Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 8

سورة الفرقان

اَوۡ یُلۡقٰۤی اِلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ تَکُوۡنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاۡکُلُ مِنۡہَا ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا ﴿۸﴾

Or [why is not] a treasure presented to him [from heaven], or does he [not] have a garden from which he eats?" And the wrongdoers say, "You follow not but a man affected by magic."

یا اس کے پاس کوئی خزانہ ہی ڈال دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس میں سے یہ کھاتا اور ان ظالموں نے کہا کہ تم ایسے آدمی کے پیچھے ہو لئے ہو جس پر جادو کر دیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنزٌ ... Or (why) has not a treasure been granted to him, meaning, treasure that he could spend on his needs and wants. ... أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ... or why has he not a garden whereof he may eat, meaning, a garden that would go with him wherever he went. All of this is easy for Allah, but He had a reason for not doing any of these things, and with Him is the perfect proof and argument. ... وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلاَّ رَجُلً مَّسْحُورًا And the wrongdoers say: "You follow none but a man bewitched." Allah said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81تاکہ طلب رزق سے بےنیاز ہو۔ 82تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہوجاتی۔ 83یعنی جس کی عقل و فہم سحر زدہ ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] یا اسے کم از کم فکر معاش سے تو آزاد ہونا چاہئے تھا۔ اگر کوئی رئیس اور خزانوں کا مالک ہوتا تو لوگ خود اس سے ملاقات کی آرزو کرتے پھر یہ جسے چاہتا اجازت دیتا ورنہ نہ دیتا اور ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہتا اور خزانوں کا مالک نہیں تو کم از کم کسی باغ کا ہی مالک ہوتا جس سے اس کی گزر بسر ہوتی رہتی۔ [ ١٣] جادو شدہ آدمی سے مراد دیوانہ آدمی ہے۔ عرب میں دیوانگی کی تین وجوہ سمجھی جاتی تھیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص پر کسی جن بھوت کا سایہ پڑگیا ہو۔ دوسرے یہ کہ کسی معبود، کسی بت، کسی دیوی دیوتا یا ان کے کسی بزرگ کی شان میں گستاخی کی گئی ہو اور اس کی مار پڑگئی ہو اور تیسرے یہ کہ کسی جادوگر نے اس پر جادو کردیا ہو۔ کفار مکہ آپ پر وقتاً فوقتاً ایسے تینوں طرح کے الزام دیتے تھے، اس مقام پر تیسری قسم کا ذکر ہوا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْهِ كَنْزٌ : یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا جس سے اس کی شان کم از کم قیصر و کسریٰ کی سی تو ہوتی۔ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا : یا خزانہ نہ سہی، کم از کم اس کا کوئی باغ ہوتا، تاکہ اس باغ سے اطمینان کی روزی حاصل کرتا اور روزی کمانے کے لیے بازاروں کے چکر لگانے سے بچ جاتا۔ کفار کے اس طرح کے مطالبات کی اس سے بھی لمبی فہرست سورة بنی اسرائیل (٩٠ تا ٩٣) میں بیان ہوئی ہے۔ وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا : یہی بات فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہی تھی۔ دیکھیے بنی اسرائیل (١٠١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْہِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ يَّاْكُلُ مِنْہَا۝ ٠ۭ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝ ٨ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ كنز الْكَنْزُ : جعل المال بعضه علی بعض وحفظه . وأصله من : كَنَزْتُ التّمرَ في الوعاء، وزمن الْكِنَازُ «2» : وقت ما يُكْنَزُ فيه التّمر، وناقة كِنَازٌ مُكْتَنِزَةُ اللّحم . وقوله تعالی: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة/ 34] أي : يدّخرونها، وقوله : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة/ 35] ، وقوله : لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود/ 12] أي : مال عظیم . ( ک ن ز ) الکنز ( ض ) کے معنی دولت جمع کر کے اس محفوظ رکھ دینے کے ہیں یہ اصل میں کنزت التمر فی الواعاء سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی کھجور کا بار دان میں بھر کر محفوظ کرلینے کے ہیں ۔ اور کھجوا اندوختہ کرنے کے موسم مو زمن الکناز کہا جاتا ہے ۔ اور ناقتہ کناز کے معنی گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ [ التوبة/ 34] اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں ۔ میں یکنزون سے مراد وہ لوگ ہیں جو سونا اور چاندی جمع کرنے مصروف رہتے ہیں ۔ اور اسے راہ خدا میں صرف نہیں کرتے ایسے لوگوں کو قیامت کے دن کہاجائے گا : فَذُوقُوا ما كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ [ التوبة/ 35] کہ جو کچھ جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو ۔ اور آیت لَوْلا أُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ [هود/ 12] میں کنز کے معنی خزانہ اور بڑی دولت کے ہیں جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلك قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨) یا اس کو کوئی خزانہ حاصل ہوتا جس سے اس کو تقویت رہتی یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس سے یہ بےفکری کے ساتھ کھایا کرتا اور یہ مشرکین یعنی ابوجہل، نضر، امیہ اور ان کے ساتھی یوں کہتے ہیں کہ تم لوگ ایک مسلوب العقل آدمی یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ پر چل رہے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (اَوْ یُلْقٰٓی اِلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَّاْکُلُ مِنْہَا ط) ” اور کچھ نہیں تو ان کے لیے زر و جواہر کا کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا ‘ یا پھر معجزانہ طور پر اس ” وادئ غیر ذی زرع “ میں پھلوں سے لدا ہوا ایک باغ ہی ان کے لیے وجود میں آجاتا اور یہ اس باغ کے پھل کھاتے ہوئے ہمیں نظر آتے۔ اس باغ سے یہ بافراغت روزی حاصل کرتے۔ یہ مشرکین مکہ کا وہی اعتراض ہے جس کا ذکر اس سے پہلے سورة بنی اسرائیل میں بھی آچکا ہے۔ (وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا ) ” کہ یہ جو کہتے ہیں کہ مجھ پر فرشتہ نازل ہوتا ہے ان کے اس دعوے میں کوئی سچائی نہیں۔ یہ سب جادو اور آسیب کا اثر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 That is, "If nothing else, Allah should at least have made extraordinary arrangements for his livelihood. But this man has no treasure and no gardens; yet he claims to be a Messenger of the Lord of the universe." 17 The disbelievers of Makkah made the false propaganda against the Holy Prophet that he had been bewitched by some jinn or by the sorcery of an enemy or by the curse of some god or goddess for his insolence. But it is strange that they also admitted that he was a clever man who could make use of extracts from the ancient writings for the sake of his "prophethood", could practise sorcery and was also a poet.

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :16 یہ گویا بدرجہ آخر ان کا مطالبہ تھا کہ اللہ میاں کم از کم اتنا تو کرتے کہ اپنے رسول کے لیے معاش کا کوئی اچھا انتظام کر دیتے ۔ یہ کیا ماجرا ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے بھی گیا گزرا ہو ۔ نہ خرچ کے لیے مال میسر ، نہ پھل کھانے کو کوئی باغ نصیب ، اور دعویٰ یہ کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں ۔ سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :17 یعنی دیوانہ ۔ اہل عرب کے نزدیک دیوانگی کے دو ہی وجوہ تھے ۔ یا تو کسی پر جن کا سایہ ہو گیا ہو ۔ یا کسی دشمن نے جادو کر کے پاگل بنا دیا ہو ۔ ایک تیسری وجہ ان کے نزدیک اور بھی تھی ، اور وہ یہ کہ کسی دیوی ، یا دیوتا کی شان میں آدمی کوئی گستاخی کر بیٹھا ہو اور اس کی مار پڑ گئی ہو ۔ کفار مکہ وقتاً فوقتاً یہ تینوں وجوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق بیان کرتے تھے ۔ کبھی کہتے اس شخص پر کسی جن کا تسلط ہو گیا ۔ کچھ کہتے کسی دشمن نے بیچارے پر جادو کر دیا ۔ اور کبھی کہتے کہ ہمارے دیوتاؤں میں سے کسی کی بے ادبی کرنے کا خمیازہ ہے جو غریب بھگت رہا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی اتنا ہوشیار بھی مانتے تھے کہ ایک دار الترجمہ اس شخص نے قائم کر رکھا ہے اور پرانی پرانی کتابوں کے اقتباسات نکلوا نکلوا کر یاد کرتا ہے ۔ مزید براں وہ آپ کو ساحر اور جادوگر بھی کہتے تھے ، گویا آپ ان کے نزدیک مسحور بھی تھے اور ساحر بھی ۔ اس پر ایک اور ردّا شاعر ہونے کی تہمت کا بھی تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:8) یلقی الیہ۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب القاء (افعال) مصدر ڈالا جائے اس کی طرف۔ اتارا جائے اس کی طرف او یلقی الیہ کنزیا کیوں نہ اس کی طرف (غیب سے) خزانہ ہی اتارا گیا۔ او تکون لہ جنۃ۔ یا اس کا ایک باغ ہی ہوتا۔ آیت 7:8 میں یلقی اور تکون اگرچہ فعل مضارع ہیں لیکن ان کا عطف انزل فعل ماضی پر ہے کیونکہ دونوں معطوف الیہ اور معطوف کے درمیان فیکون فعل مضارع داخل ہے۔ کفار کے نزدیک کسی رسول من اللہ کے لئے ضروری تھا کہ :۔ (1) وہ کوئی فرشتہ ہوتا جو انسان کی طرح کھانے پینے کا محتاج نہ ہوتا اور نہ ضروریات زندگی کے لئے اسے بازاروں میں گھومنے پھرنے کی ضرورت ہوتی۔ (2) اگر یہ نہیں تھا تو کم از کم ایک فرشتہ ہر وقت اس کی معیت میں رہتا اور لوگوں کو ڈراتا کہ اگر تم نے رسول کی پیروی نہ کی تو ابھی خدا کا عذاب بسا دیتا ہوں۔ (3) یہ نہیں تو اس کے لئے کوئی غیب سے خزانہ ہی اتار دیا جاتا تاکہ معاش کا خاطر خواہ انتظام ہوجاتا۔ (4) یا بدرجہ آخر اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس کا پھل وہ خود بھی کھاتا (اور دوسرون کو بھی کھلاتا) وہ کہتے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ خدا کا رسول ہمارے معمولی رئیسوں سے بھی گیا گذرا ہے نہ خرچ کے لئے مال میسر نہ پھل کھانے کو کوئی باغ نصیب۔ اور دعویٰ یہ کہ ہم اللہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں۔ الظلمون۔ ای الکفار۔ ان تتبعون میں ان بمعنی ما ہے تتبعون مضارع جمع مذکر حاضر۔ کفار کا خطاب تابعین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ جس سے اس کی شان کم از کم قیصر و کسریٰ کی سی تو ہوتی۔ 6 ۔ یعنی اطمینان کی روزی حاصل کرتا اور معاش کیلئے بازاروں کے چکر لگانے سے بچ جاتا۔ 7 ۔ یعنی مسلمانوں سے کہتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار کے مزید اعتراضات رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کفار یہ بھی ہرزاسرائی کرتے کہ یہ تو مالی اعتبار سے غریب آدمی ہے اگر واقعی یہ اللہ کا منتخب اور پسندیدہ نبی ہوتا تو اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہونا چاہیے تھی۔ نقدی ناسہی کم از کم اس کے پاس کوئی ایسا باغ ہوتا جس سے خود کھاتا اور اپنے بال بچوں کو کھلاتا۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غربت کا بہانہ بنا کر وہ لوگ آپ کی رسالت کا انکار کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس سوال کا جواب دینا اس لیے مناسب نہیں سمجھا کیونکہ دولت انسان کے شرف کا معیار نہیں ہے پھر کفار مسلمانوں کو یہ کہہ کر پھسلانے کی کوشش کرتے کہ یہ ایسا شخص ہے جس کو جادو ہوچکا ہے۔ جس بناء پر ایسی باتیں کرتا ہے جس کو عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ کفار کی ان باتوں کا قرآن مجید نے متعدد مقامات پر جواب دیا ہے اس لیے یہاں ان کا یہی جواب مناسب سمجھا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غور فرمائیں کہ یہ لوگ آپ سے کس قسم کی توقعات اور آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ایمان لانے کے لیے مخلص ہیں۔ بلکہ ان کا مقصد ہے کہ لوگوں کو آپ سے دور کردیں۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ خود گمراہ ہوچکے ہیں۔ اب ہدایت کی طرف آنے کی ان میں استعداد ختم ہوچکی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوم (اَوْ یُلْقَی اِِلَیْہِ کَنزٌ) (یا اس کی طرف کوئی خزانہ ڈال دیا جاتا) سوم (اَوْ تَکُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ یَاْکُلُ مِنْہَا) (یا اس کے لیے کوئی باغ ہوتا جس میں سے کھتا پیتا) انہوں نے جو یوں کہا تھا کہ رسول میں کوئی امتیازی شان ہوئی چاہئے اس امتیازی شان کو انہوں نے خود ہی تجویز کیا کہ ان کے ساتھ کوئی فرشتہ ہوتا جو کار رسالت میں ان کا شریک ہوتا یا ان کے پاس خزانہ ہوتا یا ان کا کوئی باغ ہوتا جب ان میں سے کوئی چیز نہیں تو ہم اور یہ برابر ہوئے پھر اس کے دعوائے رسالت کو کیسے مان لیں ان باتوں کے ساتھ انہوں نے ایک اور ظلم کردیا اور اہل ایمان سے یوں کہہ دیا کہ (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ الاَّ رَجُلاً مَّسْحُوْرًا) (تم تو ایک ایسے ہی آدمی کا اتباع کر رہے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے) کسی نے اس پر جادو کردیا ہے جس کی وجہ سے ایسی باتیں کرتا ہے جب قرآن جیسا کلام نہ لاسکے اور دلائل اور معجزات کے سامنے لا جواب ہوگئے تو آخر میں یہ بات نکالی کہ تم جسے رسول مان رہے ہو وہ مسحور ہے اس پر کسی نے جادو کردیا ہے جس کی وجہ سے ایسی باتیں کرتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” او یلقی الخ “ یہ مشرکین پر چھٹا شکوی ہے اگر یہ واقعی اللہ کا رسول ہوتا تو اس کے پاس آسمانوں سے دولت کا خزانہ نازل کیا جاتا تاکہ وہ کسب معاش کا محتاج نہ رہتا یا اس کا کوئی باغ ہی ہوتا جس پر وہ باعزشت طور سے گذر بسر کرتا۔ ” وقال الظلمون الخ “ یہ مذکورہ تینوں شکو وں سے متعلق ہے یعنی یہ معاندین اور، بےانصاف لوگ محض ازراہ عناد و مکابرہ کہتے ہیں کہ تم جس شخص کو پیغمبر مان کر اس کی پیروی کر رہے ہو وہ تو آسیب زدہ ہے اور (عیاذا باللہ) اس کی عقل ٹھکانے نہیں۔ ” انظر کیف ضربوا الخ “ یہ مشرکین پر زجر ہے۔ یہ ظالم محض ضد وعناد سے آپ کے لیے کیسی کیسی مثالیں بیان کرتے ہیں وہ ضد اور ہٹ کی وجہ سے راہ راست سے بہت دور ہوچکے ہیں اور ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے اس لیے اب انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوگی۔ آگے مذکورہ بالا تینوں شکو وں کے جوابات ذکر کیے گئے بطور لف و نشر غیر مرتب۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) یا فرشتہ نہ اترتا تو اس کی طرف کوئی خزانہ ہی ڈال دیا جاتایا اگر یہ بھی نہ ہوتا تو اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا کہ یہ اس باغ میں سے کھایا کرتا اور یہ ظالم اور حق نا شناس مسلمانوں سے یوں کہتے ہیں کہ تم لوگ بس ایک ایسے شخص کی پیروی کر رہے ہو اور ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جو سحر زدہ ہے اور جس پر جادو کیا گیا ہے یعنی اگر رسول کو فرشتہ نہیں بنایا اور کوئی فرشتہ بھی اس کے ساتھ نازل نہیں کیا تو اس کو اگر وہ رسول ہوتا تو معاش سے بےفکر کرنے کے لئے غیب سے اس کے پاس خزانہ ہی ڈال دیاجاتا۔ اچھا اگر خزانہ بھی نہیں ڈالا گیا تو پھر کوئی باغ ہی اس کے پاس ہوتا کہ اس کے پھل کھا کر گزر کرتا اور اس سے بڑھ کر آپ کو مسحور اور مسلوب العقل بھی کہتے ہیں اور اہل ایمان سے کہتے ہیں کہ تم ایک جادو زدہ آدمی کے کہنے پر چلتے ہو جس کے ہوش و حواس صحیح نہیں ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) لفظ اصیل پر فرماتے ہیں اول نماز کا وقت مقرر تھا صبح اور شام مسلمان حضرت (علیہ السلام) کے پاس جمع ہوتے جو نیا قرآن اترتا ہوتا لکھ لیتے یاد کرنے کو اس کو کافر یوں کہنے لگے 12 پھر حضرت شاہ صاحب (رح) رحیما پر فرماتے ہیں یعنی اپنی بخشش اور مہر سے اتارا 12