Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 0

سورة الشعراء

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.

شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة الشُّعَرَآء نام : آیت 224 وَالشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوٗنَ O سے ماخوذ ہے ۔ زمانۂ نزول : مضمون اور انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکہ کا دور متوسط ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے سورہ طٰہٰ نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد الشعراء ( روح المعانی جلد 19 صفحہ 64 ) ۔ اور سورہ طٰہٰ کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔ موضوع اور مباحث : تقریر کا پس منظر یہ ہے کہ کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ و تذکیر کا مقابلہ پیہم جحود و انکار سے کر رہے تھے اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشے چلے جاتے تھے ۔ کبھی کہتے کہ تم نے ہمیں کوئی نشانی تو دکھائی ہی نہیں ، پھر ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم نبی ہو ۔ کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے ۔ اور کبھی یہ کہہ کر آپ کے مشن کا استخفاف کرتے کہ ان کے پیرو یا تو چند نادان نوجوان ہیں ، یا پھر ہمارے معاشرے کے ادنی طبقات کے لوگ ، حالانکہ اگر اس تعلیم میں کوئی جان ہوتی تو اشراف قوم اور شیوخ اس کو قبول کرتے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو معقول دلائل کے ساتھ ان کے عقائد کی غلطی اور توحید و معاد کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتے کرتے تھکے جاتے تھے ، مگر وہ ہٹ دھرمی کی نت نئی صورتیں اختیار کرتے نہ تھکتے تھے ۔ یہی چیز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اور اس غم میں آپ کی جان گھلی جاتی تھی ۔ ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ تم ان کے پیچھے ہی جان کیوں گھلاتے ہو؟ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کوئی نشانی نہیں دیکھی ہے ، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم ہیں ، سمجھانے سے نہیں ماننا چاہتے ، کسی ایسی نشانی کے طالب ہیں جو زبردستی ان کی گردنیں جھکا دے ، اور وہ نشانی اپنے وقت پر جب آ جائے گی تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ جو بات انہیں سمجھائی جا رہی تھی وہ کیسی برحق تھی ۔ اس تمہید کے بعد دسویں رکوع تک جو مضمون مسلسل بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طالب حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں ۔ لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں ، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیاء کے معجزات دیکھ کر ۔ وہ تو ہمیشہ اس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں جب تک خدا کے عذاب نے آ کر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے ۔ اسی مناسبت سے تاریخ کی سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنہوں نے اسی ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا جس سے کفار مکہ کام لے رہے تھے ۔ اور اس تاریخی بیان کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں : ۔ اول یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں ۔ ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں ، جنہیں دیکھ کر ہر صاحب عقل آدمی تحقیق کر سکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں ۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو فرعون اور اسکی قوم نے دیکھیں ، قوم نوح نے دیکھیں ، عاد اور ثمود نے دیکھیں ، قوم لوط اور اصحاب الاَیکہ نے دیکھیں ۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانی دیکھا چاہتے ہیں ۔ دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے ۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح کی تھیں ۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے ۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے اور بہانے یکساں تھے ۔ اور آخر کار ان کا انجام بھی یکساں ہی رہا ۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیاء کی تعلیم ایک تھی ۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا ۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا ۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا ۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجود ہیں ۔ کفار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں ۔ تیسری بات جو بار بار دہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست ، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی ۔ تاریخ میں اس کے قہر کی مثالیں بھی موجود ہیں اور رحمت کی بھی ۔ اب یہ بات لوگوں کو خود ہی طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا ۔ آخری رکوع میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو ، تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں ۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمہاری اپنی زبان میں ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو ۔ ان کے ساتھیوں کو دیکھو ۔ کیا یہ کلام کسی شیطان یا جن کا کلام ہو سکتا ہے ؟ کیا اس کلام کا پیش کرنے والا تمہیں کاہن نظر آتا ہے ؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب تمہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے شاعر اور ان کے ہم مشرب ہوا کرتے ہیں ؟ ضدّم ضدّا کی بات دوسری ہے ، مگر اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں ۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے تو پھر یہ بھی جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کر رہو گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

سورۃ الشعراء تعارف حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت سورۃ واقعہ (سورہ نمبر ٥٦) کے بعد نازل ہوئی تھی۔ یہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکی زندگی کا وہ زمانہ تھا جس میں کفار مکہ آپ کی دعوت کی بڑے زور و شور سے مخالفت کرتے ہوئے آپ سے اپنی پسند کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس سورت کے ذریعے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی دی گئی ہے، اور کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلا کر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی یہ نشانیاں اس توحید کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اور اسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی ضمن میں پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لیے سنائے گئے ہیں کہ ان کی قوموں نے جو معجزات مانگے تھے، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے، لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے۔ اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جارہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے توحید و رسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کر کے ایمان لائیں، اور ہلاکت سے بچ جائیں۔ کفار مکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کاہن کہتے تھے، کبھی جادو گر اور کبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے۔ سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے، اور کاہنوں اور شاعروں کی خصوصیات بیان کر کے جتایا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نہیں پائی جاتی۔ اسی ضمن میں آیت ٢٢٤ تا ٢٢٧ نے شعراء کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھا گیا ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں صفحہ نمبر ١١٤١)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi