Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 51

سورة النور

اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵۱﴾

The only statement of the [true] believers when they are called to Allah and His Messenger to judge between them is that they say, "We hear and we obey." And those are the successful.

ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُوْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ... The only saying of the faithful believers, when they are called to Allah and His Messenger, to judge between them, is that they say: "We hear and we obey". meaning, to hear to obey. Allah describes them as having attained success, which is achieving what one wants and being saved from what one fears. So Allah says: ... وَأُوْلَيِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ And such are the successful. Concerning the Ayah: أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا (they say: "We hear and we obey".), Qatadah said: "We were told that when Ubadah bin As-Samit, who had been present at Al-Aqabah and at Badr, and was one of the leaders of the Ansar, was dying, he said to his nephew Junadah bin Abi Umayyah: `Shall I not tell you what you must do and what is your due!' He said, `Yes.' He said: `You have to listen and obey when times are easy and when they are hard, when you feel energetic and when you do not want to, and when you feel selfish. You have to train your tongue to speak the truth. Do not go against those who are in authority, unless they openly command you to commit acts of disobedience to Allah. Whenever you are commanded to do something that goes against the Book of Allah, then follow the Book of Allah."' Qatadah said: We were told that Abu Ad-Darda' said, "There is no Islam except through obedience to Allah, and no goodness except in Jama`ah. Sincerity is to Allah and His Messenger, and to the Khalifah and all the believers." He said: "And we were told that Umar bin Al-Khattab, may Allah be pleased with him, used to say; `The bonds of Islam are La ilaha illallah, establishing prayer, paying Zakah and obeying those whom Allah has given authority over the affairs of the Muslims."' This was recorded by Ibn Abi Hatim. There are very many Hadiths and reports which state that it is obligatory to: obey the Book of Allah, the Sunnah of His Messenger, the Rightly-Guided Khalifahs and the Imams when they command us to obey Allah; there are too many of these reports to quote them all here.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

511یہ اہل کفر و نفاق کے مقابلے میں اہل ایمان کے کردار و عمل کا بیان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٩] یعنی مومنوں کی نظر منافقوں کی طرح اپنے ذاتی مفادات پر نہیں ہوتی۔ بلکہ اپنا تمام تر مفاد اس بات میں سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی دل و جان سے اطاعت کی جائے وہ اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اللہ کا رسول انھیں کوئی حکم دے جسے وہ بجا لائیں۔ ان کی خوشی بھی اسی بات میں ہوتی ہے اور اطمینان بھی اسی بات میں۔ اور جن لوگوں نے اپنی تمام تر اغراض، خواہشات اور مفادات کو اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی کے تابع بنادیا۔ تو اللہ بھی ایسے لوگوں کی حمایت و نصرت فرماتا ہے وہ دنیا میں بھی انھیں کامیاب بنائے گا اور آخرت میں بھی ایسے ہی لوگ کامیاب ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔۔ : پچھلی آیات میں منافقین کی حالت بیان ہوئی، اب اس آیت میں خالص مومنوں کا بیان اور ان کی تعریف ہے، یعنی سچے مومنوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ جب کسی تنازع کے فیصلے کے لیے انھیں اللہ اور اس کے رسول (کتاب و سنت) کی طرف بلایا جائے، خواہ اس میں بظاہر ان کا نفع ہو یا نقصان تو وہ ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے، بلکہ فوراً کہتے ہیں ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ ہیں جو حقیقت میں کامیاب ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللہِ وَرَسُوْلِہٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَہُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۝ ٠ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝ ٥١ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ حكم والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] ( ح ک م ) حکم الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء/ 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مقدمات کے لئے عدالت بلائے تو حاضری واجب ہے قول باری ہے : (انما کان قول المومنین اذا دعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینھم ان یقولوا سمعنا واطعنا) ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اس میں اس مضمون کی تاکید ہے جو پہلے گزرچکا ہے، وہ یہ کہ جب حاکم کی طرف سے مقدمات کے سلسلے میں بلاوا آئے تو حاضری دینا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بلاوے پر حاضری دینے کو اہل ایمان کی صفت گنوایا ہے۔ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جس شخص کو بلایا جائے اس پر ابتدائی مرحلے میں اپنے قول کے ذریعے اس بلاوے کا جاب دینا واجب ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ بلاوے کا حکم سن کر ” سمعنا و اطعنا “ کہے اور پھر قاصد کے ساتھ حاکم کی طرف چل دے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥١) اب اللہ تعالیٰ کامل مومنوں کا ذکر فرماتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان (رض) نے فرمایا تھا کہ میں تمہارے ساتھ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاؤں گا اور آپ ہمارے درمیان جو فیصلہ فرمائیں گے میں اس پر راضی ہوں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی کہ خالص ایمان والوں کی شان اور ان کا قول تو یہ ہے کہ جس وقت ان کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان خدائی فیصلہ فرمائے تو وہ بخوشی کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے قبول کیا اور جس چیز کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس کو ہم نے مان لیا اور یہی حضرات یعنی حضرت عثمان (رض) اللہ تعالیٰ کے غصہ اور اس کی ناراضگی سے آخرت میں فلاح پائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ (اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ط) ” کہ ہم تو فیصلے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور حاضر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں بسر وچشم قبول ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:51) انما کان قول المؤمنین اذا دعوا الی اللہ ورسولہ لیحکم بینتہم ان یقولوا سمعنا واطعنا۔ میں قول کان کی خبر ہے بدیں وجہ منصوب ہے ان یقولوا سمعنا واطعنا اسم ہے کان کا۔ ہم نے سن لیا۔ ہم نے مان لیا۔ یہ قول ہے مومنوں کا جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف ان کے مابین فیصلہ کے لئے بلایا جائے ۔ لیحکم لام تعلیل کا ہے یحکم مضارع منصوب (بوجہ عمل لام) واحد مذکر غائب ضمیر فاعل کا مرجع رسول ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے کو نہ صرف قبول کرنا بلکہ فیصلہ کیلئے جب کوئی ان کی طرف بلائے تو اس کے بلاوے پر دل و جان سے لبیک کہنا مومن و بامراد ہونے کے لئے شرط ہے اس بارے میں جو کوتاہی پائی جائیگی وہ ایمان کے کم ہونے کی دلیل ہے۔ اوپر کی آیات میں منافقین کی حالت بیان فرمائی ہے اور اب اس آیت میں مومنین کی حالت کا بیان ہے۔ (شوکانی۔ قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٧) اسرارومعارف (نفاذ اسلام اہل ایمان کا کام ہے) اہل ایمان کی شان تو یہ ہے کہ جب انہیں اللہ ورسول کے مطابق فیصلہ قبول کرنے کا کہا جائے تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہمیں منظور ہے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں یعنی نفاذ اسلام یا اسلامی قانون کی راہ میں صرف لوگوں کی منافقت حائل ہوتی ہے اور اہل ایمان فورا عملی زندگی میں اسلامی قانون اپناتے ہیں اور اسلامی قانون اپنانے اور اختیار کرنے والے ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔ (نجات ابدی کی چار شرائط) کہ یہ اصولی بات ہے کہ جس نے اللہ کی اطاعت کی یعنی فرائض ادا کیے ” ورسولہ ‘ اور اللہ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا اتباع کیا ۔ (آیت) ” ویخش اللہ “ اور گذشتہ اعمال اور زندگی کے لیے توبہ کی اللہ سے ڈرا ” ویتقہ اللہ “ اور آئندہ کے لیے تقوی یعنی دل کی گہرائیوں سے اللہ جل جلالہ کی اطاعت اختیار کرلی تو ایسے لوگ ہی کامیاب ہوں گے اور مراد کو پہنچیں گے نام نہاد مسلمان اور منافق بھی یوں تو بڑی بڑی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حکم دے تو سب کچھ قربان کر دے اور ہر شے کو چھوڑ چھاڑ کر تعمیل ارشاد کے لیے نکل کھڑے ہوں انہیں کہیے قسمیں مت کھاؤ کہ نرے دعوے کی ضرورت نہیں ، اپنے عمل سے اطاعت گذاری ثابت کرو کہ یہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ جل جلالہ اس سے خوب واقف ہے ، ان سے فرما دیجئے کہ باتیں نہ بناؤ بلکہ عملی زندگی میں عقائد ونظریات میں اعمال وکردار میں اللہ جل جلالہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو ، اگر نہ کریں گے تو اپنے کردار کا بوجھ خود اٹھائیں گے کہ اللہ کے بندوں کی ذمہ داری تو اتنی ہے کہ بات پہنچا دی عمل نہ کرنے کی ذمہ داری ان کی اپنی ہے ہاں یہ فرما دیجئے کہ اگر اطاعت اختیار کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے کہ نافرمانی میں ہدایت نصیب نہیں ہوتی اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری اللہ کا پیغام پہچانے کی ہے جو انہوں نے پوری فرما دی منوانے کی نہیں یہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیاں ہے اور اللہ کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ جو صحیح عقیدہ اور درست ایمان والے ہوں گے اور عملا نیک کام کرنے والے ہوں گے ان کو دنیا میں اقتدار دے گا اور زمین پر قبضہ وقدرت دے گا جیسے اس نے پہلی قوموں میں نیک اور باعمل مسلمانوں کو دیا تھا اور ان کے دین کو جو خود اللہ نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے غالب کردے گا ایسا غالب کہ وہ کسی سے خوف محسوس نہ کریں گے نہ کبھی انہیں کسی کا ڈر رہے گا ، صرف اللہ جل جلالہ کی عبادت اور اطاعت کریں گے اور ان کے اور ان کے کسی قول وفعل سے کسی دوسرے کا ہمسر ہونے کا شبہ تک نہ ہوگا ان انعامات کے باوجود بھی اگر کچھ لوگ ناشکر گزاری کے مرتکب ہوں گے تو وہ نافرمان اور اطاعت وایمان سے نکل جانے والے ہوں گے ۔ (آیہ استخلاف) سورة نور کی اس آیہ مبارکہ کو آیہ استخلاف کہا جاتا ہے جس کا ظہور خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک عہد میں ہوا کہ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کفار ومشرکین کا غرور ٹوٹا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں مکہ فتح ہوا ، خیبر فتح ہوا بلکہ سارا جزیرۃ العرب اور یمن فتح ہوگیا اور دنیا کے عظیم حکمرانوں نے خدمت اقدس میں تحفے بھیج کر اسلامی حکومت کی عظمت کو ماننے کا اظہار کیا ، پھر ابوبکر صدیق (رض) کے عہد مبارک میں جھوٹے مدعیان نبوت اور منکرین زکوۃ کو کچلا گیا اور یہ فتنے ختم ہوئے اور مصر کو اسلامی افواج روانہ ہوئیں ، بصرہ اور دمشق تک علاقے فتح ہوئے پھر عہد فاروقی میں تو دنیا کے دوسرے سرے تک نور اسلام کی روشنی پھیلی اور نظام اسلام کی روح پرور ہوا چلی کہ چشم فلک بھی حیران رہ گئی ، انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بعد ایسی پرامن باوقار انصاف پر مبنی اور جرات مند ریاست اس نے بھی اور نہ دیکھی تھی ، فارس وایران اور بلاد سلطنت قیصری بھی اسلامی ریاست میں شامل ہوئے اور عہد عثمانی وعلوی تک یہی شوکت قائم رہی بلکہ خلافت عثمانیہ میں تو مشرق سے مغرب تک سلطنت و حکومت صرف اسلام اور مسلمانوں کی تھی جس کے مقابل کسی سلطنت و حکومت کو حکومت کہنا بھی زیب نہیں دیتا چناچہ اس آیہ مبارکہ کا پہلا مظہر خلافت راشدہ ہے اور خلفائے راشدین ہی قرآن حکیم کے مثالی مسلمان بھی ہیں اور مثالی حکمران بھی بلکہ مفسرین کرام کے مطابق اس عظمت کے باوجود ناشکری کا مرتکب وہ سازشی گروہ ہے جو حضرت عثمان (رض) کی ظالمانہ شہادت کا سبب بنا اور اسلامی عظمت کو تباہ کرنے کی سازش کرکے کفر اختیار کیا ، تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ اسی گروہ نے حضرت علی (رض) حضرت حسن (رض) کو شہید کیا اور میدان کربلا میں خانوادہ نبوی کو قتل کر کے اور حضرت حسین (رض) کا سرمبارک کاٹ کر اسلاف کے خلاف شیعیت کی بنیاد استوار کی جس نے ہر اسلامی عقیدے اور ہر اسلامی عمل کا سر کاٹنے کی ناپاک کوشش کی ہے اور تاحال عقیدہ توحید سے لے کر حشرنشر تک ہر عقیدے اور ہر عمل میں اسلام کی مخالفت پہ پورا زور صرف کر رہا ہے آیہ استخلاف پہ حضرت استاذ ٓلمکرم بحرالعلوم علامہ اللہ یار خان (رح) کی تفسیر جو اسی نام سے ہے ” تفسیر آیہ استخلاف “ ضرور دیکھی جائے ۔ اور لوگو اللہ کی عبادت کو قائم کرو یعنی پوری شرائط کے ساتھ ادا کرو اور اسلامی معاشی نظام اختیار کرو ، یہ زکوۃ کی ادائیگی کی تاکید اسی بات کو چاہتی ہے تاکہ اللہ کریم تم پر رحم فرمائے اور دنیاوی رکاوٹیں دور فرما کر تمہیں دنیا میں عزت دے اور باطنی خرابیوں سے بچا کر عاقبت میں سرفراز فرمائے اور کفار کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ زمین پر ہمیشہ ان کا قبضہ رہے گا اور وہ اسلام پر ظالمانہ تسلط قائم رکھ سکیں گے ہرگز نہیں وہ تو خود جہنم کے راہی اور بہت بڑی تباہی سے دوچار ہونے والے اور نہایت دردناک جگہ پہنچنے والے اور غلبہ اسلام کا وعدہ اللہ کا ہے جسے وہ ہرا نہیں سکتے ہاں یہ وعدہ مسلمانوں سے ہے جو عقیدۃ بھی اور عملا بھی مسلمان ہوں ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کے مقابلہ میں مومنوں کا اخلاص اور کردار۔ منافق کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی طرف بلایا جائے تو وہ اس سے انحراف کے راستے تلاش کرتا ہے اس کے مقابلہ میں مومنوں کو یہ دعوت دی جائے کہ آؤ اپنے قضیہ میں اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کرواتے ہیں تو مومنوں کی اس کے سوا کوئی بات اور خواہش نہیں ہوتی کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کروانے اور اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہی لوگ حقیقی کامیابی پانے والے ہیں۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور تہہ دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی نافرمانی سے اخلاص کے ساتھ بچنے کی کوشش کرے وہ اپنی مراد کو پانے ولا ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی یہی خوبی تھی کہ وہ غم اور خوشی، عسر اور یسر، جنگ اور امن گویا کہ ہر حال میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے والے تھے۔ صحابہ کرام (رض) نے ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی جس کے نتیجہ میں وہ دنیا اور آخرت میں بامراد ہوئے۔ ایمان کی تازگی کے لیے دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ ” حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ اپنے ننہال یا اپنے انصاری ماموں کے پاس سکونت پذیر ہوئے آپ سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو اور آپ نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے جو پہلی نماز ادا کی وہ عصر کی نماز تھی آپ کے ساتھ صحابہ نے بھی نماز ادا کی۔ ان نمازیوں میں سے ایک آدمی جس نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی اس کا گذر دوسری مسجد والوں کے پاس سے ہوا۔ وہ رکوع کی حالت میں تھے اس نے کہا میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ کر آیا ہوں۔ وہ نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے۔۔ “ [ رواہ البخاری : باب الصلاۃ من الایمان ] (عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ طَلَّقَہَا زَوْجُہَا، فَتَرَکَہَا حَتَّی انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، فَخَطَبَہَا فَأَبَی مَعْقِلٌ، فَنَزَلَتْ (فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ ) [ رواہ البخاری : بابوَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ ] ” حسن سے مروی ہے معقل بن یسار (رض) کی بہن کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی اور طلاق کی عدّت بھی گزر گئی۔ اس کے شوہر نے دوبارہ نکاح کا پیغام بھیجا تو معقل نے انکار کردیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :” اگر میاں بیوی آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو انہیں مت روکیں “ (حضرت معقل (رض) نے کہا کیوں نہیں میں اللہ کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ ) مسائل ١۔ مومن ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ ٢۔ مومن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ ٣۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اللہ کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن کامیاب ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ١١١) ٢۔ جو برائی سے بچ گیا اس پر اللہ کا رحم ہوا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٣۔ مومنوں کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدخان : ٥٧) ٤۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہ کھلی کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٥۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف : ١٢) ٦۔ جس کو آگ کے عذاب سے بچا دیا گیا اور جنت کا داخلہ مل گیا وہ کامیاب ہوا۔ (آل عمران : ١٨٥) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ٧٢، ٨٩، ١٠٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(انما کان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ھم المفلحون) (٥١) ” ان لوگوں کا رویہ یہ ہے کہ بلاچون و چرا اور بغیر کسی ذرہ بھر انحراف کے وہ سمع و اطاعت کرتے ہیں۔ یہ سمع و اطاعت وہ اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں پورا اعتماد وپرا یقین ہے کہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ ہی حقیقی فیصلہ ہے اور اس میں مطلق عدل و انصاف ہے۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ خواہشات نفسانیہ پر مبنی ہے۔ یہ سمع و اطاعت وہ اس لیے کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے سامنے جھکا دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی اللہ زندگی بخشنے والا ہے ‘ یہی اللہ اس کائنات میں متصرف ہے اور ان کو اس بات پر اطمینان حاصل ہے کہ اللہ لوگوں کے لیے جو چاہتے ہیں وہی بہتر ہے بہ نسبت اس کے ‘ جو لوگ خود اپنے لیے چاہتے ہیں کیونکہ وہ ذات جس نے پیدا کیا وہ اپنی مخلوق کے بارے میں بہتر جانتی ہے۔ واولئک ھم المفلحون (٢٤ : ٥١) ” ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں “۔ یہ فلاح پانے والے اس لیے ہیں کہ ان کے امور کی تدبیر خالق کائنات ہی کرتا ہے اور ان کے باہم تعلق کو وہی منظم کرتا ہے۔ اپنے علم اور عدل کے ساتھ وہ ان کے درمیان وہی فیصلے کرتا ہے۔ اس لیے ان کو ان لوگوں سے بہتر ہونا چاہیے جو اپنے امور کے فیصلے خود کرتے ہیں یا ان جیسے افراد کرتے ہیں۔ یہ لوگ اور خود ان کے بھائی دوسرے بشر وہ علم و حکمت نہیں رکھتے جو اللہ رکھتا ہے۔ پھر وہ اس لیے بھی کامیاب ہوں گے کہ وہ ایک ہی منہاج پر چل رہے ہیں جس میں کوئی ٹیڑھ اور مقم نہیں ہے۔ وہ اپنے اس منہاج پر مطمئن ہیں۔ وہ اس منہاج پر چل رہے ہیں۔ ادھر ادھر نہیں بھٹکتے۔ لہٰذا ان کی قوتیں منتشر نہیں ہوتیں ‘ ان کی خواہشات کے اندر کوئی تضاد نہیں ہے۔ خواہشات اور مفادات کے ہاتھ میں ان کی نکیل نہیں ہوتی بلکہ ان کی نکیل اسلامی منہاج کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ ان کے آگے ہوتا ہے اور یہ اس کے پیچھے چلتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایمان والوں کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی طرف بلایا جاتا ہے تو سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کہہ کر رضا مندی ظاہر کردیتے ہیں اور یہ لوگ کامیاب ہیں اوپر منافقین کا حال بیان فرمایا کہ وہ صرف زبان سے ایمان اور اطاعت کا اقرار اور اعلان کردیتے ہیں پھر جب ان کے جھگڑوں کے فیصلہ کے لیے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تو اعراض کرتے ہیں اور بچ کر چلے جاتے ہیں وہ لوگ اپنے ایمان کے اعلان و اقرار میں جھوٹے ہیں۔ ان دونوں آیتوں میں سچے مومنین کا قول و عمل بتایا اور وہ یہ کہ جب انہیں کسی فیصلہ کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ ہر موقعہ پر (سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا) ہی کہتے ہیں ذرا بھی اعراض اور انحراف نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سن بھی لیا مان بھی لیا یہ حضرات ہی کامیاب ہیں۔ یہ پہلی آیت کا مضمون ہے دوسری آیت میں اس بات کی مزید توضیح فرمائی اور دو بارہ کامیابی کی خوشخبری دی فرمایا کہ (وَمَنْ یُّطِعْ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ) (اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے) (وَیَخْشَی اللّٰہَ ) (اور اللہ سے ڈرے) وَیَتَّقِیہِ (اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرے) (فَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْفَاءِزُوْنَ ) (سو یہی لوگ کامیاب ہیں) اس میں چار چیزوں کا ذکر ہے اول اللہ تعالیٰ کی اطاعت دوم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت (اطاعت میں وہ سب مامورات داخل ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حکم فرمایا اور اطاعت میں ان اعمال سے بچنا بھی داخل ہے جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا بلکہ سنن و آداب پر عمل کرنا بھی اطاعت کا جزو ہے) اور تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اس میں فرائض اور واجبات کا اہتمام کرنا داخل ہے اور چوتھی چیز یہ ہے کہ تمام گناہوں سے بچتا رہے گو اطاعت میں گناہوں سے بچنا بھی داخل ہے لیکن مزیدتاکید اور اہتمام کے لیے اس کا تذکرہ فرمایا۔ مختصر الفاظ میں مومن بندوں کی کامیابی بتادی۔ اسی لیے آیت کے ختم پر (فَاُولٰٓئکَ ھُمُ الْفَآءِزُوْنَ ) فرما دیا فائز یعنی کامیاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ سے بچا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا ہے (فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ) (سو جو شخص دوزخ سے بچایا دیا گیا اور جنت میں داخل کرا دیا گیا وہ کامیاب ہوگیا) ۔ مفسر ابن کثیر (ص ٢٩٩ ج ٣) نے حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ یَخْشَی اللّٰہَ سے ان گناہوں کے بارے میں ڈرنا مراد ہے جو گناہ پہلے ہوچکے ہیں اور وَیَتَّقِہٖ سے یہ مراد ہے کہ آئندہ گناہوں سے بچے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

54:۔ ” انما کان الخ “ : منافقین کا حال بیان کرنے کے بعد ان کے مقابلے میں مخلص مومنوں کا حال بیان کیا گیا اور انہیں اخروی بشارت دی گئی۔ منافقین کا حال تم نے سن لیا اب مخلصین کا حال بھی سن لو۔ مخلصین کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلوں کو بلا چون و چرا دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں اور ان کے قبول کرنے میں ذرا تامل اور پس و پیش نہیں کرتے اور آخرت کی فلاح بھی ان ہی لوگوں کے لیے ہے۔ ” ومن یطع اللہ الخ “ اور جو لوگ اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریں اور ہر قسم کے شرک سے بچیں وہ لوگ آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے ” یخش اللہ “ یعنی جو گناہ وہ کرچکا ہے ان پر گرفت سے ڈرے ” ویتقہ “ اور آئندہ کے لیے گناہ کرنے سے بچے ” ویخش اللہ فیما مضی من عمرہ و یتقہ فیما بقی من عمرہ (قرطبی ج 12 ص 295) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) مخلص مسلمانوں کی بات تو بس یہ ہے کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلایاجاتا ہے کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کردے تو وہ انبساط قلب کے ساتھ یہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور قبول کیا اور یہی لوگ حقیقی فلاح پانے والے ہیں۔ یعنی منافقین کی حالت تو معلوم ہوچکی اس کے مقابلے میں ایمان والوں کی یہ حالت ہے کہ جب ان کو فصل خصومات کے سلسلے میں طلب کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا رسول تمہارے مقدمہ کا فیصلہ کرے گا تو یہ اہل ایمان سمعنا واطعنا کہتے ہوئے دوڑتے چلے آتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دین و دنیا میں فلاح پانے والے ہیں۔