Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 78

سورة المؤمنون

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ لَکُمُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ الۡاَفۡئِدَۃَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۷۸﴾

And it is He who produced for you hearing and vision and hearts; little are you grateful.

وہ اللہ ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کئے ، مگر تم بہت ( ہی ) کم شکر کرتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالاَْبْصَارَ وَالاَْفْيِدَةَ ... It is He Who has created for you hearing, eyes, and hearts. Allah mentions His blessings to His servants, in that He has given them hearing, sight and understanding through which they come to know things and draw lessons from them, the signs which attest to the Oneness of Allah and indicate that He is the One Who does what He wills and chooses what He wants. ... قَلِيلً مَّا تَشْكُرُونَ Little thanks you give. means, how little you thank Allah for the blessings He has given you. This is like the Ayah: وَمَأ أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُوْمِنِينَ And most of mankind will not believe even if you desire it eagerly. (12:103) He says: وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الاَْرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

781یعنی عقل و فہم اور سننے کی صلاحتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ حق کو پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں۔ یہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو اپنانے والے کم ہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] یعنی اللہ نے تمہیں آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ تم ان سے اتنا ہی کام لو جتنا جانور لیتے ہیں۔ دیکھو تو صرف وہ چیز دیکھو جس سے تمہیں دنیوی فائدہ نظر آتا ہو۔ اور سنو تو بھی ایسی ہی بات سنو اور سوچو تو صرف اپنے کاروبار اور روزگار کی بات سوچو یا یہ فکر کرو کہ کون کون سے وسائل سے تمہاری آمدنی ذرائع آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ آخر اللہ نے تمہیں جانوروں سے کچھ زائد قوتیں بھی عطا فرمائی ہیں ان سے تم نے کیا کام لیا ؟ اللہ نے تمہیں آنکھیں اس لئے دی تھیں کہ اپنی دنیوی ضرورتیں ہی پوری کرو مگر کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی اللہ کی نشانیوں کو بھی دیکھو۔ منزل من اللہ آیات کو اپنے کانوں سے غوف سے سنو۔ پھر ان تمام نشانیوں میں غور و فکر کرکے معرفت الٰہی حاصل کرو۔ اور اس کا شکر بجا لاؤ۔ جانوروں کی طرح ان قوتوں کو محض دنیوی مفادات میں کھپا دینا جہاں ایک طرف اللہ کی ناشکری پر دلالت کرتا ہے وہاں اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تم اپنے آپ کو جانوروں سے بھی بدتر مخلوق ثابت کر رہے ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ ۔۔ : اس سے پہلے کفار کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ تھا، اب انھیں مخاطب کرکے احسانات یاد دلائے۔ یہ غائب سے مخاطب کی طرف التفات ہے، کیونکہ بعض اوقات وعید کا اثر نہیں ہوتا، ہاں ! کسی احسان کی خوشگوار یاد دل کو مائل کردیتی ہے۔ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ ۔۔ : یعنی وہ لوگ نہ اپنے رب کے لیے جھکے اور نہ عاجزی اختیار کی، حالانکہ رب صرف وہ ہے، کوئی اور نہیں۔ جس نے کسی پہلے نمونے کے بغیر تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل پیدا فرمائے، جو سننے، دیکھنے اور سمجھنے کے مرکز ہیں۔ ان تینوں چیزوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جسم کی تمام نعمتیں ان کے تابع ہیں، یہ نہ ہوں تو کچھ بھی نہیں۔ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ : یہ بات کہ تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو، کئی طرح سمجھی جاسکتی ہے۔ مثلاً سوچو، کوئی آدمی اگر تمہیں یہ تینوں نعمتیں دے اور تم اس کا بدلا دینا چاہو تو کیا دے سکتے ہو ؟ یا اس طرح سوچو کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ تینوں نعمتیں تم سے چھین لے تو تمہارا کیا حال ہوگا ؟ اب جو اس نے یہ سب کچھ تمہیں دے رکھا ہے تو ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے تم اس کی کس قدر فرماں برداری کر رہے ہو ؟ اس سے بڑی ناشکری کیا ہوگی کہ اپنا خالق ومالک مانتے ہوئے اس اکیلے کی عبادت کے بجائے تم نے اس کے شریک بنا رکھے ہیں، جنھوں نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بجائے تم اسے جھٹلا رہے ہو ؟ ان حواس کی شکر گزاری تو یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے صحیح راستے کی طرف رہنمائی حاصل کرو، ورنہ ان کے ذریعے سے جسمانی اور مادی خواہش تو دوسرے حیوانات بھی پوری کر رہے ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ کائنات میں توحید کے جو دلائل پائے جاتے ہیں ان حواس کے ذریعے سے ان دلائل کو آنکھوں سے دیکھو، کانوں سے سنو اور دل سے سمجھو اور توحیدِ الٰہی پر دل و جان سے ایمان رکھو۔ ” قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ “ کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم شکر کرتے ہی نہیں، کیونکہ عرب ” قَلِیْلٌ“ کو نہ ہونے کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ ابوکبیر ہذلی نے ” تَأَبَّطَ شَرًّا “ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے ؂ قَلِیْلُ التَّشَکِّيْ لِلْمُھِمِّ یُصِیْبُہُ کَثِیْرُ الْھَوٰی شَتَّی النَّوٰی وَ الْمَسَالِکِ ” وہ پیش آنے والی مہمات کی شکایت بہت کم کرنے والا ہے، بہت سے مقاصد والا، مختلف نیتوں اور راستوں والا ہے۔ “ ” شکایت بہت کم کرنے والا “ سے مراد یہ ہے کہ وہ شکایت کرتا ہی نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور وہ (اللہ) ایسا (قادر اور منعم) ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے (کہ آرام بھی برتو اور دین کا بھی ادراک کرو لیکن) تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو (کیونکہ اصلی شکر یہ تھا کہ اس منعم کے پسندیدہ دین کو قبول کرتے اور دوبارہ قیامت میں زندہ کرنے کا انکار نہ کرتے) اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں پھیلا رکھا ہے اور تم سب (قیامت میں) اسی کے پاس لائے جاؤ گے (اس وقت اس کفران نعمت کی حقیقت معلوم ہوگی) اور وہ ایسا ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے اور اسی کے اختیار میں ہے رات اور دن کا گھٹنا بڑھنا سو کیا تم (اتنی بات) نہیں سمجھتے (کہ یہ دلائل قدرت توحید اور قیامت میں دوسری زندگی، دونوں پر دال ہیں مگر) پھر بھی مانتے نہیں، بلکہ یہ بھی ویسی ہی بات کہتے ہیں جو اگلے (کافر) لوگ کہتے چلے آئے ہیں (یعنی) یوں کہتے ہیں کہ کیا ہم جب مر جاویں گے اور ہم مٹی اور ہڈیاں رہ جاویں گے تو کیا ہم دوبارہ زندہ کئے جاویں گے اس کا تو ہم سے اور (ہم سے) پہلے ہمارے بڑوں سے وعدہ ہوتا چلا آیا ہے یہ کچھ بھی نہیں محض بےسند باتیں ہیں جو اگلوں سے منقول ہوتی چلی آتی ہیں (چونکہ اس قول سے انکار قدرت لازم آتا ہے اور اس سے مثل انکار بعث کے انکار توحید کا بھی ہوتا ہے اس لئے اس قول کے جواب میں اثبات قدرت کے ساتھ اثبات توحید کا بھی ارشاد ہے یعنی) آپ (جواب میں) یہ کہہ دیجئے کہ (اچھا یہ بتلاؤ کہ) یہ زمین اور جو اس پر رہتے ہیں کس کی ملک ہیں، اگر تم کو کچھ خبر ہے۔ وہ ضرور یہی کہیں گے کہ اللہ کے ہیں (تو) ان سے کہیے کہ پھر کیوں نہیں غور کرتے (کہ قدرت علی البعث اور توحید دونوں کے حکم کا ثبوت ہوجاوے اور) آپ یہ بھی کہئے کہ (اچھا یہ بتاؤ کہ) ان سات آسمانوں کا مالک اور عالیشان عرش کا مالک کون ہے (اس کا بھی) وہ ضرور یہی جواب دیں گے کہ یہ بھی (سب) اللہ کا ہے آپ (اس وقت) کہئے کہ پھر تم (اس سے) کیوں نہیں ڈرتے (کہ اس کی قدرت اور آیات بعث کا انکار کرتے ہو اور) آپ (ان سے) یہ بھی کہئے کہ (اچھا) وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا اختیار ہے اور وہ (جس کو چاہتا ہے) پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا اگر تم کو کچھ خبر ہے (تب بھی جواب میں) وہ ضرور یہی کہیں گے کہ یہ سب صفتیں بھی اللہ ہی کی ہیں آپ (اس وقت) کہئے کہ پھر تم کو کیسا خبط ہو رہا ہے (کہ ان سب مقدمات کو مانتے ہو اور نتیجہ کو کہ توحید اور قیامت کا اعتقاد ہے نہیں مانتے۔ یہ تو استدلال تھا مقصود پر ان کے جواب میں، آگے ان کے مقدمہ کی دلیل یعنی اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ الخ کا ابطال ہے یعنی یہ جو ان کو بتلایا جا رہا ہے کہ قیامت آوے گی اور مردے زندہ ہوں گے یہ اساطیر الاولین نہیں ہے) بلکہ ہم نے ان کو سچی بات پہنچائی ہے اور یقیناً یہ (خود ہی) جھوٹے ہیں (یہاں تک مکالمہ ختم ہوچکا اور توحید و بعث دونوں ثابت ہوگئے مگر ان دونوں مسئلوں میں چونکہ توحید کا مسئلہ زیادہ مہتمم بالشان اور حقیقت میں مسئلہ قیامت و آخرت کا بھی مبنیٰ اور محل کلام بھی زیادہ تھا اس لئے تتمہ تقریر میں اس کو مستقلاً ارشاد فرماتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے کسی کو اولاد قرار نہیں دیا (جیسا مشرکین ملائکہ کی نسبت کہتے تھے) اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے، اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو (تقسیم کر کے) جدا کرلیتا اور (پھر دنیا کے بادشاہوں کی عادت کے مطابق دوسرے کی مخلوقات چھیننے کے لئے) ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا (پھر مخلوق کی تباہی کی تو کیا انتہا ہے لیکن نظام عالم بدستور قائم ہے اس سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ ان (مکروہ) باتوں سے پاک ہے جو یہ لوگ (اس کی نسبت) بیان کرتے ہیں، جاننے والا ہے سب پوشیدہ اور آشکارا کا، غرض ان لوگوں کے شرک سے وہ بالاتر (اور منزہ) ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَۃَ۝ ٠ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۝ ٧٨ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی [ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأُ «1» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں پنشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ فأد الْفُؤَادُ کالقلب لکن يقال له : فُؤَادٌ إذا اعتبر فيه معنی التَّفَؤُّدِ ، أي : التّوقّد، يقال : فَأَدْتُ اللّحمَ : شَوَيْتُهُ ، ولحم فَئِيدٌ: مشويٌّ. قال تعالی: ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] ، إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] ، وجمع الفؤاد : أَفْئِدَةٌ. ( ف ء د ) الفواد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں مگر قلب کے فواد کہنا معنی تفود یعنی روشن ہونے کے لحاظ سے ہے محاورہ ہے فادت الحم گوشت گو آگ پر بھون لینا لحم فئید آگ میں بھنا ہوا گوشت ۔ قرآن میں ہے : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى [ النجم/ 11] جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا ۔ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤادَ [ الإسراء/ 36] کہ کان اور آنکھ اور دل فواد کی جمع افئدۃ ہے قرآن میں ہے فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ [إبراهيم/ 37] لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف جھکے رہیں ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٨) بالخصوص مکہ والو اللہ تعالیٰ ایسا قادر ومنعم ہے کہ اس نے تمہارے سننے کے لیے کان اور دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے اور سمجھنے کے لیے دل بنائے، مکہ والو تم پر یہ جتنے انعامات و احسانات فرمائے تم اس کی نسبت بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

74. The disbelievers have been told to consider the great blessings of eyes, ears, mind and heart and use them as human beings should, and show gratitude to the Creator by accepting His Message.

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :74 مطلب یہ ہے کہ بد نصیبو ، یہ آنکھ کان اور دل و دماغ تم کو کیا اس لیے دیے گئے تھے کہ تم ان سے بس وہ کام لو جو حیوانات لیتے ہیں ؟ کیا ان کا صرف یہی مصرف ہے کہ تم جانوروں کی طرح جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو اور ہر وقت اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی تدبیریں ہی سوچتے رہا کرو؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناشکری ہو سکتی ہے کہ تم بنائے تو گئے تھے انسان اور بن کر رہ گئے نرے حیوان ؟ جن آنکھوں سے سب کچھ دیکھا جائے مگر حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والے نشانات ہی نہ دیکھے جائیں ، جن کانوں سے سب کچھ سنا جائے مگر ایک سبق آموز بات ہی نہ سنی جائے ، اور جس دل و دماغ سے سب کچھ سوچا جائے مگر بس یہی نہ سوچا جائے کہ مجھے یہ وجود کیسے ملا ہے ، کس لیے ملا ہے اور کیا میری زندگی کی غایت ہے ، حیف ہے اگر وہ پھر ایک بیل کے بجائے ایک انسان کے ڈھانچے میں ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے مختلف مظاہر بیان فرما رہے ہیں جنہیں کفار مکہ بھی مانتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ جو ذات اتنے عظیم اور حیرت انگیز کام کرنے پر قادر ہے، وہ انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیوں نہیں کرسکتی؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٨۔ ٨١:۔ اوپر منکر حشر لوگوں کا یہ ذکر تھا کہ یہ لوگ حشر کے منکر ہیں اس سبب سے یہ عقبیٰ کی بہبودی کے سیدھے راستہ کو چھوڑ کر ٹیٹرھا راستہ چلتے ہیں ‘ ان آیتوں میں قدرت کی چند نشانیاں بیان فرما کر ایسے لوگوں کو قائل کیا گیا ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ ان منکر حشر لوگوں کے سننے کے لیے کان ‘ دیکھنے کے لیے آنکھیں ‘ ہر بات کے سمجھنے کے لیے آنکھیں ‘ ہر بات کے سمجھنے کے لیے دل ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ پیدا کیا اب یہ لوگ ان چیزوں کے دوبارہ پیدا کرنے کو اللہ کی قدرت سے باہر جو گنتے ہیں ‘ تو انہوں نے اللہ کی قدرت کا بہت تھوڑا حق مانا ‘ پھر فرمایا ‘ جس طرح اب اللہ تعالیٰ نے ان منکرین حشر کو پیدا کرکے تمام روئے زمین پر ان کو بکھیر رکھا ہے اسی طرح حشر کے دن قبروں سے اٹھا کر میدان محشر میں ان کو جمع کیا جاوے گا۔ پھر فرمایا ‘ کیا ان لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو نیست سے ہست کیا اور ان کی زندگی کے انتظام کے لیے موسم میں ردو بدل ہے جس کے سبب سے رات دن کا گھٹنا اور بڑھنا پیدا ہوگیا ‘ پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے اللہ کی قدرت کی ان نشانیوں کو کچھ عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا ‘ بلکہ قدرت کی ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد اسی طرح حشر کے انکار پر جمے رہے جس طرح ان سے آگے کے منکر حشر تھے ‘ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ١ ؎ سے حدیث قدسی ہے ‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘ کے انکار سے انسان نے مجھ کو جھٹلایا ‘ حالانکہ انسان کی پہلی پیدائش سے دوسری پیدائش سہل ہے ‘ یہ حدیث وَاِلَیْہِ تُحْشرُوْنَ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جس صاحب قدرت نے ایک بوند پانی سے منکرین حشر کے پتلے بنا کر ان میں روح پھونک دی ‘ اس کو خاک سے ان پتلوں کا دوبارہ بنا دینا اور ان میں روح کا پھونک دینا کسی معمولی عقل والے آدمی کے نزدیک بھی کچھ مشکل نہیں ہے کیونکہ یہ کام عقل کا نہیں ہے کہ کسی چیز کا موجود ہونا ایک دفعہ آزما کر پھر دوبارہ اسی چیز کے موجود ہوجانے سے انکار کرے یا اس دوبارہ موجود ہوجانے کو مشکل جانے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ ص ١٣ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:78) انشا۔ اس نے پیدا کیا۔ انشاء (افعال) سے ماضی واحد مذکر غائب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ ان حواس کی شکر گزاری تو یہ ہے کہ ان کے ذریعہ صحیح راستہ کی طرف رہنمائی حاصل کرو، ورنہ ان کے ذریعے جسمانی اور مادی خواہش تو دوسرے حیوانات بھی پوری کر رہے ہیں۔ عالم کون میں جو دلائل توحید پائے جاتے ہیں ان کے ذریعہ ان دلائل کو دیکھا اور سمجھا جائے اور کانوں سے سبق آموز باتیں سنی جائیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٥) اسرارومعارف بھلا جس وجود تمہیں ناز ہے اور جس عقل وخرد سے بحث کرتے ہو یہ تم کہاں سے لائے ہو اللہ جل جلالہ ہی تو ہے جس نے تمہارے کان پیدا فرمائے یعنی تمہیں سننے کی قوت بخشی ، دیکھنے کی طاقت دی اور تمہارے سینے میں دل اور اس کے اندر اثرات و کیفیات پیدا کرنے کا جذبہ سمو دیا ، یہ اس کے کتنے بڑے بڑے احسانات تھے مگر اے انسانو تم میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس کا شکر ادا کرتے ہوں یا اے بنی آدم تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو لیکن یہ یاد رکھو اسی ذات کریم نے تمہیں زمین پہ آباد کر رکھا ہے اپنی زندگی کو دیکھو تمہارے ہر لمحے پہ اس کی قدرت کاملہ کی گرفت تمہیں پتہ دیتی ہے کہ تمہیں واپس اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے تم بھاگ نہیں سکتے وہ ذات ہے جو زندگی بھی دیتی ہے اور موت بھی وارد کرتی ہے اور وہی شب وروز یعنی سارے نظام کائنات کا بنانے اور چلانے والا ہے تم اتنی عقل بھی نہیں رکھتے کہ اس نظام میں تم اس سے چھپ ہی نہیں سکتے مگر یہ تو محض پہلوں کی بات سن کر وہی کہنے لگ گئے اور خود سوچنے یا سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی اور کہہ دیا بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور گلی سڑی ہڈیاں بن جائیں گے تو پھر زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے یہ اور اس طرح کی باتیں ہمارے ساتھ بھی ہوتی ہیں اور پہلے ہمارے آباء و اجداد سے بھی ایسا کیا جاتا رہا پھر آج تک ایسا ہوا تو نہیں یہ محض کہنے کی باتیں اور قصے کہانیاں ہیں قبل ازیں ولادت انسانی کے مراحل کو زیر بحث لا کر یہ ثابت فرمایا گیا ہے کہ پہلی بار کی پیدائش میں کس طرح سے ذرات جمع ہر کر اور مختلف پیچیدہ مراحل سے گذر کر انسانی جسم بنتا ہے اور پھر روح ڈال کر اسے پیدا کردیا جاتا ہے وہ قادر مطلق دوسری بار بھی زندہ کر دے گا جبکہ دوسری بار اجزائے بدن پہلے کی طرح منتشر نہیں ہو سکتے یہاں استدلال کا دوسرا رنگ اختیار فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ ان سے پوچھیے بھلا یہ زمین پہ جہاں اور جو کچھ اس میں ہے مادہ ہے اور انرجی ان سب کا مالک کون ہے تمہارے خیال کے مطابق یہ کس کی ملکیت ہیں تو یقینا کہیں گے اللہ جل جلالہ کی تو فرمائیے کہ تم یہ بھی نہیں سوچ سکتے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے اچھا زمین سے بالا آسمان اور آسمانوں کی دنیا یا آسمانی قوتیں اور عرش عظیم ان سب کا بنانے والا انہیں قوتیں اور مختلف اوصاف عطا کرنے والا اور ان کا مالک کون ہے کہیں گے اللہ جل جلالہ کہ اس بات کا اقرار کرنا انسان کی مجبوری ہے اور تمام عقلی اور نقلی دلائل بالاخر ایک ہی ہستی کے مالک ہونے پر متفق ہیں مشرکین محض اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے شریک کار شامل کرتے رہتے ہیں تو جب یہ سب قوتیں اس کی مخلوق اور اس کے تابع ہیں تو تم اس عظیم ہستی سے کیسے بگاڑ سکتے ہو کیوں اس کی اطاعت کرکے اس کی رضا مندی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے بھلا یہ تو بتاؤ کہ کائنات کا ہر ذرہ اور کائنات کی ہر طاقت کس کی محکوم ہے اور کون ہے جو اگر چاہے تو تمام طاقتوں کی گرفت سے کسی کو محفوظ کرلے مگر اس کی گرفت سے دوعالم کی کوئی طاقت چھڑا نہ سکے اور سب قوتوں کی تاثیر بدل جائے ، کیا تمہیں ان حقائق کے بارے کچھ علم ہے تو انہیں کہنا پڑے گا کہ صرف اللہ جل جلالہ کی کائنات کی ہر قوت ہر ذرہ ہر جھونکا اور ہر کرن اسی کے بنائے ہوئے نظام میں اسی کی تابعداری کرتی نظر آتی ہے تو کہیے پھر تم پر کون سا جادو چل گیا کہ اس کی بار گاہ کو چھوڑ کر اور اس کی اطاعت سے منہ موڑ کر تباہی کے راستے پر گامزن ہو ؟ یہ احسان باری ہے کہ اللہ جل جلالہ نے انہیں حق اور سچائی کا راستہ تمام دلائل کے ساتھ پہنچایا مگر یہ لوگ جو انکار کر رہے ہیں یہ جھوٹے ہیں اور انہوں نے اپنی طرف سے اللہ جل جلالہ کے جو شریک گھڑ رکھے ہیں سب جھوٹ ہے اللہ جل جلالہ کا کوئی بیٹا نہیں وہ اس بات سے بہت بلند ہے اس کی سلطنت میں اور نہ اس کے حکم میں کوئی حصہ دار ہے اگر ایسا ہوتا اور ایک سے زیادہ معبود اور حاکم ہوتے تو ان کے احکام بھی کبھی تو مختلف ہوجاتے اور نظام عالم بگڑ جاتا ، اشیاء ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتیں لیکن ایسا نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ اکیلا حکم دینے والا ہے اور پاک ہے ان باتوں سے جو ان لوگوں نے گھڑ رکھی ہیں وہ ہر ظاہر وپوشیدہ چیز کا علم رکھتا ہے اور انہوں نے جو اس کے شریک گھڑ رکھے ہیں انہیں تو خود اپنی ذات کا بھی پتہ نہیں ہوتا اللہ جل جلالہ ان سب باتوں سے بہت ہی بلند ہے ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 78 تا 92 : ذرأ(اس نے پیدا کیا۔ اس نے پھیلادیا) ‘ اساطیر (اسطورۃ) قصے کھانیا ‘ یجیر (پناہ دیتا ہے) ‘ السبع (سات) ‘ تسحرون ( تم جادو میں پھنس گئے) ما اتخذ (نہیں بنایا) ‘ لذھب (البتہ جاتا ( البتہ لے جاتا) ‘ لعلا ( البتہ چڑھ دوڑتا) ‘ یصفون (وہ بیان کرتے ہیں) ‘ الغیب ( بن دیکھی حقیقتیں۔ چھپی باتیں) ‘ الشھادۃ ( موجود۔ کھلی باتیں) ‘ تعلی ( وہ بلندو برتر) ۔ تشریح : آیت نمبر 78 تا 92 : اگر انسان اللہ کی ان نعمتوں کو شمار کرنا چاہے جو اس پر اللہ نے کی ہیں تو شاید ان کو شمارنہ کرسکے ان بیشمار صالحیتوں میں سے انسان کو فکر و تدبر کے ساھ سننے ‘ دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے جن کا مقصدیہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے ان بیشمار نعمتوں کو دیکھے جو اس کیچاروں طرف بکھری ہوئی ہیں ‘ کانوں سے حق و صداقت کی باتوں کو سن کر ان پر عمل کرے اور سوچنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیتوں سے ہر حقیقت کی گہرائی تک پہچنے کی جدوجہد کرے۔ جو لوگ ان صلاحیتوں سے کام لیتے ہیں وہ در حقیقت اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور جو لوگ ان نعمتوں کو اپنی جدوجہد ‘ کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ کافر ہیں۔ مومن اور کافر میں یہی بنیادی فرق ہے۔ مومن ہر چیز کو اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے یقین کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کافر ہر بات میں شک و شبہ رکھتا ہے۔ مومن تو یہ کہتا ہے کہ زمین ‘ آسمان ‘ چاند ‘ سورج ‘ ستارے ‘ فضائیں ‘ ہوائیں ‘ شجر وحجر ہر چیز اللہ نے پیدا کی ہیں۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دے گا اور وہی ہڈیوں کا چورہ ہونے اور اجزا کے مٹی میں ملنے کے باوجود قیامت کے دن سب کو دوبارہ زندہکرکے ان کے اعمال کا حساب لے گا۔ مومن دنیا اور آخرت کی ہر چیز کو اللہ کی طرف سے منسوب کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرا خالق ومالک اللہ ہے جس کا کوئی شریک یا برابر نہیں ہے۔ اس کے بر خلاف کا فر اسی شک و شبہ کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ جب ہم مٹی میں مل جائیں گے۔ ہماری ہڈیاں چورہ چورہ ہوجائیں گی تو کیا ہم دوبارہ پیدا کئے جائیں گے۔ کفار کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ ایسا ناممکن ہے کیونکہ ہم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں ان سے بھی ایسی ہی باتیں کی گیں یہ محض گھڑے گھڑائے افسانے اور قصے کہانیاں ہیں۔ مرنے کے عبد قصہ ختم ہوجاتا ہے اور آخرت ‘ جنت ‘ جہنم کی باتیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں ( نعوذ باللہ) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ وہ ہے جس نے تمہیں کان ‘ آنکھ اور سوچنے کے لئے دل عطا کیا ہے۔ وہی پیدا کرنے والا ہے دنیا میں پھیلانے والا ‘ زندگی اور موت دینے والا ہے ‘ اسی کے اختیار سے دن رات کا آنا جانا ہے اس کائنات میں سارے اختیار ات کا مالک ایک اللہ ہے۔ فرمایا کہ ان کا یہ کہنا کہ جب ہم مرکر مٹی ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں بھی گل سڑ جائیں گی تو کیا ہم دوبارہ پیدا کئے جائیں گے۔ فرمایا کہ یہ لوگ اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ اس ززمین و آسمان اور اس کے اندر جو کچھ موجود ہے اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ وہی سات آسمانوں کا اور عرش عظیم کا مالک ہے۔ اس کے دامن میں سب کو پناہ ملتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ اور ایسا با اختیار رہے کہ وہ کسی کا کسی طرح بھی محتاج نہیں ہے۔ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ‘ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا۔ وہ اس پوری کائنات کے نظام کو تنہا چلارہا ہے۔ اگر اللہ کے سوا بھی کوئی دوسرا معبود ہوتا تو اس کا ئنات کا نظام تباہ ہو جاتاکیون کہ ہر ایک اپنی بات چلانے کی کوشش کرتا اور اختیارات کی اس جنگ میں مخلوق فائدے اٹھانے کے بجائے طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو غیر اللہ کی عبادت و بندگی میں لگے ہوئے ہیں اگر ان پوچھا جائے کہ یہ سب کچھ تمہارے پتھر کے بےجان بتوں نے پیدا کیا ہے تو وہ یقیناً یہی جواب دیں گے کہ سب کچھ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے یہی پوچھتے ہیں کہ جب اس کائنات کا خالق ومالک اللہ ہے۔ پھر وہ دوسروں سے کیوں اپنی حاجتوں کا سوال کرتے ہیں اور اپنی آخرت کی فکر کیوں نہیں کرتے جہاں کوئی کسی کے کام نہ آسکے گا ؟ اور یہ بت بھی اپنے عبادت گذاروں کو نہ بچا سکیں گے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کہ آرام بھی بر تو اور دین کا بھی ادراک کرو۔ 7۔ کیونکہ اصلی شکریہ تھا کہ اس منعم کے پسندیدہ دین کو قبول کرتے اور اس کی قدرت علی البعث کا انکار نہ کرتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

و ھو الذی تعقلون (٧٨ تا ٨٠) ” انسان اگر اپنی تخلیق اور اپنی شکل و صورت ہی غور کرے ، اور اپنے مفاد اعضاء وجوارح پر غور کرے ، اپنے حواس اور اپنی پہچننا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ ان عجیب امور پر غور کرکے وہ خالق کائنات کی معرفت حاصل کرسکتا ہے کیونکہ اللہ کے علاوہ کون ہے جس نے یہ معجزے دکھائے ہیں ۔ اس کائنات میں بیشمار عجوبے ہیں ، چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی۔ ذرا انسان صرف اپنی قوت سماعت ہی پر غور کرے۔ یہ قوت کس طرح کام کرتی ہے۔ کس طرح یہ آوازوں کو وصول کرتی ہے اور آوازوں سے معانی اخذ کرتی ہے۔ ذرا قوت باصرہ پر غور کرے۔ انسان کس طرح دیکھتا ہے۔ کس طرح آنکھ روشنی کو لیتی ہے اور تصاویر دیکھتی ہے ۔ پھر انسان کا دماغ اور اس کا ادراک ، اشیاء اور شکر کی قدرو قیمت کا تعین کرتا ہے ۔ مفہوم اور پیمانوں کا تعین کرتا ہے۔ غرض تمام مشاعر و مدرکات اور محسوسات پر اگر غور کیا جائے تو ہر ایک اعجوبہ ہے۔ صرف حواس خمسہ اور ان کے کام کرنے کے طریقے پر ہی اگر غور کیا جائے تو عالم بشریت کے اندر یہ ایک عظیم معجزہ ہے ۔ رہی ان قوتوں کی تخلیق اور پھر موجودہ انداز اور شکل و صورت پر ایمان کی ساخت اور پھر اس پوری کائنات کے ساتھ ان کی ہم اہنگی ، کہ اگر اس کائنات کی قوتوں اور انسانی قوتوں میں جو نسبتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک نسبت بھی اگر غائب ہوجائے تو پورا نظام ہی بگڑ جائے ، کان سن نہ سکے ، آنکھ دیکھ نہ سکے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت مدبرہ نے ان کو ایسا بنا یا ہے۔ لیکن انسان ایسا نا شکرا ہے کہ وہ اللہ کے ان انعامات پر غور ہی نہیں کرتے۔ قلیلا ما تشکروں (٢٣ : ٧٨) ” تم میں سے کم لوگ ایسے ہیں جو شکر کرتے ہیں “ ۔ شکر تب ہی ہو سکتا ہے کہ انسان کسی نعمت کے بخشنے والے کے بارے میں جانتا ہو ۔ اس کی ذات وصفات کو جانتا ہو۔ پھر وہ اللہ وحدہ کی عبادت اور بندگی بھی کرتا ہو اور پھر وہ یہ بات بھی جانتا ہو کہ یہ قوتیں انسان کو اسی ذات و الاصفات نے دی ہیں جن کے ذریعے وہ اس کرہ ارض پر عیش و عشرت سے ہمکنار ہے اور ہر چیز استفادہ کررہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی تخلیق کے مظاہرے، منکرین بعث کی تردید گزشتہ آیات میں منکرین کے کفر اور عناد کا ذکر تھا ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر اور امکان بعث پر دلائل قائم فرمائے ہیں اور مشرکین سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صفات جلیلہ کا اقرار کرایا ہے اور انہیں بار بار متوجہ فرمایا ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے اللہ کی توحید کے منکر ہو رہے ہیں۔ اول تو یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سننے کی قوت دی ہے آنکھیں عطا فرمائی ہیں تمہارے اندر دل پیدا فرمائے ہیں دیکھو یہ کتنی بڑی بڑی نعمتیں ہیں ان نعمتوں کی وجہ سے تم پر شکر واجب ہوتا ہے لیکن کم شکر ادا کرتے ہو یوں ہی چلتی ہوئی بات کی طرح کہہ دیتے ہو کہ اللہ کا شکر ہے لیکن اللہ کے نبی اور اس کی کتاب پر ایمان نہیں لاتے، اس کی عبادت میں نہیں لگتے اس کے ساتھ شرک کرتے ہو، پھر فرمایا کہ ان سے فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا ہے یعنی زمین میں رہتے سہتے ہو اس میں تمہاری نسلیں چل رہی ہیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہو جس نے تمہیں زمین پر پھیلا دیا وہی موت دیتا ہے اور رات دن کا مختلف ہونا یعنی ایک دوسرے کے بعد آنا جانا یہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے تم اس بات کو سمجھو اگر سمجھتے ہو تو اس کی توحید اور عبادات سے کیوں دور کھاگتے ہو۔ اس کے بعد فرمایا کہ مردہ ہو کر دو بارہ زندہ ہونے کے بارے منکرین بعث وہی بات کہہ رہے ہیں جو ان سے پہلے لوگوں نے کہی ان کا کہنا ہے کہ مرجانے کے بعد جب مٹی ہوجائیں گے اور گوشت پوست ختم ہو کر ہڈیاں ہی ہڈیاں رہ جائیں گی تو کیا ہم پھر زندہ ہو کر اٹھائے جائیں گے یہ بات کہہ کر ان کا مقصد دو بارہ زندہ ہونے سے انکار کرنا ہے انہوں نے اپنی اسی بات پر بس نہیں کیا بلکہ یوں بھی کہا کہ اس طرح کی باتیں پہلے بھی کہی گئی ہیں ہمارے باپ دادوں سے بھی اس طرح کا وعدہ کیا گیا ہے سینکڑوں سال گزر گئے آج تک تو قیامت آئی نہیں آنی ہوتی تو اب تک آجاتی یہ پرانے لوگوں کی باتیں نقل درنقل چلی آرہی ہیں، ہماری سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے موافق جو قیامت کا وقت مقرر ہے اس وقت قیامت آجائے گی اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے پورا ہو کر رہے گا لوگوں کے کہنے سے وقت سے پہلے قیامت نہیں آئے گی دیر میں آنا دلیل اس بات کی نہیں کہ آنی ہی نہیں ہے منکرین کا یہ کہنا ہے چونکہ اب تک نہیں آئی اس لیے آنی ہی نہیں محض جہالت کی بات ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ شانہٗ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان سے پوچھ لیجیے کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے اس کے جواب میں وہ یوں ہی کہیں گے کہ اللہ ہی کے لیے ہے، ان کی طرف سے یہ جواب مل جانے پر سوال فرمایا پھر تم کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے پھر فرمایا آپ ان سے پوچھ لیجیے کہ ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ وہ اس کا جواب بھی یہی دیں گے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ان کے اس جواب پر ان سے سوال فرمائیے کہ تم اس سب کا اقرار کرتے ہو پھر اللہ سے کیوں نہیں ڈرتے، جاننے اور ماننے کے باو جود اس کی قدرت کا اور وقوع قیامت کا کیوں انکار کرتے ہو۔ اس کے بعد فرمایا کہ آپ ان سے دریافت فرمائیے کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور وہی پناہ دیتا ہے۔ (جس کو چاہتا ہے) اور اس کے مقابلہ میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا ؟ اس کے جواب میں بھی وہ یہی کہیں گے کہ یہ سب صفات اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں، ان کے اس جواب پر سوال فرمائیے کہ پھر تم کیوں منکر ہو رہے ہو یعنی تمہارا ایسا ڈھنگ ہے جیسے تم پر جادو کردیا گیا ہو حق اور حقیقت واضح ہوجانے کے باو جود کیوں مخبوط الحواس بنے ہوئے ہو۔ حق اور حقیقت واضح ہوتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کا اقرار کرتے ہوئے پھر بھی حق کے منکر ہیں اس لیے آخر میں فرمایا (بَلْ اَتَیْنَاھُمْ بالْحَقِّ وَاِِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ ) (بلکہ بات یہ ہے کہ ہم نے انہیں حق پہنچا دیا اور یقیناً وہ جھوٹے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

66:۔ حصہ دوم۔ نفی شرک اعتقادی پر عقلی دلیلیں۔ ایک تفصیلی اور تین علی سبیل الاعتراف من الخصم۔ ” وھو الذی انشا لکم الخ “ پہلی تفصیل عقلی دلیل برائے نفی شرک اعتقادی سننے، دیکھنے اور سوچنے کی قوتیں اللہ تعالیٰ ہی نے عطا فرمائی ہیں لیکن انسان نہ ان نعمتوں سے کام لیتا ہے اور نہ ان کا شکر ادا کرتا ہے کہ توحید کے دلائل کو دیکھ سن کر اور ان میں غور و فکر کر کے ان کو تسلیم کرلے ان قوتوں کو صحیح استعمال کرنا ہی ان کا شکر ہے۔ ” وھوَ الذی یحی و یمیت الخ “ زندگی اور موت اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے اور رات دن کا اختلاف یعنی رات دن کی آمدو رفت اور ان کی کمی بیشی بھی اسی کے تصرف میں ہے۔ ’‘ افلا تعقلون “ کیا تم اب بھی اصل حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے کہ جس قادر وقیوم نے سب کو پیدا کیا ہے ہر ایک کو سننے دیکھنے اور سوچنے کی قوتیں دی ہیں۔ موت وحیات اور سارا نظام عالم جس کے قبضہ میں ہے وہی سب کا کارساز ہے۔ وہ وحدہ لاشریک ہے عبادت اور پکار میں اس کا کوئی شریک نہیں اور وہ حشر ونشر پر بھی قادر ہے ” افلا تعقلون “ کنہ قدرتہ و ربوبیتہ ووحدانیتہ و انہ لا یجوز ان یکون لہ شریک من خلقہ و انہ اقادر علی البعث (قرطبی ج 12 ص 144) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(78) اب آگے پھر اللہ تعالیٰ کے تصرفاتِ قدرت اور اس سے حشر اور دوبارہ زندہ ہونے کا اثبات اور اسی ضمن میں توحید کا اثبات بیان ہوتا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے تمہارے نفع کے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے لیکن تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو یعنی اللہ تعالیٰ نے زندگی کے ساتھ دوسری چیزیں بھی عطا فرمائیں اگر کان سننے کو اور آنکھیں دیکھنے کو اور دل سمجھنے کو نہ دیتے تو زندگی بیکار ہوتی ان احسانات کا شکر بجا لاتے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے موافق دین حق کو قبول کرتے لیکن تم بہت کم شکر بجالاتے ہو۔ یعنی شکر کا حق ادا نہیں کرتے یا بہت کم لوگ شکر گزار ہیں۔ وقلیلا من عبادی الشکور۔ بہرحال ! آیت میں تین باتیں ہیں ایک حضرت حق تعالیٰ کے انعامات کا اظہار ، دوسرے شکر بجالانے کا مطالبہ، تیسرے شکر بجالانے والوں کی کمی پر شکایت۔