Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 41

سورة الحج

اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾

[And they are] those who, if We give them authority in the land, establish prayer and give zakah and enjoin what is right and forbid what is wrong. And to Allah belongs the outcome of [all] matters.

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Duties of the Muslims when They attain Power Allah says: الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الاَْرْضِ أَقَامُوا الصَّلَةَ وَاتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ... Those who, if We give them power in the land, (they) establish the Salah, enforce the Zakah, and they enjoin the good and forbid the evil. Ibn Abi Hatim recorded that ... Uthman bin Affan said, "The Ayah was revealed concerning us, for we had been expelled from our homes unjustly only because we said: `Our Lord is Allah.' Then we were given power in the land, so we established regular prayer, paid the Zakah, enjoined what is good and forbade what is evil, and with Allah rests the end of (all) matters. This is about my companions and I." Abu Al-Aliyah said, "They were the Companions of Muhammad." As-Sabah bin Suwadah Al-Kindi said, "I heard Umar bin Abdul-Aziz give a speech and say: الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الاَْرْضِ (Those who, if We give them power in the land....), Then he said, "This is not obligatory only for those who are in authority, it also applies to those who are governed by them. Shall I not tell you what you can expect from your governor, and what duties those who are ruled owe to him! Your rights over your governor are that he should check on you with regard to your duties towards Allah and restore the rights that you have over one another, and that he should guide you to the straight path as much as possible. Your duties towards him are that you should obey him without cheating and without resentment, and you should obey him both in secret and openly." Atiyah Al-Awfi said, This Ayah is like the Ayah: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءامَنُواْ مِنْكُمْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الاْرْضِ Allah has promised those among you who believe and do righteous good deeds, that He will certainly grant them succession to (the present rulers) in the land. (24:55) ... وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الاُْمُورِ And with Allah rests the end of (all) matters. This is like the Ayah: وَالْعَـقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ And the good end is for those who have Taqwa. (28:83) Zayd bin Aslam said: وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الاُْمُورِ (And with Allah rests the end of (all) matters). "And with Allah will be the reward for what they did."   Show more

پابندی احکامات کی تاکید حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ آیت ہمارے بارے میں اتری ہے ۔ ہم بےسبب خارج ازوطن کئے گئے تھے ، پھر ہمیں اللہ نے سلطنت دی ، ہم نے نماز وروزہ کی پابندی کی بھلے احکام دئیے اور برائی سے روکنا جاری کیا ۔ پس یہ آیت میرے اور میرے ساتھیوں کے بارے میں ہے ۔ ابو الع... الیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مراد اس سے اصحاب رسول ہیں ۔ خلیفہ رسول حضرت عمربن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے خطبے میں اس آیت کی تلاوت فرما کر فرمایا اس میں بادشاہوں کا بیان ہی نہیں بلکہ بادشاہ رعایا دونوں کا بیان ہے ۔ بادشاہ پر تو یہ ہے کہ حقوق الٰہی تم سے برابر لے اللہ کے حق کی کوتاہی کے بارے میں تمہیں پکڑے اور ایک کا حق دوسرے سے دلوائے اور جہاں تک ممکن ہو تمہیں صراط مستقیم سمجھاتا رہے ۔ تم پر اس کا یہ حق ہے کہ ظاہر وباطن خوشی خوشی اس کی اطاعت گزاری کرو ۔ عطیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اسی آیت کامضمون آیت ( وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ 55؀ ) 24- النور:55 ) میں ہے ۔ کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ ہے ۔ عمدہ نتیجہ پرہیزگاروں کا ہوگا ۔ ہرنیکی کا بدلہ اسی کے ہاں ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور س... رفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن و خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہر آنے جانے والاحکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل و غارت اور ادبار وپستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرفہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی ممللکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ 41۔ 2 یعنی ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوں سے انحراف کرکے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٩] اس آیت اسلامی طرز حکومت کے خدوخال اور حکومت چلانے والوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ اسلام میں ریاست کا قیام اصل مقصود نہیں بلکہ یہ کسی دوسرے عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ لہذا ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں بھی غیر اسلامی ریاستوں سے بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً ایک غیر اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں محض ی... ہ ہیں کہ پولیس کے ذریعہ امن بحال رکھا جائے۔ انتظامیہ کے ذریعہ حکومت کاروبار چلایا جائے اور فوج کے ذریعہ سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔ جبکہ ایک اسلامی ریاست یہ ذمہ داریاں بھی پورا کرتی ہے اور یہ اس کا ثانوی فریضہ ہوتا ہے اس کے قیام کے اولین مقاصد یہ ہیں۔ ١۔ پوری ریاست میں نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کیا جائے۔ ٢۔ مکروہ کاموں کی روک تھام کی جائے اور اچھے کاموں کو فروغ دیا جائے اور ان اغراض کے لئے محکمہ قائم کئے جائیں اور اس طرح۔ ٣۔ ملک سے ظلم وجود کو ختم کرکے عدل و انصاف قائم کیا جائے اور اس راہ میں جو باطل قوتیں مزاحم ہوں۔ ان کو دور کیا جائے اور اسی کا نام جہاد ہے۔ علاوہ ازیں چونکہ ایک اسلامی ریاست کی بنیاد اخلاقی اقدار پر اٹھتی ہے، اسی لئے اسلام نے حکومت کے انتظام و انصرام کو وہ اہمیت نہیں دی جو اخلاقی اقدار کو دی ہے اور یہی چیز ایک اسلامی طرز حکومت کو دوسرے تمام اقسام حکومت سے ممتاز کرتی ہے۔ اس آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عموماً اور مہاجرین کی خصوصاً اور بالخصوص خلفائے راشدین کی حقانیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ جن کے ذریعہ وہ تمام امور بطریق احسن سرانجام پائے جو اس آیت میں مذکور ہیں۔ اور جن کی داغ بیل خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈالی تھی۔ [٧٠] یعنی ایک ایسی طرز حکومت کے قیام کا تصور خواہ موجودہ حالات ناممکن نظر آرہا ہو لیکن ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو ابابیلوں کے لشکر سے ہاتھیوں کے لشکر کو بھی پٹوا سکتا ہے۔ وہ آخر ایک اہل حق کی کمزور سی جماعت کے مقابلہ میں کفار کے کروفر والے لشکر کو مغلوب کیوں نہیں کرسکتا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : اس سے پہلے جن لوگوں کا ذکر ہوا ہے کہ انھیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے، کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور وہ گھروں سے صرف توحید الٰہی کے جرم میں نکالے گئے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی ضرور مدد کرے گا، انھی کے متعلق اللہ تعالیٰ پیشگی بیان فرما رہے ہیں کہ اگر ہ... م نے انھیں زمین میں اقتدار بخشا تو وہ چار کام سرانجام دیں گے۔ پہلا اور دوسرا یہ کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کریں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین کے عہد میں اقامت صلاۃ کا ایسا مضبوط نظام قائم تھا کہ حدیث و سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں دوسرے گناہوں کے ارتکاب کا اور ان کی سزا کا ذکر آپ پڑھیں گے مگر ایک بھی شخص نہیں پائیں گے جو نماز نہ پڑھتا ہو یا زکوٰۃ نہ دیتا ہو اور اسے مسلمان سمجھا جاتا ہو، حتیٰ کہ منافقین کو بھی اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینے کے لیے مسجدوں میں آ کر نماز پڑھنا پڑتی تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا) [ النساء : ١٤٢ ] ” بیشک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔ “ اور سب جانتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بعض قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو ابوبکر (رض) نے فرمایا تھا : ( وَاللّٰہِ ! لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ ) [ بخاري، الزکاۃ، باب وجوب الزکاۃ : ١٤٠٠ ] ” اللہ کی قسم ! میں ہر صورت اس سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا۔ “ مسلمانوں کے زوال کا آغاز اس دن سے ہوا جب کچھ حکمرانوں نے ان لوگوں کا موقف اختیار کیا جو کہتے تھے کہ کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے، زکوٰۃ دے یا نہ دے، اس کے ایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، وہ پکا مسلمان ہے۔ کچھ لوگ یہاں تک پہنچ گئے کہ ایمان سب کا ایک جیسا ہے، اس میں کمی یا اضافہ نہیں ہوتا، اس لیے ہمارا اور ابوبکر (رض) کا اور ہمارا اور جبریل (علیہ السلام) کا ایمان برابر ہے۔ آج کل بعض حضرات کی جماعتیں پوری دنیا میں نماز کی دعوت دیتی پھرتی ہیں مگر خود ان کے خویش و اقارب اور بیویاں اور اولاد بےنماز ہیں، اس کے باوجود وہ انھیں سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ اپنا کاروبار اور جائداد انھی کے سپرد رکھتے ہیں۔ اصل سبب عقیدے کی خرابی ہے کہ وہ بےنماز اور نمازی دونوں کے ایمان کو برابر سمجھتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ ایمان صرف تصدیق اور اقرار کا نام ہے، اگر آج ” اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ “ کا فریضہ سرانجام دینے والے صدیق و فاروق اور عثمان و علی (رض) ہوتے تو ہم دیکھتے کہ یہ لوگ کس طرح نماز اور زکوٰۃ کے بغیر مسلمان کی حیثیت سے دندناتے پھرتے، بلکہ اپنے آپ کو نمازیوں سے بہتر مسلمان قرار دیتے رہتے۔ تیسرا اور چوتھا وصف یہ بیان فرمایا کہ وہ نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اس آیت سے خلفائے راشدین کی خلافت برحق ثابت ہوتی ہے، کیونکہ انھوں نے صلاۃ و زکوٰۃ کے علاوہ صرف زبان ہی سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیا۔ اللہ کی حدود قائم کیں، جن کی برکت سے حیرہ سے چل کر اکیلی خاتون نے بیت اللہ کا حج کیا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ تھا۔ جہاد کے ذریعے سے دنیا کو توحید کی دعوت دی اور شرک و کفر سے منع کیا اور قیصر و کسریٰ اور عرب کے بڑے بڑے جابروں کو شکست فاش دے کر ان کے خزانے فتح کیے اور ان کی اقوام کو دائرۂ اسلام میں داخل کیا۔ جو خوشی سے اس دائرے میں نہیں آیا اسے زبردستی مسلمان نہیں بنایا مگر اس سے اس وقت تک جنگ جاری رکھی جب تک اس نے جزیہ ادا کرنے کا اقرار کرکے اسلام کا محکوم بننا قبول نہیں کیا۔ خلفائے راشدین کے بعد وہ خلفاء بھی اس بشارت میں شامل ہیں جنھوں نے یہ چاروں امور پوری طرح سرانجام دیے۔ کس قدر بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ان عظیم ہستیوں سے بغض رکھتے ہیں کہ جن کے اوصاف حسنہ اور اعمال صالحہ کی شہادت اللہ تعالیٰ انھیں اقتدار عطا کرنے سے پہلے دے رہا ہے۔ 3 آج بھی اللہ تعالیٰ کا نصرت کا وعدہ انھی لوگوں سے ہے جنھیں اللہ تعالیٰ اقتدار عطا فرمائے تو وہ یہ چاروں کام سرانجام دیں۔ اس کے نتیجے میں انھیں اقوام عالم پر غلبہ حاصل ہوگا، اسی کے نتیجے میں معاشی بدحالی ختم ہو کر فلاحی مملکت قائم ہوگی اور اسی کے نتیجے میں امن قائم ہوگا۔ افسوس ! مسلمان حکام ان چاروں چیزوں کو چھوڑ کر کفار کے طریقوں جمہوریت، سود، بےحیائی کے فروغ، آخرت سے دوری اور صرف اور صرف دنیا طلبی کے پیچھے لگ کر یہ توقع کر رہے ہیں کہ اس سے دنیا پر غلبہ حاصل ہوگا، خوش حالی آئے گی اور امن قائم ہوگا، حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ہر بیماری کا علاج صرف اور صرف اللہ کے فرمان پر عمل ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ اور بشارت سورة نور میں بھی مذکور ہے، فرمایا : (وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا ۭ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) [ النور : ٥٥ ] ” اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور ہی جانشین بنائے گا، جس طرح ان لوگوں کو جانشین بنایا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور ہی اقتدار دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ہر صورت انھیں ان کے خوف کے بعد بدل کر امن دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔ “ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ : مفسر بقاعی نے اس ” واؤ “ کے تحت بہت خوب صورت نکتہ بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ اس ” واؤ “ کا جس جملے پر عطف ہے وہ یہاں ذکر نہیں ہوا، جہاد کے حکم اور اس کی حکمت ” وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ “ کی مناسبت سے کلام یہ ہے کہ ” فَلِلّٰہِ بَادِءَۃُ الْأُمُوْرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُوْرِ “ یعنی پہلے کفار کے مسلمانوں کو طویل عرصہ تک بیحد ایذا کی مہلت دینے اور اب مسلمانوں کو جہاد کی اجازت اور نصرت کے وعدے کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام امور کی ابتدا بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ شروع میں بعض اوقات کفار کو مہلت دے دیتا ہے، جس سے ان پر اتمام حجت مقصود ہوتا ہے اور ایمان کے دعوے داروں کا امتحان مقصود ہوتا ہے، تاکہ سچا اور جھوٹا اور مذبذب ایمان اور مستحکم ایمان والا ظاہر ہوجائے اور بعض اوقات شروع ہی میں مسلمانوں کی مدد کردیتا ہے۔ پس تمام کاموں کا آغاز صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمام کاموں کا انجام بھی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ” بَادِءَۃُ الْأُمُوْرِ “ کے حذف اور ” عَاقِبَةُ الْاُمُوْر “ کے ذکر سے مسلمانوں کو حوصلہ دیا ہے کہ ابتدا میں تو بعض اوقات اللہ کے دشمنوں کو بھی موقع مل جاتا ہے مگر انجام تمہارا ہی ہے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے، چاہے تو دنیا میں بھی انجام مسلمانوں کے حق میں کر دے اور چاہے تو اس وقت ان کے حق میں کر دے جب ہر کام اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور جب اللہ تعالیٰ کے سوا سب کا اختیار ختم ہوجائے گا (انفطار : ١٩) بلکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی بول بھی نہیں سکے گا۔ (نبا : ٣٨) پھر جو جہنم سے بچ گیا اور جنت میں داخل ہوگیا تو وہی کامیاب ہے اور اسی کا انجام بخیر ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٨٥) ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Qur’ anic prophecy about the Rightly Guided Caliphs ( خُلفأے راشدین ) and its fulfillment الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ (Those who, when We give them power in the land - 22:41) In this verse the word (those) refers to those people who have been mentioned in the preceding verse: الَّذِينَ أُخْرِ‌جُوا مِن دِيَارِ‌هِم بِغَيْرِ‌ حَقٍّ (Those are the ones who were expelled from their hom... es without any just reason - 22:40). Referring to such people the verse says that if they are placed in authority in this world, they will use it to promote good deeds, will set up prayers, pay the obligatory charity, enjoin people to do good and abstain from evil deeds. It has already been mentioned that these verses were revealed soon after Hijrah, at a time when the Muslims did not exercise dominion anywhere on earth, which means that Allah Ta’ ala had already made it known that when, at a future date, they would come to power and establish their government, they would serve the Faith in the manner described in this verse. Sayyidna ` Uthmane (رض) said referring to this verse, ثنَا قَبلَ بَلَاء that this verse praises those people before they actually perform the praise-worthy deeds. In due course Allah Ta’ ala&s prophecy was fulfilled in that the four Rightly Guided Caliphs and the Muhajirin (emigrants) from Makkah were indeed those whom the Qur&an described by the words الَّذِينَ أُخْرِ‌جُوا (those who were expelled - 22:40) and when they established their government and held sway over vast territories, they used their power and authority in setting up prayers, strengthening the system of Zakah, enjoining good and forbidding evil deeds. Many scholars are of the view that this verse is a clear evidence of the fact that accession to power of the four Caliphs (خُلفَاے راشدین) is a direct fulfillment of Allah&s Prophesy, and the system of caliphate which was set up by them was in accordance with His will. (Ruh ul-Ma’ ani) Having discussed the factual aspect of the circumstances leading up to the revelation of this verse it must, at the same time, be emphasized that where the Qur&an uses general words and phrases, their purpose is not restricted to a particular situation, but is universally applicable to all similar situations. Following this reasoning, Dahhak says that this verse contains an injunction for all those whom Allah Ta’ ala grants power and authority to do all those things which the Four Caliphs did when they controlled the rule. (Qurtubi)   Show more

خلفائے راشدین کے حق میں قرآن کی پیشین گوئی اور اس کا ظہور : اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ ، اس آیت میں الذین صفت ہے ان لوگوں کی جن کا ذکر اس سے پہلے آیت میں ان الفاظ سے آیا ہے الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ ، یعنی وہ لوگ جن کو ان کے گھروں سے ظلماً بغیر کسی حق ... کے نکال دیا گیا۔ ان لوگوں کے بارے میں اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان کو زمین میں حکومت و اقتدار دے دیا جائے تو یہ لوگ اپنے اقتدار کو ان کاموں میں صرف کریں گے کہ نمازیں قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کاموں کی طرف لوگوں کو دعوت دیں برے کاموں سے روکیں۔ اور یہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ یہ آیات ہجرت مدینہ کے فوراً بعد اس وقت نازل ہوئی ہیں جبکہ مسلمانوں کو کسی بھی زمین میں حکومت و اقتدار حاصل نہیں تھا مگر حق تعالیٰ نے ان کے بارے میں پہلے ہی یہ خبر دے دی کہ جب ان کو اقتدار حکومت ملے گا تو یہ دین کی مذکورہ اہم خدمات انجام دیں گے اسی لئے حضرت عثمان غنی نے فرمایا ثناء قبل بلاء، یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد عمل کے وجود میں آنے سے پہلے اس کے عمل کرنے والوں کی مدح وثناء ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی اس خبر کا جس کا وقوع یقینی تھا اس دنیا میں وقوع اس طرح ہوا کہ چاروں خلفائے راشدین اور مہاجرین الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا کے مصداق صحیح تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کو سب سے پہلے زمین کی مکنت وقدرت یعنی حکومت و سلطنت عطا فرمائی اور قرآن کی پیشین گوئی کے مطابق ان کے اعمال و کردار اور کارناموں نے دنیا کو دکھلا دیا کہ انہوں نے اپنے اقتدار کو اسی کام میں استعمال کیا کہ نمازیں قائم کیں زکوٰة کا نظام مضبوط کیا اچھے کاموں کو رواج دیا برے کاموں کا راستہ بند کیا۔ اسی لئے علماء نے فرمایا کہ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ خلفاء راشدین سب کے سب اسی بشارت کے مصداق ہیں اور جو نظام خلافت ان کے زمانے میں قائم ہوا وہ حق و صحیح اور عین اللہ تعالیٰ کے ارادے اور رضا اور پیشگی خبر کے مطابق ہے (روح المعانی) یہ تو اس آیت کے شان نزول کا واقعاتی پہلو ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ الفاظ قرآن جب عام ہوں تو وہ کسی خاص واقعہ میں منحصر نہیں ہوتے ان کا حکم عام ہوتا ہے۔ اسی لئے ائمہ تفسیر میں سے ضحاک نے فرمایا کہ اس آیت میں ان لوگوں کے لئے ہدایت بھی ہے جن کو اللہ تعالیٰ ملک و سلطنت عطا فرما دیں کہ وہ اپنے اقتدار میں یہ کام انجام دیں جو خلفاء راشدین نے اپنے وقت میں انجام دیئے تھے۔ (قرطبی مع توضیح)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝ ٠ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝ ٤١ مكن المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] ( م ک ن )...  المکان اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ الاقامة وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، ( ق و م ) قيام اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی زكا أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة . يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس/ 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم/ 19] ، أي : مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله : «للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان : أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی/ 14] . والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه . ( زک و ) الزکاۃ : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف/ 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة/ 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء/ 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة/ 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة/ 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم/ 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم/ 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون/ 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس/ 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی/ 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم/ 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔ معْرُوفُ : اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان/ 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء/ 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف/ 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب/ 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء/ 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء/ 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة/ 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف/ 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات/ 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

اسلامی اقتدار، اقامت صلوۃ اور ادائے زکوۃ کے نظام کا پابند ہوگا قول باری ہے (الذین ان مکنا ھم فی الارض اقاموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم اگر زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ دیں گے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی صفت ہے جنہیں قتال کی اجازت دے دی گئی تھی۔ چ... ناچہ ارشاد باری ہے (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا۔ اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں ) تاقول باری (الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے) تا قول باری (الذین ان مکنا ھم فی الارض اقاموا الصلوۃ و امروا بالمعروف ونھوا عن المنکر یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے) یہ مہاجرین کرام کی صفت ہے اس لئے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکال دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ وہ انہیں زمین میں اقتدار بخشے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکواۃ دیں گے، معروف کا حکم دیںے اور منکر سے منع کریں گے۔ یہ خلفائے راشدین یعنی حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی کی صفت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین میں اقتدار بخشا تھا۔ اس میں ان حضرات کی امامت کی صحت پر واضح دلالت موجود ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ انہیں جب زمین میں اقتدار حاصل ہوجائے گا تو یہ ان فرائض کی ادائیگی کریں گے جو ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد ہوں گے۔ انہیں زمین میں اقتدار بخشا گیا اس لئے انہیں ایسے ائمہ تسلیم کرنا واجب ہے جو اللہ کے اوامر کی ادائیگی پر کمربستہ اور اس کے نواہی و زو اجر سے کنارہ کش رہے۔ حضرت معاویہ ان میں شامل نہیں ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے ان مہاجرین کو متصف کیا تھا جو اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے تھے۔ حضرت معاویہ مہاجرین میں سے نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں فتح مکہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قسم کی گرفت اور سزا سے آزاد کردیا تھا۔ انہیں طلقاء کہا جاتا ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١) یہ حضرات (صحابہ کرام (رض) ایسے ہیں کہ اگر ہم ان کو سرزمین مکہ میں حکومت دے دیں تو خود بھی پانچوں نمازوں کی پابندی کریں، اور زکوٰۃ دیں اور دوسروں کو بھی توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا حکم دیں اور کفر وشرک اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے روکیں اور آ... خرت میں تمام کاموں کے انجام اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ (اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ ) ” ” تمکن “ کا ذکر اس سے پہلے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے حوالے سے سورة یوسف ( علیہ السلام) کی آیت ٢١ اور ٥٦ میں بھی آچکا ہے : (وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِز) ” اور اسی طرح ہم نے یوسف ( علیہ السلام) کو زمین میں تمکن عطا کیا “۔ ... تو اپنے ان مؤمن بندوں کو اگر ہم کسی خطۂ زمین کا اختیار و اقتدار عطا کریں گے تو ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا ؟ (اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ) ” مؤمنین کو اگر کسی ملک پر حکومت کرنے کا اختیار ملے گا تو وہ اپنی پہلی ترجیح کے طور پر نماز کا نظام قائم کریں گے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ پہنچتے ہی جمعہ کے قیام کا اہتمام فرمایا اور اقامت صلوٰۃ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر مسجد نبوی کی تعمیر کی۔ (وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ ) ” پھر زکوٰۃ کا باقاعدہ نظام قائم کیا جائے گا تاکہ معاشرے کے پس ماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی کفالت کا بندوبست ہو سکے۔ (وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ ) ” اگر یہ روایت صحیح ہے کہ یہ آیات سفر ہجرت کے دوران میں نازل ہوئی تھیں تو ان میں سے خصوصی طور پر یہ آیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف آوری کے فوراً بعد کی صورت حال کے لیے ایک منشور (manifesto) کا درجہ رکھتی ہے۔ چونکہ عنقریب مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ورود ایک بےتاج بادشاہ کی حیثیت سے ہونے والا تھا اور مدینہ پہنچتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار و اقتدار ملنے والا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے پیشگی بتادیا کہ اس صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ترجیحات کیا ہوں گی۔ چناچہ جس طرح آج کل ہر سیاسی پارٹی الیکشن سے پہلے اپنا منشور جاری کرتی ہے کہ حکومت ملنے کی صورت میں ہماری ترجیحات کیا ہوں گی ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل ایمان کو ہمیشہ کے لیے ایک منشور عطا کردیا ہے کہ کسی ملک میں اقتدار ملنے کی صورت میں انہیں کون کون سے امور ترجیحی بنیادوں پر انجام دینے ہوں گے۔ یہ وہ خاص آیات (٣٨ تا ٤١) ہیں جن کی وجہ سے بعض لوگ اس سورت کو مدنی سورت سمجھتے ہیں ‘ البتہ درست موقف یہی ہے کہ یہ آیات یا تو اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئیں یا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد۔ لیکن انہیں مضامین حج کی مناسبت سے اس مکی سورت میں اس مقام پر رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد اگلی آیت سے دوبارہ مکی انداز کے مضامین کا آغاز ہو رہا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

84. Those who help Allah are the people who invite mankind to Tauhid and exert their utmost to establish the true faith and righteousness. For further explanation see (E.N. 50 of Surah Aal-Imran). 85 “If We give them authority”: In this one sentence, the real aim of the Islamic State and the characteristics of those who conduct its affairs have been stated concisely but comprehensively. Those who...  help Allah and deserve His succor behave righteously, establish Salat, make arrangements for the collection of Zakat and use their power and authority to propagate good and eradicate evil. 86. That is, it is Allah Who decides whom to give power in the land and when. This is meant to remove the misunderstanding of the proud and arrogant people who think that the destiny of the land and its dwellers is in their hands, and there is none to depose them from power. But Allah dethrones the most haughty ruler in supernatural ways and gives power to the most humble in order to show that He is All-Powerful, All-Mighty.  Show more

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :85 یعنی اللہ کے مددگار اور اس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انہیں حکومت و فرمانروائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجائے اقامت صلوٰۃ ہو ، ان کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو ، ان ... کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے ان کے دبانے میں استعمال ہو ۔ اس ایک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں اور کار فرماؤں کی خصوصیات کا جوہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے ۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :86 یعنی یہ فیصلہ کہ زمین کا انتظام کس وقت کسے سونپا جائے دراصل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔ مغرور بندے اس غلط فہمی میں ہیں کہ زمین اور اس کے بسنے والوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے وہ خود ہیں ۔ مگر جو طاقت ایک ذرا سے بیج کو تناور درخت بنا دیتی ہے اور ایک تناور درخت کو بیزم سوختنی میں تبدیل کر دیتی ہے ، اسی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جن کے دبدبے کو دیکھ کر لوگ خیال کرتے ہوں کہ بھلا ان کو کون ہلا سکے گا انہیں ایسا گرائے کہ دنیا کے لیے نمونۂ عبرت بن جائیں ، اور جنہیں دیکھ کر کوئی گمان بھی نہ کر سکتا ہو کہ یہ بھی کبھی اٹھ سکیں گے انہیں ایسا سر بلند کرے کہ دنیا میں ان کی عظمت و بزرگی کے ڈنکے بج جائیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: مسلمانوں کو مدینہ منورہ میں حکومت قائم کرنے اور کافروں کے خلاف لڑائی میں ان کی مدد کرنے کا مقصد اس آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ لوگ زمین میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی جان اور مال سے اللہ تعالیٰ کی عبادت خود بھی کریں گے، اور دوسروں کو بھی نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنے کا فریضہ انجام دیں...  گے۔ اس طرح یہ آیت ایک اسلامی ریاست کے بنیادی اغراض و مقاصد بیان فرما رہی ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:41) الذین۔ یا تو من ینصرہ سے بدل ہے یا اخرجوا کی صفت ہے یعنی جو اللہ کی مدد کرتے ہیں (یعنی اس کے دین کی یا اس کے رسولون کی ، اولیائوں کی ) اگر ہم انہیں اقتدار بخشیں تو۔۔ یا وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بلاوجہ نکالے گئے ایسے ہیں کہ اگر ہم انہیں اقتدار بخشیں تو ۔۔ ان مکناہم۔ مکنا ماضی جمع متکلم تمکین ... (تفعیل) مصدر ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اگر ہم ان کو اقتدار دیں۔ اگر ہم ان کو جمائو عطا کریں۔ اگر ہم ان کو حکومت دیں۔ عاقبۃ۔ عاقبت۔ انجام۔ آخر۔ عاقبۃ الامور سب کاموں کا انجام۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ یعنی ان کے کرنے کے کام یہ ہیں کہ اپنے ہاں نماز، زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کریں تاکہ لوگوں میں دینداری عام ہو اور استباری حق گئی، عدل و انصاف اور دوسری تمام نیکیاں پروان چڑھیں۔ اس آیت میں خلفاء اربعہ (رض) کی امامت کے برحق ہونے کی بھی دلیل پائی جاتی ہے کیونکہ جب اللہ تع... الیٰ نے حکومت و خودمختاری بخشی تو انہوں نے اپنی ساری توجہ انہی کاموں پر مرکوز کردی اس لئے پوری امت انہیں خلفاء راشدین (رض) کے نام سے یاد کرتی ہے۔ (کبیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ پس مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر یہ کیونکر کوئی کہہ سکتا ہے کہ انجام بھی ان کا یہی رہے گا، بلکہ ممکن ہے کہ اس کا عکس ہوجاوے چناچہ ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کا قتال اور اقتدار کشور کشائی یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں ان کے قتال اور اقتدار کا مقصد ” اللہ “ کے دین کی سر بلندی اور مظلوموں کی مدد کرنا ہے اور دنیا میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔ برسر اقتدار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے بچتے ہوئے اللہ کی زمین پر اللہ...  کا قانون نافذ کریں۔ جس میں اوّل نماز قائم کرنا اور لوگوں کو پابند نماز بنانا، زکوٰۃ ادا کرنا اور نظام زکوٰۃ نافذ کرنا۔ حکمران خود نیکی کے کام کریں اور لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور خود برائی سے بچیں لوگوں کو برائی سے منع کریں اور یہ عقیدہ رکھیں کہ ہر کام کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس فرمان کے شروع میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اقتدار عطا فرمائے انھیں یہ کام کرنے چاہییں۔ آخر میں فرمایا کہ انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہر کام کا انجام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ گویا کہ حکمرانوں کو ہر حال میں فکر آخرت کے ساتھ یہ تصور بھی رکھنا چاہیے، کہ حکمرانی کے نشہ میں آکر مغرور اور متکبر نہیں بننا کیونکہ حقیقی اقتدار اور اختیار اللہ ہی کے پاس ہے۔ تمام امور کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں کہہ کر مسلمانوں کو یہ عقیدہ دیا گیا ہے کہ اقتدار اور اختیار اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض ہوتا ہے۔ جو ہمیشہ کسی ایک کے پاس نہیں رہتا۔” اللہ “ جسے چاہے اقتدار سے نوازتا ہے اور جس کو چاہے محروم کردیتا ہے۔ البتہ اس کا اصول یہ ہے کہ وہ لوگوں کے افکار اور اعمال کے مطابق ان پر حکمران مقرر کرتا ہے جیسے لوگ ہونگے ویسے حکمران ہوں گے۔ نیک حکمران اس سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور وہ اپنے فرائض میں بالخصوص نظام صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا اجتماعی طور پر نفاذ کرتے ہیں اور لوگوں کو ہر قسم کی برائی اور بےحیائی سے روکنے کے ساتھ ساتھ نیکی اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اگر حکمران ظالم اور برے ہیں تو انہیں یہ فکر کرنی چاہیے کہ بیشک دنیا میں انہیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جس دن انہیں اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ اگر حکمران نیک ہیں تو انہیں اس سوچ کے ساتھ بلا خوف وخطر اپنی جدوجہد میں لگے رہنا چاہیے کہ ہمارا کام تو اپنی اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔ نتیجہ ہمارے رب کے ہاتھ میں ہے۔ یاد رہے کہ انفرادی اصلاح انفرادی کوشش سے ہوا کرتی ہے اور اجتماعی اصلاح اور ترقی صرف اور صرف اجتماعی کوشش سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ جس کے لیے اجتماعی جدوجہد اور نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو صالح حکمران اور ان کے اچھے ساتھیوں کے بغیر ممکن نہیں اس لیے حضرت عمر (رض) نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میرے دل کی آرزو ہے کہ میرے پاس ابو عبیدہ جیسے عمّال ہونے چاہیں۔ (از مؤلف مولانا عبدالروف جھنڈا نگری) نظام صلوٰۃ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً ) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے۔ “ (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ أَنَّہٗ یَجِدُعَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یقیناً میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں جب اکٹھی ہوجائیں۔ میں حکم دوں کہ نماز کے لیے اذان دی جائے پھر کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائے اور میں جماعت سے پیچھے رہنے والوں کے گھروں کو جلا کر راکھ کردوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے نماز کے بدلے موٹی ہڈی یا دو بہترین پائے ملیں گے تو ضرورعشاء کی نماز میں وہ حاضر ہوتا۔ “ نظام زکوٰۃ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ لَمَّا تُوُفِّیَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَاسْتُخْلِفَ اَبُوْ بَکْرٍ بَعْدَہُ وَکَفَرَ مَنْ کَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ لِاَبِیْ بَکْرٍ (رض) کَیْفَ تُقَاتِلُ النّٰاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَاِ الٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَمَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہُ وَنَفْسَہُ اِلَّا بِحَقِّہٖ وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ وَاللّٰہِ لَاُ قَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ فَاِنَّ الزَّکٰوۃَ حَقُّ الْمَالِ وَاللّٰہِ لَوْمَنَعُوْنِیْ عَنَاقًاکَانُوْا یُؤَدُّوْنَھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَقَاتَلْتُھُمْ عَلٰی مَنْعِھَا قَالَ عُمَرُ فَوَاللّٰہِ مَا ھُوَ اِلَّا رَاَیْتُ اَنَّ اللّٰہَ شَرَحَ صَدْرَاَبِیْ بَکْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ اَنَّہُ الْحَقُّ ۔ ) [ رواہ البخاری : باب الأَمْرِ بِقِتَال النَّاسِ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ مُحَمَّدٌ رَسُول اللَّہِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے اور آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور عرب کے کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابوبکر صدیق (رض) سے عرض کیا کہ آپ کیسے ان لوگوں سے جنگ کریں گے جبکہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے میں لوگوں سے اسوقت تک جنگ کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جس نے اس کا اقرار کرلیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اس نے مجھ سے اپنی جان اور مال کو بچالیا البتہ اسلام کے حق کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں ان لوگوں سے ضرور لڑائی کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں۔ کیونکہ زکوٰۃ مال پر فرض ہے اللہ کی قسم اگر لوگ مجھ سے بھیڑ کے بچے کو روک لیں گے جس کو وہ رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے تو میں اس کے روکنے پر ان سے قتال کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے اعتراف کیا کہ اللہ کی قسم ! مجھے اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر صدیق (رض) کے سینے کو جہاد کے لیے کھول دیا ہے۔ میں نے سمجھا کہ لڑنا حق ہے۔ “ قتال فی سبیل اللہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جو امیر کی اطاعت کرے گا اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ بلا شبہ امام ڈھال کی طرح ہے۔ اس کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل کرے تو اس کے لیے یہ باعث اجر ہوگا۔ اور اگر وہ اس کے برخلاف چلے تو اس کی سزا اس پر ہوگی۔ [ رواہ البخاری : باب یُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الإِمَامِ وَیُتَّقَی بِہِ ] برائی کے خلاف کوشش کرنا فرض ہے : (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ رَأَی مُنْکَرًا فَغَیَّرَہُ بِیَدِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَغَیَّرَہُ بِلِسَانِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِلِسَانِہِ فَغَیَّرَہُ بِقَلْبِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ ) [ رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا تو اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا اور اگر اس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں تو اسے اپنی زبان سے تو روکے تو وہ بھی بری ہوگیا اگر اس نے زبان سے روکنے کی ہمت نہیں تو اسے دل سے ناپسند جانے تو وہ بھی بری ہوگیا اور یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔ “ حدود اللہ کے نفاذ کی برکات : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ مَطَرِ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً فِيْ بِلَاد اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب إقامۃ الحدود ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی حدود میں سے کسی ایک حد کو نافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس دن مسلسل بارش کی بات نہیں بلکہ اس بارش سے مراد حسب ضرورت اور بروقت چالیس مرتبہ بارش کا ہونا مراد ہے جس ملک میں اس طرح بارشوں کا سلسلہ جاری رہے تو وہاں کے لوگوں کی صحت، پھلوں اور اناج کی کثرت اور برکات کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ اور موجودہ دور میں فی گھنٹہ بجلی کی بچت کا فائدہ اس سے الگ ہوگا جو کروڑوں روپے سے متجاوز ہے۔ مسائل ١۔ حکمرانوں کو ملک میں نماز، زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صاحب اقتدار لوگوں کے فرائض : ١۔ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بد کردار ہیں۔ (النور : ٥٥) ٢۔ خلافت کی ذمہ داریاں۔ (ص : ٢٦‘ الحج : ٤١) ٣۔ حکمرانوں کو زمین میں نماز، زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ( الحج : ٤١) ٤۔ فیصلے انصاف کے ساتھ انصاف کرنا۔ (المائدہ : ٤٢) ٥۔ حضرت داؤد کو حکم کہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا۔ (ص : ٢٦)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا کہ (وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرْ ) (اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے) مسلمانوں کا ابتدائی زمانہ دکھ تکلیف کا تھا مکہ مکر مہ چھوڑنا پڑا پھر اسی مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے زمین میں اقتدار نصیب فرمایا زمین کے بہت بڑے حصہ پر ان کی حکومت قائم رہی اور ا... ب بھی دنیا کے بہت حصہ پر ان کا اقتدار ہے گو اقتدار کے مقتضا پر عمل نہیں کرتے۔ سب کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے، اس نے مسلمانوں کو خوب بڑھایا اقتدار سے نوازا، کافروں کے مقابلہ میں ان کا انجام اچھا ہوا اور آخرت میں ہر مومن کا انجام تو اچھا ہے ہی۔ فللہ الحمد والمنۃ  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ ” اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ الخ “ یہ ” مَنْ یَّنْصرُ ہٗ “ سے بدل ہے یعنی اللہ تعالیٰ جن لوگوں کی مدد کرتا ہے ان کی صفات یہ ہیں کہ اگر ان کو زمین کی حکومت سونپ دی جائے تو بھی وہ راہ حق سے سر مو انحراف نہ کریں اور زمین پر اللہ کے دین کو نافذ کریں اور زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کے قانون کو رائ... ج کردیں۔ دنیا میں نیکی اور صلاح وتقوی کو فروغ دیں۔ برائی اور جرم و گناہ سے اللہ تعالیٰ کی زمین کو پاک کریں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت خلفائے راشدین (رض) کی حقانیت خلافت کی دلیل ہے اور اس آیت میں مہاجرین کی پاکیزہ سیرت کی پیش گوئی ہے۔ ویکون (الذین ان مکنھم فی الارض) اربعۃ من اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لم یکن فی الارض غیرھم (قرطبی ج 12 ص 73) ۔ ھو اخبار من اللہ عما ستکون علیہ سیرۃ المھاجرین ان مکنھم فی الارض و بسط لھم فی الدنیا وکیف یقومون بامر الدین و دلیل صحۃ امر الخلفاء الراشدین الخ (مدارک ج 3 ص 80) ۔ علامہ خازن رقمطراز ہیں کہ ” اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ “ چونکہ ان لوگوں ہی کی صفت ہے جن کا پہلے ” اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ “ میں ذکر ہوچکا ہے اس لیے یہاں صرف مہاجرین ہی مراد ہیں۔ وقیل ھم المھاجرون و ھو الاصح لان قولہ (والذین ان مکنھم) صفۃ لمن تقدم ذکرھم وھو قولہ (الذین اخرجوا من دیارھم) وھم المھاجرون (خازن ج 5 ص 20) ۔ و فیہ دلیل صحۃ امر الخلفاء الاشدین (رض) عنھم لان الایۃ مخوصۃ بالمھاجرین لانھم المخرجون بغیر حق و الممکنون فی الارض منھم الخلفاء دون غیرھم فلو لم تثبت الاوصاف الباقیۃ لزم الخلف فی المقال تعالیٰ للہ سبحانہ عنہ (روح ج 17 ص 164) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) یہ وہ مظلوم لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں ذی اقتدار اور بااختیار کردیں تو یہ لوگ نماز کی پابندی کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور لوگوں کو نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بری باتوں سے منع کریں اور تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے یعنی اگر مسلمان اور اہل حق کو غلبہ حاصل ہوجائے تو وہ خ... ود بھی نمازوں کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں اور دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دیں اور بدی سے بچائیں۔ چنانچہ یہ بات پوری ہوئی۔ آیت سے صحابہ (رض) اور مہاجرین و انصار اور حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صداقت و حقانیت ثابت ہے۔ آیت کے آخری حصہ کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں یا تو یہ مطلب ہے کہ اگرچہ مسلمان آج کمزور ہیں اور کافر غالب ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے کہ مسلمانوں کو غالب اور منصور کردے اور کفار کمزور ہوجائیں۔ یا جو حضرت شاہ صاحب (رح) نے فرمایا مطلب یہ ہو یعنی یہ امت دین قائم کریں گے۔ ایک مدت آخر اللہ ہی جانے۔ 12 ۔ چونکہ کفار جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرتے تھے جیسا کہ سورت کی ابتداء میں ذکر ہوا اس جھگڑے سے محض آپ کی تکذیب تھی۔ اس لئے آگے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی فرماتے ہیں۔  Show more