Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 48

سورة الحج

وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَمۡلَیۡتُ لَہَا وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذۡتُہَا ۚ وَ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ ﴿۴۸﴾٪  13

And for how many a city did I prolong enjoyment while it was committing wrong. Then I seized it, and to Me is the [final] destination.

بہت سی ظلم کرنے والی بستیوں کو میں نے ڈھیل دی پھر آخر انہیں پکڑ لیا ، اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And many a township did I give respite while it was given to wrongdoing. Then I seized it (with punishment). And to Me is the (final) return (of all). Ibn Abi Hatim recorded from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said: يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الاَْغْنِيَاءِ بِنِصْفِ يَوْمٍ خَمْسِمِايَةِ عَام The poor among the Muslims will enter Paradise half a day before the rich -- five hundred years. This was recorded by At-Tirmidhi and An-Nasa'i from the Hadith of Ath-Thawri from Muhammad bin `Amr. At-Tirmidhi said, "Hasan Sahih." Abu Dawud recorded at the end of Book of Al-Malahim in his Sunan from Sa`d bin Abi Waqqas that the Prophet said: إِنِّي لاََرْجُو أَنْ لاَ تَعْجِزَ أُمَّتِي عِنْدَ رَبِّهَا أَنْ يُوَخِّرَهُمْ نِصْفَ يَوْم I hope that it will not be too much for my Ummah if Allah delays them for half a day. It was said to Sa`d, "What does half a day mean?" He said, "Five hundred years."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

48۔ 1 اسی لئے یہاں قانون مہلت کو پھر بیان کیا ہے کہ میری طرف سے عذاب میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے، تاہم میری گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، نہ کہیں فرار ہوسکتا ہے۔ اسے لوٹ کر بالآخر میرے ہی پاس آنا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٦] یعنی اگر کسی ظالم قوم پر عذاب آنے میں تاخیر ہوئی یا سرے سے اس پر عذاب آیا ہی نہیں تو بھی وہ ہماری گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے اور اخروی زندگی میں انھیں ان کے اعمال کی پوری پوری سزا مل کے رہے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اَمْلَيْتُ لَهَا ۔۔ : اس آیت میں قانون مہلت کو دہرایا ہے کہ میں نے کتنی ہی بستیوں کو ان کے ظلم کے باوجود تمہاری طرح مہلت دی، پھر میں نے انھیں پکڑ لیا۔ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ : یعنی اگر کسی ظالم قوم پر عذاب آنے میں دیر ہوئی، یا دنیا میں سرے سے اس پر عذاب آیا ہی نہیں تو بھی وہ ہماری گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے، ہر حال میں انھیں ہماری ہی طرف آنا ہے، وہاں سب وعدے پورے ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَاَيِّنْ مِّنْ قَرْيَۃٍ اَمْلَيْتُ لَہَا وَہِىَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذْتُہَا۝ ٠ۚ وَاِلَيَّ الْمَصِيْرُ۝ ٤٨ۧ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں ملي ( مهلت) الْإِمْلَاءُ : الإمداد، ومنه قيل للمدّة الطویلة مَلَاوَةٌ من الدّهر، ومَلِيٌّ من الدّهر، قال تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] وتملّيت دهراً : أبقیت، وتملّيت الثَّوبَ : تمتّعت به طویلا، وتملَّى بکذا : تمتّع به بملاوة من الدّهر، ومَلَاكَ اللهُ غير مهموز : عمّرك، ويقال : عشت مليّا . أي : طویلا، والملا مقصور : المفازة الممتدّة «1» ، والمَلَوَانِ قيل : اللیل والنهار، وحقیقة ذلک تكرّرهما وامتدادهما، بدلالة أنهما أضيفا إليهما في قول الشاعر : 428- نهار ولیل دائم ملواهما ... علی كلّ حال المرء يختلفان «2» فلو کانا اللیل والنهار لما أضيفا إليهما . قال تعالی: وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف/ 183] أي : أمهلهم، وقوله : الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد/ 25] أي : أمهل، ومن قرأ : أملي لهم «3» فمن قولهم : أَمْلَيْتُ الکتابَ أُمْلِيهِ إملاءً. قال تعالی: أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران/ 178] . وأصل أملیت : أمللت، فقلب تخفیفا قال تعالی: فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] ، وفي موضع آخر : فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة/ 282] . ( م ل ی ) الا ملاء کے معنی امداد یعنی ڈھیل دینے کے ہیں اسی سے ملا وۃ من الدھر یا ملی من الدھر کا محاورہ ہے جس کے معنی عرصہ دراز کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ تملیت الثوب میں نے اس کپڑا سے بہت فائدہ اٹھایا ۔ تملیٰ بکذا اس نے فلاں چیز سے عرصہ تک فائدہ اٹھا یا ۔ ملاک اللہ ( بغیر ہمزہ ) اللہ تیری عمر دراز کرے ۔ چناچہ اسی سے غشت ملیا کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں تم عرصہ دراز تک جیتے رہو ۔ الملا ( اسم مقصود ) وسیع ریگستان ۔ بعض نے کہا ہے کہ الملوان کے معنی ہیں لیل ونہار مگر اصل میں یہ لفظ رات دن کے تکرار اور ان کے امتداد پر بولا جاتا ہے ۔ کیونکہ لیل ونہار کی طرف اس کی اضافت ہوتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( 413 ) مھار ولیل دائم ملوا ھما علیٰ کل جال المرء یختلفان رات دن کا تکرار ہمیشہ رہتا ہے اور ہر حالت میں یہ مختلف ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر ملوان کا اصل لیل ونہار ہوات تو ان کی ضمیر کی طرف مضاف ہو کر استعمال نہ ہوتا اور آیت کریمہ : ۔ وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [ الأعراف/ 183] اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں ۔ میری تدبیر ( بڑی ) مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی ( بڑی مضبوط ہے میں املی لھم کے معنی مہلت دینے کے ہیں ۔ نیز فرمایا : ۔ أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ [ آل عمران/ 178] کہ ہم ان کو مہلے دیئے جاتے ہیں تو یہ ان کے حق میں اچھا ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَأَمْلى لَهُمْ [ محمد/ 25] طول ( عمر کا وعدہ دیا ۔ میں املا کے معنی امھل یعنی مہلت دینے کے ہیں ۔ ایک قراءت میں املا لھم ہے جو املیت الکتاب املیہ املاء سے مشتق ہے اور اس کے معنی تحریر لکھوانے اور املا کروانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان/ 5] اور وہ صبح شام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اصل میں املیت املک ( مضاف ) ہے دوسرے لام کو تخفیف کے لئے یا رسی تبدیل کرلیا گیا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ [ البقرة/ 282] تو جو اس کا ولی ہو وہ انصاف کے ساتھ مضمون لکھوائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٨) اور بہت سی بسیتوں والے ہیں جن کو میں نے ایک معینہ مدت کے لیے مہلت دی ہے اور وہ ان ہی کی طرح کفر وشرک کی باتیں کرتے تھے، پھر میں نے ان کو دنیا میں بھی سزا دی اور سب کو آخرت میں میری طرف واپس آنا ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:48) املیت۔ ماضی واحد متکلم۔ میں نے مہلت دی۔ میں نے ڈھیل دی۔ املاء (افعال) مصدر۔ المصیر۔ اسم ظرف مکان صیر سے (باب ضرب) لوٹنے کی جگہ، قرار گاہ، ٹھکانا۔ المصیر۔ مصدر لوٹنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی کیا ڈھیل دینے سے وہ کہیں بھاگے ؟ کسی کو جلدی پکڑا جائے یا دیر سے۔ آخر پلٹ کر تو سب کو ہماری طرف ہی آنا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی وہ بھی استعجال اور استہزاء کرتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وکاین من ……المصیر (٨٤) یہاں تک تو اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا بیان تھا جو اس نے تکذیب کرنے والوں کے لئے اس کائنات میں جاری کر رکھی ہے اور اسی کے مطابق امم سابقہ کو ہلاک کیا گیا۔ اب خطاب کا رخ رسول اللہ کی طرف جاتا ہے کہ آپ لوگوں کو بہرحال قیامت کے انجام بد سے ڈراتے ہی رہیں اور صاف صاف کہہ دیں کہ میں تو نذیر مبیں ہوں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63:۔ ” وَ کَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ الخ “ تخویف دنیوی ہے۔ تفسیر کے لیے حاشیہ 58، 95 دیکھئے۔ یہ اگلی آیت میں ترغیب الی الایمان کے لیے تمہید ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ منکرین کو پکڑنے پر قادر ہے جس طرح اس نے گذشتہ زمانوں میں معاندین کو پکڑا اس لیے اب تم دعوت توحید کو قبول کرلو ورنہ تم بھی پہلے معاندین کی طرح پکڑے جاؤ گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(48) اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی تھی اور ان کی حالت یہ تھی کہ انہوں نے ظلم اور نافرمانی کا شیوہ اختیار کررکھا تھا پھر میں نے ان بستیوں کو پکڑ لیا اور ہر ایک کی بازگشت میری ہی طرف ہے اور ہر ایک کو میری طرف واپس ہونا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی ہزار دن کا کام ایک دن میں کرسکتا ہے یہ مما تعدون پر شاہ صاحب (رح) نے لکھا ہے۔ 12 مطلب یہ ہے کہ جب میری طرف واپس ہونا ہے اس وقت کفر کی پوری طرح سزا دی جائے گی۔