Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 49

سورة الحج

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَاۤ اَنَا لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۴۹﴾

Say, "O people, I am only to you a clear warner."

اعلان کر دو کہ لوگو! میں تمہیں کھلم کھلا چوکنا کرنے والا ہی ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Recompense of the Righteous and the Unrighteous Allah said to His Prophet, when the disbelievers asked him to hasten on the punishment for them: قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ Say: "O mankind! I am (sent) to you only as a plain warner." meaning, `Allah has sent me to you to warn you ahead of the terrible punishment, but I have nothing to do with your reckoning. Your case rests with Allah: if He wills, He will hasten on the punishment for you; and if He wills, He will delay it for you. If He wills he will accept the repentance of those who repent to Him; and if He wills, He will send astray those who are decreed to be doomed. He is the One Who does whatsoever He wills and wants and chooses. لااَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ There is none to put back His judgement and He is swift at reckoning. (13:41) ... إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ

اطاعت الٰہی سے روکنے والوں کا حشر چونکہ کفار عذاب مانگا کرتے تھے اور ان کی جلدی مچاتے رہتے تھے ان کے جواب میں اعلان کرایا جارہا ہے کہ لوگو! میں تو اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ تمہیں رب کے عذابوں سے جو تمہارے آگے ہیں چوکنا کردوں ، تمہارا حساب میرے ذمے نہیں ۔ عذاب اللہ کے بس میں ہے چاہے اب لائے چاہے دیر سے لائے ۔ مجھے کیا معلوم کہ تم میں کس کی قسمت میں ہدایت ہے اور کون اللہ کی رحمت سے محروم رہنے والا ہے چاہت اللہ کی ہی پوری ہونی ہے حکومت اسی کے ہاتھ ہے مختار اور کرتا دھرتا وہی ہے کسی کو اس کے سامنے چوں چرا کی مجال نہیں وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔ میری حیثیت تو صرف ایک آگاہ کرنے والے کی ہے ۔ جن کے دلوں میں یقین وایمان ہے اور اسکی شہادت انکے اعمال سے بھی ثابت ہے ۔ انکے کل گناہ معافی کے لائق ہیں اور ان کی کل نیکیاں قدردانی کے قابل ہیں ۔ رزق کریم سے مراد جنت ہے ۔ جو لوگ اوروں کو بھی اللہ کی راہ سے اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روکتے ہیں وہ جہنمی ہیں ، سخت عذابوں اور تیز آگ کے ایندھن ہیں ، اللہ ہمیں بچائے ۔ اور آیت میں ہے کہ ایسے کفار کو انکے فساد کے بدلے عذاب پر عذاب ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یہ کفار و مشرکین کے مطالبہ پر کہا جا رہا ہے کہ میرا کام تو عذاب بھیجنا، یہ اللہ کا کام ہے، وہ جلدی گرفت فرما لے یا اس میں تاخیر کرے، وہ اپنی حسب و مشیت و مصلحت یہ کام کرتا ہے۔ جس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس خطاب کے اصل مخاطب اگرچہ اہل مکہ ہیں۔ لیکن چونکہ آپ پوری نوح انسانی کے لئے رہبر اور رسول بن کر آئے تھے، اس لئے خطاب یَا اَیُّھَا لنَّاسُ ! کے الفاظ سے کیا گیا، اس میں قیامت تک ہونے والے وہ کفار و مشرکین آگئے جو اہل مکہ کا سا رویہ اختیار کریں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] یعنی یہ بات میرے اختیار میں نہیں کہ اگر تم عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کرو تو میں فوراً وہ عذاب لے آؤں۔ میرا کام صرف تمہیں تمہارے انجام سے ڈرانا ہے اور یہ کام میں پوری ذمہ داری سے سرانجام دے رہا ہوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ لوگ آپ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک جواب تو اپنا قانون مہلت ذکر فرمایا، یہ آیت دوسرا جواب ہے۔ فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ میں تو صرف تمہیں ڈرانے والا ہوں، میرا کام کفر کے برے انجام سے خبردار اور آگاہ کرنا ہے، عذاب جلدی لانا یا دیر سے لانا میرا کام نہیں، یہ مجھے بھیجنے والے کا کام ہے۔ میں صرف پیغام پہنچانے والا ہوں، خود اللہ نہیں ہوں۔ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : یعنی تمام دنیا کے لوگوں کو پیغام پہنچا دو خواہ کسی قوم یا ملک سے تعلق رکھتے ہوں، خواہ قیامت تک کسی زمانے کے لوگ ہوں۔ دیکھیے سورة سبا (٢٨) ۔ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ : یعنی میں تمہیں ڈرانے والا (اور بشارت دینے والا) ہوں، تمہیں کھول کر ہر وہ چیز بتاتا ہوں جو تمہارے لیے نقصان دہ ہے، تاکہ تم اس سے بچ جاؤ اور ہر وہ چیز بتاتا ہوں جو تمہارے فائدے کی ہے، تاکہ تم اسے اختیار کرلو۔ یہاں ” نَذِيْرٌ“ کے ساتھ ” بَشِیْرٌ“ بھی ہے مگر الفاظ میں اسے حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ مقام اس عذاب سے ڈرانے کا ہے جسے وہ جلدی مانگ رہے ہیں۔ یہاں ” بَشِیْرٌ“ کو الگ اس لیے ذکر نہیں فرمایا کہ ہر نذیر بشیر بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس کی خبردار کردہ چیزوں سے بچنے کا نتیجہ خوشی کی خبر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ” نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ“ کے ضمن میں ” بَشِیْرٌ“ کے تذکرے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد پہلی آیت میں بشارت ہے اور دوسری میں نذارت۔ (بقاعی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٤٩ۚ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) آپ فرما دیجیے مکہ والو میں تمہارے لیے اللہ کی طرف سے ایک ایسی زبان میں جس کو تم جانتے ہو ڈرانے والا رسول ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (قُلْ یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّمَآ اَنَا لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ) ” ( کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہی اسی لیے ہے کہ میں تم لوگوں کو آنے والی زندگی کے مراحل کی تمام تفصیلات سے واضح طور پر خبردار کر دوں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

94. That is, I am merely a warner and not the maker of your destinies. It is Allah Who passes judgment and decides about the punishment.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :94 یعنی میں تمہاری قسمتوں کے فیصلے کرنے والا نہیں ہوں ، بلکہ صرف خبردار کرنے والا ہوں ۔ میرا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ شامت آنے سے پہلے تم کو متنبہ کر دوں ۔ آگے فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے ۔ وہی طے کرے گا کہ کس کو کب تک مہلت دینی ہے اور کب کس صورت میں اس پر عذاب لانا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٩۔ ٥١:۔ مشرکین مکہ مسخراپن سے عذاب کی جلدی جو کیا کرتے تھے اوپر کی آیتوں میں اس کا ذکر تھا اس لئے ان آیتوں میں فرمایا ‘ اے رسول اللہ کے ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تو فقط عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہوں ‘ یہ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ وہ عذاب کب آوے گا اور جس طرح میں عذاب سے ڈراتا ہوں اسی طرح یہ خوشخبری بھی سناتا ہوں کہ جو کوئی شرک سے باز آن کر خالص اللہ کو اپنا معبود جانے گا اور مرضی الٰہی کے موافق نیک کاموں میں لگا رہے گا تو شرک کے نیچے کے کچھ گناہ کر کے اگر ایسا شخص بغیر توبہ کے مرجاوے گا تو اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو ایسے شخص کے گناہوں کو معاف کر کے اسے جنت میں داخل کر دے گا ہاں جو لوگ بلاسند باتوں کے کلام الٰہی کی آیتوں کو جھٹلانے کی کوشش میں عمر بھر لگے رہیں گے وہ بلاشک دوزخ کے قابل ٹھہریں گے ‘ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ١ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کو گناہوں کے بخشنے پر قادر جان کر مرے گا اور اس شخص کے نامہ اعمال میں بغیر توبہ کا شرک نہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کو ایسے شخص کے گناہوں کو معاف کردینے میں کوئی دریغ نہ ہوگا اسی حدیث سے شرک کے نیچے کے بغیر توبہ گناہوں کے معاف ہوجانے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الاستغفارو التوبہ کی دوسری فصل میں یہ روایت بحوالہ شرح السنہ ہے راقم کو صحیح مسلم میں نہیں مل سکی (ع ح )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:49) انما۔ بےشک، تحقیق۔ ان حرف مشبہ بالفعل ہے اور ما کافہ ہے جو حصر کے لئے آتا ہے اور ان کو عمل لفظی سے روک دیتا ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ یعنی خواہ وہ مذاق اڑائیں مگر پیغمبر کا فرض ہے کہ وہ ” انذار “ کو ترک نہ کرے۔ (کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٧) اسرارومعارف آپ فرما دیجئے لوگو میرا منصب عالی یہ ہے کہ جس راہ پر تو چل رہے ہو یعنی کفر ونافرمانی اس کے انجام بد سے بروقت مطلع کردوں اور بس عذاب لانا نہ میرا کام ہے نہ میں نے اس کا دعوی کیا ہے ہاں جس راہ پر تم چل رہے ہو وہ عذاب ہی پہ پہنچتی ہے اور صرف وہ لوگ محفوظ رہیں گے جو ایمان لے آئے اور اللہ جل جلالہ کی اطاعت اختیار کرلی انھیں اللہ جل جلالہ کی بخشش بھی نصیب ہوگی اور بہترین نعمتیں بھی مگر جو بدبخت اپنی اصلاح کے بجائے اللہ جل جلالہ کے نبی کی بات کو جھٹلانے اور اللہ جل جلالہ کے احکام کی تردید کرنے کی کوشش کرتے رہے وہ یقینا دوزخ میں رہیں گے (نبی اور رسول) اور یہ کوئی نئی بات نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی جتنے نبی اور رسول مبعوث ہوئے یہاں نبی اور رسول دو الگ الگ ارشاد فرمائے گئے کہ نبی بھی صاحب وحی ہوتا ہے مگر کسی پہلی نازل کردہ شریعت ہی پر عمل کرتا ہے اور رسول صاحب وحی صاحب شریعت ہوتا ہے یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا تو شیطان نے ان کے ارشادات میں غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے اپنے ادہام ٹھونسنے کی کوشش کی لیکن شیطان کی بات نبی کے حوالے سے کبھی نہ چل سکی اور اللہ جل جلالہ نے اسے مٹادیا جبکہ نبی کے فرمودات جو دراصل ارشادات الہی ہوتے تھے وہ باقی رہے ۔ اللہ جل جلالہ سب حال سے باخبر اور صاحب حکمت ہے ، ۔ (بیمار دل) اس کی قدرت کاملہ ایسے امور کو قطعا روک دیتی مگر ایسے لوگوں کے لیے جن کے قلوب بیمار ہیں اور سخت ہیں کہ کفر وشرک قلب کا شدید ترین مرض اور اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اس کی سختی کا سبب ہیں ، اللہ جل جلالہ نے ایسے ادہام کو وجہ ابتلا اور آزمائش کا سبب بنا دیا ہے اور ایسے ظالم ان شیطانی وسواس کو سہارا بنا کر مخالفت میں دور نکل گئے مگر جن خوش نصیبوں کو ایمان عطا ہوتا ہے انہیں یہ علم بھی نصیب ہوجاتا ہے کہ اللہ جل جلالہ کے ارشادات جو اس کے نبی کی معرفت نصیب ہوتے ہیں اور وہ ان پر ایمان لاتے ہیں نیز ان کے دلوں پر ان آیات کی برکت سے کیفیات وارد ہوتی ہیں جو معرفت الہی میں ترقی پیدا کرکے شوق اطاعت بڑھاتی چلی جاتی ہیں اور یوں اللہ کریم اہل ایمان کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق بخشتا ہے یعنی ان کیفیات کو صراط مستقیم پر پورے ذوق سے چلنے کا باعث بنا دیتا ہے جب کہ انکار کرنے والے اور کفار اپنے آپ کو دھوکے میں ہی رکھتے ہیں تاآنکہ انھیں اچانک قیامت آلے یا اللہ کے عذاب کی گرفت میں آجائیں جس سے کفار کو بچنے کی کوئی راہ نہ ملے گی اور قیامت کو تو حکومت صرف اللہ جل جلالہ کی ہوگئی جو لوگ ایمان لائے اور اطاعت کی وہ جانت کے باغوں اور سبزہ زاروں میں داخل ہوں جبکہ کافر اور انکار کرنے والے بہت ہی ذلت کے عذاب سے دو چار ہوں گے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 49 تا 57 نذیر مبین (کھلا ہوا ڈرانے والا) رزق کریم (عزت کا رزق) سعوا (جودوڑے) ‘ معجزین (عاجزی کرنے والا۔ نیچا دکھانے والے) ‘ تمنی (اس نے آرزو کی۔ اس نے بات کہی) ‘ ینسخ (وہ منسوخ کرتا ہے۔ وہ ہٹا تا ہے) ‘ یحکم (وہ مضبوط کرتا ہے) ‘ القاسیۃ (سخت) ‘ شقاق (ضد۔ ہٹ دھرمی) ‘ مریۃ (شک و شبہ) ‘ بغتۃ (اچانک) عقیم (منحوس) ۔ ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کہیے اے لوگو ! میں نہایت واضح طریقہ پر صاف صاف ان اعمال کے برے نتائج سے آگاہ اور خبردار کر رہا ہوں جن کی صداقت کو تم نے نظر انداز کر رکھا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لاکر عمل صالح کی زندگی اختیار کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے ہاں مغفرت کا سامان ہے بلکہ (دنیا اور آخرت میں) عزت و آبرو کے ساتھ ان کو اتنا کچھدیا جائے گا جس کا اس دنیا میں تصورممکن نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ حق و صداقت کو جھٹلانے نیچا دکھانے اور حق کی آواز کو دبانے کے لئے بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں انکا ٹھکانا جہنم ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوایا جارہا ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی رسول اور نبی گذرے ہیں جب انہوں نے آنے والی حقیقی زندگی جس کو کفار نے بےحقیقت سجھ کر نظر انداز کیا ہوا تھا اس کے برے نتائج سے آگاہ کرنے اور حق و صداقت کی باتوں کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں تو شیطان ان کی باتوں میں شبہ پیدا کرنے کے لئے اپنی طرف سے ملاوٹ کی کوشش کرتا ہے تاکہ رسول اور نبی کی باتوں کو توڑ مروڑ کر لوگوں کے کانوں تک پہنچایا جائے۔ بہت سے لوگ اس کے فریب اذر دھوکے میں آکر کہہ دیتے ہیں کہ واقعی اس کا وہی مطلب ہے جو شیطانوں کی طرف سے بیان کیا جارہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ شیطان کے اس فریب کے پردے کو چاک کرنے کے لئے وحی (خفی) نازل کرتا ہے تاکہ شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ جو لوگ ایمان اور عمل صالح کے پیکر ہوتے ہیں وہ تو شیطانکے پرو پیگنڈے اور ملاوٹ کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے وہ الفاظ کے فریب اور اس کے ظاہری پہلوؤں میں اٹکنے کے بجائے باتوں کی گہرائی اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو علم ‘ عقل ‘ اور فہم و فراست سے کورے ہوتے ہیں وہ شیطان کے مکرو فریب میں پھنس جاتے ہیں۔ ان کی نفسانی خواہشات ان کو چاروں طرف سے اس طرح جکڑ لیتی ہیں کہ ان کے دلوں کے روگ اور مزاجوں کی سختی ان کو ہر صحیح بات کو سمجھنے سے روک دیتی ہے اور ان کو صحیح راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ وہ ہمیشہ شک میں پڑے رہتے ہیں فرمایا کہ یا تو ان پر اچانک قیامت آجائے گی یا ان پر ایک ایسے دکا عذاب نازل ہوجائے گا جس سے جان چھڑا ناممکن نہ ہوگا۔ فرمایا کہ قیامت کا دن دور نہیں ہے۔ یہ وہ دن ہوگا۔ جس میں ساری طاقت و قوت اور حکومت و سلطنت صرف ایک اللہ کی ہوگی جو ان کے درمیان فیصلہ فرمادے گا۔ جو ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والے ہیں وہ تو راحت بھری جنتوں میں داخل کئے جائیں گے اور کفر و نکار کی روش پر چلنے والے اور جو اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے ہوں گے ان پر ذلت والا عذاب مسلط کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عذاب کا بار بار مطالبہ کرنے پر کفار کو دوسرا جواب۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے بارے میں دی گئی ڈھیل پر اہل مکہ اس قدر دلیر ہوئے کہ وہ سرورگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الزام دیتے کہ تم جھوٹے ہو اس لیے ہم پر عذاب نازل نہیں ہوا ؟ اس پر ایک طرف سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے منصب کے حوالے سے سمجھایا گیا کہ عذاب نازل کرنا آپ کے اختیار میں نہیں آپ کا کام فقط یہ ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے برے کردار کے نتیجہ میں بھیانک مستقبل کے بارے میں کھلے الفاظ میں ڈرائیں۔ یہ کام آپ پوری تندہی سے کر رہے ہیں جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں نا وہ ہماری آیات کو دلائل کی بنیاد پر غلط ثابت کرسکتے ہیں اور نہ ہی عذاب نازل کرنے یا اسے ٹالنے میں ہمیں بےبس کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے جس میں انھیں داخل کیا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے صالح اعمال اختیا رکیے ان سے جو کوتاہیاں سرزد ہونگی۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرتے ہوئے باعزت اور بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ یہاں رزق کریم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جس سے مراد دنیا میں حلال و طیب روز ی اور آخرت میں جنت کی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَی عَہْدِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَصَلَّی، قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ ، رَأَیْنَاکَ تَنَاوَلُ شَیْءًا فِی مَقَامِکَ ، ثُمَّ رَأَیْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ قَالَ إِنِّی أُرِیتُ الْجَنَّۃَ ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْہَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُہُ لأَکَلْتُمْ مِنْہُ مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا) [ رواہ البخاری : باب رفع البصر الی الامام فی الصلوٰۃ ] حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیْان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی، لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اس جگہ کسی چیز کو پکڑا پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے۔ آپ نے فرمایا : میں نے جنت کو دیکھا تو اس کے انگوروں کے ایک خوشے کو پکڑ لیا اور اگر میں اسے پکڑے رہتا تو تم قیامت تک اسے کھاتے رہتے۔ (فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ ۔ وَطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ ۔ وَظِلٍّ مَمْدُوْدٍ ۔ وَمَاءٍ مَّسْکُوْبٍ ۔ وَفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ ۔ لاَ مَقْطُوْعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍ ) [ الواقعہ : ٢٨ تا ٣٣] ” وہ وہاں ہوں گے جہاں بےخار بیریاں ہوں گی، اور تہ بہ تہ کیلے ہوں گے، اور لمبا سایہ ہوگا۔ اور چلتا ہوا پانی ہوگا۔ اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ جو نہ ختم ہوں گے۔ اور نہ ان کی روک ٹوک ہوگی۔ “ (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ ) [ راہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار ] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔ “ مسائل ١۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا تھا۔ ٢۔ کوئی زندہ یا مردہ شخصیت اللہ تعالیٰ کو کسی معاملے میں مجبور نہیں کرسکتی۔ ٣۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور ٹھکراتے ہیں ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے۔ ٤۔ صالح کردار ایمانداروں کی کوتاہیوں کو اللہ تعالیٰ معا ف کرے گا اور انھیں رزق کریم عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مومنوں کے انجام کا فرق : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ : ١٨) ٢۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوسکتے۔ (الحشر : ٢٠) ٣۔ سیدھا اور الٹا چلنے والا برابر نہیں ہوسکتا۔ (الملک : ٢٢) ٤۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتا۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہوسکتے۔ (فاطر : ٢٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل یایھا ……الجحیم (١٥) یہاں قرآن مجید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فریضے کو صرف خبردار کرنے تک محدود کردیتا ہے۔ انما انا لکم نذیر مبین (٢٢ : ٩٣) ” میں تو صرف وہ شخص ہوں جو وقت سے پہلے خبردار کردینے والا ہو۔ “ کیونکہ حالات ایسے تھے کہ لوگ تکذیب کر رہے تھے۔ مذاق کر رہے تھے اور یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ جس عذاب سے آپ ڈراتے ہیں اسے جلدی ہی لے آئیں ! اس لئے بتایا گیا کہ میں تو صرف ڈرانے والا ہوں اور جو لوگ میری بات کو مان لیں گے اور پھر ایمان کے تقاضے بھی پورے کریں یعنی وعملوا الصلحت (٢٢ : ٠٥) ” نیک عمل کریں “ تو ان کی جزاء یہ ہوگی کہ اللہ ان کے سابقہ گناہ معاف کر دے گا اور رزق کریم (٢٢ : ٠٥) رزق کریم ” عزت کی روزی۔ “ یعنی ان کے رزق کا ایسا ذریعہ ہوگا جو باعزت ہوگا اور ذریعہ بھی صاف ہوگا۔ رہے وہ لوگ جو اللہ کی آیات کو لوگوں کے دلوں تک پہنچنے سے روکتے ہیں اور عوام کو ان پر عمل پیرا ہونے سے بھی روکتے ہیں۔ اللہ کی آیات سے مراد سچائی کے دلائل اور اللہ کی شریعت ہے ، تو ایسے لوگوں کو اللہ نے جہنم کا مالک بنا دیا ہے۔ ابھی ملکیت اللہ نے ان کو دی ہے۔ یعنی اہل ایمان کے لئے تو رزق کریم ہے اور ان کے لئے جہنم کے مالکانہ حقوق ہیں۔ اللہ تعالیٰ دعوت اسلامی کو جھٹلانے والوں کی تکذیب سے بچاتے ہیں اور اس کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ دعوت اسلامی کو شیطان کی سازشوں سے بھی بچاتے ہیں۔ رسول بہرحال بشر ہوتے ہیں اور انسانوں کی کچھ آرزوئیں ہوتی ہیں۔ شیطان دعوت اسلامی کے حاملین تک ان آرزئوں اور خواہشات کی راہ سے پہنچتا ہے۔ رسول اگرچہ معصوم ہوتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں چونکہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی دعوت جلدی پھیلے ، اس کو کامیابی حاصل ہو ، اس راہ میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہوں ، شیطان ایک داعی کی ان معصومانہ خواہشات کی راہ سے حملہ آور ہوتا ہے اور دعوت کو اس کے اصول اور اس کی اقدار و روایات سے ہاٹنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے رسولوں کے کام پر نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے اس لئے وہ ان شیطانی چالوں کو باطل کردیتا ہے ، رسولوں کو بتا دیتا ہے کہ دعوت اسلامی کے اصول یہ ہیں ، اس کے پیمانے یہ ہیں۔ اس طرح اللہ دعوت کے دلائل کو محکم کردیتا ہے اور دعوت کے سلسلے میں تمام شبہات کو دور کردیتا ہے اور اس کی قدریں اور ذرائع متعین کردیئے جاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے اور معاندین کے لیے عذاب جہنم ہے ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو بتادیں کہ میں ایک ڈرانے والا ہیں ہوں، ڈرانا اور واضح طور پر سب کچھ بیان کردینا یہ میرا کام ہے منوانا اور ہاتھ پکڑ کر عمل کروانا میرا کام نہیں اور عذاب لانا بھی میرا کام نہیں مجھ سے عذاب لانے کی جلدی کرنا تمہاری حماقت اور جہالت ہے، میری دعوت و تبلیغ پر جو بھی ایمان لے آئے اور اعمال صالحہ میں مشغول رہے اس کے لیے مغفرت اور عزت کے رزق کی خوشخبری دیتا ہوں، میں نذیر بھی ہوں اور بشیر بھی ہوں تم اگر ایمان نہیں لاتے تو اپنا انجام سوچ لو۔ پھر فرمایا کہ جو لوگ عاجز کرنے کے لیے ہماری آیات میں کوشش کرتے ہیں۔ یعنی ہماری آیات کو کبھی جادو کبھی شعر بتاتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں یہ پرانوں کی لکھی ہوئی باتیں ہیں اور اس طرح کی باتیں کر کے اہل ایمان کو عاجز کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگ دوزخ والے ہیں (کیونکہ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی حق قبول نہیں کرتے اور خواہ مخواہ کی حجت بازی کرتے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

64:۔ ” قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ الخ “ دعوت توحید کو مان لینے کی ترغیب اور ” وَ یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ “ کا جواب ہے تم لوگ مجھ سے عذاب جلدی لانے کا مطالبہ کرتے ہو حالانکہ عذاب لانا میرے قبضہ و اختیار میں نہیں بلکہ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں عذاب کب آئیگا۔ کیونکہ میں تو عذاب سے ڈرنے والا اور عذاب آنے کی خبر دینے والا ہوں اس لیے یہ ضرور کہوں گا کہ مجھ پر ایمان لے آؤ اور پیغام توحید کو مان لو ورنہ سن لو اگر نہیں مانوگے تو اللہ تعالیٰ کے رسوا کن عذاب سے ہلاک کردئیے جاؤ گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے اے لوگو ! سوائے اس کے نہیں کہ میں تو تم کو صاف صاف ڈرانے والا ہوں یعنی عذاب کی تعمیل اور تاخیر سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔