Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 5

سورة النور

اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡا ۚ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾

Except for those who repent thereafter and reform, for indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو اللہ تعالٰی بخشنے والا اور مہربانی کرنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Except those who repent thereafter and do righteous deeds; (for such) verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful. This exception refers to the second and third rulings mentioned above. The flogging has been carried out regardless of whether he repents or persists, and after that there is no further punishment, as is agreed among the scholars. If he repents, then his testimony may be accepted, and he is no longer to be regarded as a rebellious. This was the view of Sa`id bin Al-Musayyib -- the leader of the Tabi`in -- and also a group among the Salaf. Ash-Sha`bi and Ad-Dahhak said, "His testimony cannot be accepted even if he does repent, unless he himself admits that he said something false, in which case his testimony may be accepted." And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51توبہ سے کوڑوں کی سزا تو معاف نہیں ہوگی، تائب ہوجائے یا اصرار کرے، یہ سزا تو بہرحال ملے گی البتہ دوسری دو باتیں جو ہیں اس کے بارے میں اختلاف ہے، بعض علماء اس استثنا کو فسق تک محدود رکھتے ہیں۔ یعنی توبہ کے بعد فاسق نہیں رہے گا۔ اور بعض مفسرین دونوں جملوں کو اس میں شامل سمجھتے ہیں، یعنی توبہ کے بعد مقبول الشہادۃ بھی ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] سابقہ آیت میں تہمت لگانے والوں کے لئے تین باتوں کا ذکر ہوا۔ جن میں سے دو تو حکم ہیں۔ یعنی انھیں اسی کوڑے لگاؤ اور آئندہ۔ ان کی کبھی شہادت قبول کرو اور تیسری خبر ہے کہ ایسے لوگ بدکردار ہیں۔ اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ جو لوگ اللہ کے حضور توبہ کرلیں۔ انھیں پوری طرح اپنے گناہ کا احساس اور ندامت ہو اور آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کریں تو اب وہ عند اللہ اور عندالناس فاسق نہیں رہیں گے۔ البتہ پہلی دونوں دنیوی سزائیں انھیں بھگتنا ہی ہوں گی۔ تاہم بعض علماء نزدیک اپنی اصلاح اور توبہ کے بعد وہ مقبول الشہادت بھی قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی دلیل یہی ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جھوٹی تہمت لگانے والا کم از کم دو افراد پر تو ضرور تہمت لگانا ہے یعنی ایک مرد اور ایک عورت پر اور اس تہمت کی لپیٹ میں زیادہ افراد بھی آسکتے ہیں۔ اب جو اسے حد لگے گا وہ ہر ایک کے لئے اسی (٨٠) کوڑے نہیں لگے گا بلکہ ایک ہی حد لگے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا ۔۔ : اس بات پر اتفاق ہے کہ توبہ سے بہتان کی حد معاف نہیں ہوگی، اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ توبہ اور اصلاح کے بعد اس سے فسق کا حکم اٹھ جائے گا، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ توبہ اور اصلاح کے بعد اس کی شہادت قبول ہوگی یا نہیں۔ طبری (رض) نے حسن سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ذکر کیا ہے کہ انھوں نے ” وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا “ پڑھا اور فرمایا : ” پھر جو شخص توبہ اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔ “ اگرچہ بعض لوگوں کے مطابق توبہ اور اصلاح کے بعد بھی اس کی شہادت قبول نہیں ہوگی، مگر صحیح بات یہی ہے کہ اگر بہتان لگانے والا توبہ کرے کہ آئندہ میں ایسی بات نہیں کروں گا اور واقعی اپنی اصلاح کرلے اور ایسی کوئی غلطی نہ کرے تو اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔ کیونکہ مردود الشہادہ تو وہ فسق کی وجہ سے تھا، جب فسق نہ رہا تو شہادت کیوں قبول نہ ہو۔ اس کے علاوہ یہ کہ توبہ سے تو کفر و شرک بھی معاف ہوجاتا ہے، قذف تو اس سے کہیں کم گناہ ہے۔ رہا لفظ ” اَبَدًا “ (ہمیشہ) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ تہمت لگانے سے باز نہ آئے، خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے، اس کی شہادت مت قبول کرو۔ رہی وہ مدت جس سے اس کی توبہ اور اصلاح ثابت ہوجاتی ہے تو بعض لوگوں نے اس کے لیے ایک سال مدت مقرر کی ہے، مگر یہ بات کتاب و سنت سے ثابت نہیں، اس لیے یہ بات قاضی پر چھوڑ دی جائے گی، اگر اسے کسی بھی مدت میں اس کی توبہ اور اصلاح کا یقین ہوجائے تو وہ اس کی شہادت قبول کرسکتا ہے، کیونکہ یقیناً اللہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی، وہ توبہ کے بعد بیحد پردہ پوشی بھی کرتا ہے اور رحم بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ Except those who repent afterwards and mend their ways; then, Allah is All-Forgiving, Very-Merciful. (24:5) Those who have been punished for false accusation of adultery, if they beg pardon and improve their habits, so that there is no risk of repetition of falsehood from them and also obtain forgiveness from one they had accused, then Allah Ta’ ala grants forgiveness and is Merciful. This exemption, that isإِلَّا الَّذِينَ تَابُوا refers to only the last sentence of the previous verse according to Imam Abu Hanifah (رح) and some other Imams, which is وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (24:4). So, with this exemption it means that the one who is punished for false accusation is a sinner, but if he repents with sincerity and improves himself after obtaining forgiveness from the one he had falsely accused, then he will no longer remain a sinner, and his punishment will be pardoned in the Hereafter. In other words the two punishments meant for this world, which are referred in the beginning of the verse, that is eighty stripes and inadmissibility of his evidence, will remain despite the repentance. It is because the big punishment of stripes has already been executed and the second punishment is part of hadd. All scholars are unanimous on the point that repentance does not remit punishment of hadd, only the torment of the Hereafter is pardoned. Since inadmissibility of the evidence is part of hadd, it will not be remitted by repentance. Imam Shafi&i (رح) and some other Imams have taken this exemption toward all the sentences of the previous verse, which means that as one does not remain sinner after repentance, hence he would also not be debarred from giving evidence. Jassas and Mazhari have provided arguments on both sides - Those interested may consult them.

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، یعنی وہ لوگ جن پر تہمت زنا کی حد شرعی جاری کی گئی ہے اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی حالت درست کرلیں کہ آئندہ اس طرح کے اقدام کا اس سے خطرہ نہ رہے اور جس پر تہمت لگائی تھی اس سے بھی معاف کرالیں تو اللہ تعالیٰ مغفرت کرنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔ یہ استثناء اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا کا امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک آیت سابقہ کے صرف آخری جملے کی طرف راجع ہے۔ یعنی وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ ، تو مطلب اس استثناء کا یہ ہے کہ جس پر حد قذف جاری ہوئی ہے وہ فاسق ہے لیکن اگر وہ صدق دل سے توبہ کرے اور اپنی حالت کی اصلاح بھی مقذوف سے معافی لے کر کرے تو پھر وہ فاسق نہیں رہے گا اور آخرت کی سزا اس سے معاف ہوجائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں جو اس پر دو سزاؤں کا ذکر اس آیت کے شروع میں ہے یعنی اسی کوڑے لگانا اور مردود الشہادت کردینا یہ سزائیں توبہ کے باوجود اپنی جگہ رہیں گی کیونکہ ان میں سے ایک بڑی سزا کوڑے لگانے کی وہ تو جاری ہو ہی چکی ہے دوسری سزا بھی چونکہ اسی حد شرعی کا جزو ہے اور یہ سب کے نزدیک مسلم ہے کہ توبہ سے حد شرعی معاف نہیں ہوتی اگرچہ آخرت کا عذاب گناہ معاف ہو کر ٹل جاتا ہے۔ تو جب مردود الشہادت ہونا بھی حد شرعی کا جزو ہے تو وہ توبہ سے معاف نہ ہوگا۔ امام شافعی اور بعض دوسرے ائمہ نے استثناء مذکور کو آیت سابقہ کے سب جملوں کی طرف راجع کیا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ توبہ کرلینے سے جیسا کہ وہ فاسق نہیں رہا اس لئے مردود الشہادت بھی نہیں رہے گا۔ جصاص اور مظہری میں دونوں طرف کے دلائل اور جوابات کی تفصیل مذکور ہے اہل علم وہاں دیکھ سکتے ہیں۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا۝ ٠ۚ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٥ توب التَّوْبُ : ترک الذنب علی أجمل الوجوه وهو أبلغ وجوه الاعتذار، فإنّ الاعتذار علی ثلاثة أوجه : إمّا أن يقول المعتذر : لم أفعل، أو يقول : فعلت لأجل کذا، أو فعلت وأسأت وقد أقلعت، ولا رابع لذلک، وهذا الأخير هو التوبة، والتَّوْبَةُ في الشرع : ترک الذنب لقبحه والندم علی ما فرط منه، والعزیمة علی ترک المعاودة، وتدارک ما أمكنه أن يتدارک من الأعمال بالأعمال بالإعادة، فمتی اجتمعت هذه الأربع فقد کملت شرائط التوبة . وتاب إلى الله، فذکر «إلى الله» يقتضي الإنابة، نحو : فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ [ البقرة/ 54] ( ت و ب ) التوب ( ن) کے معنی گناہ کے باحسن وجود ترک کرنے کے ہیں اور یہ معذرت کی سب سے بہتر صورت ہے کیونکہ اعتذار کی تین ہی صورتیں ہیں ۔ پہلی صورت یہ ہے کہ عذر کنندہ اپنے جرم کا سرے سے انکار کردے اور کہہ دے لم افعلہ کہ میں نے کیا ہی نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے لئے وجہ جواز تلاش کرے اور بہانے تراشے لگ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اعتراف جرم کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا یقین بھی دلائے افرض اعتزار کی یہ تین ہی صورتیں ہیں اور کوئی چوتھی صورت نہیں ہے اور اس آخری صورت کو تو بہ کہا جاتا ہ مگر شرعا توبہ جب کہیں گے کہ گناہ کو گناہ سمجھ کر چھوڑ دے اور اپنی کوتاہی پر نادم ہو اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔ اگر ان گناہوں کی تلافی ممکن ہو تو حتی الامکان تلافی کی کوشش کرے پس تو بہ کی یہ چار شرطیں ہیں جن کے پائے جانے سے توبہ مکمل ہوتی ہے ۔ تاب الی اللہ ان باتوں کا تصور کرنا جو انابت الی اللہ کی مقتضی ہوں ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً [ النور/ 31] سب خدا کے آگے تو بہ کرو ۔ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص کو زنا کاری کی بنا پر حاکم کی طرف سے کوڑے لگائے گئے ہوں اور اس کے بعد سزا یافتہ شخص توبہ کرلے تو توبہ کے بعد اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ اور حاکم کا حکم توبہ کے بعد اس کی گواہی قبول کرنے میں مانع نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ زانی کی گواہی کا بطلان حاکم کے حکم کی بنا پر نہیں ہوا تھا بلکہ حاکم کی طرف سے اسے حدلگانے سے قبل ہی اس کی زناکاری کی بنا پر اس کے فسق کے ظہور کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب اس کے بطلان شہادت کا حاکم کے حکم کے ساتھ تعلق نہیں تھا بلکہ اس کے اپنے فعل کے ساتھ تھا تو اس کی طرف سے توبہ کے ظہور پر اس کی گواہی کی بحالی کا جواز ہوگیا۔ اس کے بالمقابل قاذف کی گواہی اس کے قذف کی بنا پر باطل نہیں ہوتی جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اس قذف میں سچا ہوا اور اس پر جھوٹ اور فسق کا حکم صرف اسی وقت عائد ہوگاجب حاکم کی طرف سے اسے کوڑے لگائے جائیں گے لیکن اس سے پہلے اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے قذف نہیں کیا ہے۔ اس پر سنت کی جہت سے بھی دلالت ہورہی ہے۔ قاذف کی بعداز توبہ گواہی قابل قبول ہے عباد بن منصور نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے ہلال (رض) بن امیہ کے واقعہ میں روایت کی ہے کہ جب انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی بیوی کو قذف کرتے ہوئے اس پر شریک بن سمحاء کے ساتھ زنا کاری کی تہمت لگادی تو اس موقعہ پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا (الجلد ھلال وتبطل شھادتہ عند المسلمین۔ کیا ایسا ہوجائے گا کہ ہلال کو کوڑے لگیں اور مسلمانوں کے نزدیک ان کی گواہی باطل قرار دی جائے) منصور نے باقی ماندہ حدیث کی بھی روایت کی ہے۔ اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ کوڑے لگنے کے ساتھ ہی گواہی باطل ہوجاتی ہے اور اسے قبول کرنے کے لئے توبہ کی کوئی شرط نہیں ہوتی۔ الحجاج بن ارطاۃ نے عمروبن غیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (المسلمون عدول بعضھم علی بعض الامحدودا فی قذف۔ تمام مسلمان ایک دوسرے پر گواہی دینے کے معاملے میں عادل ہیں سوائے اس شخص کے جسے حد قذف لگ گئی ہو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توبہ کے وجود کا استثناء میں فرمایا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حامد بن محمد نے، انہیں شریح نے، انہیں مروان نے یزید بن ابی خالد سے، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا تجوزفی الاسلام شھادۃ مجوب علیہ شھادۃ زور، ولا خائن ولا خائنۃ ولا مجلود حدا ولاذی غمرلا خیہ ولا الصانع لا ھل البیت ولا طنین ولا قرابۃ۔ اسلام میں ایسے شخص کی گواہی جائز نہیں جس کی چھوٹی گواہی کا لوگوں کا تجربہ ہو، اسی طرح خائن مرد اور رخائن عورت کی گواہی، نیز حد میں کوڑوں کے کے سزا یافتہ شخص کی گواہی، اپنے بھائی کے ساتھ کینہ رکھنے والے کی گواہی، کسی خاندان کے ساتھ احسان کرنے والے کی اس خاندان کے حق میں گواہی تیز مہتم شخص اور رشتہ دار کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حد کے طور پر سزا یافتہ انسان کی گواہی کو باطل قرار دے دیا۔ آپ کے اس ارشاد کا ظاہری طور پر یہ اقتضاء ہے کہ تمام سزا یافتہ افراد کی گواہی باطل قرار دی جائے خواہ انہیں قذف کے سلسلے میں یا اس کے علاوہ کسی حد میں سزا ملی ہو۔ تاہم اس بات پر دلالت قائم ہوچکی ہے کہ قذف کے سوا دوسرے جرائم میں حد کے طور پر سزا یافتہ افراد کی گواہی قابل قبول ہوگی جب وہ اپنے ان جرائم سے توبہ کرلیں جن کی بنا پر انہیں حد لگی تھی۔ لیکن قذف کے سلسلے میں حد کی سزا پانے والے کی گواہی قبول کرنے کے بارے میں کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی۔ اس لئے اس کے حکم کو اس کے لفظ کے عموم پر رکھا جائے گا خواہ وہ توبہ کرلے یا نہ کرے۔ ہم نے قذف کے سوا دوسرے جرائم کے سلسلے میں حد کی سزا پانے والوں کی گواہی قابل قبول قرار دی ہے بشرطیکہ یہ تائب ہوجائیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے افراد کی گواہی کا بطلان ان کے فسق کے ساتھ متعلق ہے۔ اس لئے جب ایسے افراد سے فسق کا نشان زائل ہوجائے گا ان کی گواہی قابل قبول قرار دے دی جائے گی۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ زنا، سرقہ یا شراب نوشی کا وہ فعل جس کی بنا پر ایک شخص حد کا سزاوار قرار پاتا ہے، اس پر حد جاری ہونے سے پہلے ہی اس کی تفسیق کا موجب بن جاتا ہے ۔ جب ایسے شخص کے بطلان شہادت کا حد کے ساتھ تعلق نہیں ہے تو اس کی حیثیت دوسرے تمام فساق کی طرح ہوگی کہ جب یہ توبہ کرلیں گے تو ان کی گواہی قابل قبول ہوجائے گی۔ اس کے برعکس حد قذف کا سزا یافتہ انسان جب تک حد کی سزا نہیں پالیتا اس وقت تک قذف کا یہ فعل اس کی گواہی کے بطلان کا موجب نہیں بنتا اس لئے کہ اس میں یہ احتمال ہوتا ہے کہ شاید اس نے زنا کی جو تہمت لگائی ہے وہ درست ہی ہو۔ ایسے شخص کی گواہی اس وقت باطل قرار دی جاتی ہے جب اس پر حد قذف جاری ہوجاتی ہے اس لئے توبہ کی وجہ سے یہ حکم اس سے زائل نہیں ہوسکتا۔ قول باری ہے (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ایدا) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ زنا کی گواہی دینے والوں کی تعداد چار ہونی چاہیے جس طرح قول باری (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) تم اپنے مردوں میں سے دو افراد کو گواہ بنالو۔ نیز یہ ارشاد (واشھدواذوی عدل منکم۔ اور انپے میں سے دو عادل افراد کو گواہ بنالو۔ ) اس امر کو واجب کردیتا ہے کہ مذکورہ تعداد یعنی دو افراد کی گواہی ضروری ہے اور اس سے کم پر انحصار کرنا ممتنع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب افک یعنی حضرت عائشہ (رض) کے خلاف بہتان طرازی کرنے والوں کے ذکر کے موقع پر سیاق تلاوت میں فرمایا : لو لا جائوا علیہ باربعۃ شھدآء فاذکم یاتوا بالشھدآء فاولئک عند اللہ ھم الکاذبون۔ ) انہوں نے اس بات پر چارگواہ کیوں نہیں پیش کیے، جب انہوں نے چار گواہ نہیں پیش کیے تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے گواہوں کی وہ تعداد جو قاذف کی حد کی سزا سے بری کر اسکتی ہے، چار مقرر کی۔ اور اس تعداد میں گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں اس پر جھوٹ کا حکم صادر فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کے گواہوں کی تعداد اپنے اس قول میں بھی بیان کی ہے (والاتی یاتین الفاحشۃ من نساء کم فاستشھدوا علیھن اربعۃ منکم ۔ تمہاری وہ عورتیں جو بدچلنی کی مرتکب ہوتی ہیں ان پر اپنے میں سے چار گواہ قائم کرو) پھر قذف کا ذکر کرتے ہوئے چار گواہوں کی تعداد کا دوبارہ ذکر کیا۔ اس کے ذریعے گویا ہمیں یہ بتادیا کہ قاذف کو بھی حد قذف سے چار گواہوں کی گواہی بری کر اسکتی ہے۔ فاسق قاذفین کی شہادتوں پر آرائے ائمہ اگر قاذف چار فاسق قسم کے گواہ لے آئے اور وہ مقدوف کے خلاف زنا کی گواہی دیے دیں تو اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب، عثمان البتی اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ گواہوں کو حد نہ لگے گی خواہ وہ فساق ہی کیوں نہ ہوں جسن بن زیاد نے امام ابویوسف سے ایک شخص کے متعلق روایت کی ہے جس نے کسی پر زنا کی تہمت لگادی اور پھر چار فاسق قسم کے گواہ پیش کردیے جنہوں نے یہ گواہی دی کہ واقعی فلاں شخص زانی ہے تو اس صورت میں قاذف کو حد لگے گی اور گواہوں کو حد نہیں لگے گی۔ زفر کا قول ہے کہ قاذف او شہود دونوں سے حد ہٹالی جائے گی یعنی نہ قاذف کو حد لگے گی اور نہ ہی گواہوں کو۔ امام مالک اور عبید اللہ بن الحسن کا قول ہے کہ گواہوں کو بھی حد لگے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا اس صورت میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر قاذف چار کافر یا حد قذف میں سزا یافتہ یا غلام یا بینائی سے محروم گواہ پیش کرے گا تو قاذف کو نیز گواہوں کو بھی حد لگے گی۔ لیکن اگر گواہ فاسق قسم کے لوگ ہوں تو ظاہر قول باری (ثم لم یا تو بالربعۃ شھداء) انہیں بھی شامل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قاذف کو حد کی سزا سے بری قرار دینے کے لئے عادل گواہوں کی شرط نہیں لگائی ہے جس کی بنا پر فاسق گواہ بھی اس حکم میں داخل ہیں۔ اس لئے آیت کے مقتضیٰ کے بموجب چار فاسق گواہ پیش کرنے کی صورت میں بھی قاذف سے حد کی سزا موقوف ہوجائے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حد کے وجوب کی شرط رکھی ہے کہ قاذف چار گواہ پیش نہ کرسکے۔ اب زیر بحث صورت میں اس نے چار گواہ پیش کردیے ہیں اس لئے کہ شہداء ان لوگوں کے لئے اس م ہے جو شہادت یعنی گواہی پیش کریں۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہماری درج بالا وضاحت کی روشنی میں کافر اور حد قذف میں سزا یافتہ گواہوں کے سلسلے میں یہی بات لازم آتی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر آیت اسی کا متقاضی ہے کہ ایسے گواہوں کی گواہی بھی قبول کرلی جائے لیکن ہم نے دلالت کی بنا پر ان کی تخصیص کردی ہے اور انہیں ظاہر آیت کے حکم میں شامل نہیں کیا ہے۔ نیز فاسق لوگوں کی گواہی صرف تہمت ، فسق کی بنا پر رد کردی جاتی ہے۔ اور یہ چیز گواہی رد کرنے کے سلسلے میں ایک شبہ کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ ان لوگوں پر اس شبہ کی بنا پر حد واجب کردی جائے۔ جس کی وجہ سے ان کی گواہی رد کردی گئی تھی۔ اس گواہی کی وجہ سے قاذف سے بھی حد ساقط ہونا واجب ہوجائے گی جس طرح گواہوں سے ہم نے حد ساقط کردی کیونکہ شبہ کا نتیجہ یہ ہوگا ہے کہ اس کی وجہ سے حد ساقط ہوجاتی ہے اور اس کی بنا پر حد واجب نہیں ہوتی البتہ وہ شخص جسے قذف کے سلسلے میں حد لگ چکی ہو، نیز کافر، غلام اور نابینا ان سب کی گواہی کسی تہمت یا شبہ کی بنا پر رد نہیں ہوتی۔ بلکہ ہم نے ان کی گواہی ان اسباب کی بنا پر رد کی ہے جو ان افراد کی ذات میں یقینی طور پر پائے جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے ان کی گواہی باطل قرار دی جاتی ہے۔ یہ اسباب درج ذیل ہیں۔ یعنی حد۔ کفر غلامی اور نابینا پن اسی بنا پر ہم نے ایسے گواہوں کو حد لگانے کا حکم دیا۔ ان سے نیز قاذف سے حد ساقط کرنے کے سلسلے میں ان کی گواہی کا کوئی اثر اور کردار نہیں ہوتا۔ یہاں ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ فساق اہل شہادت میں سے ہیں یعنی وہ گواہی دے سکتے ہیں ہم نے ان کی گواہی بربنائے اجتہاد رد کی ہے اس لئے دوسرے حضرات کے لئے ان کی گواہی قبول کرنے کے سلسلے میں اجتہاد کرنے کی گنجائش ہے جب کہ صورت حال یہ ہو کہ جس چیز کے متعلق ہم یہ فیصلہ دیں کہ فسق ہے اور اس کی وجہ سے گواہی رد کردینا واجب ہے۔ عین ممکن ہے کہ دوسرے حضرات اسے قبول شہادت سے مانع نہ سمجھتے ہوں۔ اس صورت حال کے تحت ہمارے لئے گواہوں ، نیز قاذف پر اجتہاد کی بنا پر حد واجب کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ البتہ قذف اور کفر وغیرہ کے سلسلے میں جو حد لگتی ہے اس کے اثبات میں اجتہاد کو کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ حقیقت کی بنیاد پر یہ حد لگتی ہے اسی بنا پر انہیں حد لگانا جائز ہوگیا اور قاذف سے حد کے اسقاط کے سلسلے میں ان کی گواہی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھیے، فاسق پر اس کی گواہی کے بطلان کا حکم نہیں لگ سکتا کیونکہ فسق السباسبب نہیں ہے جس کی بنیاد پر حاکم حکم لگاتا ہے نیز اس کے بارے میں گواہوں کے بیانات سنتا ہے۔ جب حاکم نے فاسقوں کی گواہی کے بطلان کا حکم نہیں لگایا اور نہ ہی فسق کوئی ایسی چیز ہے جس کے متعلق گواہیاں پیش کی جاتی ہیں اور حاکم اس کا فیصلہ کرتا ہے ، تو فاسقوں پر حد کے ایجاب کے سلسلے میں ان کی گواہیوں کے بطلان کا حکم لگانا جائز نہیں ہوگا۔ دوسری طرف جب حد قذف، کفر، غلامی اور نبینا پن ایسے امور ہیں کہ ان کے متعلق حاکم اپنا فیصلہ دے سکتا ہے اور ان کے خلاف گواہیاں بھی پیش ہوسکتی ہیں تو ایسے افراد کی گواہیوں کے بطلان کا حکم دیا جاسکتا ہے اور اس حکم کے تحت ایسے افراد اہل شہادت کے دائرے سے خارج ہوجاتے ہیں اس لئے اس سبب کی بنا پر جو انہیں اہل شہادت سے خارج کرنے کا موجب ہے، حاکم کے حکم کے صدور کی وجہ سے ان کو حد لگانا واجب ہوگیا۔ نیز گواہی کی حالت میں گواہ کا فسق متعین نہیں ہوتا کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس حالت کے اندر ایسا شخص ، اللہ کے سامنے توبہ کر کے عادل بن چکا ہو جبکہ کفر، غلامی ، نابینا پن اور قذف کی بنا پر لگی ہوئی حد ایسے امور ہیں جن کے متعلق ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ متعلقہ اشخاص سے زائل نہیں ہوسکتے اور یہی امور ایسے لوگوں کے گواہ بننے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں اور ان کے لئے مانع بن جاتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کا معاملہ فاسق کے معاملہ سے مختلف ہوگیا۔ اس مقام پر اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ اس کا بھی تو امکان ہے کہ کافر بھی اللہ کے آگے مسلمان ہوگیا ہو تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کافر صرف اسلام کا اعتقاد کرکے مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس موقعہ پر اس کا اظہار نہ کرے جہاں اس کا اظہار اس کے لئے ممکن ہے۔ جب وہ اسلام کا اظہار نہیں کرتا تو اسے کفر پر قائم رہنے والا قرار دیاجائے گا اس لئے اس مسئلے میں امام زفر کا قول زیادہ واضح ہے اس لئے کہ اگر یہ بات جائز ہے کہ گواہوں کا فسق ان سے حد کے سقوط کے معاملے میں انہیں اہل شہادت کے دائرے سے خارج نہیں کرتا تو قاذف سے حد کے سقوط کے سلسلے میں بھی ان گواہوں کا یہی حکم ہونا چاہیے۔ زنا کی شہادت پر حد قذف ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زنا کاری کی گواہی دینے والے گواہ اگر متفرق صورت میں آکر اپنی اپنی گواہی پیش کریں تو ان کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام یوسف، امام محمد امام مالک، زفر اور اوزاعی کا قول ہے کہ ایسے گواہوں پر حد قذف جاری کی جائے گی۔ عثمان البتی اور امام شافعی کا قول ہے کہ انہیں حد نہیں لگائی جائے گی بلکہ ان کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ پھر امام شافعی کا یہ قول بھی ہے ” بشرطیکہ ایک زناکاری کا مقدمہ ہو۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب پہلا گواہ تنہا آکر گواہی دے گا تو ظاہر قول باری (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء) کی بنا پر وہ قاذف قرار پائے گا۔ کیونکہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس شخص کے سوا چار گواہ ہوں اس لئے آیت سے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ چار گواہوں میں یہ شخص بھی شامل ہے کیونکہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ گواہی یا قذف کے بعد تم اپنے آپ کو پیش کرو۔ “ جس طرح یہ کہنا درست ہے کہ ” اپنے سوا چار گواہ پیش کرو۔ “ دوسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جب ایک شخص کسی عورت سے کہے کہ توزانیہ ہے تو اس صورت میں وہ اپنے سوا چارگواہ پیش کرنے کا مکلف ہوگا۔ جو زنا کی گواہی دیں گے اور یہ شخص خود ان میں شامل نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر وہ یہ کہے گا کہ ” اشھدانک زانیۃ “ (میں گواہی دیتا ہوں کہ تو زانیہ ہے) تو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔ جب یہ بات اس طرح ہے تو ظاہر آیت کا اقتضاء یہ ہوگا کہ ہر قاذف پر حد واجب کردی جائے خواہ اس نے لفظ شہادت کے ساتھ قذف کیا ہو یا بغیر لفظ شہادت کے ساتھ۔ جب پہلے گواہ کا یہ حکم ہوگا تو دوسرے تیسرے اور چوتھے گواہ کا بھی یہی حکم ہوگا یعنی ان سب کو حد قذف لگے گی کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے ایک پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے حدواجب کردی ہے یہ شخص صرف اسی صورت میں حد کی سزا سے بری ہوسکتا ہے جب اس کے سوا چار دوسرے گواہ آکر گواہی پیش کریں۔ قاذف کون ہوگا ؟ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر حدواجب کی ہے جو قاذف ہو اور گواہ بن کر نہ آیا ہو۔ لیکن جب وہ گواہ بن کر آئے اور یہ کہے کہ ” میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں شخص نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ “ تو وہ قاذف قرار نہیں پائے گا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ شہادت کے ساتھ کسی کو قذف کرنا اسے قاذفین کے حکم سے خارج نہیں کرے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے شخص کے ساتھ اگر دوسرے گواہ گواہی نہ دیتے تو وہ قاذف قرار پاتا اور اس پر حد لازم ہوجاتی ۔ جب یہ بات اس طرح ہے تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ لفظ شہادت کے ساتھ کسی پر تہمت لگانا اسے قاذف کے حکم سے خارج نہیں کرتا بشرطیکہ وہ تنہا ہوا اور اس کے ساتھ دوسرے گواہ نہ ہوں۔ نیز ایسے شخص کو قول باری (والذین یرمون المحصنات) کا عموم شامل ہے کیونکہ یہ رامی ہے یعنی اس نے زنا کی تہمت لگائی ہے۔ رامی اور شاید یعنی تہمت لگانے والے اور گواہی دینے والے کے حکم میں اس وقت فرق پڑتا ہے جب چار گواہ ایک ساتھ آکر گواہی دیں۔ اس صورت میں وہ رامی قرار نہیں پائیں گے۔ قبول شہادت کے لئے اسی تعداد کی شرط ہے اس لئے وہ اس تعداد سے کم یا زیادہ گواہ پیش کرنے کے مکلف نہیں ہوں گے۔ اس لئے چار سے کم گواہ جب آکر لفظ شہادت کے ساتھ یا اس کے بغیر قذف کریں گے تو وہ سب قاذف قرار پائیں گے کیونکر وہ اس امر کے مکلف تھے کہ اپنے قذف کی صحت کو ثابت کرنے کے لئے وہ اپنے سوا چار گواہ پیش کرتے۔ اگر چوتھا گواہ شہادت زنا نہ دے تو باقی تین قاذف ہوں گے اگر یہ کہا جائے کہ نفع بن الحارث نے حضرت عمر (رض) کو لکھا تھا کہ چار آدمیوں نے ایک جوڑے کی زنا کاری کی گواہی دی تھی۔ ان میں سے تین نے تو یہ کہا تھا کہ انہوں نے اس جوڑے کو اس حالت میں دیکھا تھا کہ مرد کا آلہ تناسل عورت کے فرج میں اس طرح داخل تھا جس طرح سرمہ لگانے والی سلائی سرمہ دانی میں داخل ہوتی ہے لیکن چوتھے گواہ نے اس طرح گواہی نہیں دی۔ حضرت عمر (رض) نے جواب میں نافع بن الحارث کو یہ لکھا تھا کہ اگر چوتھا گواہ باقی ماندہ تین گواہوں کی طرح گواہی دے دے تو پھر اس جوڑے کو کوڑوں کی سزا دو اور اگر یہ جوڑا محصن ہو تو اسے رجم کردو، لیکن اگر چوتھا اپنی اس گواہی پر مصر رہے جو تم نے مجھے لکھ بھیجا ہے تو بقیہ تینوں گواہوں کو حد قذف میں کوڑے لگائو اور جوڑے کو رہا کردو۔ حضرت عمر (رض) کا یہ حکم اس پر دلالت کرتا ہے کہ اگر تین گواہوں کے ساتھ چوتھا آدمی بھی گواہی دے دیتا تو ان تینوں کو حد قذف نہ لگتی اور ان کی گواہی قبول کرلی جاتی جبکہ ابتداء میں یہ تینوں اکیلے تھے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس واقعہ سے معترض نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے واقعہ اس پر دلالت نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چوتھا گواہ جس نے باقی ماندہ تین گواہوں جیسی گواہی نہیں دی تھی ان تینوں سے علیحدہ نہیں تھا بلکہ یہ چاروں اکٹھے گواہ بن کر آئے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان چاروں نے زنا کی گواہی دی ہو۔ لیکن جب چوتھے گواہ پر زور دیا گیا ہو کہ وہ صراحت کے ساتھ زنا کی اسی طرح گواہی دے جس طرح دوسرے تینوں نے دی ہے تو وہ اس پر رضامندنہ ہوا ہو۔ پھر حضرت عمر (رض) نے یہ حکم دیا کہ اس چوتھے گواہ کو اس امر سے آگاہ کیا جائے۔ اگر وہ زنا کی تفصیل کے ساتھ کمینیت بیان کردے جس طرح تینوں نے بیان کی ہے تو مجرم جوڑے کو سزا دے دی جائے اور اگر وہ تفصیل سے زنا کی کیفیت بیان نہ کرسکے تو اس صورت میں اس کی گواہی باطل قرار دی جائے اور بقیہ تینوں گواہوں کو تنہا قرار دے کر ان پر حد جاری کردی جائے، حضرت عمر (رض) نے اس موقعہ پر یہ حکم نہیں دیا کہ اگر کوئی چوتھا آدمی آکر ان کے ساتھ گواہی دے دے تو ان سب کی گواہی قبول کرلو جس سے یہ بات لازم آتی کہ آپ نے اکیلے تین گواہوں کی گواہی قبول کرلی جبکہ چوتھے گواہ نے ان کے بعد آکر گواہی دی۔ حضرت عمر (رض) نے ابوبکرہ (رض) اور ان کے ساتھیوں پر اس وقت حد قذف جاری کی تھی جب ایک گواہ زیاد اپنی گواہی سے پھرگئے تھے۔ آپ نے اس موقعہ پر ابوبکرہ (رض) نے ان کے ساتھیوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ ایک اور گواہ لے آئو جو تمہاری گواہی کی طرح گواہی دے دے۔ یہ واقعہ صحابہ کرام (رض) کے سامنے پیش آیا تھا اور کسی نے بھی حضرت عمر (رض) کے اس اقدام کی تردید نہیں کی تھی اور نہ ہی انہیں ٹوکا تھا۔ اگر اس موقعہ پر لوگوں میں سے کسی شخص کی گواہی کو قبول کرلینا جائز ہوتا جبکہ وہ آکر ان گواہوں کی طرح گواہی دے دیتا تو حضرت عمر (رض) مقدمے کی کاروائی کو یہیں روک دیتے، گواہوں سے مزید پوچھ گچھ کرتے اور ان سے یہ کہتے کہ اگر کوئی اور گواہ مل سکتا ہے جو تمہاری گواہی کی طرح گواہی دے سکے تو اسے لے آئو۔ جب آپ نے ان سے یہ بات نہیں کی اور ان پر حد جاری کرنے کے عزم کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر سے کام نہیں لیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زیادجب اپنی گواہی سے پھرگئے تو اس کے بعد باقی ماندہ گواہ قاذف قرار پائے جن پر حد لازم ہوگئی تھی اور انہیں اس سزا سے صرف یہی چیز بری کرسکتی تھی کہ چار دوسرے گواہ آکر زنا کی گواہی دے دیتے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عمر (رض) نے ان سے یہ بھی تو نہیں کہا تھا کہ آیا تمہارے پاس چار دوسرے گواہ ہیں جو تمہاری گواہی کی طرح گواہی دے سکتے ہیں نیز آپ نے اس بات کے جواز کی بنا پر ان پر حد جاری کرنے کے معاملے میں موقوف نہیں رکھا۔ یہی صورت اس شخص کے معاملے میں بھی تھی جو چوتھا گواہ بن کر ان کی گواہی کی طرح گواہی دے دیتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی بیان کردہ صورت حال کی وجہ یہ ہے کہ گواہوں سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ اگر وہ چارگواہ لے آتے جو زنا کی گواہی دے دیتے تو ان کی گواہی قبول کرلی جاتی اور خود ان سے حدزائل ہوجاتی، اس بات کا گواہوں کو علم تھا۔ اگر ان کے پاس چار دوسرے گواہ موجود ہوتے جو زنا کی گواہی دے سکتے تو وہ ضرور حضرت عمر (رض) سے حد کے معاملے کو موقوف رکھنے کی درخواست کرتے۔ ان کے اس علم کی بنا پر حضرت عمر (رض) نے انہیں یہ بات بتانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ رہ گیا اس شخص کا معاملہ جو چوتھا گواہ بن کر باقی تین گواہوں کے ساتھ گواہی دیتا جس کے بارے میں معترض نے اپنے اعتراض میں نکتہ اٹھایا ہے تو عین ممکن ہے کہ تینوں گواہوں سے اس چوتھے گواہ کا حکم مخفی ہو اور انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ آیا ان کے ساتھ اس کی گواہی جائز ہے یا باطل۔ اگر اس چوتھے شخص کی گواہی باقی ماندہ تین گواہوں کی گواہی کے بعد قابل قبول ہوتی تو حضرت عمر (رض) ان گواہوں کو اس سے ضرور آگاہ کرتے اور یہ بات ان کے علم میں لاتے تاکہ وہ ایک گواہ ، اگر کوئی ہوتا ، پیش کردیتے اور اس طرح حدقذف کی سزا سے بچ جاتے۔ مملوک یعنی غلام اور لونڈی پر حد کون جاری کرے گا امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، زفر اور محمد کا قول ہے کہ مملوک پر امام المسلمین ہی حد جاری کرے گا۔ اس کا آقا اس پر حد جاری نہیں کرے گا۔ تمام حدود کا یہی حکم ہے۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ زنا، شراب نوشی اور قذف میں آقا ہی حد جاری کرے گا۔ بشرطیکہ گواہ آکر اس کے پاس جرم کی گواہی دے دیں۔ البتہ سرقہ میں آقا ہاتھ نہیں کاٹے گا۔ امام المسلمین قطع ید کرے گا۔ لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ آقا ہی اسے حد لگائے گا اور وہی اس کا ہاتھ کاٹے گا۔ اشجعی کی روایت کے مطابق سفیان ثوری کا قول ہے کہ زنا میں آقا حد جاری کرے گا۔ الفریابی نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ آقا جب اپنے غلام پر حد جاری کرنے کے بعد اسے آزاد کردے گا تو غلام کی گواہی جائز ہوجائے گی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ آقا اس پر حد جاری کرے گا۔ حسن سے ابن عون نے روایت کی ہے کہ حکام چار باتوں کے ذمہ دار ہیں، نماز، زکوٰۃ، حدود اور فیصلوں کے ۔ حسن سے ایک روایت کے مطابق نماز کی بجائے جمعہ کا ذکر ہے عبداللہ بن محیریز کا قول ہے کہ حدود ، فی ، جمعہ اور زکوٰۃ کی ذمہ داری سلطان وقت کی ہے۔ حماد بن سلمہ نے یحییٰ البکاء سے، انہوں نے مسلم بن یسار سے انہوں نے ابو عبداللہ سے انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی سے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) ہمیں یہ کہا کرتے تھے کہ ہم ان سے دین کی باتیں سیکھا کریں۔ انہیں دین کی باتوں کا علم ہے۔ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ زکوٰۃ ، حدود، فی اور جمعہ کی ذمہ داری سلطان پر ہے۔ ایک قول کے مطابق ابوعبداللہ نے جو درج بالا اثر کے راوی ہیں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ سند میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جس صحابی کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وہ حضرت ابوبکر (رض) کے بھائی ہیں۔ اور ان کا نام نافع ہے۔ سلف کے ان حضرات سے یہ روایتیں کی گئی ہیں اور ہمیں کسی بھی صحابی سے اس کے خلاف کسی روایت کا علم نہیں ہے۔ البتہ اعش سے مروی ہے کہ انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے شام میں حد جاری کی تھی۔ اعمش کہا کرتے تھے کہ حضرت صحابہ جہاں کہیں بھی ہوں۔ امراء ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہو کیونکہ اعمش نے یہ نہیں کہا ہے کہ جس شخص پر حضرت عبداللہ (رض) نے حد جاری کی تھی۔ وہ ان کا غلام تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ابن ابی لیلیٰ سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ میں نے انصار میں سے بقید حیات حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی مجلسوں میں اپنی کسی لونڈی کی زنا کاری پر اسے حد لگایا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ۔ کہ ممکن ہے کہ انہوں نے تعزیر کے طور پر ایسا کیا ہو۔ اقامت حد کے طور پر ایسانہ کیا ہو۔ کیونکہ ان حضرات کو یہ حکم ملا تھا کہ اس قسم کے جرم کی پردہ پوشی کریں اور امام تک اسے نہ لیجائیں۔ مملوک پر اقامت حد کی ذمہ داری امام المسلمین پر ہے، آقا پر نہیں اس کی دلیل یہ قول باری ہے : والسارق والسارقۃ فاقطوا ایدیھما جزاء بما کسبا، چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دو ۔ ان کی کمائی کے بدلے کے طور پر ۔ نیز فرمایا (الزانیہ والزانی فاجلدوا کل واحدمنھما مائۃ جلدۃ، زنا کار عورت اور زنا کار مرد ان میں سے ہر ایک سو کوڑے مارو۔ ) ایک اور آیت میں ارشاد ہوا :(فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنات من العذاب، ) جب یہ صفت احصان سے متصف ہوجائیں اور پھر کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر خاندانی عورتوں (محصنات) کو ملنے والی سزا سے آدھی سزا انہیں ملے گی : جن اہل علم کے کانوں میں اس خطاب کی آواز پڑی ہے۔ انہوں نے اس سے یہی سمجھا ہے کہ اس کو مخاطب مسلمانوں کے آئمہ یعنی حکام ہیں۔ عامۃ الناس اس کے مخاطب نہیں ہیں۔ گویا مفہوم کے لحاظ سے عبارت اس طرح ہے۔” فلیقطع الائمۃ والحکام ایدیھما ولیجلدھما الائمۃ والحکام “ (ائمہ اور حکام ان دونوں کے ہاتھ کاٹیں اور ائمہ اور حکام ان دونوں کو کوڑے ماریں۔ ) جب اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ آزاد لوگوں پر ان حدود کو قائم کرنا ائمہ اور حکام کی ذمہ داری ہے اور آیت نے حدود کی سزاپانے والوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا کہ خواہ وہ آزاد ہوں یا غلام تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ آیت کو سب کے حکم پر محمول کرتے ہوئے ائمہ اور حکام کو اس حکم کا مخاطب قرار دیا جائے کہ آزادوں اور غلاموں دونوں پر اقامت حدود کی ذمہ داری ان ہی پر عائد ہوتی ہے، آقائوں پر نہیں۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر آقا کے لئے یہ بات جائز ہوتی کہ وہ اپنے غلام پر چوری کے الزام کے سلسلے میں گواہوں کے بیانات سن کر اس کا ہاتھ کاٹ دیتا اس کے بعد اگر گواہ اپنی گواہی سے پھرجاتے تو آقا کے لئے ان سے تاوان بھروالینا جائز ہوتا۔ اب یہاں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ گواہوں سے تاوان بھروانے کا تعلق حاکم کے اس حکم کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جو وہ گواہی کے بارے میں دیتا ہے۔ کیونکہ اگر حاکم نے گواہی کے متعلق کوئی حکم نہ دیا ہو تو اس صورت میں گواہ کسی قسم کا تاوان بھرنے کے پابند نہیں ہوں گے اس طرح آقا پر تاوان واجب کرکے اپنی ذات کے متعلق حکم صادر کرنے والا اقرار پائے گا۔ جبکہ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کے بارے میں کوئی حکم دے یا فیصلہ صادر کرے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ چوری کے مقدمے کے سلسلے میں آقا نہ تو گواہوں کے بیانات سننے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی غلام کے قطع یدکا۔ نیز آقا اور اجنبی شخص دونوں کی حیثیت غلام اور لونڈی کو حد لگانے کے سلسلے میں یکساں ہوتی ہے اس کے لئے یہ دلالت موجود ہے کہ اگر ایک اجنبی کسی غلام پر کسی حد کے لزوم کا اقرار کرے گا تو اس کے خلاف اجنبی کا یہ اقرار قابل قبول نہیں ہوگا لیکن اگر غلام خود اپنی ذات پر کسی حد کے لزوم کا اقرار کرے گا تو اس کا یہ اقرار قابل قبول ہوگا خواہ آقا اس سے انکار ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ جب اس بارے میں ان دونوں کی حیثیت اجنبیوں جیسی ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ غلام پر اقامت حد کے لحاظ سے آقا کی حیثیت بھی اجنبی جیسی تسلیم کی جائے۔ حاکم کے لئے گواہوں کے بیانات سننا اور حد قائم کرنا اس لئے جائز ہوگیا کہ اس بات کے ثبوت میں اس کا قول قابل قبول ہوتا ہے۔ جو اس کے ہاں حد کو واجب کرنے والی ہوتی ہے۔ اسی بنا پر اسے گواہوں کے بیانات سننے میں اور حد جاری کرنے کا فیصلہ دینے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انسان اپنی ذات کے بارے میں ایسی بات کا اقرار کرسکتا ہے جو اس پر حد کے نفاذ کی موجب بن جائے لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ذات پر حد جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب بات یہ ہے کہ ایک شخص کا اپنی ذات پر اقرار تو جائز ہوتا ہے۔ لیکن اپنی ذات پر حد جاری کرنا جائز نہیں ہوتا تو پھر وہ آقا جس کا اپنے غلام پر اقرار جائز نہیں ہوتا اس بات کا زیادہ سزاوار ہے کہ اسے اپنے غلام پر حد جاری کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ غلام کے خلاف حاکم کے قول کو اس پر حد جاری کرنے کے جواز کی علت نہیں بناتے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حاکم کا یہ کہنا کہ ” میرے نزدیک یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ “ اس پر حد واجب نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی طرف سے یہ اقرار کی صورت ہوتی ہے۔ اس کی حیثیت تو صرف ایک حکم اور فیصلے کی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر حاکم کے نزدیک گواہیاں قائم ہوجائیں تو وہ ازروئے فیصلہ اس پر حد جاری کرے گا۔ اس لئے ایسا شخص یعنی آقا جس کا قول، فیصلے کے سلسلے میں قابل قبول نہیں ہوتا وہ نہ تو گواہوں کے بیانات سننے کا اختیار رکھتا ہے اور نہ ہی حد جاری کرنے کا۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف دونوں حاکم کے اس قول کو قبول نہیں کرتے جو حد کے وجوب کا باعث بنتا ہو اس لئے کہ یہ دونوں حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حاکم صرف اپنے علم اور معلومات کی بنا پر حدود کے متعلق فیصلہ نہیں دے سکتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان دونوں حضرات کے درج بالا قول کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حاکم اگر یہ کہے کہ ” یہ بات میرے نزدیک گواہوں یا اقرار کی بنا پر ثابت ہوچکی ہے۔ “ تو اس صورت میں اس کا قول ناقابل قبول قرار دیا جائے گا اس لئے کہ ان دونوں حضرات کا قول یہ ہے کہ حاکم کا یہ قول قابل قبول ہوگا۔ ان دونوں حضرات کے قول کہ ” حاکم اپنے علم اور معلومات کی بناء پر حدود میں فیصلے صادر نہیں کرسکتا “ کا مفہوم یہ ہے کہ مثلاً اگر حاکم اپنی آنکھوں سے کسی کو بدکاری کرتے ہوئے یا شراب پیتے ہوئے یا چوری کرتے ہوئے دیکھ لیتا ہے تو وہ ان پر صرف اپنے اس علم کی بنا پر حد جاری نہیں کرے گا۔ لیکن اگر حاکم یہ کہتا ہے کہ ” میرے نزدیک اس بارے میں گواہوں نے گواہی دے دی ہے۔ “ یا یہ کہتا ہے کہ ” میرے روبرو فلاں شخص نے اس جرم کا اقرار کیا ہے۔ “ تو اس صورت میں حاکم کا یہ قول قابل قبول ہوگا اور اس بنا پر اس کے لئے یہ فیصلہ سنانے کی گنجائش ہوگی کہ مجرم کا ہاتھ کاٹ دیا جائے یا اسے سنگسار کردیا جائے۔ چار بار لونڈی زنا کرے تو فروخت کردی جائے اس مسئلے میں ہم سے اختلاف رکھنے والوں نے اپنے قول کے حق میں اس روایت سے استدلال کیا ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اقیموا الحدود علی ماملکت ایمانکم، جو لوگ یعنی غلام اور لونڈی تمہارے ملک یمین ہیں۔ ان پر خود حدود قائم کرو۔ نیز فرمایا ” جب تمہاری کوئی لونڈی زنا کا ارتکاب کرے تو وہ اسے کوڑے لگائے، اگر وہ دوبارہ ایسا کرے تو اسے دوبارہ کوڑے لگائے۔ اگر وہ سہ بارہ یہ حرکت کرے تو اسے سہ بارہ کوڑے لگائے، اسے ملامت اور طعن وتشنیع نہ کرے اگر وہ پھر ایسی حرکت کرے تو اسے فروخت کردے خواہ گندھے ہوئے بالوں کی رسی کے بدلے کیوں نہ دینا پڑے۔ “ اس روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں ” اس پر حد جاری کرے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان روایات میں ہمارے مخالفین کے مسلک پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : (اقیموا الحدود علی ماملکت ایدیھما) بالکل اسی طرح ہے جس طرح یہ قول باری ہے (والسارق والسارقۃ فاقطعوا اید یھما) یا یہ قول باری (الزانیۃ والزانی فاخلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ) یہاں یہ بات معلوم ہے کہ اس حکم سے مراد یہ ہے کہ اس معاملے کو حاکم تک پہنچایا جائے تاکہ وہ حد قائم کردے۔ اس لئے ائمہ اور حکام سے ہی اقامت حد کا خطاب ہے جبکہ باقی تمام لوگوں کو یہ خطاب ہے کہ وہ ایسے معاملات حکام تک پہنچا دیں تاکہ وہ مجرموں پر حدود قائم کرسکیں۔ یہی مفہوم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد :(اقیموا الحدود علی ماملکت ایمانکم) کا بھی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کو اسی مفہوم پر محمول کیا جائے گا۔ رہ گیا آپ کا یہ ارشاد کہ ” جب تم میں سے کسی کی لونڈی زناکا ارتکاب کرے تو وہ اس کوڑے مارے “ تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ کوڑوں کی ہر سزا حد نہیں ہوتی کیونکہ یہ سزا کبھی تعزیر کے طور پر بھی ہوتی ہے ۔ اگر ہم ایسی لونڈی کو تعزیراً سزا دے دیں تو ہم اس روایت کے حکم سے عہدہ برا ہوجائیں گے اور اس کے بعد ہمارے لئے اس کو کوڑے لگانا جائز نہیں ہوگا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اس ارشاد سے تعزیری سزا مراد لی ہے ۔ اس پر آپ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ : (ولا یثرب علیھا) یعنی اسے عار نہ دلائے اور طعن وتشنیع نہ کرے جبکہ حد قائم کرنے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی موجودگی میں قائم کی جاتی ہے۔ تاکہ یہ بات لوگوں کو برائی سے روکنے اور فحاشی سے باز رکھنے کے لئے زیادہ موثر ثابت ہوسکے۔ جب آپ نے فرمادیا کہ : ” اسے عار دلائے اور طعن وتشنیع نہ کرے۔ “ تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ آپ نے اس سے حد مراد نہیں لی ہے بلکہ تعزیر مراد لی ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشادبھی دلالت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ” اگر چوتھی مرتبہ وہ یہ حرکت کرے تو اسے فروخت کردے خواہ گندھے ہوئے بالوں کی ایک رسی کے بدلے کیوں نہ دینا پڑے۔ “ آپ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا۔ اگر یہ حد ہوتی تو آپ ضرور اس کا ذکر کرتے بلکہ آپ نے آقا کو چوتھی مرتبہ لونڈی کی بدکاری کی صورت میں وہی قدم اٹھانے کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ جو شخص حد قائم کرتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کے ثبوت کے بعد اسے معطل رکھنا اور قائم نہ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس تعزیر کو ترک کرنا جائز ہوتا ہے۔ اگر امام تعزیر نہ کرنے میں مصلحت سمجھتا ہو تو وہ اسے ترک کرسکتا ہے۔ بعض اوقات حد اور تعزیر اکٹھے بھی دیئے جاسکتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد اگر یہ ہوتی کہ آقا اپنی لونڈی کو تعزیر کرے گا حد نہیں لگائے گا تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ آقا اسے تعزیر کرنے کے بعد اگر اس کا معاملہ امام کے پاس لے جاتا تو امام اس پر حد قائم کردیتا کیونکہ تعزیر کی وجہ سے حد ساقط نہیں ہوتی اس صورت میں لونڈی پر حد اور تعزیر دونوں سزائیں جمع ہوجاتیں جو درست نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ درج بالا صورت میں آقا کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ لونڈی کی تعزیر کرنے کے بعد اس کا معاملہ امام کے پاس لے جاتا بلکہ اسے اس کی پردہ پوشی کا حکم تھا۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہزال (رض) سے جب انہوں نے ماعز (رض) کو زنا کے اقرار کا مشورہ دیا تھا یہ فرمایا تھا : (لو سترتہ بثوبک کان خیراً لک) اگر تم اس پر اپنا کپڑا ڈال کر اس کی پردہ پوشی کرلیتے تو تمہارے لئے یہ بہتر ہوتا اس سلسلے میں آپ کا یہ ارشاد بھی ہے : (من اتی شیئا من ھذہ القاڈورات فلیستتر بستر اللہ فان ھن ابدی لنا صفحتہ اقمتا علیہ کتاب اللہ جو شخص ان گندے کاموں میں سے کسی فعل کا مرتکب ہوجائے تو اسے چاہیے کہ اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھپ جائے جس شخص نے ہمارے سامنے اپنا سینہ برہنہ کردیا یعنی اپنے فعل بد کی ہمیں اطلاع دے دی ہم اس پر اللہ کی کتاب قائم کردیں گے یعنی اس پر حد جاری کردیں گے) نیز اگر کسی مجرم پر حد اور تعزیر دونوں سزائیں جمع ہوجائیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہوتا۔ ہمارے نزدیک تو کوڑوں کی سزا دینے کے بعد تعزیراً جلا وطن کردینا بھی بعض دفعہ واجب ہوتا ہے۔ رمضان میں شراب نوشی پر حد اور تعزیر ایک روایت کے مطابق نجاشی نے رمضان کے مہینے میں شراب نوشی کرلی۔ حضرت علی کرم الہل وجہہ نے اسے اسی کوڑے لگائے اور فرمایا ” یہ تمہاری شراب نوشی کی سزا ہے۔ “ پھر بیس کوڑے لگائے اور فرمایا،” یہ رمضان میں روزے نہ رکھنے کی سزا ہے۔ “ اس طرح آپ نے اس پر حد اور تعزیر دونوں سزائوں کو اکٹھا کردیا۔ جب ایسا کرنا جائز ہے تو زنا کار لونڈی کو آقا تعزیری سزا دینے کے بعد اگر اس کا معاملہ امام کے پاس لے جائے تو امام کے لئے اس پر حد زنا جاری کرنے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥) لیکن جو لوگ یہ تہمت لگانے کے بعد اللہ کے سامنے توبہ کرلیں اور دیانت داری سے بھی اپنی پہلی حالت کی اصلاح کرلیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ تائب کی مغفرت فرمانے والا اور توبہ پر مرنے والے پر رحمت کرنے والا ہے۔ شروع سے لے کر یہاں تک کہ یہ آیت مبارکہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا ج فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ” مثلاً کسی شخص پر قذف کی حد جاری کی گئی اور اسلامی عدالت میں طویل عرصے تک اس کی گواہی بھی ناقابل قبول رہی ‘ لیکن سزا ملنے کے بعد اس شخص نے اللہ کے حضور توبہ کرلی اور اپنی پرانی روش کو مستقل طور پر تبدیل کرلیا۔ اس کے مثبت رویے کو دیکھتے ہوئے معاشرے میں پھر سے اسے ایک با اعتماد ‘ صالح اور پرہیزگار مسلمان کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ اب ایسے شخص پر سے گواہی کے ناقابل قبول ہونے کی قدغن ختم ہوسکتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6. Allah is the most merciful of all.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :6 اس حکم کا منشا یہ ہے کہ معاشرے میں لوگوں کی آشنائیوں اور ناجائز تعلقات کے چرچے قطعی طور پر بند کر دیے جائیں ، کیونکہ اس سے بے شمار برائیاں پھیلتی ہیں ، اور ان میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ اس طرح غیر محسوس طریقے پر ایک عام زنا کارانہ ماحول بنتا چلا جاتا ہے ۔ ایک شخص مزے لے لے کر کسی کے صحیح یا غلط گندے واقعات دوسروں کے سامنے بیان کرتا ہے ۔ دوسرے اس میں نمک مرچ لگا کر اور لوگوں تک انہیں پہنچاتے ہیں ، اور ساتھ ساتھ کچھ مزید لوگوں کے متعلق بھی اپنی معلومات یا بد گمانیاں بیان کر دیتے ہیں ۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ شہوانی جذبات کی ایک عام رو چل پڑتی ہے ، بلکہ برے میلانات رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ معاشرے میں کہاں کہاں ان کے لیے قسمت آزمائی کے مواقع موجود ہیں ۔ شریعت اس چیز کا سد باب پہلے ہی قدم پر کر دینا چاہتی ہے ۔ ایک طرف وہ حکم دیتی ہے کہ اگر کوئی زنا کرے اور شہادتوں سے اس کاجرم ثابت ہو جائے تو اس کو وہ انتہائی سزا دو جو کسی اور جرم پر نہیں دی جاتی ۔ اور دوسری طرف وہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے وہ یا تو شہادتوں سے اپنا الزام ثابت کرے ، ورنہ اس پر اسی کوڑے برسا دو تاکہ آئندہ کبھی وہ اپنی زبان سے ایسی بات بلا ثبوت نکالنے کی جرأت نہ کرے ۔ بالفرض اگر الزام لگانے والے نے کسی کو اپنی آنکھوں سے بھی بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو تب بھی اسے خاموش رہنا چاہیے اور دوسروں تک اسے نہ پہنچانا چاہیے ، تاکہ گندگی جہاں ہے وہیں پڑی رہے ، آگے نہ پھیل سکے ۔ البتہ اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو معاشرے میں بیہودہ چرچے کرنے کے بجائے معاملہ حکام کے پاس لے جائے اور عدالت میں ملزم کا جرم ثابت کر کے اسے سزا دلوا دے ۔ اس قانون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تفصیلات نگاہ میں رہیں ۔ اس لیے ہم ذیل میں ان کو نمبر وار بیان کرتے ہیں : ۱: آیت میں الفاظ وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ استعمال ہوئے ہیں جن کے معنی ہیں وہ لوگ جو الزام لگائیں ۔ لیکن سیاق و سباق یہ بتاتا ہے کہ یہاں الزام سے مراد ہر قسم کا الزام نہیں ، بلکہ مخصوص طور پر زنا کا الزام ہے ۔ پہلے زنا کا حکم بیان ہوا ہے اور آگے لعِان کا حکم آ رہا ہے ، ان دونوں کے درمیان اس حکم کا آنا صاف اشارہ کر رہا ہے کہ یہاں الزام سے مراد کس نوعیت کا الزام ہے ۔ پھر الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ( الزام لگائیں پاک دامن عورتوں پر ) سے بھی یہ اشارہ نکلتا ہے کہ مراد وہ الزام ہے جو پاک دامنی کے خلاف ہو ۔ اس پر مزید یہ کہ الزام لگانے والوں سے اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پورے قانون اسلامی میں صرف زنا کا نصاب شہادت ہے ۔ ان قرائن کی بنا پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت میں صرف الزام زنا کا حکم بیان ہوا ہے ، جس کے لیے علماء نے ’قَذْف کی مستقل اصطلاح مقرر کر دی ہے تاکہ دوسری تہمت تراشیاں ( مثلاً کسی کو چور ، یا شرابی ، یا سود خوار ، یا کافر کہہ دینا ) اس حکم کی زد میں نہ آئیں ۔ قذف کے سوا دوسری تہمتوں کی سزا قاضی خود تجویز کر سکتا ہے ، یا مملکت کی مجلس شوریٰ حسب ضرورت ان کے لیے توہین اور ازالہ حیثیت عرفی کا کوئی عام قانون بنا سکتی ہے ۔ ۲ : آیت میں اگرچہ الفاظ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتُ ( پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں ) استعمال ہوئے ہیں ، لیکن فقہاء اس بات پر مفتق ہیں کہ حکم صرف عورتوں ہی پر الزام لگانے تک محدود نہیں ہے بلکہ پاک دامن مردوں پر بھی الزام لگانے کا یہی حکم ہے ۔ اسی طرح اگرچہ الزام لگانے والوں کے لیے اَلَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ مذکر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، لیکن یہ صرف مردوں ہی کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اگر جرم قذف کی مرتکب ہوں تو وہ اسی حکم کی سزاوار ہوں گی ۔ کیونکہ جرم کی شناخت میں قاذف یا مقذوف کے مرد یا عورت ہونے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ۔ لہٰذا قانون کی شکل یہ ہو گی کہ جو مرد یا عورت بھی کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے اس کا یہ حکم ہے ۔ ( واضح رہے کہ یہاں محصن اور محصنہ سے مراد شادی شدہ مرد و عورت نہیں بلکہ پاک دامن مرد و عورت ہیں ) ۔ ۳ : یہ حکم صرف اسی صورت میں نافذ ہوگا جبکہ الزام لگانے والے نے محصنین یا محصنات پر الزام لگایا ہو کسی غیر محصن پر الزام لگانے کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ غیر محصن اگر بد کاری میں معروف ہو تب تو اس پر الزام لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، لیکن اگر وہ ایسا نہ ہو تو اس کے خلاف بلا ثبوت الزام لگانے والے کے لیے قاضی خود سزا تجویز کر سکتا ہے ، یا ایسی صورتوں کے لیے مجلس شوریٰ حسب ضرورت قانون بنا سکتی ہے ۔ ٤ : کسی فعل قذف کے مستلزم سزا ہونے کے لیے صرف یہ بات کافی نہیں ہے کہ کسی نے کسی پر بد کاری کا بلا ثبوت الزام لگایا ہے ، بلکہ اس کے لیے کچھ شرطیں قاذف ( الزام لگانے والے ) میں اور کچھ مقذوف ( الزام کے ہدف بنائے جانے والے ) میں ، اور کچھ خود فعل قذف میں پائی جانی ضروری ہیں ۔ قاذف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : اول یہ کہ وہ بالغ ہو ۔ بچہ اگر قذف کا مرتکب ہو تو اسے تعزیر دی جا سکتی ہے مگر اس پر حد جاری نہیں کی جا سکتی ۔ دوم یہ کہ وہ عاقل ہو ۔ مجنون پر حد قذف جاری نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح حرام نشے کے سوا کسی دوسری نوعیت کے نشے کی حالت میں ، مثلاً کلوروفارم کے زیر اثر الزام لگانے والے کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ سوم یہ کہ اس نے اپنے آزاد ارادے سے ( فقہاء کی اصطلاح میں طائعاً ) یہ حرکت کی ہو ۔ کسی کے جبر سے قذف کا ارتکاب کرنے والا مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ چہارم یہ کہ وہ مقذوف کا اپنا باپ یا دادا نہ ہو ، کیونکہ ان پر حد قذف جاری نہیں کی جا سکتی ۔ ان کے علاوہ حنفیہ کے نزدیک ایک پانچویں شرط یہ بھی ہے کہ ناطق ہو ، گونگا اگر اشاروں میں الزام لگائے تو وہ حد قذف کا مستوجب نہ ہو گا ۔ لیکن امام شافعی کو اس سے اختلاف ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر گونگے کا اشارہ بالکل صاف اور صریح ہو جسے دیکھ کر ہر شخص سمجھ لے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے تو وہ قاذف ہے ، کیونکہ اس کا اشارہ ایک شخص کو بد نام و رسوا کر دینے میں تصریح بالقول سے کسی طرح کم نہیں ہے ۔ اس کے برعکس حنفیہ کے نزدیک محض اشارے کی صراحت اتنی قوی نہیں ہے کہ اس کی بنا پر ایک آدمی کو 80 کوڑوں کی سزا دے ڈالی جائے ۔ وہ اس پر صرف تعزیر دیتے ہیں ۔ مقذوف میں جو شرطیں پائی جانی چاہییں وہ یہ ہیں : پہلی شرط یہ کہ وہ عاقل ہو ، یعنی اس پر بحالت عقل زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو ۔ مجنون پر ( خواہ وہ بعد میں عاقل ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو ) الزام لگانے والا حد قذف کا مستحق نہیں ہے ۔ کیونکہ مجنون اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا ، اور اس پر اگر زنا کی شہادت قائم بھی ہو جائے تو نہ وہ حد زنا کا مستحق ہوتا ہے نہ اس کی عزت پر حرف آتا ہے ۔ لہٰذا اس پر الزام لگانے والا بھی حد قذف کا مستحق نہ ہونا چاہیے ۔ لیکن امام مالک اور امام لیث بن سعد کہتے ہیں کہ مجنون کا قاذف حد کا مستحق ہے کیونکہ بہرحال وہ ایک بے ثبوت الزام لگا رہا ہے ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ بالغ ہو ۔ یعنی اس پر بحالت بلوغ زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا ہو بچے پر الزام لگانا ، یا جواب پر اس امر کا الزام لگانا کہ وہ بچپن میں اس فعل کا مرتکب ہوا تھا ، حد قذف کا موجب نہیں ہے ، کیونکہ مجنون کی طرح بچہ بھی اپنی عصمت کے تحفظ کا اہتمام نہیں کر سکتا ، نہ وہ حد زنا کا مستوجب ہوتا ہے ، اور نہ اس کی عزت مجروح ہوتی ہے ۔ لیکن امام مالک کہتے ہیں کہ سن بلوغ کے قریب عمر کے لڑکے پر اگر زنا کے ارتکاب کا الزام لگایا جائے تب تو قاذف حد کا مستحق نہیں ہے ، لیکن اگر ایسی عمر کی لڑکی پر زنا کرانے کا الزام لگایا جائے جس کے ساتھ مباشرت ممکن ہو ، تو اس کا قاذف حد کا مستحق ہے ، کیونکہ اس سے نہ صرف لڑکی بلکہ اس کے خاندان تک کی عزت مجروح ہو جاتی ہے اور لڑکی کا مستقبل خراب ہو جاتا ہے ۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو ، یعنی اس پر بحالت اسلام زنا کرنے کا الزام لگایا گیا ہو ، کافر پر الزام ، یا مسلم پر یہ الزام کہ وہ بحالت غلامی اس کا مرتکب ہوا تھا ، موجب حد نہیں ہے ، کیونکہ غلام کی بے بسی اور کمزوری یہ امکان پیدا کر دیتی ہے کہ وہ اپنی عصمت کا اہتمام نہ کر سکے ۔ خود قرآن میں بھی غلامی کی حالت کو اِحصان کی حالت قرار نہیں دیا گیا ہے ، چنانچہ سورہ نساء میں مُحْصَنَات کا لفظ لونڈی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے ۔ لیکن داؤد ظاہری اس دلیل کو نہیں مانتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ لونڈی اور غلام کا قاذف بھی حد کا مستحق ہے ۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ عفیف ہو ، یعنی اس کا دامن زنا اور شبہ زنا سے پاک ہو ۔ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر پہلے کبھی جرم زنا ثابت نہ ہو چکا ہو ۔ شبہ زنا سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نکاح فاسد ، یا خفیہ نکاح ، یا مشتبہ ملکیت ، یا شبہ نکاح میں مباشرت نہ کر چکا ہو ، نہ اس کے حالات زندگی ایسے ہوں جن میں اس پر بد چلنی اور آبرو باختگی کا الزام چسپاں ہو سکتا ہو ، اور نہ زنا سے کم تر درجہ کی بد اخلاقیوں کا الزام اس پر پہلے کبھی ثابت ہو چکا ہو ، کیونکہ ان سب صورتوں میں اس کی عفت مجروح ہو جاتی ہے ، اور ایسی مجروح عفت پر الزام لگانے والا 80 کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا ۔ حتیٰ کہ اگر حد قذف جاری ہونے سے پہلے مقذوف کے خلاف کسی جرم زنا کی شہادت قائم ہو جائے ، تب بھی قاذف چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ وہ شخص پاک دامن نہ رہا جس پر اس نے الزام لگایا تھا ۔ مگر ان پانچوں صورتوں میں حد نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مجنون ، یا بچے ، یا کافر ، یا غلام ، یا غیر عفیف آدمی پر بلا ثبوت الزام زنا لگا دینے والا مستحق تعزیر بھی نہیں ہے ۔ اب وہ شرطیں لیجیے جو خود فعل قذف میں پائی جانی چاہییں ۔ ایک الزام کو دو چیزوں میں سے کوئی ایک چیز قذف بنا سکتی ہے ۔ یا تو قاذف نے مقذوف پر ایسی وطی کا الزام لگایا ہو جو اگر شہادتوں سے ثابت ہو جائے تو مقذوف پر حد واجب ہو جائے ۔ یا پھر اس نے مقذوف کو ولد الزنا قرار دیا ہو ۔ لیکن دونوں صورتوں میں الزام صاف اور صریح ہونا چاہیے ۔ کنایات کا اعتبار نہیں ہے جن سے زنا یا طعن فی النسب مراد ہونے کا انحصار قاذف کی نیت پر ہے ۔ مثلاً کسی کو فاسق فاجر ، بد کار ، بد چلن وغیرہ الفاظ سے یاد کرنا ۔ یا کسی عورت کو رنڈی ، کسبن ، یا چھنال کہنا ، یا کسی سید کو پٹھان کہہ دینا کنایہ ہے جس سے صریح قذف نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ البتہ تعریض کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا وہ بھی قذف ہے یا نہیں ۔ مثلاً کہنے والا کسی کو مخاطب کر کے یوں کہے کہ ہاں ، مگر میں تو زانی نہیں ہوں ، یا میری ماں نے تو زنا کرا کے مجھے نہیں جنا ہے امام مالک کہتے ہیں کہ اس طرح کی تعریض جس سے صاف سمجھ میں آ جائے کہ قائل کی مراد مخاطب کو زانی یا ولد الزنا قرار دینا ہے ، قذف ہے جس پر حد واجب ہو جاتی ہے ۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب ، اور امام شافعی ، سفیان ثوری ، ابن شبرمَہ ، اور حسن بن صالح اس بات کے قائل ہیں کہ تعریض میں بہرحال شک کی گنجائش ہے ، اور شک کے ساتھ حد جاری نہیں کی جا سکتی ۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ تعریض اگر لڑائی جھگڑے میں ہو تو قذف ہے اور ہنسی مذاق میں ہو تو قذف نہیں ہے ۔ خلفاء میں سے حضرت عمر اور حضرت علی نے تعریض پر حد جاری کی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں دو آدمیوں کے درمیان گالم گلوچ ہو گئی ۔ ایک نے دوسرے سے کہا نہ میرا باپ زانی تھا نہ میری ماں زانیہ تھی ۔ معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا آپ لوگ اس سے کیا سمجھتے ہیں ؟ کچھ لوگوں نے کہا اس نے اپنے باپ اور ماں کی تعریف کی ہے ، اس کے ماں باپ پر تو حملہ نہیں کیا ۔ کچھ دوسرے لوگوں نے کہا اس کے لیے اپنے ماں باپ کی تعریف کرنے کے لیے کیا یہی الفاظ رہ گئے تھے ؟ ان خاص الفاظ کو اس موقع پر استعمال کرنے سے صاف مراد یہی ہے کہ اس کے ماں باپ زانی تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوسرے گروہ سے اتفاق کیا اور حد جاری کر دی ( جصاص ج3 ، ص 330 ) ۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کسی پر عمل قوم لوط علیہ السلام کے ارتکاب کا الزام لگانا قذف ہے یا نہیں ۔ امام ابو حنیفہ اس کو قذف نہیں مانتے ۔ امام ابو یوسف ، امام محمد ، امام مالک اور امام شافعی اسے قذف قرار دیتے ہیں اور حد کا حکم لگاتے ہیں ۔ ۵: جرم قذف قابل دست اندازی سرکار ) ( Cognizable Offene ہے یا نہیں ، اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ یہ حقُ اللہ ہے اس لیے قاذف پر بہرحال حد جاری کی جائے گی خواہ مقذوف مطالبہ کرے یا نہ کرے ۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ اس معنی میں تو حق اللہ ضرور ہے کہ جب جرم ثابت ہو جائے تو حد جاری کرنا واجب ہے ، لیکن اس پر مقدمہ چلانا مقذوف کے مطالبے پر موقوف ہے ، اور اس لحاظ سے یہ حق آدمی ہے ۔ یہی رائے امام شافعی اور امام اَوزاعی کی بھی ہے ۔ امام مالک کے نزدیک اس میں تفصیل ہے ۔ اگر حاکم کے سامنے قذف کا ارتکاب کیا جائے تو یہ جرم قابل دست اندازی سرکار ہے ، ورنہ اس پر کارروائی کرنا مقذوف کے مطالبے پر منحصر ہے ۔ ٦ : جرم قذف قابل راضی نامہ ( Compoundable Offence ) نہیں ہے ۔ مقذوف عدالت میں دعویٰ لے کر نہ آئے تو یہ دوسری بات ہے لیکن عدالت میں معاملہ آ جانے کے بعد قاذف کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ اپنا الزام ثابت کرے ، اور ثابت نہ ہونے کی صورت میں اس پر حد جاری کی جائے گی ۔ نہ عدالت اس کو معاف کر سکتی ہے اور نہ خود مقذوف ، نہ کسی مالی تاوان پر معاملہ ختم ہو سکتا ہے ، نہ توبہ کر کے یا معافی مانگ کر وہ سزا سے بچ سکتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پہلے گزر چکا ہے کہ : تعافوا الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حدٍّ فقد وجب ۔ حدود کو آپس ہی میں معاف کردو ، مگر جس حد کا معاملہ میرے پاس پہنچ گیا وہ پھر واجب ہو گئی ۔ ۷ : حنفیہ کے نزدیک حد قذف کا مطالبہ یا تو خود مقذوف کر سکتا ہے ، یا پھر وہ جس کے نسب پر اس سے حرف آتا ہو اور مطالبہ کرنے کے لیے خود مقذوف موجود نہ ہو ، مثلاً باپ ، ماں ، اولاد اور اولاد کی اولاد ۔ مگر امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک یہ حق قابل توریث ہے ۔ مقذوف مر جائے تو اس کا ہر شرعی وارث حد کا مطالبہ کر سکتا ہے ۔ البتہ یہ عجیب بات ہے کہ امام شافعی بیوی اور شوہر کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور دلیل یہ ہے کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے اور بیوی یا شوہر میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ حالانکہ یہ دونوں ہی دلیلیں کمزور ہیں ۔ مطالبہ حد کو قابل توریث ماننے کے بعد یہ کہنا کہ یہ حق بیوی اور شوہر کو اس لیے نہیں پہنچتا کہ موت کے ساتھ رشتہ زوجیت ختم ہو جاتا ہے خود قرآن کے خلاف ہے ، کیونکہ قرآن نے ایک کے مرنے کے بعد دوسرے کو اس کا وارث قرار دیا ہے ۔ رہی یہ بات کہ زوجین میں سے کسی ایک پر الزام آنے سے دوسرے کے نسب پر کوئی حرف نہیں آتا ، تو یہ شوہر کے معاملہ میں چاہے صحیح ہو مگر بیوی کے معاملے میں تو قطعاً غلط ہے ۔ جس کی بیوی پر الزام رکھا جائے اس کی تو پوری اولاد کا نسب مشتبہ ہو جاتا ہے ۔ علاوہ بریں یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ حد قذف صرف نسب پر حرف آنے کی وجہ سے واجب قرار دی گئی ہے ۔ نسب کے ساتھ عزت پر حرف آنا بھی اسکی ایک اہم وجہ ہے ، اور ایک شریف مرد یا عورت کے لیے یہ کچھ کم بے عزتی نہیں ہے کہ اس کی بیوی یا اس کے شوہر کو بد کار قرار دیا جائے ۔ لہٰذا اگر حد قذف کا مطالبہ قابل توریث ہو تو زوجین کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ۔ ۸: یہ بات ثابت ہو جانے کے بعد کہ ایک شخص نے قذف کا ارتکاب کیا ہے ، جو چیز اسے حد سے بچا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ وہ چار گواہ ایسے لائے جو عدالت میں یہ شہادت دیں کہ انہوں نے مقذوف کو فلاں مرد یا عورت کے ساتھ بالفعل زنا کرتے دیکھا ہے ۔ حنفیہ کے نزدیک یہ چاروں گواہ بیک وقت عدالت میں آنے چاہییں اور انہیں بیک وقت شہادت دینی چاہیے ، کیونکہ اگر وہ یکے بعد دیگرے آئیں تو ان میں سے ہر ایک قاذف ہوتا چلا جائے گا اور اس کے لیے پھر چار گواہوں کی ضرورت ہو گی ۔ لیکن یہ ایک کمزور بات ہے ۔ صحیح بات وہی ہے جو امام شافعی اور عثمان البتّی نے کہی ہے کہ گواہوں کے بیک وقت آنے اور یکے بعد دیگرے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسرے مقدمات کی طرح گواہ ایک کے بعد ایک آئے اور شہادت دے ۔ حنفیہ کے نزدیک ان گواہوں کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اگر قذف چار فاسق گواہ بھی لے آئے تو وہ حد قذف سے بچ جائے گا ، اور ساتھ ہی مقذوف بھی حد زنا سے محفوظ رہے گا کیونکہ گواہ عادل نہیں ہیں ۔ البتہ کافر ، یا اندھے ، یا غلام ، یا قذف کے جرم میں پہلے کے سزا یافتہ گواہ پیش کر کے قاذف سزا سے نہیں بچ سکتا ۔ مگر امام شافعی کہتے ہیں کہ قاذف اگر فاسق گواہ پیش کرے تو وہ اور اس کے گواہ سب حد کے مستحق ہوں گے ۔ اور یہی رائے امام مالک کی بھی ہے ۔ اس معاملے میں حنفیہ کا مسلک ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے ۔ گواہ اگر عادل ہوں تو قاذف جرم قذف سے بری ہو جائے گا اور مقذوف پر جرم زنا ثابت ہو جائے گا ۔ لیکن اگر گواہ عادل نہ ہوں تو قاذف کا قذف ، اور مقذوف کا فعل زنا ، اور گواہوں کا صدق و کذب ، ساری ہی چیسیں مشکوک قرار پائیں گی اور شک کی بنا پر کسی کو بھی حد کا مستوجب قرار نہ دیا جا سکے گا ۔ ۹ : جو شخص ایسی شہادت پیش نہ کر سکے جو اسے جرم قذف سے بری کر سکتی ہو ، اس کے لیے قرآن نے تین حکم ثابت کیے ہیں : ایک یہ کہ 80 کوڑے لگائے جائیں ۔ دوسرے یہ کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہکی جائے ۔ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہے ۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے : اِلَّا الَّذِیْنَ چَابُوْ ا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَقَسْلَحُوْا فَاِنَّ اللہَ گَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ ( سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کریں اور اصلاح کرین کہ اللہ غفور اور رحیم ہے ) ۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس فقرے میں توبہ اور اصلاح سے جس معافی کا ذکر کیا گیا ہے اس کا تعلق ان تینوں احکام میں سے کس کے ساتھ ہے ۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلے حکم سے اس کا تعلق نہیں ، یعنی توبہ سے حد ساقط نہ ہو گی اور مجرم کو سزائے تازیانہ بہر حال دی جائے گی ۔ فقہاء اس پر بھی متفق ہیں کہ اس معافی تعلق آخری حکم سے ہے ، یعنی توبہ اور اصلاح کے بعد مجرم فاسق نہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اسے معاف کر دے گا ۔ ( اس میں اختلاف صرف اس پہلو سے ہے کہ آیا مجرم نفس قذف سے فاسق ہوتا ہے یا عدالتی فیصلہ صادر ہونے کے بعد فاسق قرار پاتا ہے ۔ امام شافعی اور لیث بن سعد کے نزدیک وہ نفس قذف سے فاسق ہو جاتا ہے اس لیے وہ اسی وقت سے اس کو مردود الشہادت قرار دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اور امام مالک کہتے ہیں کہ وہ عدالتی فیصلہ نافذ ہو جانے کے بعد فاسق ہوتا ہے ، اس لیے وہ نفاذ حکم سے پہلے تک اس کو مقبول الشہادت سمجھتے ہیں ۔ لیکن حق یہ ہے کہ مجرم کا عند اللہ فاسق ہونا نفس قذف کا نتیجہ ہے اور عند الناس فاسق ہونا اس پر موقوف ہے کہ عدالت میں اس کا جرم ثابت ہو اور وہ سزا پا جائے ) ۔ اب رہ جاتا ہے بیچ کا حکم ، یعنی یہ کہ قاذف کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے ۔ فقہاء کے درمیان اس پر بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے کہ آیا : اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوْا کے فقرے کا تعلق اس حکم سے بھی ہے یا نہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس فقرے کا تعلق صرف آخری حکم سے ہے ، یعنی جو شخص توبہ اور اصلاح کر لے گا وہ عند اللہ اور عند الناس فاسق نہ رہے گا ، لیکن پہلے دونوں حکم اس کے باوجود بر قرار رہیں گے ، یعنی مجرم پر حد جاری کی جائے گی اور وہ ہمیشہ کے لیے مردود الشہادت بھی رہے گا ۔ اس گروہ میں قاضی شُریح ، سَعید بن مُسَّٰب ، سعید بن جبیر ، حسن بصری ، ابراہیم نخعی ، ابن سیرین ، مکْحول ، عبدالرحمٰن بن زید ، ابو حنیفہ ، ابو یوسف ، زُفَر ، محمد ، سُفْیان ثوری اور حسن بن صالح جیسے اکابر شامل ہیں ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ : اِلَّا الَّذِیْنَ تَبُوْا کا تعلق پہلے حکم سے تو نہیں ہے مگر آخری دونوں حکموں سے ہے ، یعنی توبہ کے بعد قذف کے سزا یافتہ مجرم کی شہادت بھی قبول کی جائے گی اور وہ فاسق بھی نہ شمار ہو گا ۔ اس گروہ میں عطاء ، طاؤس ، مجاہد ، شعبِی ، قاسم بن محمد ، سالم ، زُہری ، عِکْرِمَہ ، عمر بن العزیز ، ابن ابی نجیح ، سلیمان بن یَسار ، مُسْرُوق ، ضحاک ، مالک بن اَنَس ، عثمان البتّی ، لیث بن سعد ، شافعی ، احمد بن حنبل اور ابن جریر طبری جیسے بزرگ شامل ہیں ۔ یہ لوگ اپنی تائید میں دوسرے دلائل کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلے کو بھی پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے میں کیا تھا ، کیونکہ اس کی بعض روایت میں یہ ذکر ہے کہ حد جاری کرنے کے بعد حضرت عمرؓ نے ابو بکرہ اور ان کے دونوں ساتھیوں سے کہا اگر تم توبہ کر لو ( یا اپنے جھوٹ کا اقرار کر لو ) تو میں آئندہ تمہاری شہادت قبول کروں گا ورنہ نہیں ۔ دونوں ساتھیوں نے اقرار کر لیا ، مگر ابو بکرہ اپنے قول پر قائم رہے ۔ بظاہر یہ ایک بڑی قوی تائید معلوم ہوتی ہے ، لیکن مغیرہ بن شعبہ کے مقدمے کی جو روداد ہم پہلے درج کر چکے ہیں اس پر گور کرنے سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس نظیر سے اس مسئلے میں استدلال کرنا درست نہیں ہے ۔ وہاں نفس فعل متفق علیہ تھا اور خود مغیرہبن شعبہ کو بھی اس سے انکار نہ تھا ۔ بحث اس میں تھی کہ عورت کون تھی ۔ مغیرہ بن شعبہ کہتے تھے کہ وہ ان کی اپنی بیوی تھیں جنہیں یہ لوگ ام جمیل سمجھ بیٹھے ۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ثابت ہو گئی تھی کہ حضرت مغیرہ کی بیوی اور ام جمیل باہم اس حد تک مشابہ تھیں کہ واقعہ جتنی روشنی میں جتنے فاصلے سے دیکھا گیا اس میں یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ عورت ام جمیل ہے ۔ مگر قرائن سارے کے سارے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں تھے اور خود استغاثے کا بھی ایک گواہ اقرار کر چکا تھا کہ عورت صاف نظر نہ آتی تھی ۔ اسی بنا پر حضرت عمرؓ نے مغیرہ بن شعبہ کے حق میں فیصلہ دیا اور ابو بکرہ کو سزا دینے کے بعد وہ بات کہی جو مذکورہ بالا روایتوں میں منقول ہوئی ہے ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کا منشا در اصل یہ تھا کہ تم لوگ مان لو کہ تم نے بے جا بدگمانی کی تھی اور آئندہ کے لیے ایسی بد گمانیوں کی بنا پر لوگوں کے خلاف الزامات عائد کرنے سے توبہ کرو ، ورنہ آئندہ تمہاری شہادت کبھی قبول نہ کی جائے گی ۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ جو شخص صریح جھوٹا ثابت ہو جائے وہ بھی حضرت عمرؓ کے نزدیک توبہ کر کے مقبول الشہادت ہو سکتا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے میں پہلے گروہ ہی کی رائے زیادہ وزنی ہے ۔ آدمی کی توبہ کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا ۔ ہمارے سامنے جو شخص توبہ کرے گا ہم اسے اس حد تک تو رعایت دے سکتے ہیں کہ اسے فاسق کے نام سے یاد نہ کریں ، لیکن اس حد تک رعایت نہیں دے سکتے کہ جس کی زبان کا اعتبار ایک دفعہ جاتا رہا ہے اس پر پھر محض اس لیے اعتبار کرنے لگیں کہ وہ ہمارے سامنے توبہ کر رہا ہے ۔ علاوہ بریں خود قرآن کی عبادت کا انداز بیان بھی یہی بتا رہا ہے کہ : اِلَّذِیْنَ تَابُوْ ا کا تعلق صرف اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ سے ہے ۔ اس لیے کہ عبارت میں پہلی وہ باتیں حکم کے الفاظ میں فرمائی گئی ہیں : ان کو اسی کوڑے مارو ، اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو ۔ اور تیسری بات خبر کے الفاظ میں ارشاد ہوئی ہے : وہ خود ہی فاسق ہیں ۔ اس تیسری بات کے بعد متصلاً یہ فرمانا کہ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں ، خود ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ استثناء آخری فقرہ خبر یہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ پہلے دو محکمی فقروں سے ۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ استثناء آخری فقرے تک محدود نہیں ہے ، تو پھر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ شہادت قبول نہ کرو کے فقرے تک پہنچ کر رک کیسے گیا ، اسّی کوڑے مارو کے فقرے تک بھی کیوں نہ پہنچ گیا ۔ ۱۰ : سوال کیا جا سکتا ہے کہ اِلَّا الَّذِیْنَ تَا بُوا کا استثنا آخر پہلے حکم سے بھی متعلق کیوں نہ مان لیا جائے ؟ قذف آخر ایک قسم کی توہین ہی تو ہے ۔ ایک آدمی اس کے بعد اپنا قصور مان لے ، مقذوف سے معافی مانگ لے اور آئندہ کے لیے اس حرکت سے توبہ کر لے تو آخر کیوں نہ اسے چھوڑ دیا جائے جب کہ اللہ تعالیٰ خود حکم بیان کرنے کے بعد فرما رہا ہے اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا ...... فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرُرَّ حِیْمُ ۔ یہ تو ایک عجیب بات ہو گی کہ خدا معاف کر دے اور بندے معاف نہ کریں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ توبہ دراصل ت و ب ۃ کے تلفظ کا نام نہیں ہے بلکہ دل کے احساس ندامت اور عزم اصلاح اور رجوع الی الخیر کا نام ہے اور اس چیز کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے توبہ سے دنیوی سزائیں معاف نہیں ہوتیں بلکہ صرف اخروی سزا معاف ہوتی ہے ، اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں تو تم انہیں چھوڑ دو ، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ جو لوگ توبہ کرلیں گے میں ان کے حق میں غفور و رحیم ہوں ۔ اگر توبہ سے دنیوی سزائیں بھی معاف ہونے لگیں تو آخر وہ کونسا مجرم ہے جو سزا سے بچنے کے لیے توبہ نہ کرے گا ؟ ۱۱ : یہ بھی سوال کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنے الزام کے ثبوت میں شہادت نہ لا سکنا لازماً یہی معنی تو نہیں رکھتا کہ وہ جھوٹا ہو ۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کا الزام واقعی صحیح ہو اور وہ ثبوت مہیا کرنے میں ناکام رہے ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اسے صرف ثبوت نہ دے سکنے کی بنا پر فاسق ٹھہرایا جائے ، اور وہ بھی عند الناس ہی نہیں عند اللہ بھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک شخص نے اگر اپنی آنکھوں سے بھی کسی کو بد کاری کرتے دیکھ لیا ہو پھر بھی وہ اس کا چرچا کرنے اور شہادت کے بغیر اس پر الزام عائد کرنے میں گنہگار ہے شریعت الٰہی یہ نہیں چاہتی ایک شخص اگر ایک گوشے میں نجاست لئے بیٹھا ہو تو دوسرا شخص اسے اٹھا کر سارے معاشرے میں پھیلانا شروع کردے ۔ اس نجاست کی موجودگی کا اگر اس کو علم ہے تو اس کے لیے دو ہی راستے ہیں ۔ یا اس کو جہاں وہ پڑی ہے وہیں پڑا رہنے دے ، یا پھر اس کی موجودگی کا ثبوت دے تاکہ حکومت اسلامی کے حکام اسے صاف کر دیں ۔ ان دو راستوں کے سوا کوئی تیسرا راستہ اس کے لیے نہیں ہے ۔ اگر وہ پبلک میں چرچا کرے گا تو محدود گندگی کو وسیع پیمانے پر پھیلانے کا مجرم ہو گا ۔ اور اگر وہ قابل اطمینان شہادت کے بغیر حکام تک معاملہ لے جائے گا تو حکام اس گندگی کو صاف نہ کر سکیں گے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہو گا کہ اس مقدمے کی ناکامی گندگی کی اشاعت کا سبب بھی بنے گی اور بد کاروں میں جرأت بھی پیدا کر دے گی ۔ اسی لیے ثبوت اور شہادت کے بغیر قذف کا ارتکاب کرنے والا بہرحال فاسق ہے خواہ وہ اپنی جگہ سچا ہی کیوں نہ ہو ۔ ۱۲ : حد قذف کے بارے میں فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ قاذف کو زانی کی بہ نسبت ہلکی مار ماری جائے ۔ یعنی تازیانے تو 80 ہی ہوں ، مگر ضرب اتنی سخت نہ ہونی چاہیے جتنی زانی کو لگائی جاتی ہے ۔ اس لیے کہ جس الزام کے قصور میں اسے سزا دی جا رہی ہے اس میں اس کا جھوٹا ہونا بہرحال یقینی نہیں ہے ۔ ۱۳ : تکرار قذف کے بارے میں حنفیہ اور جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ قاذف نے سزا پانے سے پہلے یا سزا کے دوران میں خواہ کتنی ہی مرتبہ ایک شخص پر الزام لگایا ہو ، اس پر ایک ہی حد جاری کی جائے گی ۔ اور اگر اجرائے حد کے بعد وہ اپنے سابق الزام ہی کی تکرار کرتا رہے تو جو حد اسے لگائی جا چکی ہے وہی کافی ہو گی ۔ البتہ اگر اجرائے حد کے بعد وہ اس شخص پر ایک نیا الزام زنا عائد کر دے تو پھر نئے سرے سے مقدمہ قائم کیا جائے گا ۔ مغیرہ بن شعبہ کے مقدمہ میں سزا پانے کے بعد ابو بکرہ کھلے بندوں کہتے رہے کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ مغیرہ نے زنا کا ارتکاب کیا تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ ان پر پھر مقدمہ قائم کریں ۔ مگر چونکہ وہ سابق الزام ہی کو دوہرا رہے تھے اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رائے دی کہ اس پر دوسرا مقدمہ نہیں لایا جا سکتا ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی رائے قبول کر لی ۔ اس کے بعد فقہاء میں اس بات پر قریب قریب اتفاق ہو گیا کہ سزا یافتہ قاذف کو صرف نئے الزام ہی پر پکڑا جا سکتا ہے ، سابق الزام کے اعادے پر نہیں ۔ ۱٤ : قذف جماعت کے معاملہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص بہت سے لوگوں پر بھی الزام لگائے ، خواہ ایک لفظ میں یا الگ الگ الفاظ میں ، اس پر ایک ہی حد لگائی جائے گی الّا یہ کہ حد لگنے کے بعد وہ پھر کسی نئے قذف کا ارتکاب کرے ۔ اس لیے کہ آیت کے الفاظ یہ ہیں جو لوگ پاک دامن عورتوں پر الزام لگائیں اس سے معلوم ہوا کہ ایک فرد ہی نہیں ایک جماعت پر الزام لگانے والا بھی صرف ایک ہی حد کا مستحق ہوتا ہے ۔ نیز اس لیے بھی کہ زنا کا کوئی الزام ایسا نہیں ہو سکتا جو کم از کم دو شخصوں پر نہ لگتا ہو ۔ مگر اس کے باوجود شارع نے ایک ہی حد کا حکم دیا ، عورت پر الزام کے لیے الگ اور مرد پر الزام کے لیے الگ حد کا حکم نہیں دیا ۔ بخلاف اس کے امام شافعی کہتے ہیں کہ ایک جماعت پر الزام لگانے والا خواہ ایک لفظ میں الزام لگائے یا الگ الگ الفاظ میں ، اس پر ہر شخص کے لیے الگ الگ پوری حد لگائی جائے گی ۔ یہ رائے عثمان البتّی کی بھی ہے ۔ اور ابن ابی لیلیٰ کا قول ، جس میں شعبی اور اَوزاعی بھی ان کے ہم نوا ہیں یہ ہے کہ ایک لفظ میں پوری جماعت کو زانی کہنے والا ایک حد کا مستحق ہے اور الگ الگ الفاظ میں یہ ایک کو کہنے والا ہر ایک کے لیے الگ حد کا مستحق ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: توبہ سے جھوٹی تہمت کا گناہ تو معاف ہوجائے گا لیکن جو سزائیں اوپر بیان کی گئی ہیں، وہ پھر بھی دی جائیں گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ یعنی اب ان سے فسق کا حکم بھی اٹھ جائے گا اور ان کی گواہی بھی قبول ہوگی۔ (شوکانی) ائمہ ثاثہ (رح) اور سلف (رح) کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اس سے فسق کا حکم تو رفع ہوجائے گا مگر گواہی قبول نہ ہوگی۔ اس اختلاف کی بنا اس چیز پر ہے کہ آیا اس استثناء کا تعلق ولا تقبلوا لھم شھادۃ اور اولئک ھم الفسقون “ دونوں سے ہے یا صرف آخری حصہ سے (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ ضرور مغفرت کرنے والا رحمت کرنے والا ہے، اور اس لئے فسق کی وجہ سے جو استحقاق عذاب آخرت کا ہوا تھا، وہ مرتفع ہوجاوے گا، گو رد شہادت جو کہ تتمہ تھا حد کا پھر بھی باقی رہے، کیونکہ توبہ سے حد ساقط نہیں ہوتی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(الا الذین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفوررحیم ) (٥ فقہاء کے درمیان اس استثناء کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اس کا تعلق صرف آخرت کی سزا سے ہے یعنی اس شخص سے صفت فسق دور ہوجائے گی اور شہادت کے لیے وہ بد ستور نااہل رہے گا یا یہ کہ اس کی شہادت بھی توبہ کے بعد قبول ہوگی۔ امام امحد ‘ امام شافعی اس طرف گئے ہیں کہ اگر تائب ہوجائے تو اس کی شہادت قبول ہوگی کیونکہ فسق کا حکم اٹھ چکا ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ یہ استثناء صرف آخری جملے میں ہے یعنی فسق اٹھ جائے گا لیکن یہ شخص بدستور شہادت کے لیے نااہل ہوگا شعبی اور ضحاک نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے کہ اس کی شہادت قبول نہ کی جائے گی اگر چہ توبہ کرے ‘ اس وقت تک جب تک وہ اپنے خلاف یہ اعتراف نہ کرلے کہ اس نے جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بعد اس کی شہادت قبول ہوگی۔ میرے خیال میں ضحاک اور شعبی کا مذہب زیادہ بہتر ہے کیونکہ اس صورت میں جس شخص پر الزام لگایا گیا تھا وہ معاشرتی طور پر اس الزام سے براہ راست بری الذمہ قرار پائے گا۔ اس طرح قذف کے تمام آثار ختم ہوجائیں گے۔ پھر کوئی یہ نہ کہے گا کہ قاذف پر حد اس وجہ سے لگ گئی کہ اس نے شہادت پیش نہ کی اور نہ کسی کے دل میں یہ برا خیال آئے گا کہ ہو سکتا ہے الزام درست ہو لیکن قاذف کو شہادت دستیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح مقذوف کی عزت بھی بحال ہوجائے گی اور قاذف کا معاشرتی اعتبار بھی بوجہ توبہ بحال ہوجائے گا۔ یوں اس سابقہ مقدمہ کے تمام آثار ختم ہوجائیں گے۔ اب اس بات کا کوئی جواز باقی نہ رہے گا کہ توبہ کے بعد بھی قاذف کی شہادت مقبول نہ ہو جبکہ اس نے بہتان طرازی کا اعتراف بھی کرلیا ہو اور توبہ کے ذریعہ اصلاح بھی کرلی ہو۔ یہ تو تھا عام الزام زنا کا معاملہ۔ رہا الزام مابین زوجین یعنی کوئی مرد اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے تو یہ الگ صورت ہوگی۔ اس مرد سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ چار گواہ لائے یہ بہت بڑی سختی ہوگی لہٰذا شریعت میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی پر جھوٹا الزام نہیں لگا سکتا۔ کیونکہ اس میں خود اس کی اپنی عزت اور اپنی شرافت خطرے میں ہوتی ہے۔ لہذا شریعت میں اس قسم کے الزام کے لیے ایک خاص قانون لعان تجویز کیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) مگر ہاں ! جو لوگ اس تہمت اور عیب لگانے کے بعد توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں اور سنوار پکڑیں تو بلاشبہ ! اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ قذف کے بارے میں ظاہر ہے کہ ایک گناہ حق اللہ اور ایک گناہ حق العباد ہے توبہ اور اصلاح کے بعد ظاہر ہے کہ فسق کا حکم مرتفع ہوجائے گا لیکن شہادت قبول نہ ہوگی۔ شہادت مقبول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معاملات میں اس کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔ البتہ دیانت محضہ جیسے ہلال رمضان کی رویت تو اس میں قبول کرلی جائے گی۔ تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ کرلی جائے۔ یہ بحث زنا سے شروع ہوئی تھی اور اس میں چار شہادتوں کا ذکر تھا۔ اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو زنا کا مرتکب دیکھے تو اس کو چار گواہوں کا جمع کرنا مشکل چار گواہ نہ لائے تو زنا کا ثابت کرنا مشکل ثابت نہ کرسکے تو حد قذف کا مستحق اور اگر صبر کرے اور خاموش رہے تو گھر والی کی بدکاری پر خاموش رہنا مشکل۔ آگے اس مشکل کے حل کا بیان ہے اس کو شریعت میں لعان کہتے ہیں۔