Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 35

سورة المؤمنون

اَیَعِدُکُمۡ اَنَّکُمۡ اِذَا مِتُّمۡ وَ کُنۡتُمۡ تُرَابًا وَّ عِظَامًا اَنَّکُمۡ مُّخۡرَجُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۵﴾

Does he promise you that when you have died and become dust and bones that you will be brought forth [once more]?

کیا یہ تمہیں اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر کر صرف خاک اور ہڈی رہ جاؤ گے تو تم پھر زندہ کیے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَيَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ ۔۔ : پچھلی آیات میں رسول کو جھٹلانے کا ذکر ہے اور اس آیت میں اس کی دعوت، یعنی قیامت کو جھٹلانے کا ذکر ہے۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا ان کی نگاہ میں ناممکن تھا، حالانکہ پہلی دفعہ بنانے والے کے لیے دوبارہ بنانا کچھ مشکل نہیں۔ اس سورة مبارکہ کے شروع ” وَلَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ “ سے لے کر نوح (علیہ السلام) کے ذکر تک موت کے بعد زندگی ہی کے دلائل ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَيَعِدُكُمْ اَنَّكُمْ اِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَّعِظَامًا اَنَّكُمْ مُّخْــرَجُوْنَ۝ ٣٥۠ۙ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے ترب التُّرَاب معروف، قال تعالی: أَإِذا كُنَّا تُراباً [ الرعد/ 5] ، وقال تعالی: خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] ، یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] . ( ت ر ب ) التراب کے معنی مٹی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ [ فاطر/ 11] کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔ یالَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] کہ اے کاش کے میں مٹی ہوتا ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٥۔ ٣٦) کیا یہ رسول تم سے یہ کہتا ہے کہ جب مرجاؤ گے اور مر کر مٹی اور ہڈیاں ہوجاؤ گے تو پھر مرنے کے بعد تم دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے، یہ ناممکن ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:35) ایعدکم۔ ھمزہ استفہامیہ ہے۔ یعد وعد سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے کم ضمیر جمع مذکر حاضر۔ کیا وہ تم سے (یہ) وعدہ کرتا ہے۔ متم۔ ماضی جمع مذکر حاضر۔ ماجی بمعنی مستقبل (موت) مصدر (باب ضرب وسمع) (جب) تم مر جائو گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کو جھٹلانے والے لوگوں کی فرسودہ دلیل : قیامت کا انکار کرنے والے ہمیشہ سے یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ جب انسان کا جسم گل سڑ جائے گا تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے ؟ یہی بےہودہ اور فرسودہ دلیل حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم اور اس کے سردار دیا کرتے تھے۔ لیڈر اپنی قوم کو پھسلانے اور ورغلانے کے لیے کہتے تھے کہ ھود (علیہ السلام) تمہیں مرنے کے بعد زندہ ہونے کا وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مرکھپ جاؤ گے اور تمہاری ہڈیاں مٹی کے ساتھ مٹی بن جائیں گی۔ اس کے باوجود ” اللہ “ تمہیں زندہ کرے گا۔ ھود کی یہ بات عقل کے خلاف اور بعید از قیاس ہے۔ دنیا میں مرنا جینا تو رہتا ہے لیکن ہم دوبارہ کبھی نہیں اٹھائے جائیں گے۔ یہ شخص قیامت کا نام لے کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے۔ اس لیے ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انسان پر جب دنیا کی محبت غالب آجاتی ہے تو اس کا موت کے تصور سے ہی دل کانپتا ہے۔ اگر دل ایمان کی دولت سے خالی ہو تو کھلے بندوں قیامت کا انکار کرتا ہے۔ اس کا یہ خیال عقیدہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس بنا پر وہ کہتا ہے کہ ہزاروں سال گزر چکے آج تک قیامت نہیں آئی اور نہ کسی نے دوبارہ زندہ ہو کر آخرت کے بارے میں کچھ بتلایا ہے۔ اس باطل عقیدہ کی وجہ سے لوگ اس قدر دلیر ہوئے کہ انہوں نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو جھوٹا قرار دیا اور یہی عقیدہ اہل مکہ کا تھا۔ جن کے لیے سورة یسٓ میں یہ دلیل دی گئی ہے۔ ” انسان ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہو جائینگی تو ان کو کون زندہ کرے گا ؟۔ فرمائیں کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر چیز کو پیدا کرنا جانتا ہے۔ وہی جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی۔ تم اس سے آگ نکالتے ہو۔ بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو پھر ویسے ہی پیدا کر دے۔ کیوں نہیں وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور ہر بات کا علم رکھنے والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے کہ ہوجا تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔ وہ پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ (یٰس : ٧٨ تا ٨٣) (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُءُ وْسَھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا) [ بنی اسرائیل : ٥٠۔ ٥١] ’ فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا۔ وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔ “ مسائل ١۔ دنیادار لیڈر اور مذہبی پیشوا ہمیشہ سے قیامت کا انکار کرتے آرہے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت قائم ہونے کے ثبوت : ١۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج : ١) ٢۔ قیامت اچانک آجائے گی۔ ( یوسف : ١٠٧) ٣۔ قیامت پل بھر میں واقع ہوجائے گی۔ ( النحل : ٧٧) ٤۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ( الکہف : ٢١) ٥۔ جس نے قیامت کو جھٹلایا ہم نے اس کے لیے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ( الفرقان : ١١) ٦۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔ اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

34:۔ ” اَیَعِدُکُمْ الخ “ یہ بھی رؤساء مشرکین کا مقولہ ہے۔ ” اَیَعِدُکُمْ “ ای ایقول لکم یعنی وہ (ہود علیہ السلام) یہ بھی کہتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہوجاؤ گے اور تمہاری ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو تمہیں پھر دوبارہ قبروں سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ ” ھیھات “ اسم فعل ہے بمعنی ماضی ای بعد اور لام زائدہ ہے اور ھیھات کا تکرار تاکید تاکید کے لیے ہے (بحر، روح) یعنی جس چیز کا تمہیں وعدہ دیا جا رہا ہے وہ بہت ہی بعید بات ہے اس کا وقوع ناممکن ہے امام زجاج کی تفسیر سے اس کا مصدر ہونا معلوم ہوتا ہے۔ قال الزجاج البعد لما توعدون اور بعد لما توعدون اور بعد لما توعدون (بحر ج 6 ص 405) ۔ اس صورت میں لام زائدہ نہیں ہوگا لیکن زجاج کا قول نقل کرنے کے بعد علامہ ابو حبان لکھتے ہیں و ینبغی ان یجعل کلامہ تفسیر اعراب لانہ لم یثبت مصدریۃ ھیھات یعنی زجاج کا قول ھیھات کے معنی کی تفسیر ہے نہ کہ اعراب کی کیونکہ ھیھات کا مصدر ہونا ثابت نہیں واللہ اعلم۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) کیا یہ شخص تم کو یہ وعدہ دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ جب تم مرجائوگے اور جب مٹی اور ہڈیاں ہو جائوگے تو تم پھر نکالے جائوگے یعنی یہ شخص یہ کہہ کر بھی ڈراتا ہے کہ مرنے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجانے کے بعد تم دوبارہ زندہ کئے جائوگے۔