Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 44

سورة الفرقان

اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَکۡثَرَہُمۡ یَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ یَعۡقِلُوۡنَ ؕ اِنۡ ہُمۡ اِلَّا کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿٪۴۴﴾  2

Or do you think that most of them hear or reason? They are not except like livestock. Rather, they are [even] more astray in [their] way.

کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ۔ وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ... Or do you think that most of them hear or understand! ... إِنْ هُمْ إِلاَّ كَالاَْنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلً They are only like cattle -- nay, they are even farther astray from the path. meaning, they are worse than grazing cattle. Cattle only do what they were created to do, but these people were created to worship Allah Alone without associating partners with Him, but they worship others with Him, even though evidence has been established against them and Messengers have been sent to them.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

431یعنی یہ چوپائے جس مقصد کے لئے پیدا کیئے گئے ہیں، اسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسان، جسے صرف اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا تھا، وہ رسولوں کی یاد دہانی کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتا اور در در پر اپنا ماتھا ٹیکتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے چوپائے سے بھی زیادہ بدتر اور گمراہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] ایسے انسانوں کی مویشیوں سے بدتر ہونے کی دو وجوہ ہیں ایک یہ کہ ہر مویشی اپنے پالنے والے کو خوب پہچانتا ہے اور اس کا وفادار اور فرمانبردار ہوتا ہے۔ اور اپنے مالک کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے۔ اور اگر انھیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو اپنے مالک کے گھر واپس آتے ہیں۔ لیکن حضرت انسان کا یہ حال ہے کہ وہ بات تسلیم کرنے کے باوجود کہ اس کا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے۔ اپنی نیاز مندیوں اور نذروں نیازوں میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک بنالیتا ہے۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی آنکھوں اور کانوں سے اتنا ہی کام نہ لینا چاہئے۔ جتنا جانور لیتے ہیں۔ مثلاً بھیڑ بکریوں کا ریوڑ اپنے ہانکنے والے کو دیکھتا ہے اور اس کی آواز سنتا ہے۔ بھیڑ بکریاں بس اس کے اشارے پر چلتی ہیں انھیں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ ہانکنے والے انھیں چرانے کے لئے لے جارہا ہے یا ذبح کرنے کے لئے۔ کیونکہ اللہ نے انھیں اتنی عقل نہیں دی کہ وہ قرائن سے آنے والے حال کا کچھ اندازہ کرسکیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عقل وتمیز عطا کی ہے کہ وہ چرواہے اور قصائی میں امتیاز کرسکے لیکن اس کے باوجود جو شخص اپنے بھلے اور برے میں تمیزنہ کرسکے یا اسے یہ بھی معلوم نہ ہوسکے کون سے سیدھی راہ کی طرف بلا رہا ہے اور کون گمراہی کی تاریکیوں میں کھیل رہا ہے ؟ اس کا دوست کون ہوسکتا ہے اور دشمن کون ؟ تو ایسے انسان واقعی جانوروں سے بدتر ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُوْنَ ۔۔ : راستے کے اعتبار سے زیادہ گمراہ اس لیے کہ جانور تو معذور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سوچنے سمجھنے کا مادہ ہی نہیں رکھا، مگر افسوس ان پر ہے جو عقل و شعور رکھتے ہیں مگر اس سے کوئی کام نہیں لیتے، یا لیتے ہیں تو الٹا لیتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ چوپائے تو پھر بھی اپنے مالک کے تابع رہتے ہیں، چراگاہ میں چلے جاتے ہیں، پھر واپس ٹھکانے پر پہنچ جاتے ہیں، مگر یہ نہ اپنے خالق ومالک کو پہچانتے ہیں نہ اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَہُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ۝ ٠ۭ اِنْ ہُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًا۝ ٤٤ۧ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ عقل العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] ، ( ع ق ل ) العقل اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٤) یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر حق بات کو سنتے ہیں یا یہ کہ جس وقت وہ حق بات کو سنتے ہیں تو اس کو سمجھتے ہیں ان کا سننا اور پھر سمجھنا تو درکنار یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں کہ جن کو کھانے پینے کے علاوہ کسی قسم کی سمجھ بوجھ نہیں بلکہ یہ تو دین وحجت میں ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں کیوں کہ چوپائے تو ان راہ دین کے مکلف ہی نہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ (اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ ط) ” یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محفل میں کچھ سننے اور سمجھنے کے لیے نہیں آتے بلکہ یہ تو اپنے عوام کو دھوکا دینے کے لیے آتے ہیں تاکہ واپس جا کر انہیں بتاسکیں کہ ہم تو بڑے اہتمام کے ساتھ گئے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو خود سنیں اور سمجھیں لیکن ان سے تو ہمیں کوئی خاص بات سننے کو ملی ہی نہیں۔ (اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ) ” چوپائے تو کسی کلام کے مفہوم کو سمجھنے سے اس لیے معذور ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اس سطح کا شعور ہی نہیں دیا ‘ لیکن یہ لوگ انسان ہو کر بھی عقل اور شعور سے کام نہیں لیتے۔ اس لحاظ سے یہ لوگ چوپایوں اور جانوروں سے بھی گئے گزرے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57 "They are only like the cattle" because they follow their lusts blindly. Just as the sheep and cattle do not know where their driver is taking them, to the meadow or to the slaughter house, so are these people also following their leaders blindly without knowing or judging where they are being led-to success or to destruction.. The only difference between the two is that the cattle have no intelligence and will not be accountable as to the place where they are being taken by the driver. But it is a pity that human beings who are endowed with reason, should behave like cattle; therefore their condition is worse than that of cattle. Incidentally it should be noted that this passage (w . 43, 44) is not meant to dissuade the Holy Prophet from conveying the Message to such people, but it is an indirect warning to the disbelievers of the consequences if they continued to behave like cattle .

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :57 یعنی جس طرح بھیڑ بکریوں کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہانکنے والا انہیں چراگاہ کی طرف لے جا رہا ہے یا بوچڑخانے کی طرف ۔ وہ بس آنکھیں بند کر کے ہانکنے والے اشاروں پر چلتی رہتی ہیں ۔ اسی طرح یہ عوام الناس بھی اپنے شیطان نفس اور اپنے گمراہ کن لیڈروں کے اشاروں پر آنکھیں بند کیے چلے جار ہے ہیں ، کچھ نہیں جانتے کہ وہ انہیں فلاح کی طرف ہانک رہے ہیں یا تباہی و بربادی کی طرف ۔ اس حد تک تو ان کی حالت بھیڑ بکریوں کے مشابہ ہے ۔ لیکن بھیڑ بکریوں کو خدا نے عقل و شعور سے نہیں نوازا ہے ۔ وہ اگر چرواہے اور قصائی میں امتیاز نہیں کرتیں تو کچھ عیب نہیں ۔ البتہ حیف ہے ان انسانوں پر جو خدا سے عقل و شعور کی نعمتیں پاکر بھی اپنے آپ کو بھیڑ بکریوں کی سی غفلت و بے شعوری میں مبتلا کرلیں ۔ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ اس تقریر کا منشا تبلیغ کو لا حاصل قرار دینا ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے یہ باتیں اس لیے فرمائی جا رہی ہیں کہ لوگوں کو سمجھانے کی فضول کوشش چھوڑ دیں ۔ نہیں ، اس تقریر کے اصل مخاطب سامعین ہی ہیں ، اگرچہ روئے سخن بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے ۔ دراصل سنانا ان کو مقصود ہے کہ غافلو ، یہ کس حال میں پڑے ہوئے ہو ۔ کیا خدا نے تمہیں سمجھ بوجھ اس لیے دی تھی کہ دنیا میں جانوروں کی طرح زندگی بسر کرو؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:44) ام۔ کیا۔ خواہ۔ یا ۔ یحسب : مضارع واحد مذکر حاضر۔ تو گمان کرتا ہے، تو خیال کرتا ہے۔ (باب حسب ، سمع) حسبان مصدر۔ ان ھم : میں ان نافیہ ہے۔ بل : حرف اضراب ہے۔ یہاں تدارک کی دوسری صورت ہے (پہلی صورت 25:40 ملاحظہ ہو) کہ پہلے حکم کو برقرار رکھ کر اس کے مابعد کو اس حکم پر اور زیادہ کردیا جائے ۔ جیسے بل قالوا اضغاث احلام۔ بل افترہ بل ہو شاعر (21:5) بلکہ انہوں نے کہا کہ خیالات پریشاں ہیں بلکہ اس کو اس نے (آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے) گھڑلیا ہے بلکہ یہ شاعر ہے۔ مطلب یہ کہ ایک قرآن کو خیالات پریشان کہتے ہیں پھر مزید اسے افتراء بتلاتے ہیں اور اسی پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ نعوذ باللہ آپ کو شاعر سمجھتے ہیں۔ یہاں آیۃ ہذا میں ہے کہ وہ محض چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی ان کے لیڈر اور بڑے لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح انہیں ہانک کر جدھر لے جانا چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔ 5 ۔ کیونکہ جانور تو اس لحاظ سے معذور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سوچنے سمجھنے کا مادہ ہی نہیں رکھا مگر تف ہے ان بدبختوں پر کہ عقل و شعور رکھتے ہیں مگر اس سے کوئی کام نہیں لیتے یا لیتے ہیں تو الٹا لیتے ہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ بہائم (چوپائے جانور) تو پھر بھی اپنے مالک کے تابع رہتے ہیں۔ چراگاہ میں چلے جاتے ہیں۔ پھر واپس اپنے ٹھکانے پر پہنچ جاتے ہیں مگر یہ نہ اپنے خالق و رازق کو پہچانتے ہیں اور نہ اس کی مرضی کے مطابق زندگی ہی گزار رہے ہیں۔ (قرطبی۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مطلب یہ کہ آپ ان کی ہدایت نہ ہونے سے مغموم نہ ہوجایئے، کیونکہ آپ ان پر مسلط نہیں کہ خواہی نخواہی ان کو راہ پر لاویں، اور نہ ہدایت کی ان سے توقع کیجئے کیونکہ ان کو نہ سماع ہے نہ عقل ہے۔ 8۔ کیونکہ وہ اس راہ دین کے مکلف نہیں تو ان کا نہ سمجھنا مذموم نہیں، اور یہ مکلف ہیں، پھر نہیں سمجھتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دین حق کی مخالفت اور انسان کی گمراہی کا بنیادی سبب نفس پرستی ہے۔ اس لیے نفس پر ستی کی نفی کی گئی ہے۔ انسان جب بھی حق بات کی مخالفت کرتا ہے یا کسی گناہ میں ملّوث ہوتا ہے تو اس کے پیچھے اس کی نفسانی خواہش کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس حد تک اپنے نفس کے بندے بن چکے ہوتے ہیں کہ ان کے ہر کام کے پیچھے اپنی منشاء اور مفاد کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا ہے کیا آپ نے اس شخص کے کردار پر غور نہیں کیا جس نے اپنی خواہش کو خدا کا درجہ دے دیا ہے ؟ ایسے شخص کو راہ راست پر لانا کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا لہٰذا آپ کو ارشاد ہوا کہ آپ ایسے شخص کے فکر وعمل پر وقت صرف کرنے کی بجائے اپنا کام کیے جائیں کیونکہ آپ کسی کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گئے۔ نفس کے بندوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ دیکھنے والا انھیں انسان سمجھتا ہے لیکن حقیقت میں وہ حیوان سے بدتر ہوتے ہیں۔ بیشک وہ انسان کی طرح سنتے اور عقل رکھتے ہیں۔ لیکن اپنے نفس کے غلام ہونے کی وجہ سے چوپاؤں سے بدتر ہوچکے ہیں بلکہ بےراہ روی کے اعتبار سے ڈنگروں سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ چوپائے میں اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ اپنے مالک کا وفادار اور اس کی زبان نہ سمجھنے کے باوجود اس کی آواز کے انداز اور لب و لہجہ کا اندازہ لگا کر مالک کی تابعداری کرتا ہے۔ کتے کو دیکھیں جانوروں میں حقیر اور پلید ہونے کے باوجود کس طرح اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے اور عقل و فکر رکھنے کے باوجود خالق حقیقی کی تابعداری اور بندگی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دنیا میں کسی جانور اور چوپائے کی ایسی مثال موجود نہیں کہ جو اپنے مالک کو چھوڑ کر دوسرے کی غلامی کرتا ہو۔ لیکن انسان اس قدر جاہل اور ظالم ہے کہ یہ ناصرف اپنے مالک حقیقی کی نافرمانی کرتا ہے بلکہ دوسروں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جانوروں سے بدتر نہ کہا جائے تو اور انھیں کس نام سے پکارا جائے ؟ نفس کی پیروی کا نقصان : عَنْ شَدَّادٌ فَإِنِّی قَدْ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ صَلَّی یُرَاءِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَاءِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَاءِی فَقَدْ أَشْرَکَ ) [ رواہ احمد : مسند شداد ] حضرت شداد (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا جس نے دکھلاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے دکھلاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا جس نے دکھلاوے کا صدقہ دیا اس نے شرک کیا۔ (إِنَّ اللَّہَ لاَ یَنْظُرُ إِلَی أَجْسَادِکُمْ وَلاَ إِلَی صُوَرِکُمْ وَلَکِنْ یَنْظُرُ إِلَی قُلُوبِکُمْ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِہِ إِلَی صَدْرِہِ ) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ وَخَذْلِہِ وَاحْتِقَارِہِ وَدَمِہِ وَعِرْضِہِ وَمَالِہِ ] ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور شکل و صورت کی طرف نہیں دیکھتا لیکن وہ تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے اور آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا۔ “ مسائل ١۔ دین کے مقابلے میں اپنے نفس کی بات ماننا، نفس کو خدا بنانے کے مترادف ہے۔ ٢۔ جو لوگ اپنے نفس کے پجاری بن جاتے ہیں وہ چوپاؤں سے بدتر ہوتے ہیں۔ ٣۔ نفس کا پجاری انسان پر لے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن چوپاؤں سے بدتر انسان : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کردی انھیں بہرے اور اندھے کردیا ہے۔ (محمد : ٢٣) ٢۔ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں وہ رجوع نہیں کرتے۔ (البقرۃ : ١٨) ٣۔ ہماری آیات کا انکار کرنے والے بہرے اور گونگے ہیں۔ (الانعام : ٣٩) ٤۔ بہروں کو آپ نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ بےعقل ہیں۔ (یونس : ٤٢) ٥۔ آپ مردوں اور بہروں کو اپنی پکار نہیں سنا سکتے۔ (النمل : ٨٠) ٦۔ کفار چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٧۔ عقل سے کام نہ لینے کا انجام۔ ( الملک : ١٠) ٨۔ ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ انسان دل، کان اور توجہ سے کام لے۔ ( ق : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل مکہ اپنے کفر و شرک پر خوش تھے اور اس میں بڑا کمال سمجھتے تھے کہ ہم نے توحید کی دعوت قبول نہیں کی وہ کہتے تھے کہ اگر ہم اپنی معبودوں پر جمے ہوئے نہ رہتے تو یہ شخص تو ہمیں ان کی پرستش سے ہٹا ہی دیتا ان کی جہالت کا جواب دیتے ہوئے فرمایا (وَ سَوْفَ یَعْلَمُوْنَ ) (الآیۃ) اور جس وقت یہ لوگ عذاب دیکھیں گے اس وقت جان لیں گے کہ راہ حق سے ہٹا ہوا کون تھا، عذاب سب سمجھا دے گا اور اس وقت حقیقت ظاہر ہوجائے گی، دنیا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بےراہ بتاتے تھے قیامت کے دن ان کا اپنا گمراہ ہونا واضح ہوجائے گا، ان کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے فرمایا (اَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ ) (کیا آپ نے اس کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا) (اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً ) (سو کیا آپ نگرانی کرنے والے ہیں) (اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ ) (کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں) (اِِنْ ھُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا) (یہ لوگ محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ ہیں) ۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان قبول نہ کریں تو آپ پریشان نہ ہوں آپ پر قبول کرانے کی ذمہ داری نہیں ڈالی گئی لہٰذا آپ ان کے نگران نہیں ہیں آپ کا کام صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے سورة الزمر میں فرمایا (اِِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ للنَّاس بالْحَقِّ فَمَنْ اھْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا وَمَا اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍ ) (ہم نے لوگوں کے لیے آپ پر یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے جو شخص راہ راست پر آئے گا تو اپنے نفع کے واسطے اور جو شخص بےراہ رہے گا اس کا بےراہ ہونا اس پر پڑے گا اور آپ ان پر مسلط نہیں کیے گئے) آپ کے یہ مخاطب گمراہی میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں حق کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے انہوں نے تو خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنا رکھا ہے جو جی میں آتا ہے وہ کہتے ہیں جو نفس خواہش کرتا ہے اسی کی فرمانبر داری کرتے ہیں جیسے معبود کی فرماں برداری کی جاتی ہے ایسے لوگوں سے ہدایت کی توقع نہ رکھیئے۔ آپ یہ بھی خیال نہ کریں کہ ان میں اکثر سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں۔ یہ تو راہ حق سے اتنی دور جا پڑے ہیں کہ بس چوپایوں کی طرح ہوگئے ہیں۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ سے بھٹک گئے ہیں کیونکہ چوپائے مکلف نہیں ہیں وہ نہ سمجھیں تو ان کی طرف کوئی مذمت متوجہ نہیں ہوتی اور یہ مکلف ہیں پھر بھی سننے کی طرح نہیں سنتے اور سمجھنے کی طرح نہیں سمجھتے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ جانور تو اپنے مجازی مالک کی فرمانبر داری کرتے ہیں محسن اور غیر محسن کو پہچانتے ہیں اپنے کھانے پینے کے مواقع کو جانتے ہیں اپنے ٹھہرنے اور بیٹھنے کے ٹھکانوں کو سمجھتے ہیں اپنے نفع کے طالب رہتے ہیں اور ضرر سے بچتے ہیں، برخلاف ان لوگوں کے جنہیں اللہ نے عقل دی اور سمجھ دی ہے یہ لوگ اپنے خالق اور رازق کی فرمانبر داری نہیں کرتے اور اس کے احسان مند نہیں ہوتے خواہشوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں نہ ثواب کی طلب ہے نہ عقاب کا خوف، حق سامنے آگیا معجزات دیکھ لیے دلائل عقلیہ سے لا جواب ہوگئے لیکن ان سب کے باو جود ایمان قبول نہیں کرتے لا محالہ جانوروں سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں۔ یہ جو فرمایا (اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ ) (الایۃ) اس کے بارے میں صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ چونکہ ان میں سے بعض کا ایمان لانا بھی مقدر تھا اس لیے لفظ اکثر لایا گیا، آیت شریفہ سے خواہشات نفس کے پیچھے چلنے کی قباحت اور شناعت معلوم ہوئی یہ خواہشات نفس کا اتباع انسان کو کفر و شرک پر بھی ڈالتا ہے اور گناہ بھی کرواتا ہے جو لوگ نفس کے پابند ہوتے ہیں نفس ہی کی خواہشوں کا اتباع کرتے ہیں اور اس طرح چلتے ہیں جیسے نفس ہی ان کا معبود ہو، یہ ذہن اور مزاج تباہ کر کے رکھ دیتا ہے، حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف خواہشات نفس کے پیچھے چلنے کا ہے اور لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں۔ (الحدیث) (مشکوۃ المصابیح ص ٤٤٤) ایک حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ ہلاک کرنے والی یہ چیزیں ہیں (١) نفس کی خواہش جس کا اتباع کیا جائے (٢) وہ کنجوسی جس کی اطاعت کی جائے (٣) انسان کا اپنے نفس پر اترانا، اور یہ ان تینوں میں سب سے زیادہ سخت ہے۔ (مشکوۃ المصابیح ص ٤٣٤) جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ان کا اپنی خواہشات کا متبع ہونا ظاہر ہے کہ توحید کی دعوت پر کان نہیں دھرتے اور کفر و شرک ہی کو اختیار کیے رہتے ہیں نفس نہیں چاہتا کہ اللہ کے رسول کا اتباع کریں لہٰذا نفس کے غلام بنے رہتے ہیں۔ دلائل سے حق واضح ہوجانے پر بھی حق کی طرف نہیں آتے، اتباع نفس کا مرض بہت سے مدعیان اسلام میں بھی ہے قرآن حدیث کی صاف صریح تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایسے عقائد اور ایسے اعمال تراش لیتے ہیں جن میں بعض تو کفر کی حد تک پہنچا دیتے ہیں مثلاً کچھ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کو اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر مانتے ہیں اور کچھ لوگ آپ کے بشر ہونے کے منکر ہیں۔ یہ دونوں کفریہ باتیں ہیں قرآن حدیث کے خلاف ہیں بعض فرقے تحریف قرآن کے قائل ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو دو تین حضرات کے علاوہ تمام صحابہ کو کافر کہتے ہیں یہ بھی کفریہ عقیدے ہیں اور یہ سب نفس کا اتباع ہے یعنی خواہشات نفس کی پابندی ہے۔ یہ ہم نے بعض ایسے عقیدے بتائے ہیں جو اتباع ہویٰ کی وجہ سے لوگوں نے اختیار کرلیے ہیں اب رہے وہ اعمال جنہیں بدعت عملی کہا جاتا ہے یہ بھی بہت زیادہ ہیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف بدعات رواج پذیر ہیں یہ بد عتیں خوشی میں اور مرنے جینے میں، محرم الحرام کے مہینے میں ربیع الاول میں رجب میں اور شعبان میں بہت زیادہ مروج ہیں جن کی تفاصیل حضرت حکیم الامت تھانوی کی کتاب اصلاح الرسوم میں بیان کردی گئی ہیں اور چونکہ بدعت کے لیے کسی سند کی ضرورت نہیں خود تراش لینے ہی سے وجود میں آجاتی ہے اس لیے مختلف علاقوں میں مختلف بدعات ہیں، احقر نے ایک مرتبہ جنوبی ہند کا سفر کیا ظہر کا وقت تھا مسجد میں امام صاحب کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مؤذن نے اذان دی تو اس کے بعد نقارہ بجا دیا گیا احقر نے امام صاحب سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ عورتوں کو بتانے کے لیے ہے کہ مسجد میں اذان ہوگئی ہے میں نے عرض کیا کیا سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں عورتوں کی اطلاع دینے کے لیے اذان کے علاوہ نقارہ پیٹا جاتا تھا، کہنے لگے ایسا تو نہیں، میں نے کہا کہ پھر آپ لوگوں نے یہ نئی چیز کیوں نکالی ؟ ایک تو نئی چیز وہ بھی نقارہ ؟ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہاں یہ بھی رواج ہے کہ دفن کرنے کے بعد دفن میں شرکت کرنے والوں کو میٹھی روٹیاں بانٹتے ہیں جب تک روٹیاں تیار نہیں ہوجاتیں میت کو گھر ہی میں رکھے رہتے ہیں، دمشق کا سفر کیا وہاں دیکھا کہ اذان سے چند منٹ پہلے مؤذن مینار پر چڑھ کر بہ آواز بلند درود شریف پڑھتا ہے اور جمعہ کے دن خطیب خطبہ پڑھنے کے لیے اپنے حجرہ سے چلتا ہے تو جب اس پر نظر پڑجائے چند آدمی مل کر زور زور سے درود شریف پڑھتے ہیں اور اس کے منبر میں بیٹھ جانے تک برابر پڑھتے رہتے ہیں، مختلف علاقوں میں مختلف بدعات ہیں اہل بدعات کو جب متنبہ کیا جاتا ہے تو ماننے کے بجائے الٹی الٹی دلیلیں لے آتے ہیں اور سینکڑوں سنتیں جو احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں ان پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہوتے یہ اتباع ہویٰ ہے اگرچہ دینی جذبات کے ساتھ ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان کافروں میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں یہ تو محض ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ یہ ان چوپایوں سے بھی زیادہ گمر کردہ راہ اور بےراہ ہیں یعنی جس شخص نے اپنی نفسانی خواہش کو خدا بنا رکھا ہے تو آپ پر ایسے شخص کی کیا ذمہ داری ہے یہ شاید ان لوگوں کو فرمایا کہ جن کو جب کوئی اچھا پتھرنظر آیا تو اس کو لاکر معبود بنالیا پھر جب کوئی اس سے اچھا پتھر ملا اس کو معبود بنایا یا ان کو فرمایا کہ جو ہر بات اپنی نفسانی خواہش کے مطابق کرتے ہیں جو دل میں آیا وہ کرلیا قطع نظر اس کے کہ اس کام کا اخلاقی اثر کیا ہوگا اور آسمانی شریعت اس کام کو جائز سمجھتی ہے یا نہیں اس قسم کے بدذوق لوگوں کے نہ آپ نگراں ہیں نہ ان سے کوئی امید ہے کیونکہ یہ نہ سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں سننے کا یہ مطلب کہ توجہ کے ساتھ آپ کی باتوں کو اور قرآن کریم کی آیتوں کو سنیں اور سمجھیں یہ تو محض چوپائے ہیں کانوں میں ان کے بھی آواز پڑتی ہے لیکن سمجھتے نہیں بلکہ یہ تو ان سے بھی گئے گزرے ہیں وہ بھی اپنے مالک اور محسن کو پہچانتے اور اپنے گھر اور تھان کو جانتے ہیں یہ بدنصیب اس کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ قیامت میں کہیں گے لوکنا تسمح او نعقل ماکنا فی اصحب السحیر اس آیت میں اکثر کی قید شاید اس لئے لگائی کہ انہی منکروں میں سے بعض سن کر اور سمجھ کر کفر سے تائب ہوئے اور اسلام لائے۔