Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 54

سورة الفرقان

وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الۡمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِہۡرًا ؕ وَ کَانَ رَبُّکَ قَدِیۡرًا ﴿۵۴﴾

And it is He who has created from water a human being and made him [a relative by] lineage and marriage. And ever is your Lord competent [concerning creation].

وہ ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار ( ہر چیز پر ) قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاء بَشَرًا ... And it is He Who has created man from water, means, He created man from a weak Nutfah, then gave him shape and formed him, and completed his form, male and female, as He willed. ... فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ... and has appointed for him kindred by blood, and kindred by marriage. in the beginning, he is someone's child, then he gets married and becomes a son-in-law, then he himself has sons-in-law and other relatives through marriage. All of this comes from a despised liquid, Allah says: ... وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا And your Lord is Ever All-Powerful to do what He wills.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

541نسب سے مراد رشتے داریاں ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوں اور صہرا سے مراد وہ قرابت مندی ہے جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہو، جس کو ہماری زبان میں سسرالی رشتے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں رشتہ داریوں کی تفصیل آیت (وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا ۭوَسَاۗءَ سَبِيْلًا 22؀ۧ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّھٰتُكُمْ وَبَنٰتُكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ وَعَمّٰتُكُمْ وَخٰلٰتُكُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِيْٓ اَرْضَعْنَكُمْ وَاَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَاُمَّھٰتُ نِسَاۗىِٕكُمْ وَرَبَاۗىِٕبُكُمُ الّٰتِيْ فِيْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَاۗىِٕكُمُ الّٰتِيْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ ۡ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ ۡ وَحَلَاۗىِٕلُ اَبْنَاۗىِٕكُمُ الَّذِيْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ ۙ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِـيْمًا 23؀ۙ ) 4 ۔ النساء :23-22) میں بیان کردی گئی ہے اور رضائی رشتے داریاں حدیث کی رو سے نسبی رشتوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔ البخاری ومسلم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٧] یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ کیا کم ہے کہ اس نے پانی ایک بوند سے انسان جیسی محیرالعقول میشنری رکھنے والی مخلوق پیدا کردی۔ مزید یہ کہ اس پیدا ہونے والے بچہ کو جو مختلف نوعوں میں تقسیم کردیا۔ کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی۔ اور یہ دونوں انسان ہونے کے اعتبار سے تو یکساں ہیں۔ مگر اپنی جسمانی ساخت اور خصوصیات میں بہت سے امور میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ تاہم اس اختلاف کے باوجود وہ دونوں مل کر ایک ہی مقصد پورا کرتے ہیں اور وہ ہے بقائے نسل انسانی۔ ان دونوں نوع کے ملاپ سے دنیا میں ہزاروں مرد اور عورتیں پیدا ہو رہے ہیں۔ پھر اس اختلاف کی بنا پر رشتہ داریاں بھی دو طرح کی بن جاتی ہیں۔ ایک وہ جن کے ہاں عورتیں بہو بن کر آتی ہیں اور یہ نسبی رشتہ داری ہے۔ جیسے بیٹا، پوتا، پڑوتا وغیرہ اور دوسرے وہ جن کے ہاں ہماری بیٹیاں، پوتایاں وغیرہ بہو بن کر جاتی ہیں یہ سسرال رشتہ داریاں ہیں۔ پھر ان دونوں قسم کی رشتہ داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ چڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدنی وجود میں آجاتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو لڑکے اور لڑکی کی جسمانی ساخت میں صرف شرمگاہوں کی فرق ہوتا ہے جس سے ہم یہ تمیز کرتے ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ پھر کچھ اختلاف بلوغت پر نمایاں ہوتے ہیں۔ جیسے لڑکے کو احتلام ہونا اور داڑھی اور مونچھوں کے بالوں کا اگنا اور لڑکیوں کو حیض آنا اور اس کے پستانوں میں ابھار کا پیدا ہونا۔ پھر کچھ امور ایسے ہیں جن کا تعلق استقرار حمل سے ہوتا ہے جیسے عورت کے پستانوں میں دودھ کا اتر آنا۔ کیونکہ جب تک حمل قرار نہ پائے دودھ بنتا ہی نہیں۔ پھر جوانی ڈھلنے پر عورت کا حیض آنا از خود بند ہوجاتا ہے اور مرد میں مادہ منویہ کی پیدائش از خود رک جاتی ہے۔ اور دونوں کے شہوانی جذات افسردہ پڑنے لگ جاتے ہیں اور یہ ایسے لگے بندے قوانین فطرات ہیں جن میں کبھی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ ان امور پر غور کرنے سے بےاختیار یہ بات زبان پر آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے جس قسم کا کام لینا ہوتا ہے اس پر وہ پوری قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا ۔۔ : یہ توحید کے دلائل کی پانچویں قسم ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور آدمی پر انعام تینوں کا ذکر ہے۔ ” بَشَراً “ کا لفظ ” اَلْبَشَرَۃُ “ (کھال، ظاہری جلد) سے ہے، دوسرے تمام جانوروں کا جسم بالوں سے یا پروں وغیرہ سے چھپا ہوتا ہے، جبکہ انسان کی جلد اس سے صاف ہوتی ہے، اس لیے اسے ” بشر “ کہا جاتا ہے۔ پچھلی آیت میں خالق ومالک اور تنہا معبود ہونے کی دلیل کے طور پر دو پانیوں کو ملنے سے روکنے کی قدرت کا ذکر تھا اور اس آیت میں انھیں ملانے کا ذکر ہے، فرمایا : (اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ڰ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا) [ الدھر : ٢ ] ” بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا۔ “ تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کائنات میں سب کچھ خود بخود ہر چیز کی طبیعت کے تقاضے سے ہو رہا ہے۔ نہیں ! یہ اس زبردست مالک و مختار کا کام ہے، چاہتا ہے تو سمندروں کو ملنے سے روک دیتا ہے، چاہتا ہے تو قطرے کو باہم ملا دیتا ہے اور پانی پر صورت گری اور نقش آفرینی فرما دیتا ہے۔ فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا : یعنی یہی کرشمہ بجائے خود کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر قطرے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بنا دیتا ہے، اس پر مزید یہ کہ اس نے انسان کا ایک نمونہ ہی نہیں، دو الگ الگ نمونے (عورت اور مرد) بنا دیے، فرمایا : (فَجَــعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى) [ القیامۃ : ٣٩ ] ” پھر اس نے اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنائیں۔ “ پھر وہ مذکر ہو یا مؤنث، ان سب کی نسبت باپ دادا کی طرف ہوتی ہے، فلاں بن فلاں اور فلانہ بنت فلاں۔ جب مرد اور عورت کی آپس میں شادی ہوتی ہے تو ان کے بہت سے سسرالی رشتے دار بن جاتے ہیں، خاندانی قبیلوں اور قوموں کا یہ سارا پھیلاؤ ایک قطرۂ منی سے وجود میں آتا ہے۔ دیکھیے سورة نساء کی پہلی آیت اور سورة حجرات (١٣) ۔ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا : یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں، کیونکہ تیرا رب ہمیشہ سے بیحد قدرت والا ہے۔ ہمیشگی کا مفہوم ” كَانَ “ سے ظاہر ہو رہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرً‌ا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرً‌ا (And He is the One who created man from water then made of him kinship of blood and kinship of in-laws. 25:54) نَسَب (nasab, translated above as &kinship of blood& ) is that relationship which emanates from either parent, and صِهْر (sihr, translated above as &kinship of in-laws& ) is that kinship which is drawn from the wife&s side and is called in - laws. All these relations and bonds are Allah&s graces given to mankind for a pleasant and tranquil life. If these relations are taken away from someone&s life it will be impossible for him to live by himself.

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّصِهْرًا، نسب اس رشتہ اور قرابت کو کہا جاتا ہے جو باپ یا ماں کی طرف سے ہو، اور صہر وہ رشتہ وتعلق ہے جو بیوی کی طرف سے ہو جس کو عرف میں سسرال بولتے ہیں۔ یہ سب تعلقات اور قرابتیں اللہ کی دی ہوئی نعمتیں ہیں جو انسان کو خوشگوار زندگی کے لئے لازمی ہیں، اکیلا آدمی کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۗءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًا۝ ٠ۭ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا۝ ٥٤ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ نسب النَّسَب والنِّسْبَة : اشتراک من جهة أحد الأبوین، وذلک ضربان : نَسَبٌ بالطُّول کالاشتراک من الآباء والأبناء . ونَسَبٌ بالعَرْض کالنِّسْبة بين بني الإِخْوة، وبني الأَعْمام . قال تعالی: فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان/ 54] . وقیل : فلان نَسِيبُ فلان . أي : قریبه، وتُستعمَل النّسبةُ في مقدارَيْنِ مُتجانِسَيْنِ بَعْضَ التَّجَانُسِ يختصُّ كلّ واحد منهما بالآخر، ومنه : النَّسِيبُ ، وهو الانْتِسَابُ في الشِّعْر إلى المرأة بذِكْر العشق، يقال : نَسَبَ الشاعر بالمرأة نَسَباً ونَسِيباً. ( ن س ب ) النسب والنسبۃ کے معنی ابواین میں سے کسی ایک کی طرف سے رشتہ درای کے ہیں اور نسب دوقسم پر ہے نسب بالطول یعنی وہ رشتہ جو آباء اور ابناء کے درمیان پایا جاتا ہے : ۔ دوم نسب بالعرض یعنی وہ رشتہ جو بنو الا عمام یعنی عم زاد بھائیوں کے درمیان ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان/ 54] پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا ۔ فلان نسیب فلان وہ فلاں کا قریبی رشتہ دار ہے اور نسبۃ کے معنی ان دو مقدار روں کے درمیان باہمی مناسبت کے بھی آتے ہیں جن میں کسی قسم کی مجانست ہو اسی سے نسیب کا لفظ ہے جس کے معنی اشعاری میں عورت کے محاسن ذکر کر کے اس کے ساتھ عشق کا اظہار کرنے کے ہیں ۔ اور یہ سب انشا عر بالمرء ۃ نسبا ونسیبا کا مصدر ہے ۔ صهر الصِّهْرُ : الختنُ ، وأهل بيت المرأة يقال لهم الأَصْهَارُ ، كذا قال الخلیل «2» . قال ابن الأعرابيّ : الإِصْهَارُ : التَّحَرُّمُ بجوارٍ ، أو نسب، أو تزوّج، يقال : رجلٌ مُصْهِرٌ: إذا کان له تحرّم من ذلك . قال تعالی: فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان/ 54] ، والصَّهْرُ : إذابةُ الشّحمِ. قال تعالی: يُصْهَرُ بِهِ ما فِي بُطُونِهِمْ [ الحج/ 20] ، والصُّهَارَةُ : ما ذاب منه، وقال أعرابيّ : لَأَصْهَرَنَّكَ بيمينٍ مُرَّةٍ «3» ، أي : لأُذِيبَنَّكَ. ( ص ھ ر ) الصھر کے معنی الختن آتے ہیں یعنی وہرشتہ دار جو شوہر کی جانب سے ہوں نیز بیوی کے خاندان والوں کو اصھار سمجھا جاتا ہے ی یہ تو خلیل کا ہے ۔ ابن الاعرابی نے کہا ہے کہ پڑوس ، نسب یا شادی کی وجہ سے تعلق پیدا ہوجائے اسے اصھار ( افعال ) کہا جاتا ہے رجل مصہر وہ مردج سے اس قسم کا تعلق حاصل ہو اور ایت کریمہ : فَجَعَلَهُ نَسَباً وَصِهْراً [ الفرقان/ 54] میں نسب سے وہ رشتے داری مراد ہے جو آباء و اجداد کیجانب سے ہو اور صھر سے مراد وہ رشتہ جو شادی کی وجہ سے پیدا ہوجائے ۔ الصھر ( ف) کے معنی ہیں چربی وغیرہ کو گرم کرکے پگھلانا قرآن پاک میں ہے : يُصْهَرُ بِهِ ما فِي بُطُونِهِمْ [ الحج/ 20] اس سے جو کچھ ان کے پیٹیوں کے اندر ہے گال دیا جائیگا ۔ الصھارۃ پگھلائ ہوئی چربی ایک اعرابی کا قول ہے کہ لا صھرنک بیمین مرۃ یعنی میں تمہیں پگھلا کر چھوڑوں گا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نسب اور سسرالی رشتے قول باری ہے : (وھوالذی خلق من الماء بشرا وجعلہ نسبا وطھوا) اور وہی ہے جس نے پانی سے ایک بشر پیدا کیا اور پھر اس نے نسب اور سسرال کے دو الگ الگ سلسلے چلائے۔ یہاں وہ پانی مراد لینا جائز ہے جس سے جانداروں کی اصل پیدا کی گئی جس کا ذکر اس قول باری میں ہے : (وجعلنا من الماء کل شیء حی) اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی، اور اس سے وہ نطفہ مراد لینا بھی درست ہے جس سے اولاد آدمی کی تخلیق ہوئی۔ قول باری (فجعلہ نسبا وصھرا) کی تفسیر میں طائوس کا قول ہے کہ رضاعت بھی صہر یعنی سسرال میں داخل ہے۔ ایک روایت کے مطابق ضحاک کا قول ہے کہ نسب سے مراد رضاعت ہے اور صہر سے مراد دامادی رشتہ ہے۔ فراء کا قول ہے کہ سب سے محرم رشتہ دار مراد ہے جس سے نکاح جائز نہیں ہوتا اور صہر سے غیر محرم رشتہ دار مراد ہے جس کے ساتھ نکاح جائز ہوتا ہے۔ مثلاً چچازاد بہنیں وغیرہ۔ ایک قول کے مطابق نسب سے قریبی رشتہ داری مراد ہے اور صہر سے مخلوط رشتہ داری مراد ہے جو قریبی رشتہ داری کے مشابہ ہوتی ہے۔ ضحاک کا قول ہے نسب کے تحت سات قسم کے رشتہ دار آتے ہیں جن کا ذکر قول باری (حرمت علیکم امھاتکم) لے سے کر قول باری (وبنات الاخت) تک ہوا ہے اور صہر کے تحت پانچ رشت دار آتے ہیں جن کا ذکر قول باری (وامھاتکم اللاتی اضعنکم) سے لے کر قول باری (وحلائل ابناء کم الذین من اصلابکم) تک ہوا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اصہار کے سلسلے میں متعارف بات یہی ہے کہ ان سے ایک شخص کی بیویوں کا ہر وہ محرم رشتہ دار مراد ہے جس کی طرف اس شخص یعنی شوہر کی نسبت ہوتی ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کے اصہار کے لئے وصیت کر جائے تو یہ وصیت اس شخص کی بیویوں کے ہر محرم رشتہ دار کے لئے جاری کی جائے گی۔ لوگوں کی عام گفتگو اور محاورے سے یہی مفہوم متعارف ہے۔ بیٹی کے شوہر یعنی داماد کو ختن کہتے ہیں۔ اسی طرح ہر اس عورت کو ختن کہتے ہیں جو اس مرد کے لئے محرم ہوتی ہے جس کی طرف داماد کی نسبت کی جاتی ہے۔ نیز شوہر کے تمام محرم مرد رشتہ دار بھی اس کے سسرال کے ختن کہلاتے ہیں ۔ کبھی صہر کا لفظ ختن یعنی داماد کی جگہ استعمال ہوتا ہے اور عرب کے لوگ داماد کو بھی صہر کہہ دیتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے ؎ سمیتھا اذا ولدت تموت والقبر صھر ضامن زمیت جب یہ بچی پیدا ہوئی تھی اس وقت ہی میں نے اس کا نام ” تموت “ (جلد مرجائے) رکھ دیا تھا دراصل قبرہی بڑا باوقار اور ذمہ دار داماد ہوتا ہے یعنی ایک بچی کی قبر ہی کے اندر درست طریقے سے حفاظت ہوسکتی ہے۔ یہاں شاعر نے صہر کہہ کر داماد مراد لیا ہے جو ان کی گفتگو اور روز مرہ بول چال کی متعارف صورت پر محمول ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) اور وہ ایسا ہے کہ جس نے مرد و عورت کے نطفہ سے انسانوں کو پیدا کیا اور پھر اسے خاندان والا یعنی ایسے رشتہ داروں والا بنایا جن سے نکاح نہیں کرسکتا اور سسرال والا بنایا کہ جن میں شادی بیاہ کرسکتا ہے اور مخلوق میں جو حلال و حرام رشتے پیدا کیے اور تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ ( وَہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا) ” پانی سے یہاں انسان کا مادۂ تولید بھی مراد ہوسکتا ہے اور عام پانی بھی ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار چیز پانی سے ہی پیدا کی ہے۔ (فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّصِہْرًاط وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا ) ” انسان کا نسب تو اس کے والدین سے چلتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی کے حوالے سے دوسرے خاندان کے ساتھ بھی اس کا رشتہ اور تعلق جوڑا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ساس اور سسر کو بھی اللہ تعالیٰ نے والدین جیسا تقدس اور احترام عطا کیا ہے۔ سسرالی رشتہ داریاں اگر نہ ہوتیں تو قبیلوں اور خاندانوں کا معاشرے میں باہمی ارتباط و اختلاط ممکن نہ ہوتا اور ہر خاندان دوسرے خاندان سے الگ تھلگ رہتا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سسرالی رشتوں کا تانا بانا اس طرح سے ُ بن رکھا ہے کہ اس سے نوع انسانی باہم مربوط ہوتی چلی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69 Here the miracle of the birth of man from a mere sperm drop and the procreation of his offspring from man and woman have been cited as a proof of Tauhid. Though both man and woman belong to the same genus, they are two species, having important common human characteristics but different physical structures and psychological traits. It is a proof of Tauhid that the All-Powerful Allah has used this "difference" for making the two as complements and not antagonists. ' It is also the design of the All-Powerful Creator that He is creating sons and daughters in the world in due proportion Then the sons marry and create blood relationships, and the daughters are married and become means of forming new relaticnships. This process goes on widening to produce families, tribes and nations belonging to the same race and bound by the same civilization. The verse has also a subtle suggestion: The whole of life is being run on the principle of "differenc", for example, the difference between the night and the day, the summer and the winter, etc. Therefore, " O Muslims, you should patiently endure the differences you are having with your opponents for these are certain to produce good results."

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :69 یعنی بجائے خود یہی کرشمہ کیا کم تھا کہ وہ ایک حقیر پانی کی بوند سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق بنا کھڑی کرتا ہے ، مگر اس پر مزید کرشمہ یہ ہے کہ اس نے انسان کا بھی ایک نمونہ نہیں بلکہ دو الگ نمونے ( عورت اور مرد ) بنائے جو انسانیت میں یکساں مگر جسمانی و نفسانی خصوصیات میں نہایت مختلف ہیں ، اور اس اختلاف کی وجہ سے باہم مخالف و متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہیں ۔ پھر ان جوڑوں کو ملا کر وہ عجیب توازن کے ساتھ ( جس میں کسی دوسرے کی تدبیر کا ادنیٰ دخل بھی نہیں ہے ) دنیا میں مرد بھی پیدا کر رہا ہے اور عورتیں بھی ، جن سے ایک سلسلہ تعلقات بیٹوں اور پوتوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں سے بہوئیں لاتے ہیں ، اور ایک دوسرا سلسلہ تعلقات بیٹیوں اور نواسیوں کا چلتا ہے جو دوسرے گھروں کی بہوئیں بن کر جاتی ہیں ۔ اس طرح خاندان سے خاندان جڑ کر پورے پورے ملک ایک نسل اور ایک تمدن سے وابستہ ہو جاتے ہیں ۔ یہاں بھی ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ اس سارے کارخانہ حیات میں جو حکمت کام کر رہی ہے اس کا انداز کار ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں اختلاف ، اور پھر مختلفین کے جوڑ سے ہی سارے نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ لہٰذا جس اختلاف سے تم دو چار ہو اس پر گھبراؤ نہیں ۔ یہ بھی ایک نتیجہ خیز چیز ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٤:۔ اس آیت میں قدرت کی ایک اور نشانی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کا پتلا پانی جیسی پتلی چیز نطفہ سے بنایا ‘ صحیح بخاری اور مسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود کی حدیث ٣ ؎ کئی جگہ گزر چکی ہے کہ عورت کے رحم میں چالیس دن تک نطفہ رہ کر پھر اس کا جما ہوا خون اور پھر اس خون کا گوشت بن جاتا ہے اور اس گوشت سے بچہ کا پتلہ تیار ہوجاتا ہے ‘ پانی جیسی پتلی چیز نطفہ سے جس طرح اولاد آدم کا پتلہ تیار ہوتا ہے اس کا حال اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے پھر فرمایا ‘ اولاد آدم کے پیدا ہونے کے بعد بیاہ ہونے سے پہلے انسان کا نام باپ دادا سے چلتا ہے کہ یہ لڑکا زید کا بیٹا ‘ یا یہ لڑکی زید کی بیٹی ہے اور بیاہ ہوجانے کے بعد لڑکا دوسرے خاندان کا داماد بن جاتا ہے اور لڑکی دوسرے خاندان کی بہو بن جاتی ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ٤ ؎ کئی جگہ گزر چکی ہے کہ دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس کی تاثیر سے ہر ایک مردہ شخص کا جسم تیار ہوجاوے گا اور پھر ہر ایک جسم میں روح پھونکی جاکر حشر قائم ہوجاوے گا ‘ یہ حدیث وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا کی گویا تفسیر ہے ‘ جس کا حاصل یہ ہے کہ جس صاحب قدرت نے اولاد آدم کی پہلی پیدائش کے وقت پانی جیسی پتلی چیز سے مٹی کا کام لیا ‘ دوسری پیدائش کے وقت اس کو ایک مینہ کے پانی میں مٹی سے مٹی کا کام لینے کی تاثیر کا پیدا کردینا کچھ مشکل نہیں ہے کیونکہ ایک مینہ کی تاثیر سے کھیتی کی پیدائش کا کام جو ہر سال لیا جاتا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ (٣ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٠ ) (٤ ؎ مشکوٰۃ باب النفخ فی الصور۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:54) الماء سے عام پانی مراد ہوسکتا ہے جو کہ حضرت آدم (علیہ السلام) لا خمیر اٹھانے میں استعمال ہوا ۔ یا اس سے مراد مادہ منویہ ہے۔ بشرا۔ سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) بھی ہوسکتے ہیں اور اس صورت میں تنوین تعظیم کے لئے ہے۔ یا یہ جنس بشر کے لئے ہے یعنی آدم و اولاد آدم علیہ السلام۔ فجعلہ نسبا وصھرا : ای قسمۃ قسمین ذوی نسب : ای ذکورا۔ ینسب الیہم وذوات صھر۔ یعنی پھر اس بشر کو دو قسموں میں تقسیم کیا :۔ (1) ذوی نسب ۔ یعنی مرد کہ جن سے نسب چلتا ہے اور کہا جاتا ہے فلاں بن فلاں ۔ (2) ذوات صبر۔ (یعنی عورتیں کہ جن سے سسرالی رشتہ، دامادی رشتہ) ۔ مطلب یہ کہ ایک ناپاک، ناچیز قطرہ آب (نطفہ) سے مردوں اور عورتوں کو پیدا کرکے باہمی قرابتوں اور رشتہ داریوں کا ایک وسیع چال پھیلا دیا۔ جس میں تمام انسانی معاشرہ باہمی محبت و احترام کے جذبات کے ساتھ منسلک ہے۔ قدیرا۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے اور بوجہ خبر کان منصوب سے۔ قدیر اس کو کہتے ہیں کہ جو اپنی حکمت کے موافق جیسا چاہے کرے۔ یہ صفت سوائے خدا وتعالیٰ کے کسی میں نہیں ہے۔ اس نے قدیر سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں کہہ سکتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ جس سے اس کی معاشرتی زندگی بنتی ہے اور اس کی نسل بڑھتی اور برقرار رہتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : دو سمندروں کے مختلف پانیوں کے ذکر کے بعد اس پانی کا تذکرہ جس سے اشرف المخلوق انسان پیدا کیا گیا ہے۔ دو سمندروں کے مختلف پانی کے ذکر کے بعد جس پانی کے قطرہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اس کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ انسان بھی بنیادی طور پر پانی کے دو قسم کے قطروں سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک قطرہ مرد کے صلب سے اور دوسرا قطرہ عورت کی چھاتی سے نکلتا ہے دونوں قطرے الگ الگ اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جنھیں میڈیکل سائنس میں جرثومے کہا جاتا ہے۔ جرثوموں کا دست قدرت کے اشارے سے رحم مادر میں ملاپ ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ مختلف شکلیں اختیار کرتے ہوئے ایک بچہ کی صورت اختیار کرتا ہے پھر زندگی کے مختلف مراحل سے گزر کر باپ کا درجہ حاصل کرتا ہے اور اس کے بعد بنیادی طور پر اس کی نسل دو خاندانوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک طرف اپنی اولاد کا باپ اور پوتے پوتیوں کا دادا بنتا ہے اور دوسری طرف سسر کے رشتہ میں منسلک ہو کر نواسوں اور نوسیوں کا نانا بن جاتا ہے۔ اسی طرح یہی آدمی ایک کا بیٹا ہوتا ہے اور دوسرے کا داماد بنتا گویا پانی کی بوند سے اکیلا پیدا ہونے والا انسان کئی رشتوں سے منسلک ہوجاتا ہے۔ کئی انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان میں سے کسی ایک یا دونوں رشتہ سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ آپ کا رب اس بات پر قدرت رکھنے والا ہے یعنی وہ چاہے تو کسی کا نسب بڑھائے اور اسے باپ دادا اور سسرال کے رشتوں کے ساتھ منسلک کرے اور نہ چاہے تو اس کا نسب اسی پر ختم ہوجائے۔ (فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ ۔ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاءِبِ ۔ إِنَّہُ عَلَی رَجْعِہِ لَقَادِرٌ) [ الطارق : ٥۔ ٨] ” انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے۔ وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے۔ جو پیٹھ اور سینے کے درمیان میں سے نکلتا ہے۔ بیشک اللہ اسے دوبارہ لوٹانے پر قادر ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْکُمْ لَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجَنَّۃِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ کِتَابُہٗ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ النَّارِ وَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔ “ تفسیر بالقرآن انسان کی پیدائش اور اس کی زندگی کے مختلف مراحل : ١۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حضرت حوا کو آدم ( علیہ السلام) سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٣۔ اے انسان کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٤۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٥۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٦۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٧۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان بنایا۔ (الحج : ٥) ٨۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٩۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ١٠۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب سمندر اور نہروں کے پانیوں سے روئے سخن ماء حیات کی طرف۔ ذرا اس نطفے کا مطالعہ کرو جس سے انسان پیدا ہوتا ہے۔ وھو الذی ……قدیراً (٥٤) اس پانی ہی سے جنین پیدا ہوتے ہیں۔ اگر جنین مرد ہوں تو وہ نسب ہوں گے اور اگر مادہ ہوں تو سسرال ہوں گے۔ مادہ کو صر اس لئے کہا گیا کہ قرابت کی جگہ عورت ہوتی ہے (یعنی عورت کے ذریعہ قرابت داری پیدا ہوتی ہے) آسمان کے پانی سے جو مخلوقات پیدا ہوتی ہے اس کے مقابلے میں یہ انسانی مخلوق بہت ہی عجیب ہے۔ کیونکہ مرد کے پانی کے ایک قطرے کے اندر جو ہزار باخلیے ہوتے ہیں ان میں سے ایک کے ساتھ رحم مادر کے اندر پایا جانے والا چھوٹا سا انڈا متحد ہوجاتا ہے اور اس سے پھر یہ پیچیدہ مخلوق پیدا ہوتی ہے جس کا نام انسان ہے۔ جس قدر زندہ کائنات اور مخلوقات ہے ان میں سے یہ مخلوق عجیب ترین مخلوق ہے۔ یہ انڈے اور یہ خلیے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں لکین پھر عجیب طریقے سے یہ نر اور مادہ بن جاتے ہیں۔ اس کا راز بھی انسان ابھی تک معلوم نہیں کرسکا۔ نہ آج تک ہمارا علم اس کو پا سکا ہے کہ نر اور مادہ بننے کے اسباب کیا ہیں کیونکہ ہزار باخلیوں کے درمیان کسی ایسے خلیے کا مشاہدہ نہیں کیا جاسکا اور نہ اس میں ایسی خصوصیات دریافت کی جاسکی ہیں کہ وہ مرد ہوگا یا عورت ہوگی۔ اور نہ عورت کے انڈے کے اندر کوئی ایسی خصوصیات دریافت کی جاسکی ہیں کہ فلاں خصوصیات ہوں تو مرد ہوگا اور فلاں خصوصیات ہوں تو عورت پیدا ہوگی۔ وکان ربک قدیرا (٢٥ : ٥٣) ” اور تیرا رب بڑا ہی قدرت والا ہے۔ “ یہ ہے اللہ کی قدرت جس کے بعض پہلوئوں کا انکشاف دور جدید میں ہوچکا ہے جس سے مزید عجائبات آشکار ہوتے ہیں۔ اگر انسان اس پانی کے بارے میں تحقیقات کرتا چلا گیا جس سے انسان کی تخلیق ہوئی تو اس کا سر چکرا جائے گا۔ جب وہ دیکھے گا کہ اس پانی کے اندر پائے جانے والے یہ جرثومے جو نہایت درجہ چھوٹے اور باریک ہیں۔ یہ ہر جنس کی مکمل ترین خصوصیت اپنے اندر لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کے اندر والدین اور ان کے خاندان کے قریبی لوگوں کے خواص بھی پوری طرح موجود ہوتے ہیں اور یہ خصوصیات مذکر جنین اور مونث جنین کی طرف اس طرح خود بخود منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں جس طرح دست قدرت نے ان کے لئیمنصوبہ بندی کرلی ہوتی ہی۔ تخلیق اعتبارت بھی اپنے رجحان کے اعتبار سے بھی اور اپنی طرز زندگی کے اعتبار سے بھی۔ کتاب ” یہ انسان اکیلا نہیں کھڑا ہے “ کا تھوڑی دیر کے لئے مطالعہ کیجیے۔ مصنف ان نہایت ہی چھوٹے ذروں کے اندر پائے جانے والے موروثی جینز کے بارے میں لکھتے ہیں : ” ہر خلیہ خوادہ مذکر ہو یا مونث ، وہ کرو موزومز اور جینز پر مشتمل ہوتا ہے۔ کروموزوم عضوی مادے کا ابتدائی یونٹ ہوتا ہے اور یہ جینز کو منتقل کرنے کا کام کرتا ہے جبکہ جینز موروثی خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ کرو موزم ایک گٹھلی ہوت یہیں ، جس کے اندر تمام جینز موجود ہوتے ہیں ۔ جینز ہی وہ فیکٹر ہیں جو وجود میں آنے والے اس انسان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ سیٹو پلازم وہ عجیب کیمیاوی مرکب ہے جو ان دونوں پر چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ سیٹو پلازم پروٹو پلازم مادہ ہوتا ہے جو خلئے کی گٹھلی کے اوپر چڑھا ہوا ہوتا ہے۔ یہ جینز اس قدر باریک اور اس قدر جامع ہوتے ہیں کہ ان کے اندر تمام انسانوں کے انفردای خصائص نفسیاتی حالات ان کے رنگ اور ان کی جنس کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ اس قدر باریک ہوتی ہیں کہ اگر تمام دنیا کے انسانوں یک جینز کو ایک جگہ جمع کردیا جائے اور اسے ایک جگہ رکھ دیا جائے تو حجم میں ایک ” انگشانہ “ کے برابر ہوگا۔ “ ” مائیکرو سکوپ میں نظر آنے والے یہ نہایت ہی باریک جینز ہی دراصل تمام انسانوں ، حیوانوں اور نباتات کی کنجی ہیں اور ان کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انگشانہ جس کے اندر کئی بلین افراد کے جینز سماتے ہیں یقینا ایک مختصر جگہ ہے لیکن یہ طے شدہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ “ ایک جنین ، اپنے تغیر و تبدل کی مختلف صورتوں میں سے گزر کر جب نطفے سے کسی ایک جنس کی مشابہ شکل اختیار کرتا ہے تو اس کے اندر ایک طویل تاریخ کی کہانی پنہاں ہوتی ہے۔ یہ کہانی جینز ، سیٹو پلازم کے ذرات کے ملاحظہ سے قلم بند ہوچکی ہے۔ ” سائنس دانوں کے ہاں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جینز وہ چھوٹے سے چھوٹے ذرات ہیں جو مائیکرو سکوپ کے ذریعے دیکھے جاسکتے ہیں اور یہ تمام زندہ مخلوقات کے خلیوں کے اندر موجود ہوتے ہیں ، ان کے اندر اس مخلوق کی تصویر ، اس کا ڈھانچہ اور سب خصوصیات درج ہوتی ہیں۔ مثلاً کسی پودے کے خلئے کے اندر اس کی جڑیں ، اس کاتنا ، اس کے پتے ، اس کے تمام پھول ، اس کے تمام پھل سب کے سب موجود ہوتے ہیں۔ ہر حیوان کی شکل ، کھال ، بال اور پر سب شامل ہوتے ہیں اور اس میں انسان بھی شامل ہے۔ “ میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کے عجائبات کے بارے میں اسی قدر جاننا بھی کافی ہے کہ خالق کائنات نے کس قدر خصوصیت ودیعت فرماتی ہیں۔ وکان ربک قدیراً (٢٥ : ٥٣) ” اور تیرا رب بڑی قدرت والا ہے۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قدرت کاملہ کا ایک بہت بڑا مظاہرہ یہ ہے کہ اس نے نطفہ منی سے انسان کی تخلیق فرمائی، انسان میں شہوت رکھ دی اس شہوت کی وجہ سے بیاہ شادی کی ضرورت پیش آئی جب نکاح ہوتے ہیں تو میاں بیوی کا اختلاط ہوتا ہے اس سے اولاد ہوتی ہے اور اس طرح سے خاندان بڑھتا چلا جاتا ہے اور آپس میں سلسلہ نسب چلتا ہے، ہر پیدا ہونے والے کے دو خاندان ہوتے ہیں ایک باپ کی طرف کا خاندان دوسرا ماں کی طرف سے، پھر شادیاں ایک خاندان کی دوسرے خاندان میں ہوتی ہیں اور غیر خاندانوں میں بھی ہوتی ہیں یہ سسرالی رشتے بھی نعمت عظیمہ ہیں ان کے ذریعہ مختلف خاندانوں میں محبتیں پیدا ہوجاتی ہیں (وَکَانَ رَبُّکَ قَدِیْرًا) (اور تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے) اس نے جو کچھ پیدا فرمایا اپنی قدرت سے پیدا فرمایا اور اس کے علاوہ بھی جو چاہے گا پیدا فرمائے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ ” وھو الذی خلق الخ “ یہ دسویں عقلی دلیل ہے اللہ تعالیٰ نے کمال قدرت سے ایک قطرہ آب سے انسان کو پیدا فرمایا۔ پھر انسانوں کو دو قسم کے رشتوں سے آپس میں جوڑ دیا ایک نسبی رشتہ دوم مصاہرت کا رشتہ۔ یہ رشتے بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ جو اللہ تعالیٰ ایسا قادر اور منعم ہے برکات دہندہ بھی وہی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(54) وہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے جس نے بشر کو پانی یعنی نفطہ سے پیدا کیا اور اس کو نسب والا سسرال والا بنایا اور اے مخاطب تیرا پروردگار بڑی قدرت والا ہے یعنی پانی کے قطرے کو کیا سے کیا کردیا ددھیال اور ننہیال کے رشتے قائم کیے اور ن کا ح بیاہ سے داماد اور سسرال کے رشتے قائم کئے اس طرح خاندان اور نسلیں چلائیں اور یہ پروردگار کا بڑا احسان ہے خاندان اور نسلیں ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں اور آپس میں مل کر مضبوط ہوتے ہیں اس نعمت کا حق یہ ہے کہ بشر اسی وحدہ لا شریک کی عبادت کرے لیکن بشر نے اس نعمت کا جس طرح کفران کیا اس کا ذکر آگے فرمایا۔