Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 39

سورة المؤمنون

قَالَ رَبِّ انۡصُرۡنِیۡ بِمَا کَذَّبُوۡنِ ﴿۳۹﴾

He said, "My Lord, support me because they have denied me."

نبی نے دعا کی کہ پروردگار! ان کے جھٹلانے پر میری مدد کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

and we are not going to believe in him." He said: "O my Lord! Help me because they deny me." meaning, the Messenger prayed against his people and asked his Lord to help him against them. His Lord answered his prayer: قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

391بالآخر، حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح، اس پیغمبر نے بھی بارگاہ الٰہی میں، مدد کے لئے، دست دعا دراز کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ : ” كَذَّبُوْنِ “ اصل میں ” کَذَّبُوْنِيْ “ ہے، نون کا کسرہ اس کی دلیل ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ بِمَا كَذَّبُوْنِ۝ ٣٩ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٩۔ ٤٠۔ ٤١) اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا، اس تکذیب پر نزول سزا کے وقت عنقریب یہ پچھتائیں گے چناچہ ان کو جبریل امین کی آواز نے سخت عذاب کے ساتھ آپکڑا، پھر ہلاک کرنے کے بعد ہم نے ان کو خس و خاشاک کی مانند کردیا تو ان کافروں کے لیے اللہ کی مار اور رحمت خداوندی سے رسوائی اور محرومی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:39) بما۔ میں ب سببیہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کے مظالم پر حضرت ھود (علیہ السلام) کی اپنے رب سے مدد طلب کرنا :۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے قوم کے مظالم سے تنگ آکر اپنے رب کے حضور یہ کہہ کر مدد کی درخواست کی کہ میرے رب مجھے میری قوم نے جھٹلا دیا ہے اس لیے میری مدد فرما۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عنقریب تیری قوم کے لوگ پچھتائیں گے اور پھر یہی ہوا کہ ان کو ایک دھماکہ خیز چٹخارے نے آلیا۔ جس نے انہیں خس و خاشاک کی طرح ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ اس طرح اس قوم پر اللہ کی پھٹکار ہوئی۔ یہ لوگجسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر مضبوط اور خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے۔ انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے “ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو بھی کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) ٣۔ انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : ١٣٣) ٤۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ زراعت اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) ٥۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے اپنی حاجات و مشکلات پیش کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٠) ٦۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٧۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا کوئی اور جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) ٨۔ یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰآالسجدۃ : ١٥) حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے بارے میں مزید معلومات جاننے کے لیے سورة الاعراف کی آیت ٦٥ تا ٧١ کی آیات کی تفسیر دیکھیں۔ مسائل ١۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنے رب سے مدد طلب کی اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ھود پر پھٹکار کی۔ ٣۔ قوم ھود کو ایک دھماکہ خیز چیخ نے خس و خاشاک کردیا۔ تفسیر بالقرآن قوم ھود پر عذاب کی کیفیت : ١۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (حضرت ہود) ۔ (المومنون : ٣٩) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ : ٧) ٥۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤٢) ٦۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ : ١٦) ٧۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ ” قَالَ رَبِّ الخ “ جب حضرت ہود (علیہ السلام) عوام و خواص مشرکین کے ایمان سے مایوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ سے ان کی ہلاکت کی بد دعا کی۔ واعلم ان ذالک الرسول لما یئس من قبول الاکابر والاصاغر فزع الی ربہ وقال رب النصرنی بما کذبون فاجابہ اللہ فیما سال (کبیر ج 6 ص 284) ۔ ” قَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ الخ “” عن “ بمعنی ” بعد “ ہے اور ” مَا “ نکرہ موصوفہ ہے اور ظرف ” لیصبحن “ سے متعلق ہے یا ” مَا “ زائدہ ہے (ابو السعود۔ روح) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا صبر کرو بہت تھوڑے سے وقت کے بعد ہی ان پر عذاب آنیوالا ہے جسے دیکھ کر وہ بہت نادم اور پشیمان ہوں گے۔ ” فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَةَ الخ “ چناچہ فورا ہی ان پر ایک تند و تیز ہوا کا طوفان بھیجا گیا جس میں جبریل (علیہ السلام) کی ہیبت ناک آواز بھی شامل تھی اس طوفان نے ان کو اس طرح برباد کیا کہ ان کی نعشیں خس و خاشاک کی مانند ٹکڑے اور چور چورہ ہوگئیں۔ ” غُثَاءً “ وہ خس و خاشاک جو پانی کی سطح پر تیرتا ہے۔ ای کغثاء الیل وھو ما یحملہ من الورق والعیدان البالیۃ (روح ج 18 ص 34) ۔ یہ اس دلیل کا ثمرہ ہے مشرکین قوم ہود نے جن خود ساختہ معبودوں کو کارساز سمجھ رکھا تھا ان میں سے کسی نے بھی ان کی مدد نہ کی اور انہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچایا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(39) پیغمبر نے جناب باری میں عرض کی اے میرے پروردگار چونکہ ان لوگوں نے میری تکذیب کی اس لئے میری مدد کیجئے یعنی انہوں نے میری تکذیب کی اور مجھے جھٹلایا اب آپ میری مدد فرمائیے۔