Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 4

سورة النور

وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

And those who accuse chaste women and then do not produce four witnesses - lash them with eighty lashes and do not accept from them testimony ever after. And those are the defiantly disobedient,

جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو ۔ یہ فاسق لوگ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Prescribed Punishment for slandering Chaste Women Allah commands: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ... And those who accuse chaste women, This Ayah states the prescribed punishment for making false accusations against chaste women, i.e., those who are free, adult and chaste. If the person who is falsely accused is a man, the same punishment of flogging also applies. If the accuser produces evidence that what he is saying is true, then the punishment does not apply. Allah said: ... ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاء فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلاَ تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَيِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ and produce not four witnesses, flog them with eighty stripes, and reject their testimony forever. They indeed are the rebellious. If the accuser cannot prove that what he is saying is true, then three rulings apply to him: (firstly) that he should be flogged with eighty stripes, (secondly) that his testimony should be rejected forever, and (thirdly) that he should be labeled as a rebellious who is not of good character, whether in the sight of Allah or of mankind. Explaining the Repentance of the One Who makes a False Accusation Then Allah says: إِلاَّ الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

تہمت لگانے والے مجرم جو لوگ کسی عورت پر یا کسی مرد پر زناکاری کی تہمت لگائیں اور ثبوت نہ دے سکیں ۔ تو انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں گے ، ہاں اگر شہادت پیش کردیں تو حد سے بچ جائیں گے اور جن پر جرم ثابت ہوا ہے ان پر حد جاری کی جائے گی ۔ اگر شہادت نہ پیش کرسکے تو اسی کوڑے بھی لگیں گے اور آئندہ کیلئے ہمیشہ ان کی شہادت غیر مقبول رہے گی اور وہ عادل نہیں بلکہ فاسق سمجھے جائیں گے ۔ اس آیت میں جن لوگوں کو مخصوص اور مستثنیٰ کردیا ہے تو بعض تو کہتے ہیں کہ یہ استثنا صرف فاسق ہونے سے ہے یعنی بعد از توبہ وہ فاسق نہیں رہیں گے ۔ بعض کہتے ہیں نہ فاسق رہیں گے نہ مردود الشہادۃ بلکہ پھر ان کی شہادت بھی لی جائے گی ۔ ہاں حد جو ہے وہ توبہ سے کسی طرح ہٹ نہیں سکتی ۔ امام مالک ، احمد اور شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا مذہب تو یہ ہے کہ توبہ سے شہادت کا مردود ہونا اور فسق ہٹ جائے گا ۔ سید التابعین حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ اور سلف کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے ، لیکن امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف فسق دور ہو جائے گا لیکن شہادت قبول نہیں ہوسکتی ۔ بعض اور لوگ بھی یہی کہتے ہیں ۔ شعبی اور ضحاک کہتے ہیں کہ اگر اس نے اس بات کا اقرار کرلیا کہ اسے بہتان باندھا تھا اور پھر توبہ بھی پوری کی تو اس کی شہادت اس کے بعد مقبول ہے ۔ واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41اس میں (بہتان تراشی) کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے اس طرح جو عورت کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور بطور ثبوت چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اس کے لئے تین حکم بیان کئے گئے ہیں 1 انھیں اسی کوڑے لگائے جائیں 2 ان کی شہادت قبول نہ کی جائے 3 وہ عند اللہ و عندالناس فاسق ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] یہاں محصین کا لفظ صرف پاکباز یا بےقصور کے معنوں میں آیا ہے۔ خواہ وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ہو۔ حتیٰ کہ بعض علماء کے نزدیک پاکباز لونڈی پر تہمت زنا لگانا بھی اس شامل ہے۔ اور یہ حکم صرف مردوں کے لئے نہیں بلکہ عورتوں کے لئے بھی ہے کہ وہ پاکباز مردوں پر ایسی تہمت نہ لگائیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس گناہ کو ان سات بڑے بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے جو انسان کو ہلاک کردینے والے ہیں۔ (بخاری۔ کجتاب الوصایا۔ باب۔۔ (اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا 10؀ ) 4 ۔ النسآء :10) زنا کی شہادت سے مراد تو ایسی شہادت ہے جس میں وضاحت کے ساتھ فعل زنا کی شہادت ہو اور تہمت زنا کی شہادت سے مراد ایسے قرائن کی شہادت ہے جیسے کوئی یہ گواہی ہے کہ میں نے فلاں اجنبی مرد اور عورت کو خلوت میں دیکھا ہے۔ یا بوس و کنار کرتے دیکھا ہے یا کوئی کسی کو ولدالزنا یا ولدالحرام کہے۔ ایسے مدعی کے لئے چار شہادتوں کا پیش کرنا ضروری ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی چار شہادتیں میسر آنا نہایت مشکل ہے۔ لہذا شہادتوں کے اس سخت نصاب اور پھر سخت سزا سے اصل مقصود یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی برائی دیکھ بھی لے تو اس کے لئے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ پردہ پوشی کرے اور مطلقاً اس کی تشہیر نہ کرے۔ یا پھر چار شہادتیں مہیا کرکے صرف حکومت کو مطیع کرے تاکہ حکومت ملزموں کا جرم ثابت ہوجانے پر انھیں سزا دے کر اس گندگی کا سدباب کرے۔ تیسری راہ اختیار کرنا یعنی عام لوگوں میں ایسی باتیں پھیلانا معاشرہ کے حق میں اور خود اس کے حق میں انتہائی خطرناک ہے۔ دوسری بات محصنت کے لفظ سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو مرد یا عورت پہلے ہی بدنام مشہور ہوچکے ہوں یا پہلے ہی سزا یافتہ ہوں ان پر الزام لگانے سے نہ حد پڑے گی اور نہ ہی وہ غیر مقبول الشہادت قرار پائیں گے تاہم انھیں ایسے کام سے پرہیز کرنا چاہئے۔ [٨] یعنی خواہ ایسے لوگ اپنی بات یا دعویٰ میں حقیقتاً سچ ہوں مگر مکمل ثبوت فراہم نہ ہونے کے باعث جھوٹے قرار پاگئے ہوں تب بھی ایسے لوگ بدکردار ہیں۔ اللہ کے ہاں بھی اور لوگوں کے ہاں بھی۔ اور ان کی بدکرداری یہ ہے کہ اس فحاشی کی بات کو معاشرے میں پھیلانا شروع کردیا۔ جیسے وہ ثابت نہیں کرسکے۔ لہذا مسلمانوں کے لئے راہ نجات پردہ پوشی میں ہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ : ” الْمُحْصَنٰتِ “ سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں، کنواری ہوں یا شادی شدہ۔ ان پر تہمت لگانے سے مراد زنا کی تہمت ہے، کیونکہ ” پاک دامن عورتوں “ کا لفظ قرینہ ہے کہ ان پر تہمت پاک دامن نہ ہونے ہی کی ہے۔ اس کے علاوہ چار گواہوں کی شہادت بھی دلیل ہے کہ مراد زنا کی تہمت ہے، اگر کوئی شخص کسی پر چوری یا شراب نوشی یا کفر وغیرہ کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف نافذ نہیں کی جائے گی، بلکہ حاکم کی صواب دید کے مطابق تعزیر ہوگی۔ اگرچہ یہاں ذکر پاک دامن عورتوں کا ہے مگر اس میں پاک دامن مرد بھی شامل ہیں، ان پر بہتان لگانے والوں پر بھی یہی حد لاگو ہوگی، کیونکہ جس علت کی بنا پر پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کی حد مقرر کی گئی ہے وہی علت پاک دامن مردوں پر تہمت لگانے میں بھی موجود ہے۔ اس لیے پوری امت کا اجماع ہے کہ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کی حد پاک دامن مرد پر تہمت لگانے والے پر بھی نافذ کی جائے گی۔ یہاں عورتوں کا ذکر اس لیے ہے کہ ان پر تہمت زیادہ تکلیف دہ اور باعث عار ہوتی ہے اور اس لیے بھی کہ آگے ام المومنین عائشہ (رض) پر تہمت کا ذکر آ رہا ہے۔ 3 جو شخص کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے اس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے چار مسلمان عادل مرد گواہ پیش کرے۔ (دیکھیے نساء : ١٥) دوسرے کسی جرم کے ثبوت کے لیے چار گواہ مقرر نہیں کیے گئے۔ اگر کسی شخص نے کسی کو زنا کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھا ہے تو اگر اس کے پاس مزید تین گواہ نہیں تو اسے اجازت نہیں کہ اس کا ذکر کرے، بلکہ اسے خاموش رہنے کا حکم ہے، تاکہ وہ گندگی جہاں ہے وہیں تک محدود رہے، معاشرے میں لوگوں کے ناجائز تعلقات کے چرچے نہ ہوں، کیونکہ اس سے بیشمار برائیاں پھیلتی ہیں، ماحول میں زنا کا تذکرہ اسے پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ کوئی شخص اگر چھپ کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا اتنا نقصان نہیں جتنا زنا کی اشاعت (بےحیائی کی بات پھیلانے) سے معاشرے کا نقصان ہوتا ہے۔ ہاں، اگر کوئی شخص اتنی دیدہ دلیری سے زنا کرتا ہے کہ چار مرد اسے عین حالت زنا میں دیکھتے ہیں تو انھیں اجازت ہے کہ اسے حاکم کے پاس لے جائیں، تاکہ وہ اس پر حد نافذ کرکے اس خبیث فعل کی روک تھام کرے۔ ایک طرف زنا کی سخت ترین حد مقرر فرمائی، دوسری طرف لوگوں کی عزتوں کی حفاظت اور ان کی کمزوریوں پر پردے کے لیے حکم دیا کہ جو شخص کسی پاک دامن پر زنا کا الزام لگائے، پھر چار گواہ پیش نہ کرے تو اسے بہتان کی حد لگاؤ۔ بہتان لگانے والا مرد ہو یا عورت، جیسا کہ حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثہ ( رض ) کے ساتھ حمنہ بنت جحش (r) پر بھی حد قذف لگائی گئی تھی۔ 3 جو شخص کسی پاک دامن مسلم مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے، پھر چار گواہ نہ لاسکے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق تین حکم دیے ہیں، پہلا یہ کہ اسے اسّی (٨٠) کوڑے مارو، دوسرا یہ کہ اس کی کوئی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور تیسرا یہ کہ یہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں (3 وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ میں قصر قلب ہے) ، نہ کہ وہ لوگ جنھیں یہ فاسق ثابت کرنا چاہتے تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The third injunction relating to fornication is on false accusation and the punishment prescribed for it As explained earlier, since adultery is the most damaging and heinous of all crimes for society, as such its punishment is also most severe under Islamic law, compared to all other crimes. Hence it was the requirement of justice and fairness that the special care be attached to prove this act. Without having prescribed evidence under Islamic law, no one should dare accuse any man or woman of adultery. Therefore, the Islamic law has made it mandatory to produce four honest equitable just men as witnesses to the crime, without which the accusation of adultery is declared a big crime by itself, for which the prescribed punishment (حد) is eighty stripes. In view of this mandatory provision one would dare making the accusation of adultery only when he is absolutely sure of watching the crime happening himself. Not only that, at the same time he should be sure that along with him another three honest men have also seen the crime happening, for which they will give the evidence. Because, if there are no other witnesses, or the total number is less than four, or there is doubt if the witnesses will give the evidence, then only one man would never like to venture evidence alone and be punished with eighty stripes. A doubt and its answer As for the issue that when there are such strong conditions for the evidence of adultery, the criminals will have a free hand. No one will ever dare to give evidence and fulfill the conditions of Islamic law, and hence, no criminal will ever get punished. But this thinking is totally wrong, because these conditions are exclusive to the punishment prescribed as hadd for adultery, i.e. - hundred stripes or stoning. If two non-mehram man and woman are seen together in a compromising posture or indulging in shameless acts, then there is no restriction against giving evidence for it. All such matters which have nexus to adultery are also liable for punishment under Islamic penal code, for which punishment of stripes is awarded at the discretion of the judge or the ruler in accordance with the extent of the crime, but not the maximum punishment of hadd. Therefore, someone who has seen the act of adultery, but has no other witnesses need not give evidence of adultery, but can testify for having seen the accused persons in compromising position, and the judge or ruler can award the punishment after establishing the crime. Who are muhsanat (مُحصَنَات) The word Muhsanat is derived from the word اِحصَان . In the Islamic jurisprudence there are two types of اِحصَان . One, that has been acknowledged for the punishment of adultery. It means that the person against whom adultery is established is sane, adult, a free Muslim, and who is validly married to a Muslim woman and has also copulated with her. In that case the punishment of stoning will be awarded to him. The second type is that which has been acknowledged for the punishment of قَذَف ، that is punishment for accusation of adultery. It means that the person against whom the charge of adultery is levelled is sane, adult, a free Muslim and chaste, that is he has not been proved an adulterer before. The word مُحصَنَات is used in this sense in this verse. (Jassas) Ruling In the Qur’ anic verse, either because of general practice or because of the incident for which the verse was revealed, the accusation of adultery and related punishment is described in a way that the accusers are men and the accused is a chaste lady. But the injunction applies to all situations because of the common ground applicable to all persons. If a woman levels a charge of adultery against another woman or a man, or a man accuses another man, but the required legal evidence is lacking, then in either case the accuser will be liable to the punishment of eighty stripes.(Jassas & Hidayah) Ruling The punishment of eighty stripes as hadd is exclusive to false accusation of adultery and does not apply to accusation of any other crime. However, other punishments of ta&zir can be awarded on false accusations of other crimes. Although it is not specifically mentioned in the Qur&an that this punishment is exclusive to false accusation of adultery but the condition of four witnesses is the proof of its exclusiveness, because the condition of four witnesses is only in the case of adultery. (Jassas and Hidayah) Ruling The punishment prescribed for qazf (false accusation of adultery) relates to the right of the person against whom the charge of adultery is levelled. As such the punishment against this crime will be executed only when the person demands the execution of the punishment, otherwise it will be annulled. This is unlike the punishment of adultery, which is purely a right of Allah. Therefore, it has to be executed, even though no person has ever demanded for it. وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا And do not accept his any evidence any more - 24:4. It means that the person guilty of qazf is subject to two punishments. One is inflict at once, i.e. the eighty stripes, but there is another punishment which stays with the culprit forever. This punishment is that his evidence will not be accepted in any matter, unless he begs Allah&s pardon with sincere repentance, and is also forgiven by the one whom he had accused. Until this is done, his evidence will not be acceptable in any case. This much is by consensus of Ummah. But in case of Hanafiah, even after begging the pardon, his evidence is not acceptable. Only his sin is pardoned.

خلاصہ تفسیر اور جو لوگ (زنا کی) تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں کو (جن کا زانیہ ہونا کسی دلیل یا قرینہ شرعیہ سے ثابت نہیں) اور پھر چار گواہ (اپنے دعوے پر) نہ لا سکیں تو ایسے لوگوں کو اسی درے لگاؤ اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول مت کرو (یہ بھی تہمت لگانے کی سزا ہی کا جز ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے مردود الشہادت ہوگئے یہ تو دنیا کی سزا کا ذکر تھا) اور یہ لوگ (آخرت میں بھی سزا کے مستحق ہیں کیونکہ) فاسق ہیں لیکن جو لوگ اس کے بعد (خدا کے سامنے) توبہ کرلیں (کیونکہ تہمت لگانے میں انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور حق اللہ کو ضائع کیا) اور (جس پر تہمت لگائی تھی اس سے معاف کرا کر بھی) اپنی (حالت کی) اصلاح کرلیں (کیونکہ اس کا حق ضائع کیا تھا) تو اللہ تعالیٰ ضرور مغفرت کرنے والا رحمت کرنے والا ہے (یعنی سچی توبہ کرنے سے عذاب آخرت معاف ہوجائے گا اگرچہ شہادت کا مقبول نہ ہونا جو دنیوی سزا تھی وہ باقی رہے گی کیونکہ وہ حد شرعی کا جز ہے اور ثبوت جرم کے بعد توبہ کرنے سے حد شرعی ساقط نہیں ہوتی) ۔ معارف و مسائل زنا کے متعلق تیسرا حکم جھوٹی تہمت کا جرم ہونا اور اس کی حد شرعی : جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ زنا چونکہ سارے جرائم سے زیادہ معاشرے میں بگاڑ اور فساد کا ذریعہ ہے اس لئے اس کی سزا شریعت اسلام نے دوسرے سب جرائم سے زیادہ سخت رکھی ہے۔ اس لئے عدل و انصاف کا تقاضا تھا کہ اس معاملہ کے ثبوت کو بڑی اہمیت دی جائے بغیر شرعی ثبوت کے کوئی کسی مرد یا عورت پر زنا کا الزام یا تہمت لگانے کی جرأت نہ کرے۔ اس لئے شریعت اسلام نے بغیر ثبوت شرعی کے جس کا نصاب چار مرد گواہ عادل ہونا ہے اگر کوئی کسی پر تہمت صریح زنا کی لگائے تو اس تہمت لگانے کو بھی شدید جرم قرار دیا اور اس جرم پر بھی حد شرعی اسی کوڑے مقرر کی جس کا لازمی اثر یہ ہوگا کہ کسی شخص پر زنا کا الزام کوئی شخص اسی وقت لگانے کی جرأت کرے گا جبکہ اس نے اس فعل خبیث کو خود اپنی آنکھ سے دیکھا بھی ہو اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کو یہ یقین ہو کہ میرے ساتھ اور تین مردوں نے دیکھا ہے اور وہ گواہی دیں گے۔ کیونکہ اگر دوسرے گواہ ہیں ہی نہیں یا چار سے کم ہیں یا ان کے گواہی دینے میں شبہ ہے تو اکیلا یہ شخص گواہی دے کر تہمت زنا کی سزا کا مستحق بننا کسی حال گوارا نہ کرے گا۔ ایک شبہ اور جواب : رہا یہ معاملہ کہ جب زنا کی شہادت کے لئے ایسی کڑی شرطیں لگا دی گئیں تو مجرموں کو کھلی چھٹی مل گئی نہ کسی کی شہادت کی جرأت ہوگی نہ کبھی ثبوت شرعی بہم پہنچے گا نہ ایسے مجرم کبھی سزا یاب ہو سکیں گے مگر یہ خیال اس لئے غلط ہے کہ زنا کی حد شرعی یعنی سو کوڑے یا رجم و سنگساری کی سزا دینے کیلئے تو یہ شرطیں ہیں لیکن دو غیر محرم مرد و عورت کو یکجا قابل اعتراض حالت میں یا بےحیائی کی باتیں کرتے ہوئے دیکھ کر اس کی شہادت دینے پر کوئی پابندی نہیں اور ایسے تمام امور جو زنا کے مقدمات ہوتے ہیں یہ بھی شرعاً قابل سزائے جرم ہیں لیکن حد شرعی کی سزا نہیں بلکہ تعزیری سزا قاضی یا حاکم کی صوابدید کے مطابق کوڑے لگانے کی دی جاتی ہے۔ اس لئے جس شخص نے دو مرد و عورت کو زنا میں مبتلا دیکھا مگر دوسرے گواہ نہیں ہیں تو صریح زنا کے الفاظ سے تو شہادت نہ دے مگر بےحجابانہ اختلاط کی گواہی دے سکتا ہے اور حاکم قاضی اس پر تعزیری سزا بعد ثبوت جرم جاری کرسکتا ہے۔ محصنت کون ہیں : یہ لفظ احصان سے مشتق ہے اصطلاح شرع میں احصان کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس کا حد زنا میں اعتبار کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جس پر زنا کا ثبوت ہوجاوے وہ عاقل بالغ آزاد مسلمان ہو اور کسی عورت کے ساتھ نکاح صحیح کرچکا ہو اور اس سے مباشرت بھی ہوچکی ہو تو اس پر سزائے رجم و سنگساری جاری ہوگی۔ دوسری قسم وہ ہے جس کا اعتبار حد قذف یعنی تہمت زنا میں کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص پر زنا کا الزام لگایا گیا ہے وہ عاقل بالغ آزاد مسلمان ہو اور عفیف ہو یعنی پہلے کبھی اس پر زنا کا ثبوت نہ ہوا ہو۔ اس آیت میں یہی معنے محصنت کے ہیں (جصاص) مسئلہ : آیت قرآن میں عام معروف عادت کے مطابق یا اس واقعہ کی وجہ سے جو شان نزول اس آیت کا ہے تہمت زنا اور اس کی سزا کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ تہمت لگانے والے مرد ہوں اور جس پر تہمت لگائی گئی وہ پاکدامن عورت ہو مگر حکم شرعی اشتراک علت کے سبب سے عام ہے کوئی عورت دوسری عورت پر یا کسی مرد پر یا مرد کسی دوسرے مرد پر تہمت زنا لگائے اور ثبوت شرعی موجود نہ ہو تو یہ سب بھی اسی سزائے شرعی کے مستحق ہوں گے (جصاص و ہدایہ) مسئلہ : یہ حد شرعی جو تہمت زنا پر ذکر کی گئی ہے صرف اسی تہمت کے ساتھ مخصوص ہے کسی دوسرے جرم کی تہمت کسی شخص پر لگائی جائے تو یہ حد شرعی اس پر جاری نہیں ہوگی۔ ہاں تعزیری سزا حاکم کی صوابدید کے مطابق ہر جرم کی تہمت پر دی جاسکتی ہے۔ الفاظ قرآن میں اگرچہ صراحةً اس حد کا تہمت زنا کے ساتھ مخصوص ہونا ذکر نہیں مگر چار گواہوں کی شہادت کا ذکر اس خصوصیت کی دلیل ہے کیونکہ چار گواہ کی شرط صرف ثبوت زنا ہی کے لئے مخصوص ہے۔ (جصاص و ہدایہ) مسئلہ : حد قذف میں چونکہ حق العبد یعنی جس پر تہمت لگائی گئی ہے اس کا حق بھی شامل ہے اس لئے یہ حد جبھی جاری کی جائے گی جبکہ مقذوف یعنی جس پر تہمت لگائی گئی وہ حد جاری کرنے کا مطالبہ بھی کرے ورنہ حد ساقط ہوجائے گی (ہدایہ) بخلاف حد زنا کے کہ وہ خالص حق اللہ ہے اس لئے کوئی مطالبہ کرے یا نہ کرے حد زنا جرم ثابت ہونے پر جاری کی جائے گی۔ وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا۔ یعنی جس شخص پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے کا جرم ثابت ہوجائے اور مقذوف کے مطالبہ سے اس پر حد قذف جاری ہوجائے تو اس کی ایک سزا تو فوری ہوگئی کہ اسی کوڑے لگائے گئے۔ دوسری سزا ہمیشہ کے لئے جاری رہے گی وہ یہ ہے کہ اس کی شہادت کسی معاملے میں مقبول نہ کی جائے گی جب تک یہ شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے ندامت کے ساتھ توبہ نہ کرے اور مقذوف شخص سے معافی حاصل کر کے توبہ کی تکمیل نہ کرے اس وقت تک تو باجماع امت اس کی شہادت کسی بھی معاملہ میں مقبول نہ ہوگی۔ اور اگر توبہ کرلے تو تب بھی حنفیہ کے نزدیک اس کی شہادت قبول نہیں ہوتی ہاں گناہ معاف ہوجاتا ہے جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں گزرا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۝ ٠ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝ ٤ۙ رمی الرَّمْيُ يقال في الأعيان کالسّهم والحجر، نحو : وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال/ 17] ، ويقال في المقال، كناية عن الشّتم کالقذف، نحو : وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور/ 6] ، يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور/ 4] ، وأَرْمَى فلان علی مائة، استعارة للزّيادة، وخرج يَتَرَمَّى: إذا رمی في الغرض . ( ر م ی ) الرمی ( ض ) کے معنی پھینکنے کے ہیں یہ اجسام ( مادی چیزیں ) جیسے تیر وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّهَ رَمى [ الأنفال/ 17] اے پیغمبر جب تو نے تیر چلائے تو تم نے تیر نہیں چلائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلائے ۔ اوراقوال کے متعلق استعمال ہو تو |" قذف |" کی طرح اس کے معنی سب و شتم اور تہمت طرازی کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْواجَهُمْ [ النور/ 6] جو لوگ اپنی بیبیوں پر ( زنا کا ) عیب لگائیں ۔ وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَناتِ [ النور/ 4] جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں ۔ محاورہ ہے ارمیٰ علٰی مائۃ : وہ سو سے زائد ہیں ۔ خرج یترمٰی : وہ نکل کر نشانہ بازی کرنے لگا ۔ حصن وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز، وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن ( ح ص ن ) الحصن تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے جلد الجِلْد : قشر البدن، وجمعه جُلُود . قال اللہ تعالی: كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] ، وقوله تعالی: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] . والجُلُود عبارة عن الأبدان، والقلوب عن النفوس . وقوله عزّ وجل : حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] ، وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت/ 21] ، فقد قيل : الجلود هاهنا کناية عن الفروج «2» ، وجلَدَهُ : ضرب جلده، نحو : بطنه وظهره، أو ضربه بالجلد، نحو : عصاه إذا ضربه بالعصا، وقال تعالی: فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] . والجَلَد : الجلد المنزوع عن الحوار، وقد جَلُدَ جَلَداً فهو جَلْدٌ وجَلِيد، أي : قويّ ، وأصله لاکتساب الجلد قوّة، ويقال : ما له معقول ولا مَجْلُود أي : عقل وجَلَد . وأرض جَلْدَة تشبيها بذلک، وکذا ناقة جلدة، وجَلَّدْتُ كذا، أي : جعلت له جلدا . وفرس مُجَلَّد : لا يفزع من الضرب، وإنما هو تشبيه بالمجلّد الذي لا يلحقه من الضرب ألم، والجَلِيد : الصقیع، تشبيها بالجلد في الصلابة . ( ج ل د ) الجلد کے معنی بدن کی کھال کے ہیں اس کی جمع جلود آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها [ النساء/ 56] جب ان کی کھالیں گل ( اور جل ) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتاباً مُتَشابِهاً مَثانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللَّهِ [ الزمر/ 23] اور خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں ( یعنی ) کتاب ) جس کی آیتیں باہم ) ملتی جلتی ( ہیں ) اور دہرائی جاتی رہیں ) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے اس سے رونکتے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ان کے بدن اور دل نرم ( ہوکر ) کی یاد کی طرف ( متوجہ ) ہوجاتے ہیں ۔ میں جلود سے مراد ابدان اور قلوب سے مراد نفوس ہیں اور آیت کریمہ : ۔ حَتَّى إِذا ما جاؤُها شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِما کانُوا يَعْمَلُونَ [ فصلت/ 20] یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کان اور آنکھیں اور چمڑے ( یعنی دوسرے اعضا ) ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے چمڑوں ( یعنی اعظا ) سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف کیوں کیوں شہادت دی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ جلود سے فروج یعنی شرمگاہ ہیں مراد ہیں ۔ جلدۃ ( ض ) کیس کے چمڑے پر مارنا ۔ جیسے اور اس کے دوسرے معنی درے لگانا بھی آتے ہیں ۔ جیسے عصاہ ( یعنی لاٹھی کے ساتھ مارنا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمانِينَ جَلْدَةً [ النور/ 4] تو ان کے اسی اور سے مارو ۔ الجلد والجلد اونٹنی کے بچہ کی بھس بھری ہوئی کھال ۔ جلد ( ک ) جلدا کے معنی قوی ہونے کے ہیں صیغہ صفت جلدۃ وجلدۃ ہے اور اس کے اصل معنی اکتساب الجلدۃ قوۃ یعنی بدن میں قوت حاصل کرنے گے ہیں ۔ محاورہ ہے ؟ ۔ مالہ معقول ولا مجلود اس میں نہ عقل ہے نہ قوت ۔ اور تشبیہ کے طور پر سخت کو اوض جلدۃ کہا جاتا ہے اس طرح قوی اونٹنی کو ناقۃ جلدۃ کہتے ہیں ۔ جلذت کذا میں نے اس کی جلد باندھی ۔ فرس مجلہ مار سے نہ ڈرونے والا گھوڑا یہ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ مجلد اس شخص کو کہتے ہیں جسے مارنے سے دور نہ ہو الجلید پالا یخ گویا صلابت میں چمڑے کے متشابہ ۔ قبول ، وقَبِلْتُ عذره وتوبته وغیره، وتَقَبَّلْتُهُ كذلك . قال : وَلا يُقْبَلُ مِنْها عَدْلٌ [ البقرة/ 123] ، وَقابِلِ التَّوْبِ [ غافر/ 3] ، وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِهِ [ الشوری/ 25] . والتَّقَبُّلُ : قَبُولُ الشیء علی وجه يقتضي ثوابا کا لهديّة ونحوها . قال تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] ، وقوله : إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] ، تنبيه أن ليس كل عبادة مُتَقَبَّلَةً ، بل إنّما يتقبّل إذا کان علی وجه مخصوص . قال تعالی: اِنِّي نَذَرْتُ لَكَ ما فِي بَطْنِي مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] . وقیل للکفالة : قُبَالَةٌ فإنّ الکفالة هي أوكد تَقَبُّلٍ ، وقوله : فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] ، فباعتبار معنی الکفالة، وسمّي العهد المکتوب : قُبَالَةً ، وقوله : فَتَقَبَّلَها[ آل عمران/ 37] ، قيل : معناه قبلها، وقیل : معناه تكفّل بها، ويقول اللہ تعالی: كلّفتني أعظم کفالة في الحقیقة وإنما قيل : فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] ، ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرین : التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّي في القَبُولِ ، والقَبُولِ الذي يقتضي الرّضا والإثابة «1» . وقیل : القَبُولُ هو من قولهم : فلان عليه قبول : إذا أحبّه من رآه، قبلت عذ رہ وتوبتہ وغیر ہ وتقبلۃ میں نے اس کا عذر اور توبہ وغیرہ قبول کرلی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُقْبَلُ مِنْها عَدْلٌ [ البقرة/ 123] اور نہ اس سے بدلہ قبول کیا جائے ۔ وَقابِلِ التَّوْبِ [ غافر/ 3] اور توبہ قبول کرنے والا ۔ وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِهِ [ الشوری/ 25] اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی تو بہ قبول کرتا۔۔۔ ہے اور تقبل کے معنی کیس چیز کو اس طرح قبول کرنے کے میں کہ وہ عوض کی مقتضی ہو جیسے ہدیہ وغیرہ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ ما عَمِلُوا[ الأحقاف/ 16] یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے إِنَّما يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ [ المائدة/ 27] کہ خدا پرہیز گاروں کی نیاز قبول فرمایا کرتا ۔۔۔۔ ہے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ ہر عیادت قبول نہیں ہوتی بلکہ وہی قبول کی جاتی ہے جو مخصوص طریق سے ادا کی جائے ۔ فرمایا : ۔ مُحَرَّراً فَتَقَبَّلْ مِنِّي [ آل عمران/ 35] تو اسے میری طرف سے قبول فرما کفا لۃ کو قبالۃ کہا جاتا ہے کیونکہ کفا لۃ کے معنی مؤ کی طور پر کسی چیز کو قبول کرلینے کے ہیں تو آیت فتقبل منی میں کفالت کے معنی معتبر ہیں اور لکھے ہوئے عہد کو قبالۃ کہا جاتا ہے اور آیت کر یمہ : ۔ فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ [ آل عمران/ 37] پروردگار نے اسے پسند ید گی کے ساتھ قبول فرمایا : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تقبلھا کے ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنی تکلفھا کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے در حقیقت مجھے بہت بڑی کفالت کا ذمہ دار بنا دیا ہے اور پھر آیت کریمہ میں یتقبل کی بجائے بقبول حسن فرمایا ہے تاکہ اس میں دونوں امر جمع ہوجائیں یعنی تقبل جو قبولیت کا اعلٰی در جہ ہے اور قبول کرنا جو کہ رضا اور ثواب کا مقتضی ہوتا ہے ۔ بعض ہے کہ قبول کا لفظ فلان علیہ قبول کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی جو اسے دیکھتا ہے اس سے محبت کرتا ہے ابد قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء/ 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا . وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل : آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء . وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد . وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد : الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب . اب د ( الابد) :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے { خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔ فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره «3» ، وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

حد قذف کا بیان قول باری ہے۔ (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدو ھم ثما نین جلدۃ۔ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ان کو اسی کوڑے لگائو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ احصان کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم تو وہ ہے جس کے ساتھ زانی پر رجم کے وجوب کا تعلق ہوتا ہے وہ یہ کہ زانی آزاد، عاقل، بالغ اور مسلمان ہو نیز کسی عورت سے اس کا نکاح صحیح ہوگیا ہو اور دونوں کو خلوت صحیحہ بھی میسر آگئی ہو۔ دوسری قسم وہ احصان ہے جو تہمت لگانے والے پر حد قذف واجب کردیتا ہے اور وہ یہ کہ جس پر زنا کی تہمت لگائی گئی ہو وہ آزاد، عاقل، بالغ، عفیف اور مسلمان ہو۔ اس بارے میں فقہاء کے مابین ہمیں کسی اختلاف رائے کا علم نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ پاک دامن عورتوں کا ذکر کیا ہے جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت سے پاکباز مرد بھی مراد ہیں اور ایک عفیف اور محصن پر تہمت زنا لگانے والے پر اسی طرح حد قذص واجب ہوجاتی ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ قول باری (والذین یرمون المحصنات) میں تہمت سے تہمت زنا مراد ہے اگرچہ آیت کے الفاظ کے پس منظر میں اس پر غیر منصوص دلالت بھی موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ جب آیت میں محصنات یعنی پاک دامن عورتوں کا ذکر ہا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ان پر تہمت لگانے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی پاک دامنی پر تہمت لگائی جائے۔ اور پاک دامن پر تہمت لگانے کے معنی ہیں کہ ان پر زنا کی تہمت لگائی جائے۔ آیت کے الفاظ کی دلالت کے پس منظر میں اور وجہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ قول باری ہے : (ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء) یعنی اپنی تہمت کی صداقت کے حق میں چار گواہ پیش نہ کرسکے۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ گواہوں کی یہ تعداد زنا کے جرم کی گواہی میں ضروری ہے۔ اس گواہی کے لئے یہ تعداد شرط ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ قول باری (والذین یرمون المحصنات) میں زنا کی تہمت مراد ہے۔ یہ بات ایک اور چیز پر بھی دلالت کرتی ہے۔ وہ یہ کہ جس قذف یعنی تہمت کی بنا پر حد قذف واجب ہوتی ہے وہ صریح الفاظ میں زنا کی تہمت ہے تہمت کی یہی وہ صورت ہے کہ اگر اس پر چار گواہ پیش کیے جائیں گے تو تہمت زدہ شخص پر حد جاری کی جائے گی۔ اگر فحوائے لفظ میں اس پر دلالت نہ ہوتی تو رمی یعنی تہمت کا لفظ زنا کے ساتھ خاص نہ ہوتا۔ اس کا تعلق تہمت کی دوسری صورتوں مثلاً چوری کی تہمت یا کفر یا شراب نوشی کی تہمت نیز دوسرے ممنوعہ افعال کی تہمت کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں لفظ اپنے حکم کے ایجاب میں خود کفیل نہ ہوتا بلکہ مجمل ہونے کی بنا پر اسے بیان اور تفصیل کی ضرورت ہوتی اور اس کے حکم کا ایجاب اسی بیان وتفصیل پر موقوف ہوتا۔ بہرحال جو بھی شکل ہوتی یہاں تو بالاتفاق زنا کی تہمت مراد ہے۔ جب اتفاق کی یہ صورت ہے تو قول باری اپنے مفہوم کے لحاظ سے کچھ اس طرح ہے۔” اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں۔ “ کیونکہ اتفاق کے حصوں کی حیثیت یہ ہے کہ گویا الفاظ میں بھی یہ مذکور ہے اس سے بات ضروری ہوگئی کہ حدقذف کا وجوب صرف زنا کی تہمت تک محدود رہے۔ کسی اور تہمت کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو ۔ اگر کوئی شخص صریح الفاظ میں کسی پر زنا کی تہمت نہیں لگاتا بلکہ تعریفیں اور اشارے کنائے میں یہ بات کرتا ہے تو اس کے حکم کے متعلق فقہاء نیز سلف میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، اماز زفر ، امام محمد، ابن شہرمہ، سفیان ثوری حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ زنا کی تعریض کی بنا پر حد قذف واجب نہیں ہوئی امام مالک کا قول ہے کہ اس صورت میں بھی اس پر حدواجب ہوتی ہے۔ اوزاعی نے زہری سے، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) زنا کی تعریضاً تہمت لگانے پر بھی حد قذف جاری کردیتے تھے۔ ابن وہب نے امام مالک سے، انہوں نے ابوالرجال سے ، انہوں نے اپنی والدہ عمرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں خلافت میں دو شخص ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ پر اتر آئے، ایک نے دوسرے سے کہا۔ ” بخدا ! میرا بات زانی نہیں تھا اور نہ ہی میری ماں زانیہ تھی۔ “ جب یہ معاملہ حضرت عمر (رض) کے پاس پہنچا تو آپ نے اس فقرے کے متعلق لوگوں کی رائے معلوم کی، ایک نے کہا کہ اس شخص نے اپنے اس فقرے کے ذریعے اپنے والدین کی تعریف کی ہے۔ دوسرے لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے والدین کی اس کے سوا کوئی اور تعریف بھی تو کرسکتا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عمر (رض) کو مشورہ دیا کہ اسے قذف کی حدلگنی چاہیے چناچہ حضرت عمر (رض) نے اسے اسی کوڑے لگوائے ۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اس بارے میں جن لوگوں کی رائے معلوم کی تھی وہ سب کے سب صحابہ کرام (رض) ہی ہوں گے جن کا اس بارے میں اختلاف قابل تسلیم ہے۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سلف کے مابین اس بارے میں اختلاف رائے سے پھر جب یہ بات ثابت ہے کہ آیت میں تہمت سے تہمت زنا ہے تو اب ہمارے لئے تہمت زنا کے سوا کسی اور تہمت پر حدواجب کرنا جائز نہیں رہا۔ کیونکہ حدود کے اثبات میں قیاس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ان کے اثبات کا طریقہ تو صرف یہ ہے کہ اس پر امت کا اتفاق ہوچکا ہو یا پھر شریعت کی طرف سے اس بارے میں رہنمائی کردی گئی ہو جسے توقیف کہتے ہیں۔ یہ بات تعریضاً زنا کی تہمت کی صورت میں معدوم ہے۔ حضرت عمر (رض) کا تعریض کے متعلق دوسرے لوگوں سے مشورہ لینا اور ان کی رائے معلوم کرنا خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی شرعی دلیل یا رہنمائی یعنی توقیف موجود نہیں تھی اور جس شخص نے جو بھی رائے دی اس نے اپنے اجتہاد اور سمجھ بوجھ کے مطابق دی۔ نیز تعریض کی حیثیت اس کنایہ جیسی ہوتی ہے جس میں کئی معانی کا احتمال ہوتا ہے ۔ اور احتمال کی بنا پر حد واجب کردینا جائز نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اصل کے اعتبار سے تعریفیں کا فقرہ کہنے والا شخص حد سے بری ہوتا ہے ہم اسے شک کی بنا پر کوڑے نہیں لگا سکتے جبکہ ایسا فقرہ جس میں کئی احتمالات ہوں شکوک کے درجے میں ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یزید بن رکانہ (رض) نے سبب اپنی بیوی کو بتۃ کے لفظ سے طلاق دی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے یہ حلف لیا کہ میں نے صرف ایک طلاق کی نیت کی ہے۔ آپ نے احتمال کی بنا پر تین طلاق ان پر لازم نہیں کیں۔ اسی لئے فقہاء کا قول ہے کہ طلاق کنایات میں دلالت کئے بغیر کنایہ کو طلاق قرار نہیں دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ درج بالا روایت میں طلاق کے سلسلے میں مذکور لفظ کا تعلق بھی طلاق کنایہ سے ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (ادروا الحد ود بالشبھات، شبہات کی بنا پر حدود کو ہٹا دیا کرو) تعریض کی کم سے کم صورت جبکہ اس میں تہمت اور غیر تہمت دونوں کا احتمال ہو یہ ہے کہ وہ حد کے سقوط کے لئے شبہ کا کام دے جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران تعریضاً پیغام نکاح دینے اور صریحاً ایسا کرنے کے حکم میں فرق رکھا ہے چناچہ ارشاد ہے۔ (ولا جناح علیکم فیما عرضتم بہ من خطبۃ النکاح او اکننتم فی انفسکم عا اللہ انکم ستذکرو نھن ولکن لا تواعدو ھن سرا۔ زمانہ عدت میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا اشارہ کنائے میں ظاہر کرو ، خواہ دل میں چھپا کے رکھو دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تو تمہارے دل میں آئے گا ہی۔ مگر خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا) یعنی تم ان سے نکاح کرنے کا خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے تعریض نکاح کو دل میں چھپائے ہوئے نکاح کے خیال جیسا قرار دیا۔ قذف میں تعریض کا بھی یہی حکم ہونا ضروری ہے۔ ان دونوں میں مشترکہ بات یہ ہے کہ تعریض میں بھی چونکہ احتمال ہوتا ہے اس لئے احتمال کے وجود کی بنا پر اسے دل میں چھپائے ہوئے خیال کی مانند قرار دیا گیا۔ غلام کی حد قذف غلام کی حد قذف کے مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف امام محمد، امام مالک، زفر ، عثمان البتی، امام شافعی اور سفیان ثوری سب کا قول ہے کہ اگر غلام کسی آزاد کو قذف کرے گا تو اسے چالیس کوڑے لگیں گے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اسی کوڑے لگیں گے، سفیان ثوری نے جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت علی (رض) نے قذف میں غلام کو چالیس کوڑے لگانے کا حکم دیا تھا۔ سفیان ثوری نے ابن ذکوان سے، انہوں نے عبداللہ بن عامر بن ربعیہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) اور ان کے بعد کے خلفاء کا زمانہ دیکھا ہے ۔ میں نے سب کو یہی دیکھا کہ وہ غلام کو حد قذف میں چالیس کوڑے لگاتے تھے، ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) ، سالم، سعید بن المسیب اور عطا کا بھی یہی مسلک ہے۔ لیث بن سلیم نے القاسم بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک غلام کے متعلق جس نے کسی آزاد پر زنا کی تہمت لگائی تھی، اسی کوڑے لگانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ ابوالزناد کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حد قذف میں ایک غلاک کو اسی کوڑے لگوائے تھے۔ تاہم سلف کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حد زنا میں غلام کو پچاس کوڑے لگیں گے جو آزاد غیر محصن زانی کی سزا کا نصف ہے۔ یہ تخفیف غلامی کی بنا پر ہے۔ ارشاد باری ہے (ناذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنات من العذاب۔ پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہوجائیں اور اس کے بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدمی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنات) کے لئے مقرر ہے) اس آیت میں لونڈی کی حد کا حکم منصوص طریقے سے بیان کردیا نیز یہ بتادیا کہ آزاد عورت کے لئے مقرر کردہ سزا کا نصف لونڈی کی سزا ہوگی۔ دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلامی کی مشترک علت کی بنا پر غلام کا حکم بھی لونڈی جیسا ہے۔ اس لئے غلامی کی وجہ مشترک کی بنا پر غلام کی حد قذف آزاد آدمی کو لگنے والی حد قذف کا نصف ہونی چاہیے۔ دیوانے یا بچے پر قذف کے بارے میں آراء ائمہ اگر کوئی شخص کسی دیوانے یا بچے پر زنا کی تہمت لگائے تو ایسے شخص کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے رفقاء حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایسے شخص کو حدقذف نہیں لگے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ بچے پر زنا کی تہمت لگانے والے کو حد نہیں لگے گی۔ اگر وہ بالغ نہ ہوچکا ہو خواہ اس جیسا بچہ جماع کی قدرت کیوں نہ رکھتا ہو۔ اگر کسی ایسی بچی پر کسی نے زنا کی تہمت لگادی ہو جس کیساتھ ہم بستری کی جاسکتی ہو تو قاذف کو حد لگے گی خواہ بچی کو ابھی حیض نہ بھی آیا ہو۔ دیوانے پر زنا کی تہمت لگانے والے کو حد لگے گی۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ دیوانے کے قاذف کو حد لگے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ دیوانہ ، بچہ اور بچی سے زنا کا صدور نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کا جماع زنا نہیں کہلا سکتا۔ زنا ایک مذموم فعل ہے جس پر ایک شخص عتاب کا سزاوار ہوتا ہے۔ اور یہ تینوں افراد مرفوع القلم ہونے کی وجہ سے اپنے افعال مذمومہ پر عتاب کے مستحق قرار نہیں پاتے اس لئے ان پر زنا کی تہمت لگانے والا دیوانے پر تہمت لگانے والے کی طرح ہے کیونکہ ایسے قاذف کے جھوٹ کا سب کو علم ہوتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ایسے افراد سے یہ فعل سرزد ہو بھی جائے تو اس کی وجہ سے انہیں کسی بدنمائی اور شرمندگی کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ اسی طرح اگر کسی نے ان پر اس فعل قبیح کی تہمت لگادی تو بھی انہیں کسی بدنمائی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔ حد کے نفاذ کا مطالبہ اس شخص کا حق ہے جس پر تہمت زنا لگائی گئی ہو اس بارے میں کسی شخص کا اس کے قائم مقام ہوناجائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس معاملے میں وکالت ونیابت قابل قبول ہوتی ہے۔ جب یہ بات اس طرح ہے تو قذف کے وقت حد کے نفاذ کا ماطلبہ کسی پر واجب نہیں ہوتا ۔ اس لئے حد بھی واجب نہیں ہوئی۔ اس لئے کہ حد جب واجب ہوتی ہے تو قذف کی بنا پر واجب ہوتی ہے کسی اور وجہ سے واجب نہیں ہوتی۔ اگر یہاں یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ کسی شخص پر اگر اس کی موت کے بعدزنا کی تہمت لگائی جاتے تو اس کے بیٹے کو حق حاصل ہوتا ہے کہ حد قذف میں قاذف کو پکڑوا دے۔ اسی طرح دوسرے کی طرف سے حد قذف کا مطالبہ کرنا جائز ہونا چاہیے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ درج بالا صورت میں بیٹا دراصل اپنی ذات کی طرف سے حد قذف کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے کہ اس قذف کی وجہ سے اس کی نسب کے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وہ گویا باپ کی طرف سے حد کا مطالبہ نہیں کرتا۔ نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ بچے کے قاذف پر حد قذف جاری نہیں ہوگی تو بچی کے قاذف کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے اس لئے کہ یہ دونوں اہل تکلیف میں سے نہیں ہیں۔ اور ان سے زنا کا صدور درست نہیں ہوتا۔ اس علت کی بنا پر دیوانے کے قاذف کا بھی یہی حکم ہوگا۔ اگر کوئی شخص پورے ایک گروہ پر زنا کی تہمت لگاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس بارے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، امام مالک، سفیان ثوری اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر اس نے ایک فقرے کے ذریعے سب پر زنا کی تہمت لگاء ہے تو اس پر صرف ایک حد واجب ہوگی۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اگر اس نے پوری جماعت کو ” یا زناۃ “ (اے زنا کارو) کہا تو اس پر ایک حد واجب ہوگی لیکن اگر اس نے ہر فرد کو ” یا زانی “ کہہ کر پکارا ہو تو اس پر ہر فرد کے بدلے ایک حدواجب ہوگی۔ شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر اس نے پوری جماعت پر زنا کی تہمت لگائی ہے تو اس پر اس جماعت کا ہر فرد کے بدلے ایک حدواجب ہوگی۔ اگر اس نے ایک شخص سے یہ کہا ” زنیت بقلانۃ “ (تونے فلاں عورت کے ساتھ زنا کیا ہے) تو اس پر ایک حدواجب ہوگی اس لئے کہ حضرت عمر (رض) نے ابوبکر (رض) اور ان کے ساتھیوں پر ایک حد جاری کی تھی اور عورت کی طرف سے دوسری حد جاری نہیں کی تھی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر وہ کسی سے یہ کہے ” یازانی بن زان (اے زانی کے بیٹے زانی) تو اس پر دو حد واجب ہوگی۔ اگر وہ پورے گروہ کو ” یازناۃ “ کہے تو اس پر ایک حد واجب ہوگی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر وہ یہ کہے جو شخص اس گھر میں داخل ہے وہ زانی ہے۔ “ تو اس پر اس گھر میں داخل تمام افراد کے بدلے حد واجب ہوگی بشرطیکہ افراد کوا س قذف کی اطلاع ہو۔ المزنی کی روایت کے مطابق امام شافعی کا قول ہے کہ اگر وہ پورے گروہ کو ایک فقرے کے ذریعے قذف کرے گا تو اس پر ہر فرد کے بدلے ایک حدواجب ہوگی ۔ اگر وہ ایک شخص کو ” یا ابن الزنیان (اے دو زانیوں کے بیٹے) کہہ کر پکارے گا تو اس پر دو حدود واجب ہوں گی۔ ” احکام القرآن “ میں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی پر کسی مرد کے ساتھ زنا کی تہمت لگائے گا تو لعان کرے گا اور اس مرد کے بدلے سے حد نہیں لگائی جائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ارشاد باری ہے (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ) یہ بات واضح ہے کہ آیت میں مراد یہ ہے کہ تہمت لگانے والوں میں سے ہر ایک کو اسی اسی کوڑے لگائے جائیں۔ گویا آیت کی عبارت اس طرح ہے۔ ( ” ومن رھی محصنا فعلیہ ثمانون جلدۃ “ جو شخص کسی محصن پر زنا کی تہمت لگائے گا اسے اسی کوڑے لگیں گے) یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ محصنات کی جماعت پر زنا کی تہمت لگانے والے کو اسی سے زائد کوڑے نہ ماریں جائیں۔ جو شخص محصنات کی جماعت کے قاذف پر اسی سے زائدکوڑے یعنی ایک سے زائد حد واجب کرے گا وہ آیت کے حکم کی مخالفت کا مرتکب ٹھرے گا۔ اس پر سنت کی جہت سے بھی دلالت ہورہی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں محمد بن بشار نے، انہیں ابن ابی عدی نے، انہیں ہشام بن حسان نے ، انہیں عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ ہلال (رض) بن امیہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ زناکاری کی تہمت لگائی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : ” ثبوت یعنی گواہ کرو ورنہ اپنی پشت پر کوڑے کھائو۔ “ ہلال نے عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، جب ہم سے کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو منہ کالا کرتے ہوئے دیکھ لے تو کیا اس وقت وہ ثبوت یعنی گواہ تلاش کرنے میں لگ جائے ؟ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے جواب میں یہی فرماتے رہے کہ گواہ لائو ورنہ خدا کے لئے اپنی پیٹھ دکھائو۔ اس پر ہلال (رض) نے عرض کیا ” قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں، اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ضرور کوئی حکم نازل کرے گا جو میری پشت کو کوڑوں سے بری کردے گا۔ “ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم۔ جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنی ذات کے سوا اور کوئی گواہ نہیں ہوتے۔۔ ) حضرت ابن عباس (رض) نے حدیث کا بقیہ حصہ بھی بیان کیا۔ محمد بن کثیر نے روایت کی، انہیں مخلدین الحسین نے ہشام سے ، انہوں نے ابن سیرین سے انہوں نے حضرت انس سے کہ ہلال (رض) بن امیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگائی ۔ یہ معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال (رض) کو چار گواہ پیش کرنے کا حکم دیا ورنہ اپنی پشت پر حد کے کوڑے کھائو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات کئی دفعہ فرمائی۔ اس موقع پر لعان کی آیت نازل ہوئی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری (والذین یرمون المحصنات) میں سب کے لئے عام حکم تھا اس میں بیویاں بھی شامل تھیں اور دوسری عورتیں بھی۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہلال (رض) بن امیہ سے چار گواہ پیش کرنے یا حد قذف میں پیٹھ پر کوڑے کھانے کا حکم دیا تھا۔ نیز آیت کا عموم بھی اس بات کا مقتضی تھا۔ پھر ہلال (رض) نے اگرچہ اس تہمت میں دو افراد کو ملوث کیا تھا ایک اپنی بیوی اور دوسرے شریک بن سمحاء کو، لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر صرف ایک ہی حدواجب کی تھی، حتیٰ کہ آیت لعان کا نزول ہوگیا اور اس طرح بیویوں کو قذف کرنے کی صورت میں لعان، اجنبی عورتوں کے قذف میں حد کے قائم مقام بن گیا لیکن پوری ایک جماعت کو قذف کرنے کی صورت میں ایک حد کا وجوب منسوخ نہیں ہوا جو دراصل اس روایت کا موجب اور سبب تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جماعت کو قذف کرنے والے پر ایک ہی حد واجب ہوتی ہے۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہورہی ہے۔ وہ یہ کہ اگر حد کو واجب کرنے والے تمام اسباب ایک شخص کی ذات سے کئی مرتبہ وقوع پذیر ہوں تو اس صورت میں اس پر صرف ایک ہی حد واجب ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کئی دفعہ زنا کرے یا کئی دفعہ چوری کرے یا کئی دفعہ شراب نوشی کرے تو اس پر صرف ایک حد واجب ہوگی۔ اس طرح ایک جنس کے حدودکا اجتماع بعض کے سقوط کا موجب بن جاتا ہے اور صرف ایک حد پر اقتصار کرلیا جاتا ہے۔ حد قذف اور مذکورہ بالا حدود میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ سب حدود ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان سب میں مشترک چیزیہ ہے کہ شبہ کی بنا پر ان کا سقوط ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حد قذف انسان کا حق ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی شخص ایک جماعت کو قذف کرے تو اس میں شامل ہر فرد کو علیحدہ علیحدہ اپنا حق وصول کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب تک تہمت زدہ انسان یعنی مقذوف کی طرف سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک قاذف کو حد نہیں لگے گی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حد قذف بھی زنا، چوری اور شراب نوشی میں واجب ہونے والے دوسرے تمام حدود کی طرح اللہ کا حق ہے۔ صرف اس کا مطالبہ کرنا آدمی کا حق ہوتا ہے۔ نفس حد ا آدمی کا حق نہیں ہوتا۔ آدمی کو اس حد کے مطالبہ کا حق حاصل ہونا اس بات کا موجب نہیں ہے کہ خود حد بھی آدمی کا حق بن جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حد سرقہ کا ثبوت کسی آدمی کے مطالبہ پر ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قطع ید بھی آدمی کا حق بن جائے۔ یہی صورت حال حد قذف کی بھی ہے۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے حد قذف کو معاف کرنے اور اسے وراثت میں منتقل کردینے کی اجازت نہیں دی ہے۔ یہ حد اللہ کا حق ہے اس پر ایک مسئلے میں سب کا اتفاق دلالت کرتا ہے وہ مسئلہ یہ ہے کہ غلام کو حد قذف کے چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔ اگر یہ حد کسی آدمی کا حق ہوتی تو صرف اس بنا پر آزاد اور غلام کے حکم میں فرق نہ ہوتا کہ کوڑوں کی تعداد کو نصف کرنا ممکن ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ انسانوں کے خلاف کیے گئے جرائم میں آزاد اور غلام دونوں کا حکم یکساں ہوتا ہے۔ اگر غلام کسی کو قتل کرے گا تو اس کی گردن پر خون ثابت ہوجائے گا اگر اس نے عمداً اس کا ارتکاب کیا ہوگا تو اس کی گردن اڑادی جائے گی۔ اگر اس نے خطاء ایسا کیا ہوگا تو اس پر دیت واجب ہوجائے گی۔ یہی صورت آزاد کے ارتکاب قتل کی بھی ہے کہ قتل عمد میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ اور قتل خطائیں اس پر دیت واجب ہوجائے گی۔ اگر حد قذف کسی آدمی کا حق ہوتی تو اس کی تنصیف کے امکان کے باوجودآزاد اور غلام کی حد میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ اسی طرح لوگوں کے اموال ضائع کرنے کی بنا پر عائد ہونے والے حکم تاوان میں آزاد اور غلام کے مابین یکسانیت ہوتی ہے جو تاوان ایک آزاد پر عائد ہوگا وہی غلام پر بھی عائد ہوجائے گا۔ اگر تہمت زدہ انسان یعنی مقذوف کی طرف سے حد جاری کرنے کا مطالبہ نہ کیا جائے تو کیا ایسی صورت میں حد ہماری کی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، امام شافعی اور اوزاعی کا قول ہے کہ مقذوف کے مطالبہ پر ہی حد جاری ہوگی۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اگر مقذوف کی طرف سے استغاثہ نہ بھی ہو امام یعنی حکومت کی طرف سے قاذف کو حد کی سزا دی جائے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب تک مقذوف کی طرف سے حد کا مطالبہ نہیں ہوگا اس وقت تک امام یعنی سٹیٹ حد جاری نہیں کرے گا۔ البتہ اگر امام المسلمین نے خود اسے قذف کرتے ہوئے سن لیا ہو تو دوسرے عادل گواہوں کے وجود کی صورت میں وہ اس پر حد جاری کرے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں سلیمان بن دائود المہری نے، انہیں ابن وہب نے، انہیں ابن جریج نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (تعافو الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حدفقد وجب۔ آپس میں ایک دوسرے پر واجب ہونے والی حد کو معاف کرتے رہو۔ جس حد کی خبر مجھ تک پہنچ جائے گی وہ واجب ہوجائے گی۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس حد کی خبر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ جاتی آپ اسے نظر نہیں کرسکتے تھے۔ بلکہ اسے نافذ کردیتے۔ جب آپ نے ہلال (رض) بن امیہ کو اپنی بیوی پر شریک بن سمحا کے ساتھ زنا کاری کی تہمت لگانے کی بنا پر فرمایا کہ یا تو چار گواہ لے آئو یا پھر کوڑوں کے لئے اپنی پیٹھ کھول دو ، پھر انہوں نے نہ گواہ پیش کیے اور نہ ہی ان پر حد قذف جاری ہوئی کیونکہ مقذوف یعنی شریک بن سمحا ، نے حد جاری کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، تو اس پوری صورت حال سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مقذوف کی طرف سے مطالبہ کے بغیر حد قذف جاری نہیں ہوگی۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو حضرت زید بن خالد (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے مزدور زانی کے واقعہ کے سلسلے میں روای کی ہے۔ زانی کے باپ نے بیان دیا تھا کہ میرے بیٹے نے اس شخص (بیٹے کو مزور رکھنے والے) کی بیوی کے ساتھ بدکاری کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک عورت پر زنا کی تہمت لگانے کے باوجود اس پر حد قذف جاری نہیں کی بلکہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا :” انیس، اس شخص کی بیوی کے پاس جائو، اگر اس کی بیوی زنا کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کردو۔ حد قذف چونکہ اس وجہ سے واجب ہوتی ہے کہ قذف کی بنا پر مقذوف کی عزت پر اس جہت سے حرف آتا ہے کہ پاکدامنی کے باوجودا سے زنا کے الزام میں ملوث کردیا جاتا ہے اس لئے اس حد کا مطالبہ بھی اس کا حق ہونا چاہیے نہ کہ امام یا حکومت کا جس طرح حد سرقہ اس بنا پر واجب ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے مال مسروقہ کے مالک کی محفوظ جگہ یعنی حرز کی بےحرمتی کرکے اس کے مال پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اس لئے جب تک مال مسروقہ کے مالک کی طرف سے مطالبہ نہیں ہوگا اس وقت تک حد کا ثبوت نہیں ہوگا۔ امام مالک کا یہ قول بےمعنی ہے کہ اگر امام المسلمین خود قاذف کو قذف کرتے ہوئے سن لے اور اس کے ساتھ عادل گواہ بھی ہوں تو اس صورت میں وہ اس پر حد جاری کرے گا اس لئے کہ اگر اس صورت میں مقذوف کی طرف سے مطالبہ کے بغیر امام المسلمین کو حد جاری کرنے کا حق حاصل ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ امام المسلمین کے سماع مع الشہودا اور عدم سماع کے لحاظ سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہ ہو۔ قاذف کی گواہی کا بیان قول باری ہے (ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا واولئک ھم لقاسقون۔ اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قاذف اگر اپنے قذف پر چار گواہ پیش نہ کرے تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے اس پر تین احکام لگائے ہیں ۔ ایک تو اسی کوڑوں کا حکم ، دوسرا اس کی گواہی کے بطلان کا حکم اور تیسرا اس کے فسق کا حکم یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے۔ اہل علم کا اس پر تو اتفاق ہے کہ قاذف اگر کسی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے اور پھر چار گواہ پیش نہیں کرسکتا تو نفس قذف کے ساتھ ہی اس پر حد قذف واجب ہوجائے گی۔ تاہم ان کے درمیان ایسے شخص پر درج بالا احکام کے لزوم اور قذف کی بنا پر ان کے ثبوت کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات تو اس بات کے قائل ہیں کہ اس پر حد قذف جاری ہونے سے پہلے ہی اس کی گواہی باطل اور اس پر فسق کا داغ چسپاں ہوجائے گا ۔ لیث بن سعد اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر اور امام مالک کا قول ہے کہ جب تک اس پر حد جاری نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ ان کے اس قول کا تقاضا ہے کہ جب تک اس پر حد جاری نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر فسق کا نشان چسپاں نہیں ہوگا اس لئے کہ اگر اس پر یہ علامت چسپاں ہوجاتی تو اس کی گواہی بھی قابل قبول نہ ہوتی۔ کیونکہ فسق کا داغ ایسے شخص کی گواہی کو باطل کردیتا ہے۔ اگر اس کا فسق فعلی ہو اعتقادی اور دینی نہ ہو۔ اس قول کی صحت کی دلیل یہ آیت ہے۔ (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا بادبعۃ شھدآء فاجلدو ھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا) آیت نے قاذف کے قذف پر اس کی طرف سے گواہی پیش نہ کرسکنے کی صورت میں اس کی گواہی کے بطلان کا حکم واجب کردیا۔ اس میں دو طرح سے اس بات پر دلالت موجود ہے کہ جب تک اس پر حد جاری نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی گواہی جائز اور اس کی عدالت قائم رہے گی۔ پہلی دلالت اس قول باری میں ہے (ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء) حرف ثم لغت کے لحاظ سے تراخی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ قذف کرنے کے بعد ٹھہر کر جب قاذف گواہ پیش کرے گا تو وہ نفس قذف کے ساتھ فاسق گرداتا نہیں جائے گا۔ اس لئے کہ ارشاد باری ہے (ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء) اس طرح آیت کی عبارت اس طرح ہوگی۔ ” ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاولئک ھم الفاسقون “ (پھر وہ چار گواہ پیش نہ کریں تو یہی لوگ فاسق ہیں) اللہ تعالیٰ نے ان پر فسق کا حکم قذف کے وقت سے متاخر کرکے اس صورت میں عائد کیا جب وہ چار گواہ پیش کرنے سے عاجز رہیں۔ اس لئے جو حضرات نفس قذف کے ساتھ ان پر فسق کا حکم عائد کردیتے ہیں وہ آیت کے حکم کی مخالفت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ قذف کی بنا پر قاذف کی گواہی رد نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نفس قذف سے قاذف کی گواہی باطل ہیں ہوتی۔ نیز اگر نفس قذف کی بنا پر قاذف کی گواہی باطل ہوجاتی تو پھر مقذوف کی زنا کاری پر قاذف کی طرف سے گواہی قائم نہ کرنا اس کی گواہی کو باطل نہ کرتا کیونکہ اس کی گواہی اس سے پہلے ہی باطل ہوچکی ہے۔ ایک اور وجہ سے بھی ہماری بات درست ہے وہ یہ کہ آیت کے لفظ سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ قاذف کی گواہی اس وقت تک باطل قرار نہ دی جائے جب تک تہمت زنا پر اس کی طرف سے گواہی قائم کرنا ممکن ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی سے کہے ” انت طالق ان کلمت فلانا ثم لم تدخلی الدار “ (اگر تم فلاں شخص سے کلام کرو اور پھر گھر میں داخل نہ ہو تو تم پر طلاق) تو اس صورت میں اگر وہ فلاں شخص سے بات کرے اور پھر اس ھگر میں اپنی موت تک داخلہ چھوڑے رکھے تو اسے طلاق نہیں ہوگی۔ البتہ موت سے قبل جاکر اسے طلاق ہوگی اور اس کی موت اور طلاق میں فاصلہ نہیں ہوگا۔ اگر وہ اپنی بیوی سے یہ کہتا ” انت طالق ان کلمت فلانا ولم تدخلی الدار “ (اگر تم فلاں شخص سے گفتگو کرو اور گھر میں داخل نہ ہو تو تم پر طلاق) تو اس کا بھی یہی حکم ہوتا۔ اس صورت میں کلام کرنا اور موت تک گھر میں داخل نہ ہونا طلاق واقع ہونے کی شرط ہوتا۔ شوہر کے قول انت طالق ان کلمت خلانا ثم دخلت المداد “ (اگر تم فلاں شخص سے کلام کرو اور پھر گھر میں داخل ہوجائو تو تم پر طلاق) اور اس کے اس قول ” ان کلمت فلانا ثم لم تدخلیھا “ (اگر تم فلاں شخص سے کلام کرو اور پھر گھر میں داخل نہ ہو) کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگرچہ دونوںں فقروں میں اس جہت سے فرق ہے کہ ایک میں داخلہ کا وجود اور دوسرے میں داخلہ کی نفی قسم کی شرط ہے جب یہ بات اس طرح ہے اور دوسری طرف قول باری (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوابا باربعۃ شھدآء) قاذف کی گواہی کے بطلان کے لئے دو شرطوں کا مقتضی ہے۔ ایک شرط تہمت زنا ہے اور دوسری مقذوف کی زنا کاری پر گواہوں کا عدم وجود جو قذف کے وقت سے متراخی ہو یعنی اس میں تاخر زمانی پایا جائے اور اس تاخر زمانی میں اسے گواہی ہاتھ نہ آسکے۔ تو جب تک مقذوف کی زنا کاری پر قاذف کے لئے گواہی قائم کرنا ممکن ہوگا اس وقت تک آیت کے الفاظ کا مقتضیٰ یہ رہے گا کہ قاذف کو اس کی اصل حالت پر برقرار رہنے دیا جائے یعنی اس کی گواہی کے بطلان کا حکم نہ لگایا جائے۔ نیز قاذف پر نفس قذف کے ساتھ ہی یا تو جھوٹ کا حکم لگادیا جائے اور اس کی گواہی کے بطلان کا فیصلہ کرلیا جائے یا اس پر حد قذف جاری ہونے پر اسے جھوٹا قرار دیاجائے۔ اگر نفس قذف کے ساتھ ہی اس پر جھوٹ کا حکم لگادیاجائے اور اسی بنا پر اس کی گواہی باطل قرار دی جائے تو اس صورت میں پھر یہ ضروری ہوگا کہ مقذوف کی زناکاری پر اس کے پیش کیے ہوئے ثبوت کو تسلیم نہ کیا جائے اس لئے کہ اس پر جھوٹ کا حکم پہلے ہی لگ چکا ہے۔ قذف کے سلسلے میں اس پر جھوٹ کا حکم دراصل ان لوگوں کی گواہی کے بطلان کا حکم ہے جو قاذف کی سچائی پر اس صورت میں گواہی دیں کہ مقذوف واقعی زناکار ہے۔ جب فقہاء کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ مقذوف کے خلاف قاذف کی طرف سے اس کی زنا کاری پر مہیا کردہ ثبوت یعنی گواہی وغیرہ قابل قبول ہے۔ اور یہ چیز قاذف سے حد قذف کو ساقطہ کردیتی ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ک قاذف کا قذف اس کے کاذب ہونے کو لازم نہیں کرتا۔ اس لئے اس کی گواہی کا باطل نہ ہونا بھی واجب ہوگیا کیونکہ اس پر کذب کا حکم ثابت نہ ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی زبان سے ہم کوئی ایسی خبر سنیں جس کے سچ یا جھوٹ ہونے کا ہمیں کوئی علم نہ ہو تو اس خبر کی بنا پر ایسے شخص کی گواہی باطل قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے تو نفس قذف کی بنا پر اس کی گواہی باطل نہیں ہوتی۔ نہ ہی اس پر کذب کا حکم لگادیاجاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کے ایجاب کا کوئی جواز باقی نہ رہتا۔ نہ ہی اسے یہ حکم دیا جاتا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے کہ اس نے اپنی بیوی پر زنا کی جو تہمت لگائی ہے اس میں وہ سچا ہے جبکہ اس پر کذب کا حکم لگ چکا ہو ۔ نہ ہی میاں بیوی دونوں میں سے کاذب کو ترک لعان کی نصیحت کی جاتی۔ اور نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میاں بیوی کے درمیان لعان کرانے کے بعد یہ فرماتے ۔ ” اللہ کو علم ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے آیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے کے لئے تیار ہوگا۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ ان دونوں میں سے ایک غیر معین فرد ضرور جھوٹا ہے۔ آپ نے مرد یعنی قاذف کو جھوٹا قرار نہیں دیا اور نہ ہی بیوی کی صداقت کا حکم صادر فرمایا۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ نفس قذف قاذف کو فاسق قراردینے کا موجب ہیں بنتا۔ اور نہ ہی قاذف کی تکذیب کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (لولا جائو علیہ باربعۃ شھدآء فاذلم یاتوالالشھدآء فاولئک عند اللہ ھم اکاذبون۔ انہوں نے اس تہمت پر چار گواہ کیوں نہیں پیش کیے ۔ جب انہوں نے گواہ نہیں پیش کیے تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں) اللہ تعالیٰ نے نفس قذف پر ان کے کذب کا حکم نہیں لگایا بلکہ یہ حکم اس وقت لگا جب وہ چار گواہ پیش نہ کرسکے۔ یہ بات تو واضح ہے تو یہاں مراد یہ ہے کہ وہ قذف کے مقدمے کے دوران گواہی پیش نہ کرسکے۔ اس لئے مذکور شرط کے وجود سے پہلے قاذف کی گواہی کو باطل قرار دینا جائز نہیں ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ امام المسلمین کی عدالت میں حد قذف کا مقدمہ پیش ہونے کے بعد قاذف ثبوت یعنی گواہی وغیرہ پیش کرنے سے عاجز رہے۔ کیونکہ گواہ اپنی گواہیاں امام کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ اس لئے جو شخص نفس قذف پر قاذف کو فاسق قرار دے کر اس کی شہادت کو باطل کردیتا ہے وہ آیت کی مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمادیا (کم لا اذ سمعت لا ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے) تو یہ قول باری اس پر دال ہوگیا کہ لوگوں کے ذمہ یہ بات ہے کہ جب وہ کسی کو کسی پر زنا کی تہمت لگاتے ہوئے سنیں اس پر کذب کا حکم لگادیں اور گواہ پیش کرنے تک اس کی گواہی کو رد کردیں اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آیت کا نزول حضرت عائشہ (رض) پر بہتان طرازی کے سلسلے میں ہوا تھا۔ کیونکہ ارشاد باری ہے (ان الذین جائوا بالا فک عصبۃ منکم۔ جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں) تا قول باری (لولا اذ سمعتموہ) حضرت عائشہ (رض) کا دامن اس بہتان سے پاک تھا اور آپ کی ذات اس تہمت سے بری تھی۔ آپ پر بہتان طرازی کرنے والوں نے چشم دید کی بنا پر بہتان طرازی نہیں کی تھی، بلکہ اپنے گمان اور اٹکل سے کام لے کر انہوں نے یہ حرکت کی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عائشہ (رض) پیچھے رہ گئی تھیں ، ان بہتان گھڑنے والوں میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے کوئی برائی دیکھی ہے۔ اس لئے جو شخص اس جیسی سنگین بات صرف اپنی اٹکل اور طن وتخمین کی بنا پر کرے گا اسے جھوٹا قرار دینا اور اس پر نکیر کرنا ہمارا فرض ہوگا۔ نیز جب نسق تلاوت میں ارشاد باری ہے (فاذلم یاتوا بالشھدآء فاولئک عند اللہ ھم الکاذبون) اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ گواہی پیش کرنے میں ان کی ناکامی کی صورت میں ان پر کاذب ہونے کا حکم عائد کیا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس نے اپنے ارشاد : (وقالوا ھذا افک مبین) سے نفس قذف کے ساتھ ان پر کذب کے ایجاب کا ارادہ نہیں کیا۔ آیت کے معنی یہ ہیں کہ ” مومن مردوں اور مومن عورتوں نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے جب انہوں نے اسے سنا اور بہتان لگانے والے نے گواہ پیش نہیں کیے۔ “ امام شافعی کا یہ خیال ہے کہ قذف کے گواہ جب متفرق طور پر گواہی پیش کرنے کے لئے آئیں تو ان کی گواہی دے دیں۔ اس لئے کہ قاذف قذف کی بنا پر فاسق بن گیا ہے اس لئے اس کی تکذیب واجب ہوگئی ہے۔ متفرق صورت میں آکر گواہی دینے کی شکل میں ان کی گواہی کو قبول کرلینا دراصل اس بات کو لازم کردیتا ہے کہ نفس قذف کے ساتھ ان کی گواہی باطل قرار نہ دی جائے۔ سنت کی جہت سے ہمارے قول کی صحت پردہ روایت دلالت کرتی ہے جسے حجاج بن ارطاۃ نے عمر وبن شعیب سے ، انہوںں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (المسلمون عدول بعضھم علی بعض الا محدودا فی قذف۔ تمام مسلمان ایک دوسرے پر گواہی کے معاملے میں عادل ہیں مگر قذف کے سلسلے میں سزا یافتہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا کہ قاذف کو جب تک حد قذف نہ لگے اس وقت تک گواہی کے سلسلے میں اس کی عدالت باقی رہتی ہے۔ اس پر عباد بن منصور کی روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب ہلال (رض) بن امیہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی تو اس موقعہ پر آپ نے فرمایا : آیاہلال کو کوڑے لگیں گے اور مسلمانوں کے ہاں اس کی گواہی باطل ہوجائے گی ؟ “ اس ارشاد میں آپ نے بتایا کہ ہلال (رض) کی گواہی کے بطلان کا تعلق انہیں کوڑے لگنے کے ساتھ ہے اور اس کے ذریعے اس امر پر دلالت ہوگئی کہ قذف کی وجہ سے ان کی گواہی باطل نہیں ہوئی تھی۔ قذف میں سزا یافتہ انسان کی توبہ کرلینے کے بعد گواہی کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ توبہ کرلینے کے بعد بھی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ البتہ قذف کے سوا کسی اور جرم کے سلسلے میں بطور حد سزا یافتہ انسان جب توبہ کرلے گا تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ امام مالک ، عثمان البتی، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ قذف میں سزا یافتہ انسان اگر توبہ کرلے تو اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اسلام میں جس شخص کو کوئی حد لگ چکی ہو اس کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے روایت کی ہے، انہوں نے عطاء خراسانی سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ قول باری (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلد وھم ثما نین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا و اولئک ھم الفاسقون) کے بعد ارشاد ہے (الا الذین تابوا) جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فسق سے ان کی توبہ قبول کرلی لیکن جہاں تک گواہی کا تعلق ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں حجاج نے نیز حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت منقول ہے جسے ہمیں جعفر بن محمد نے بیان کیا، انہیں ابن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں عبداللہ صالح نے معاویہ بن صالح سے ، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ انہوں نے قول باری (ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا و اولئک ھم الفاسقون) نیز ارشاد باری : الا الذین تابوا کی تفسیر میں فرمایا کہ جو شخص توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے گا اللہ کی کتاب میں اس کی گواہی مقبول ہوگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ وہ پہلی روایت کے خلاف نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ حضرت ابن عباس (رض) کی مرادیہ ہے کہ اس کی گواہی اس صورت میں مقبول ہوگی جب اسے حد نہ لگی ہو اور اس نے توبہ کرلی ہو۔ پہلی روایت اس پر محمول ہے کہ اگر اسے حد لگ جائے تو اسکی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی خواہ اس نے توبہ کیوں نے کرلی ہو۔ شریح، سعیدبن المسیب ، حسن بصری، ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر سے ان کا قول مروی ہے کہ توبہ کرلینے کے باوجود اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اسکی توبہ کا معاملہ اللہ اور اس کے درمیان محدود رہے گا۔ ابراہیم کا قول ہے کہ توبہ کی بنا پر فسق کا اسم ان سے دور ہوجائے گا لیکن ایسے لوگوں کی گواہی کبھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ عطاء، طائوس، مجاہد، شعبی، قاسم بن محمد اور زہری سے مروی ہے کہ توبہ کرلینے کی صورت میں اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ حضرت عمر (رض) سے ایک روایت کے مطابق جس میں فن روایت حدیث کے لحاظ سے طعن موجود ہے۔ آپ نے ابوبکر (رض) سے فرمایا کہ اگر تم توبہ کرلوگے تو تمہاری گواہی قابل قبول ہوگی “ اس روایت میں طعن کی وجہ یہ ہے کہ اسے ابن عیینہ نے زہری سے روایت کی ہے۔ ابن عیینہ نے پہلے تو ” من سعید بن المسیب “ کہا یعنی زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے، پھر انہیں شک ہوا اور کہا ” ھو عمر بن تیس “ یعنی زہری کی شیخ سعید بن المسیب نہیں بلکہ عمر بن قیس ہیں، جنہوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ابوبکر (رض) سے فرمایا کہ اگر تم توبہ کرلوگے تو تمہاری گواہی قابل قبول ہوگی لیکن ابوبکرہ (رض) نے توبہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح سفیان بن عیینہ کو سعید بن المسیب اور عمر بن قیس کے متعلق شک ہوگیا کہ ان دونوں میں سے اس روایت کا راوی کون ہے۔ ایک قول کے مطابق عمر بن قیس فی لحاظ سے مطعون ہے اس لئے ان اسناد کے ذریعے حضرت عمر (رض) سے یہ قول ثابت نہیں ہوسکا۔ لیث بن سعد نے ابن شہاب زہری سے روایت کی ہے کہ انہیں حضرت عمر (رض) سے یہ روایت پہنچی ہے کہ آپ نے ابوبکرہ (رض) سے یہ بات فرمائی تھی۔ یہ فن روایت کے اندر بلاغ کی صورت ہے جس پر ہمارے مخالف کے مسلک میں عمل نہیں ہوتا۔ سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ توبہ کے بعد بھی اس کی گواہی ناقابل قبول رہے گی۔ اگر سعید بن المسیب سے حضرت عمر (رض) کے مذکورہ بالا قول کی ورایت درست بھی ہوجائے تو اس روایت کی مخالفت ایسی روایت کے ذریعے ہوگئی ہے جو اس سے قوی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ حضرت عمر (رض) سے منقول روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ نے ابوبکرہ (رض) کو کوڑے لگانے کے بعد ان سے یہ بات کہی تھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے ان سے یہ بات کوڑے لگانے سے پہلے کہی ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قاذف اگر توبہ کرلے تو اس کے متعلق حکم میں سلف اور فقہائے امصار کے جس اختلاف کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنیاد وہ اختلاف ہے جو آیت زیر بحث میں استثناء کے متعلق ان حضرات کے درمیان ہے کہ آیا یہ استثناء صرف فسق کی طرف یا ابطال شہادت اور نشان فسق دونوں کی طرف راجع ہے اور یہ ان دونوں کو ختم کردینے کا باعث ہے۔ حبصاص کہتے ہیں کہ استثناء کا حکم صرف نشان فسق کے زوال تک محدود ہے جو اس کے متصل ہے، جواز شہادت اس کے دائرے سے باہر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ لغت میں استثناء کا حکم یہ ہے کہ وہ اس چیز کی طرف راجع ہوتا ہے جو اس کے متصل ہوتی ہے ۔ اس سے ماقبل کی طرف یہ راجع نہیں ہوتا۔ الایہ کہ کوئی دلالت موجود ہو۔ ہمارے اس دعوے کی دلیل یہ قول باری ہے : (الا ال لوط انا لمنجوھم اجمعین الا امراتہ۔ آل لوط کے سوا، ہم ان سب کو بچا لینے والے ہیں مگر اس کی بیوی ) آیت میں بچا لیے جانے والوں میں سے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی مستثنیٰ تھی اس لئے کہ وہ ان کے متصل مذکور ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے ” لفلان علی عشرۃ دراھم الاثلاثۃ دراھم الادرھم “ (مجھ پر فلاں شخص کے دس درہم ہیں، تین درہموں کے سوا مگر ایک درہم) تو اسے آٹھ درہم ادا کرنے ہوں گے۔ اور ایک درہم ماقبل کے مذکورہ تین درہموں سے مستثنیٰ ہوگا۔ جب استثناء کا یہ حکم ہے تو پھر اس کے حکم کو اس کے متصل امر تک محدود کردینا واجب ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : (فان لم تکونوا دخلتم بھن۔ اگر تم نے ان عورتوں کے ساتھ دخوت نہیں کیا) یہ قول باری استثناء کے معنوں میں ہے اور یہ ربائب یعنی زیر سایہ پرورش پانے والی لڑکیوں کی طرف راجع ہے بیویوں کی مائوں کی طرف راجع نہیں ہے۔ اس لئے کہ استثناء ربائب سے متصل ہے۔ اوپر جو مثالیں ہم نے بیان کی ہیں ان سے ہمارے مذکورہ بالا قول کی صحت ثابت ہوجاتی ہے یعنی استثناء کے حکم کو اس کے متصل امر تک محدود رکھا جائے اور ماقبل مذکورہ امور تک اس کا دائرہ نہ بڑھایا جائے۔ نیز اگر استثناء تخصیص کے معنوں میں ہوا ور جس جملے پر یہ استثناء داخل ہوا ہو اس میں عموم ہو تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ عموم کا حکم برقرار رہے اور اسے اس استثناء کی وجہ سے رفع نہ کیا جائے جس کا حکم اس سے متصل امر میں ثابت ہوچکا ہو۔ البتہ اگر ایسی کوئی دلالت قائم ہوجائے جو یہ ثابت کردے کہ استثناء جملے کی طرف راجع ہے تو اس صورت میں جملے کا عموم رفع ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے : (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کرتے ہیں، تو بس یہ ہے…) تا قول باری :(الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم۔ مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پالو) یہاں استثناء ان تمام کی طرف راجع ہے جن کا آیت ذکر ہے اس لئے کہ ان کا ایک دوسرے پر عطف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (لا تقربوا الصلوٰۃ وانتم سگاریٰ حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبا الا عایری سبیل حتیٰ تعسلو۔ تم جب نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جائو جب تک کہ غسل نہ کرلو الایہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) پھر ارشاد ہوا (قران کنتم مرضی او علی سفراوجاء احدکم من الغائط اولا مستم النسآء فلم تجدوا ماء فتیموا اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئو یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہوا اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو۔ تیمم اس شخص کے لئے اسی طرح لازم ہوگیا جسے غسل جنابت لاحق ہوگیا ہو جس طرح یہ اس شخص کے لئے لازم ہوگیا جسے حدث کی بنا پر ضو لاحق ہوگیا ہو۔ ایسے کلام پر جس کا بعض حصہ بعض پر معطوف ہو۔ جب استثناء داخل ہوگا تو یہ ضروری ہوگا کہ وہ پورے کلام کو شامل ہو اور پورے کلام کی طرف راجع ہو۔ اس اعتراض کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سے پہلے ہم نے واضح کردیا ہے کہ لغت میں استثناء کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے متصل امر کی طرف راجع ہوتا ہے، ماقبل کی طرف راجع نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ اس کے لئے کوئی دلالت موجود ہو۔ اعتراض میں پیش کی گئی تمام مثالوں کے اندر استثناء سب کی طرف راجع ہے اور اس کے لئے دلالت بھی قائم ہوچکی ہے لیکن آیت زیر بحث کے اندر مذکوراستثناء جس کے متعلق اختلاف رائے ہے اس قسم کی دلالت سے خالی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہو کہ یہ مذکورہ تمام باتوں کی طرف راجع ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ استثناء بعض صورتوں میں مذکورہ تمام باتوں کی طرف راجع ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں صرف مذکورہ امور میں بعض کی طرف راجع ہوتا ہے۔ یہ بات لغت کے اعتبار سے سب کے علم میں ہے نیز مشہور بھی ہے ۔ اب وہ کون سی دلالت ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فلاں صورت میں استثناء کا حکم صرف اس کے متصل امر تک محدود ہے اور یہ ماقبل کے پورے کلام کی طرف راجع نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ہم معترض کی یہ بات تسلیم کرلیں کہ استثناء کا تمام کی طرف راجع ہونے کا جواز ہے تو اس صورت میں یہ احتمال پھر بھی باقی رہے گا کہ آیا یہ اپنے متصل امر کی طرف راجع ہے یا تمام مذکور ہ امور کی طرف اس کا رجوع ہے۔ جب ایک طرف یہ بات ہوا درد دوسری طرف لفظہ اول عموم کی صورت میں ہو جو تمام احوال میں حکم کا مقتضی ہو تو ایسی صورت میں احتمال کی بنا پر استثناء کو عموم کی طرف راجح کرنا جائز نہیں ہوگاکیون کہ احتمال کی بنیاد پر عموم کی تخصیص جائز نہیں ہوتی۔ اس صورت میں استثناء کے حکم کو یقینی امر کے اندر عمل میں لانا واجب ہوگا، یہ متیقن امر وہ ہے جو استثناء کے متصل ہوتا ہے۔ ماقبل کے تمام امور نہیں ہوتے اگر یہ کہا جائے کہ آپ اس بات سے کیوں انکار کرتے ہیں کہ لفظ اول عموم کی صورت نہیں رکھتا جبکہ استثناء کا دخول، کلام کے آخر میں ہو۔ بلکہ اس میں احتمال کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اور اس میں عموم کا اعتبار باطل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ مذکورہ تمام امور کی طرف راجح ہونے کے سلسلے میں استثناء کے عموم کے اعتبار کی بہ نسبت لفظ اول کے عموم کا اعتبار اولیٰ نہیں ہوتا۔ جب لفظ اول میں عموم کا اعتبار باطل ہوگیا اور اس میں حکم کے ایجاب کے لحاظ سے احتمال کی صورت پیدا ہوگئی تو حکم کے اندر عموم لفظ کا اعتبار ساقط ہوگیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ استدلال غلط ہے۔ اس کیوجہ یہ ہے کہ لفظ اول کا صیغہ عموم کا صیغہ ہوتا ہے جس کے متعلق ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ دوسری طرف استثناء عموم کا صیغہ نہیں ہوتا جو مذکورہ تمام امور کے فع کا مقتضی بن سکتا ہو۔ اس بنا پر یہ واجب ہے کہ عموم کو واجب کرنے والے صیغہ کا حکم لفظ اول میں جاری کیا جائے اور اس حکم کو صرف اس صورت میں اس سے دور کیا جائے جب کوئی ایسا لفظ موجود ہو جس کا صیغہ عموم کے رفع کا مقتضی ہو۔ یہ صفت استثناء کے لفظ میں موجود نہیں ہوتی۔ اس لئے معترض کے استدلال کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص اگر یہ کہتا ہے کہ ” عبدی حروامراتی طالق ان شاء اللہ “ (میرا غلام آزاد اور میری بیوی پر طلاق اگر اللہ چاہے) تو اس صورت میں استثناء پورے فقرے کی طرف راجح ہوگا، اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (واللہ لا غذون قریشا، واللہ لا غزون قریشا، واللہ لا غزون قریشا ان شاء اللہ۔ بخدا میں قریش کے خلاف جہاد پر نکلوں گا، بخدا میں قریش کے خلاف جہاد پر نکلوں گا، بخدا میں قریش کے خلاف جہاد پر نکلوں گا۔ اگر اللہ چاہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ارشاد میں جو استثناء کیا وہ تمام قسموں کی طرف راجع ہے کیونکہ اس کا بعض حصہ بعض پر معطوف ہے ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو نکتہ ہمارے درمیان زیر بحث ہے اس کے ساتھ مذکورہ بالا مثال کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس قسم کا استثناء جملے پر داخل ہونے والے استثناء یہ ہیں۔ الا ، غیر، سوی اور اس قسم کے دوسرے حروف اس لئے کہ ” ان شاء اللہ “ کا لفظ کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے داخل ہوتا ہے حتیٰ کہ کوئی بات بھی ثابت نہیں ہوتی، جبکہ حرف استثناء کے ذریعے ذکر ہونے والے استثناء کا دخول سرے سے کلام کے حکم کو رفع کردینے کے لئے جائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ شوہر کے لئے یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ ” انت طالق ان شاء اللہ “ (اگر اللہ چاہے تو تم پر طلاق) اس صورت میں اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگر وہ یہ کہے ” انت طالق الا طالق (تم پر طلاق مگر طلاق) تو اس صوت میں طلاق واقع ہوجائے گی اور استثناء باطل ہوجائے گا۔ کیونکہ کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے استثناء کا دخول محال ہوتا ہے۔ اسی بنا پر یہ بات جائز ہے کہ ” ان شاء اللہ “ کا فقرہ تمام مذکورہ امور کی طرف راجع ہوجائے جن میں سے بعض ، بعض پر معطوف ہوتے ہیں لیکن حرف استثناء کے ذریعے ذکر ہونے والے استثناء میں یہ صورت واجب نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ کوئی شخص یہ کہتا ہے ” انت طالق وعبدی حرالا ان یقدم فلان “ (تمہیں طلاق ہے اور میرا غلام آزاد ہے الا یہ کہ فلاں شخص آجائے) تو اس صورت میں استثناء دونوں باتوں کی طرف راجع ہوگا۔ اگر فلاں شخص نہ آئے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو بیوی کو طلاق ہوجائے گی اور غلام آزادہوجائے گا اور اس کے اس قول کی حیثیت اس کے قول ” انشاء اللہ “ جیسی ہوجائے گی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے اس سے جو مفہوم لیا ہے وہ درست نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ” الا ان یقدم فلان “ کا فقرہ اگرچہ استثناء کے صیغے میں ذکر ہوا ہے لیکن یہ شرط کے معنوں میں ہے۔ جس طرح اس کا یہ قول ہوتا ” ان لم یقدم فلان “ (اگر فلاں شخص نہ آئے) اب شرط کا حکم یہ ہے کہ اس کا تعلق فقرے میں مذکورہ تمام امور کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ امور ایک دوسرے پر معطوف ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ شرط اس استثناء کے مشابہ ہوتی ہے جو درحقیقت اس لحاظ سے اللہ کی مشیت ہے کہ اس کا وجود کلام کو رفع کرنے کے سلسلے میں عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کلام کی کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب تک شرط کا وجود نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی چیز واقع نہیں ہوتی۔ یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ شرط کا کبھی بھی وجود نہ ہو اور دوسرے سے کلام کا حکم باطل ہوجائے اور شرط کی جزا کا کوئی حصہ ثابت نہ ہوسکے، اسی بنا پر کلام میں مذکورہ تمام امور کی طرف شرط کا رجوع درست ہوجاتا ہے جس طرح اللہ کی مشیت کی طرف استثناء کا رجوع درست ہوتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقرہ ” الا ان یقدم فلان “ درحقیقت شرط ہے اگر چہ اس پر حرف استثناء داخل ہے۔ لیکن استثناء محض جس کی صورت یہ قول باری ہے : (الا الذین تابوا۔ یا الا ال لوط) یا اس طرح کے اور فقرات تو سرے سے کلام کے حکم کو رافع کرنے کے لئے ان پر استثناء کا دخول جائز نہیں ہوتا کہ کلام کا کوئی بھی جز ثابت نہ ہوسکے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابداً ) میں فقرے کا حکم کسی نہ کسی وقت ضرور ثابت ہوتا ہے اور جو لوگ استثناء کو اس فقرے کی طرف راجع کرتے ہیں وہ بھی اس کے حکم کو وقت کے بعض حصوں میں رفع کردیتے ہیں جبکہ بعض حصوں میں اس کا حکم ثابت رہتا ہے۔ اسی طرح قول باری (الا ال لوط) میں یہ درست نہیں ہے کہ حرف استثناء ان تمام لوگوں سے نجات کے حکم کو رفع کردے جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، اس حرف نے تو صرف ان افراد میں سے بعض پر اپنا عمل کیا ہے جنہیں لفظ کا عموم شامل ہے۔ درج بالا سطور میں ہم نے وضاحت کی ہے اس کے ذریعے اس امر پر استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کا استثناء اپنے متصل امر کی طرف راجع ہوتا ہے گزشتہ کلام کی طرف راجع نہیں ہوتا۔ گزشتہ کلام کی طرف یہ صرف کسی دلالت کی بنیاد پر راجع ہوتا ہے وہ اس لئے کہ جب سرے سے کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے اس استثناء کا دخول محال ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کلام کا کوئی حصہ بھی ثابت نہ ہوسکے تو اس سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ اس استثناء کا عمل بعض کے اندر ہو، کل کے اندر نہ ہو۔ جب یہ بات واجب ہوگئی تو جس بعض کے اندر اس استثناء کا عمل ہوگا وہ متیقن بعض ہوگا۔ اس کے سوا کوئی اور فرد اس عمل کے تحت نہیں آئے گا۔ اس کی حیثیت اس لفظ جیسی ہوگی جس میں عموم کا اعتقاد درست نہ ہو اس صورت میں لفظ کا حکم اس فرد تک محدود رہے گا جو متیقن اور کم سے کم ہو۔ اس صورت میں لفظ کے عموم کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ یہی صورت استثناء کی بھی ہے۔ جب لفظ کے حکم کو سرے سے ختم کرنے کے لئے اللہ کی مشیت کی شرط نیز قسموں کے تمام شرطوں کا دخول جائز ہوگیا تو فقرے کے اندر مذکور تمام امور میں اس کا عمل واجب ہوگیا نیز یہ کہ دلالت کے بغیر ان امور میں سے کوئی امر خارج نہیں کیا جائے گا۔ قول باری (الا الذین تابوا) میں استثناء کا حکم اس کے متصل امر تک محدود ہے ماقبل کلام تک وسیع نہیں ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ قول باری : فاجلدو ھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا کے دونوں فقروں میں سے ہر فقرہ جملہ انشائیہ کی صورت میں ہے یعنی ایک مثبت امر ہے اور دوسرا منفی امر یعنی نہی ہے۔ جبکہ قول باری (واولئک ھم الفاسقون) جملہ خبریہ ہے اور استثناء اسی پر داخل ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ استثناء کا حکم اسی جملہ خبر یہ پر جاکر موقوف ہوجائے اور جملہ انشانیہ کی طرف راجع نہ ہو۔ وہ اس لئے کہ قول باری (واولئک ھم الفاسقون) میں حرف وائو زمانہ استقبال کے لئے ہے۔ اس لئے یہ درست نہیں کہ اسے سب کے لئے قرار دیا جائے کیونکہ ایک ہی لفظ کا بیک وقت امر اورخبر دونوں پر مشتمل ہونا درست نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ امرادرخبر کو کنایہ کے اندر تیز ایک ہی لفظ کے اندر جمع کردینا درست نہیں ہوتا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ امر کی صورت میں یہ حد کی طرف راجع نہیں ہوتا۔ اس کی نظیر قائل کا یہ قول ہے (” اعط زیدادوھما ولاتدخلل الدار وفلان خارج انشاء اللہ “ زید کو ایک درہم دے دو اور تم گھر میں داخل نہ ہو اور فلاں انشاء اللہ باہر آئے گا) اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ استثناء کا رجوع خروج کی طرف ہے ماقبل کے صیغہ امر کی طرف نہیں ہے اس لئے آیت زیر بحث میں بھی استثناء کا یہی حکم ہونا چاہیے کیونکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے : (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ و یسعون فی الارض فساد ان یقتدوا اویصلبوا) ۔ قول باری (ذلک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم) پھر ارشاد ہوا (الا الذین تابوا من قبل ان تقدرو علیھم۔ ) یہ بات واضح ہے کہ آیت کے اول میں جن احکامات کا ذکر ہے وہ امر کی صورت میں ہیں اور قول باری (ذلک لھم جزی فی الدنیا) خبر ہے پھر استثناء پورے کلام کی طرف راجع ہے اور اس سلسلے میں امر اور خبر کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس لئے درست ہوئی کہ قول باری (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ) اگرچہ حقیقت میں امر ہے لیکن اس کی صورت یعنی صیغہ خبر کی صورت میں ہے اس لئے جب سارا کلام خبر کی صورت میں وارد ہوا تو تمام کی طرف استثناء کا مرجع ہونا درست ہوگیا۔ لیکن زیر بحث آیت میں قول باری : فاجلدو ھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا حقیقت میں اوکا صیغہ ہے اس پر خبر کو عطف کیا گیا ہے اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ استثناء پورے کلام کی طرف راجع نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ایک کلام ایسا ہو جس کے حصے ایک دوسرے پر معطوف ہوں اور اس کے صیغے مختلف ہوں تو ایسے کلام پر داخل ہونے والا استثناء صرف اپنے متصل حصے کی طرف راجع ہوگا ماقبل کے ان حصوں کی طرف راجع نہیں ہوگا۔ جن کا صیغہ متصل حصے کے صیغے کی طرح نہیں ہوگا۔ الایہ کہ کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ اگر دلالت قائم ہوجائے گی تو اسے ماقبل کے حصوں کی طرف راجع کرنا جائز ہوگا۔ آیت محاربین میں استثناء کو ماقبل کے حصوں کی طرف راجع کرنا جائز ہوگا۔ آیت محارمین میں استثناء کو ماقبل کے تمام حصوں کی طرف راجع کرنے کے لئے دلالت قائم ہوگئی ہے لیکن زیر بحث آیت میں ایسی کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی ہے اس لئے اس سے کہ اصل حکم پر باقی رکھا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حرف واو جمع کے لئے آتا ہے اور ارشاد باری ہے : (فاجلدوھم ثمانین جلدۃ ولا تقبک الھم شھادۃ ابداو اولئک ھم الفاسقون ) اس لئے گویا پورے کا پورا ایک ساتھ مذکور ہوا ہے اور کسی حصے کو کسی دوسرے پر کوئی تقدم حاصل نہیں پھر جب اس پورے جملے پر حرف استثناء داخل کردیا گیا تو مذکورہ امور میں سے بعض کی طرف اس کاراجع ہونا بعض دوسرے کی طرف اس کے رجوع سے اولیٰ نہیں ہوگا۔ کیونکہ ترتیب کے اندر بعض کو بعض پر تقدم حاصل نہیں ہوتا ۔ اس طرح پورے کے پورے جملے کی یہ حیثیت ہوگئی کہ اس کے تمام امور گویا ایک ساتھ مذکور ہوئے ہیں اس لئے فسق کے نشان کی طرف استثناء کا راجع ہونا بطلان شہادت اور حد کی طرف راجع ہونے کی یہ نسبت اولیٰ نہیں ہوگا۔ اگر اس بات پر دلالت قائم نہ ہوجاتی کہ استثناء حد قذف کی طرف راجع نہیں ہے یعنی قاذف خواہ اسے پھر بھی حد لگے گی تو یہ بات حد کی طرف بھی استثناء کے رجوع کے مقتضی ہوجاتی جس کے نتیجے میں توبہ کے بعد قاذف سے حد زائل ہوجاتی ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حرف وائو کبھی تو جمع کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ معترض نے ذکر کیا ہے اور کبھی استیناف کے لئے ہوتا ہے۔ یعنی کسی نئے مضمون یا نئی بات کا پتہ دیتا ہے۔ قول باری : (واولئک ھم الفاسقون) میں حرف وائو ا استیناف کے لئے ہے۔ اس لئے کہ یہ ان امور کی جمع کے لئے آتا ہے جن کے معانی مختلف نہیں ہوتے اور ایک جملہ ان سب امور پر مشتمل ہوتا ہے اس صورت میں تمام امور کی یہ حیثیت ہوتی ہے کہ گویا یہ ایک ساتھ مذکور ہوئے ہیں۔ یہ بات قول باری (اذا قمتم الی الصلونۃ فاغسلوا وجوھکم جب تم نماز کے ارادے سے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھولو) تا آخر آیت۔ اس لئے کہ آیت میں جمیع امور، امر کے صیغے سے بیان ہوئے ہیں گویا یوں فرمایا گیا کہ ” ان مذکورہو اعضاء کو دھولو۔ “ اس لئے کہ تمام امور کو امر کا صیغہ متضن ہے جس کی بنا پر یہ ایک جملے کی طرح ہوگیا جو ان تمام اوامر کو متضمن ہے اس کے برعکس آیت قذف کی یہ صورت ہے کہ اس کی ابتداء امر کے صیغے سے ہوئی ہے اور انتہا خبر کے صیغے سے ہوئی ہے۔ اب یہ بات درست نہیں کہ ایک ہی جملہ امر اور خبردونوں کو متضمن ہوجائے اس بنا پر حرف وائو استیناف کا مفہوم ادا کررہا ہے کیونکہ امر کے لفظ میں خبر کے معنی کا دخول جائز نہیں ہوتا ۔ جبکہ قول باری ہے، انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ میں استثناء قتل کے حکم اور اس کے ساتھ مذکورہ امور کی طرف راجع ہے۔ یہ اس خبر کی طرف راجع نہیں ہے جو اس کے متصل ہے۔ اس لئے کہ قول باری : (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم) کا اس قول باری (ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم) کی طرف راجع ہونا درست نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ توبہ مذکورہ افراد پر قابو پانے سے قبل اور قابو پانے کے بعد ان سے آخرت کا عذاب زائل کردیتی ہے۔ جس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ توبہ کی شرط حد کے نفاذ کے سلسلے میں ہے۔ عذاب آخرت کے سلسلے میں نہیں ہے۔ یہاں ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ قول باری : (ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا) کے رو سے اس گواہی کا بطلان یا تو فسق کے ساتھ متعلق ہے یا یہ مستقل طور پر الگ حکم ہے اور آیت اس کی تابید یعنی ہمیشگی کی مقتضی ہے۔ جب اس قول باری کو فسق کے نشان کے لزوم کی بنا پر گواہی کے بطلان پر محمول کرنا اس کے ذکر فائدے کو باطل کردیتا ہے کیونکہ تفسیق کا ذکر گواہی کے بطلان کا مقتضی ہے الایہ کہ فسق زائلی ہوجائے اور اس سے توبہ کرلی جائے تو اسے اب دوسری صورت پر محمول کرنا واجب ہے کہ یہ ایک مستقل حکم ہے اور فسق کے نشان اور ترک توبہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے نیز ہر کلام اپنے حکم کے لحاظ سے قائم بالذات ہوتا ہے اور کسی دوسرے کلام کے ساتھ اس کے تضمین درست نہیں ہوتی الایہ کہ کوئی دلالت موجود ہو۔ اگر آیت کو اس مفہوم پر محمول کیا جائے جس کا ہمارے مخالف نے دعویٰ کیا ہے تو ا س سے یہ بات لازم آئے گی کہ دوسرے کلام کے ساتھ اس کی تضمین کردی گئی ہے اور اس کے اپنے حکم کو باطل کردیا گیا ہے جب کہ یہ بات لفظ کے مقتضیٰ کے خلاف ہے۔ نیز آیت کو اس مفہوم پر محمول کرنا جس کا ہمارے مخالف نے دعویٰ کیا ہے اس امر کا موجب ہے کہ آیت میں جس فسق کا ذکر کیا گیا ہے وہ مذکورہ ابطال شہادت کی علت بن جائے اس صورت میں آیت کی ترتیب یہ ہوگی۔ (” ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدالا نھم فاسقون “ ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اس لئے کہ یہ فاسق ہیں) اس صورت میں کلام کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹا کر مجاز کی طرف پھیر دینا لازم آئے گا جس کے لئے کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ کلام کا حکم تو یہ ہے کہ وہ اپنے حکم کے ایجاب میں قائم بالذات ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ اسے کسی دوسرے حکم کے لئے جو اس کے ساتھ مذکور ہو نیز اس پر معطوف ہو علت قرار نہ دیا جائے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کوڑوں کی سزا کے بعد بطلان شہادت کا حکم قائم بالذات ہے، توبہ پر موقوف نہیں ہے۔ یہ حکم ہمیشہ کے لئے ہے جس کا ذکر آیت میں موجود ہے۔ اگر یہ کہا جانے کہ استثناء کو گواہی کی طرف راجع کرنا فسق کی طرف راجع کرنے کی بہ نسبت اولیٰ ہے کیونکہ اس آیت کے بغیر بھی یہ بات معلوم ہے کہ توبہ کا عمل فسق کو زائل کردیتا ہے اس لئے استثناء کو فسق کی طرف راجع کرنا بےفائدہ ہوگا لیکن اگر اسے گواہی کی طرف راجع کردیا جائے تو اس سے توبہ کی بنا پر گواہی کے جواز کی بات معلوم ہوجائے گی۔ کیونکہ یہ امکان تھا کہ توبہ کے باوجود اس کی بھی گواہی ناقابل قبول ہوتی، آیت کے اس امکان کو ختم کردیا۔ رہ گئی یہ بات کہ توبہ کے باوجود فسق کا نشان باقی رہ جائے تو یہ کسی لحاظ سے درست نہیں ہے نہ عقلی طور پر اور نہ ہی سمع یعنی نقلی طور پر۔ کیونکہ فسق کا نشان مذمت اور عذاب کا نشان ہوتا ہے اور یہ بات کسی طرح درست نہیں کہ تائب شخص کو مذمت اور عذاب کا مستحق قرار دیا جائے۔ گواہی کے بطلان میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ غلام اور نابینا شخص کی گواہی درست نہیں ہوتی حالانکہ اس میں مذمب اور عقوبت کا کوئی پہلو نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک تعبدی امر ہوتا ہے۔ اس لئے آیت کے اندر افادہ کے پہلو کے اثبات کے نقطہ نظر سے استثناء کو گواہی کی طرف راجع کرنا فسق کی طرف راجع کرنے کی بہ نسبت اولیٰ ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں کہاجائے گا کہ آیت زیر بحث میں جس توبہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ قذف کی وجہ سے نیز جھوٹ بولنے کے اقرار کی بنا پر کی جانے والی توبہ ہے۔ کیونکہ یہ قذف ہی ہے جس کی وجہ سے قاذف پر فسق کا نشان چسپاں ہوگیا اور وہ اس نشان کا سزاوار قرار پایا۔ اب اس بات کا امکان تھا کہ قاذف تمام گناہوں سے توبہ کرلیتا لیکن جھوٹ بولنے کا اقرار نہ رتا اور اس طرح اس پر فسق کا نشان باقی رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتا کر اس امکان کو ختم کردیا کہ جب وہ جھوٹ بولنے کا اقرار کرلے گا تو اس سے فسق کا نشان زائل ہوجائے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے وہ یہ کہ کوڑوں کی سزا کی وجہ سے اس پر فسق کا نشان چسپاں ہوگیا۔ اور توبہ کے اظہار کے وقت اس میں کوئی امتناع نہیں تھا کہ ظاہر حال میں اس کی توبہ قابل قبول نہ ہو اگرچہ عنداللہ وہ قابل قبول ہو بھی جائے۔ ظاہری حالت کے لحاظ سے قابل قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس کی توبہ کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا۔ اس لئے امکان یہ تھا کہ ہمارے لئے یہ ایک نعبدی امر ہوتا کہ ہم اس کی توبہ کی تصدیق نہ کریں بلکہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس کے ساتھ وہ مراسم نہ رکھیں جو تمام دوسرے اہل توبہ کے ساتھ رکھتے ہیں۔ جب ان باتوں کے متعلق یہ امکان تھا کہ انہیں امور تعبدی سمجھ کر اختیار کرلیا جائے تو آیت نے اس امکان کو ختم کرکے یہ واضح کردیا کہ اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے، اس کے ساتھ تعلقات ومراسم قائم رکھنا واجب ہے اور ظاہری طور پر اس کی طرف سے جس توبہ کا اظہار ہوا ہے اس میں اسے سچا سمجھا جائے۔ ذمی قاذف کی گواہی جبکہ وہ مسلمان ہوجائے اگر یہ کہا جائے کہ جب ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسا ذمی جسے حد قذف لگ چکی ہو اگر مسلمان ہوجائے اور توبہ کرلے تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی تو یہ بات دو وجوہ سے قذف میں سزا یافتہ مسلمان کی گواہی قابل قبول ہونے پر دلالت کرے گی۔ اول تو اس لئے کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ آیت میں استثناء گواہی کے بطلان کی طرف راجع ہے کیونکر آیت میں ذمی مراد ہے اور استثناء سے یہ مراد ہے کہ گواہی کا بطلان توبہ پر موقوف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ذمی کی توبہ نے اس کی گواہی کے بطلان کے حکم کو اٹھا دیا تو مسلمان کو بھی اسی حکم میں داخل سمجھا جائے گا اس لئے کہ اس نے بھی توبہ کا اظہار کیا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس بارے میں بات اس طرح نہیں ہے جیسا معترض نے خیال کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں ذمی داخل ہی نہیں ہے۔ کیونکہ آیت اس شخص کی گواہی کے بطلان کو مقتضی ہے جسے کوڑے لگ چکے ہوں اور قذف کی جہت سے اس پر فسق کا نشان چسپاں ہوچکا ہو۔ جبکہ ذمی پر پہلے ہی سے فسق کا انشان چسپاں ہے۔ جب ذمی کوڑے لگنے کی وجہ سے اس نشان کا سزاوار نہیں ٹھہرا تو وہ آیت میں داخل نہیں قرار پایا۔ ہم نے ذمی کو کوڑے اس لئے لگائے تھے کہ اس سزا پر سب کا اتفاق تھا جبکہ کفر کی حالت میں کوڑے کھانے کی بنا پر مسلمان ہوجانے کے بعد بھی اس کی گواہی کے بطلان پر سب کا اتفاق نہیں تھا اس لئے ہم نے اس کی گواہی کو اسی طرح جائز قرار دے دیا جس طرح مسلمان ہوجانے پر کافروں کی گواہی کو جائز قرار دے دیتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا وضاحت کی بنا پر یہ بات واجب ہوجائے گی کہ فاسق اہل مدت میں شمار نہ کیا جائے اور آیت میں بھی وہ مراد نہ ہو کیونکہ ذمی کی طرح اس میں بھی حد قذف لگنے کی بنا پر فسق کا نیا نشان ظہور پذیر نہیں ہوا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فاسق کی بعینہٖ یہی کیفیت ہے البتہ وہ آیت کے مفہوم میں معنوی طور پر داخل سمجھا گیا ہے لفظی طور پر نہیں۔ ہمارے اصحاب نے حد قذف میں سزا یافتہ ذمی کی گواہی کو اس کے مسلمان ہوجانے اور توبہ کرلینے کے بعد اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ قذف میں حد کی سزا دو جہت سے سزا یافتہ کی عدالت اور ثقاہت کو باطل کردیتی ہے۔ ایک تو عدالت اسلام کی جہت سے اور دوسری عدالت فعل کی جہت سے ذمی کو جب حد لگی تھی اس وقت وہ مسلمان نہیں تھا اس لئے حد کی یہ سزا اس کی عدالت اسلام کو باطل نہیں کرے گی البتہ فعل یعنی کردار کی جہت سے اس کی عدالت باطل ہوجائے گی پھر جس وقت مسلمان ہوکر توبہ کرے گا تو اسے اسلام کی جہت سے عدالت کی صفت حاصل ہوجائے گی اور توبہ کی بنا پر فعل کی جہت سے بھی عدالت کی یہ صفت حاصل ہوجائے گی۔ اس بنا پر اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ اس کے بالمقابل مسلمان کو جب حد کی سزا ملتی ہے تو یہ سزا دین کی جہت سے اس کی عدالت کو ساقط کردیتی ہے اس نے توبہ کے ذریعے دین کی جہت سے کسی اور عدالت کی صفت پیدا نہیں کی کیونکہ اس نے اپنی توبہ کے ذریعے کوئی نیا دین تو اختیار نہیں کیا کہ اس جہت سے اسے عدالت کی صفت حاصل ہوجاتی۔ اس کا دین تو وہی اسلام رہا۔ البتہ فعل کی جہت سے اس میں عدالت کی صفت پیدا ہوگئی۔ اس بنا پر اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوئی کیونکہ اس کی گواہی قبول ہونے کی شرط یہ تھی کہ اس کے اندر دین اور فعل یعنی کردار دونوں جہت سے عدالت کا وجود ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب ہم سب کا اتفاق ہے کہ حد لگنے سے پہلے اگر یہ شخص توبہ کرلے تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی تو یہ صورت حال اس پر دلالت کرے گی کہ آیت میں استثناء تفسیق کی طرف راجع ہونے کی طرح گواہی کی طرف بھی راجع ہے۔ اس بنا پر یہ بات ضروری ہوگئی کہ یہ استثناء حد لگنے کے بعد بھی اس کی گواہی قبول ہونے کا مقتضی بن جائے جس طرح حد لگنے سے قبل اس کا مقتضی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسے شخص کی گواہی حد لگنے سے پہلے قذف کی بنا پر باطل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس کی تفسیق کا حکم واجب ہوا تھا۔ اس کے دلائل ہم سابقہ مسئلے میں بیان کر آئے ہیں۔ اگر وہ توبہ نہ بھی کرتا اور قذف پر قائم رہتا تو اس کی گواہی قابل قبول ہوتی۔ اس کی گواہی کا بطلان اور اس پر فسق کے نشان کا لزوم یہ دونوں باتیں دراصل اس پر حد ہماری ہونے کی بنا پر مرتب ہوئی ہیں۔ استثناء نے دراصل اس سے فسق کا وہ نشان دور کردیا تھا جو اسے حد جاری ہونے کے بعد لازم ہوگیا تھا۔ حد جاری ہونے سے پہلے اسے نہ گواہی کے سلسلے میں استثناء کی ضرورت تھی اور ہ ہی تفسیق کے حکم ہیں۔ ہمارے قول کی صحت کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ توبہ حد کو ساقط نہیں کرتی اور نہ ہی استثناء حد کی طرف راجع ہے۔ اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ اس کی گواہی کے بطلان کا حکم بھی ایسا ہی ہو۔ اس لئے کہ حد اور بطلان شہادت دونوں کا تعلق قذف کی بنا پر ہوا ہے۔ اس لئے جس جہت سے استثناء حد کی طرف راجع نہیں ہوا، اس جہت سے گواہی کی طرف اس کا راجع ہونا واجب ہوگیا۔ رہ گیا تفسیق کا معاملہ تو یہ خبر کے صیغے میں بیان ہوا ہے امر کے صیغے سے نہیں اس لئے ہمارے بیان کے مطابق اس کا لزوم نہیں ہوگا۔ اس پر ایک اور جہت سے غور کیجئے۔ وہ یہ کہ حد کا مطالبہ آدمی کا حق ہے اسی طرح بطلان شہادت بھی آدمی کا حق ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ گواہیاں اس شخص کا حق ہیں جس کے لئے یہ گواہیاں دی جاتی ہیں اور اسی کے مطالبہ پر ان کا پیش کرنا اور انہیں بھگتانا درست ہوتا ہے جس طرح حد قذف جاری کرنا مقذوف کے مطالبہ پر درست ہوتا ہے۔ اس سے یہ مرواجب ہوگیا کہ گواہی اور حد دونوں کی حیثیت اس لحاظ سے یکساں قرار دی جائے کہ توبہ کی بنا پر یہ مرتفع نہیں ہوتیں۔ جہاں تک قاذف پر فسق کے نشان کے لزوم کا تعلق ہے تو اس میں کسی شخص کے حق کا پہلو نہیں ہوتا اس بنا پر استثناء اس کی طرف ہی راجع ہوگا اور اس تک ہی محدود رہے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جو شخص کفر سے توبہ کرلیتا ہے اس کی گواہی قبول کرلی جاتی ہے اس لئے جو شخص قذف سے توبہ کرلے اس کی گواہی بطریق اولیٰ قبول ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کفر سے تائب ہونے والے سے قتل کا حکم زائل ہوجاتا ہے لیکن قذف سے تائب ہونے والے سے حد قذف زائل نہیں ہتوی۔ جس طرح یہ بات جائز ہوگئی کہ کفر سے توبہ کافر سے قتل کے حکم کو زائل کردیتی ہے اسی طرح یہ بات بھی جائز ہوگئی کہ اس کی گواہی قبول کرلی جائے لیکن یہ چیز قذف سے توبہ کرنے والے کے لئے لازم نہیں ہوتی کیونکہ اس کی یہ توبہ اس سے حد قذف کو زائل نہیں کرتی۔ نیز دنیاوی سزائیں جرائم کے اندازوں پر وضع نہیں کی گئی ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ کفر کی تہمت لگانے والے پر کوئی حدواجب نہیں ہوتی جبکہ زنا کی تہمت لگانے والے پر حدواجب ہوجاتی ہے۔ اس جہت سے قذف کا معاملہ زیادہ سنگین قرار پایا۔ یہ سنگینی احکام دنیا میں قذف کے اندر نہیں پائی جاتی۔ اگر چہ آخرت میں کفر کی سزا سب سے بڑھ کر ہے۔ قاذف توبہ کے بعدعادل شمار ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ قاذف جب توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو وہ عادل شمار ہوتا اور اللہ کا دوست سمجھا جاتا ہے۔ ابتداء میں اس کی گواہی کا بطلان سزا کے طور پر تھا۔ توبہ اس سزا کو زائل کردیتی اور عدالت نیز ولایت یعنی اللہ کی دوستی کو واجب کردیتی ہے۔ اس لئے توبہ کرلینے کے بعد اس کی گواہی کا بطلان کسی طرح جائز نہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ توبہ کے بعد اس کی گواہی کا بطلان سزا کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ابتلا اور آزمائش کے طور پر ہوتا ہے جس طرح توبہ کے بعد اس پر حد کانفاذ سزا کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ابتلا کے طور پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مصلحت کے طور پر اپنے بندوں کو جس آزمائش میں ڈالنا چاہے ڈال سکتا ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک غلام بعض دفعہ عادل اور پسندیدہ صفات کا حامل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دوست بھی شمار ہوتا ہے لیکن اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی۔ یہی کیفیت نابینا کی بھی ہے اور یہی صورت اس گواہی کی بھی ہے جو باپ اپنے بیٹے کے حق میں دیتا ہے ۔ نیز اس قسم کی اور صورتیں۔ اس لئے بطلان شہادت اصول شریعت کے لحاظ سے فسق پر نیز عقوبت کی جہت پر موقوف نہیں ہوتا کہ معترض اپنی بیان کردہ دلیل کے ذریعے اس کا معارضہ کرے۔ قاذف کی توبہ اس کی گواہی کے جواز کی موجب نہیں ہوتی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس کی گواہی تو حاکم کی طرف سے اسے حد لگانے کے حکم اور اس پر حد جاری کرنے کی بنا پر باطل قرار پاتی ہے۔ قذف کی بنا پر اس کی گواہی باطل نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ جب اس کی گواہی کے بطلان کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوگیا تو اب اسے جابز قرار دینا بھی اسی وقت درست ہوگا جب حاکم اس کے جواز کا حکم جاری کردے گی اس لئے کہ اصول کے اندر یہ کلیہ موجود ہے کہ ہر ایسا حکم جس کے ثبوت کا حاکم کے حکم کے ساتھ تعلق ہو وہ حکم متعلقہ شخص سے صرف اسی صورت میں زائل ہوسکے گا جب حاکم کی طرف سے اسے زائل کرنے کے لئے کوئی ایسا حکم دیا جائے جس کے ثبوت کا جواز موجود ہو۔ مثلاً طلاق، عتاق، املاک اور دوسرے تمام حقوق۔ اس لئے جب قاذف کی توبہ اس حیثیت کی مالک نہیں ہوتی کہ اس کے متعلق عدالت میں مقدمہ دائر کیا جاسکے اور اس کے متعلق حاکم کوئی دے تو پھر ہمارے لئے اسی چیزکا ابطال جائز نہیں ہوگا جو حاکم کے حکم کی بنا پر پہلے سے ثابت ہوچکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ لعان کی وجہ سے نیز شوہر کے عنین یعنی قوت مردی سے محروم ہونے کی بنا پر عمل میں آنے والی علیحدگی اور اسی طرح کی دوسری صورتیں حاکم کے حکم کے ساتھ متعلق ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود لعان کرنے والا شوہر نیز نین اپنی سابقہ بیویوں سے نکاح کرسکتے ہیں اور اس صورت میں نکاح کا بندھن پھر لوٹ آتا ہے۔ یہی کیفیت بطلان شہادت کی بھی ہونی چاہیے یعنی اگرچہ اس کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ چیز توبہ کرلینے پر اس کی گواہی کی درستی کے لئے مانع نہیں ہونی چاہیے اور حاکم نے ابتداء میں اس کے بطلان کا جو حکم جاری کیا تھا وہ صرف اس حالت تک محدود رہنا چاہیے جس میں قاذف نے ابھی توبہ نہیں کی تھی جس طرح حاکم کے حکم کی بنا پر وجود میں آنے والی علیحدگی صرف اس حالت کے اندر محدود رہتی ہے جس میں طرفین نے نئے سرے سے عقد نکاح نہ کیا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا مذکورہ بالا افراد اپنی سابقہ بیویوں سے اس لئے نکاح کرسکتے ہیں کہ نکاح ثانی کا حکم جاری کرنا جائز ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے ذریعے اس علیحدگی کو باطل کردینا جائز ہوجاتا ہے جو حاکم کے حکم کی بنا پر عمل میں آئی تھی ۔ اس کے بالمقابل توبہ کے حکم کا اجرا حاکم کی طرف سے نہیں ہوتا اس بنا پر اس میں مقدمہ بازی کا ثبوت نہیں ہوسکتا اس لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ اس کے ذریعے حاکم کا وہ حکم باطل ہوجائے جو اس نے قاذف کی گواہی کے بطلان کے سلسلے میں جاری کیا تھا البتہ اگر قاذف کسی ایسے حاکم کے پاس جاکر گواہی دے جو تو بہ کے بعد حد قذف کے سزا یافتہ کی گواہی قبول کرلینے کا قائل ہو اور اس کی طرف سے گواہی قبول کرلینے کے متعلق حکم بھی جاری ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں قاذف کی یہ گواہی جائز ہوجائے گی۔ (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤) اور جو لوگ آزاد مسلمان پاک دامن عورتوں کو زنا کی تہمت لگائیں پھر چار عادل مسلمان آزاد آدمیوں کو اپنے دعوے پر گواہ نہ لاسکیں تو ایسے لوگوں کو اس تہمت لگانے پر اسی درے لگاؤ اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول مت کرو، اور یہ لوگ فاسق ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ (وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ) ” ” محصنات “ ُ سے مراد خاندانی عورتیں بھی ہیں اور منکوحہ عورتیں بھی۔ گویا عورتوں کے حق میں احصان (حفاظت کا حصار) کی دو صورتیں ہیں۔ جو عورتیں کسی معزز اور شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہیں وہ اپنے اس خاندان کی حفاظت کے حصار میں ہیں اور جو کسی کے نکاح کی قید میں ہیں انہیں اپنے خاوند اور نکاح کے اس تعلق کی حفاظت حاصل ہے۔ اس طرح خاندانی منکوحہ خا تون کو دوہرا ” اِحصان “ حاصل ہوتا ہے۔ چناچہ اگر کوئی شخص کسی پاکدامن خاندانی یا منکوحہ عورت پر زنا کا الزام لگائے اور : (وَّلَا تَقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًاج وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) ” اگر کوئی شخص کسی پاکدامن خاتون پر بدکاری کا الزام لگائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ چار چشم دیدگواہ پیش کرے۔ اگر وہ اس میں ناکام رہتا ہے تو اس کے اس الزام کو بہتان تصور کیا جائے گا ‘ اور زنا کے بہتان کی سزا کے طور پر اسے اسّی (٨٠) کوڑے لگائے جائیں گے۔ شریعت میں اسے ” حد قذف “ کہا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ سزا زنا کی سزا (سو کوڑے) کے قریب ہی پہنچ جاتی ہے۔ اس میں بظاہر یہ حکمت نظر آتی ہے کہ خواہ مخواہ برائی کی تشہیر نہ ہو۔ دراصل برائی کا چرچا بھی معاشرے کے لیے برائی ہی کی طرح زہر ناک ہے اور شریعت کا مقصود اس زہرناکی کا سدباب کرنا ہے۔ اس سلسلے میں شریعت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کہیں ایسی غلطی کا ارتکاب ہو تو قصور وار افراد کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔ لیکن اگر کسی قانونی سقم کی وجہ سے یا گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث جرم ثابت نہ ہوسکتا ہو اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو پھر بہتر ہے کہ اس سلسلے میں خاموشی اختیار کی جائے اور برائی کی تشہیر کر کے معاشرے کی فضا میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: جس طرح زنا ایک انتہائی گھناونا جرم ہے، اور اُس پر سزا بھی بڑی سخت رکھی گئی ہے، اسی طرح کسی بے گناہ پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے کو بھی نہایت سنگین جرم قرار دیا گیا ہے، اور اُس کی سزا اسّی کوڑے مقرّر کی گئی ہے۔ اس کو اس اصطلاح میں ’’حد قذف‘‘ کہا جاتا ہے۔ 5: یہ بھی جھوٹی تہمت کی سزا کا ایک حصہ ہے کہ ایسی تہمت لگانے والے کی گواہی کسی بھی مقدّمے میں قبول کی جائے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

قذف : ٤۔ ٥:۔ حقیقت میں جو مرد یا عورت بدکار ہوں ‘ اوپر ان کا ذکر تھا ‘ ان آیتوں میں ان مرد اور عورتوں کا ذکر ہے جن پارسا عورت یا مرد پر لوگ زبردستی بدکاری کا الزام لگا دیں۔ حاصل مطلب ان دونوں آیتوں کا یہ ہے کہ زبردستی الزام لگانے والے لوگ اگر الزام کے ثبوت میں چار گواہوں کی گواہی نہ لاویں تو اس جھوٹے الزام کی سزا میں ایسے لوگوں کے اسی کوڑے مارے جاویں اور ایسے لوگوں کی گواہی اس وقت تک کسی مقدمہ میں منظور نہ ہو جب تک یہ لوگ اپنی عادت سے خالص دل سے توبہ نہ کریں ‘ ہاں بعد توبہ کے اللہ غفور الرحیم ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔ زنا کے مقدمہ میں جس طرح لونڈی غلام کو پچاس کوڑے مارے جاتے ہیں ‘ اسی طرح اکثر سلف کے نزدیک زبردستی بدکاری کا الزام لگانے کے جرم میں لونڈی غلام پر چالیس کوڑوں کی سزا ہے چناچہ موطا ١ ؎ میں جو روایتیں ہیں ان میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے ‘ کوئی آقا اپنی لونڈی یا غلام کو بدکاری کا الزام لگادے تو آقا کو کوڑے مارنے کی سزا نہیں دی جاتی ‘ چناچہ اس کا ذکر صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ٢ ؎ سے ہے۔ (١ ؎ موطا (باب الحدفی القذف والنفی والتعریض ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب قذف العبید )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:4) یرمون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ رمی یرمی (ضرب) رمی ورمایۃ مصدر بمعنی پھینکنا۔ مادی چیزوں مثلاً تیر وغیرہ کے متعلق ہو تو اپنے اصلی معنوں میں اس کا مفہوم ہوتا ہے مثلاً وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی (8:17) اے پیغمبر جب تو نے تیر چلائے تو تم نے تیر نہیں چلائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تیر چلائے۔ لیکن جب اقوال کے متعلق ہو تو ” قذف “ کی طرح اس کے معنی تہمت طرازی کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ آیت ہذا میں یا آگے آیت نمبر 9 میں۔ یرمون وہ تہمت لگاتے ہیں۔ المحصنت۔ پاکدامن عورتیں۔ اسم مفعول جمع مؤنث۔ ثعلب نے کہا ہے کہ پاکدامن عورت کو محصنۃ (اسم فاعل) بھی کہا جاتا ہے اور محصنۃ (اسم مفعول) بھی۔ اور شوہر والی کو محصنۃ (اسم مفعول) کہیں گے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت اس کا شوہر کرتا ہے ۔ یعنی وہ شوہر کی حفاظت میں ہوتی ہے (نیز ملاحظہ ہو 4:24) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ اللہ کے ہاں بھی اور قانون کی نظر میں بھی۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 4 تا 10 : یرمون (تہمت لگاتے ہیں۔ الزام لگاتے ہیں) ‘ شھدائ (شھید) گواہ ‘ اربع (چار) ‘ لعنۃ ( پھٹکار۔ اللہ کی رحمت سے دوری) ‘ یدرئوا (دور کرتا ہے۔ ہٹادیتا ہے) ‘ فضل اللہ (اللہ کا فضل و کرم) ‘ تو اب (بہت توبہ قبول کرنے والا) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 4 تا 10 : دین اسلام ایک ایسے پاکیزہ ‘ صاف ستھرے اور صالح معاشرہ کا تصور دیتا ہے جس میں ہر شخص ایک دوسرے پر اعتماد اور آپس کی عزت و آبرہ کا محافظ ہو۔ کوئی کسی پر بےبنیاد الزام لگا کر اپنی آخرت کو اور اسلامی معاشرہ کے سکون کو برباد نہ کرے اور روحانی ‘ اخلاقی ‘ اور جسمانی اعتبار سے وہ ایک مضبوط ترین معاشرہ بن جائے۔ اگر کوئی شخص کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرتا ہے یعنی جھوٹا الزام لگاتا ہے اور وہ اپنے کہے ہوئے الفاظ پر گواہ پیش نہیں کرتا تو جھوٹی بات اور الزام لگانے پر اس کو بدترین سزادی جائے گی یعنی اس کو اسی (80) کوڑے مارے جائیں گے اور وہ کبھی کسی عدالت میں گواہی دینے کے قابل نہ رہے گا۔ سورۃ النور کی ابتدائی آیات میں ان ہی احکامات کو بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص کی عزت و آبرو بھی محفوظ ہوجائے اور اسلامی معاشرہ کی روح بھی برقرار رہے۔ ناجائز جنسی تعلق (زناض کی سزا بیان کرنے کے بعد اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ایک اور حکم ارشاد فرمایا ہے جس کے ذریعہ تنہا شوہر یا تنہا بیوی کی گواہی بھی قبول کی جاسکتی ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی شوہر نے اپنی کھلی آنکھوں سے بیوی کو عین حالت مباشرت میں دیکھا اور اس کے سوا کوئی دوسرا گواہ نہیں ہے تو اس شوہر کی گواہی پر فیصلہ ” لعان “ کے ذریعہ ہوگا۔ لعان کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر کسی اسلامی عدالت سے رجوع کرکے اس بات پر اپنی گواہی دے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو فلاں شخص سے عین حالت مباشرت میں خود دیکھا ہے۔ اسلامی عدالت کا کوئی قاضی اس سے کہے گا کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں اور پانچویں مرتبہ قسم کھا کر یہ کے کہ اگر یہ سب کچھ کہنے میں جھوٹا ہوں تو میرے اوپر اللہ کی لعنت (اللہ کا غیض و غضب نازل) ہو۔ الزام لگانے والا شوہر اگر الزام لگانے کے بعد قسم کھانے سے انکار کر دے تو اس کو قید کرلیا جائے گا ۔ اگر اس نے قسم کھانے سے مسلسل انکار کیا تو اس پر حد قذف جاری کی جائے گی یعنی اسی کو ڑے مارے جائیں گے اور ہمیشہ کے لئے اس کی گواہی کسی عدالت یا معاملہ میں قبول نہ کی جائے گی۔ اگر شوہر قسم کھالے گا تو اس عورت سے کہا جائے گا کہ وہ بھی شریعت کے احکام کے مطابق چار قسمیں کھا کر پانچویں مرتبہ اپنے اوپر لعنت بھیجے۔ اگر وہ عورت قسم کھانے سے انکار کرے تو اسکو اس وقت تک قید میں رکھا جائے گا جب تک وہ قسم نہ کھالے۔ اگر شوہر کے قسم کھانے کے بعد وہ خاموش رہتی ہے او کسی طرح جواب نہیں دیتی اور قسم بھی نہیں کھاتی تو عدالت کے فیصلے کے بعد اس پر شرعی حد جاری کی جائے گی۔ اگر شوہر کے قسمیں کھانے کے بعد اس کی بیوی بھی قسمیں کھا کر پانچویں مرتبہ لعان کرے تو شوہر کو چاہیے کہ وہ اس کو اسی وقت طلاق دیدے۔ اگر شوہر طلاق نہیں دے گا تو قاضی عدالت دونوں میں جدائی کرادے گا اور یہ جدائی کرانا طلاق کے قائم مقام ہوگی۔ طلاق یا جدائی کے بعد عورت اپنی عدت گذارے گی۔ عدت کے بعد وہ جہاں چاہے اپنا نکاح کرسکتی ہے اگر دوسرے شوہر سے بھی اس کو طلاق مل جائے تب بھی یہ عورت پہلے شوہر سے نکاح نہیں کرسکتی کیونکہ اب یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے قیامت تک حرام ہیں۔ جس طرح مردوں کے لئے احکامات ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہیں یعنی اگر کوئی عورت اپنے شوہر کو عین حالت مباشرت میں دیکھے تو وہ بھی عدالت سے رجوع کرسکتی ہے اور اس کا فیصلہ بھی اسی طرح ہوگا۔ جس طرح مرد کے الزام لگانے کے بعد ہوا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کو ہر طرح کی گندگیوں اور بےبنیاد الزامات سے پاک و صاف رکھنا ضروری ہے تاکہ باہمی اعتماد سے ایک روحانی اور اجتماعی معاشرہ پیدا ہو۔ خاص طور پر میاں بیوی کا معاملہ اور رشتہ تو نہایت نازک ہے کیونکہ اگر میاں بیوی کے رشتہ میں دراڑ پڑجائے اور باہمی اعتماد اٹھ جائے تو پھر ایسی شک و شبہ بھری زندگی گذارنے سے تو بہتر یہ ہے کہ اس شادی کے بندھن کو ہمیشہ کے لئے توڑ دیا جائے۔ اسی طرح شریعت کسی شخص کو اس بات کی کھلی چھٹی نہیں دیتی کہ وہ جب چاہے جس پر چاہ بےبنیاد اور گھناونا الزام لگا دے اور اس پر کوئی شہادت و گواہی بھی پیش نہ کرے۔ شریعت نے جتنی سخت زا اس ناجائز فعل کی رکھی ہے اسی طرح جھوٹی گواہی دینے والوں کو بھی کڑی سزا دی ہے تاکہ کوئی شخص کسی کی عزت و آبرو پر انگلی اٹھاتے وقت سیکڑوں مرتبہ سوچ لے۔ آخر میں فرمایا کہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے لعان کا راستہ بتا دیا کیونکہ جب میاں بیوی اعتماد کھوچکے ہیں تو ان کے ایسے ازدواجی تعلق کو ختم کردینا زیادہ بہتر ہے جس میں دن رات ایک دوسرے کے ہر عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ لعان کے سلسلہ میں چند ضروری مسال بھی پیش نظر رکھیئے۔ لعان سے پہلے سنت طریقہ یہ ہے کہ لعان جو ایک سخت معاملہ ہے اس کے الفاظ ادا کرنے سے پہلے عورت اور مرد دونوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور سمجھایا جائے گا تاکہ وہ اپنی قسم سے باز آجائیں۔ لعان کے بعد اگر عورت کو حمل رہ جاتا ہے تو حمل کی نسبت باپ کی طرف نہیں بلکہ ماں کی طرف کی جائے گی۔ لیکن کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس لڑکے کو ” ولد ا لزنا “ کہا جائے یا ماں کو زانیہ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ سے پکارا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت وضاحت سے فرمادیا ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیان لعان ہوجائے (یعنی باہمی قسمیں کھا لیں تو) ان دونوں کو ہمیشہ کے لئے جداکردیاجائے گا اور اب وہ کبھی نکاح میں جمع نہیں ہو سکتے۔ لعان کے بعد یہ عورت اس مرد سے الگ ہو کر عدت کے فیصلے کے بعد کسی سے بھی نکاح کرسکتی ہے لیکن وہ اپنے پہلے شوہر کی طرف رجوع نہیں کرسکتی کیونکہ اب یہ قیامت تک ایک دوسرے کے لئے حرام ہوچکے ہیں۔ اگر کسی نے لعان میں جھوٹی قسم کھائی تو وہ دنیاوی سزا سے بچ جائے گا لیکن قیامت میں اللہ کے عذاب سے بچنا ناممکن ہوگا۔ ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ ہر تہمت کا یہ حکم نہیں، بلکہ خاص تہمت بالزنا کا، گویہ قید صریحا مذکور نہیں، مگر اربعة شھداء اس پر دال ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بدکاری سے منع کرنے کے بعد پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور اس کی سزا مقرر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پاکدامن عورت اور نیک سیرت مرد کی عزت کا اس قدر احترام ہے کہ اس پر تہمت لگانے والے شخص پر یہ پابندی عائد کی ہے کہ اگر وہ تہمت لگانے میں سچا ہے تو اسے چار گواہ پیش کرنا ہونگے اگر اس کے پاس عاقل اور عادل چارگواہ موجود نہیں تو پھر اسے سرعام اسّی (٨٠) کوڑے لگائے جائیں گے۔ اس سزا کے ساتھ اس پر یہ بھی پابندی عائد کردی گئی ہے کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے کیونکہ بلاثبوت پاکدامن عورت اور مرد پر تہمت لگانے والے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک فاسق شمار ہوتے ہیں۔ البتہ جو لوگ سچے دل کے ساتھ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے۔ معاشرے کو اخلاقی بےراہ روی سے بچانے اور پاکدامن عورتوں اور مردوں کی عزت کا تحفظ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے چارگواہوں کی شرط لگا کر مسلمان معاشرے کو زبان درازی اور اخلاقی بےراہ روی سے بچانے کا قانون جاری فرمایا ہے۔ اس معاملے میں اس قدر سختی کی ہے کہ اگر چار عاقل اور راست باز گواہوں میں سے کسی ایک کی گواہی شریعت کے معیار پر پوری نہیں اترتی تو ان چاروں کی گواہی نہ صرف مسترد ہوگی بلکہ وہ سزا کے مستوجب قرار پائیں گے اور زندگی بھر ان کی گواہی مسترد کردی جائے گی۔ کہ اگر وہ سچی توبہ کریں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں تو اس کی گواہی منظور کی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے لیکن کچھ اہل علم نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ توبہ اور اصلاح کرنے کے باوجود اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ گواہی کا معیار : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ جَاء ہلاَلُ بْنُ أُمَیَّۃَ وَہُوَ أَحَدُ الثَّلاَثَۃِ الَّذِینَ تَاب اللَّہُ عَلَیْہِمْ فَجَاءَ مِنْ أَرْضِہِ عَشِیًّا فَوَجَدَ عِنْدَ أَہْلِہِ رَجُلاً فَرَأَی بِعَیْنَیْہِ وَسَمِعَ بِأُذُنَیْہِ فَلَمْ یَہِجْہُ حَتَّی أَصْبَحَ ثُمَّ غَدَا عَلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنِّی جِءْتُ أَہْلِی عِشَاءً فَوَجَدْتُ عِنْدَہُمْ رَجُلاً فَرَأَیْتُ بِعَیْنِی وَسَمِعْتُ بِأُذُنِی فَکَرِہَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا جَاءَ بِہِ وَاشْتَدَّ عَلَیْہِ فَنَزَلَتْ (وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَاءُ إِلاَّ أَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ أَحَدِہِمْ ) الآیَتَیْنِ کِلْتَیْہِمَا فَسُرِّیَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ أَبْشِرْ یَا ہلاَلُ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لَکَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا۔۔ ) [ رواہ ابو داؤد : باب فی اللعان ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہلال بن امیہ ان تین میں سے ایک ہیں جن کی اللہ نے توبہ قبول فرمائی۔ وہ اپنے کھیتوں سے عشاء کے وقت گھر آئے اس نے اپنی بیوی کے پاس کسی آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی آواز سنی مگر کسی کو بتایا نہیں یہاں تک کہ صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آکر کہنے لگے۔ میں اپنی بیوی کے پاس عشاء کے وقت آیا میں نے اس کے ہاں ایک آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور میرے کانوں نے دونوں کی آواز سنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خبر کو انتہائی ناپسندیدہ جانا اور آپ اس پر ناراض ہوئے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے سوا کوئی گواہ موجود نہیں اس کی گواہی یہ ہے کہ وہ چار قسمیں اٹھائے) یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوش ہوتے ہوئے فرمایا اے ہلال ! مبارک ہو اللہ عزوجل نے تیری پریشانی کو دور فرمایا اور اس سے تجھے نجات عطا فرمائی۔۔ “ مومن کی عزت بیت اللہ سے زیادہ : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ صَعِدَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لْمِنْبَرَ فَنَادَی بِصَوْتٍ رَفِیعٍ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ مَنْ قَدْ أَسْلَمَ بِلِسَانِہِ وَلَمْ یُفْضِ الإِیمَانُ إِلَی قَلْبِہِ لاَ تُؤْذُوا الْمُسْلِمِینَ وَلاَ تُعَیِّرُوہُمْ وَلاَ تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِہِمْ فَإِنَّہُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَۃَ أَخِیہِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّہُ عَوْرَتَہُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّہُ عَوْرَتَہُ یَفْضَحْہُ وَلَوْ فِی جَوْفِ رَحْلِہِ قَالَ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ یَوْمًا إِلَی الْبَیْتِ أَوْ إِلَی الْکَعْبَۃِ فَقَالَ مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَۃً عِنْدَ اللَّہِ مِنْکِ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی تَعْظِیمِ الْمُؤْمِنِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ممبر پر کھڑے ہوئے آپ نے اونچی آواز سے بلاتے ہوئے فرمایا اے جماعت تم میں سے جو زبانی کلامی اسلام لا چکا ہے اور ایمان اس کے دل میں راسخ نہیں ہوا۔ وہ مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچائیں، نہ عار دلائیں اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑیں جو کسی مسلمان کے عیوب کے پیچھے پڑتا ہے۔ اللہ اس کے عیوب کو آشکارا کر کے اسے رسوا کردیتا ہے اگرچہ اس نے وہ گناہ چھپ چھپا کے کیا ہو راوی کہتے ہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک دن بیت اللہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تیری عظمت بہت زیادہ ہے اور تیری حرمت عظیم تر ہے لیکن مومن کی عزت اور حرمت اللہ کے ہاں تجھ سے بڑھ کر ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلْکَبَاءِرُ الْاِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَےْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْےَمِےْنُ الْغَمُوْسُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَفِی رِوَاے َۃِ اَنَسٍ وَّشَھَادَۃُ الزُّوْرِ بَدَلَ الْےَمِےْنِ الْغَمُوْس) [ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) ذکر کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بڑے گناہ یہ ہیں۔ (١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (٢) والدین کی نافرمانی کرنا ‘ (٣) ناحق کسی کو قتل کرنا (٤) جھوٹی قسم اٹھانا (بخاری) حضرت انس (رض) کی روایت میں جھوٹی قسم کی جگہ جھوٹی شہادت دینے کے الفاظ ہیں۔ مسائل ١۔ پاکدامن عورت اور مرد پر تہمت لگانے والے کو چار گواہ پیش کرنا ہوں گے۔ ٢۔ جھوٹی تہمت لگانے والے کو اسّی (٨٠) کوڑے لگائے جائیں گے۔ ٣۔ جھوٹی تہمت لگانے والے کی گواہی قابل قبول نہیں۔ ٤۔ جھوٹی تہمت لگانے والے سچی توبہ کریں اور آئندہ کے لیے اصلاح کریں تو ان کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے۔ تفسیر بالقرآن جھوٹی گواہی دینے کا گناہ اور اس کی سزا : ١۔ سچی گواہی دینے کا حکم۔ (المائدۃ : ٨) ٢۔ سچی گواہی چھپانے کا گناہ۔ (البقرۃ : ٢٨٣) ٣۔ گواہی چھپانے والے ظالم ہیں۔ (البقرۃ : ١٤٠) ٤۔ جھوٹی گواہی سے بچنے والوں کی تعریف۔ (الفرقان : ٧٢) ٥۔ گواہی پر قائم رہنے والوں کی جنت میں تکریم ہوگی۔ (المعارج : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(والذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھم الفسقون ) (٤ زبانوں کو کھلا چھوڑ دینا کہ وہ پاک و صاف عورتوں (محصنات) پر تہمتیں لگاتے پھریں۔ محسنات وہ کنواری اور شادی شدہ عورتیں ہوتی ہیں جن پر زنا کے جرم کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے لیکن اس الزام کی پشت پر کوئی دلیل قاطع نہ ہو۔ اس طرح کہ بغیر کسی ثبوت کے کوئی کسی بےگناہ مرد یا عورت پر اس گھٹائو نے جرم کا الزام لگاتا پھرے اور اس پر اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ یوں صبح و شام معاشرے میں لوگوں کی عزتوں پر حملہ ہوتا رہے ‘ معاشرہ بد نام ہوتا رہے اور ہر شخص پر الزام لگنے کے مواقع عام ہوں۔ یا مرد اپنی بیوی پر شک کرے۔ ہر شخص کو اپنے اصل و نسل کے بارے میں شک ہوجائے۔ ہر خاندان کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہو۔ تہمت ‘ الزام اور شک کے یہ وہ حالات ہوں گے جن میں کسی شخص کو کوئی اطمینان نہ ہوگا۔ پھر اگر زنا کاری کے الزامات اس طرح لگائے جاتے رہیں تو عام لوگوں کو اس جرم کے ارتکاب کی جرأت ہوگی۔ لوگ کہیں گے کہ سوسائٹی میں ہر طرف اس جرم کا چر چاہے۔ اس طرح جو شخص اس سے بچنا بھی چاہتا ہوگا ‘ وہ بھی اس میں ملوث ہوجائے گا۔ کمازکم بار بار کے الزامات کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا ارتکاب اس قدر گھنائو نا نہ رہے گا۔ ایک عام آدمی کا تاثر بھی یہ ہوگا کہ عام لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اگر الزام زنا بلاثبوت کو جرم نہ قرار دیا جائے تو پھر زنا کی اس شدید سزا کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا اور پوری سوسائٹی کی فضا اس جرم میں ملوث ہوگی اور فحاشی کے ارتکاب میں اضافہ ہوگا۔ ان وجوہات کی بناء پر ‘ لوگوں کو ناجائز تہمتوں سے بچانے کی خاطر ‘ اور اس الزام کی وجہ سے لوگوں کی عزت کو بچانے کی خاطر قرآن کریم نے حد قذف کی سزا میں سختی کی ہے۔ اس قدر سختی کہ اس کی سزا کو ارتکاب جرم کی سزا کے قریب قریب قرار دیا ہے۔ یعنی ٨٠ کوڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ ایسا شخص فاسق قرار پائے گا اور آئندہ کبھی بھی اس کی شہادت قبول نہ ہوگی۔ پہلی سزا یعنی ٨٠ کوڑے تو جسمانی سزا ہے اور دوسری سزا تادینی سزا ہے کہ سوسائٹی کے اندر زنا کا الزام لگانے والے کی بات بےوقعت ہوجائے کہ آئندہ اس کی کسی بات پر کوئی اعتبار نہ ہوگا۔ تیسری سزا دینی سزا بھی ہے کہ وہ اسلام کی سیدھی راہ سے پھر گیا ہے الا یہ کہ وہ چار گواہ لائے یا تین گواہ اپنے ساتھ لائے اگر اس نے خود دیکھاہو۔ اس وقت اس کی بات درست سمجھی جائے گی اور ملزم پر پھر حد زنا نافذ ہوگی۔ جہاں تک اسلامی سوسائٹی کی ترجیحات کا تعلق ہے اگر اس میں ایسے الزام کو دبا دیا جائے جس کی پشت پر کوئی ثبوت نہ ہو ‘ تو اس صورت میں کوئی نقصان نہ ہوگا جس طرح کا نقصان اس صورت میں ہوگا کہ فحاشی کا چرچا ہوجائے اور اس پر کوئی ثبوت نہ ہو۔ کیونکہ اس صورت میں کئی لوگ اس گندے جرم کے ارتکاب پر آمادہ ہو سکتے ہیں ‘ جبکہ عام طور پر وہ اس سے بچتے تھے ‘ اور وہ یہ سمھجتے تھے کہ یہ نہایت ہی ممنوع فعل ہے اور اس کا ارتکاب نادرست ہے رہی یہ بات کہ پاک دامن عورتوں پر اس الزام کی وجہ سے کیا گزرتی ہے اور اس سے معاشرے کے اندر جو بےاطمینانی پھیلتی ہے اور جس طرح گھرانے تباہ ہوتے ہیں یہ ایک عام بات ہے اور اسے ہر شریف آدمی اچھی طرح سمجھتا ہے۔ غرض الزام لگانے والے (قاذف) کے سر پر سڑائوں کی تلوار ہر وقت سونتی رہتی ہے۔ الا یہ کہ :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پاک دامن عورتوں کو تہمت لگانے والوں کی سزا اسلام میں مومن مرد و عورت کی آبرو کی بڑی حیثیت ہے اگر کوئی مرد یا کوئی عورت کسی پاک دامن مرد یا عورت کو صاف لفظوں میں زنا کی تہمت لگا دے مثلا یوں کہہ دے کہ اے زانی، اے رنڈی، اے فاحشہ اور جسے تہمت لگائی ہے وہ قاضی کے ہاں مطالبہ کرے کہ فلاں شخص نے مجھے ایسے ایسے کہا ہے تو قاضی اسے اسی کوڑوں کی سزا دے گا۔ فقہاء کی اصطلاح میں اس کو حد قذف کہتے ہیں۔ یہ کوڑے متفرق طور پر اعضاء جسم پر مارے جائے گے اور اس کے کپڑے نہ اتارے جائیں گے جو عام طور سے پہنے ہوتے ہیں البتہ روئی کے کپڑے یا پوستین یا ایسی چیز جو چوٹ لگنے سے مانع ہو اس کو اتار لیا جائے گا۔ تہمت لگانے والے کی یہ جسمانی سزا ہوئی اس کے علاوہ ایک سزا اور بھی ہے اور وہ یہ کہ جس شخص کو حد قذف لگائی گئی اس شخص کی گواہی کبھی بھی کسی بارے میں بھی مقبول نہیں ہوگی اگر اس نے توبہ کرلی تو توبہ سے گناہ تو معاف ہوجائے گا لیکن گواہی کے قابل پھر بھی نہ مانا جائے گا۔ اس کا یہ عزت کا مقام ہمیشہ کے لیے چھین لیا گیا کہ وہ کبھی کسی معاملہ میں گواہ بنے، حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک آیت بالا کا یہی مفہوم ہے (اِلاَّ الَْذِیْنَ تَابُوْا) جو استثنا ہے ان کے نزدیک (وَ لاَ تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا) سے استثناء نہیں ہے بلکہ (وَ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ ) سے استثناء ہے یعنی توبہ کرنے سے فسق کا حکم ختم ہوجائے گا لیکن فیھا بین العباد وہ گواہ بننے کے بلند مقام سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” والذین یرمون الخ “ یہ تیسرا حکم ہے جب یہ بات واضح ہوگئی کہ مومنوں کی شان سے بعید ہے کہ وہ زنا ایسے برے فعل کا ارتکاب کریں تو اب اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت یا پارسا مرد پر زنا کی تہمت لگا دے تو اس سے چار گواہوں کا مطالبہ کیا جائے اگر وہ چار قابل اعتماد گواہ پیش نہ کرسکیں تو انہیں حد قذف یعنی تہمت لگانے کی سزا کے طور پر اسی درے مارے جائیں۔ ” ولا تقبلوا لھم الخ “ اور آئندہ کے لیے کسی معاملہ میں کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کی جائے۔ ” اولئک ھم الفسقون “ یہ تہمت لگانے والوں کے حال کا بیان ہے اور جملہ مستانفہ ہے کلام مستانف غیر داخل فی حیز جزاء الشرط کانہ حکایۃ حال ارامین عند اللہ بعد انقضاء الجملۃ الشرطیۃ (مدارک ج 3 ص 102) کذا فی البحر المحیط ج 6 ص 432 ۔ ” الا الذین قالوا الخ “ یہ ” الفسقون “ سے استثناء ہے یعنی اگر تہمت لگانے والوں نے توبہ کرلی اور اپنے کیے پر نادم ہوگئے اور آئندہ کے لیے اپنے اعمال کی اصلاح کرلی تو ان سے فسق کا نام اٹھ جائیگا ای رجعوا عما قالوا و ندموا علی ما تکلموا استثنا من الفاسقین کما صرح بہ اکثر الاصحاب۔ کون الاستثناء من الجملۃ الاخیرۃ مذھب الحنفٰہ فندھم بل الظاھر ھو ما یعضدہ کلام العرب وھو الرجوع الی الجملۃ التی تلیھا الخ (بحر ج 6 ص 433) جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان چار اشخاص (عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین) حضرت حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش پر حد قذف قائم فرمائی جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے قذف میں حصہ لیا تھا کما فی التفسیر الکبیر ج 6 ص 353 و ارشاد العقل السلیم لابی السعود ج 6 ص 343) ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ آپ نے کسی پر بھی حد قائم نہیں فرمائی (کما فی روح المعانی ج 8 ص 116) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور عفیفہ عورتوں کو عیب لگائیں پھر چار گواہ عینی اپنے دعوے پر نہ لاسکیں تو ایسے لوگوں کو اسی 80 درے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ اور یہ لوگ ہیں بےحکم اور فاسق۔ پاک دامن اور عفیفہ عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے والوں کو حکم فرمایا کہ ایسے لوگ چار گواہ عینی اپنے دعوے پر پیش کریں جو زنا کا واقعہ اپنی آنکھوں دیکھا بیان کریں چونکہ زنا کی سزا کوڑے یا رجم ہے۔ لہٰذا سزا کی شدت کے مقابلہ میں گواہی بھی سخت مقرر کی کہ ایسے دعوے پر چار گواہ پیش کرو جو یہ بیان کریں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس عورت کو فلاں شخص کے ساتھ زنا کا مرتکب دیکھا۔ اگر اس قسم کے گواہ پیش نہ کرسکے تو اسی 80 درے لگائو اس سزا کو شریعت میں حد قذف کہتے ہیں۔ یہ حد قذف مقذوف کے مطالبے پر جاری کی جاتی ہے۔ مقذوف خواہ عورت ہو یا مرد دونوں کا یہی حکم ہے۔ یہ اسی 80 کوڑے کی سزا اس قاذف پر ہے جو حر اور آزاد ہے ورنہ اگر قاذف غلام ہو تو آدھی سزا یعنی چالیس 40 کوڑے۔ یہ قذف کی سزا اس وقت دی جائے گی جب کہ مقذوف محصن یا محصنہ ہو یہاں احصان کی پانچ شرطیں ہیں۔ (1) حر یعنی آزاد ہو۔ (2) بالغ ہو (3) عاقل ہو (4) مسلمان ہو (5) عفیف ہو زنا سے۔ یعنی اس نے اپنی عمر میں زنا کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ نہ شبہ زنا کا مرتکب ہوا ہو اور نہ نکاح فاسد سے عورت کے ساتھ وطی کی ہو۔ اگر یہ پانچوں شرطیں کسی مرد یا عورت میں پائی جائیں اور کسی ایسے پاک دامن مرد یا عورت پر کوئی زنا کی تہمت لگائے اور چار گواہ پیش نہ کرسکے اور مقذوف مطالبہ کرے تو قاذف پر حد قذف یعنی اسی 80 دروں کی سزا جاری ہوگی یہ درے تمام بدن پر سوائے سر اور چہرے کے مارے جائیں گے اور گرم کپڑوں کے سوا باقی کپڑے نہیں اتروائے جائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی کبھی ان کو بری بات میں نہیں دیکھا اور یہی حکم ہے جو مرد کو عیب لگائے عیب کہا ہے بدکاری کو۔ 12