Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 196

سورة الشعراء

وَ اِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۱۹۶﴾

And indeed, it is [mentioned] in the scriptures of former peoples.

اگلے نبیوں کی کتابوں میں بھی اس قرآن کا تذکرہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an was mentioned in the Previous Scriptures Allah says: وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الاْإَوَّلِينَ And verily, it is in the Zubur of the former people. Allah says: this Qur'an was mentioned and referred to in the previous Scriptures that were left behind by their Prophets who foretold it in ancient times and more recently. Allah took a covenant from them that they would follow it, and the last of them stood and addressed his people with the good news of Ahmad: وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يبَنِى إِسْرَءِيلَ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَىَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِى مِن بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ And (remember) when `Isa, son of Maryam, said: "O Children of Israel! I am the Messenger of Allah unto you, confirming the Tawrah before me, and giving glad tidings of a Messenger to come after me, whose name shall be Ahmad. (61:6) Zubur here refers to Books; Zubur is the plural of Az-Zabur, which is also the name used to refer to the Book given to Dawud. Allah says: وَكُلُّ شَىْءٍ فَعَلُوهُ فِى الزُّبُرِ And everything they have done is noted in the Az-Zubur. (54:52), meaning, it is recorded against them in the books of the angels. Then Allah says: أَوَلَمْ يَكُن لَّهُمْ ايَةً أَن يَعْلَمَهُ عُلَمَاء بَنِي إِسْرَايِيلَ

بشارت وتصدیق یافتہ کتاب فرماتا ہے کہ اللہ کی اگلی کتابوں میں بھی اس پاک اور اللہ کی آخری کلام کی پیشن گوئی اور اسکی تصدیق وصفت موجود ہے ۔ اگلے نبیوں نے بھی اسکی بشارت دی یہاں تک کہ ان تمام نبیوں کے آخری نبی جن کے بعد حضور علیہ السلام تک اور کوئی نبی نہ تھا ۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو خطبہ دیتے ہیں اس میں فرماتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری جانب اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جو اگلی کتابوں کو سچانے کے ساتھ ہی آنے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تمہیں سناتا ہوں ۔ زبور حضرت داؤ دعلیہ السلام کی کتاب کا نام ہے یہاں زبر کا لفظ کتابوں کے معنی میں ہے جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ 52؀ ) 54- القمر:52 ) جو کچھ یہ کررہے ہیں سب کتابوں میں تحریر ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ سمجھیں اور ضد اور تعصب نہ کریں تو قرآن کی حقانیت پر یہی دلیل کیا کم ہے کہ خود بنی اسرائیل کے علماء اسے مانتے ہیں ۔ ان میں سے جو حق گو اور بےتعصب ہیں وہ توراۃ کی ان آیتوں کا لوگوں پر کھلے عام ذکر کر رہے ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قرآن کا ذکر اور آپ کی حقانیت کی خبر ہے ۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان جیسے حق گو حضرات نے دنیا کے سامنے توراۃ وانجیل کی وہ آیتیں رکھ دیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان والا شان کو ظاہر کرنے والی تھیں ۔ اس کے بعد کی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس فصیح وبلیغ جامع بالغ حق کلام کو ہم کسی عجمی پر نازل فرماتے پھر بھی کوئی شک ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ ہمارا کلام ہے ۔ مگر مشرکین قریش اپنے کفر اور اپنی سرکشی میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اس وقت بھی وہ ایمان نہ لاتے ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر آسمان کا دروازہ بھی ان کے لئے کھول دیا جاتا اور یہ خود چڑھ کر جاتے تب بھی یہی کہتے ہمیں نشہ پلادیا گیا ہے ۔ ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے ۔ اور آیت میں ہے اگر ان کے پاس فرشتے آجاتے اور مردے بول اٹھتے تب بھی انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان پر عذاب کا کلمہ ثابت ہوچکا ، عذاب ان کا مقدر ہوچکا اور ہدایت کی راہ مسدود کردی گئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1961یعنی جس طرح پیغمبر آخری زمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور و بعث کا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کا تذکرہ پچھلی کتابوں میں ہے، اسی طرح اس قرآن کے نزول کی خوشخبری بھی سابقہ آسمانی کتابوں میں دی گئی تھی۔ ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ یہ قرآن مجید، بہ اعتبار ان احکام کے، جن پر شریعتوں کا اتفاق رہا ہے، پچھلی کتابوں میں بھی موجود رہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٥] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آپ کے عرب قوم کی طرف مبعوث ہونے کی خبر سابقہ آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ ان کتابوں میں بہت سی تحریف و تبدل کے باوجود اب تک بھی اس قسم کی پیشین گوئیوں کا ایک ذخیرہ پایا جاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسی قرآن کے مضامین اجالاً یا تفصیلاً سابقہ آسمانی کتابوں میں پائے جاتے ہیں بالخصوص توحید، رسالت، ق اور تذکیر۔۔ اللہ اور آخرت سے متعلق دلائل اور تفصیل وغیرہ مضامین جن پر تمام کتب سماویہ اور انبیاء ومرسلین کا اتفاق رہا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ :” زُبُرِ “ ” زَبُوْرٌ“ کی جمع ہے، جس کا معنی کتاب ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوْهُ فِي الزُّبُرِ ) [ القمر : ٥٢ ] ” اور ہر چیز جسے انھوں نے کیا، وہ دفتروں میں درج ہے۔ “ اس آیت میں دو مفہوم شامل ہیں، ایک یہ کہ اس قرآن میں جو احکام و تعلیمات ہیں وہ پہلے انبیاء و رسل کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ سب کتابیں اللہ کی توحید، آخرت، اس کے رسولوں پر ایمان اور ان کی اطاعت کے حکم پر مشتمل ہیں اور سب میں شرک اور اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا یہ کتاب کوئی انوکھی یا پہلی کتابوں سے الگ تعلیمات پر مشتمل نہیں ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس قرآن کا تذکرہ پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے، کیونکہ ان میں واضح الفاظ میں اس قرآن کو لانے والے پیغمبر کی آمد کی بشارت دی گئی ہے، جیسا کہ فرمایا : ( الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَالْاِنْجِيْلِ ) [ الأعراف : ١٥٧ ] ” وہ جس کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ “ اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : (وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ ) [ الصف : ٦ ] ” اور میں ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہے۔ “ تورات و انجیل کے حوالوں کے لیے مذکورہ بالا آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنَّہٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ۝ ١٩٦ زبر الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا . وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] ، وقال : وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» . ( زب ر) الزبرۃ لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون/ 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء/ 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران/ 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر/ 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٦ (وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ ) ” اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس کا ذکر اور اس کے بارے میں پیشین گوئیاں سابقہ آسمانی کتب میں پائی جاتی ہیں اور یہ بھی کہ اس کے بنیادی مضامین پہلی کتب اور صحیفوں میں بھی موجود ہیں۔ ان صحیفوں اور تورات و انجیل کی بنیادی تعلیمات وہی تھیں جو قرآن کی تعلیمات ہیں۔ اگر کوئی فرق یا اختلاف تھا تو صرف مختلف شریعتوں کے جزئیاتی احکام میں تھا۔ اس لحاظ سے قرآن ان تمام صحائف و کتب کا مُتَمِّم یعنی تکمیلی ایڈیشن ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

122 That is, this very Admonition and Divine Message and teachings are contained in the former Scriptures also. The same message of submission to One God, the same belief in the Hereafter and the same invitation to follow the Prophets has been given in all those Books. AII the Books sent down by God condemn shirk and the materialistic philosophy of life and invite people to accept the true and sound philosophy of life, which is based on the concept of man's accountability before God, and demands that man should give up his independence in deference to Divine Commands brought and preached by the Prophets. None of these things is new, which the Qur'an may be presenting for the first time, and none can blame the Holy Prophet of saying something which had never been said before by the former Prophets. Among other arguments this verse also is quoted in support of Imam Abu Hanifah's early opinion that if a person recites the translation of the Qur'an in the prayer, his prayer will be in order and valid, whether he is able to recite the Qur'an in Arabic or not. According to `Allama Abu Bakr al-Jassas, the basis of this argument is: "Allah says that the Qur'an was contained in the former Scriptures also; obviously this could not be in Arabic words, As such, if translated and presented in another language, it will still be the Qur'an." (Ahkam-ul-Qur'an, Vol. III, p. 429). But the weakness of this argument is obvious. The Qur'an, or any other Divine Book, was never revealed in a manner that Allah inspired the Prophet with its meaning and then he presented it before the people in his own words. The fact is that every Book, in whatever language it came, was revealed in Divine words and meanings together. As such, the teachings of the Qur'an were contained in the former Scriptures in Divine words and not in human, and none of their translations could be considered as the Divine Book or its representation. As regards the Qur'an, it has been stated over and over again that it was literally revealed in the Arabic language: "We have sent it down as Qur'an in Arabic". (Yusuf: 2). "We have sent this Command in Arabic to you." (Ar-Ra'd: 37). "An Arabic Qur'an without any crookedness." (Az-Zumar: 28). Then just before this verse, it has been said that the trustworthy Spirit has brought it down in Arabic. Now how can it be said that the translation of the Qur'an made into another language will also be the Qur'an and its words will represent the words of Allah? It appears that later the Imam himself felt this weakness in the argument and, according to authentic traditions, gave up his earlier opinion, and adopted the opinion of Imams Abu Yusuf and Muhammad, who held that a person who could not recite Arabic words, could recite the translation of the Qur'an in his prayer till he was able to pronounce Arabic words. However, the prayer of a person, who was able to recite the Qur'an in Arabic, would not be valid if he recited its translation. The fact is that the two Imams had proposed, this concession only for those non-Arab converts who were not able to offer their prayer in Arabic immediately after embracing Islam. In this the basis of their argument was not that the translation of the Qur'an was the Qur'an itself, but that just as a person unable to perform Ruku' and Sajdah was allowed to offer his prayer by making signs, so a person unable to pronounce Arabic words could recite the translation. Then just as the prayer of a person who offered it by making signs could not be valid as soon as the cause of inability was removed, so the prayer of a person who recited the translation would not be valid as soon as he became able to pronounce Arabic words. (For a detailed discussion, see Al-Mabsut by Sarkhasi,Vol. I, p. 37; Fath ul-Qadir and Sharh Inaya 'alal-Hedaya, Vol. I. pp. 190-201).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :122 یعنی یہ ذکر اور یہی تنزیل اور یہی الہٰی تعلیم سابق کتب آسمانی میں بھی موجود ہے ۔ یہی خدائے واحد کی بندگی کا بلاوا ، یہی آخرت کی زندگی کا عقیدہ ، یہی انبیاء کی پیروی کا طریقہ ان سب میں بھی پیش کیا گیا ہے ، سب کتابیں جو خدا کی طرف سے آئی ہیں شرک کی مذمت ہی کرتی ہیں ، مادہ پرستانہ نظریہ حیات کو چھوڑ کر اسی بر حق نظریہ حیات کی طرف دعوت دیتی ہیں جس کی بنیاد خدا کے حضور انسان کی جواب دہی کے تصور پر ہے ، اور انسان سے یہی مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو کر ان الہٰی احکام کی پیروی اختیار کرے جو انبیاء علیہم السلام لائے ہیں ۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نرالی نہیں جو دنیا میں پہلی مرتبہ قرآن ہی پیش کر رہا ہو اور کوئی شخص یہ کہہ سکے تم وہ بات کر رہے ہو جو اگلوں پچھلوں میں سے کسی نے کبھی نہیں کی ۔ یہ آیت منجملہ ان دلائل کے ہے جو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی اس قدیم رائے کے حق میں پیش کیے جاتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ لے تو نماز ہو جاتی ہے ، خواہ وہ شخص عربی میں قرآن پڑھنے کی قدرت رکھتا ہو نہ رکھتا ہو ۔ بنائے استدلال علامہ ابو بکر جصاص کے الفاظ میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرما رہا ہے کہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی تھا ، اور ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں وہ عربی الفاظ کے ساتھ نہ تھا ۔ لہٰذا کسی دوسری زبان میں اس کے مضامین کو نقل کر دینا اسے قرآن ہونے سے خارج نہیں کر دیتا ( احکام القرآن ، جلد سوم ، صفحہ 429 ) ۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بالکل ظاہر ہے ۔ قرآن مجید ہو یا کوئی دوسری آسمانی کتاب ، کسی کے نزول کی کیفیت بھی یہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے صرف معانی نبی کے دل پر القا کر دیے ہوں اور نبی نے پھر انہیں اپنے الفاظ میں بیان کیا ہو ۔ بلکہ ہر کتاب جس زبان میں بھی آئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معنی اور لفظ دونوں کے ساتھ آئی ہے ۔ اس لیے قرآن کی تعلیم جن پچھلی کتابوں میں تھی ، انسانی الفاظ میں نہیں ، خدائی الفاظ ہی میں تھی ، اور ان میں سے کسی کے ترجمہ کو بھی کتاب اللہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اصل کا قائم مقام ٹھہرایا جا سکے ۔ رہا قرآن تو اس کے متعلق بار بار بصراحت فرمایا گیا ہے کہ وہ لفظاً لفظاً عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا ، ( یوسف ۔ آیت 2 ) وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ حُکْماً عَرَبِیًّا ، ( الرعد ۔ آیت 37 ) ۔ قُرْاٰناً عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ ، ( الزمر ۔ آیت 28 ) ۔ اور خود اسی آیت زیر بحث سے پہلے متصلاً فرمایا جا چکا ہے کہ روح الامین اسے زبان عربی میں لے کر اترا ہے ۔ اب اس کے متعلق یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا کوئی ترجمہ جو کسی انسان نے دوسری زبان میں کیا ہو وہ بھی قرآن ہی ہو گا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کے الفاظ کے قائم مقام ہوں گے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ استدلال کی اس کمزوری کو بعد میں خود امام ممدوح نے ہی محسوس فرما لیا تھا ، چنانچہ معتبر روایات سے یہ بات نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں اپنی رائے سے رجوع کر کے امام ابو یوسف اور امام محمد کی رائے قبول کر لی تھی ، یعنی یہ کہ جو شخص عربی زبان میں قرأت پر قادر نہ ہو وہ اس وقت تک نماز میں قرآن کا ترجمہ پڑھ سکتا ہے جب تک اس کی زبان عربی الفاظ کے تلفظ کے قابل نہ ہوجائے ، لیکن جو شخص عربی میں قرآن پڑھ سکتا ہو وہ اگر قرآن کا ترجمہ پڑھے گا تو اس کی نماز نہ ہو گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ صاحبین نے یہ رعایت دراصل ان عجمی نو مسلموں کے لیے تجویز کی تھی جو اسلام قبول کرتے ہی فوراً عربی زبان میں نماز ادا کرنے کے قابل نہ ہو سکتے تھے ۔ اور اس میں بنائے استدلال یہ نہ تھی کہ قرآن کا ترجمہ بھی قرآن ہے ، بلکہ ان کا استدلال یہ تھا کہ جس طرح اشارے سے رکوع و سجود کرنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو رکوع اور سجدہ کرنے سے عاجز ہو ، اسی طرح غیر عربی میں نماز پڑھنا اس شخص کے لیے جائز ہے جو عربی تلفظ پر قادر نہ ہو ۔ اور علیٰ ہٰذا القیاس جس طرح عجز رفع ہو جانے کے بعد اشارے سے رکوع و سجود کرنے والے کی نماز نہ ہو گی اسی طرح قرآن کے تلفظ پر قادر ہو جانے کے بعد ترجمہ پڑھنے والے کی نماز بھی نہ ہو گی ۔ ( اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو مبسوط سَرَخْسی ، جلد اول ، صفحہ 37 ۔ فتح القدیر و شرح عنایہ علی الہدایہ جلد 1 ، صفحہ 190 ۔ 201 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

43: یعنی تورات، زبور اور انجیل میں، نیز دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کے صحیفوں میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ آخری پیغمبر تشریف لانے والے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوگا۔ اگرچہ اب ان کتابوں میں بہت سی تحریفات ہوگئی ہیں، لیکن ان میں سے متعدد بشارتیں آج بھی ان کتابوں میں موجود ہیں۔ حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے اپنی کتاب ’’ اظہار الحق‘‘ کے آخری باب میں یہ بشارتیں تفصیل کے ساتھ نقل فرمائی ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ راقم الحروف کی شرح و تحقیق کے ساتھ ’’ بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:196) زبر : زبور کی جمع کتابیں۔ انہ سے مراد اس کا ذکر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ یعنی اپنے ان احکام وتعلیمات کے اعتبار سے جن پر تمام شریعتوں کا اتفاق ہے یا ” اس قرآن کی خبر لکھی ہے اگلی کتابوں میں اور اس کا مدعا بھی یہی ہے اکثر۔ (موضح) یہ بھی ممکن ہے کہ ” انہ “ میں ” ہ “ ضمیر سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہوں۔ یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف پہلی کتابوں میں موجود ہیں۔ جیسے فرمایا : ” یجدونہ مکتوبا عندھم فی النوراۃ والانجیل۔ “ کہ جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں توراۃ اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ (اعراف :157) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا : و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہٗ احمد۔ اور اپنے بعد ایک رسول کے آنے کی بشارت دیتا ہوں جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا۔ (دیکھئے سورة صف :6)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانہ لفی ……اسرآئیل (١٩٧) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف اور ذکر اور جو عقیدہ توحید اور نظریہ حیات آپ پیش فرماتے تھے۔ یہ دونوں امور کتاب سابقہ میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آخری رسالت کا انتظار علمائے بنی اسرائیل بڑی بےصبری سے کرتے تھے اور وہ ” اس رسول “ کا انتظار کرتے تھے۔ پھر ان میں سے اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ” اس رسول “ کا زمانہ آگیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس کے بارے میں بات کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت سلمان فارسی ، عبداللہ ابن سلام اور دوسرے علماء بنی اسرائیل کی زبانی یہ باتیں معلوم ہوگئی ہیں۔ یہ مشرکین مکہ تو محض ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے نہیں مانتے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ان کے سامنے دلائل پیش کرنے میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ اگر کوئی عجمی یہ قرآن لے کر آتا اور ان پر عربی زبان میں پڑھتا تو بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے ۔ نہ تصدیق کرتے اور نہ یہ تسلیم کرتے کہ یہ قرآن ان کی طرف اتارا گیا ہے۔ اس قدر معجزانہ دلیل کو بھی وہ مان کر نہ دیتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

68:۔ یہ دلیل نقلی از کتب سابقہ کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی یہ دعوی کوئی نیا نہیں بلکہ کتب سابقہ میں بھی مذکور ہے اور اگر ضمیر سے قرآن مراد ہو تو اس میں تاویل کرنی پڑے گی یعنی ذکر القرآن۔ یا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کے اغلب مضامین کتب سابقہ میں موجود ہیں ای وان ذکر القران لفی الکتب المتقدمۃ و قیل وان معناہ لفی الکتب المتقدمۃ وھو باعتبار الاغلب فان التوحید وسائر ما یتعلق بالذات والصفات و کثیر من المواعظ والقصص مسطور فی الکتب السابقۃ (روح 19 ص 125) ۔ چونکہ اس صورت میں تاویل کرنی پڑتی ہے اس لیے انسب یہی ہے کہ ضمیر منصوب سے دعویٰ ” تبارک “ مراد ہو جیسا کہ حضرت شیخ قدس سرہ کی رائے ہے۔ ” اولم یکن لھم ایۃ الخ “ یہ علماء بنی اسرائیل سے دلیل نقلی کی طرف اشارہ ہے۔ کیا ان کے لیے یہ دلیل کافی نہ تھی کہ اس دعوے کو علماء بنی اسرائیل بھی مانتے ہیں اور اس کی حقانیت کا اعتراف کرتے ہیں۔ علماء بنی اسرائیل سے وہ علماء مراد ہیں جو ایمان لا چکے تھے۔ علماء بنی اسرائیل عبداللہ بن سلام و نحوہ قالہ ابن عباس و مجاھد (بحر ج 7 ص 41) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(196) اور بلاشبہ اس قرآن کریم کا ذکر امم سابقہ کی کتابوں میں بھی بطور پیشن گوئی کے موجود ہے۔ یعنی پہلی امتوں کی کتابوں میں بھی اس قرآن کریم کے نزول کی پیشن گوئیاں موجود ہیں اور باوجود تحریف و تبدیل کے اب بھی ملتی ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس قرآن کریم کی خبر لکھی ہے ا گلی کتابوں میں اور اس کا مدعا بھی یہی ہے 12