان لے پھر اس کے ذریعہ سے آسمان پر پہنچ کر (اگر ہو سکے تو) اس وحی کے سلسلے کو کاٹ ڈالے (جو ناممکن ہے) پھر دیکھے کہ اس کی یہ تدبیر اور کوشش اسے کے غصے کو دور کرسکتی ہے یا نہیں ؟ فرمایا کہ ہم نے قرآن کریم کو کھلی اور واضح دلیلوں کے ساتھ نازل کیا ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے (لیکن جو ہدایت حاصل نہیں کرنا چاہتا وہ زندگی بھر بدنصیبی کا شکاررہتا ہے) ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کا انکار کرنے والا نیکی کرنے کے معاملہ میں مخلص اور مستقل مزاج نہیں ہوتا۔ انسان اخلاص کے ساتھ نیکی کرے گا تو اسے قیامت کے دن اپنے سامنے پائے گا اگر نمودونمائش کے لیے کرے گا تو دنیا وآخرت میں نقصان پائے گا۔ مشرک، منافق اور قیامت پر یقین نہ رکھنے والے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس وقت تک کرتا ہے جب تک اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر اسے فائدہ حاصل ہو تو اللہ کی عبادت میں لگا رہتا ہے۔ اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو وہ الٹے پاؤں پھرجاتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ یہ ایسا کھلا اور بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ پہلے پارے میں دین کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی بارش کے ساتھ دی ہے۔ جس میں اندھیرے، بجلی اور کڑک ہوتی ہے۔ گویا کہ بارش میں فائدے بھی ہیں اور نقصان بھی۔ منافق کو فائدہ پہنچتا ہے تو دینی کام کرتا ہے، نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (البقرۃ : ١٩۔ ١٠) یہی حال مشرک اور قیامت کے منکر کا ہوتا ہے وہ اس وقت تک ہی خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے جب تک اس کی مشکل رفع نہیں ہوتی مشکل رفع ہوجائے تو دین اور اللہ تعالیٰ پر مطمئن رہتا ہے۔ مشکل حل ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شامل کرلیتا ہے یا پھر مزارات اور غیروں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ اور کردار ہے کہ جس کا دنیا میں بھی نقصان ہوگا اور آخرت میں ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ عربی میں ” حَرَفٌ“ کا معنی کنارہ ہے اور یہ محاورہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح ہماری زبان میں کسی شخص کی عجلت پسندی اور غیر مستقل مزاجی کو بیان کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو چھوڑیے وہ تو بس کنارے پر بیٹھا ہوا ہے۔ یعنی اس کا کوئی اعتبار نہیں کہ وہ اس کام کو کب چھوڑ دے۔ نفع و نقصان کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عقیدہ اور فرمان : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّيْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلآی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں سواری پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا : بچے ! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، اللہ کو یاد رکھے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرنا۔ یقین رکھ کہ اگر تمام لوگ تجھے کوئی فائدہ دینے کے لیے جمع ہوجائیں۔ وہ اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتے ہیں جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان دینے پہ تل جائیں۔ تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔ “ مسائل ١۔ مشرک، منافق اور قیامت کے منکر صرف مفاد کی بنیاد پر دین اور اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہیں۔ ٢۔ ابن الوقت کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں فائدہ پہنچے تو مطمئن ہوتا ہے۔ ورنہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ ٣۔ مشرک اور منافق کو آخرت میں ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : ١۔ اپنے مالوں اور اولادوں کے بارے میں سستی کرنے والے دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ ( المنافقون : ٩) ٢۔ جو لوگ مساجد کو برباد کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں ذلّت اٹھائیں گے۔ ( البقرۃ : ١١٤) ٣۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔ ( ہود : ٢١) ٤۔ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پائیں گے۔ ( النحل : ١٠٩) ٥۔ منافق دنیا وآخرت میں خسارہ پائے گا۔ (الحج : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ومن الناس ………العشیر (١٣) عقیدہ اور نظریہ ایک مومن کی زندگی کا سرمایہ ہوتا ہے اور اسی پر مومن کی زندگی قائم ہوتی ہے۔ ایک مومن کے ماحول میں زندگی کے سمندر میں اضطرابات اور تلاطم آتے اور جاتے رہتے ہیں اور تیز طوفانی ہوائیں چلتی رہتی ہیں لیکن مومن ہے کہ وہ سمندر کے بیچ میں ایک چٹان کو مضبوطی سے پکڑ کر جم جاتا ہے۔ اس کے ماحول کے اردگرد سے ایک ایک سہارا گرتا جاتا ہے لیکن وہ ہے کہ اس نے ایک مضبوط سہارا پکڑ رکھا ہوتا ہے اور اس کے پائوں کو کوئی تزلزل نہیں ہوتا۔ ایک سچے مومن کی زندگی میں نظریہ کی یہ قدر و قیمت ہوتی ہے لہٰذا اسے اس پر جم جانا چاہئے۔ ضروری ہے کہ وہ اسے مضبوطی سے پکڑ لے۔ اسے اس پر یقین ہونا چاہئے کہ یہ عقیدہ سچا عقیدہ ہے۔ اس کے بارے میں اس کے اندر کوئی تذبذب نہ ہو ، اور اس پر وہ کسی عطا اور جزاء کا طلبگار بھی نہ ہو ، کیونکہ مومن کے لئے اس کا نظریہ اس کا حاصل ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ اور نظریہ ہی اس کی پناہ گاہ ہوتا ہے ، یہی اس کا سہارا ہوتا ہے۔ یہ اس کا صلہ ہوتا ہے اس لئے کہ اس کی وجہ سے اس کے دل کو نور ملا ہے اور وہ راہ ہدایت پر آگیا ہے اور یہ اس پر مطمئن ہوگیا ہے۔ ایک مومن جب اسلامی نظریہ حیات کی پناہ گاہ میں ہوتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس کے اردگرد اس کے ماحول میں لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں ، درخت کے گرے ہوئے پتوں کی طرح باد خزاں کبھی انہیں ادھر لے جاتی ہے اور کبھی ادھر۔ طوفانی ہوائوں کے بگولے انہیں اڑاتے پھرتے ہیں اور وہ سخت قلق اور بےچینی کا شکار ہیں جبکہ یہ اپنے نظریہ پر قائم و دائم اور مطمئن ہیں۔ وہ ثابت قدم ہیں ، ان کی حرکات میں سکون اور ٹھہرائو ہے اور وہ رضائے الٰہی کے لئے رات اور دن کام کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے بارے میں یہاں بات ہو رہی ہے ، وہ ایسے لوگ ہیں جو نظریات کی تجارت کرتے ہیں ، ایمان و ضمیر کو لے کر بازار میں پھرتے ہیں۔ فان اصابہ خیر اطمان بہ (٢٢ : ١١) ” اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوگیا۔ “ اور یہ کہا کہ بس ایمان میں تو خیر ہی خیر ہے۔ اب یہ شخص اس نظریہ سے منافع کماتا ہے۔ تھنوں سے دودھ نکالتا ہے۔ فصل بوتا ہے اور کاٹتا ہے اور اس کی تجارت بازار میں ہوتی ہے اور وہ اس کو جاری رکھتا ہے۔ وان اصابتہ فتنۃ انقلب علی وجھہ خسر الدنیا و الاخرۃ (٢٢ : ١١) ” اور اگر کوئی مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیا۔ اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ “ دنیا تو اس طرح گئی کہ اس پر معمولی مصیبت آئی اور وہ اسے انگیز نہ کرسکا۔ اپنے مقام پر ثابت قدم نہ رہ سکا۔ اس نے برے حالات میں اللہ کی طرف رجوع نہ کیا اور آخرت یوں گئی کہ اس نے پہلے ایمان اور نظریہ کو چھوڑ دیا اور راہ ہدایت کے بجائے راہ ضلالت کو اختیار کرلیا۔ یہاں قرآن مجید ایسے لوگوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی بندگی ایک طرف ہو کر کرتے ہیں۔ یہ اسلامی نظریہ حیات کو مضبوطی سے نہیں پکڑتے ، دعوت کے کاموں میں ثابت قدم نہیں ہوتے ، ان کی پوزیشن کو اس طرح بتایا جاتا ہے کہ وہ نظریاتی موقف میں ایسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک معمولی سے جھٹکے سے گر جائیں۔ بس ذرا سی مشکلات آئیں اور یہ بھاگ نکلے۔ ان کا کنارہ پر کھڑا ہونا ہی اس مقصد کے لئے تھا کہ بھاگنا آسان ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ نفع و نقصان سے چیزوں کا ناپنا تجارتی کاروبار میں ہوا کرتا ہے۔ نظریات میں دنیوی سود و زیاں کا معیار نہیں چلتا۔ نظریات میں تو یہ دیکھنا چاہئے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ حق کا ساتھ دینا چاہئے کہ نظریات میں حق وہ ہے جس پر ایک کارکن اپنی تحریک بصیرت سے مطمئن ہو۔ اس کا نفع یہی ہوتا ہے کہ انسان کو حق مل جائے۔ انسان دل سے اس پر مطمئن ہو اور اس میں اسے قلبی سکون اور راحت مل جائے۔ پس یہی منزل مقصود ہوتی ہے ایک مومن کی۔ اس پر ایک سچا مومن کوئی خارجی جزاء نہیں چاہتا۔ سچا مومن اپنے رب کی عبادت اس لئے کرتا ہے کہ اس نے اسے ہدایت بخشی ہے۔ اس لئے کرتا ہے کہ اس کے لئے ایمان محبوب بنا دیا گیا ہے اور وہ ایمان اور نظریہ کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اگر اس پر کوئی دنیاوی فائدہ بھی مل جائے تو یہ جزاء خیر ہے۔ یہ مومن کے لئے بندگی اور ایمان پر صلہ ہوگا۔ ایک سچا مومن اپنے خدا کو سود و زیاں کے زاویہ سے نہیں آزماتا۔ وہ تو جب اسلام کو قبول کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی ہر آزمائش کو بھی قبول کرتا ہے۔ وہ راضی ہوتا ہے کہ رب اسے جس طرح چاہے آزمائے وہ تیار ہے۔ خواہ اس پر خوشحالی ہو اور رب اسے آزمائے ، چاہے اس پر بدحالی ہو ار رب اسے اس میں آزمائے ، وہ ہر حال میں راضی ہو۔ یہ سودا بازار کے بائع اور مشتری کا سودا نہیں ہوتا کہ اس میں ہر وقت وہ سود زیاں کا حساب کرتا رہے ، بلکہ یہاں تو خالق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ اللہ کا اختیار ہے کہ جو چاہے کرے ، کیونکہ اللہ ہی ہے جس نے مومن کو بنایا ہے۔ جو شخص اپنے ایمان اور نظریہ سے دست بردار ہو کر الٹا چلا جاتا ہے وہ ایسے خسارے میں پڑجاتا ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ذلک ھو الخسران المبین (٢٢ : ١١) ” اور یہ صریح خسارہ ہے۔ “ اس کی زندگی کا اطمینان جاتا رہا ، اعتماد جاتا رہا ، سکون جاتا رہا اور رضائے الٰہی سے بھی محروم ہوگیا۔ صحت ، مال اور اولاد کے خسارے کے ساتھ ساتھ آخرت کا خسارہ تو بہت بڑا خسارہ ہے۔ دنیا کے اس خسارے کے ساتھ ساتھ اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ ان کے اعتماد ، ان کے بھروسے سے ، ان کے صبر ، ان کے اخلاص ، اور ان کے اس حوصلے کو آزماتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی تقدیر کے فیصلے ماننے کے لئے تیار ہیں یا نہیں اور آخرت کا خسارہ تو بہت بڑا خسارہ ہے کہ وہ آخرت کی دائمی نعمتوں سے محروم ہوگیا۔ اللہ کی رضا مندی اور اللہ کے قرب سے محروم ہوگیا ہے۔ یہ ہے خسران مبین لیکن یہ شخص جو اللہ کو ایک طرف ہو کر پوجتا ہے ، یہ جائے گا کہاں ؟ اللہ سے دور ہو کر یہ کہاں جائے گا ؟ یدعوا من دون اللہ مالا یضرہ ومالا ینفعہ (٢٢ : ١٢) ” پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارتا ہے جو اس کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ۔ “ یہ بتوں کی پرستش کرے گا ، یا کسی شخصیت کی پرستش کرے گا جیسا کہ جاہلیت اولیٰ میں رواج تھا۔ دور جدید میں یہ کسی پارٹی ایک سی ڈکٹیٹر یا کسی مفاد کے پیچھے دوڑے گا جس طرح جدید جاہلیت کی صورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی لوگوں نے اللہ وحدہ کو پکارنا ترک کیا اور اللہ کی رضا اور اس کے نظام جاہلیت کی صورت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی لوگوں نے اللہ وحدہ کو پکارنا ترک کیا اور اللہ کی رضا اور اس کے نظام زندگی پر چلنا ترک کیا۔ تو ان کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ ایسے لوگ یکسوئی اور یک جہتی سے محروم ہو کر منتشر ہوجاتے ہیں۔ ذلک ھو الضلل البعید (٢٢ : ١٣) ” وہ ان کو پکارتا ہے جن کا نقصان ان کے نفع سے قریب تر ہے۔ “ یعنی بت یا شیطان ، یا آستانے۔ ان سب چیزوں کی مضرت زیادہ قریب ہے اور نفع بعید ہے۔ مضرت تو یہ ہے کہ انسانی دل و دماغ میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ وہم ذلت اور پسماندگی اس کے نصیب میں آتی ہے اور آخرت کا نقصان تو بہت ہی عظیم ہے۔ لئس المولی (٢٢ : ١٣) ” ایسا آقا بہت ہی برا ہوتا ہے۔ “ یعنی ایسا جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ ولبئس العشیر (٢٢ : ١٣) ” بدترین ہے اس کا رفیق۔ “ یعنی یہ ساتھی جس سے یہ نقصان اٹھایا جا رہا ہے اس میں بت بھی شال ہیں اور انسان بھی شامل ہیں۔ کیونکہ بعض لوگ انسانوں کو بھی الہ یا شبہ الہ بناتے رہتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے انسان الہ ہوا کرتے ہیں اور مومنین کے لئے جو انعامات ہیں وہ بہت ہی عظیم ہیں ، قیمتی ہیں۔ اگر دنیا میں کوئی مسلمان سب کچھ دائو پر لگا دے تو بھی ان کے لئے جو اجر رکھا گیا ہے وہ پھر بھی زیادہ عظیم اور قیمتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

طلب دنیا کے لیے اسلام قبول کرنے والوں کی تباہی صحیح بخاری ج ٢ ؍ ص ٦٤٩ میں حضرت ابن عباس (رض) کا بیان نقل کیا ہے کہ بعض مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص مدینہ منورہ آیا اس کی بیوی کو حمل تھا اس کے ہاں لڑکا پیدا ہوگیا اور اس کے گھوڑوں کے بھی بچے پیدا ہوگئے تو اس پر وہ کہتا تھا کہ واقعی یہ دین (یعنی اسلام) اچھا دین ہے اور اگر بیوی کے ہاں لڑکا پیدا نہ ہوا اور گھوڑی نے بچے نہ دیئے تو کہتا تھا کہ یہ اچھا دین نہیں ہے اس قسم کے لوگوں کے بارے میں آیت بالا نازل ہوئی۔ صاحب روح المعانی نے بحوالہ تفسیر ابن مردویہ حضرت ابو سعید (رض) سے نقل کیا ہے کہ ایک یہودی نے اسلام قبول کرلیا اس کے بعد اس کی بینائی جاتی رہی اور مال بھی چلا گیا۔ نیز اولاد بھی ختم ہوگئی۔ اس نے اسے اسلام کی نحوست سمجھا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میری بیعت توڑ دیجیے آپ نے فرمایا بیعت اسلام نہیں توڑی جاتی وہ کہنے لگا کہ اس دین میں مجھے خیر نہیں ملی میں اندھا ہوگیا میرا مال چلا گیا اور اولاد بھی مرگئی آپ نے فرمایا کہ اے یہودی ! لوگوں کو اسلام (بطور امتحان) پگھلا دیتا ہے جیسا کہ لوہے اور سونے اور چاندی کو آگ پگھلا کر کھوٹ اور میل دور کردیتی ہے اس پر آیت بالا نازل ہوئی اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ منافقین کے بارے میں آیت کریمہ کا نزول ہوا سبب نزول جو بھی کچھ ہو آیت کا مضمون عام ہے جو لوگ اسلام کو ظاہری طور پر دنیا کے منافع کے لیے قبول کرلیتے ہیں اور جن منافع کی امید تھی وہ منافع حاصل نہیں ہوتے تو اسلام سے پھرجاتے ہیں، حقیقت میں یہ لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور حق کے طالب بھی نہیں ہوتے، آخرت کی نجات کے لیے اسلام قبول نہیں کرتے، دنیاوی منافع کے لیے ظاہری طور پر کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا، ایسے لوگوں کی دنیا بھی تباہ ہوتی ہے اور آخرت بھی اور یہ کھلی ہوئی تباہی ہے جسے (الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ) سے تعبیر فرمایا ہے۔ جو لوگ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور مصیبتوں کے لیے غیر اللہ کو پکارتے ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسلام کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پرستش کرنے لگتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو پہلے ہی سے مشرک ہیں ان لوگوں کو تنبیہ فرمائی کہ ان کا غیر اللہ کی عبادت کرنا اور مدد کے لیے پکارنا ان کے حق میں مفید نہیں ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کو پکارتے ہیں جسے ضرر یا نفع پہنچانے کی ذرا بھی قدرت نہیں اور اسے اس بارے میں ذرا سا بھی اختیار نہیں (ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلَالُ الْبَعِیْدُ ) (یہ طریقہ دور کی گمراہی ہے) (یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ ) (یہ مشرک ان کو پکارتا ہے جن کا ضرر نفع کی بنسبت زیادہ قریب ہے) کیونکہ یہ باطل معبود دنیا اور آخرت میں مدد تو کچھ کر ہی نہیں سکتے البتہ ان کی عبادت کا ضرر انہیں ضرور پہنچے گا دنیا میں گمراہ رہیں گے اور آخرت میں عذاب دوزخ میں داخل ہوں گے، ان کی عبادت کا یہ پھل ملے گا کہ جلنے کے عذاب میں ہمیشہ پڑے رہیں گے (لَبِءْسَ الْمَوْلٰی وَ لَبِءْسَ الْعَشِیْرُ ) یعنی یہ معبودان باطل برے دوست ہیں اور برے رفیق ہیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جب قیامت کے دن کافر دیکھیں گے کہ کسی بھی معبود باطل سے نفع نہ پہنچا اور اس کی عبادت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہونا پڑا تو بلند آواز سے پکار کر کہیں گے کہ اللہ کو چھوڑ کر ہم نے جس کی عبادت کی وہ تو برا دوست اور برا رفیق نکلا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰهَ الخ “ یہ زجر ثانی ہے اس میں مذبذب لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے جو اللہ پر پورا پورا ایمان ویقین نہیں تکھے۔ ” علی حرف “ ای طرف من الدین۔ یعنی وہ دین اسلام کے کنارے پر کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر انہیں کوئی دنیوی فائدہ حاصل ہوجائے یا مالی وسعت یا بدنی راحت مل جائے تو ظاہری طور پر مطمئن ہوجاتے ہیں اور اسی حال میں رہتے ہیں لیکن اگر کوئی نقصان ہوگیا کوئی تکلیف پہنچ گئی مال یا جان پر کوئی آفت آگئی تو فوراً دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجاتے ہیں اور اللہ کی خالص عبادت ترک کر کے جس میں دون اللہ کی طرف کسی نے بلایا اسی کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ 20:۔ ” خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة الخ “ ایسے لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اور خسارہ اٹھاتے ہیں۔ مالی اور جانی نقصان اٹھا کر دنیوی خسارہ میں رہے اور پھر اللہ کی توحید چھوڑ کر اپنی آخرت بھی خراب کرلی۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں یہاں فی مقدر کرنے کی ضرورت نہیں اور مطلب یہ ہے کہ اس نے دنیا بھی گنوائی اور آخرت بھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) اور لوگوں میں سے کوئی شخص ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اسی طرح کرتا ہے جیسے کوئی کسی چیز کے کنارے پر کھڑا ہوا ہو پھر اس کو دنیوی نفع پہنچ گیا تو اس نفع کی وجہ سے ظاہری طور پر ٹھہرا رہا اور دین پر قائم رہا اور اگر اس پر کوئی امتحان و آزمائش آگئی تو اپنے منہ کے بل الٹا پھر گیا۔ ایسے شخص کی حالت یہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کھو بیٹھا۔ یہ دونوں جہان کا نقصان یہی تو کھلا ہوا خسارہ اور گھاٹا ہے۔ اس آیت میں منافقوں اور اصحاب اغراض کی حالت بیان فرمائی۔ جیسا کہ بعض دیہاتی لوگ آکر ایمان لاتے تھے اگر ایمان کے بعد اولاد اور مال میں کچھ ترقی ہوجاتی تو دین پر ظاہری طور سے قائم رہتے اور اگر کچھ نقصان پہنچ جاتا۔ بیمار ہوجاتے یا مال میں کچھ گھاٹا ہوجاتا تو پھر کفر پر لوٹ جاتے۔ حضرت حق تعالیٰ نے استعارہ تمثیلیہ کے طور پر ان کی حالت بتائی۔ عرب میں قاعدہ تھا کہ بزدل لوگ فوج کے کنارے پر رہتے تھے اگر فتح کی توقع ہوئی تو آگے بڑھ گئے اور شکست کے آثار نظر آئے تو بھاگ گئے، یہی حالت ان کی فرمائی دنیوی منفعت کی امیدلے کر مسلمان ہوئے کچھ منفعت ہوگئی۔ فارغ البالی حاصل ہوئی مویشی اور اولاد میں کثرت دیکھی تو ظاہری طور پر دین کا نام لیتے رہے۔ اطمان بہ کا یہ مطلب نہیں کہ جس طرح ایک مخلص مسلمان کو اطمینان اور قرار ہوتا ہے وہ حاصل ہوگیا اسی لئے ہم نے ظاہری طور پر دین کا نام لینا اور قائم رہنا اور قرار پکڑنا کہا اور اگر کوئی آزمائش پیش آگئی جس طرح اہل ایمان کو پیش آتی رہتی ہے تو آزمائش کو دیکھتے ہی کفر میں لوٹ گیا۔ ظاہ رہے کہ ان لوگوں کا نہ تو وہ اسلام معتبر ہے جو دنیوی اغراض اور حصول منافع کی غرض سے قبول کیا تھا اور آزمائش میں لوٹ جائے تو نہ دین رہا اور نہ دنیا۔ دین و دنیا کے گھاٹے سے بڑھ کر اور کون سا گھاٹا ہوسکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دنیا کی نیکی پاوے تو دین پر قائم رہے اور تکلیف پاوے تو چھوڑ دے ادھر دنیا گئی ادھر دین گیا۔ کنارے پر کھڑا ہے یعنی دل ابھی نہ اس طرف ہے نہ اس طرف ہے جیسا کوئی مکان کے کنارے پر کھڑا ہے جب چاہے نکل جائے۔ 12