Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 23

سورة النور

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡغٰفِلٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ لُعِنُوۡا فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۪ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۲۳﴾

Indeed, those who [falsely] accuse chaste, unaware and believing women are cursed in this world and the Hereafter; and they will have a great punishment

جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی با ایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A Threat to Those who accuse Chaste Women, Who never even think of anything touching their Chastity and are Good Believers Allah says, إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَتِ الْمُوْمِنَاتِ ... Verily, those who accuse chaste believing women, who never even think of anything touching their chastity and are good believers -- This is a warning and threat from Allah...  to those who accuse chaste women, who never even think of anything effecting their chastity since they are good believers. The Mothers of the believers are more entitled to be included in this category than any other chaste woman, especially the one who was the reason for this Ayah being revealed: A'ishah bint As-Siddiq, may Allah be pleased with them both. All of the scholars agree that whoever slanders her or makes accusations against after what has been said in this Ayah, is a disbeliever, because of his being obstinate with the Qur'an. The same ruling applies to all of the Mothers of the believers. ... لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالاْخِرَةِ ... are cursed in this life and in the Hereafter, This is like the Ayah: إِنَّ الَّذِينَ يُوْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ Verily, those who annoy Allah and His Messenger, (33:57) ... وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ and for them will be a great torment. Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, "This is about A'ishah, and whoever does anything similar nowadays to Muslim women, the same applies to him, but A'ishah is the one who is primarily referred to here." Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said: اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ Shun the seven destructive sins. He was asked, "What are they, O Messenger of Allah!" He said: الشِّرْكُ بِاللهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَأَكْلُ الرِّبَا وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَتِ الْمُوْمِنَاتِ Associating partners with Allah; magic; killing a soul whom Allah has forbidden to be killed, except with just cause; consuming Riba; consuming the property of orphans; desertion at the time of war; accusing chaste women, who never even think of anything touching their chastity and are good believers. This was recorded by Al-Bukhari and Muslim in the Two Sahihs. Then Allah says, يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ   Show more

ام المومنین عائشہ صدیقہ کے گستاخ پر اللہ کی لعنت جب کہ عام مسلمان عورتوں پر طوفان اٹھانے والوں کی سزا یہ ہے تو انبیاء کی بیویوں پر جو مسلمانوں کی مائیں ہیں ، بہتان باندھنے والوں کی سزا کیا ہوگی ؟ اور خصوصا اس بیوی پر جو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ علما... ء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ان آیتوں کے نزول کے بعد بھی جو شخص ام المومنین کو اس الزام سے یاد کرے ، وہ کافر ہے کیونکہ اس نے قرآن پاک کے خلاف کیا ۔ آپ کی اور ازواج مطہرات کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ وہ بھی مثل صدیقہ کے ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ فرماتا ہے کہ ایسے موذی بہتان پرداز دنیا اور آخرت میں لعنت اللہ کے مستحق ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا 57؀ ) 33- الأحزاب:57 ) ، یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے رسواکرنے والے عذاب تیار ہیں ۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ مخصوص ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرماتے ہیں ۔ سعید بن جبیر ، مقاتل بن حیان کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی حضرت عائشہ سے یہ نقل کیا ہے لیکن پھر جو تفصیل وار روایت لائے ہیں اس میں آپ پر تہمت لگنے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آنے اور اس آیت کے نازل ہونے کا ذکر ہے لیکن آپ کے ساتھ اس حکم کے مخصوص ہونے کا ذکر نہیں ۔ پس سبب نزول گو خاص ہو لیکن حکم عام رہتا ہے ۔ ممکن ہے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے قول کا بھی یہی مطلب ہو ۔ واللہ اعلم ۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ کل ازواج مطہرات کا تو یہ حکم ہے لیکن اور مومنہ عورتوں کا یہ حکم نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت سے تو مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں کہ اہل نفاق جو اس تہمت میں تھے ، سب راندہ درگاہ ہوئے ۔ لعنتی ٹھہرے اور غضب اللہ کے مستحق بن گئے ۔ اس کے بعد عام مومنہ عورتوں پر بدکاری کا بہتان باندھنے والوں کے حکم میں آیت ( وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ Ć۝ۙ ) 24- النور:4 ) ، اتری پس انہیں کوڑے لگیں گے ۔ اگر انہوں نے توبہ کی توبہ تو قبول ہے لیکن گواہی ان کی ہمیشہ تک غیر معبتر رہے گی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ سورہ نور کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آیت توحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں اتری ہے ۔ ان بہتان بازوں کی توبہ بھی قبول نہیں ۔ اس آیت میں ابہام ہے ۔ اور چار گواہ نہ لاسکنے کی آیت عام ایماندار عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے حق میں ہے ، ان کی توبہ مقبول ہے ، یہ سن کر اکثر لوگوں کا ارادہ ہوا کہ آپ کی پیشانی چوم لیں ۔ کیونکہ آپ نے نہایت ہی عمدہ تفسیر کی تھی ۔ ابہام سے مراد یہ ہے کہ ہر پاک دامن عورت کی شان میں حرمت تہمت عام ہے ۔ اور ایسے سب لوگ ملعون ہیں ۔ حضرت عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہر ایک بہتان باز اس حکم میں شامل ہے لیکن حضرت عائشہ بطور اولی ہیں ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ بھی عموم ہی کو پسند فرماتے ہیں اور یہی صحیح بھی ہے اور عموم کی تائید میں یہ حدیث بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سات گناہوں سے بچو جو مہلک ہیں ۔ پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا ، سود کھانا ، یتیم کا مال کھانا ، جہاد سے بھاگنا ، پاک دامن بھولی مومنہ پر تہمت لگانا ۔ ( بخاری مسلم ) اور حدیث میں ہے پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والے کی سو سال کی نیکیاں غارت ہیں ۔ اعضاء کی گواہی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ جنت میں سوائے نمازوں کے اور کوئی نہیں بھیجا جاتا تو وہ کہیں گے آؤ ہم بھی انکار کردیں چنانچہ اپنے شرک کا یہ انکار کر دیں گے ۔ اسی وقت انکے منہ پر مہر لگ جائے گی اور ہاتھ پاؤں گواہی دینے لگیں گے اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کافروں کے سامنے جب ان کی بداعمالیاں پیش کی جائیں گی تو وہ انکار کر جائیں گے اور اپنی بےگناہی بیان کرنے لگیں گے تو کہا جائے گا یہ ہیں تمہارے پڑوسی یہ تمہارے خلاف شہادت دے رہے ہیں ۔ یہ کہیں گے یہ سب جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا کہ اچھا خود تمہارے کنبے کے قبیلے کے لوگ موجود ہیں ۔ یہ کہہ دیں گے یہ بھی جھوٹے ہیں تو کہا جائے گا ۔ اچھا تم قسمیں کھاؤ ، یہ قسمیں کھا لیں گے پھر اللہ انہیں گونگا کر دے گا اور خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کی بداعمالیوں کی گواہی دیں گے ۔ پھر انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ ہنس دئے اور فرمانے لگے ۔ جانتے ہو میں کیوں ہنسا ؟ ہم نے کہا اللہ ہی جانتا ہے آپ نے فرمایا بندہ قیامت کے دن اپنے رب سے جو حجت بازی کرے گا اس پر یہ کہے گا کہ اللہ کیا تو نے مجھے ظلم سے نہیں روکا تھا ؟ اللہ فرمائے گا ہاں ۔ تو یہ کہے گا ، بس آج جو گواہ میں سچا مانوں ، اسی کی شہادت میرے بارے میں معتبر مانی جائے ۔ اور وہ گواہ سوا میرے اور کوئی نہیں ۔ اللہ فرمائے گا ، اچھا یونہی سہی تو ہی اپنا گواہ رہ ۔ اب منہ پر مہر لگ جائے گی اور اعضاء سے سوال ہوگا تو وہ سارے عقدے کھول دیں گے ۔ اس وقت بندہ کہے گا ، تم غارت ہوجاؤ ، تمہیں بربادی آئے تمہاری طرف سے ہی تو میں لڑ جھگڑ رہا تھا ( مسلم ) قتادہ رحمۃ اللہ فرماتے تھے اے ابن آدم تو خود اپنی بد اعمالیوں کا گواہ ہے ، تیرے کل جسم کے اعضاء تیرے خلاف بولیں گے ، ان کا خیال رکھ اللہ سے پوشیدگی اور ظاہری میں ڈرتا رہ ۔ اس کے سامنے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، اندھیرا اس کے سامنے روشنی کی مانند ہے ۔ چھپا ہوا اس کے سامنے کھلا ہوا ہے ۔ اللہ کے ساتھ نیک گمانی کی حالت میں مرو ۔ اللہ ہی کے ساتھ ہماری قوتیں ہیں ۔ یہاں دین سے مراد حساب ہے ۔ جمہور کی قرأت میں حق کا زبر ہے کیونکہ وہ دین کی صفت ہے ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے حق پڑھا ہے اس بنا پر کہ یہ لغت جان لیں گے کہ اللہ کے وعدے وعید حق ہیں ۔ اس کا حساب عدل والا ہے ظلم سے دور ہے ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

231بعض مفسرین نے اس آیت کو حضرت عائشہ (رض) اور دیگر ازواج مطہرات (رض) عنہن کے ساتھ خاص قرار دیا ہے کہ اس آیت میں بطور خاص ان پر تہمت لگانے کی سزا بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ ان کے لئے توبہ نہیں ہے۔ اور بعض مفسرین نے اسے عام ہی رکھا ہے اور اس میں وہی حد قذف بیان کی گئی ہے، جو پہلے گزر چکی ہے۔ اگر تہ... مت لگانے والا مسلمان ہے تو لعنت کا مطلب ہوگا کہ وہ قابل حد ہے اور مسلمان کے لئے نفرت اور بعد کا مستحق اور اگر کافر ہے، تو مفہوم واضح ہی ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں ملعون یعنی رحمت الٰہی سے محروم ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] اس دنیا میں انسان جو کچھ زبان سے بولتا یا کلام کرتا ہے۔ وہ دل کے ارادہ کے مطابق بولتا ہے۔ دل میں جھوٹ بولنے یا ہیرا پھیری کرنے کی نیت ہو تو انسان کی زبان ہی الفاظ ادا کرے گی جو انسان کے دل میں ہوتا ہے۔ گویا زبان دل کے ارادہ کے تابع ہوتی ہے اور دوسرے اعضا وجوارح بھی وہی کام کرتے ہیں۔ جیسے انسان...  کا دل چاہتا ہو۔ مگر آخرت میں یہ اعضاء انسان کے ارادہ کے تابع نہیں ہوں گے بلکہ اس حقیقت کے تابع ہوں گے کہ انسان اس دنیا میں اپنے اعضاء وجوارح سے جو کام لے رہا ہے۔ تو ساتھ کے ساتھ ان اعمال و افعال و اقوال کے اثرات ان اعضا وجوارح پر بھی مترتب ہوتے جا رہے ہیں۔ آج انسان اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتا۔ تاہم بعض موجودہ سائنسی ایجادات نے اس مسئلہ کو قرب العہم ضرر بنادیا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان اعضا وجوارح کو زبان دے دے گا۔ اور وہ وہی بات کہیں گے جو اثرات ان پر مترتب ہوئے تھے اور جو کچھ ان سے کام لیا گیا تھا۔ لہذا اگر کوئی شخص قیامت کے دن اپنے کسی جرم کا اعتراف کرنے کی بجائے غلط سلط باتیں بنانے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کی زبان اس کے ہاتھوں اور پاؤں کو قورت گویائی دے کر صحیح باتیں بتلانے کا حکم دے گا۔ تو سب اعضاء وجوارح کی گواہی ایسے مجرموں کے خلاف قائم ہوجائے گی اور انھیں جو سزا ملے گی وہ علی۔۔ الشہادات ملے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ ۔۔ : ” الْغٰفِلٰتِ “ (بےخبر) سے مراد وہ سیدھی سادی شریف عورتیں ہیں جن کے دل پاک ہیں اور ان کے دل میں بدچلنی کا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا، ان میں سے کسی پر تہمت لگانا کبیرہ گناہ اور لعنت کا باعث ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی الل... ہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ ، قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَمَا ھُنَّ ؟ قَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الَّتِيْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَ أَکْلُ الرِّبَا وَ أَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّيْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَ قَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلاَتِ ) [ بخاري، الحدود، باب رمي المحصنات : ٦٨٥٧ ] ” سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو۔ “ صحابہ نے پوچھا : ” یا رسول اللہ ! وہ ہلاک کرنے والی چیزیں کیا ہیں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک، جادو، اس جان کو قتل کرنا جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن بھاگ جانا اور پاک دامن مومن و غافل عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ یہاں جب عام پاک دامن غافل و مومن عورتوں پر تہمت لگانا لعنت کا باعث ہے تو امہات المومنین خصوصاً عائشہ (رض) کے بارے میں بدزبانی کرنے والے کا کیا حال ہوگا، جن کی براءت خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی۔ اب ان پر تہمت لگانے والا صرف تہمت کا مجرم نہیں بلکہ قرآن کو جھٹلانے کا بھی مجرم ہے اور قرآن کو جھٹلانے والا کافر ہے۔ 3 یہاں پاک دامن غافل و مومن عورتوں پر بہتان کی جتنی شدید وعید آئی ہے وہ عموماً کفار ہی کے لیے ہے کہ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے، جو جہنم ہی ہوسکتا ہے اور قیامت کے دن ان کے اعضا ان کے خلاف گواہی دیں گے، جو کفار کے ساتھ کیا جانے والا معاملہ ہے، جیسا کہ سورة حٰم سجدہ (١٩ تا ٢٣) میں ہے، اس لیے اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ ” اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ۔۔ “ سے مراد عبداللہ بن ابی اور اس کے منافق ساتھی ہیں اور ” الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ “ سے مراد امہات المومنین خصوصاً عائشہ صدیقہ (رض) ہیں۔ ” اِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ “ سے لے کر تمام آیات کے تسلسل سے یہ معنی درست معلوم ہوتا ہے، مگر آیت کے الفاظ عام ہونے کی وجہ سے (کہ جو لوگ بھی پاک دامن غافل و مومن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، وہ عورتیں جو بھی ہوں، ان کے لیے یہ وعید ہے) اگر مراد عام ہو کہ ہر تہمت لگانے والے کے لیے یہ وعید ہے تو اس سے مراد وہ تہمت لگانے والے ہوں گے جو تہمت لگانے کو حلال سمجھتے ہیں، یا جنھوں نے توبہ نہیں کی، کیونکہ اس سے پہلی آیات میں توبہ کرنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کا اور ان کی سابقہ نیکیاں پیش نظر رکھنے کا حکم ہے۔ اس آیت میں یہ بھی اشارہ ہے کہ قذف سے توبہ نہ کرنے والوں کی موت کفر پر ہونے کا خطرہ ہے۔ اللہ سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ 3 یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ یہ ساری وعید پاک دامن غافل و مومن عورتوں پر بہتان کی آئی ہے، مردوں پر بہتان کا ذکر کیوں نہیں فرمایا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ ” الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ “ پر بہتان عموماً کسی مومن مرد کے ساتھ ہی لگایا جائے گا، اس لیے اسے الگ سے ذکر نہیں کیا گیا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِنَّ الَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَ‌ةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ Surely, those who level a false charge against the chaste, naive and believing women are cursed in this world and the Hereafter, and for them there is a mighty punishment - 24:23. On the face of it the same subject has been repeated in this verse which has alread... y appeared in the verses of وَالَّذِينَ يَرْ‌مُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْ‌بَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤﴾ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٥﴾ And those who accuse the chaste women (of fornication), but they do not produce four witnesses, flog them with eighty stripes and do not accept their any evidence any more, and they are the sinners, [ 4] except those who repent afterwards and mend their ways; then, Allah is All-Forgiving, Very-Merciful. (24:4-5) But in fact there is a big difference between the two, because at the end of verses on punishment of false accusation (24:4-5), those who repent are exempted and promised forgiveness. There is no such thing in this verse, and instead it announces the curse in this world and in the Hereafter, without any exception. Therefore, it is obvious that this verse (24:23) is aimed at those who were involved in slandering Sayyidah ` A&ishah (رض) and did not repent, so much so that even after the revelation of her exoneration in the Qur&an they adhered to their malicious accusation and kept on propagating it. It is but obvious that no Muslim could do such a thing. If a Muslim disregards a categorical Qur&anic injunction, he cannot remain a Muslim. Hence, this reference relates to those hypocrites who did not stop their slander-mongering campaign against Sayyidah ` A&ishah (رض) even after the exoneration was reveled in her favour. There is no doubt that they were hypocrites and disbelievers. Therefore, those who had felt remorse on their doing they were granted pardon in the two worlds by Allah&s mercy, and those who did not repent are declared in this verse as cursed, both in this world and the Hereafter. Those who felt remorse were given the glad tiding of deliverance from punishment, and those who did not feel remorse were warned of severe punishment. Those who repented were given the good news in إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (Allah is Most-forgiving Very-Merciful) and those who did not repent were warned of punishment in the next verse by saying يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ (On the Day their tongues, their hands and their legs will testify against them). (Bayan al-Qur’ an). An important Warning The few Muslims who got involved in the episode in connection with the slander on Sayyidah ` A&ishah (رض) did so at a time when verses regarding her exoneration were not revealed. After the revelation of verses of exoneration whoever makes an insinuation on her character is indeed a disbeliever and a denier of the Qur&an, like the few groups of Shi&ities and some other individuals, who are involved in the shameful practice. There is not the slightest doubt that they are disbelievers. They are regarded disbelievers by the consensus of entire Ummah.  Show more

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤ ْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۠ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۔ اس آیت میں بظاہر مکرر وہ مضمون بیان ہوا ہے جس اس سے پہلے آیات قذف میں آچکا ہے، وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ ... فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدً آ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، لیکن درحقیقت ان دونوں میں ایک بڑا فرق ہے کیونکہ آیات حد قذف کے آخر میں توبہ کرنے والوں کا استثناء، اور ان کے لئے مغفرت کا وعدہ ہے۔ اس آیت میں ایسا نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی لعنت اور عذاب عظیم بلا استثناء مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جنہوں نے حضرت صدیقہ عائشہ پر تہمت لگائی اور پھر اس سے توبہ نہیں کی، یہاں تک کہ قرآن میں ان کی برات نازل ہونے کے بعد بھی وہ اپنے اس افتراء پر قائم اور تہمت کا چرچا کرنے میں مشغول رہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام کسی مسلمان سے ممکن نہیں اور جو مسلمان بھی نصوص قرآن کا ایسا خلاف کرے وہ مسلمان نہیں رہ سکتا اس لئے یہ مضمون ان منافقین کے بارے میں آیا ہے جنہوں نے آیات برات صدیقہ نازل ہونے کے بعد بھی اس مشغلہ تہمت کو نہیں چھوڑا ان کے کافر منافق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں تائبین کے لئے اللہ تعالیٰ نے فضل اللہ و رحمتہ، فرما کر مرحوم دارین قرار دیا اور جنہوں نے توبہ نہیں کی ان کو اس آیت میں ملعون دنیا و آخرت فرمایا۔ تائبین کو عذاب سے نجات کی بشارت دی اور غیر تائبین کے لئے عذاب عظیم کی وعید فرمائی۔ تائبین کو اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ فرما کر مغفرت کی بشارت دی اور غیر تائبین کو اگلی آیت يّوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ میں معانی نہ ہونے کی وعید فرمائی (کذا ذکرہ سیدی فی بیان القرآن) ایک اہم تنبیہ : حضرت صدیقہ عائشہ پر تہمت کے قضیہ میں جو بعض مسلمان بھی شریک ہوگئے تھے یہ قضیہ اس وقت کا تھا جب تک آیات برات قرآن میں نازل نہیں ہوئی تھیں۔ آیات برات نازل ہونے کے بعد جو شخص حضرت صدیقہ عائشہ پر تہمت لگائے وہ بلاشبہ کافر منکر قرآن ہے جیسا کہ شیعوں کے بعض فرقے اور بعض افراد اس میں مبتلا پائے جاتے ہیں ان کے کافر ہونے میں کوئی شک و شبہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں وہ باجماع امت کافر ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝ ٠۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝ ٢٣ۙ رمی الرَّمْيُ يقال في الأعيان کالسّهم والحجر، نحو : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال/ 17] ، ويقال في المقال، كناية عن الشّتم کالق... ذف، نحو : وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور/ 6] ، يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور/ 4] ، وأَرْمَى فلان علی مائة، استعارة للزّيادة، وخرج يَتَرَمَّى: إذا رمی في الغرض . ( ر م ی ) الرمی ( ض ) کے معنی پھینکنے کے ہیں یہ اجسام ( مادی چیزیں ) جیسے تیر وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال/ 17] اے پیغمبر جب تو نے تیر چلائے تو تم نے تیر نہیں چلائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلائے ۔ اوراقوال کے متعلق استعمال ہو تو |" قذف |" کی طرح اس کے معنی سب و شتم اور تہمت طرازی کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور/ 6] جو لوگ اپنی بیبیوں پر ( زنا کا ) عیب لگائیں ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور/ 4] جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں ۔ محاورہ ہے ارمیٰ علٰی مائۃ : وہ سو سے زائد ہیں ۔ خرج یترمٰی : وہ نکل کر نشانہ بازی کرنے لگا ۔ حصن وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز، وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن ( ح ص ن ) الحصن تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا لعن اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] ( ل ع ن ) اللعن ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود/ 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣) اگلی آیات اللہ تعالیٰ عبداللہ بن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر اس اتہام لگانے میں بڑا حصہ لیا تھا نازل فرمائی ہیں، چناچہ فرماتا ہے کہ جو لوگ تہمت لگاتے ہیں ان عورتوں کو جو کہ آزاد پاک دامن ہیں اور ایسی باتوں سے بالکل بیخبر ہیں اور ایمان دار ہیں، توحید...  خداوندی کی تصدیق کرنے والی ہیں یعنی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ان لوگوں یعنی عبداللہ بن ابی منافق پر دنیا و آخرت میں لعنت کی جاتی ہے کہ دنیا میں تو اس کے کوڑے لگیں گے اور آخرت میں دوزخ میں جلے گا اور عبداللہ بن ابی، اور اس کے ساتھیوں کو آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہوگا۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ ان الذین یرمون المحصنت “۔ (الخ) نیز ضحاک بن مزاحم (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ خاص طور پر ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سعید بن جبیر (رض) کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ مذکورہ بالا آیت خاص طور پر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور ابن جریر (رح) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ جو کچھ میرے خلاف طوفان برپا کیا گیا میں اس سے بالکل بیخبر تھی، بعد میں اس چیز کی مجھے خبر ہوئی اسی دوران میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس تشریف فرما تھے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی پھر وحی کے بعد آپ سیدھے ہو کر بیٹھے اور اپنے چہرہ انور سے پسینہ پونچھا، اس کے بعد فرمایا عائشہ صدیقہ (رض) خوشخبری قبول کرو میں نے عرض کیا اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے ساتھ خوشخبری قبول کرتی ہوں، آپ کے شکریہ کے ساتھ نہیں قبول کرتی، چناچہ آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں کہ جو لوگ تہمت لگاتے ہیں ان عورتوں کو جو پاک دامن ہیں، یہ اس بات سے پاک ہیں جو یہ بکتے پھرتے ہیں، اور امام طبرانی نے ثقہ راویوں کی سند سے عبدالرحمن بن زید بن اسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان الخبیثات کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیتیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کہ جس وقت منافق مردود نے انکے خلاف طوفان برپا کیا تھا، چناچہ اللہ تعالیٰ ان کو جو کچھ یہ بکتے پھرتے تھے اس سے بری کردیا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِص وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ) ” ” غافِلات “ سے مراد ایسی سیدھی سادھی ‘ بھولی بھالی ‘ معصوم عورتیں ہیں جن کے دل پاک ہیں ‘ جو ان معاملات سے بالکل بیخبر ہیں کہ بدچلنی کیا ہوتی ہے۔ ایسی با... تیں ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

21. The word ghafilat as used in the text means the women who are simple, unpretentious souls, who do not know any artifice, who have pious hearts and have no idea of immorality. They cannot even imagine that their names could ever be associated with any slander. The Prophet (peace be upon him) has said: To slander chaste women is one of the seven deadly sins. According to another tradition cited ... by Tabarani from Huzaifah, the Prophet (peace be upon him) said: To slander a pious woman suffices to ruin the good deeds of a hundred years. 21a For explanation, see (E.N. 55 of Surah YaSin) and (E.N. 25 of Surah HaMim Sajdah).  Show more

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :21 اصل میں لفظ غافلات استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہیں وہ سیدھی سادھی شریف عورتیں جو چھل بٹے نہیں جانتیں ، جن کے دل پاک ہیں ، جنہیں کچھ خبر نہیں کہ بد چلنی کیا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے ، جن کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ اندیشہ نہیں گزرتا کہ کبھی کوئی ان پر بھی الزام ... لگا بیٹھے گا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو موبقات ( تباہ کن ) ہیں ۔ اور طبرانی میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قذف المحصنۃ یھدم عمل مأۃ سَنَۃ ، ایک پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو برس کے اعمال کو غارت کر دینے کے لیے کافی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٣۔ ٢٥:۔ شروع سورت میں اس طرح کے جھوٹا عیب لگانے والوں کے ذکر میں توبہ کا تذکرہ بھی فرمایا ہے اور یہاں ان آیتوں میں توبہ کا تذکرہ نہیں ہے اس کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے کہ جس بہتان کا اس سورت میں ذکر ہے ‘ اس بہتان میں دو طرح کے آدمی تھے ‘ کچھ تو عبداللہ بن ابی منافق کی طرح کے تھے جو حقیقت میں مسلمانوں ... کے بدخواہ تھے اور کچھ لوگ مسلمان تھے ‘ جو حقیقت میں تو مسلمانوں کے بدخواہ نہیں تھے مگر منافقوں کی سنی سنائی باتوں پر اس بہتان کے چرچے میں شریک ہوگئے تھے مثلا جیسے حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثہ ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی تفسیر کے موافق شروع سورة کی آیتوں میں ان عیب لگانے والوں کا ذکر ہے جو حقیقت میں مسلمانوں کے بدخواہ نہیں تھے اور اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں ان کو توبہ کی توفیق ہونے والی تھی اور ان آیتوں میں ان عیب لگانے والوں کا ذکر ہے ‘ جو اپنے منافق پنے کے سبب سے نہ قابل توبہ باتوں سے توبہ کرنے کی پرواہ کرتے تھے ‘ نہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق ان کو توبہ کی توفیق ہونے والی تھی ‘ سورة منافقون میں آوے گا کہ پہلے تو عبد اللہ بن ابی نے مہاجرین کی بدخواہی کی باتیں کیں اور جب سورة منافقون کی آیتوں میں ان بدخواہی کی باتوں کی مذمت نازل ہوئی اور لوگوں نے عبداللہ بن ابی سے کہا کہ وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اپنی مغفرت کی دعا التجا کرے تو عبداللہ بن ابی نے لوگوں کا کہنا نہیں مانا اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانے اور مغفرت کی دعا کرنے کو بےپروائی سے ٹال دیا ‘ سورة منافقون میں یہ قصہ صحیح بخاری کی زید بن ارقم کی روایت سے مفصل آوے گا ‘ اس قصہ کا حاصل مطلب جو بیان کیا گیا ‘ اس سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ منافق لوگ نہ قابل توبہ باتوں سے توبہ کرنے کی پروا کرتے تھے نہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب کے موافق ان کو توبہ کی توفیق ہونے والی تھی یہ تو ایسے لوگوں کی دنیا کی پھٹکار کا حال ہوا کہ گناہ کئے اور توبہ کی توفیق نہ ہوئی ‘ آخرت میں ایسے لوگوں کے عذاب کو بڑا عذاب جو فرمایا ‘ اس باب میں صحیح بخاری ١ ؎ اور مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ دوزخ کے عذاب کا جو حال مجھ کو معلوم ہے اگر وہ پورا حال لوگوں کو معلوم ہوجاوے تو ان کو سوائے رونے کے اور کچھ کام نہ رہے ‘ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ آخرت کا بڑا عذاب وہ ہے جس میں گرفتار ہونا تو درکنار اس کا پورا حال سننا بھی انسان کی برداشت سے باہر ہے ‘ آگے ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس عذاب سے بچنے کے لیے قیامت کے دن اپنے گناہوں سے منکر ہوجاویں گے اور ان کے ہاتھ پیروں سے گناہوں کے کرنے کی گواہی دلوائی جاکر ان کا جرم ثابت کیا جاوے گا اور ہر ایک جرم کے موافق سزا دی جاوے گی جس سے ان کو معلوم ہوجاوے گا کہ دنیا میں جس سزا کے وعدہ سے ان لوگوں کو ڈرایا جاتا تھا ‘ اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ بالکل سچا اور ٹلنے والا نہیں تھا اَلْغَاِفِلَات کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیک بیبیاں ان عیب کی باتوں سے ایسی بیخبر ہیں کہ ان کے دل میں ان باتوں کا کبھی خیال تک بھی نہیں آتا۔ (١ ؎ نیز ملاحظہ ہو الترغیب والترہیب ص ٢٦٥ ج ٤ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:23) یرمون۔ ملاحظہ ہو (24:6) ۔ لعنوا۔ ماضی مجہول جمع مذکر غائب لعن مصدر (باب فتح) ان پر لعنت کی گئی وہ ملعون ہوئے۔ وہ رحمت سے دور کئے گئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔” بھولی “ سے مراد وہ سیدھی سادی شریف عورتیں ہیں جن کے دل پاک ہیں اور ان کے دل میں بدچلنی کا بھولے سے خیال نہیں آتا۔ امہات المومنین خصوصاً حضرت عائشہ (رض) ان بھولی عورتوں میں بالاولی شامل ہیں جن کے حق میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کے بعد بھی جو حضرت عائشہ (رض) سے بدگمانی رکھ... ے گا وہ کافر اور قرآن کا مخالف ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سات تباہ کردینے والی چیزوں سے بچو۔ “ صحابہ (رض) نے دریافت کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سات چیزوں کا ذکر فرمایا جن میں سے ایک بھولی مسلمان عورتوں پر تہمت لگانا تھی۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں سزا۔ سابقہ آیات میں حضرت عائشہ (رض) کے حوالہ سے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان کرتے ہوئے تہمت طرازی سے بچا کریں۔ اب تمام پاکدامن مومن عورتوں کے بارے میں اصول بیان کیا گیا ہے کہ جس نے ... پاکدامن، بیخبر بھولی بھالی مسلمان خواتین پر تہمت لگائی ان پر اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں لعنت کریں گے اور ان کے لیے عظیم تر عذاب ہوگا۔ ممکن ہے کہ دنیا میں یہ لوگ اپنی چرب لسانی یا کسی وجہ سے سزا سے بچ جائیں لیکن انہیں وہ دن یاد رکھنا چاہیے جس دن ان کی زبانیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کردار کے بارے میں گواہی دیں گے۔ جس کے بارے میں دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر ثبت کریں گے اور پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف شہادت دیں گے۔ ( یٰس : ٦٥) ایک اور مقام پر یوں بیان فرمایا ہے کہ جب مجرموں کے کان، آنکھیں اور پورا جسم ان کے خلاف گواہی دے گا تو وہ اپنے وجود سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ آج تمہیں ہمارے خلاف بولنے کی کس نے طاقت دی ہے۔ مجرم کے تمام اعضا پکار اٹھیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے بولنے کی طاقت دی ہے جس نے ہر چیز کو بولنے کی استعداد بخشی ہے (حٰم السجدہ : آیت ٢٠، ٢١) اس ارشاد سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ انسان کو اپنی زبان، ہاتھ اور پاؤں کو شریعت کے تابع کردینا چاہیے۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلمان کی اس طرح تعریف فرمائی ہے (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ ، وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَی اللَّہُ عَنْہُ ) [ رواہ البخاری : باب الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مہاجر وہ ہے جس نے اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دیا۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قَالُوْا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بالْحَقِّ وَاَکْلُ الرِّبٰو وَاَکْلُ مَالِ الْےَتِےْمِ وَالتَّوَلِّی ےَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سات ہلاک کردینے والے گناہوں سے بچتے رہو۔ آپ سے پوچھا گیا اللہ کے رسول وہ کون سے ہیں ؟ فرمایا (١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا ‘ (٢) جادو کرنا (٣) ایسے شخص کو قتل کرنا جسے اللہ نے قتل کرنا حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ سود۔ یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے فرار ہونا اور پاک دامن ایمان دار بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔ “ مسائل ١۔ پاک دامن عورتوں پر الزام لگانے والے دنیا و آخرت میں لعنت کے مستحق ہیں۔ قیامت کے دن انہیں بڑے عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے ہاتھ پاؤں اور زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی۔ ٣۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے کیے کا پورا، پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ٤۔ قیامت کے دن سبھی کو بالخصوص مجرموں کو پتہ چل جائے گا کہ اللہ کی ذات اور اس کا فرمان حق ہے۔ تفسیر بالقرآن انسان کے اعضاء اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دیں گے ١۔ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٦) ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے خلاف ان کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دیں گے۔ (حٰم السجدۃ : ٢٠) ٣۔ مجرموں کے ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے۔ (یٰس : ٦٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(ان الذین یرمون۔۔۔۔۔۔۔ ھوالحق المبین) (٢٤ : ٢٥) ” جو لوگ پاک دامن ‘ بیخبر ‘ مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ وہ اس دن کو بھول نہ جائیں جبکہ ان کی اپنی زبانیں اور ان کے اپنے ہاتھ پائوں ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ اس دن اللہ وہ بدلہ انہی... ں بھرپور دے دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا “۔ اللہ یہاں ان لوگوں کے جرم کو اس طرح پیش کررہا ہے کہ کوئی عورت بیخبر اپنے کسی کام میں مشغول ہو اور اچانک اس پر تیروں کی بارش شروع کردی جائے جس کی اسے توقع نہ ہو اور نہ اس نے اسکا کوئی دفاع سو چاہو۔ اس طرح موجودہ مقدمہ میں ایک مطمئن بےگناہ عورت پر تیروں کی بارش شروع کردی گئی جبکہ اسے اس طرح کی کسی بات کی توقع ہی نہ تھی۔ یہ اس قسم کا جرم ہے جو نہایت ناپسند یدہ ‘ منکر اور ظالمانہ حملہ تھا۔ اس وجہ سے ایسی پلاننگ کرنے والوں کی سزا کا آغاز اللہ کی لعنت سے ہوگا۔ ان پر اللہ کی لعنت ہوگی اور دنیا اور آخرت دونوں میں وہ رحمت خداوندی سے محروم ہوں گے۔ پھر قیامت میں ان کا یہ حال ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ” ان الذین یرمون الخ “ یہ منافقین کے لیے تخویف دنیوی و اخروی ہے وہ دنیا اور آخرت میں خداوند تعالیٰ کی لعنت کا مورد ہیں اور آخرت میں انہیں ہولناک عذاب میں بھی مبتلا کیا جائیگا اس سے عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین مراد ہے جو واقعہ افک کا سرغنہ تھا۔ قال مقاتل ھذا خاص فی عبداللہ ابن ابی المنافق (معا... لم ج 5 ص 64، خازن ص 65) ۔ ” یوم تشھد الخ “ ظرف لغو یا ” عذاب عظیم “ سے متعلق ہے قیامت کو جب یہ منافق اپنے افعال قبیحہ اور اعمال شنیعہ کے ارتکاب سے انکار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے گویائی کا اختیار سلب کرلے گا اور ان کے جوارح کو بولنے کی قوت عطاء فرما دے گا۔ چناچہ ان کے ہاتھ پاؤں اور زبان ان کے اختیار کے بغیر بول کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ ابن انطقھن اللہ من غیر اختیارھم (جامع ص 307) ۔ ” یومئذ یوفیھم اللہ الخ “ دینھم، دین کے معنی حساب اور جزاء کے ہیں یعنی قیامت کے دن اللہ عدل و انصاف کے ساتھ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور ان پر ظلم نہیں کرے گا ای حسابھم وجزاءھم (قرطبی) ومعنی الھق الثابت الذی ھوم اھلہ (مدارک) و یعلمون ان اللہ الخ دنیا میں منافقین اللہ کی توحید اور دین اسلام کی سچائی سے شک میں تھے لیکن قیامت کے دن ان کے تمام شکوک رفع ہوجائیں گے اور ان پر واضح ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید حق ہے اور اس کا دین سچا ہے۔ عن ابن عباس انھا نزلت فی عبداللہ بن ابی کان یشک فی الدین فاذا کان یوم القیامۃ علم حیث لا ینفعہ (بحر ج 6 ص 440) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) بلاشبہ ! جو لوگ ایسی عفیفہ اور پاک دامن عورتوں پر جو برے کاموں اور بےحیائی کی باتوں سے بالکل بیخبر اور ایمان والیاں ہی بدکاری کا عیب لگاتے اور زنا کی تہمت دھرتے ہیں تو ایسے لوگوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی جاتی ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں ملعون قرار دیئے جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کو اس دن بڑا س... خت عذا ب ہوگا۔  Show more