123 That is, "The learned men of the Israelites know that the teachings of the Qur'an are the same as of the former Scriptures. Though the people of Makkah themselves are un-initiated in the knowledge of the Book, there are many scholars among the Israelites living in the surrounding areas, who fully understand that the Qur'an did not bring a novel "message", which was being presented by Muhammad bin `Abdullah for the first time, but it was the same message which had been brought and preached by Prophets of Allah one after the other since thousands of years. Is it not then a convincing proof of the fact that the Qur'an has been sent down by the same Lord of the universe, Who sent down the former Books ?" '
According to Ibn Hisham's Life of the Holy Prophet, a little before the revelation of these verses a deputation of 20 men, who had been influenced by the preaching of Hadrat Ja'far, came to Makkah from Habash. They met the Holy Prophet in Masjid al-Haram and asked him in the presence of the unbelieving Quraish what his teachings were. In response, the Holy Prophet recited a few verses of the Qur'an, whereupon tears came down from their eyes and they believed in him there and then to be a true Messenger of Allah. When they took leave of the Holy Prophet, Abu Jahl met them along with a few other men of the Quraish and rebuked them, saying, "Never has a more stupid company come here before: O foolish men, you were sent here by your people with a view to inquiring about this man, but no sooner did you meet him than you gave up your own faith!" "those gentle people did not like to have a dispute with Abu Jahl, so they left him, saying, "We have no wish to enter an argument with you: you are responsible for your faith and we are for ours: we adopted something in which we saw some good for ourselves." (Vol II, p. 32). This same incident has been mentioned in Surah Qasas, thus:"Those to whom We had given the Book before this, believe in the Qur'an and when it is recited to them, they say, 'We have believed in it: this is the very Truth from our Lord: we were even before this followers of Islam'. And when they heard vain and meaningless talk, they refrained from entering an argument, saying, `For us are our deeds and for you yours: peace be to you: we do not like the ways of the ignorant!"' (vv. 52-55).
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :123
یعنی علمائے بنی اسرائیل اس بات سے واقف ہیں کہ جو تعلیم قرآن مجید میں دی گئی ہے وہ ٹھیک وہی تعلیم ہے جو سابق کتب آسمانی میں دی گئی تھی ۔ اہل مکہ خود علم کتاب سے نا آشنا سہی ، بنی اسرائیل کے اہل علم تو گرد و پیش کے علاقوں میں کثرت سے موجود ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا اور نرالا ذکر نہیں ہے جو آج پہلی مرتبہ محمد بن عبد اللہ نے لا کر تمہارے سامنے رکھ دیا ہو ، بلکہ ہزارہا برس سے خدا کے نبی یہی ذکر پے در پے لاتے رہے ہیں ۔ کیا یہ بات اس امر کا اطمینان کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ یہ تنزیل بھی اسی رب العالمین کی طرف سے ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں ؟
سیرت ابن ہشام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے زمانہ نزول سے قریب ہی یہ واقعہ پیش آ چکا تھا کہ حبش سے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی دعوت سن کر 20 آدمیوں کا ایک وفد مکہ آیا اور اس نے مسجد حرام میں کفار قریش کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر دریافت کیا کہ آپ کیا تعلیم لائے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ان کو قرآن کی کچھ آیات سنائیں ۔ اس پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ اسی وقت آپ کے رسول برحق ہونے کی تصدیق کر کے آپ پر ایمان لے آئے ۔ پھر جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھے تو ابو جہل قریش کے چند لوگوں کے ساتھ ان سے ملا اور انہیں سخت ملامت کی ۔ اس نے کہا تم سے زیادہ احمق قافلہ یہاں کبھی نہیں آیا ۔ نامرادو ، تمہارے ہاں کے لوگوں نے تو تمہیں اس لیے بھیجا تھا کہ اس شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ ، مگر تم ابھی اس سے ملے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ بیٹھے ۔ وہ شریف لوگ ابو جہل کی اس زجر و توبیخ پر الجھنے کے بجائے سلام کر کے ہٹ گئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتے ، آپ اپنے دین کے مختار ہیں اور ہم اپنے دین کے مختار ہمیں جس چیز میں اپنی خیر نظر آئی اسے ہم نے اختیار کر لیا ( جلد دوم ۔ صفحہ 32 ) ۔ اسی واقعہ کا ذکر سورہ قصص میں آیا ہے کہ : اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِہ ھُمْ بِہ یُؤْمِنُوْنَ ہ وَاِذَا یُتْلیٰ عَلَیْہِمْ قَالُؤآ اٰمَنَّا بِہٖ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَا اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ O .......... وَاِذَ سَمِعُوا الْلَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ، سَلَامٌ عَلَیْکُمْ ، لَا نَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ O ( آیات 52 ۔ 55 ) ۔ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انہیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے ................ اور جب انہوں نے بیہودہ باتیں سنیں تو الجھنے سے پرہیز کیا اور بولے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ، تم کو سلام ہو ، ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے ( کہ چار باتیں تم ہمیں سناؤ تو ہم تمہیں سنائیں ) ۔