Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 3

سورة النور

اَلزَّانِیۡ لَا یَنۡکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوۡ مُشۡرِکَۃً ۫ وَّ الزَّانِیَۃُ لَا یَنۡکِحُہَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوۡ مُشۡرِکٌ ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾

The fornicator does not marry except a [female] fornicator or polytheist, and none marries her except a fornicator or a polytheist, and that has been made unlawful to the believers.

زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کر دیا گیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells: الزَّانِي لاَ يَنكِحُ إلاَّ زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً ... The Zani marries not but a Zaniyah or a Mushrikah; Here Allah tells us that the Zani (male who is guilty of illegal sex) does not have intercourse except with a Zaniyah (female who is guilty of illegal sex) or a Mushrikah (female idolator), meaning that no one would go along with him in this action except a sinful woman who is also guilty of Zina, or a Mushrikah who does not think it is unlawful. By the same token, ... وَالزَّانِيَةُ لاَا يَنكِحُهَا إِلاَّ زَانٍ ... and the Zaniyah, none marries her except a Zani, a sinful man who is guilty of fornication, ... أَوْ مُشْرِكٌ ... or a Mushrik (a man) who does not think it is unlawful. ... وَحُرِّمَ ذَلِكَ عَلَى الْمُوْمِنِينَ Such a thing is forbidden to the believers. meaning, indulging in this, or marrying prostitutes, or marrying chaste women to immoral men. Qatadah and Muqatil bin Hayyan said: "Allah forbade the believers from marrying prostitutes." This Ayah is like the Ayah (about marrying slave-girls): مُحْصَنَـت غَيْرَ مُسَـفِحَـتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ they should be chaste, not committing illegal sex, nor taking boyfriends. (4:25) And His saying: مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلاَ مُتَّخِذِى أَخْدَانٍ desiring chastity not committing illegal sexual intercourse, nor taking them as girlfriends. (5:5) Imam Ahmad recorded that: Abdullah bin `Amr, may Allah be pleased with him, said that a man among the believers asked the Messenger of Allah for permission (to marry) a woman known as Umm Mahzul, who used to commit adultery, and who had stated the condition that she should spend on him. So he asked the Messenger of Allah for permission, or he mentioned the matter to him. The Messenger of Allah recited to him: الزَّانِى لاَ يَنكِحُ إِلاَّ زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لاَ يَنكِحُهَأ إِلاَّ زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَحُرِّمَ ذلِكَ عَلَى الْمُوْمِنِينَ The Zani marries not but a Zaniyah or a Mushrikah; and the Zaniyah, none marries her except Zani or a Mushrik. Such a thing is forbidden to the believers. Ibn Abi Hatim recorded that Abu Hurayrah said, لاَا يَنْكِحُ الزَّانِي الْمَجْلُودُ إِلاَّ مِثْلَهُ A Zani who has been flogged should not marry anyone except someone who is like him. A similar report was recorded by Abu Dawud in his Sunan.

زانی اور زانیہ اور اخلاقی مجرم اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ زانی سے زنا کاری پر رضامند وہی عورت ہوتی ہے جو بدکار ہو یا مشرکہ ہو کہ وہ اس برے کام کو عیب ہی نہیں سمجھتی ۔ ایسی بدکار عورت سے وہی مرد ملتا ہے جو اسی جیسا بدچلن ہو یا مشرک ہو جو اس کی حرمت کا قائل ہی نہ ہو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہ سند صحیح مروی ہے کہ یہاں نکاح سے مراد جماع ہے یعنی زانیہ عورت سے زنا کار یا مشرک مرد ہی زنا کرتا ہے ۔ یہی قول مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، عروہ بن زبر ، ضحاک ، مکحول ، مقاتل بن حیان اور بہت سے بزرگ مفسرین سے مروی ہے ۔ مومنوں پر یہ حرام ہے یعنی زناکاری کرنا اور زانیہ عورتوں سے نکاح کرنا یا عفیفہ اور پاک دامن عورتوں کو ایسے زانیوں کے نکاح میں دینا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بدکار عورتوں سے نکاح کرنا مسلمانوں پر حرام ہے جیسے اور آیت میں ہے ( مُحْصَنٰتٍ غَيْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ 25؀ۧ ) 4- النسآء:25 ) یعنی مسلمانوں کو جن عورتوں سے نکاح کرنا چاہئے ان میں یہ تینوں اوصاف ہونے چاہئیں وہ پاک دامن ہوں ، وہ بدکار نہ ہوں ، نہ چوری چھپے برے لوگوں سے میل ملاپ کرنے والی ہوں ۔ یہی تینوں وصف مردوں میں بھی ہونے کا بیان کیا گیا ہے ۔ اسی لئے امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ نیک اور پاک دامن مسلمان کا نکاح بدکار عورت سے صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ہاں بعد از توبہ عقد نکاح درست ہے ۔ اسی طرح بھولی بھالی ، پاک دامن ، عفیفہ عورتوں کا نکاح زانی اور بدکار لوگوں سے منعقد ہی نہیں ہوتا ۔ جب تک وہ سچے دل سے اپنے اس ناپاک فعل سے توبہ نہ کرلے کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ یہ مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے ۔ ایک شخض نے ام مھزول نامی ایک بدکار عورت سے نکاح کرلینے کی اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس کی طلب اجازت پر یہ آیت اتری ۔ ترمذی شریف میں ہے کہ ایک صحابی جن کا نام مرثد بن ابو مرثد تھا ، یہ مکہ سے مسلمان قیدیوں کو اٹھالایا کرتے تھے اور مدینے پہنچا دیا کرتے تھے ۔ عناق نامی ایک بدکار عورت مکے میں رہا کرتی تھی ۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کا اس عورت سے تعلق تھا ۔ حضرت مرثد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں ایک قیدی کو لانے کیلئے مکہ شریف گیا ۔ میں ایک باغ کی دیوار کے نیچے پہنچا رات کا وقت تھا چاندنی چٹکی ہوئی تھی ۔ اتفاق سے عناق آپہنچی اور مجھے دیکھ لیا بلکہ پہچان بھی لیا اور آواز دے کر کہا کیا مرثد ہے؟ میں نے کہا ہاں مرثد ہوں ۔ اس نے بڑی خوشی ظاہر کی اور مجھ سے کہنے لگی چلو رات میرے ہاں گزارنا ۔ میں نے کہا عناق اللہ تعالیٰ نے زناکاری حرام کردی ہے ۔ جب وہ مایوس ہوگئی تو اس نے مجھے پکڑوانے کیلئے غل مچانا شروع کیا کہ اے خیمے والو ہوشیار ہو جاؤ دیکھو چور آگیا ہے ۔ یہی ہے جو تمہارے قیدیوں کو چرا کر لے جایا کرتا ہے ۔ لوگ جاگ اٹھے اور آٹھ آدمی مجھے پکڑنے کیلئے میرے پیچھے دوڑے ۔ میں مٹھیاں بند کرکے خندق کے راستے بھاگا اور ایک غار میں جاچھپا ۔ یہ لوگ بھی میرے پیچھے ہی پیچھے غار پر آپہنچے لیکن میں انہیں نہ ملا ۔ یہ وہیں پیشاب کرنے کو بیٹھے واللہ ان کا پیشاب میرے سر پر آ رہا تھا لیکن اللہ نے انہیں اندھا کردیا ۔ ان کی نگاہیں مجھ پر نہ پڑیں ۔ ادھر ادھر ڈھونڈ بھال کر واپس چلے گئے ۔ میں نے کچھ دیر گزار کر جب یہ یقین کرلیا کہ وہ پھر سوگئے ہوں گے تو یہاں سے نکلا ، پھر مکے کی راہ لی اور وہیں پہنچ کر اس مسلمان قیدی کو اپنی کمر پر چڑھایا اور وہاں سے لے بھاگا ۔ چونکہ وہ بھاری بدن کے تھے ۔ میں جب اذخر میں پہنچا تو تھک گیا میں نے انہیں کمر سے اتارا ان کے بندھن کھول دیئے اور آزاد کردیا ۔ اب اٹھاتا چلاتا مدینے پہنچ گیا ۔ چونکہ عناق کی محبت میرے دل میں تھی ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اس سے نکاح کرلوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے ۔ میں نے دوبارہ یہی سوال کیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور یہ آیت اتری ۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے مرثد زانیہ سے نکاح زانی یا مشرک ہی کرتا ہے تو اس سے نکاح کا ارادہ چھوڑ دے ۔ امام ابو داؤد اور نسائی بھی اسے اپنی سنن کی کتاب النکاح میں لائے ہیں ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے زانی جس پر کوڑے لگ چکے ہوں وہ اپنے جیسے سے ہی نکاح کرسکتا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، تین قسم کے لوگ ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے اور جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ ( ١ ) ماں باپ کا نافرمان ۔ ( ٢ ) وہ عورتیں جو مردوں کی مشابہت کریں ۔ ( ٣ ) اور دیوث ۔ اور تین قسم کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ۔ ( ١ ) ماں باپ کا نافرمان ( ٢ ) ہمیشہ کا نشے کا عادی ( ٣ ) اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتانے والا ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے ( ١ ) ہمیشہ کا شرابی ۔ ( ٢ ) ماں باپ کا نافرمان ۔ ( ٣ ) اور اپنے گھر والوں میں خباثت کو برقرار رکھنے والا ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے جنت میں کوئی دیوث نہیں جائے گا ۔ ابن ماجہ میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے پاک صاف ہو کر ملنا چاہتا ہے ، اسے چاہئے کہ پاکدامن عورتوں سے نکاح کرے جو لونڈیاں نہ ہوں ۔ اس کی سند ضعیف ہے ۔ دیوث کہتے ہیں بےغیرت شخص کو ۔ نسائی میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے اپنی بیوی سے بہت ہی محبت ہے لیکن اس میں یہ عادت ہے کہ کسی ہاتھ کو واپس نہیں لوٹاتی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طلاق دیدے ۔ اس نے کہا مجھے تو صبر نہیں آنے کا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر جا اس سے فائدہ اٹھا ۔ لیکن یہ حدیث ثابت نہیں اس کا راوی عبدالکریم قوی نہیں ۔ دوسرا راوی اس کا ہارون ہے جو اس سے قوی ہے مگر ان کی روایت مرسل ہے اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ یہی روایت مسند میں مروی ہے لیکن امام نسائی رحمتہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ مسند کرنا خطا ہے اور صواب یہی ہے کہ یہ مرسل ہے ۔ یہ حدیث کی اور کتابوں میں ہے اور سندوں سے بھی مروی ہے ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ تو اسے منکر کہتے ہیں ۔ امام ابن قتیبہ رحمتہ اللہ علیہ اس کی تاویل کرتے ہیں کہ یہ جو کہا ہے کہ وہ کسی چھونے والے کے ہاتھ کو لوٹاتی نہیں اس سے مراد بیحد سخاوت ہے کہ وہ کسی سائل سے انکار ہی نہیں کرتی ۔ لیکن اگر یہی مطلب ہوتا تو حدیث میں بجائے لامس کے لفظ کے ملتمس کا لفظ ہونا چاہئے تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی خصلت ایسی معلوم ہوتی تھی نہ یہ کہ وہ برائی کرتی تھی کیونکہ اگر یہی عیب اس میں ہوتا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی رضی اللہ کو اس کے رکھنے کی اجازت نہ دیتے کیونکہ یہ تو دیوثی ہے ۔ جس پر سخت وعید آئی ہے ۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ خاوند کو اس کی عادت ایسی لگی ہو اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا کہ پھر طلاق دیدو لیکن جب اس نے کہا کہ مجھے اس سے بہت ہی محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسانے کی اجازت دیدی کیونکہ محبت تو موجود ہے ۔ اسے ایک خطرے کے صرف وہم پر توڑ دینا ممکن ہے کوئی برائی پیدا کردے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ الغرض زانیہ عورتوں سے پاک دامن مسلمانوں کو نکاح کرنا منع ہے ہاں جب وہ توبہ کرلیں تو نکاح حلال ہے ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ایسی ہی واہی عورت سے میرا برا تعلق تھا ۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں توبہ کی توفیق دی تو میں چاہتا ہوں کہ اس سے نکاح کرلوں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ زانی ہی زانیہ اور مشرکہ سے نکاح کرتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا اس آیت کا یہ مطلب نہیں تم اس سے اب نکاح کرسکتے ہو جاؤ اگر کوئی گناہ ہو تو میرے ذمے ۔ حضرت یحییٰ سے جب یہ ذکر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ آیت منسوخ ہے اس کے بعد کی آیت ( وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصّٰلِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَاۗىِٕكُمْ ۭ اِنْ يَّكُوْنُوْا فُقَرَاۗءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ 32؀ ) 24- النور:32 ) سے ۔ امام ابو ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی رحمتہ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ سو کوڑے کی سزا صرف کنوارے مرد اور عورت کے لوے ہے۔ جیسا کہ پہلے اس سورة کے حاشیہ نمبر ٣ کے ابتدا میں اس کی وضاحت کی جاچکی ہے اسی آیت کی تشریح میں درج ذیل حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے۔ عمرو بن شعیب کے دادا نے کہا کہ && مرثد بن ابی مرثد (عنصری) نامی ایک شخص قیدیوں کو مکہ سے مدینہ لے جایا کرتا تھا۔ مکہ میں ایک فاحشہ عورت تھی جس کا نام عناق تھا اور وہ مرثد کی (اسلام لانے سے پہلے) دوست تھی۔ مرثد نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے (مدینہ) لے جائے گا۔ مرثد کہتے ہیں کہ میں ایک چاندنی رات دیواروں کے سایہ میں چھپتے چھپاتے مکہ آیا۔ عناق آئی اور اس نے میرے سایہ کو دیوار کے ساتھ کی طرف سرکتے دیکھا۔ جب میرے قریب آگئی تو اس نے مجھے پہچان لیا اور پوچھا && مرثد ہے ؟ && میں نے کہا : && ہاں ! مرثد ہوں && وہ کہنے لگی : خوش آمدید ! آؤ اور ہمارے ہاں یہ رات گزارو && میں نے کہا : عناق ! اللہ نے زنا حرام قرار دیا ہے && وہ بول اٹھی : اے خیمہ والو ! یہ شخص ہے جو تمہارے قیدی اٹھا لے جاتا ہے && چناچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے میں خندمہ کی راہ پر چلنے لگا اور ایک غار میں جا گھسا۔ وہ آئے اور میرے سر پر کھڑے تھے۔ انہوں نے پیشاب کیا جو میرے سر پر پڑا۔ تاہم اللہ نے انھیں مجھے دیکھنے سے اندھا کردیا۔ پھر وہ چلے گئے اور میں پھر (مکہ میں) اپنے رفیق کے پاس آیا اور اسے اٹھا لیا وہ ایک بھاری بھر کم آدمی تھا۔ میں اسے اٹھا کر ادخر (کے مقام) تک پہنچا۔ پھر میں نے اس کی مشکیں کھول دیں اور پھر اسے اپنی پشت پر لاد لیا وہ مجھے تھکا تھکا دیتا تھا حتیٰ کہ میں مدینہ پہنچ گیا اور آپ کے پاس حاضر ہو کر کہا : یارسول اللہ ! کیا میں عناق سے نکاح کرلوں ؟ && آپ چپ رہے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ تب آپ نے مجھے فرمایا کہ (اس عورت سے نکاح نہ کر) (ترمذی۔ کتاب التفسیر) ہاں اگر کوئی زانیہ عورت یا زانی مرد اللہ کے حضور توبہ کرکے آئندہ کلیتؤہ اپنا طرز حیات بدل لے۔ تو پھر ایسے لوگوں سے نکاح کی اجازت ہے۔ اس آیت میں عام مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جو لوگ فحاشی میں مشہور ہوں ان سے رشتہ داری قائم نہ کی جائے۔ نہ انھیں لڑکی کا رشتہ دیا جائے نہ ان سے لیا جائے۔ حُرِّمَ ذٰلِکَ کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ فعل زنا مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : کہ زنا کرنے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔۔ الحدیث (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب اثم الزناہ) اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پاکباز اور عفیف مسلمانوں کے لئے بدکاروں سے رشتہ نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً : یہاں ایک سوال ہے کہ کئی زانی مرد عفیف اور پاک دامن عورتوں سے نکاح کرتے ہیں اور کئی زانیہ عورتوں سے عفیف اور پاک دامن مرد نکاح کرلیتے ہیں، تو اس آیت کا مطلب کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب بعض مفسرین نے یہ دیا ہے کہ یہاں نکاح سے مراد معروف نکاح نہیں ہے، بلکہ یہ جماع کے معنی میں ہے اور مقصد زنا کی قباحت اور شناعت بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زانی مرد اپنی ناجائز ہوس کسی زانیہ ہی سے پوری کرے گا جو اس جیسی بدکار ہے، یا کسی مشرکہ سے جو زنا کو حرام نہیں سمجھتی، اسی طرح زانیہ عورت کی ناجائز ہوس وہی مرد پوری کرے گا جو اس جیسا بدکار ہے، یا کوئی مشرک جو زنا کو حرام نہیں سمجھتا اور ایسا کرنا یعنی زنا کرنا مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ طبری نے حسن سند کے ساتھ یہ تفسیر ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے اور اسے راجح قرار دیا ہے۔ اس تفسیر کے مطابق آیت سے مراد زنا کی حرمت ہے، نکاح کی حرمت نہیں۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ فاسق و فاجر آدمی، جس کی عادت زنا اور فسق ہے، اسے صالح عورتوں سے نکاح کی رغبت نہیں ہوتی، اسے اپنے جیسی کسی خبیث، فاسق اور بدکار عورت یا اس جیسی مشرکہ عورت ہی سے نکاح کی رغبت ہوتی ہے، اسی طرح علانیہ بدکار اور فاسق عورت سے نکاح کی رغبت صالح مردوں کو نہیں ہوتی بلکہ اس جیسے بدکار مردوں ہی کو ہوتی ہے۔ ان مفسرین کے مطابق یہ حکم اکثر لوگوں کا بیان ہوا ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے نیکی کوئی پرہیزگار آدمی ہی کرتا ہے، حالانکہ بعض اوقات وہ آدمی بھی نیکی کرلیتا ہے جو پرہیزگار نہیں ہوتا۔ اسی طرح زانی بعض اوقات عفیفہ و مومنہ عورت سے نکاح کرلیتا ہے اور زانیہ عورت سے بعض اوقات عفیف و مومن مرد نکاح کرلیتا ہے۔ مشرک مرد اور مشرکہ عورت کی زانی مرد اور زانیہ عورت کے ساتھ ایک مناسبت یہ ہے کہ جس طرح مشرک مرد اور مشرکہ عورت اپنے مالک کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر جھکتے ہیں اسی طرح زانی مرد اپنی بیوی کو چھوڑ کر اور زانیہ عورت اپنے شوہر کو چھوڑ کر غیروں سے منہ کالا کرتے ہیں۔ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِين :” ذٰلِكَ “ کا اشارہ بعض نے زنا کی طرف قرار دیا ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، مگر زیادہ درست یہی ہے کہ یہ اشارہ عقد نکاح کی طرف ہے۔ یعنی یہ جانتے ہوئے کہ فلاں عورت بدکار اور غیر تائب ہے، اس سے نکاح کرنا مومن مردوں کے لیے حرام ہے، اسی طرح اپنی پاک دامن بیٹی کو کسی بدکار شخص کے نکاح میں دینا جو تائب نہ ہو، مومنوں کے لیے حرام ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ ۚ وَالطَّيِّبٰتُ للطَّيِّبِيْنَ ) [ النور : ٢٦ ] ” گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر بھی مردوں اور عورتوں کے نکاح کے لیے دونوں کے پاک دامن ہونے کی اور بدکار نہ ہونے کی شرط لگائی ہے، چناچہ فرمایا : (اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ ۭ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ ۠ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۡ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ ) [ المائدۃ : ٥ ] ” آج تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئیں اور ان لوگوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے جنھیں کتاب دی گئی اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انھیں ان کے مہر دے دو ، اس حال میں کہ تم قید نکاح میں لانے والے ہو، بدکاری کرنے والے نہیں اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے۔ “ ” وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ “ کی شان نزول میں مروی حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بدکار عورتوں یا بدکار مردوں سے، جو تائب نہ ہوں، نکاح حرام ہے۔ عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جسے مرثد بن ابی مرثد (t) کہا جاتا تھا، وہ مکہ سے قیدی اٹھا کر مدینہ لایا کرتا تھا اور مکہ میں ایک بدکار عورت تھی، جسے عناق کہا جاتا تھا، وہ اس کی دوست تھی۔ مرثد بن ابی مرثد نے مکہ میں قید ایک آدمی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ اس کا بیان ہے کہ میں مکہ میں آیا اور میں چاندنی رات میں مکہ کی ایک دیوار کے سائے میں تھا کہ عناق آئی، اس نے دیوار کے ساتھ میرے سائے کا ہیولا دیکھا۔ جب وہ میرے پاس پہنچی تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ کہنے لگی : ” مرثد ہو ؟ “ میں نے کہا : ” مرثد ہوں۔ “ کہنے لگی : ” مرحباً و اھلاً ، آؤ ہمارے پاس رات گزارو۔ “ میں نے کہا : ” عناق ! اللہ نے زنا حرام کردیا ہے۔ “ اس نے آواز دی، خیموں والو ! یہ وہ آدمی ہے جو تمہارے آدمی اٹھا لے جاتا ہے۔ چناچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے اور میں (مکہ کے ایک پہاڑ) خندمہ پر چلنے لگا، حتیٰ کہ اس کی ایک غار تک پہنچ کر اس میں داخل ہوگیا۔ وہ لوگ آئے، حتیٰ کہ میرے سر پر آ کھڑے ہوئے اور انھوں نے پیشاب کیا، تو ان کا پیشاب میرے سر پر گرا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مجھ سے اندھا کردیا۔ پھر وہ واپس چلے گئے، میں بھی دوبارہ اپنے ساتھی کے پاس آیا اور اسے اٹھایا، وہ آدمی بھاری تھا، یہاں تک کہ میں اسے ” اذخر “ تک لے آیا (یعنی مکہ سے باہر جہاں اذخر گھاس تھی) ، اس کی بھاری بیڑی کھولی اور اسے اس طرح لے کر چلا کہ میں اسے اٹھاتا تھا اور وہ مجھے تھکا دیتا تھا، حتیٰ کہ میں مدینہ پہنچ گیا۔ تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : ” یا رسول اللہ ! میں عناق سے نکاح کرلوں ؟ “ میں نے دو مرتبہ یہ بات کہی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : (اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ) [ النور : ٣ ] تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مرثد ! زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور جو زانیہ یا مشرکہ ہے اس سے نکاح نہیں کرتا مگر جو زانی ہے یا مشرک ہے، اس لیے تو اس (عناق) سے نکاح مت کر۔ “ [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة النور : ٣١٧٧۔ نساءي : ٣٢٣٠۔ أبوداوٗد : ٢٠٥١۔ مستدرک حاکم : ٢؍١٦٦، ح : ٢٧٠١، و قال الألباني حسن الأسناد ] ابن قیم (رض) نے فرمایا : ” زانیہ عورت سے نکاح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں تصریح فرمائی ہے کہ وہ حرام ہے اور فرمایا کہ جو اس سے نکاح کرے وہ زانی ہے یا مشرک، کیونکہ یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی قبول کرے گا اور اس کے وجوب کا عقیدہ رکھے گا یا نہیں۔ اگر وہ اس کے وجوب کا عقیدہ ہی نہ رکھتا ہو تو وہ مشرک ہے اور اگر اس کی پابندی قبول کرتا ہو اور اس کے وجوب کا عقیدہ رکھتا ہو، پھر اس کی خلاف ورزی کرے تو وہ زانی ہے۔ پھر اس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی کہ زانی یا مشرک سے نکاح مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ “ اس آیت کے مطابق امام احمد ابن حنبل (رح) پاک دامن مرد کا نکاح زانی غیر تائب عورت سے اور پاک دامن عورت کا نکاح زانی غیر تائب مرد سے حرام قرار دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رض) نے تفسیر سورة نور میں اس مسلک کی تائید کرتے ہوئے ان لوگوں کی پُر زور تردید کی جو اس نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں۔ 3 اگر کسی مرد سے زنا سرزد ہوجائے، پھر وہ توبہ کرلے تو اس کا نکاح پاک دامن عورت سے جائز ہے، اسی طرح زانیہ عورت توبہ کرلے تو اس سے عفیف مومن کا نکاح جائز ہے، جیسا کہ کوئی مشرک مرد یا عورت شرک سے توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں تو ان کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ اس کی دلیل سورة فرقان کی آیت (٧٠) اور دوسری بہت سی آیات ہیں۔ ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ میں ایک عورت کے پاس جاتا تھا اور اس کے ساتھ اس کام کا ارتکاب کرتا تھا جو اللہ نے مجھ پر حرام کیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔ اب میرا ارادہ ہے کہ اس سے نکاح کروں تو کچھ لوگوں نے کہا ہے : ” إِنَّ الزَّانِيْ لَا یَنْکِحُ إِلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً “ ” زانی نہیں نکاح کرے گا مگر زانیہ سے یا مشرکہ سے۔ “ تو ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” یہ آیت اس کے متعلق نہیں، تم اس سے نکاح کرلو، جو گناہ ہوگا وہ میرے ذمے رہنے دو ۔ “ (ابن کثیر، دکتور حکمت بن بشیر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The second injunction about fornication The first injunction was regarding the punishment of fornication, which has been described in the previous verse. The second injunction is about marrying the men or women who have committed adultery. Alongside the marriage with polytheist man and woman is also described. The commentators have given different views while explaining this verse, but the simplest and safe meaning is that fornication is an obnoxious act, and as such whoever indulges in this act loses his character and taste, and is attracted towards persons of the same character, and likes o marry them. The objective of this verse, according to this interpretation, is not part of an injunction, but merely to describe a fact of life, normally seen in everyday life. This is a reflection on the filthy act of fornication, and its far reaching detrimental and evil effects. In other words, the verse says that fornication is a poison to ethics, and its poisonous effects ruin the moral behavior of man. He stops differentiating between good and bad, and develops a liking for evil things. He does not bother about permissible (حلال) and prohibited (حرام). Any woman that he fancies for is with the purpose of fornication, and hence he tries to cajole her into the shameful act. If he fails in his advances, only then agrees for the marriage under compulsion. But he does not really like the marriage, because he finds the objects of marriage, such as being faithful to wife, produce virtuous children and take charge of all her needs and alimony for life, a burden and nuisance for him. Since such a person does not have any concern with the marriage, his inclination is not restricted towards Muslim women but is as much for polytheist women. If a polytheist woman lays the condition of marital bond for fulfilling her religious obligation, then he would agree for the marriage as well to meet his desire, without having regard that such a marriage has no sanctity and is not valid in Islamic law. It, therefore, comes true on him that if he has a fancy for a Muslim woman, she would either be an adulterer or will become an adulterer after having illicit relations with him, or he would fancy a polytheist woman, with whom the marriage is as impermissible as adultery. This is the explanation of the first sentence of the verse, that is الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِ‌كَةً (24:3). Likewise, if a woman is a habitual adulterer and does not beg Allah&s pardon, then a truly believing Muslim male, for whom marriage is a religious trust, would not really fancy such a woman, especially knowing fully well that she would not give up her obnoxious habit of adultery even after the bond of marriage. Only a male adulterer would be attracted to her whose sole aim is to fulfill his lust rather than marriage. But if she makes marriage a condition for any mundane consideration, he accepts that too as a compromise. Alternatively, a polytheist male would agree to marry an adulterer (Muslim) woman. Since, marrying a polytheist is as prohibited for a Muslim woman as adultery, two things have been combined in this situation, that the man is both a polytheist and an adulterer. This is the explanation of the second sentence of the verse الزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِ‌كٌ . This has become apparent from the above explanation that the term adulterer is used for those men and women who do not repent and beg Allah&s Mercy, and stick to this evil habit. In case an adulterer man marries a chaste woman for the sake of house-keeping or for having children, then there is no ban to this marriage from this verse. Similarly, if an adulterer woman marries a virtuous man with the intent of leading a pure life, then also there is no stopping for such a marriage in the light of this verse. Such a marriage will be valid in accordance with the Islamic law. Majority of the Muslim jurists like Imam Abu Hanifah, Imam Malik and Imam Shafi` i etc. are of the same view, and it is also established that the companions of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) have solemnized such marriages. Tafsir Ibn Kathir has also reported the same fatwa by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) . Now, as to the last sentence of the verse وَحُرِّ‌مَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ (24:3) some commentators have explained the word ذٰلک as alluding towards adultery. In that case the meaning of the sentence would be that, as the adultery is such an evil act, it has been forbidden for believers. There is no confusion in the meaning by adopting this explanation, but taking ذٰلِکَ for the meaning of adultery is rather far fetched in the context of this verse. Therefore, other commentators have adopted the explanation for ذٰلک to allude towards the marriage of adulterer (man and woman) and polytheist (man and woman). The marriage between a Muslim man and a polytheist woman and between a polytheist man and a Muslim woman is even otherwise established as forbidden by other categorical Qur&anic injunctions, and there is consensus of Ummah on the issue. However, the marriage between an adulterer man and a chaste woman, and a chaste man and an adulterer woman is forbidden as implied by this sentence but is exclusive to the situation that a chaste man after marrying an adulterer woman does not stop her from indulging in adultery even after the marriage, as that will be nothing short of pimping, which is forbidden (حرام) by Islamic law. Similarly, if a pious and chaste lady marries a habitual adulterer man and let him indulge in adultery even after the marriage, then this is also forbidden (حرام). at is meant here is that it is a big sin, but it does not follow that their marriage will be nullified. The word &prohibited& (حرام) has two connotations in Islamic law. One, that this act is a sin and one who acts upon it will undergo punishment for that in the Hereafter, and the other is that it will have no legal validity in this world either. For instance if a Muslim man marries a polytheist or a woman of prohibited degree, then it is not only a sin but such a marriage is not valid under Islamic law. There is no difference between such a marriage and adultery. The second meaning of prohibition is that the act is forbidden (حرام) and is liable for punishment, but the legal consequences of the act are recognized. For example if a man elopes or abducts a woman and then marries her before two witnesses with her consent, then despite the act being unlawful, the marriage will be valid and the children legitimate. Similarly the marriage between an adulterer man and an adulterer woman is though prohibited if they marry for some worldly expediency but their real aim is adultery, yet, such a marriage is legally recognized. As such all the provisions of marriage, such as alimony, dower, lineage proof, heritage etc. will all be applicable. This way the word حرّم in this verse fits in very well for the polytheist woman as per former explanation, and for the adulterers (man and woman) according to the latter explanation. In the light of this explanation it is not needed to declare the verse as cancelled as has been done by some commentators.

خلاصہ تفسیر (زنا ایسی گندی چیز ہے کہ اس سے انسان کی طبیعت کا مزاج ہی بگڑ جاتا ہے اس کی رغبت بری ہی چیزوں کی طرف ہوجاتی ہے ایسے آدمی کی طرف رغبت بھی کسی ایسے ہی خبیث النفس کی ہو سکتی ہے جس کا اخلاقی مزاج بگڑ چکا ہو چناچہ زانی (اپنے زانی اور راغب الی الزنا ہونے کی حیثیت سے) نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے اور (اسی) طرح زانیہ کے ساتھ بھی (اس کے زانیہ اور راغب الی الزنا ہونے کی حیثیت سے) اور کوئی نکاح نہیں کرتا بجز زانی یا مشرک کے اور یہ (ایسا نکاح جو زانیہ کے زانیہ ہونے کی حیثیت کے ساتھ ہو جس کا نتیجہ آئندہ بھی اس کا مبتلائے زنا رہنا ہے یا کسی مشرک عورت کے ساتھ ہو) مسلمانوں پر حرام (اور موجب گناہ) کیا گیا ہے (گو صحت و عدم صحت میں دونوں میں فرق ہو کہ زانیہ بحیثیت زانیہ سے کوئی نکاح کر ہی لے تو گناہ ہونے کے باوجود نکاح منعقد اور صحیح ہوجاوے گا اور مشرکہ سے نکاح کیا تو ناجائز و گناہ ہونے کے علاوہ وہ نکاح ہی نہیں ہوگا بلکہ باطل ہوگا) ۔ معارف و مسائل زنا کے متعلق دوسرا حکم : پہلا حکم سزائے زنا کا تھا جو اس سے پہلی آیت میں بیان ہوچکا، یہ دوسرا حکم زانی اور زانیہ کے ساتھ نکاح کرنے سے متعلق ہے اس کے ساتھ مشرک مرد یا مشرک عورت سے نکاح کا بھی حکم ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ائمہ تفسیر کے اقوال بہت مختلف ہیں ان سب میں سہل اور اسلم تفسیر وہی معلوم ہوتی ہے جس کو خلاصہ تفسیر میں بین القوسین کی وضاحتوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ آیت کا شروع حصہ کوئی حکم شرعی نہیں بلکہ ایک عام مشاہدہ اور تجربہ کا بیان ہے جس میں زنا کا فعل خبیث ہونا اور اس کے اثرات کی دور رس مضرتوں کا ذکر ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ زنا ایک اخلاقی زہر ہے اس کے زہریلے اثرات سے انسان کا اخلاقی مزاج ہی بگڑ جاتا ہے اسے بھلے برے کی تمیز نہیں رہتی بلکہ برائی اور خباثت ہی مرغوب ہوجاتی ہے حلال حرام کی بحث نہیں رہتی۔ اور جو عورت اس کو پسند آتی ہے اس کا اصلی مقصود اس سے زنا کرنا اور اس کو زناکاری پر راضی کرنا ہوتا ہے اگر زنا کے ارادے میں ناکام ہوجاوے تو مجبوری سے نکاح پر راضی ہوتا ہے مگر نکاح کو دل سے پسند نہیں کرتا کیونکہ نکاح کے جو مقاصد ہیں کہ آدمی عفیف ہو کر رہے اور اولاد صالح پیدا کرے اور اس کے لئے بیوی کے حقوق نفقہ وغیرہ کا ہمیشہ کے لئے پابند ہوجاوے یہ ایسے شخص کو وبال معلوم ہوتے ہیں اور چونکہ ایسے شخص کو دراصل نکاح سے کوئی غرض ہی نہیں اس لئے اس کی رغبت صرف مسلمان عورتوں ہی کی طرف نہیں بلکہ مشرک عورتوں کی طرف بھی ہوتی ہے اور مشرک عورت اگر اپنے مذہب کی وجہ سے یا کسی برادری کی رسم کی وجہ سے نکاح کی شرط لگا لے تو مجبوراً وہ اس سے نکاح پر بھی تیار ہوجاتا ہے اس کی اس کو کچھ بحث ہی نہیں کہ یہ نکاح حلال اور صحیح ہوگا یا شرعاً باطل ٹھہرے گا۔ اس لئے اس پر یہ بات صادق آگئی کہ اس کی جس عورت کی طرف اصلی رغبت ہوگی اگر وہ مسلمان ہے تو زانیہ کی طرف رغبت ہوگی خواہ پہلے سے زنا کی عادی ہو یا اسی کے ساتھ زنا کر کے زانیہ کہلائے یا پھر کسی مشرک عورت کی طرف رغبت ہوگی جس کے ساتھ نکاح بھی زنا ہی کے حکم میں ہے یہ معنی ہوئے آیت کے پہلے جملہ کے یعنی الزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۔ اسی طرح جو عورت زنا کی خوگر ہو اور اس سے توبہ نہیں کرتی تو سچے مومن مسلمان جن کا مقصود اصلی نکاح اور نکاح کے شرعی فوائد و مقاصد ہیں وہ ایسی عورت سے متوقع نہیں اس لئے ان کو ایسی عورت کی طرف اصلی رغبت نہیں ہو سکتی۔ خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ یہ عورت نکاح کے بعد بھی اپنی بری عادت زنا نہ چھوڑے گی۔ ہاں ایسی عورت کی طرف رغبت یا تو زانی کو ہوگی جس کا اصلی مقصد اپنی خواہش پوری کرنا ہے نکاح مقصود نہیں۔ اس میں اگر وہ زانیہ کسی اپنی دنیوی مصلحت سے اس کے ساتھ ملنے کے لئے نکاح کی شرط لگا دے تو بادل ناخواستہ نکاح کو بھی گوارا کرلیتا ہے یا پھر ایسی عورت کے نکاح پر وہ شخص راضی ہوتا ہے جو مشرک ہو۔ اور چونکہ مشرک سے نکاح بھی شرعاً زنا ہی ہے اس لئے اس میں دو چیزیں جمع ہوگئیں کہ مشرک بھی ہے اور زانی بھی۔ یہ معنے ہیں آیت کے دوسرے جملے کے یعنی وّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ۔ مذکورہ تفسیر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت میں زانی اور زانیہ سے مراد وہ ہیں جو زنا سے توبہ نہ کریں اور اپنی اس بری عادت پر قائم رہیں۔ اور اگر ان میں سے کوئی مرد خانہ داری یا اولاد کی مصلحت سے کسی پاکدامن شریف عورت سے نکاح کرلے یا ایسی عورت کسی نیک مرد سے نکاح کرلے تو اس آیت سے اس نکاح کی نفی لازم نہیں آتی۔ یہ نکاح شرعاً درست ہوجائے گا۔ جمہور فقہاء امت امام اعظم ابو حنیفہ، مالک، شافعی وغیرہ رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے اور صحابہ کرام سے ایسے نکاح کرانے کے واقعات ثابت ہیں تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابن عباس کا بھی یہی فتویٰ نقل کیا ہے اب رہا آیت کا آخری جملہ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤ ْمِنِيْنَ ، اس میں بعض حضرات مفسرین نے تو ذالک کا اشارہ زنا کی طرف قرار دیا ہے تو معنے جملے کے یہ ہوگئے کہ جب زنا ایسا خبیث فعل ہے تو زنا مومنین پر حرام کردیا گیا۔ اس تفسیر پر معنے میں تو کوئی اشکال نہیں رہتا لیکن ذلک سے زنا مراد لینا سیاق آیت سے کسی قدر بعید ضرور ہے اس لئے دوسرے مفسرین نے ذلک کا اشارہ نکاح زانی وزانیہ اور مشرک و مشرکہ کی طرف قرار دیا ہے۔ اس صورت میں مشرکہ سے مسلمان مرد کا نکاح اور مشرک سے مسلمان عورت کا نکاح حرام ہونا تو دوسری نصوص قرآن سے بھی ثابت ہے اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے اور زانی مرد سے پاکدامن عورت کا نکاح یا زانیہ عورت سے عفیف مرد کا نکاح حرام ہونا جو اس جملے سے مستفاد ہوگا وہ اس صورت کے ساتھ مخصوص ہے کہ عفیف مرد زانیہ عورت سے نکاح کر کے اس کو زنا سے نہ روکے بلکہ نکاح کے بعد بھی اس کی زنا کاری پر راضی رہے کیونکہ اس صورت میں یہ دیوثیت ہوگی جو شرعاً حرام ہے۔ اسی طرح کوئی شریف پاکدامن عورت زنا کے خوگر شخص سے نکاح کرے اور نکاح کے بعد بھی اس کی زنا کاری پر راضی رہے یہ بھی حرام ہے یعنی ان لوگوں کا یہ فعل حرام اور گناہ کبیرہ ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا باہمی نکاح صحیح نہ ہو، باطل ہوجائے۔ لفظ حرام شریعت کی اصطلاح میں دو معنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ وہ گناہ ہے اس کا کرنے والا آخرت میں مستحق سزا ہے اور دنیا میں بھی یہ عمل بالکل باطل کالعدم ہے اس پر کوئی شرعی ثمرہ احکام دنیا کا بھی مرتب نہیں ہوگا جیسے کسی مشرک عورت سے یا جو عورتیں ہمیشہ کے لئے حرام ہیں ان میں سے کسی سے نکاح کرلیا تو یہ گناہ عظیم بھی ہے اور ایسا نکاح شرعاً کالعدم ہے زنا میں اور اس میں کوئی فرق نہیں۔ دوسرے یہ کہ فعل حرام ہے یعنی گناہ موجب سزا ہے مگر دنیا میں اس فعل کے کچھ ثمرات رہتے ہیں معاملہ صحیح ہوجاتا ہے جیسے کسی عورت کو دھوکہ دے کر یا اغوا کر کے لے آیا پھر شرعی قاعدے کے مطابق دو گواہوں کے سامنے اس کی مرضی سے نکاح کرلیا تو یہ فعل تو ناجائز و حرام تھا مگر نکاح صحیح ہوگیا اولاد ثابت النسب ہوگی۔ اسی طرح زانیہ اور زانی کا نکاح جبکہ ان کا مقصود اصلی زنا ہی ہو، نکاح محض کسی دنیوی مصلحت سے کرتے ہوں اور زنا سے توبہ نہیں کرتے ایسا نکاح حرام ہے مگر دنیوی احکام میں باطل کالعدم نہیں۔ نکاح کے ثمرات شرعیہ نفقہ، مہر ثبوت نسب اور میراث سب جاری ہوں گے۔ اس طرح لفظ حرم اس آیت میں مشرکہ کے حق میں پہلے معنے کے اعتبار سے اور زانیہ اور زانی کے حق میں دوسرے معنے کے اعتبار سے صحیح اور درست ہوگیا۔ اس تفسیر پر آیت کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہ رہی جیسا کہ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

زانیہ عورت سے نکاح کا بیان قول باری ہے (الزانی لا یکنح الا زانیۃ او مشرکۃ والزانیۃ لا ینکحھا الا زان او مشرک وحرم ذلک علی المومنین۔ زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور اہل ایمان پر حرام کردیا گیا ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عمر وبن شعیب نے اپنے والد سے ، انہوں نے عمرو کے دادا سے روایت کی ہے کہ مرثد بن ابی مرثد نامی ایک شخص تھا جو مکہ میں کافروں کے ہاں گرفتار شدہ مسلمانوں کو سواریوں پر بٹھا کر مدینے لایا کرتا تھا۔ مکہ میں عتاق نامی ایک ہیسوار رہتی تھی۔ جس کے اس شخص کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ مرثد نے مکہ میں پھنسے ہوئے ایک شخص کو مدینہ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب وہ اس مقصد کے لئے مکہ گیا تو عناق نے اسے دیکھ لیا اور کہنے لگی کہ آج رات میرے پاس ٹھہرجائو۔ مرثد نے جو ای جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زنا حرام کردیا ہے۔ یہ سن کر اسے غصہ آگیا اور چلا کر کہنے لگی۔ خیموں میں رہنے والوں ، یہی وہ شخص ہے جو تمہارے قیدیوں کو یہاں سے مدینے پہنچاتا ہے۔ مرثد کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوکرعرض کیا۔ آپعناق سے نکاح کرنا پسند کریں گے ؟ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ درج بالا آیت کا نزول ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ ” ہم اس سے نکاح نہیں کریں گے۔ “ عمرو بن شعیب نے اس روایت میں یہ بیان کیا ہے کہ آیت کا نزول زانیہ مشرکہ کے سلستے میں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ صرف زانی یا مشرک نکاح کرسکتا ہے۔ نیز یہ کہ مشرکہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح زنا ہے کیونکہ مشرکہ اس کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی۔ اس آیت کی تفسیر اور اس کے حکم کے متعلق سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں یحییٰ بن سعید اور یزید بن ہارون نے یحییٰ بن سعید الانصاری سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے کہ انہوں نے کہا ” اس آیت کو بعد میں آنے والی آیت (وانکحو الایامی منکم تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں ان کا نکاح کرادو ) نے منسوخ کردیا ہے ۔ کہاجاتا تھا کہ زانیہ عورت مسلمانوں کی بےنکاحی عورتوں میں سے ہے۔ “ اسی طرح سعید بن المسیب نے یہ بتایا کہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں ہمیں حجاج نے ابن جریج سے روایت سنائی۔ انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا۔ ” کچھ لوگ تھے جو زمانہ جاہلیت میں علانیہ طور پر بدکاری کا اڈا چلانے والی عورتوں کے ساتھ منہ کالا کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں سے کہا گیا کہ ان کے ساتھ اب جنسی تعلق زنا ہے۔ یہ جان کر انہوں نے ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ “ اس طرح مجاہد نے بھی یہ بیان کیا کہ آیت کا نزول چند مخصوص عورتوں کے متعلق ہوا تھا جن کا کردار اوپر بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول منقول ہے کہ ” آیت کا نزول ایک ایسے شخص کے بارے میں ہوا تھا جس نے ایک بیسوا سے اس شرط پر شادی کررکھی تھی کہ وہ اس کے اخراجات برداشت کرتی رہے گی۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے یہ بتایا کہ آیت میں نہی کہ یہ وجہ ہے یعنی یہ کہ ایک شخص کسی عورت سے اس شرط پر شادی کرے کہ وہ اس کی بدکاری کے کاروبار میں مخل نہیں ہوگا۔ حبیب بن ابی عمرہ نے سعید بن جبیر سے اور نہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” نکاح سے ہم بستری مراد ہے۔ “ ابن شبرمہ نے عکرمہ سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جس وقت کوئی انسان زنا کاری کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنی جیسی زنا کا عورت کے ساتھ منہ کالا کرتا ہے۔ “ حضرت ابن عباس (رض) کے غلام شعبہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بدکاری کا اڈہ چلانے والی عورتیں ہوتی تھیں وہ اپنے دروازوں پر جھنڈیاں آویزاں کردیتی تھیں جس طرح جانوروں کا علاج کرنے والے کیا کرتے تھے۔ ان جھنڈیوں کی وجہ سے وہ عورتیں پہچانی جاتیں اور لوگ ان کے پاس شہوت رانی کے لئے آتے جاتے۔ معمر نے ابراہیم نخعی سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ نکاح سے وہ جماع مراد ہے جو ارتکاب زنا کی صورت میں ہوتا ہے عروہ بن الزبیر سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ابوبکر حبصاص ان آراء پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تمام حضرات نے آیت کے مفہوم کے متعلق یہ رائے دی ہے کہ اس میں زنا کے فعل میں دونوں کی شرکت کی خبر دی گئی ہے۔ اس معاملے میں عورت بھی مرد کی طرح ہے جب مرد زانی ہوگا تو عورت بھی اس کی طرح زانیہ ہوگی بشرطیکہ اس نے بخوشی اس فعل قبیح کے ارتکاب کی خاطر اس کی بات مان لی ہو۔ جب عورت زانیہ ہوگی تو مرد بھی اس کی طرح زانی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے زنا کے فعل قبیح میں دونوں کی یکسانیت کا حکم بیان فرمادیا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حدزنا اور آخرت کی سزا کے استحقاق میں بھی دونوں کا حکم یکساں ہوگا۔ نیز قطع سوالات اور اس قسم کے دوسرے احکامات میں بھی دونوں یکساں ہوں گے۔ اس میں ایک اور قول بھی مروی ہے۔ عاصم الاحول نے حسن بصری سے آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جس شخص کو حد لگ چکی ہو وہ صرف اسی عورت سے نکاح کرے گا جسے حدلگ چکی ہو۔ “ زانیہ عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت ابن عمر (رض) ، مجاہد، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر اور دیگر حضرات سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرلے اور کوئی اور شخص بھی اس کے ساتھ یہ فعل بد سرانجام دے دے تو پہلے زانی کے لئے اس کے ساتھ نکاح کرلینا جائز ہوگا۔ حضرت علی (رض) ، حضرت عائشہ (رض) ، حضرت براء (رض) اور حضرت ابن مسعود (رض) سے (ایک روایت کے مطابق) مروی ہے کہ جب تک یہ دونوں اکٹھے رہیں گے زانی ہی رہیں گے۔ حضرت علی (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ جب کوئی شوہرزنا کا ارتکاب کرے گا تو اس کی بیوی سے اسے علیحدہ کردیا جائے گا ۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب بیوی زنا کا ارتکاب کرے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے زانیہ عورت سے نکاح کی ممانعت کردی ہے انہوں نے اس آیت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے جبکہ فقہاء امصار نکاح کے جواز پر متفق ہیں نیز یہ کہ زنا زانیہ بیوی کو اس کے شوہر کے لئے حرام کردینے کا موجب نہیں ہوتا نہ ہی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی واجب ہوتی ہے۔ قول باری (الزانی لا ینکح الا زانیۃ) یا تو جملہ خبر یہ کی صورت میں ہے جو اس کے حقیقی معنی ہیں یاجملہ انشائیہ کی صورت میں ہے اور نہی نیز تحریم پر دلالت کررہا ہے۔ پھر نکاح کے ذکر سے یا تو ہم بستری مراد ہے یا عقد نکاح۔ اب اس فقرے کو جملہ خبر یہ کہ صورت دے کر خیر کے معنوں پر محمول کرنا ممتنع ہے۔ اگرچہ فقرے کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ اس امتناع کی وجہ یہ ہے کہ ہم زانی مردوں اور زانیہ عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ فقرہ خبر کی صورت میں نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فقرہ میں حکم اور اور نہی مراد ہے۔ جب بات اس طرح ہے تو اب یا تو ہم بستری مراد ہوگی یا عقد نکاح۔ جبکہ لغت میں نکاح کے حقیقی معنی وطی اور ہم بستری کے ہیں۔ ہم نے یہ بات کئی مواقع پر بیان کی ہے۔ اس لئے اب اسے وطی کے معنوں پر محمول کرنا واجب ہوگیا ۔ جس طر ح حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے مروی ہے کہ نکاح سے جماع مراد ہے۔ نکاح کو عقد نکاح کے معنوں کی طرف کسی دلالت کی بنا پر پھیرا جاسکتا ہے اس لئے کہ نکاح کا یہ مجازی معنی ہے نیز یہ کہ جب حقیقی مراد ہونا ثابت ہوگیا تو اب مجازی معنی کا دخول منتفی ہوگیا۔ نیز اگر نکاح سے عقدنکاح مرادہوتا تو شوہر یا بیوی کے ارتکاب زنا کی بنا پر دونوں کے درمیان علیحدگی واجب نہ ہوتی اس لئے کہ میاں بیوی دونوں ہی پر زانی ہونے کے وصف کا اطلاق ہوتا تھا کیونکہ آیت زانیہ عورت کے ساتھ زانی مرد کے نکاح کی اباحت کی مقتضی ہے اس لئے یہ بات واجب ہوتی کہ عورت کے لئے اس مرد کے ساتھ نکاح کا جواز ہوجائے جس کے ساتھ اس نے منہ کالا کیا تھا۔ پیشتر اس سے کہ دونوں تائب ہوجاتے نیز یہ کہ زوجیت کی حالت میں میاں یا بیوی کی زناکاری ان دونوں کے درمیان علیحدگی کی موجب نہ بنتی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی بھی اہل علم نے یہ مسلک اختیار کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی واجب ہوجاتا کہ زنا کار مرد کے لئے مشرکہ سے نکاح کرنا اور زنا کار عورت کے لئے مشرک سے نکاح کرنا جائز ہوجائے۔ جب کہ یہ بات متفقہ طورپر جائز نہیں ہے۔ نیز یہ کہ مشرک عورتوں سے نکاح کرنا اور مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتوں کو دنیا حرام اور منسوخ ہے۔ اس لئے آیت دو باتوں میں سے ایک پر دلالت کرتی ہے یا تو نکاح سے جماع مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے مروی ہے یا آیت کا حکم منسوخ ہے جیسا کہ سعید بن المسیب سے مروی ہے۔ آیا زنا سے نکاح باطل ہوجاتا ہے ؟ زنا سے نکاح باطل نہیں ہوتا اس پر بعض حضرات اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کے راوی ہارون بن ریاب ہیں۔ انہوں نے عبیداللہ بن عبید سے اسے نقل کیا ہے اسی طرح عبدالکریم الجرزی نے ابوالزبیر سے سے اس کی روایت کی ہے۔ دونوں سندوں میں صحابی کا واسطہ نہیں ہے اس لئے یہ مرسل روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میری بیوی لامس یعنی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سا شخص کو اپنی سے تعلقات زن وشو باقی رکھنے کا حکم دیا۔ ان حضرات نے اس شخص کے قول کو ان معنوں پر محمول کیا ہے کہ اس کی بیوی کسی ایسے شخص کو نہیں روکتی جو اس کے ساتھ زنا کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اہل علم نے اس تاویل کو انتہائی طور پر ناپسند کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ روایت درست مان لی جائے تو اس کے اصل معنی یہ ہوں گے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو احمق اور بیوقوف قرار دیا ہے نیز اس میں سمجھ بوجھ کی کمی کی نشاندہی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ اس کے مال کو ضائع ہونے سے نہیں بچا سکتی یعنی وہ اس کے مال کو کسی مانگنے والے سے روکتی ہے اور نہ ہی چور سے اسے محفوظ رکھتی ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ روایت کی یہ تاویل اولیٰ ہے اس لئے کہ اس کے الفاظ کے یہی حقیقی معنی ہیں جبکہ لمس کو وطی اور ہم بستری پر محمول کرنا کنایہ اور مجاز ہے۔ اس کے برعکس جن معنوں پر ہم نے روایت کو محمول کیا ہے وہ اولیٰ ہے نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے زیادہ مناسب ہے جیسا کہ حضرت علی (رض) اور حضرت عبداللہ (رض) کا قول ہے کہ ” جب تمہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی روایت پہنچے تو اسے ان معنوں پر محمول کرو یعنی اس کے متعلق ان معنوں کا تصور کرو جو ہدایت سے زیادہ قریب۔ زیادہ پر لطف اور زیادہ مبنی بر تقویٰ ہوں۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (اولمستم النساء یا تم نے عورتوں سے ملامت کی ہو۔ ) یہاں جماح کو لمس قرار دیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ا س شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نہیں کہا کہ اس کی بیوی کسی لامس کو نہیں روکتی بلکہ یہ کہا کہ اس کی بیوی کسی لامس کے ہاتھ کو نہیں روکتی ، یہ بھی نہیں کہا کہ وہ کسی لامس کی شرمگاہ کو نہیں روکتی۔ ارشاد باری ہے (ولو نزلنا علیک کتابا فی قرطاس فلمسوہ بایدیھم اگر ہم تم پر کوئی کتاب کاغذ میں لکھی ہوئی نازل کرتے اور پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو لیتے) اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لمس کے حقیقی معنی ہاتھ لگانا اور ہاتھ سے چھونا ہے۔ جریرا الخطفی کسی گروہ پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے : الستم لئاما اذترومون جارھم ولولا ھمولم تمنعوا کف لامس کیا تم لوگ کمینے اور قابل مذمت نہیں ہو جبکہ تم ان کے پڑوسی پر ظلم ڈھانے کا قصد کررہے ہو اور اگر وہ لوگ نہ ہوتے اور تمہاری مدد نہ کرتے تو تم خود کسی ہاتھ لگانے والے کو ہاتھ کو بھی روک نہ سکتے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ شاعر نے یہاں لمس سے وطی مراد نہیں لی ہے بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ تم لوگ خود تو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفعیہ نہیں کرسکتے اور اپنے امول کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے بچا نہیں سکتے تو پھر تم ان کے پڑوسی پر ظلم کرنے کا ارادہ کیسے کرتے ہو ؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت تک زانیہ عورت سے نکاح کرنا اور اسے نکاح کے تحت رکھنا محفوظ رو ممنوع ہے جب تک وہ زنا کاری کا دھندا کرتی رہے۔ اگر چہ اس کا یہ فعل قبیح نکاح کو فاسد کرنے میں موثر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اہل ایمان محصن عورتوں اور اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اباحت کی ہے چناچہ ارشاد ہے (والمحصنات من المومنات و المحصنات من الذین اوتو الکتب من قبلکم۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال میں خواہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی) یعنی ان میں سے پاک دامن خواتین۔ نیز اگر زانیہ عورت سے زناکاری کے دھندے کی حالت میں نکاح کرلیا جائے تو اس میں یہ خطرہ موجود ہوگا کہ اس کے پیٹ سے کوئی ولدالزنا پیدا ہوگا اور وہ اسے اپنے شوہر کی طرف منسوب کرکے اس کا اسے وارث بنادے گی۔ جن لوگوں نے زانیہ عورت سے نکاح کی اجازت دی ہے ان کی اس اجازت کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب ایسی عورت زناکاری سے تائب ہوکر یہ دھندا چھوڑ چکی ہو۔ عورت کی زنا کاری میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کو واجب نہیں کرتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیوی پر تہمت زنا لگانے والے شوہر کے ساتھ اسے لعان کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد دونوں کی علیحدگی کا فرمان جاری کیا ہے۔ اگر عورت کے اندر زنا کاری کا وجود علیحدگی کو واجب کردیتا تو پھر شوہر کی طرف سے اس پر زنا کی تہمت لگتے ہی علیحدگی واقع ہوجاتی اس لئے کہ شوہر نے علیحدگی واجب کرنے والے امر کا اعتراف کرلیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شوہر یہ اعتراف کرلیتا ک ہ اس کی بیوی درحقیقت اس کی رضاعی بہن ہے یا اس کے باپ نے اس کے ساتھ ہمبستری کی تھی تو اس کے اس اعتراف کے ساتھ ہی دونوں کے درمیان علیحدگی ہوجاتی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لعان کے بعد علیحدگی کا حکم دے دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زنا کاری تحریم کی موجب ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو لعان کی بنا پر علیحدگی واجب نہ ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر صورت حال تمہارے قول کے مطابق ہوتی تو نفس قذف کے ساتھ ہی علیحدگی واجب ہوجاتی، لعان کی بنا پر علیحدگی کے وجوب کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن جب نفس قذف یعنی زنا کی تہمت لگاتے ہی علیحدگی واجب نہیں ہوئی تو اس سے معترض کے قول کے فساد پر دلالت حاصل ہوگئی۔ اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ لعان کی بنا پر علیحدگی واقع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لعان کی حیثیت عورت کے خلاف زنا کی گواہی دینے کی طرح ہے۔ جب عورت کے خلاف لعان کی بنا پر فیصلہ دے دیا گیا تو اس کے ساتھ ہی زنا کی وجہ سے علیحدگی کا حکم بھی دے دیا گیا۔ اس نکتے کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ نکتہ بھی غلط ہے۔ اس لئے کہ عورت کے خلاف اکیلے شوہر کی زنا کی گواہی عورت کو زانیہ قرار دینے کی موجب نہیں ہوتی جس طرح شوہر کے خلاف اکیلی بیوی کی یہ گواہی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، عورت پر تہمت کے سلسلے میں شوہر کو جھوٹا قرار دینے کی موجب نہیں بنتی کیونکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کی دوسرے کے خلاف دی گئی گواہیوں میں سے کوئی گواہی دوسری گواہی کے مقابلہ میں اولیٰ نہیں ہوتی۔ اگر شوہر کے متعلق یہ حکم ہوتا کہ بیوی کے خلاف اس کی زنا کی گواہی کو قبول کرلیا جائے اور اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ اس گواہی کے تحت اس پر حد زنا جاری کردی جائے۔ جب عورت کو اس گواہی کی بنا پر حد نہیں لگتی تو یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر کے کہنے کی بنا پر عورت کے متعلق یہ حکم نہیں لگایا جاتا کہ وہ زانیہ ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣) اور اہل کتاب میں سے علانیہ طور پر زنا کرنے والا مرد نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا سوائے اہل کتاب یا مشرکین میں سے کسی زانیہ کے اور اہل کتاب یا مشرکین کی زانیہ کے ساتھ بھی کوئی نکاح نہیں کرتا سوائے اہل کتاب میں سے کسی زانی یا مشرک کے اور یہ اس قسم کا نکاح جو اہل کتاب میں سے کسی زانیہ کے ساتھ من حیث الزانیہ ہو مشرکہ کے ساتھ ہو مسلمانوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ چند اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی، یہ لوگ اہل کتاب اور مشرکین عرب کی کنیزوں سے نکاح کرنا چاہتے تھے جو کہ کھلم کھلا زنا کاری میں مبتلا تھیں جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، انہوں نے اپنے ارادہ کو ترک کردیا۔ اور آیت کریمہ کی اس طرح بھی تفسیر کی گئی ہے کہ اہل قبلہ یا اہل کتاب کا زانی وہ اپنے ہی جیسی زانیہ یا اہل کتاب زانیہ یا مشرکہ ہی کے ساتھ نکاح کرتا ہے اور اہل قبلہ یا اہل کتاب کی زانیہ یا مشرکہ کے ساتھ اہل قبلہ یا اہل کتاب کا زانی یا مشرک ہی زنا کیا کرتا ہے اور یہ فعل زنا مسلمانوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ الزانی لا ینکح الا زانیۃ “۔ (الخ) امام نسائی (رح) نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ ام مہزول نامی ایک عورت بدچلن تھی، اصحاب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ایک صحابی نے اس سے نکاح کرنا چاہا تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، یعنی زانی نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا سوائے زانیہ یا مشرکہ کے، اور امام ابو داؤد (رح)، ترمذی (رح) نسائی (رح) اور امام حاکم (رح) نے عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت نقل کی ہے کہ میرثد نامی ایک شخص مکہ مکرمہ سے قیدیوں کو لے جایا کرتے تھے۔ اور مکہ مکرمہ میں عناق نامی ایک عورت ان کی دوست تھی انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس عورت سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی تب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے مرثد کہ زانی نکاح بھی کسی کے ساتھ نہیں کرتا سوائے زانیہ یا مشرکہ کے لہذا تم اس عورت سے شادی مت کرو، اور سعید بن منصور (رح) نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام کیا تو زانیہ عورتیں بہت خوبصورت تھیں تو لوگ آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ پھر ان عورتوں سے نکاح ہی کیوں نہ کرلیں تب یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣ (اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃًز) ” یہ حکم قانون کے درجے میں نہیں بلکہ اخلاق کے درجے میں ہے۔ یعنی اس شرمناک اور گھناؤنے جرم کا ارتکاب کر کے اس شخص نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی پاک دامن ‘ عفتّ مآب مؤمنہ کے لائق ہے ہی نہیں۔ چناچہ اسے چاہیے کہ وہ اس قانونی بندھن کے لیے بھی اپنے جیسی ہی کسی بدکار عورت یا پھر مشرکہ عورت کا انتخاب کرلے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. That is, only an adulterous woman is a fit match for an adulterous man who has not repented or an idolatrous woman. No believing, virtuous woman can be a match for him. It is forbidden for the believers that they should give their daughters in marriage to such wicked people knowing them to be so. Similarly the fit match for adulterous women (who have not repented) can only be adulterous or idolatrous men; they are not fit for any righteous believer. It is forbidden for the believers that they should marry women who are known to possess immoral character. This thing applies to those men and women who persist in their evil ways, and not to those who repent and reform themselves, for after repentance and reformation they will no longer be regarded as adulterous. According to Imam Ahmad bin Hanbal, the prohibition of marriage with an adulterous man implies that such a marriage, if contracted, will have no legal effect. But this view is not correct. Prohibition does not have any legal implications. It cannot mean that if a person violates this prohibition, the marriage will be void, and the parties concerned will be involved in zina in spite of marriage. For the Prophet (peace be upon him) has stated: The unlawful does not make the lawful unlawful. (Tabarani, Daraqutni). In other words, an illegal act does not make a legal act also illegal. Therefore, if a person commits zina and then marries, his conjugal relations with his spouse cannot be considered as zina, because in that case the other party of the marriage contract who is not immoral, will also have to be considered as involved in zina. As a rule, no illegal act except open rebellion can cause the one guilty of it to be declared an outlaw, so that no act of his can be regarded legal after that. If the verse is considered in this light the plain meaning would be this: It is a sin to select such persons for marriage as are known to be immoral. The believers should shun them, otherwise they will feel encouraged, whereas the Shariah intends to segregate them as the undesirable and contemptible element of society. Similarly this verse does not validate the marriage of an adulterous Muslim with an idolatrous woman and of an adulterous Muslim woman with an idolatrous man. The verse simply means to emphasize the act of zina, and declares that the person who commits it being a Muslim, makes himself unfit for contracting a marriage in the pure and pious Muslim society. Even if the accuser is an eyewitness of an immoral act, he should keep the secret and let the filth remain where it is instead of causing it to spread. However, if he has witnesses, he should abstain from publicizing the matter in society but should bring the case to the notice of the authorities and get the criminals duly punished by the court of law. 5a Below, we give the details of the law in serial order. (1) The context in which the words walla-zina yarmun-almuhsanat (those who accuse chaste women) occur clearly shows that it does not imply any common sort of accusation but specifically the accusation of zina against the chastity of pure women. Then the demand from the accusers to produce four witnesses in support of their accusation also shows that it relates to zina. For in the entire Islamic law producing four witnesses is the legal requirement only in a case of zina and in no other matter. The scholars, therefore, agree that this verse describes the law relating to the accusation of zina, which has been termed qazf for convenience so that this law is not extended to cover cases of other accusations like that of theft, drinking, taking of interest, etc. Apart from qazf, the question of determining punishments for other allegations can be left to the discretion of the judge, or to the consultative council of the Islamic state, who can make general laws to cover cases of contempt and defamation as and when required. (2) Though the verse only mentions al-muhsanat (pure and chaste women), the jurists agree that the law is not confined to the accusation in respect of women, but it extends to the accusation in respect of chaste men also. Likewise, though the masculine gender has been used for the accusers, the law is not confined to male accusers only but extends to female accusers as well. For as regards to the gravity and wickedness of the crime, it does not make any difference whether the accuser or the accused is a man or a woman. Therefore in either case, the man or accuser or the woman accusing a virtuous and chaste man or woman of zina, will be dealt with under this law. (3) This law can be applied only in a case where the accuser has accused a muhsan or muhsanah, i.e. a morally fortified man or woman. In case the accused is not morally fortified, the law cannot be applied. if a person who is not morally fortified is known for his immorality, there will be no question of the accusation, but if he is not, the judge can use his discretion to award a punishment to the accuser, or the consultative council can make necessary laws to deal with such cases. (4) For an act of qazf to be considered as punishable, it is not enough that somebody has accused somebody else of immorality without a proof, but there are certain conditions which have to be fulfilled in respect of the qazif (accuser), maqzuf (the accused) and the act of qazf itself. As for the qazif, he should satisfy the following conditions: (a) He should be an adult: if a minor commits the crime of qazf, he can be given a discretionary punishment but not the prescribed punishment. (b) He should possess normal common sense: an insane and mentally abnormal person cannot be given the prescribed punishment. Similarly, a person under the influence of an intoxicant, other than a forbidden intoxicant, e.g. chloroform, cannot be considered as guilty of qazi. (c) He should have committed qazf out of his own free will or choice, and not under duress. (d) He should not be the father or grandfather of maqzuf (the accused), for they cannot be given the prescribed punishment. According to the Hanafis, the fifth condition is that the accuser should not be drunk, because the person who only gesticulates cannot be held guilty of qazi. But Imam Shafai disputes this. He says that if the gesticulation of the drunk person is clear and unambiguous by which everybody can understand what he wants to say, he will be considered as a qazif, because his gesticulation is no less harmful to defame a person than the word of mouth. On the contrary, the Hanafis do not hold mere gesticulation as a strong enough ground for awarding the prescribed punishment of 80 stripes; they, therefore, recommend a discretionary punishment for it. The conditions to be satisfied by maqzuf (the accused) are as follows: (a) He should be possessing normal common sense, i.e. he should be accused of having committed zina while in the normal state of mind; the accuser of an insane person (who might or might not have become sane later) cannot be held guilty of qazf, for the insane person cannot possibly safeguard his chastity fully; and even if the evidence of zina is established against him, he will neither become deserving of the prescribed punishment nor incur personal defamation. Therefore, the one accusing him also should not be held as deserving of the prescribed punishment of qazf. However, Imam Malik and Imam Laith bin Saad hold that the qazif of an insane person deserves to be awarded the prescribed punishment of qazf, because he is accusing another person of zina without a proof thereof. (b) He should be an adult, i.e. he should be accused of having committed zina while being of full age legally. Accusing a minor, or a grown up person that has committed zina when a minor, does not deserve the prescribed punishment, for, like an insane person, a child also cannot fully safeguard his honor and chastity. However, according to Imam Malik, if a boy approaching the age of maturity is accused of zina, the accuser will not deserve the prescribed punishment, but if a girl of that age is accused of having submitted herself for zina, when sexual intercourse with her is possible, her qazif will deserve the prescribed punishment, for the accusation defames not only the girl’s family but ruins the girl’s future as well. (c) He should be a Muslim, i.e. he should be accused of having committed zina while in Islam. Accusing a non- Muslim, or a Muslim that has committed zina when a non- Muslim, does not entail the prescribed punishment. (d) He should be free; accusing a slave or a slave-girl, or a free person that has committed zina when a slave, does not call for the prescribed punishment, for the helplessness and weakness of the slave can hinder him from safeguarding his honor and chastity. The Quran itself has considered the state of slavery as excluded from the state of ihsan (moral fortification). (Surah An-Nisa, Ayat 25). But Daud Dhahiri does not concede this argument; he holds that the qazif of the slave or slave-girl also deserves the prescribed punishment of qazf. (e) He should possess a pure and blameless character, i.e. he himself should be free from zina proper and everything resembling therewith, This means that he should neither have been held guilty of zina in the past, nor should have had sexual intercourse in an illegal marriage, nor with a slave girl who was not clearly in his possession legally, nor with a woman whom he mistook for his wife. His day to day life should be such that nobody could accuse him of immorality, nor he should have been held guilty of lesser crimes than zina before. In all such cases the moral purity of the person falls into disrepute, and the accuser of such a person cannot deserve the prescribed punishment of 80 stripes. So much so that if the guilt of zina against an accused person is proven on the basis of evidence just before the enforcement of the prescribed punishment on an accuser, the latter will be forgiven; because the former is no longer chaste and morally pure. Though the prescribed punishment cannot be enforced in any of these five cases. It does not, however, mean that a person who accuses an insane person or a minor or a non- Muslim, or a slave, or an unchaste person of zina without proof, does not even deserve a discretionary punishment. Now let us consider the conditions which must be found in the act of qazf itself An accusation will be considered as qazf, if either an accuser accuses a person of such a sexual act which, if proved to be correct by necessary evidence, would make the accused liable to the prescribed punishment, or the accuser holds the accused as of illegitimate birth. But in either case the accusation must be unambiguous and in clear terms. Vague references in which the accusation of zina or illegitimacy depends upon the accuser’s intention, are not reliable. For instance, using words like adulterer, sinner, wicked, immoral, etc. for a man, and prostitute, harlot, whore, etc. for a woman is only a reference and not qazf. Similarly, words which are used as an abuse like bastard, etc. cannot be regarded as qazf. There is, however, a difference of opinion among the jurists whether an allusion is also gazf or not. According to Imam Malik, if the allusion is clear and is meant to charge the addressee of zina or hold him as of illegitimate birth, it will be qazf, and the qazif will be liable to the prescribed punishment. But Imam Abu Hanifah and his companions and Imam Shafai, Sufyan Thauri, Ibn Shubrumah, and Hasan bin Saleh hold the view that an allusion is in any way ambiguous and doubtful, and wherever there is doubt, prescribed punishment cannot be awarded. Imam Ahmad and Ishaq bin Rahaviyah maintain that if an allusion is made in the heat of a quarrel or fight, it is qazf, but if in sport and fun, it is not. Umar and Ali, from among the Caliphs, awarded the prescribed punishment in cases of allusion. In the time of Umar, one of the two men, who were involved in a brawl, said to the other: Neither was my father an adulterer nor was my mother an adulteress. The case was brought before Umar. He asked those present there what they understood by the remark. Some said that the man had only praised his parents and had not imputed anything to the other man’s parents. Others objected to the use of the words and said that by these he had clearly alluded that the other man’s parents were adulterous. Umar concurred with the latter and awarded the prescribed punishment. (Al-Jassas, vol. III, p. 330). There is also a difference of opinion as to whether accusing somebody of sodomy is qazf or not. lmam Abu Hanifah does not regard it qazf but Imam Abu Yusuf, Imam Muhammad; Imam Malik and Imam Shafai hold it as qazf and recommend the prescribed punishment for it. (5) There is a difference of opinion among the jurists as to whether qazf is a cognizable offence or not. Ibn Abi Laila says that this is the right of Allah; therefore, the qazif will be awarded the prescribed punishment whether maqzuf (the accused) demands it or not. Imam Abu Hanifah and his companions hold that it is certainly a right of Allah in so far as the enforcement of the prescribed punishment on the establishment of the offence is concerned, but in so far as the trial of the accuser under the law is concerned, it depends on the demand of the accused, and in this respect it is the right of man. The same is the opinion of Imam Shafai, and Imam Auzai. According to Imam Malik, if the offense of gazf is committed in the presence of the ruler, it is a cognizable offense, otherwise legal action against the accuser will depend on the demand of the accused. (6) Qazf is not a compoundable offense. If the accused does not bring the case to the court, it will be a different thing; but when the case is brought to the court, the accuser will be pressed to prove his accusation, and if he fails to prove it, he will be awarded the prescribed punishment. The court then cannot pardon him nor the accused himself, nor the matter can be settled by making monetary compensation, nor the accuser can escape punishment by offering repentance or apology. The Prophet (peace be upon him) has instructed: Forgive among yourselves offenses that deserve the prescribed punishment, but when a case is brought before me, the punishment will become obligatory. (7) According to the Hanafis, the demand for the prescribed punishment of qazf call either be made by the accused, or, if the accused is not there, by the one whose lineage suffers the stigma, e.g., the father, mother, children, and the children’s children. But according to Imam Malik and Imam Shafai, this right is inherited. If the accused dies, each one of his legal heirs can make the demand for the prescribed punishment. It is, however, strange that Imam Shafai excludes the husband and the wife from this right on the ground that their marriage bond breaks with death, and the accusation against one spouse does not affect the lineage of the other. The fact is that both these arguments are weak. When it is conceded that the right to demand the prescribed punishment for qazf is inheritable, it will be against the Quran to exclude the husband and the wife from the exercise of this right on the ground that their marriage bond breaks with death, because the Quran itself has declared each of them as an heir on the death of the other. As for the argument that the accusation against one does not affect the lineage of the other, it may be correct in the case of the husband but it is absolutely wrong in the case of the wife; the man whose wife is accused of zina has the lineage of his children automatically rendered doubtful. Moreover, it is not correct to think that the punishment for qazf has been prescribed only to protect the lineage of the people; honour along with lineage is equally important. Thus, it is no less damaging for a gentleman or a lady that his wife or her husband is accused of zina. Therefore, if the right to demand the prescribed punishment for qazf be inheritable there is no reason why the husband and the wife should be debarred from exercising that right. (8) After it has been established that a person has committed qazf, the only thing that can save him from the prescribed punishment is that he should produce four witnesses who should give evidence in the court that they have seen the accused committing zina practically with such and such a man or woman. According to the Hanafis, all the four witnesses should appear at one and the same time in the court and they should give evidence all together. For if they appear one after the other, each one of them will become a qazf, and will need four witnesses to support him. But this is a weak argument. The correct position is the one adopted by Imam Shafai and Uthman al-Bani, that it is immaterial whether the witnesses appear all together or come one after the other; it is rather better that as in other cases the witnesses should come one after the other and give evidence. The Hanafis hold that it is not necessary that the witnesses should be righteous; even if the qazif produces four immoral persons as witnesses, he will escape the prescribed punishment of qazf, and the accused also the prescribed punishment of zina, because the witnesses are not righteous. However, if the qazif produces witnesses who are unbelieving, or blind, or slave, or those already convicted of qazf, he will not escape the punishment. Imam Shafai holds that if the qzif produces witnesses who are immoral, he and his witnesses all will become liable to the prescribed punishment, and the same is the opinion of Imam Malik. But the view of the Hanafis in this matter appears to be nearer the truth. According to them, if the witnesses are righteous, the qazif will be acquitted of the charge of qazf, and the crime of zina will become established against the accused. But if the witnesses are not righteous, the qazif’s crime of qazf, the maqzuf’s crime of zina and the evidence of the witnesses will all stand doubtful, and none will be held liable to punishment on account of the element of doubt. (9) The Quran has given three commandments in respect of the person who fails to produce proper evidence which can cause his acquittal of the crime of qazf. (a) He should be awarded 80 stripes. (b) His evidence should not be accepted in future. (c) He himself is a transgressor. After this the Quran says: Except those who repent of it and mend their ways; Allah is Forgiving and Merciful. The question arises: To which of these three commands is the forgiveness due to repentance and reformation as mentioned in the verse related? The jurists agree that it is not related to the first command. That is, repentance will not render the punishment null and void, and the criminal will be given flogging in any case. The jurists also agree that the forgiveness is related to the third command, which means that after repentance and reformation the criminal will no longer be a sinner and Allah will forgive him. Here the difference of opinion is only in this matter whether the criminal becomes a sinner due to the crime of qazf itself, or after his conviction by the court. Imam Shafai and Laith bin Saad hold that he becomes a sinner due to the crime of qazf itself, and therefore, they reject his evidence thenceforth. On the contrary, lmam Abu Hanifah, his companions and lmam Malik maintain that he becomes a sinner after the enforcement of the sentence; therefore, till the enforcement of the sentence his evidence will be acceptable. But the truth is that in the sight of Allah the criminal becomes a sinner as a result of the crime of qazf itself, but for the people his being a sinner depends on his conviction by the court and the enforcement of the punishment on him. Now as far as the second command, viz. “The evidence of qazif should not be accepted in future, is concerned, there has been a great difference of opinion among the jurists as to whether the sentence “except those who repent” is related to this or not. One group says that this sentence is related only to the last command. That is, a person who repents and mends his ways will no longer be a sinner in the sight of Allah and the common Muslims, but the first two commands will remain effective, i.e. the sentence will be enforced on him and his evidence will never be accepted in future. To this group belong eminent jurists like Qazi Shuraih, Said bin Musayyab, Said bin Jubair, Hasan Basri, Ibrahim Nakhai Ibn Sirin, Makhul, Abdur Rahman bin Zaid, Abu Hanifah, Abu Yusuf, Zufar, Muhammad, Sufyan Thauri, and Hasan bin Saleh. The other group says that the clause “except those who repent” is not related to the first command but is related to the other two. That is, after repentance, not only will the evidence of the offender who has been punished for qazf be acceptable, but he will also not be regarded as a sinner. This group comprises jurists of the status of Ata, Taus, Mujahid, Shabi, Qasim bin Muhammad, Salim, Zuhri, Ikrimah, Umar bin Abdul Aziz, Ibn Abi Nujaih, Sideman bin Yasar, Masruq, Zahhak, Malik bin Anas, Uthman al- Batti, Laith bin Saad, Shafai, Ahmad bin Hanbal and Ibn Jarir Tabari. Among other arguments, these scholars cite the verdict of Umar which he gave in the case of Mughirah bin Shubah. For, according to some traditions, after enforcing the punishment, Umar said to Abu Bakrah and his two companions: If you repent (or confess your lie), I shall accept your evidence in future, otherwise not. His companions confessed but not Abu Bakrah. On the face of it, it appears to be a strong argument. But from the details given above of Mughirah bin Shubah's case, it would become obvious that it is not correct to cite this precedent in support of this view. For in that case, there was complete unanimity as far as the act (of sexual intercourse) was concerned and Mughirah bin Shubah himself did not deny it. The point of dispute was the identity of the woman. Mughirah said that she was his own wife, whom the accusers had mistaken for Umm Jamil. Then it had also been established that the wife of Mughirah and Umm Jamil resembled with each other to a degree that from the distance and in the kind of light that they were seen, the former could be mistaken for the latter. But the circumstantial evidence was wholly in favour of Mughirah bin Shubah, and a witness of the case also had admitted that the woman was not clearly visible. That is why Umar decided the case in favour of Mughirah bin Shubah, and after punishing Abu Bakrah, said the words as mentioned in the above-quoted traditions. This clearly shows that the real intention of Umar was to impress on the accusers that they should confess that they had given way to undue suspicion and that they should repent of accusing people on the basis of such suspicions in future, otherwise their evidence would never be accepted. From this it cannot be concluded that in the eyes of Umar the evidence of a person whose falsehood had been established, could become acceptable just after he had repented. The truth is that in this matter the view of the former group is stronger. None except Allah can know whether a person has repented sincerely or not. If a person repents before us, we may not consider him as a transgressor afterwards, but once his falsehood has been established, we cannot afford to trust him in future simply because he has uttered repentance. Moreover, the words in the text themselves indicate that “except those who repent” is related only to “they themselves are transgressors”. The reason is that the first two things, in the sentence “flog them with eighty stripes, and never accept their evidence afterwards” have been given in the imperative form, while the third thing “they themselves are transgressors” is a predicate. Then the clause “except those who repent” just after the predicate itself indicates that the exception relates to the predicate and not to the two imperative sentences. Nevertheless, if it is conceded that the exception is not confined to the last sentence, one does not understand why it should be made to apply to “never accept their evidence” only and not extended to “flog them with eighty stripes” also. (10) A question may be asked: Why should not the exception in “except those who repent” be made applicable to the first command also? Qazf after all is a sort of defamation. Why should not a person who confesses his guilt, apologizes and repents, be let off, when Allah Himself says: “except those who repent and trend their ways; Allah is Forgiving and Merciful.” It will be strange that Allah forgives while the people do not forgive. The answer is that the act of taubah (repentance) is not merely uttering the word taubah with the tongue; it rather implies having a feeling of regrets, a resolve to reform and an inclination to do right; and this can only be known to Allah whether a person has repented sincerely or not. That is why on repentance worldly punishments are not forgiven but only punishments of the Hereafter; and that is why, Allah does not say that if the offenders repent, then they be forgiven, but says: “For those who repent, Allah is Forgiving and Merciful.” If the worldly punishments are also excused on repentance, there will be no offender who will not offer repentance in order to escape his sentence. (11) Another side of the question is that if a person cannot produce witnesses in support of his accusation, it may not necessarily mean that he is a liar. Is it not possible that he be true in his accusation, yet he may fail to produce evidence? Then, how is it that he should be condemned as a sinner on account of his failure to produce witnesses not only by the people but also by Allah? The answer is that even if a person is an eye-witness to the immorality committed by another person, he will be considered as a sinner for publicizing the act and accusing the offender without necessary evidence. The divine law does not want that if a person gets polluted in filth in a private place, the other person should start spreading the filth in the whole society. If he has any knowledge of the presence of the filth, there are two ways open for him: either he should let it remain where it is, or he should produce a proof of its existence, so that the officials of the Islamic State should cleanse it. There is no third way for him. If he publicizes it, he will be committing the crime of spreading the filth everywhere; and if he brings the matter to the notice of the officials without satisfactory evidence, they will not be able to deal with it effectively. The result will be that the failure of the case will become a means of spreading the filth and encouraging the wicked element of society. Therefore, the one who commits qazf without necessary proof and evidence will in any case be a sinner even if he be true in his accusation. (12) The Hanafi jurists hold that the qazif should be given a lighter punishment than the one who is convicted of zina. That is, he should be given eighty stripes but flogging should be less intense, the reason being that his being a liar is not certain in the offense for which he is being punished. (13) Majority of the jurists including the Hanafis are of the view that only one punishment will be enforced on the qazif no matter how often he repeats the accusation before or during the enforcement of the punishment. If after the punishment the qazif goes on repeating the same accusation, the punishment which he has already been awarded, will suffice. However, if after the enforcement of the prescribed punishment, he brings another charge of zina against the accused, he will be tried again for the new charge of qazf. Abu Bakrah after getting the punishment in the case against Mughirah bin Shubah, went on repeating openly that he bore witness that Mughirah had committed zina. Umar wanted to try him again, but as he was repeating the same accusation, Ali expressed the opinion that he could not be tried again and Umar conceded it. After this the jurists became almost unanimous that a qazif who has received the prescribed punishment for a crime, cannot be tried again unless he commits a fresh crime of qazf. (14) There is a difference among the jurists with regard to qazf against a group. According to the Hanafis, if a person accuses a number of persons in one word or in more words separately, he will be awarded only one prescribed punishment unless, of course, lie commits a fresh crime of qazf after the enforcement of the first punishment. The words of the verse “Those who accuse chaste woman” indicate that the accuser of one person or more persons deserves only one punishment. Moreover, there can be no zina for which at least two persons cannot be accused, but in spite of that the law-giver has prescribed only one punishment and not two, one for accusing the woman and the other for accusing the man. Contrary to this, Imam Shafai holds that the person who accuses a group of persons, whether in one word or in more words separately, will be awarded as many punishments as the number of the persons accused, one for each. The same is the opinion of Uthman al-Batti. However, the ruling of Ibn Abi Laila, to which Shabi and Auzai also subscribe, is that the one who accuses a group of persons of zina in one word, deserves one punishment, and the one who accuses them separately in separate words, deserves separate punishments, one for each.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :5 یعنی زانی غیر تائب کے لیے اگر موزوں ہے تو زانیہ ہی موزوں ہے ، یا پھر مشرکہ ۔ کسی مومنہ صالحہ کے لیے وہ موزوں نہیں ہے ، اور حرام ہے اہل ایمان کے لیے کہ وہ جانتے بوجھتے اپنی لڑکیاں ایسے فاجروں کو دیں ۔ اسی طرح زانیہ ( غیر تائبہ ) عورتوں کے لیے اگر موزوں ہیں تو ان ہی جیسے زانی یا پھر مشرک ۔ کسی مومن صالح کے لیے وہ موزوں نہیں ہیں ، اور حرام ہے مومنوں کے لیے کہ جن عورتوں کی بد چلنی کا حال انہیں معلوم ہو ان سے وہ دانستہ نکاح کریں ۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان ہی مردوں اور عورتوں پر ہوتا ہے جو اپنی بری روش پر قائم ہوں ۔ جو لوگ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ، کیونکہ توبہ و اصلاح کے بعد زانی ہونے کی صفت ان کے ساتھ لگی نہیں رہتی ۔ زانی کے ساتھ نکاح کے حرام ہونے کا مطلب امام احمد بن حنبل نے یہ لیا ہے کہ سرے سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد محض ممانعت ہے ، نہ یہ کہ اس حکم ممانعت کے خلاف اگر کوئی نکاح کرے تو وہ قانوناً نکاح ہی نہ ہو اور اس نکاح کے باوجود فریقین زانی شمار کیے جائیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر ارشاد فرمائی ہے کہ الحرام لا یحرم الحلال ، حرام حلال کو حرام نہیں کر دیتا ( طبرانی ، دارقطنی ) یعنی ایک غیر قانونی فعل کسی دوسرے قانونی فعل کو غیر قانونی نہیں بنا دیتا لہٰذا کسی شخص کا ارتکاب زنا اس بات کا موجب نہیں ہو سکتا کہ وہ نکاح بھی کرے تو اس کا شمار زنا ہی میں ہو اور معاہدہ نکاح کا دوسرا فریق جو بد کار نہیں ہے ، وہ بھی بد کار قرار پائے ۔ اصولاً بغاوت کے سوا کوئی غیر قانونی فعل اپنے مرتکب کو خارج از حدود قانون ( Out law ) نہیں بنا دیتا ہے کہ پھر اس کا کوئی فعل بھی قانونی نہ ہو سکے ۔ اس چیز کو نگاہ میں رکھ کر اگر آیت پر غور کیا جائے تو اصل منشا صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی بد کاری جانی بوجھی ہو ان کو نکاح کے لیے منتخب کرنا ایک گناہ ہے جس سے اہل ایمان کو پرہیز کرنا چاہیے ، کیونکہ اس سے بد کاروں کی ہمت افزائی ہوتی ہے ، حالانکہ شریعت انہیں معاشرے کا ایک مکروہ اور قابل نفرت عنصر قرار دینا چاہتی ہے ۔ اسی طرح اس آیت سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکلتا کہ زانی مسلم کا نکاح مشرک عورت سے ، اور زانیہ مسلمہ کا نکاح مشرک مرد سے صحیح ہے ۔ آیت کا منشا دراصل یہ بتانا ہے کہ زنا ایسا سخت قبیح فعل ہے کہ جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ مسلم معاشرے کے پاک اور صالح لوگوں سے اس کا رشتہ ہو ۔ اسے یا تو اپنے ہی جیسے زانیوں میں جانا چاہیے ، یا پھر ان مشرکوں میں جو سرے سے احکام الٰہی پر اعتقاد ہی نہیں رکھتے ۔ آیت کے منشا کی صحیح ترجمانی وہ احادیث کرتی ہیں جو اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں ۔ مسند احمد اور نسائی میں عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک عورت ام مہزول نامی تھی جو قحبہ گری کا پیشہ کرتی تھی ۔ ایک مسلمان نے اس سے نکاح کرنا چاہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی ۔ آپ نے منع فرمایا اور یہی آیت پڑھی ۔ ترمذی اور ابوداؤد میں ہے کہ مرثد بن ابی مرثد ایک صحابی تھے جن کے زمانہ جاہلیت میں مکے کی ایک بد کار عورت عناق سے ناجائز تعلقات رہ چکے تھے ۔ بعد میں انہوں نے چاہا کہ اس سے نکاح کرلیں اور حضور سے اجازت مانگی ۔ دو دفعہ پوچھنے پر آپ خاموش رہے ۔ تیسری دفعہ پھر پوچھا تو آپ نے فرمایا : یا مرثد ، الزانی لا ینکح الا زانیۃ او مشرکۃ فلا تنکحھا ۔ اس کے علاوہ متعدد روایات حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمار بن یاسر سے منقول ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دیوث ہو ( یعنی جسے معلوم ہو کہ اس کی بیوی بد کار ہے اور یہ جان کر بھی وہ اس کا شوہر بنا رہے ) وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔ ( احمد ، نسائی ، ابو داؤد اور طیالِسی ) ۔ شیخین ، ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل یہ رہا ہے کہ جو غیر شادی شدہ مرد و عورت زنا کے الزام میں گرفتار ہوتے ان کو وہ پہلے سزائے تازیانہ دیتے تھے اور پھر ان ہی کا آپس میں نکاح کر دیتے تھے ۔ ابن عمر کی روایت ہے کہ ایک روز ایک شخص بڑی پریشانی کی حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کچھ اس طرح بات کرنے لگا کہ اس کی زبان پوری طرح کھلتی نہ تھی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے الگ لے جا کر معاملہ پوچھو ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ ایک شخص اس کے ہاں مہمان کے طور پر آیا تھا ، وہ اس کی لڑکی سے ملوث ہو گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : قبحک اللہ ، الا سترت علی ابنتک ، تیرا برا ہو ، تو نے اپنی لڑکی کا پردہ ڈھانک نہ دیا ؟ آخر کار لڑکے اور لڑکی پر مقدمہ قائم ہوا ، دونوں پر حد جاری کی گئی اور پھر ان دونوں کا باہم نکاح کر کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایک سال کے لیے ان کو شہر بدر کر دیا ۔ ایسے اور چند واقعات قاضی ابو بکر ابن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں نقل کیے ہیں ( جلد 2 ۔ ص 86 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی جو شخص بدکاری کا عادی ہو، اور اُس پر نہ شرمندہ ہو، نہ توبہ کرتا ہو، اُس کا مزاج ایسی ہی عورت سے ملتا ہے جو بدکار ہو، اس لئے اوّل تو وہ بدکاری ہی کی کوشش میں رہتا ہے، اور اگر نکاح کرنا پڑجائے تو وہ نکاح بھی ایسی ہی بدکار عورت سے کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح جو عورت اسی طرح کی عادی بدکار ہو اس کا مزاج بھی بدکار مرد ہی سے ملتا ہے، اِس لئے اُس سے نکاح وہی کرتا ہے جو خود بدکاری کا عادی رہا ہو، اور اُسے اس بات سے کوئی شرم محسوس نہ ہوتی ہو کہ اُس کی بیوی بدکاری میں ملوّث ہے، اور وہ خود بھی ایسے ہی مرد کو پسند کرتی ہے، چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ 3: یعنی بدکار مرد یا عورت کو نکاح کے لئے پسند کرنا مسلمانوں کے لئے حرام ہے۔ اُنہیں چاہئے کہ وہ اپنے لئے شریک زندگی تلاش کرتے وقت اس کی نیکی اور پاک دامنی کا ضرور خیال رکھیں۔ یہ اور بات ہے کہ اگر کسی نے کسی بدکار مرد یا عورت سے نکاح کرلیا تو اُس نکاح کو باطل نہیں کہا جائے گا، اور اُس پر نکاح کے تمام اَحکام جاری ہوں گے، لیکن اِس غلط انتخاب کا گناہ ضرور ہوگا۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ حُکم اُن عادی بدکاروں کا ہے جنہوں نے اپنے اس گناہ سے توبہ نہ کی ہو۔ لیکن اگر کسی نے توبہ کرلی تو پھر اُس کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اِس آیت کی تشریح اس کے علاوہ بھی دوسرے طریقوں سے کی گئی ہے لیکن جو تشریح یہاں لکھی گئی ہے وہ آسان اور بے غبار ہے۔ حضرت حکیم الامۃ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی ’’بیان القرآن‘‘ میں اسی کو ترجیح دی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣:۔ ترجمہ میں لاَیَنْکِحُ کے معنی بیاہ نہ کرنے کے جو لیے ہیں ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس کے علاوہ اور بعضے سلف کے قول کے موافق ہیں ‘ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق آیت کی تفسیر یہ ہے کہ بدکار مرد سے بدکار یا مشرکہ عورت بدکاری کرتی ہے ایماندار مرد عورت بدکاری کو حرام جان کر ہمیشہ بدکاری سے بچتے ہیں ‘ ابوداؤد ‘ نسائی اور ترمذی میں معتبر ٢ ؎ سند سے مرثد بن ابی مرثد کا قصہ جو شان نزول کے طور پر ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ اسلام لانے سے پہلے مرثد بن ابی مرثد کی ایک عورت سے آشنائی تھی جس کا نام عناق تھا ‘ مرثد بن ابی مرثد کے اسلام لانے کے بعد عناق نے مرثد سے نکاح کرنے کی خواہش کی اور مرثد نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس نکاح کی اجازت چاہی ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ‘ اس صحیح شان نزول کی روایت سے اس کی پوری تائید ہوتی ہے کہ آیت میں لاَیَنْکِحُ کے معنی بیاہ نہ کرنے کے ہیں کیونکہ کسی صحابی کا بدکاری کی اجازت کا اللہ کے رسول سے اجازت چاہنا صحابی کی شان کے بالکل برخلاف ہے اس صحیح معنی کے موافق حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ بغیر خالص دل کی توبہ کے اگر کسی بدکار مرد کا بیاہ کسی پارسا عورت سے کردیا جاوے گا تو اس طرح کا مرد بیاہ ہوجانے کے بعد بھی اپنی بدکاری کی عادت سے باز نہ آوے گا جس سے پارسا عورت کا حق پورا ادا نہ ہوگا ‘ اسی طرح کسی بدکار عورت کا بیاہ کسی پرہیزگار مرد سے ہوجاوے گا تو یہی خرابی وہاں بھی پائی جاوے گی ‘ اسی واسطے بیاہ شادی میں دینداری کی شرط پر علماء کا اتفاق ہے ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ سورة بنی اسرائیل میں بدکاری کو بےحیائی کا کام فرمایا ہے اور صحیح بخاری ومسلم میں عبداللہ بن عمر (رض) سے جو روایت ٣ ؎ ہے ‘ اس میں شرم وحیا کو ایمان کا جز قرار دیا گیا ہے اس لیے بغیر خالص دل کی توبہ کے بدکار مرد کا پارسا عورت سے یا بدکار عورت کا پرہیزگار مرد سے نکاح جائز نہیں کیونکہ بےحیائی اور شرم وحیا ایک میاں بیوی میں جمع ہوں گے تو طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوجاویں گی۔ (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٦٣ ج ٣ تفسیر الدر المنثور ص ١٩۔ ٢٠ ج ٥ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٣٠ الرفق والحیاء وحسن الخلق۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:3) ذلک۔ سے مراد یا زنا ہے ۔ یا ایک نیک مومن مرد کا پیشہ ورزانیہ سے یا عفیفہ مومنہ کا عادی زانی سے نکاح مراد ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

12 ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے یہاں نکاح بمعنی جماع لیا ہے یعنی زانی مرد یا عورت کی ہوس کو ان کے مثل کوئی مرد یا عورت ہی پورا کریگی یا کوئی مشرک مرد یا عورت جو زنا کو حرام نہیں سمجھتے۔ بعض نے یہاں نکاح کے معنی عقد یعنی معروف نکاح لئے ہیں۔ چناچہ امام احمد (رح) نے توبہ کے بغیر زانی مرد کا پاکدامن عورت سے اور پاکدامن مرد کا زانیہ عورت سے نکاح حرام قرار دیا ہے۔ امام ابن تیمیہ (رح) نے اس مسلک کی تائید کرتے ہوئے ان لوگوں کی پرزور تردید کی ہے جو اس نکاح کو جائز قرار دیتے ہیں۔ (تفسیر سورة نور)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ جو لوگ زنا کے خوگر ہوجاتے ہیں، اور ہنوز انہوں نے توبہ نہ کی ہو، ان کی اصلی رغبت زنا کی طرف ہوتی ہے اور اس میں انکو زیادہ لذت ہوتی ہے، حتی کہ ان کو جو عورت پسند آتی ہے اصل ان کا مقصود یہی ہوتا ہے کہ اس سے زنا میسر ہوجاوے اور یہ ہمارے ساتھ زانیہ ہونا گوارا کرلے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بدکار آدمی اور عورت کے لیے اخلاقی اور معاشرتی سزا۔ بدکاری میں شہرت رکھنے والے شخص کا نکاح کسی پاکدامن عورت سے کرنے کی بجائے زانیہ عورت یا کسی مشرکہ سے ہوسکتا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت بدکاری کی شہرت رکھتی ہو تو اس کا نکاح کسی زانی یا مشرک آدمی سے ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو مومنوں پر حرام قرار دیا ہے۔ مفسرین نے اس آیت کا شان نزول اس طرح نقل کیا ہے۔ مرثد (رح) بن ابی مرثد غنوی مسلمان قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے جایا کرتے تھے۔ ایک رات حضرت مرثد ایک قیدی کو مکہ والوں کی قید سے نکالنے کے لیے مکہ پہنچے۔ رات کے وقت ایک دیوار کے سایہ میں چھپے بیٹھے تھے کہ عناق نامی عورت نے اسے پہچان لیا اس نے مرثد (رح) کو پہلے سے آشنا ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ خلوت کی دعوت دی لیکن حضرت مرثد نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اب میرے اور تیرے درمیان اسلام رکاوٹ بن گیا ہے یہ بات سنتے ہی عناق نے شور مچایا جس کے نتیجے میں مرثد (رض) وہاں سے بھاگ نکلے اور ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے تلاش کرنے والوں نے انہیں تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے۔ جب تلاش کرنے والے واپس چلے گئے تو مرثد (رض) نے مسلمان قیدی کو جیل سے نکال کر مدینہ کی راہ لی۔ مدینہ پہنچ کر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقعہ عرض کیا اور آپ سے اجازت طلب کی کہ کیا میں عناق کے ساتھ نکاح کرسکتا ہوں ؟ جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ زانی شخص کسی زانیہ یا مشرکہ سے نکاح کرے اسی طرح زانیہ عورت کسی زانی یا مشرک آدمی سے نکاح کرے۔ اس آیت کے صحابہ کرام (رض) نے دو مختلف مفہوم لیے ہیں صحابہ کرام کی ایک جماعت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جس عورت کے ساتھ کسی شخص نے زنا کیا ہو اس کے ساتھ نکاح کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ صحابہ کرام (رض) کی دوسری جماعت کا خیال ہے اگر وہ تائب ہوجائیں تو ان کا آپس میں نکاح کرنا جائز ہوگا۔ جن صحابہ کا نقطہ نظر ہے کہ زانی اور زانیہ کا نکاح آپس میں نہیں ہوسکتا انہوں نے اس آیت کے آخری الفاظ سے دلیل لی ہے۔ جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے انہوں نے ان الفاظ کا معنٰی یہ لیا ہے کہ مومنوں کے لیے بدکاری کرنا حرام ہے۔ یہاں زانی کی مثال مشرک کے ساتھ اس لیے دی گئی ہے کہ جس طرح زانی شخص اخلاقی حدود سے تجاوز کرتا ہے اسی طرح ہی مشرک اعتقادی حدود سے تجاوز کا مرتکب ہوتا ہے جس طرح شادی شدہ زانی اپنی منکوحہ پر اکتفا نہیں کرتا اور زانیہ عورت اپنے خاوند پر مطمئن ہونے کی بجائے اس کی موجودگی میں غیروں کے ساتھ منہ کالا کرتی ہے۔ اسی طرح مشرک اور مشرکہ اپنے خالق، رازق اور مالک پر مطمئن ہونے اور اس کی خالص بندگی کرنے کی بجائے غیروں کے ساتھ ناطہ جوڑتے اور ان کے آستانے پر جاتے ہیں۔ لہٰذا زانی اور مشرک عملی طور پر ایک ہی جیسا کردار رکھتے ہیں۔ مشرک اعتقاد کے حوالے سے آوارہ مزاج ہوتا ہے اور زانی سوچ اور کردار کے اعتبار سے آوارہ کردار ہوتا ہے اس آیت میں یہ بھی بتلانا مقصود ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کو بدکاری سے بھی نفرت ہے اسی طرح ہی اسے شرک سے بھی نفرت ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زنا کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔ ٢۔ مشرک اور زانی فکری اور عملی آوارگی کے اعتبار سے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زانی اور زانیہ کے آپس کے نکاح کو حرام قرار دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کو مشرکوں کے ساتھ رشتہ ناطہ نہیں کرنا چاہیے : ١۔ زانی مرد زانیہ اور مشرکہ عورت کے ساتھ ہی نکاح کرے۔ اور مومنوں کے لیے انہیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ (النور : ٣) ٢ مشرکہ عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کرو حتّٰی کہ وہ ایمان لے آئیں۔ (البقرۃ : ٢٢١) ٣۔ اے ایمان والو ! کفر کو ایمان پر ترجیح دینے والوں کے ساتھ ناطہ نہ جوڑو۔ ( التوبہ : ٢٣) ٤۔ اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ ( المائدۃ : ٥١) ٥۔ اے ایمان والو ! انہیں دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو کھیل تماشا بنارکھا ہے۔ (المائدۃ : ٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس آیت کی تفسیر میں حضرات مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں اوپر ترجمہ سے جو مطلب ظاہر ہو رہا ہے صاحب بیان القرآن نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ و نقلہ صاحب الروح عن النسیابوری فقال قال النسیابوری انہ احسن الوجوہ فی الایۃ سبحانہ (الزانی لا ینکح) حکم مؤسس علی الغالب المعتاد جئی بہ لزجر المومنین عن نکاح الزوانی بعد زجر ھم عن الزنا و ذلک ان الفاسق الخبیث الذی من شانہ الزنا و القبح لا یرغب غالبا فی نکاح الصوالح من النساء اللاتی علی خلاف صفتہ وانما یرغب فی فاسقۃ خبیثۃ من شکلہ اوفی مشرکۃ و الفاسقۃ الخبیثۃ المسافحۃ کذالک لا یرغب فی نکاحھا الصلحاء من الرجال و ینفرون عنھا وانما یرغب فیھا من ھو من شکلھا من الفسقۃ و المشر کین، و نظیر ھذا الکلام لا یفعل الخیر الاتقی فانہ جار مجرمی الغالب، و معنی التحریم علی المؤمنین علی ھذا قیل التنزیہ و عبربہ عنہ للتغلیظ۔ اور بعض حضرات نے خبر کو بمعنی النہی لیا ہے اور یہ مطلب بتایا ہے کہ کسی زانی کو زانیہ یا مشرکہ کے علاوہ کسی عورت سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں اسی طرح زنا کار عورت کو کسی غیر زانی اور غیر مشرک سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں اور مومنین کے لیے حرام ہے کہ کسی زانیہ یا مشرکہ سے نکاح کریں۔ جن حضرات نے یہ بتایا ہے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ یہ حکم ہجرت کے ابتدائی دور میں تھا بعد میں زانی اور زانیہ کے بارے میں تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اور مشرک اور مشرکہ کے بارے میں باقی رہا یعنی زانی مرد غیر زانی عورت سے نکاح کرسکتا ہے جبکہ مومن ہوں اور کسی مومن عورت سے اور کسی مومنہ کا کسی مشرک سے جائز نہیں۔ ان حضرات نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ (وَاَنکِحُوْا الْاَیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ ) سے اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا، بعض حضرات نے آیت کا نزول بتاتے ہوئے بعض قصے بھی نقل کیے ہیں اور یہ قصے نقل فرما کر جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی قول اول یعنی منسوخ تسلیم کرنے کی طرف راجع ہوتا ہے، حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے اور حضرت مجاہد اور عطا بن ابی رباح اور قتادہ اور زہری اور شعبی (تابعین کرام) نے فرمایا ہے کہ جب مہاجرین مدینہ منورہ آئے اور ان کے پاس اموال نہیں تھے۔ تنگ دست بھی تھے اور کنبہ قبیلہ بھی نہ تھا تو اس وقت انہیں مال اور ٹھکانے کی ضرورت تھی مدینہ منورہ میں فاحشہ عورتیں تھیں جو مال لے کر زنا کرتی تھیں ان کے پاس پیسہ بھی بہت تھا یہ فقراء مہاجرین جو مکہ معظمہ سے آئے تھے انہوں نے ان سے نکاح کرنے کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی جس میں مصلحت یہ تھی کہ یہ عورتیں ان پر خرچ کریں گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان عورتوں سے نکاح کرنے سے منع فرما دیا۔ اسی طرح کے اور بھی قصے ہیں جو حضرت عکرمہ سے منقول ہیں۔ (معالم التنزیل ص ٣٢٣ ج ٣)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

4:۔ ” الزانی لا ینکح الخ “ یہ دوسرا حکم یہ زنا کی سزا کے بعد زانی اور زانیہ کی عادت بد کا ذکر کیا گیا ہے یعنی جو مرد اور عورت زنا کی عادت بد میں مبتلا ہوجائیں اور زنا کو عیب نہ سمجھیں وہ اس لائق نہیں رہتے کہ کسی پاک دامن مومن مرد یا عورت سے ان کا تعلق ازدواج قائم کیا جاسکے ان کی ناپاک اور ذلیل طبیعت کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی ایسے ہی بدکار مرد و عورت یا ان سے بھی بدتر کسی مشرک و مشرکہ کے ساتھ نکاح ناجائز قرار دیا ہے۔ اسی طرح اگر کسی بدکار مسلمان مرد و عورت کا کسی پارسا عورت و مرد سے عقد ہوجائے تو اسے باطل نہیں قرار دیا۔ اس آیت سے زنا کی عادت شنیعہ کی برائی اور قباحت کو واضح کرنا مقصود ہے اس صورت میں ” لاینکح “ کے معنی یہ ہوں گے کہ اس کے لیے لائق نہیں کہ وہ نکاح کرے یعنی عدم لیاقت فعل کو عدم فعل سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ محاورہ ہے ” السلطان لایکذب “ یعنی جھوٹ بولنا بادشاہ کے شایان شان نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ بادشاہ جھوٹ بول ہی نہیں سکتا۔ تقبیح الامر الزانی اشد تقبیح ببیان انہ بعد ان رضی بالزنا لا یلیق بہ ان ینکح الفیفۃ المومنۃ وانما یلیق بہ ان ینکح زانیۃ ھی فی طبقتہ (فلا ینکح) خبر مزاد منہ لا یلیق بہ ان ینکح کما تقول السلطان لا یکذب ای لایلیق بہ ان یکذب نزل فیہ عدم لیاقۃ الفعل منزلۃ عدمہ (روح ج 18 ص 84) یا نکاح سے یہاں وطی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس مرد و عورت کو یہ عادت بد چمٹ جائے وہ ایسے ہی بدکار مرد و عورت سے یا ان سے بھی بدتر مشرک و مشرکہ کے ساتھ ہی زنا کرتے ہیں کیونکہ پارسا مرد و عورت تو اس فعل بد سے کلی اجتناب کرتے ہیں۔ فالمعنی الزانی لایطا فی وقت الزنا الا زانیۃ من المسلمین او منھی احسن منھا من المشرکات وقد روی عن ابن عباس و اصحابہ ان النکاح فی ھذہ الایۃ الوطء (قرطبی ج 12 ص 167) یا نکاح سے عقد شرعی مراد ہے اور آیت منسوخ ہے ب آیت وانکحوالایامی منکم (قرطبی ج 12 ص 169) لیکن پہلا مطلب ارجح اور دوسرا راجح ہے۔ حضرت شیخ (رح) نے ان دونوں کو پسند فرمایا۔ 5:۔ ” وحرم ذلک الخ “ : ” ذلک “ سے زنا کی طرف اشارہ ہے جو ماقبل سے مفہوم ہے۔ اس صورت میں حرمت سے حرمت شرعیہ مراد ہوگی اور یہ جملہ ماقبل کی علت ہوگا۔ والاشارۃ یحتمل ان تکون للزنا المفھوم مما تقدم والتحریم علیہ علی ظاھرہ و لعل ھذا الجملۃ وما قبلھا متضمنۃ لتعلیل ما تقدم الخ (روح ج 18 ص 84) یا اشارہ مذکورہ بالا نکاح کی طرف ہے اور تحریم بمعنی منع ہے جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ” وحرمنا علیہ المراضع الخ “ اور مومنین سے افراد کاملہ مراد ہیں اور مطلب یہ کہ ہم نے تکوینی طور پر مومنین کاملین کے دلوں کو ایسے بدکار مردوں اور عورتوں کے نکاح سے متنفر کردیا ہے اور ان کے دل ایسے گندے لوگوں کی طرف مائل ہی نہیں ہوتے، ویحتمل ان تکون لنکاح الزانیۃ وعلیہ فالمراد من التحریم المنع وبالمومنین المومنون الکاملون و معنی منعھم عن نکاح الزوانی جعل نفوسھم ابیۃ عن المیل الیہ فلا یلیق ذلک بھم الخ (روح) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) زنا کار مرد نکاح کی خواہش نہیں کرتا مگر بدکار عورت سے یا شرک کرنے والی عورت سے اور زناکار عورت سے نکاح کرنے کی رغبت نہیں کرتا مگر زناکار مرد یا شرک کرنے والا مرد۔ عام طور سے طبعاً بدکار آدمی بدکار عورت سے ہی نکاح کی رغبت کرتا ہے کسی عفیفہ اور پاک دامن عورت سے نکاح کرنے پر مائل نہیں ہوتا یا مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی خواہش کرتا ہے کہ وہ بھی ایک قسم کا زنا ہی ہے اسی طرح بدکار اور زانیہ عورت سے نکاح کی خواہش اور رغبت نہیں کرتا مگر زانی یا مشرک اور یہ بات مسلمانوں پر ممنوع کی گئی ہے۔ مراد یہ ہے کہ طبعاً برے بروں کو پسند کرتے ہیں اور صالح مردوں کو صالحہ عورتوں کو یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مشرک یا مشرکہ سے نکاح کریں یا کسی پیشہ ور بدکار عورت سے نکاح پر آمادہ ہوں۔ حضرات مفسرین کے اس آیت میں سات اقوال ہیں۔ ہم نے ایک آسان اور سہل شکل اختیار کرلی ہے اور پیشہ ور کی قید شان نزول کے اعتبار سے بڑھائی ہے کیونکہ زمانہ جاہلیت میں بعض غیرمسلم اپنی عورتوں کی حرام کمائی پر گزر کرتے تھے۔ بعض مفلوک الحال مسلمانوں نے بھی یہ خواہش کی کہ ہم بھی کسی پیشہ ور عورت سے نکاح کرلیں اور اس کی اس کمائی سے جو وہ زنا سے حاصل کرے اپنی بسر اوقات کریں چناچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اس لئے کسی پیشہ ور بدکار عورت کو کمائی کھانے کی غرض سے نکاح میں لانا ناجائز قرار دیا گیا اور کسی مسلمان مرد کا کسی مشرکہ سے نکاح کرنا یا کسی مسلمان عورت کا مشرک مرد سے نکاح تو باطل ہی ہے۔ جیسا کہ دوسرے پارے میں تفصیل کے ساتھ گزرچکا ہے۔ ہاں ! اگر مشرکہ اسلام لے آئے اور زانیہ توبہ کرلے تو اس سے نکاح جائز ہے۔ فقہ میں تفصیل ملاحظہ کرلی جائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مرد اگر بدکار ہو تو عورت پارسا نہ بیاہ لاوے اور اگر نیک ہو تو عورت بدکار نہ لاوے دو واسطے ایک یہ کہ اس کا کفو نہیں اس کو عار ہے دوسرے یہ کہ ایک سے دوسرے کو علت نہ لگ جائے لیکن اگر کرلے تو درست ہے مگر مرد کو عورت بدکار نہیں درست جب تک بدکاری کرتی رہے اور اگر توبہ کرلے تو درست ہے۔ 12۔ بات بھی یہ ہے کہ بدکار عورت کا نیک مرد سے نکاح کوئی جوڑ نہیں ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ ؎ ہر کس مناسب برائے خود گرفت یار بلبل بباغ رفت و زغن سوئے خار زار وحرم ذلک میں اگر مشرکہ عورت اور مشرک مرد مراد لیں تو کسی توجیہ کی ضرورت نہیں اور اگر ذلک سے مشارالیہ عام مراد لیا جائے تو پھر پیشہ وزانیہ مراد ہوگی جس کی کمائی کھانی مقصود ہو۔ (واللہ اعلم)