Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 13

سورة الحج

یَدۡعُوۡا لَمَنۡ ضَرُّہٗۤ اَقۡرَبُ مِنۡ نَّفۡعِہٖ ؕ لَبِئۡسَ الۡمَوۡلٰی وَ لَبِئۡسَ الۡعَشِیۡرُ ﴿۱۳﴾

He invokes one whose harm is closer than his benefit - how wretched the protector and how wretched the associate.

اسے پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے ، یقیناً برے والی ہیں اور برے ساتھی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَدْعُو لَمَن ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِن نَّفْعِهِ ... He calls unto him whose harm is nearer than his profit; means, he is more likely to harm him than benefit him in this world, and in the Hereafter he will most certainly cause him harm. ... لَبِيْسَ الْمَوْلَى وَلَبِيْسَ الْعَشِيرُ certainly an evil Mawla and certainly an evil `Ashir! Mujahid said, "This means the idols." The meaning is: "How evil a friend is this one upon whom he calls instead of Allah as a helper and supporter." ... وَلَبِيْسَ الْعَشِيرُ and certainly an evil `Ashir! means the one with whom one mixes and spends one's time.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 بعض مفسرین کے نزدیک غیر اللہ کا پجاری قیامت والے دن کہے گا کہ جس کا نقصان، اس کے نفع کے قریب تر ہے، وہ والی اور ساتھی یقینا برا ہے۔ یعنی اپنے معبودوں کے بارے یہ کہے گا کہ وہاں اس کے امیدوں کے محل ڈھے جائیں گے اور یہ معبود، جن کی بات اس کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے عذاب سے اس بچائیں گے، اس کی شفاعت کریں گے، وہاں خود وہ معبود بھی، اس کے ساتھ ہی جہنم کا ایندھن بنے ہونگے مطلب یہ کہ غیر اللہ کو پکارنے سے فوری نقصان تو اس کا ہوا کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ قریب نقصان ہے۔ اور آخرت میں تو اس کا نقصان تحقیق شدہ ہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] یعنی اس قسم کے منافقین کو جب اسلام میں داخل ہونے میں کوئی مشکل یا مصیبت نظر آتی ہے، کافروں اور مشرکوں کی طرف سے جانے میں کوئی مادی فائدہ نظر آتا ہے تو فوراً اس کنارے سے اتر کر مشرکوں کی صف میں جا شامل ہوتے ہیں اور ایسے۔۔ یا آستانوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جن کے اختیار میں دوسروں کا نفع و نقصان تو کیا ہوگا وہ اپنی بھی مدافعت نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگوں کا نقصان تو یقینی ہے کہ انہوں نے دنیوی مفاد کی خاطر اپنا ایمان ضائع کردیا اور جس دنیوی فائدہ کی خاطر انہوں نے یہ گمراہی کی راہ اختیار کی۔ وہ فائدہ غیر یقینی ہے کبھی وہ توقع پوری ہو بھی جاتی ہے اگر اللہ کو منظور ہو تو بسا اوقات جس فائدہ کی خاطر اپنا ایمان بھی بھینٹ چڑھایا تھا وہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ [١٢] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ جس نے بھی اسے راستے پر ڈالا خواہ وہ کوئی انسان تھا یا شیطان وہ اس کا بدترین کارساز اور برا ساتھی ثابت ہوا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے ان مشرک اور بت پرست اپنے معبودوں کو بھی جہنم میں پڑے دیکھ کر یہ جملہ کہیں گے کہ جن سے ہم نے کئی قسم کی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں یہ تو بہت برے کارساز اور برے ساتھی ثابت ہوئے جو جہنم کا ایندھن بن کر ہماری تکلیف میں مزید اضافہ کا باعث بن گئے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّهٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ ۔۔ : یعنی نفع تو درکنار ان کے پکارنے میں الٹا نقصان ہے، کیونکہ جو شخص انھیں پکارتا ہے وہ ایمان سے تو یقیناً اور فوراً ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، اب رہا ظاہری فائدہ، تو وہ محض ایک خیالی امید ہے جو اس نے اپنے دماغ میں پال رکھی ہے۔ حاصل ہو تو ہو، نہ ہو تو نہ ہو۔ ہو بھی تو ان معبودوں کی طرف سے نہیں ہوگی، انھیں پکارنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ۝ ٠ۭ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُ۝ ١٣ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے عَشِيرَةُ : أهل الرجل الذین يتكثّر بهم . أي : يصيرون له بمنزلة العدد الکامل، وذلک أنّ العَشَرَةَ هو العدد الکامل . قال تعالی: وَأَزْواجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ [ التوبة/ 24] ، فصار العَشِيرَةُ اسما لكلّ جماعة من أقارب الرجل الذین يتكثّر بهم . وَعاشَرْتُهُ : صرت له كَعَشَرَةٍ في المصاهرة، وَعاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 19] . والعَشِيرُ : المُعَاشِرُ قریبا کان أو معارف . العشیرۃ انسان کے باپ کی طرف سی قریبی رشتہ دار پر مشتمل جماعت کیونکہ ان سے انسان کژرت عدد حاصل کرتا ہے گویا وہ اس کے لئے بمنزلہ عدد کامل کے ہیں کیونکہ عشرۃ کا عدد ہی کامل ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَزْواجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ [ التوبة/ 24] اور عورتیں اور خاندان کے آدمی ۔ لہذا عشیرۃ انسان کے رشتہ دروں کی اس جماعت کا نام ہے جن سے انسنا کثرت ( قوت ) حاصل کرتا ہے عاشرتہ کے معنی ہیں کہ میں رشتہ داماد ی میں اس کے لئے بمنزلہ عشرۃ کے ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَعاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 19] اور ان کے ساتھ اچھی طرح سے رہو سہو ۔ العشر مل جل کر رہنے والا خواہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣) اور یہ بنو حلاف ایسی چیزوں کی عبادت کر رہے ہیں کہ ان کا نقصان بہ نسبت اس کے نفع کے بہت جلد واقع ہونے والا ہے ایسا کارساز بھی بہت برا ہے اور ایسا رفیق بھی برا یعنی جس معبود کی عبادت اس کے پرستش کرنے والے کے لیے نقصان و عذاب کا باعث ہو تو ایسا معبود بہت برا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ (یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ ط) ” اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کو معبود کا درجہ دے کر پکارے گا تو اس سے اس کو کچھ نفع تو ملنے والا نہیں ہے ‘ البتہ اس سے نقصان اسے بہر حال مل کر رہے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18. (Verses 12-13 )clarify two things about the deities whom the mushriks invoke. Firstly, they can do a person neither any good nor any harm. Nay, it is more probable that they do harm rather than good. For when the mushrik invokes other deities than Allah, he loses his faith forthwith. Secondly, the mushrik himself knows that there is no guarantee or probability of any good from his god who is utterly helpless and powerless. As regards to the occasional grant of his request through his god, this is done by Allah merely to test his faith. 19. That is, the one, who leads a person to the way of shirk is the worst guardian and the worst comrade, whether he be a human being or a satan.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :18 پہلی آیت میں معبود ان غیر اللہ کے نافع و ضار ہونے کی قطعی نفی کی گئی ہے ، کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کسی نفع و ضرر کی قدرت نہیں رکھتے ۔ دوسری آیت میں ان کے نقصان کو ان کے نفع سے قریب تر بتایا گیا ہے ، کیونکہ ان سے دعائیں مانگ کر اور ان کے آگے حاجت روائی کے لیے ہاتھ پھیلا کر وہ اپنا ایمان تو فوراً اور یقیناً کھو دیتا ہے ۔ رہی یہ بات کہ وہ نفع اسے حاصل ہو جس کی امید پر اس نے انہیں پکارا تھا ، تو حقیقت سے قطع نظر ، ظاہر حال کے لحاظ سے بھی وہ خود مانے گا کہ اس کا حصول نہ تو یقینی ہے اور نہ قریب الوقوع ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ اس کو مزید فتنے میں ڈالنے کے لیے آستانے پر اس کی مراد بر لائے ، اور ہو سکتا ہے کہ اس آستانے پر وہ اپنا ایمان بھی بھینٹ چڑھا آئے اور اپنی مراد بھی نہ پائے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :19 یعنی جس نے بھی اس کو اس راستے پر ڈالا ، خواہ وہ کوئی انسان ہو یا شیطان ، وہ بد ترین کار ساز و سرپرست اور بد ترین دوست اور ساتھی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: اصل میں اِن جُھوٹے خُداؤں میں خود تو نہ کوئی فائدہ پہنچانے کی طاقت ہے، نہ نقصان پہنچانے کی۔ البتہ یہ نقصان پہنچنے کا سبب بن سکتے ہیں، اور وہ اس طرح کہ جو شخص انہیں اﷲ تعالیٰ کی خُدائی میں شرک مانے گا، وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سزا کا مستحق ہوگا۔ 9: جس کا نقصان فائدے سے زیادہ ہو، وہ نہ مددگار بنانے کے لائق ہے اور نہ ساتھی بنانے کے لائق۔ لہٰذا اِن بتوں سے امیدیں لگانا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:23) فائدہ : آیت 12 میں ہے یدعوا من دون اللہ ما لا یضرہ وما لا ینفعہ اور آیت 13 میں ہے یدعوا لمن ضرہ اقرب من نفعہ۔ یعنی پکارتا ہے اس کو کہ ضرر اس کا قریب تر ہے بہ نسبت اس کے نفع کے ۔ یعنی جہاں تک اس کا مذموم معبود کو پکارنے کا تعلق ہے اس فعل سے نقصان تو لازم آگیا۔ کیونکہ غیر اللہ کو پکارنا حرام ہے اور باعث زیاں ہے۔ جہاں تک اس فعل سے نفع کی امید ہے تو وہ ایک موہوم امر ہے اگر کوئی نفع بالفرض ہو بھی جائے تو وہ من جانب اللہ ہوتا ہے جو سنت اللہ کے تحت اس کی قسمت میں ازل سے لکھا جا چکا ہے ۔ لہٰذا جس من دون اللہ کو یہ پکارتا ہے اس سے نقصان ہی نقصان لازم ہے۔ اس طرح یہ آیت ماقبل سے متضاد نہیں ہے بلکہ اس کی تائید کرتی ہے کہ ما لا یضرہ وما لا ینفعہ۔ یا یوں سمجھئے کہ اس معبود باطل سے نقصان (ضرر) تو قریب تر ہے اور نفع بعید تر۔ اور عربی میں بعید کا اطلاق بےاصل اور غیر موجود شے پر بھی ہوتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہےء اذا متنا وکنا ترابا ذلک رجع بعید (50:3) ای لا رجع اصلا۔ واپسی اصلا ہے ہی نہیں۔ یہاں بھی نفع کا بعید ہونا سے مراد ہے اس میں نفع ہے ہی نہیں۔ بئس۔ برا ہے۔ فعل ذم ہے۔ اس کی گردانی نہیں آتی۔ بئس اصل میں بئس تھا بروزن فعل (سمع) عین کلمہ کی اتباع میں اس کے فا کلمہ کو کسرہ دیا پھر تخفیف کے لئے عین کلمہ کو ساکن کرلیا گیا۔ بئس ہوگیا۔ مولی۔ اسم مفرد موالی جمع۔ کارساز ۔ حمایتی۔ دوست۔ عشیر۔ رفیق۔ ہم صحبت۔ ساتھی۔ شریک، بمعنی معاشر میل جول رکھنے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ۔ یعنی نفع تو درکنار ان کے پکارنے میں الٹا نقصان ہے کیونکہ جو شخص انہیں پکارتا ہے وہ ایمان سے تو یقیناً اور فوراً ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اب رہا ظاہری فائدہ جس کے لئے پکارتا ہے۔ سو وہ ایک موسوم امر ہے۔ حاصل ہو تو ہو، نہ ہو تو نہ ہو اس پکارنے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ نہ مولی یعنی بڑا ہو کر کام آوے اور نہ عشیر یعنی برابر ہو کر کام آوے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” یَدْعُوْا لمَنْ ضَرُّهٗ الخ “ لام ابتدائیہ ہے جملہ استینافیہ ہے اس میں غیر اللہ کی پکار اور دعاء کا بد انجام اور اس کا بہت بڑی گمراہی ہونا واضح کیا گیا ہے استیناف یبین مال دعائہ و عبادتہ غیر اللہ تعالیٰ ویقرر کون ذلک ضلالا بعیدا (روح ج 17 ص 125) ۔ اس آیت اور اس سے پہلی آیت میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی آیت میں معبودان باطلہ کے نافع اور ضار ہونے کی نفی کی گئی ہے مگر اس آیت میں ان کے ضار یعنی نقصان رساں ہونے کا اثبات ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جن معبودان باطلہ کو مشرکین مختار نفع و نقصان اور متصرف سمجھ کر پکارتے ہیں۔ بیشک وہ عاجز و درماندہ ہیں اور نفع یا نقصان پہنچانا ان کی قدرت و طاقت سے باہر ہے لیکن ان کی عبادت کرنا اور انہیں حاجات و مشکلات میں پکارنا ان کے پجاریوں کے حق میں سخت نقصان دہ اور باعث خسارہ ہے کیونکہ اس شرک کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے حاصل یہ کہ معبوادان باطلہ بذات خود نقصان رساں نہیں ہیں لیکن ان کی عبادت اور پکار سراسر نقصان اور خسارے کا باعث ہے۔ اجابو عن التناقض بامور احدھا انھا لا تضر ولا تنفع بانفسھا ولکن عبادتھا سبب الضرر (کبیر ج 6 ص 216) ۔ مشرکین معبودان باطلہ کی اس خیال سے عبادت کرتے تھے کہ وہ خدا کے یہاں ان کے سفارشی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی عبادت میں کچھ نفع نہیں بلکہ سراسر خسارہ ہے اور وہ ان کے کسی کام نہیں آسکیں گے وقیل یعبدونہم توھم انھم یشفعون لھم غدا کما قال اللہ تعالیٰ ویعبدون من دون اللہ ما لا یضرھم ولا ینفعہم ویقولون ھؤلاء شفعاؤنا عنداللہ وقال تعالیٰ ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی (قرطبی ج 12 ص 19) ۔ 23:۔ ” اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِهٖ “ حضرت شیخ قدس سرہ نے فرمایا۔ دلائل عقلیہ تو واضح اور ثابت کر رہے کہ خالص اللہ ہی کی عبادت کرو اور خالص اسی کو پکارو لیکن پھر بھی بعض لوگ بلا وجہ اور بلا دلیل جھگڑا کرتے اور اللہ کی خالص عبادت اور پکار میں شک کرتے ہیں اور ایسے عاجز معبودوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت اور جنہیں پکارنے کا ضرر نفع کی نسبت اقرب الی الفہم ہے یعنی یہ بات نہایت آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ ان کی عبادت اور پکار میں نفع تو کیا ہوگا البتہ ضرور اور نقصان ضرور ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) وہ ایسے کی عبادت کررہا ہے جس کی عبادت کا ضرر جو کہ واقعی ہے اس کی عبادت کے موہوم اور غیر واقع نفع سے قریب تر ہے کچھ شک نہیں ایسا مددگار اور کارساز بھی برا اور ایسا رفیق اور دوست بھی برا۔ یعنی ان کی عبادت عذاب الٰہی کا سبب ہوتی ہے اور وہ عذاب واقعی ہے اور یہ عذاب الٰہی تو قریب ہے اور نفع مفقود ہے۔ قیامت میں جب بت پرستی کے نتائج روبرو آئیں گے تو اس وقت منکر بھی کہیں گے برا مولا اور برا دوست یعنی بالا دست ہوکر بھی برا اور دوست ہوکر بھی برا۔ نہ بڑا ہوکر کام آئے نہ دوست بن کر کام آئے۔ نعوذ باللہ من ذلک۔ پہلی آیات میں نفع اور ضرر کی نفی فرمائی تھی اس آیت سے نفع و ضرر کا اثبات معلوم ہوتا ہے ہم نے ترجمے اور تیسیر میں اس کو صاف کردیا ہے۔ سہل امر یہ ہے جیسا کہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پہلی آیت میں دنیوی حالت کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں اخروی حالت کی جانب اشارہ ہے اس لئے دونوں آیتوں کے مضمون میں کوئی تضاد نہیں ہے۔