Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 14

سورة الحج

اِنَّ اللّٰہَ یُدۡخِلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡعَلُ مَا یُرِیۡدُ ﴿۱۴﴾

Indeed, Allah will admit those who believe and do righteous deeds to gardens beneath which rivers flow. Indeed, Allah does what He intends.

ایمان اور نیک اعمال والوں کو اللہ تعالٰی لہریں لیتی ہوئی نہروں والی جنتوں میں لے جائے گا ۔ اللہ جو ارادہ کرے اسے کرکے رہتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Reward of the Righteous Allah says: إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الاَْنْهَارُ ... Truly, Allah will admit those who believe and do righteous good deeds to Gardens underneath which rivers flow. The mention of the misguided who are doomed is followed by mention of the righteous who are blessed. They are those who believe firmly in their hearts and confirm their faith by their actions, doing all kinds of righteous deeds and avoiding evil actions. Because of this, they will inherit dwellings in the lofty ranks of the gardens of Paradise. So Allah tells us that He sends those astray and guides these, and says: ... إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ Verily, Allah does what He wills.

یقین کے مالک لوگ برے لوگوں کا بیان کرکے بھلے لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جن کے دلوں میں یقین کا نور ہے اور جن کے اعمال میں سنت کا ظہور ہے بھلائیوں کے خواہاں برائیوں سے گریزاں ہیں یہ بلند محلات میں عالی درجات میں ہونگے کیونکہ یہ راہ یافتہ ہیں ان کے علاوہ سب لوگ حواس باختہ ہیں ۔ اب جو چاہے کرے جو چاہے رکھے دھرے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی اللہ تعالیٰ کے اختیارات لامحدود ہیں۔ وہ چاہے تو ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں سینکڑوں گناہ زیادہ معاوضہ اور بدلہ دے۔ چاہے تو ان کی سب چھوٹی موٹی خطائیں معاف کر دے۔ البتہ ایک بات اس سے مستبعد ہے وہ یہ ہے کہ وہ بندوں پر کسی بھی طرح کا ظلم نہیں کرتا۔ اس سلسلہ میں وہ اپنے اختیارات کو استعمال نہیں کرتا بلکہ عدل کے تقاضوں کو محفوظ رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۔۔ : کافروں اور مطلب پرست بےیقین مسلمانوں کے بعد سختی اور نرمی یعنی ہر حال میں اسلام پر قائم رہنے والے مسلمانوں کا ذکر فرمایا، جو یقین و ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہیں اور ہر عمل خلوص نیت کے ساتھ سنت نبوی کے مطابق بجا لاتے ہیں، کیونکہ عمل صالح کے لیے یہ دونوں چیزیں لازم ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسی جنتوں کا وعدہ فرمایا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ : یعنی اللہ تعالیٰ غیر محدود اختیارات کا مالک ہے، دنیا یا آخرت میں جسے جو چاہے دے دے۔ تھوڑے سے عمل پر وہ جنت عطا کر دے کہ جس کا عرض زمین و آسمان کے عرض کے برابر ہے، فرمایا : (عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ) [ آل عمران : ١٣٣ ] ” جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ “ جبکہ کفار و مشرکین کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حکم میں چون و چرا کرسکے، وہ جو دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو روک لے کوئی وہ دے نہیں سکتا اور نہ دلوا سکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل فرمائیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی (اور اللہ جس شخص یا قوم کو کوئی ثواب یا عذاب دینا چاہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں کیونکہ) اللہ تعالیٰ (قادر مطلق ہے) جو ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے (اور جن لوگوں کے دین حق میں مجادلہ کرنے کا ذکر آیا ہے اگلی آیت میں ان کی ناکامی اور محرومی کا بیان ہے فرمایا) جو شخص (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخالفت اور مخاصمت کر کے) اس بات کا خیال رکھتا ہو کہ (میں غالب آجاؤں گا اور آپ کے دین کی ترقی کو روک دوں گا اور یہ کہ) اللہ تعالیٰ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (اور آپ کے دین کی) دنیا و آخرت میں مدد نہ کرے گا تو اس کو چاہئے کہ ایک رسی آسمان تک تان لے (اور آسمان سے باندھ دے) پھر (اس رسی کے ذریعہ اگر آسمان پر پہنچ سکے تو پہنچ جائے تاکہ) اس وحی کو موقوف کرا دے (اور ظاہر ہے کہ ایسا کوئی نہیں کرسکتا) تو پھر غور کرنا چاہئے آیا اس کی (یہ) تدبیر (جس سے بالکل عاجز ہے) اس کے غیظ و غضب کی چیز کو (یعنی وحی کو) موقوف کرسکتی ہے اور ہم نے اس (قرآن) کو اسی طرح اتارا ہے (کہ اس میں ہمارے ارادے اور قدرت کے سوا کسی کا دخل نہیں) جس میں کھلی کھلی دلیلیں (تعیین حق کی) ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ۝ ١٤ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ جری الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] ( ج ر ی ) جریٰ ( ض) جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف/ 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔ تحت تَحْت مقابل لفوق، قال تعالی: لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] ، وقوله تعالی: جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ، تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ [يونس/ 9] ، فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] ، يَوْمَ يَغْشاهُمُ الْعَذابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ العنکبوت/ 55] . و «تحت» : يستعمل في المنفصل، و «أسفل» في المتصل، يقال : المال تحته، وأسفله أغلظ من أعلاه، وفي الحدیث : «لا تقوم الساعة حتی يظهر التُّحُوت» «4» أي : الأراذل من الناس . وقیل : بل ذلک إشارة إلى ما قال سبحانه : وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] . ( ت ح ت) تحت ( اسم ظرف ) یہ فوق کی ضد ہے قرآن میں ہے :۔ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ [ المائدة/ 66] تو ( ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے کھاتے ۔ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ [ الحج/ 23] ( نعمت کے ) باغ میں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ۔ فَناداها مِنْ تَحْتِها [ مریم/ 24] اس وقت ان کے نیچے کی جانب سے آواز دی ۔ تحت اور اسفل میں فرق یہ ہے کہ تحت اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے نیچے ہو مگر اسفل کسی چیز کے نچلا حصہ کو جیسے ۔ المال تحتہ ( مال اس کے نیچے ہے ) اس کا نچلا حصہ اعلیٰ حصہ سے سخت ہے ) حدیث میں ہے (48) لاتقوم الساعۃ حتیٰ یظھر النحوت کہ قیامت قائم نہیں ہوگی ۔ تا وقی کہ کمینے لوگ غلبہ حاصل نہ کرلیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حدیث میں آیت کریمہ ؛۔ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ وَأَلْقَتْ ما فِيها وَتَخَلَّتْ [ الانشقاق/ 3- 4] اور جب یہ زمین ہموار کردی جائے گی اور جو کچھ اس میں سے اسے نکلا کر باہر ڈال دے گی ۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ نهر النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، ( ن ھ ر ) النھر ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) اور اللہ تعالیٰ تو ایسا منعم حقیقی ہے کہ جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور اچھے کام کیے اللہ تعالیٰ ان کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے درختوں اور محلات کے نیچے سے دودھ، شہد، شراب، اور پانی کی نہریں جاری ہوں گی اور اللہ تعالیٰ جو ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے کہ جس کو چاہے بدبخت بنائے اور جس کو چاہے سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ) ” اس کے اختیارات غیر محدود ہیں۔ وہ جو چاہے کر گزرتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. “Those who believed and did righteous deeds” are quite different from the wavering Muslims, for they have a firm belief in Allah, His Prophet (peace be upon him) and the Hereafter. Therefore they follow the way of truth both in prosperity and in adversity. 21. That is, Allah's powers are unlimited. He may bestow anything on anyone He wills in this world or in the Hereafter or in both, and bar anything from anyone. None has the power to interfere with what He wills and does.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :20 یعنی جن کا حال اس مطلب پرست ، مذبذب اور بے یقین مسلمان کا سا نہیں ہے ، بلکہ جو ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر خدا اور رسول اور آخرت کو ماننے کا فیصلہ کرتے ہیں ، پھر ثابت قدمی کے ساتھ راہ حق پر چلتے پھرتے ہیں ، خواہ اچھے حالات سے سابقہ پیش آئے یا برے حالات سے ، خواہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں یا انعامات کی بارشیں ہونے لگیں ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :21 یعنی اللہ کے اختیارات غیر محدود ہیں ۔ دنیا میں ، یا آخرت میں ، یا دونوں جگہ ، وہ جس کو جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے جو کچھ چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔ وہ دینا چاہے تو کوئی روکنے والا نہیں ۔ نہ دینا چاہے تو کوئی دلوانے والا نہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤:۔ ان لوگوں کی عقلوں کی خرابی کا ذکر تھا جو دنیا کے لالچ سے ظاہری طور پر دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور حقیقت میں گویا اس دائرہ کے کنارے پر کھڑے رہ جاتے ہیں ‘ اندر نہیں گھستے کیونکہ جس طرح کسی چھت کے کنارہ پر کھڑا ہونے والا شخص ذرا سی ٹھیں میں گر پڑتا ہے اسی طرح جن لوگوں کا اوپر ذکر ہے وہ بھی ذرا سی آزمائش میں دائرہ اسلام کے باہر ہوجاتے ہیں ان آیتوں میں فرمایا ‘ جو لوگ پکے ایماندار ہیں اور تکلیف اور راحت ہر حال میں نیک کام کرتے رہتے ہیں اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو ایسے باغوں میں ہمیشہ کے لیے رہنے کا حکم دیوے گا جن کے باغوں کے درختوں کے نیچے دودھ ‘ شہد ‘ شراب اور پانی کی نہریں جاری ہوں گی دنیا کی نہروں میں بہت دنوں تک پانی رہے تو اس میں ایک طرح کی بدبو پیدا ہوجاتی ہے دنیا کا دودھ زیادہ رہنے سے کھٹا ہوجاتا ہے ‘ دنیا کی شراب میں تلخی ہوتی ہے دنیا کا شہد بیرو چھانے کے صاف نہیں ہوتا جنت کے دودھ ‘ شہد ‘ شراب اور پانی میں یہ باتیں نہ ہوں گی چناچہ اس کی تفصیل سورة محمد میں آئے گی ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) ١ ؎ کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنت میں وہ وہ نعمتیں پیدا کی گئی ہیں جو نہ کسی نے آنکھوں سے دیکھیں ‘ نہ کانوں سے سنیں ‘ نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے ‘ اس حدیث سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس آیت میں اور آیتوں میں جہاں کہیں جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے وہ مختصر طور پر ہے تمام لوگوں کے نیک و بدعمل اور ان عملوں کے سبب سے ہر ایک کا جنت اور دوزخ کا ٹھکانا اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے اس واسطے اخیر آیت میں فرمایا قیامت کے دن اپنے علم اور ارادہ کے موافق اللہ تعالیٰ جزاو سزا کا جو فیصلہ کرے گا وہ ٹل نہیں سکتا۔ اس تفسیر میں ایک جگہ یہ گزر چکا ہے کہ پہلے ہر کام کا نتیجہ سوچ لیا جاتا ہے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے کا ارادہ کیا جاتا ہے علماء کا یہ قول جو مشہور ہے کہ ارادہ علم کا تابع ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ پہلے ہر کام کا نتیجہ سوچا جاتا ہے پھر اس کے کرنے یا نہ کرنے کا قصد کیا جاتا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ ہر ارادہ کے ساتھ علم لگا ہوا ہے اس لیے آیت کے آخری ٹکڑے کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے علم غیب اور ارادہ کے موافق جزاو سزا کا جو فیصلہ کرے گا وہ ٹل نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم غب ردو بدل سے پاک ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ۔ یعنی وہ غیر محدود اختیارات کا مالک ہے کسی کو مجال نہیں کہ اس کے حکم میں چون و چرا کرسکے۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اس کے ساتھ کوئی مزاحمت نہیں کرسکتا اور وہ اس جزاء و سزا کا ارادہ کرچکا ہے، پس ضرور ایسا ہی واقع ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور منافق کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اعتقاد اور ان کا بہتر انجام۔ سچا ایمان اور صالح کردار رکھنے والے حضرات کے لیے قرآن خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں جس میں اللہ تعالیٰ انھیں داخل فرمائے گا۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ اس آیت کے آخری الفاظ درحقیقت پچھلی آیت کا جواب ہے جس میں مشرک کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جنہیں اپنا مولا اور ساتھی سمجھ کر پکارتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نفع و نقصان کے مالک نہیں نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ کسی نیک کی نیکی اور برے کی برائی اس کے فیصلے میں حائل نہیں ہوسکتی۔ مسائل ١۔ سچے ایماندار اور صالح عمل کرنے والوں کے لیے جنت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے : ١۔ بیشک میرا اللہ جو چاہتا ہے تدبیر کرتا ہے۔ (یوسف : ١٠٠) ٢۔ اللہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٣) ٣۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا وہ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ (الدھر : ٣٠) ٤۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو جہانوں کا رب چاہتا ہے۔ (التکویر : ٢٩) ٥۔ ” اللہ “ جسے چاہے معاف فرمائے جسے چاہے عذاب دے۔ ( آل عمران : ١٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان اللہ ……مایرید (١٤) اس لئے اگر فتنوں میں سے کسی فتنے میں کوئی مومن مبتلا ہوجائے یا آزمائشوں میں سے کوئی آزمائش اس پر آجائے تو اسے چاہئے کہ وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے اور اس کے اندر کوئی تزلزل پیدا نہ ہو۔ امید رکھے کہ اللہ ضرور اس کی امداد کرے گا اور اللہ اس بات پر قادر ہے کہ اس کی اس مصیبت اور آزمائش کو دور کرے اور اس کو جزائے خیر دے۔ جو شخص یہ بھروسہ نہ رکھتا ہو کہ دنیا و آخرت میں اللہ اس کی مدد کرے گا ، اور وہ مشکلات میں اللہ کی امداد سے مایوس ہوجائے۔ اگرچہ یہ سختیاں حد سے بڑھ جائیں ، تو ایسا شخص اپنے بارے میں جو چاہے ، کرے۔ جس طرف چاہے اپنے نفس کو لے کر نکل جائے وہ جو جتن بھی کرے ، اس کی مشکلات کو اللہ کے سوا کوئی دوسرا دور نہ کرسکے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے آیات بینات نازل فرمائی ہیں، وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اس آیت سے پہلی آیت میں مشرکوں اور کافروں کی بد حالی بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ جن کی پرستش کرتے ہیں وہ ان کو کوئی نفع اور نقصان نہیں دے سکتے ان کا ضرر نفع سے زیادہ قریب ہے ان کی دوستی اور رفاقت و بال جان ہے اس کے بعد اہل ایمان کے انعام کا تذکرہ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے اللہ تعالیٰ انہیں ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا۔ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ساتھ ہی (اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ) بھی فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کسی کو ایمان اور اعمال صالحہ سے نوازنے کا ارادہ فرمائے اسے ہدایت دے دیتا ہے اسے پورا پورا اختیار ہے وہ قادر مطلق ہے اس کے ارادے سے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ اس کے بعد ان لوگوں کا تذکرہ فرمایا جو دین اسلام کی کاٹ میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی میں لگے رہتے تھے اور یوں سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعوت چند دن کی ہے یہ جو وحی کا دعویٰ کرتے ہیں یہ وحی بھی ختم ہوجائے گی اور ان کا دین بھی آگے نہیں بڑھے گا کچھ دن کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں ہوگی۔ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنے رسول کی مدد نہ فرمائے گا اور یوں چاہتے ہیں کہ آپ کی دعوت کا کام رک جائے اور وحی آنا بند ہوجائے یہ ان لوگوں کی جھوٹی آرزو ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی ضرور مدد فرمائے گا اگر کسی معاند اور مخالف کو یہ گوارا نہیں ہے تو وہ زمین سے لے کر آسمان تک ایک رسی تان لے اور اس رسی پر چڑھتا چلا جائے اور وہاں جا کر وحی کا سلسلہ منقطع کر دے۔ یہ بطور فرض کے ارشاد فرمایا مطلب یہ ہے کہ مخالفین کی مخالفت اور عناد سے وحی کا سلسلہ بند ہونے والا نہیں اور سوا بیہودہ آرزو کے ان کے پاس کچھ نہیں ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی تو آسمان سے آتی ہے جسے قدرت ہو کہ آسمان پر جا کر رکوا دے تو ایسا کرلے لیکن ایسا کرنے کی کسی کو بھی قوت نہیں ہے۔ وحی کی وجہ سے جس کو غیظ و غضب ہے اپنے غیظ اور دل کی جلن کی کوئی تدبیر کرسکتا ہے تو کرلے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کے مقابلہ میں کوئی کچھ نہیں کرسکتا دشمن جلتے رہیں گے وحی آتی رہے گی دین بڑھتا رہے گا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے سورة آل عمران میں فرمایا (قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ ) (آپ فرما دیجیے کہ اے کافرو ! تم اپنی جل میں مرجاؤ) ۔ مذکورہ بالا جو تفسیر لکھی گئی ہے بعض مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے یہ اس صورت میں ہے جب کہ (لَّنْ یَّنْصُرَہُ ) کی ضمیر منصوب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف راجع ہو اور بعض حضرات نے اس آیت کی یوں تفسیر کی ہے کہ سماء سے مکان کی چھت مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر کسی معاند جاہل کی خواہش یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے دین کی مدد نہ کرے اور یہ معاند اسلام کے خلاف غیظ و غضب لیے ڈٹا رہے تو سمجھ لے کہ اس کی مراد کبھی پوری نہ ہوگی، اس احمقانہ غیظ و غضب کا تو یہی علاج ہے کہ اپنے گھر کی چھت پر رسی ڈال کر پھانسی لے لے اور مرجائے۔ اور بعض حضرات نے آیت کی تفسیر بتاتے ہوئے یوں فرمایا کہ سب کا رزق اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جسے چاہے گا رزق دے گا اور جتنا چاہے گا دے گا جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ مجھے رزق نہ دے گا دنیا و آخرت میں میری مدد نہ فرمائے گا تو یہ شخص اللہ کی قضا اور قدر پر راضی نہیں اور صابر و شاکر نہیں تو گلا گھونٹ کر مرجانے سے کچھ نہیں ہوگا یہ معنی لینے سے لن ینصرہ کی ضمیر منصوب من کی طرف راجع ہوگی اور مطلب یہ ہوگا کہ جو لوگ اسلام قبول کر کے روٹی رزق اور دنیاوی آسانی ملنے پر اسلام پر بر قرار رہیں اور تنگدستی آنے پر اسلام کو چھوڑ دیں ایسے لوگوں کو بتادیں کہ تم کچھ بھی کرلو ایمان پر رہو یا ایمان چھوڑ دو بہر حال جو کچھ ہوگا اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر کے موافق ہوگا مرتد ہوجانے سے رزق بڑھ نہ جائے گا۔ (راجع روح المعانی ج ١٧ ؍ ١٢٧۔ ١٢٨) (وَ کَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ ) (الآیۃ) اور ہم نے قرآن کو اسی طرح نازل کیا ہے جس کی آیات بالکل واضح ہیں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الخ “ یہ مومنین کے لیے بشارت اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے پائیں نہریں بہ رہی ہوں گی بیشک اللہ تعالیٰ جو ارادہ کرتا ہے وہ کر گزرتا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے یعنی وہ اپنی بات پوری کرتا ہے کوئی اس کی مزاحمت کرنے والا نہیں ہے وہ جزا اور سزا کا ارادہ کرچکا ہے لہٰذا ! جو وہ ارادہ کرچکا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ فلا الٰہ الاھو۔