Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 197

سورة الشعراء

اَوَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہُمۡ اٰیَۃً اَنۡ یَّعۡلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ﴿۱۹۷﴾ؕ

And has it not been a sign to them that it is recognized by the scholars of the Children of Israel?

کیا انہیں یہ نشانی کافی نہیں کہ حقانیت قرآن تو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Is it not a sign to them that the learned scholars of the Children of Israel knew it! meaning, is it not sufficient witness to the truth for them that the scholars of the Children of Israel found this Qur'an mentioned in the Scriptures which they study! The meaning is: the fair-minded among them admitted that the attributes of Muhammad and his mission and his Ummah were mentioned in their Books, as was stated by those among them who believed, such as Abdullah bin Salam, Salman Al-Farisi and others who met the Prophet. Allah said: الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِىَّ الاُمِّىَّ Those who follow the Messenger, the Prophet who can neither read nor write ... (7:157) The Intense Disbelief of Quraysh Then Allah tells us how intense the disbelief of Quraysh was, and how stubbornly they resisted the Qur'an. If this Book with all its eloquence had been revealed to a non-Arab who did not know one word of Arabic, they still would not have believed in him. Allah says: وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَى بَعْضِ الاَْعْجَمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1971کیونکہ ان کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور قرآن کا ذکر موجود ہے۔ یہ کفار مکہ، مذہبی معاملات میں یہود کی طرح رجوع کرتے تھے۔ اس اعتبار سے فرمایا کہ کیا ان کا یہ جاننا اور بتلانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اللہ کے سچے رسول اور یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ پھر یہود کی اس بات کو مانتے ہوئے پیغمبر پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٦] یعنی آپ کی رسالت کی صداقت کے لئے یہ ثبوت بھی کافی ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء یہ بات خوب جانتے ہیں کہ آپ وہی رسول ہیں اور یہ کتاب قرآن وہی آسمانی کتاب ہے جس کی سابقہ آسمانی کتابوں میں خبر دی گئی ہے۔ پھر ان میں سے بعض منصف مزاج عالموں نے اسی خبر کی بنا پر اسلام قبول کرلیا جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں نے کہا تھا اور بعض اپنی خصوصی مجلسوں میں اس بات کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن بعض مصلحتوں کی بنا پر اس کا اعلان و اقرار کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَكُنْ لَّهُمْ اٰيَةً ۔۔ : یعنی کیا مشرکین مکہ کے یہ جاننے کے لیے کہ قرآن واقعی اللہ کی طرف سے نازل شدہ اور پہلی کتابوں میں مذکور ہے اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی آخر الزماں ہیں، یہ بات کافی نہیں کہ بنی اسرائیل کے علماء اس سے واقف ہیں، جیسا کہ ان حضرات کی شہادت سے معلوم ہوا جو ان میں سے ایمان لائے، مثلاً عبداللہ بن سلام اور سلمان فارسی (رض) اور جیسا کہ ان میں سے بعض علانیہ اور بعض اپنی خصوصی مجلسوں میں اس کا ذکر کرتے ہیں، گو اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے ایمان نہیں لائے۔ اہل کتاب کی شہادت مشرکین مکہ کے ہاں اس لیے حجت قرار پاتی ہے کہ وہ پچھلی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے انھی کی طرف رجوع کرتے تھے اور جو بات وہ کہتے تھے اسے صحیح تسلیم کرتے تھے۔ نجاشی اور اس کے درباریوں نے جعفر (رض) سے سورة مریم کی آیات سن کر ان کے حق ہونے کا برملا اقرار کیا تھا۔ دیکھیے سورة مائدہ (٨٣) ، مزید دیکھیے قصص (٥٢، ٥٣) آیت میں لفظ ” اٰیَةً “ ” لَمْ یَکپنْ “ کی خبر ہے اور ” اَنْ یَّعْلَمَه۔۔ “ ب تاویل مصدر اس کا اسم مؤخر ہے۔ (قرطبی، شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَكُنْ لَّہُمْ اٰيَۃً اَنْ يَّعْلَمَہٗ عُلَمٰۗؤُا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ۝ ١ ٩٧ۭ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٧ (اَوَلَمْ یَکُنْ لَّہُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمٰٓؤُا بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ) ” علمائے بنی اسرائیل بخوبی جانتے تھے کہ قرآن اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اللہ کی طرف سے ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

123 That is, "The learned men of the Israelites know that the teachings of the Qur'an are the same as of the former Scriptures. Though the people of Makkah themselves are un-initiated in the knowledge of the Book, there are many scholars among the Israelites living in the surrounding areas, who fully understand that the Qur'an did not bring a novel "message", which was being presented by Muhammad bin `Abdullah for the first time, but it was the same message which had been brought and preached by Prophets of Allah one after the other since thousands of years. Is it not then a convincing proof of the fact that the Qur'an has been sent down by the same Lord of the universe, Who sent down the former Books ?" ' According to Ibn Hisham's Life of the Holy Prophet, a little before the revelation of these verses a deputation of 20 men, who had been influenced by the preaching of Hadrat Ja'far, came to Makkah from Habash. They met the Holy Prophet in Masjid al-Haram and asked him in the presence of the unbelieving Quraish what his teachings were. In response, the Holy Prophet recited a few verses of the Qur'an, whereupon tears came down from their eyes and they believed in him there and then to be a true Messenger of Allah. When they took leave of the Holy Prophet, Abu Jahl met them along with a few other men of the Quraish and rebuked them, saying, "Never has a more stupid company come here before: O foolish men, you were sent here by your people with a view to inquiring about this man, but no sooner did you meet him than you gave up your own faith!" "those gentle people did not like to have a dispute with Abu Jahl, so they left him, saying, "We have no wish to enter an argument with you: you are responsible for your faith and we are for ours: we adopted something in which we saw some good for ourselves." (Vol II, p. 32). This same incident has been mentioned in Surah Qasas, thus:"Those to whom We had given the Book before this, believe in the Qur'an and when it is recited to them, they say, 'We have believed in it: this is the very Truth from our Lord: we were even before this followers of Islam'. And when they heard vain and meaningless talk, they refrained from entering an argument, saying, `For us are our deeds and for you yours: peace be to you: we do not like the ways of the ignorant!"' (vv. 52-55).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :123 یعنی علمائے بنی اسرائیل اس بات سے واقف ہیں کہ جو تعلیم قرآن مجید میں دی گئی ہے وہ ٹھیک وہی تعلیم ہے جو سابق کتب آسمانی میں دی گئی تھی ۔ اہل مکہ خود علم کتاب سے نا آشنا سہی ، بنی اسرائیل کے اہل علم تو گرد و پیش کے علاقوں میں کثرت سے موجود ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا اور نرالا ذکر نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ محمد بن عبد اللہ نے لا کر تمہارے سامنے رکھ دیا ہو ، بلکہ ہزارہا برس سے خدا کے نبی یہی ذکر پے در پے لاتے رہے ہیں ۔ کیا یہ بات اس امر کا اطمینان کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ تنزیل بھی اسی رب العالمین کی طرف سے ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں ؟ سیرت ابن ہشام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے زمانہ نزول سے قریب ہی یہ واقعہ پیش آ چکا تھا کہ حبش سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی دعوت سن کر 20 آدمیوں کا ایک وفد مکہ آیا اور اس نے مسجد حرام میں کفار قریش کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر دریافت کیا کہ آپ کیا تعلیم لائے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ان کو قرآن کی کچھ آیات سنائیں ۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ اسی وقت آپ کے رسول برحق ہونے کی تصدیق کر کے آپ پر ایمان لے آئے ۔ پھر جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھے تو ابو جہل قریش کے چند لوگوں کے ساتھ ان سے ملا اور انہیں سخت ملامت کی ۔ اس نے کہا تم سے زیادہ احمق قافلہ یہاں کبھی نہیں آیا ۔ نامرادو ، تمہارے ہاں کے لوگوں نے تو تمہیں اس لیے بھیجا تھا کہ اس شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ ، مگر تم ابھی اس سے ملے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ بیٹھے ۔ وہ شریف لوگ ابو جہل کی اس زجر و توبیخ پر الجھنے کے بجائے سلام کر کے ہٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتے ، آپ اپنے دین کے مختار ہیں اور ہم اپنے دین کے مختار ہمیں جس چیز میں اپنی خیر نظر آئی اسے ہم نے اختیار کر لیا ( جلد دوم ۔ صفحہ 32 ) ۔ اسی واقعہ کا ذکر سورہ قصص میں آیا ہے کہ : اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہ ھُمْ بِہ یُؤْمِنُوْنَ ہ وَاِذَا یُتْلیٰ عَلَیْہِمْ قَالُؤآ اٰمَنَّا بِہٖ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَا اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ O .......... وَاِذَ سَمِعُوا الْلَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ ، لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ O ( آیات 52 ۔ 55 ) ۔ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انہیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے ................ اور جب انہوں نے بیہودہ باتیں سنیں تو الجھنے سے پرہیز کیا اور بولے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، تم کو سلام ہو ، ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے ( کہ چار باتیں تم ہمیں سناؤ تو ہم تمہیں سنائیں ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

44: بنو اسرائیل میں سے جو لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، وہ تو کھلم کھلا یہ بتاتے تھے کہ یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کی بشارت اور آپ کی علامتیں درج ہیں، لیکن بنی اسرائیل کے جو علماء ایمان نہیں لائے تھے، وہ بھی تنہائی میں کبھی کبھی اس حقیقت کا اعتراف کرلیتے تھے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:197) اولم یکن لہ ایۃ ان یعلمہ علمؤا بنی اسرائیل الف استفہامیہ انکاری کے لئے ہے واؤ کلام مقدرہ پر عطف کے لئے ہے جیسا کہ کہا ہو اغفلوا عن ذلک ولم یکن لہم ۔۔ الاٰیۃ لم یکن فعل ناقص لہم متعلق بالکون۔ ان یعلمہ علموا بنی اسرائیل (ای معرفۃ علماء بنی اسرائیل القرآن۔ علمائے بنی اسرائیل کا قرآن کے متعلق علم) اس کا اسم اور ایۃ اس کی خبر۔ سو مطلب یہ ہوا کہ :۔ کیا علماء بنی اسرائیل کا قرآن مجید کے متعلق علم جس کا ذکر ان کی کتابوں میں مذکور ہے ان کے لئے کافی دلیل نہیں۔ یعلمہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب القرآن کے لئے بھی ہوسکتی ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی کہ آپ کی نعمت وصفات بھی تورات وغیرہ میں موجود ہیں ۔ لہم کی ضمیر جمع مذکر غائب قریش مکہ کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی کیا مشرکین مکہ کے یہ جاننے کے لئے کہ قرآن واقعی برحق اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ اور پہلی کتابوں میں مذکور ہے اور یہ کہ محمد (ﷺ) نبی آخر الزمان ہیں، یہ بات کافی نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اس سے واقف ہیں۔ جیسا کہ ان حضرات کی شہادت سے معلوم ہوا جو ان میں سے ایمان لائے۔ مثلاً عبد اللہ بن سلام اور حضرت سلمان (رض) فارسی وغیرھما۔ اہل کتاب کی یہ شہادت مشرکین مکہ کے حق میں اس لئے حجت قرار پاتی ہے کہ وہ پچھلی کتابوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے انہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور جو بات وہ کہتے تھے اسے صحیح تسلیم کرتے تھے۔ آیت میں آیۃ خبر مقدم ہے اور ” ان یعلمہ الخ “ بتاویل مصررلم یکن کا اسم ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(197) کیا ان کفار مکہ کے لئے یہ بات کافی دلیل نہیں ہے کہ اس کی خبر اور پیشن گوئی کو بنی اسرائیل کے علماء اور اہل علم جانتے ہیں یعنی اہل کتاب یہودو نصاری کے علماء اس بات سے واقف ہیں کہ توریت و انجیل میں نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس قرآن شریف کے نزول کا ذکر موجود ہے اب آگے کافروں کے ایک شبہ کا جواب ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔