Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 38

سورة النور

لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۸﴾

That Allah may reward them [according to] the best of what they did and increase them from His bounty. And Allah gives provision to whom He wills without account.

اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے بلکہ اپنے فضل سے اور کچھ زیادتی عطا فرمائے ، اللہ تعالٰی جس چاہے بے شمار روزیاں دیتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا ... That Allah may reward them according to the best of their deeds, meaning, "They are those from whom We shall accept the best of their deeds and overlook their evil deeds." ... وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ... and add even more for them out of His grace. means, He will accept their good deeds and multiply them for them, as Allah says: إِنَّ اللَّهَ لاَ يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ Surely, Allah wrongs not even of the weight of a speck of dust. (4:40) مَن جَأءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا Whoever brings a good deed shall have ten times the like thereof to his credit. (6:160) مَّن ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا Who is he that will lend to Allah a goodly loan. (2:245) وَاللَّهُ يُضَـعِفُ لِمَن يَشَأءُ Allah gives manifold increase to whom He wills. (2:261) And Allah says here: ... وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاء بِغَيْرِ حِسَابٍ And Allah provides without measure to whom He wills.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کی نیکیوں کا بدلہ (کئی کئی گنا) کی صورت میں دیا جائے گا اور بہت سوں کو بےحساب ہی جنت میں داخل کردیا جائے گا اور وہاں رزق کی فروانی جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] عربی زبان میں ہر مشروب یعنی پینے کی چیز کو شراب کہتے ہیں اور جو چیز بظاہر تو شراب نظر آئے مگر حقیقت اس کے برعکس ہو اسے سراب کہتے ہیں۔ پھر اس لفظ کا استعمال اس تودہ ریت پر ہونے لگا جو دور سے ایک خاص زاویہ سے سورج کی روشنی میں ٹھاٹھیں مارتا پانی نطر آتا ہے مگر حقیقتاً وہاں پانی وانی کچھ نہیں ہوتا۔ یہ مثال ایسے کافروں اور منافقوں سے تعلق رکھتی ہے جو فی الجملہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور کچھ نیک اعمال بھی بجا لاتے ہیں۔ خواہ وہ نمودو نمائش کے لئے ہوں پھر انھیں یہ توقع بھی ہوتی ہے کہ آخرت میں انھیں ان کا اجر ملے گا۔ اور چونکہ ان کے اکثر اعمال اللہ کی مرضی نہیں بلکہ ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا : کہ جس طرح کسی ریگستان میں ایک پیاسا دور سے چمکتی ہوئی ریت کو پانی سمجھ کر اس کی طرف جاتا ہے تاکہ اس سے اپنی پیاس بجھائے۔ وہ پیاس کا مارا جب گرم ریت کا میدان طے کرکے دوڑتا ہوا وہاں پہنچتا ہے تو اسے وہاں کچھ نہیں ملتا۔ اور سخت مایوس اور درماندہ ہوجاتا ہے۔ یہی حال ایسے کافروں کا ہے۔ موت کا وقت ان کے لئے سراب ہے۔ اور وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ انھیں ان کے نیک اعمال کا بدلہ ملے گا۔ مگر کفر نفاق اور شامت اعمال کی بنا پر انھیں وہاں کچھ بھی ان کے اعمال کا بدلہ نہ ملے گا۔ اور جس طرح پیاسے کو سراب تک پہنچنے میں تھکاوٹ اور گرمی کی شدت بھی جھیلنا پڑی تھی اس طرح ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ جہنم کے عذاب کی صورت میں دیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ڎلِيَجْزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا : اس کا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے : ” أَيْ ثَوَابَ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا “ کہ اللہ تعالیٰ انھیں ان بہترین اعمال کا ثواب دے جو انھوں نے کیے، اور یہ بھی : ” أَيْ أَحْسَنَ جَزَاءٍ مَا عَمِلُوْا “ کہ اللہ تعالیٰ انھیں ان اعمال کا بہترین بدلا دے جو انھوں نے کیے۔ دوسرا معنی یہاں زیادہ مناسب ہے، کیونکہ آگے فرمایا : (وَاللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ )” اور اللہ جسے چاہتا ہے بےحساب دیتا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Toward the end of the verse their reward is described that they shall be graced with the best reward for their actions by Allah Ta’ ala, and then the verse says: وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ (and will give them more out of His grace - 38). It means that their reward will not end with the recompense against the good actions, but some extra reward will also be given on His own وَاللَّـهُ يَرْ‌زُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ‌ حِسَابٍ (and Allah gives whom He wills without counting - 38), that is neither Allah is bound by any rule nor does His treasure gets depleted. He grants unlimited sustenance to whomever He likes. So far the righteous believers were described whose chests are the niches for the Nur of guidance and who readily accept the Nur of guidance. In verses 39 and 40 those disbelievers are being described who were given in their nature the Nur of guidance by Allah Ta’ ala, but when Allah&s revelation reached them to lit them up, they turned away to reject it and lost the Nur to stay in the darkness. Since the disbelievers and atheists are of two types, therefore, two examples are related here. One category is that of those disbelievers who believe in the Dooms Day and Hereafter, and have faith that some of their good acts, according to their own reckoning, will be rewarded in the Hereafter. The second category is that of atheists, who do not believe in the Hereafter and the Dooms Day. The example of the deeds of the first category is that of a mirage, which is nothing but illusion of sight. In a level plain the shining sand creates the illusion of water from a distance, and as a thirsty person approaches near it, the illusion (mirage) disappears, leaving the thirsty completely exhausted, who ultimately dies of thirst. Similarly, a disbeliever&s deeds are like a mirage which he considers of value and benefit, but in actual fact they are no better than an illusion, like mirage, and as a thirsty person discovers the illusion when it is too late, in the same way the disbelievers will find out their blunder in the Hereafter, when it will be of no avail. The second category of deeds is that of atheists or infidels, for which the example of a deep ocean is given, which is completely dark. In the first place it is dark because of its depth, then it is covered by a big wave which is also enshrouded by another wave, and over that there is a mass of dark cloud. In short there is darkness over darkness, so much so that if someone takes out his hand, he cannot have even a glimpse of it. The inference to be drawn from this example is that those infidels who deny the coming of the Dooms Day, the Reckoning and the Hereafter are devoid of even the illusive Nur, which the first category of disbelievers had. Although they too did not possess the useful Nur of guidance, but at least they were under the illusion that they had done some good deeds which will help them in the Hereafter, but the latter category did not deem it necessary to work for the Hereafter, since they had no belief in it. Hence, they will have nothing but darkness and complete darkness with them on the Dooms Day.

اور پھر فرمایا وَيَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ یعنی صرف جزاء عمل دینے پر اکتفا نہیں ہوگا بلکہ اپنی طرف سے مزید انعامات بھی ان کو ملیں گے واللّٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ، یعنی اللہ تعالیٰ نہ کسی قانون کا پابند ہے نہ اس کے خزانے میں کبھی کمی آتی ہے وہ جس کو چاہے بےحساب رزق دیدیتا ہے۔ یہاں تک مومنین صالحین جن کے سینے نور ہدایت کے مشکوة ہوتے ہیں اور جو نور ہدایت کو خاص طور سے قبول کرتے ہیں ان کا ذکر تھا۔ آگے ان کفار کا ذکر ہے جن کی فطرت میں تو اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت کا مادہ رکھا تھا مگر جب اس مادہ کو روشن کرنے والی وحی الہی ان کو پہنچی تو اس سے روگردانی اور انکار کر کے نور سے محروم ہوگئے اور اندھیرے ہی اندھیرے میں رہ گئے اور ان میں چونکہ کافر و منکر دو قسم کے تھے اس لئے ان کی دو مثالیں بیان کی گئیں جن کی تفصیل خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِيَجْزِيَہُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۝ ٠ۭ وَاللہُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاۗءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ۝ ٣٨ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو شاء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔/ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے حسب الحساب : استعمال العدد، يقال : حَسَبْتُ «5» أَحْسُبُ حِسَاباً وحُسْبَاناً ، قال تعالی: لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] ( ح س ب ) الحساب کے معنی گنتے اور شمار کرنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ حسبت ( ض ) قرآن میں ہے : ۔ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس/ 5] اور برسوں کا شمار اور حساب جان لو ۔ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْباناً [ الأنعام/ 96] اور اسی نے رات کو ( موجب ) آرام ( ٹھہرایا ) اور سورج اور چانا ۔ کو ( ذرائع ) شمار بنایا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨) اور ان کو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال دنیویہ کا بہت ہی اچھا بدلہ دے گا اور ان کو اپنے فضل سے اسی جزا پر اور بھی زیادہ دے گا یعنی ایک نیکی کا دس گناہ ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بیشمار اور بغیر حساب کے دے دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) ” یہ تو تھی ایک مؤمن صادق کے دل اور اس کی کیفیت ایمان کے بارے میں تمثیل اور اس کے کردار کی ایک جھلک۔ اب اگلی دو آیات میں ان لوگوں کے اعمال کے بارے میں دو تمثیلیں بیان کی گئی ہیں جن کے دل ایمان حقیقی کی روشنی سے یکسر خالی ہیں مگر وہ اپنے دل کی تسلی اور اپنے ضمیر کے اطمینان کے لیے نیکی کے مختلف کام سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ ان تمثیلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی نیکیاں اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہیں۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے سورة البقرۃ کی آیت ١٧٧ (آیت البر) ِ کے الفاظ اور ان الفاظ کا مفہوم ایک دفعہ اپنے ذہن میں پھر سے تازہ کرلیں : (لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَآٰءِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَج وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِلا والسَّآءِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِج وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَج وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عَاہَدُوْاج والصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِط اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْاج وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ) ” نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو ‘ بلکہ نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لائے اللہ پر ‘ یوم آخرت پر ‘ فرشتوں پر ‘ کتابوں پر اور نبیوں پر۔ اور وہ مال خرچ کرے اس (مال) کی محبت کے باوجود ‘ قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ محتاجوں ‘ مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کے چھڑانے میں ‘ اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ ‘ اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کو جب کوئی عہد کرلیں ‘ اور صبر کرنے والے ہیں فقر و فاقہ میں ‘ تکالیف میں اور جنگ کی حالت میں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو سچے ہیں اور یہی حقیقت میں متقی ہیں۔ “ اب ملاحظہ کیجیے ایمان حقیقی کے بغیر انجام دیے گئے نیک اعمال کی مثال :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69. Here those characteristics have been described which are necessary for the true perception of Allah’s Absolute Light and for benefiting from His bounties. Allah does not bestow His bounties without reason. He bestows them on the deserving ones alone. He only sees this that the recipient has sincere love for Him, stands in awe of Him, seeks His favors and avoids His wrath; he is not lost in material pursuits but in spite of his worldly engagements keeps his heart warm with God’s remembrance. Such a person does not rest content with low spiritual levels, but actively endeavors to attain the heights towards which his master may guide him. He does not go for the paltry gains of this transitory world, but has his gaze constantly fixed on the everlasting life of the Hereafter. These are the things which determine whether or not a person should be granted the favor to benefit from Allah’s Light. Then, when Allah is pleased to bestow His bounties, He bestows them without measure; and it will be man’s own incapacity if he does not receive them in full.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :69 یہاں ان صفات کی تشریح کر دی گئی جو اللہ کے نور مطلق کا ادراک کرنے اور اس کے فیض سے بہرہ مند ہونے کے لیے درکار ہیں ۔ اللہ کی بانٹ اندھی بانٹ نہیں ہے کہ یونہی جسے چاہا مالا مال کر دیا اور جسے چاہا دھتکار دیا ۔ وہ جسے دیتا ہے کچھ دیکھ کر ہی دیتا ہے ، اور نعمت حق دینے کے معاملے میں جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے دل میں اس کی محبت ، اور اس سے دلچسپی ، اور اس کا خوف ، اور اس کے انعام کی طلب ، اور اس کے غضب سے بچنے کی خواہش موجود ہے ۔ وہ دنیا پرستی میں گم نہیں ہے ۔ بلکہ ساری مصروفیتوں کے باوجود اس کے دل میں اپنے خدا کی یاد بسی رہتی ہے ۔ وہ پستیوں میں پڑا نہیں رہنا چاہتا بلکہ اس بلندی کو عملاً اختیار کرتا ہے جس کی طرف اس کا مالک اس کی رہنمائی کرے ۔ وہ اسی حیات چند روزہ کے فائدوں کا طلبگار نہیں ہے بلکہ اس کی نگاہ آخرت کی ابدی زندگی پر جمی ہوئی ہے ۔ یہی کچھ دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آدمی کو اللہ کے نور سے بہرہ اندوز ہونے کی توفیق بخشی جائے ۔ پھر جب اللہ دینے پر آتا ہے تو اتنا دیتا ہے کہ آدمی کا اپنا دامن ہی تنگ ہو تو دوسری بات ہے ، ورنہ اس کی دین کے لیے کوئی حد و نہایت نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

34: نیک اعمال کا ثواب کچھ تو وہ ہے جس کا ذِکر قرآن و حدیث میں آ گیا ہے۔ اِس آیت نے بڑے لطیف انداز میں یہ بتایا ہے کہ نیک لوگوں کا ثواب صرف ان نعمتوں میں منحصر نہیں ہوگا جن کا تذکرہ قرآن و حدیث میں کردیا گیا ہے، بلکہ اﷲ تعالیٰ اس کے علاوہ ایسی نعمتیں بھی عطا فرمائیں گے جن کا تذکرہ قرآن و حدیث میں آیا ہے، اور نہ کسی کے دل میں ان کا تصوّر آیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:38) لیجزیہم اللہ۔ لام علت اور سبب بیان کرنے کے لئے ہے اور اس کا تعلق یسبح۔ لا تلھیہم اور لا یخافون سب سے ہے۔ یجزی مضارع منصوب (بوجہ لام تعلیل) واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اللہ فاعل۔ تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے احسن۔ بہت اچھا۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے اس کا تعلق ما عملوا سے بھی ہوسکتا ہے (کہ اللہ انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دے) ۔ اس صورت میں عملوا سے مراد عام عمل بلا تخصیص ہوگا۔ ورنہ تسبیح۔ ذکر اللہ۔ اقام الصلوٰۃ۔ ایتاء الزکوٰۃ۔ تو ازخود جزائے خیر کے مستحق ہیں۔ یا اس کا تعلق جزاء سے ہے ای لیجزیہم احسن جزاء عملہم۔ تاکہ وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) ان کو ان کے اعمال کی بہترین جزاء دے۔ جیسے کہ ارشاد الٰہی ہے وان تک حسنۃ یضعفہا ویؤت من الدنہ اجرا عظیما۔ (4:40) اور اگر ایک نیکی ہوگی تو اسے دگنا کر دے گا اور اپنے پاس سے اجر عظیم دے گا۔ یا واللہ یضعف لمن یشائ (2:161) اور اللہ جسے چاہے افزونی دیتا رہتا ہے ۔ یزیدہم۔ ای ولیزیدہم۔ مضارع منصوب بوجہ عمل لام واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

11 ۔ جیسا کہ اس کا وعدہ ہے کہ وہ نیکی کا بدلہ دس گناہ۔ بلکہ سات سو گناہ، بلکہ بےحدو حساب دے گا۔ یا یہ کہ ایسے لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں مذکور ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ جزا وہ جس کا وعدہ مفصل ہے اور زیادہ جس کا مفصل وعدہ نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(لِیَجْزِیَہُمْ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا) (تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کا اچھے سے اچھا بدلہ دے) ۔ (وَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ ) (اور انہیں اپنے فضل سے اور بھی زیادہ دے) (وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) (اور اللہ جسے چاہتا ہے بلا حساب رزق عطا فرماتا ہے) ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اچھے سے اچھا اجر ہے اور زیادہ سے زیادہ ثواب ہے بلا حساب رزق ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) ان لوگوں کا مال اور انجام یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا صلہ اور بدلہ دے گا اور علاوہ بدلے کے ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے گا اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بیشمار اور بےحساب روزی دیتا ہے۔ بیوت سے مراد مساجد ہیں یعنی یہ چراغ یا جن کے سینوں میں یہ نور ہدایت روشن ہے اقوال مختلفہ کی بنا پر ہم نے ترجمے اور تیسیر میں فرق کردیا ہے ان گھروں کے متلعق اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بنایا جائے اور ان کو بلند کیا جائے یا یہ کہ ان کا ادب و احترام اور توقیر و تعظیم کی جائے ان میں کوئی نکمی اور فضول باتیں نہ کی جائیں۔ حائضہ اور نفسا عورتیں اور جنبی لوگ اس میں داخل نہ ہوں دنیا کے کام اور باتیں وہاں نہ کی جائیں۔ ہرچند کہ مساجد کے سلسلے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں جن میں سے حضرت مجاہد اور حضرت حسن کا قول بوجہ اظہر ہونے کے اختیار کرلیا ہے اللہ تعالیٰ کا نام ان مساجد میں لیا جاتا ہے اس لئے ان کے احترام کا حکم دیا گیا۔ صبح اور شام سے بعض حضرات نے صبح اور عصر کی نماز مرادلی ہے اور اکثر حضرات نے غدو سے صبح کی اور آصال سے باقی چار نمازیں مراد لی ہی آگے ایک سوال کا جواب فرمایا کہ یہ نمازیں وہ لوگ پڑھتے ہیں کہ وہ لوگ ایسے اہل عزیمت ہیں جن کو خریدوفروخت جو بڑے شغل اور غفلت کا کام ہے اللہ تعالیٰ کی یاد سے نہیں روکتا اور خاص کر نماز پڑھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے دنیوی کام ان کو مانع نہیں ہوتے وہ اس دن سے ہمیشہ ڈرتے رہتے ہیں جس دن کی ہیبت سے نہ دل قبضے میں رہیں گے نہ آنکھیں۔ آنکھیں اوپر لگ جائیں گی اور دل الٹ پلٹ ہوجائیں گ آگے انجام فرمایا کہ اس قسم ک لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ بہت دیا جائے گا یعنی جو وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا ہوگا اور اس کے علاوہ بھی اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دے گا۔ جیسا کہ سورة یونس میں للذین احسنوا الحسنیٰ وزیادۃ۔ چونکہ زیادتی میں اجمال ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ہی اس زیادتی کو جانتا ہے۔ مفسرین کے مختلف اقوال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ان گنت اور بیشمار روزی سے سرفراز فرماتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایمان کی برکت سے مومن کو نیک عمل کا بدلہ ہے اور بدعمل معاف اور کفر کی شامت سے کافر کو بدعمل کی سزا ہے اور نیک عمل خراب یہی فرمایا کہ بہتر سے بہتر کام کا۔ 12